Search

ڈاکٹر بنارس خان اعوان: (Aconite) ایکونائٹ

 

ایکونائٹ کا مطلب ہے ’’بغیر گرد کے‘‘ یہ پودا خشک چٹانوں میں پیدا ہوتا ہے جہاں مٹی بہت کم ہوتی ہے۔اس سے پودے کے سخت جان ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ یہ پہاڑی علاقوں کا پودا ہے ۔یہ عموماًندی نالوں کے کنارے پایا جاتا ہے۔ مئی، جون ،جولائی میں اس پر جامنی رنگ کے پھول لگتے ہیں ۔ پتے ہتھیلی نما ہوتے ہیں ۔اور پانچ کونے بنے ہوتے ہیں ۔اس کا تنا سیدھا اور دو سے تین فٹ اونچا ہوتا ہے۔ دنیا میں ACONITE NAPELLUS کے علاوہ اس کی مزید 14قسمیں پائی جاتی ہیں ۔جو سب کی سب زہریلی ہیں اگر اس پودے کے پتے وغیرہ غلطی سے کھا لئے جائیں تو گھنٹوں کے اندر موت واقع ہو جاتی ہے۔
اس کی جڑ، پھول اور پتے دوا بنانے کے کام آتے ہیں ۔دوا بنانے کے لئے اس پودے کو حاصل کرنے کا بہترین وقت جولائی اور اگست کے مہینے ہیں۔
ہانیمن نے اس دوا کی آزمائش کی ہے۔
تکالیف کا اچانک شروع ہونا، ٹھنڈی اور خشک ہوا لگ جانے سے تکالیف کا پیدا ہونا ،
اس دوا کی علامات طوفان کی طرح بڑی شدومد سے اچانک ظاہر ہوتی ہیں۔ اس دوا کے اثر کا وقفہ بہت کم ہے۔اگر غلطی سے اسے بڑی مقدار میں کھا لیا جائے تو اس کے شدید اثراتِ زہر سے یا تو انسان کی زندگی تباہ ہو جائے گی اور اگر مریض بچ بھی گیا تو اسے دوبارہ ٹھیک ہونے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگتی۔ یعنی اس کی علامات زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتیں۔
بیلاڈونا۔ کینتھرس، ہائیوسائمس اور لیکسس اس کی قریب کی دوائیں ہیں۔
ایکونائٹ حرکتی فالج پیدا نہیں کرتی ضروری نہیں کہ خوف و دہشت کا جھٹکا محسوس کرنے کے بعد کی شکایات میں بھی خوف ہی پایا جائے۔ کوئی بھی جسمانی عارضہ جو ماضی میں خوف و دہشت کے سبب پیدا ہو جائے اسے بھی ایکونائٹ دور کر دے گی۔ ذہن کے علاوہ بعض دفعہ جسم کو بھی شدید دھجکا لگ سکتا ہے۔ مثلاً سرد خشک ہوا سے پیدا ہونے والی شکایات یا سخت گرمی سے پیدا ہونے والی کیفیات۔
ایلو پیتھی میں بھی یہ دوا استعمال ہوتی ہے لیکن وہاں اس کے استعمال کے پس منظر میں کسی تھیوری کی بجائے عملی طور پر بغیر علامات کے۔ انہیں اس بات کا علم ہے کہ یہ دردوں کو دور کرتی ہے جبکہ ہومیوپیتھی میں علامات کی بنیاد پر استعمال کرنے کی وجہ سے جیسا کہا آپ نے دیکھا ہے یہ بیسیوں مختلف شکایات میں استعمال ہوتی ہے۔
ایکونائٹ کا مریض جسم پر کپڑ اوڑھنا پسند نہیں کرتا۔ نبض سخت بھری ہوئی اور تیز ہوتی ہے۔
کیمومیلا کی طرح اس میں بھی ایک گال سرخ اور دوسرا زردی مائل ہو سکتا ہے۔ کان سرخ ہو جاتے ہیں مختلف شکایات مثلاً انفلوئنزہ وغیرہ میں کان سرخ ہو جاتے ہیں اس کی علامات عموماً ٹھنڈ لگنے کے اسی روز آ جاتی ہیں اگر دو چار روز گزر جائیں تو پھر NUX VOMICA, RHUS TOX کے بارے میں سوچیں۔ علامات کے وقت کی خاص اہمیت ہے۔ اسباب اور نتائج کے درمیان کم سے کم مدت ایکونائٹ کا امتیازی نشان ہے۔
ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس دوا کا دوسری ادویات جو زہریلی خصوصیات رکھتی ہیں، ہومیوپیتھک استعمال کسی صورت مریض کے لئے مضر نہیں ہے۔ جبکہ ایلوپیتھک استعمال میں ڈاکٹر کی ذرہ سی غلطی یا کم علمی مریض کے کئے انتہائی مہلک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ایلوپیتھی میں دوائیں پوٹینسی میں نہیں دی جاتیں بلکہ خام حالت میں دی جاتی ہیں۔
مندرجہ ذیل بیماریوں میں ایکونائٹ کارآمد ثابت ہو سکتی ہے
مختلف قسم کے بخار، دمہ، چکن پاکس، ہیضہ، نزلہ زکام، کھانسی، خوف سے پیدا ہونے والی شکایات، سر درد، انفلوئنزا، خسرہ، یرقان، حیض کی تکالیف، فالج، نمونیہ، حمل، بے خوابی، دانتوں کی تکالیف، پیشاب کی تکالیف، جوڑوں کا درد وغیرہ۔
یہ SHORT ACTING دوا ہے، اکثر اوقات ایک یا دو دن گزرنے پر علامات میں تبدیلیاں کسی دوسری دوا کی طرف اشارہ کرتی ہے ایسے میں آرنیکا یا بیلاڈونا یا کوئی اَور دوا جس کی علامات مریض میں مل رہی ہوں اس کا مطالعہ کرنا چاہئے لیکن بعض اوقات یہ دوا مزمن امراض میں بھی جہاں علامات میسر ہوں سود مند ہے۔
ایکونائٹ کو بہت عرصہ سے حاد ریمیڈی کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے تاہم اب اس کا استعمال حاد میں ہی نہیں رہا بلکہ یہ مزمن کیسوں میں بھی استعمال ہو سکتی ہے ۔ پہلے ایسے ہوتا تھا کہ کسی کو صدمہ ہوا تو یا تو وہ مر جائے گایا بچ جائے گا ۔فوری معاملہ طہ ہو جاتا تھا ۔اب دیکھا گیا ہے کہ صدمے کا اثر ہمارے اعصابی نظام پر بہت دیر تک رہتا ہے۔ خصوصاً PUBIC CONDITION اور ANXIETY NEUROSIS میں۔ چونکہ تشویش کی یہ کیفیت کافی عرصہ تک قائم رہتی ہے لہٰذا ایکونائٹ کے استعمال کی نوبت رہتی ہے، مثلاً ایسا واقعہ رونما ہو جانا جہاں کوئی شخص سمجھتا ہے کہ بس اسکی جان نکلنے ہی والی تھی۔ موت اس کے بہت قریب تھی جیسے کسی کار ایکسیڈنٹ سے بال بال بچنا، کسی آبادی پر بم گرنے سے بچ جانے والے لوگ، زلزلہ، طوفانی آفات سے بچ جانے والے موت کو بہت قریب سے دیکھتے ہیں اور ان پر ڈر اور خوف کا شدید اثر ہوتا ہے لہٰذا کوئی ایسا کیس سامنے آئے تو سب سے پہلے جس دوا کی طرف دھیان جانا چاہئے وہ ایکونائٹ ہے۔
ایسے کسی واقعے کے گزر جانے کے بعد ان کو خوف اور تشویش کے اچانک دورے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔بعض لوگوں میں دل کی دھڑکن بھی تیز ہوجاتی ہے۔ اس وقت انہیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ انہیں موت آنے والی ہے۔ اس وقت یہ لوگ موت کی پیشن گوئی کرتے ہیں۔ دو اَور دوائیں جن میں موت کی پیشن گوئی کرتے ہیں وہ ہیں (ارجنٹم نائٹریکم، اگنس کاسٹس)
راجر موریسن کے بقول:
ایک بار ہم نے ایک مریضہ کو دیکھا اس پر خوف و دہشت کا شدید دورہ پڑا تھا۔ میں اس کی حالت دیکھ کر خود ہی خوفزدہ ہو گیا۔ وہ اٹک اٹک کر سانس لے رہی تھی، دل کی دھڑکن شدید تھی۔ مجھے یقین تھا کہ ابھی یہ میرے سامنے مر جائے گی۔ میں نے اس سے پوچھا کیا ہوا، کیا ہوا؟ وہ بول نہیں سکتی تھی۔ فوراً جارج وتھالکس کو اطلاع کی گئی۔ وہ اپنے کمرے سے دوڑا دوڑا آیا خاتون کو دیکھتے ہی اس نے کہا فوراً ایکونائٹ 50M لاؤ۔ ایکونائٹ کا ایک قطرہ اس کی زبان پر ٹپکایا گیا اور ٹھیک ایک منٹ بعد وہ نارمل حالت میں آ گئی۔پتہ چلا خاتون کو کئی بار ایسے دورے پڑ چکے ہیں اور یہ حالت اس کی مزمن سٹیج تھی۔ اس دوا نے بطور مزاجی دوا کے بھی کام کیا۔ آرسینکم میں بھی یہ کیفیت ہو سکتی ہے لیکن اس میں بے آرامی شدید ہوتی ہے جبکہ ایکونائٹ میں ایسی شدید نہیں ہوتی۔ ایکونائٹ کے دورے کے دو خاص وقت ہیں۔
میں جب مریضہ نیند کی کیفیت میں جا رہی ہو یعنی TRANSITION PERIOD
ایسی کوئی بھی شکایات جو وقفے وقفے سے بار بار آتی ہوں ایکونائٹ ان کی دوا نہیں ہے۔
ڈاکٹر اے۔ ٹیسٹے A.TASTAY کے مطابق:
یہ دوا بطور انٹرمیڈیٹ دوا اچھا کام کرتی ہے اور بہت سارے حاد اور مزمن امراض میں دوسری دواؤں کے لئے راستہ ہموار کرتی ہے۔
اچانک سردی لگ جانے پر سر درد ہو جائے یا حیض رک جائے تو اس کا استعمال مفید ہے اور اس کے استعمال سے حیض جاری ہو جاتے ہیں۔
خسرہ کی بیماری میں اسے پلساٹیلا کے ساتھ ادل بدل کر دینا بہتر ہے۔
ایسے بچے جو ہر وقت روتے رہتے ہوں، بے چین ہوں، رات کو نیند کے دوران دانت پیستے ہوں، جن کی سانس تیز چلتی ہو، جو خواب میں ڈر جاتے ہوں ان کی خاص دوا ہے۔
STRUCTURE
ایکونائٹ کے شکار افراد عام طور پر بھرے جسم کے، موٹے تازے اور سرخ چہروں والے ہوتے ہیں جن میں خون کی فراوانی ہوتی ہے۔ پتلے کمزور شخص عام طور پر اس کی زد میں نہیں آتے۔ اس کے مریض کے سیاہ بال، خوش مزاج یا جلد نروس ہو جانے والے اور خوبصورت جلد والے ہوتے ہیں۔
MIND
غصہ، خوف یا بے عزتی کے بد اثرات میں اس دوا کو یاد رکھنا چاہئے۔
شدید گھبراہٹ، موت کا خوف اور بے چینی یہ تینوں علامات ایکونائٹ کی خاص و خاص علامات ہیں۔ یہ تینوں علامات جہاں بھی اکٹھی ملیں ایکونائٹ کو نہیں بھولنا چاہئے چاہے بخار ہو، دمہ کی کیفیت ہو، دل کی تکلیف ہو، وضع حمل کا وقت ہو یا کوئی اَور پریشانی ہو۔
خوف کی وجہ سے اخراجات کا دب چکے ہوں، خوف کی وجہ سے شکایات پیدا ہو گئی ہوں بہت زیادہ پریشانی ہو وہاں پر ایکونائٹ کو نہیں بھولنا چاہئے۔
CLAUSTROPHOBIA میں ایکونائٹ ظاہر ہو سکتی ہے۔ مثلاً ایک شخص باتھ روم میں یا لفٹ میں کئی گھنٹے پھنسا رہے ۔
CROWD یہ لوگ ہجوم میں پھنس جانا برداشت نہیں کر سکتے۔ ایک کمرہ جو آدمیوں سے بھرا پڑا ہو یہ ان کے لئے ہجوم ثابت ہو سکتا ہے۔
ANORAPHOBIA ایکونائٹ اگر HIGH WAY پر ڈرائیونگ کر رہا ہے چاروں طرف کھلا میدان ہے آبادی اور سڑک پر ٹریفک نہیں ہے تو بھی اس میں خوف و دہشت کی علامات پیدا ہوسکتی ہیں۔
ایسا خوف جس کی وجہ مریض کی نیند اڑ جائے اچھا کام کرتی ہے۔
خواتین اپنی عادات کی وجہ سے اس دوا کی زد میں آتی ہیں کیونکہ یہ اپنی حساس، ہمدردانہ طبع کی وجہ سے فوری SHOCK، خوف اور صدمہ کا اثر قبول کر لیتی ہیں جن کا بالعموم مرد حضرات متاثر نہیں ہوتے۔
یہ ایسے خوف اور حالات سے بھی اثر انداز ہو جاتی ہے جس سے بالعموم مرد حضرات متاثر نہیں ہوتے
موت کا خوف ایسی خاص علامت ہے کہ انفلوئنزہ میں بھی مریض سمجھتا ہے میں مر جاؤں گا۔
دورانِ زچگی حاملہ کو موت کا خوف، خاص طور پر ایسا خوف جس سے حمل
گرنے کا خطرہ پیدا ہو جائے ایکونائٹ یا اوپیم ایسے خطرے کو روک دیتی ہیں۔
اگر کوئی خاتون دورانِ زچگی ڈاکٹر کو کہے کہ اب کوئی فائدہ نہیں میں مرنے لگی ہوں تو اسی ایک علامت پر ایکونائٹ دی جاسکتی ہے۔ ایکونائٹ کی ایک ہی خوراک مریضہ کے دل سے موت کے خوف کو نکال دے گی۔
ٓٓ ایک بات جو قابلِ غور ہے کہ ایکونائٹ کو ذہنی علامات پر خصوصاً اونچی پوٹنسی 10M, 50M, CM وغیرہ میں استعمال کریں۔
سر HEAD:
اس کا سر درد شدید سردی یا شدید گرمی سے بھی ہو سکتا ہے۔
آنکھیں EYES:
آپ اکونائٹ کو آنکھوں کے مرض میں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ آپریشن کے بعد ہونے والی آنکھوں کی سوزش کی بہترین دوا ہے، یا ایسی سوزش جو آنکھ میں کسی بیرونی شے پڑ جانے سے پیدا ہوتی ہے۔ ایکو نائٹ کی ناکامی کی صورت میں سلفر دیں۔
دانت:TEETH
دانت درد کی PALLIATION کے لئے اس کا ایک قطرہ کاٹن وول پر ڈال کر دانت کے اندر رکھیں تو فوری آرام دیتا ہے۔ اگر کسی COMPLAINTکے REPEATED ATTACKS ہیں تو اس میں ایکونائٹ کام نہیں آئے گی۔
نوٹ:
ایکونائٹ ایک ہی بار یعنی پہلی دفعہ کے حملے کو تو روک لیتی ہے لیکن اسی طرح کا حملہ اگر دوبارہ ہو تو پھر اس میں صلاحیت نہیں ہے بلکہ پھر اس کام کے لئے سلفر مددگار ہو گی ۔
زبان:TOUNGE
زبان کا ذائقہ بالکل ختم ہو جاتا ہے ۔
دل:HEART
ڈاکٹر بورلینڈ کے مطابق‘‘
دل کے پہلے دورے میں ایکونائٹ ہائی پوٹینسی میں اچھا کام کرتی ہے لیکن اگر یہ دورہ دوسری مرتبہ ہو تو یہ مدد نہیں کرتی۔
جلد:SKIN
اس دوا میں جِلد گرم اور خشک ہوتی ہے۔
بخار:FEVER
ایکونائٹ سادہ بخاروں کی دوا ہے جو یک دم سرد خشک ہوا لگنے سے پیدا ہو جائیں یا گرمی سے یکدم سردی میں جانے سے پیدا ہو جائیں یا جسم گرم ہو پسینہ آیا ہوا ہو اور یکدم ٹھنڈی ہوا لگ جائے اور جب عام سادہ بخار ایکونائٹ کے قابو میں نہ آ رہا ہو تو بہترین دوا سلفر ہے۔
اس کے بخار کے ہمراہ ہمیشہ پریشانی پائی جاتی ہے۔ جب تک پریشانی، بے چینی، اور موت کا خوف نہ ہو ایکونائٹ دوا نہ ہو گی۔
ایکونائٹ خون کی حالت میں تبدیلی نہیں لاتی لہٰذا کوئی ایسا بخار جس میں خون زہریلا ہو جائے ایکونائٹ دوا نہ ہو گی، اس کا بخار مسلسل ہوتا ہے باری کا نہیں ہوتا ہے، بخار کو پسینہ آنے سے آرام آ جاتا ہے۔
ایک غلطی یہ بھی ہوتی ہے کہ آپ ٹائیفائیڈ کے بخار میں ایکونائٹ دیتے ہیں تاکہ ایکونائٹ دے کر پہلے ٹمپریچر کو کم کیا جائے اور نبض کی سختی دور کی جائے۔ ایکونائٹ کا ٹائیفائیڈ کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے، ایکونائٹ دینے کا مطلب ہے کہ آپ کم سے کم علامات پر دوائی دے رہے ہیں۔
INTERMITTENT FEVER
کے ساتھ ایکونائٹ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
بخار میں ایکونائٹ کا بیلاڈونا سے یوں تعلق بنتا ہے کہ شروع میں اگر ایکونائٹ کا بخار ہے تو بعد میں یہ بخار اگر دماغ کو الجھا دے تو بیلاڈونا ،INDICATE ہو سکتی ہے۔ اسی طرح بیلاڈونا، ایکونائٹ کی بہترین FOLLOWER ہے۔ لیکن یاد رکھیں بیلاڈونا کے لئے دماغی علامات کی موجودگی بہت ضروری ہے۔ جیسے نیند میں چونکنا، دھڑکن دار سر درد۔
ایکونائٹ اور فیرم فاس کے بخار میں فرق کرنے کی اہم علامت نبض ہے، ایکونائٹ میں نبض سخت اور تنی ہوئی ہوتی ہے جبکہ فیرم فاس بھرپور اور نرم ہوتی ہے ۔
نمونیا، برونکائٹس اور PLEURISY کے ابتدائی سٹیج میں اچھا کام کرتی ہے۔ نمونیا میں ایکونائٹ کی ہسٹری اس طرح کی ہے کہ ایک مریض جو دن میں ٹھنڈی ہواؤں کی زد میں رہا اور اسی شام اچانک اسے ایسے بخار نے آ لیا جس میں ہیجان، خوف، بے آرامی اور شدید اضطراب تھا۔ مریض کی نبض خوب تیز، جلد گرم اور خشک، منہ خشک اور ٹھنڈے پانی کی شدید پیاس پائی جاتی ہے۔ اس موقع پر ایکونائٹ کی خاص نشانی یہ ہے کہ اس کی آنکھ کی پتلیاں سکڑ جاتی ہیں اور باوجود اس کے کہ اس کی جلد گرم ہوتی ہے مریض ہاتھ پاؤں میں سردی لگنے کی شکایت کرتا ہے۔ اسی بخار میں اسے کھانسی شروع ہو جاتی ہے جس میں حلق مین شدید خشکی پائی جاتی ہے۔ کھانستے وقت بائیں چھاتی میں ایسا درد ہوتا ہے جیسے کسی نے چاقو مار دیا ہو۔
پوٹینسی کے حوالے سے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اگر یہاں 30سے کم پوٹنسی استعمال کریں گے جو ممکن ہے کہ آپ اس کے بخار یا دردوں میں کمی پیدا کر دیں لیکن آپ اس کی بیماری کو ختم نہیں کر سکیں گے
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بخار نمونیے کا نہیں ہے تو ممکن ہے ایکونائٹ LOW پوٹنسی میں کام کرے لیکن اگر یہ بخار نمونیے کی طرف جا رہا تو 30سے کم پوٹنسی کوئی فائدہ نہیں کرے گی۔
ڈاکٹر کیورے (DOCTOR CURIE)کے مطابق:
اس کا متواتر استعمال درست نہیں بلکہ بخار کے اترے ہوئے سٹیج میں اس کا استعمال روک دینا چاہیے۔
STOOL AND RECTUM
اس کے پاخانے کی شکایت میں خاص بات یہ ہے کہ اس کا پاخانہ بار بار اور تھوڑا تھوڑا ہوتا ہے اور پاخانے میں خالص لال سرخ خون ہوتا ہے۔
FEMALE G ORGANS
بچے کی پیدائش کے بعد زچہ یا بچہ کا پیشاب بند ہو جائے تو یہ ایکونائٹ کی KEY NOTE علامت ہے۔ دوران زچگی حاملہ کو موت کا خوف علامت بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔
MODALITIES
کمی :DECREASE

سیدھا لیٹنا اس کے لئے قدرے آرام دہ ہوتا ہے۔
زیادتی:INCREASE
اس کا مریض بائیں جانب لیٹنے میں تکلیف محسوس کرتا ہے۔

0 0 votes
Article Rating
kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Hussain Kaisrani

Hussain Kaisrani (aka Ahmad Hussain) is a distinguished Psychotherapist & Chief Consultant at Homeopathic Consultancy, Lahore, Learn More

Recent Posts

Weekly Tutorial

Sign up for our Newsletter