Search

صحت کی بات، ڈاکٹر ریکوگ کے ساتھ – ریڈیو گفتگو

 

سب سے پہلے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ ڈاکٹر Reckweg & Co کا ہومیوپیتھی کی دنیا میں ایک بڑا نام ہے۔

۱۔ ہومیوپیتھی کے بارے میں مختصراً عرض کروں کہ یہ طریقہِ علاج کرہٗ ارض پر بنی نوعِ انسان کے لیے قدرت کا عظیم تحفہ ہے۔ اور خاص طور پر ہم جیسے غریب ممالک کے لیے جہاں، اللہ معاف کرے ڈایئلاسسز یا ہیپاٹائٹس کے مریض کو علاج کراتے کراتے اس کی جمع پونجی، مکان، زیور، جائیداد تک داؤ پر لگ جاتے ہیں، وہاں ہومیوپیتھی انتہائی سستا اور دیرپا علاج ثابت ہوتا ہے۔ دوسرا علاج کتنا مہنگا ہے؟ میں آپ کو U.K کی مثال دیتا ہوں۔ وہاں پر حکومت کو صرف گردوں کے مریضوں پر 1.4 ارب پاؤنڈز سالانہ خرچ کرنا پڑتے ہیں اور یہ رقم مجموعی طور پر، بریسٹ کینسر، کولون کینسر اور سکن کینسر پر اٹھنے والے اخراجات سے بھی زیادہ ہے۔ اور اس کے باوجود کہ وہاں پر ایک ملین لوگ یہ جان ہی نہیں پاتے کہ وہ گردوں کے عارضہ میں مبتلا ہیں۔

ہومیوپیتھی کی ابتدا کیسے ہوئی؟
میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ ہومیوپیتھک نظریہ کی ابتدا مشہور یونانی فلسفی Hippocrates نے کی اور یہ وہی عظیم فلسفی ہے جس نے دنیا کو ایلوپیتھک نظریہ طب سے آگاہ کیا۔ اور یہ کوئی تین سو سال قبل مسیح کی بات ہے۔ ہومیوپیتھی نظریہ یعنی علاج بالمثل اور ایلوپیتھی نظریہ یعنی علاج بالضد۔ ان دونوں نظریات کا بانی ایک ہی تھا۔ تاہم آج سے کوئی ڈھائی سو سال پہلے ایک جرمن ڈاکٹر اور فلسفی نے اسے عملی طور پر شکل دی۔ اور یوں ہومیوپیتھی کے نام سے یہ طریقہِ علاج عوام میں مقبول ہوا۔
ہومیوپیتھی نظریہ علاج کے مطابق جو شے خام حالت میں جسمِ انسانی پر بیماری کے اثرات مرتب کرتی ہے۔ اگر اسی دوا کو لطیف حالت میں مریض کو دیا جائے تو شفایابی عطا کرتی ہے۔ اسے علاجِ بالمثل کا نام دیا گیا۔
اور یہ واحد طریقہِ علاج ہے جو بیک وقت مریض کو ذہنی، جذباتی اور جسمانی سطح پر شفایابی کا دعویٰ کرتا ہے۔ پاکستان میں 1965 میں اسے حکومتی سطح پر قبول کیا گیا۔ اور عوام میں آئے دن اس کی مقبولیت اور پزیرائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اور اس کی ایک بڑی وجہ لوگ دوسری دوائیں کھا کھا کر تنگ آ چکے ہیں۔ اور خاص طور پر وہ دوائیں صحت پر سائیڈ ایفکٹس مرتب کرتی ہیں تو مریض پریشان ہو جاتا ہے۔
ہومیوپیتھی کو قدرتی طریقہ علاج کہا جاتا ہے۔ وہ اس لیے کہ یہ قدرت کے بنائے ہوئے اٹل اصولوں پر قائم ہے۔ اور دوسری اہم بات یہ کہ اس میں دواؤں کے سائیڈ ایفکٹس نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے اسے دوسرے تمام طریقہِ علاج پر فوقیت حاصل ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ دنیا اس وقت دواؤں کے سائیڈ ایفکٹس سے کتنی پریشان ہے۔ شائد آپ کے علم میں ہو کہ اس وقت ایلوپیتھک دواؤں کے سائیڈ ایفکٹس سے ہونے والی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔
ہومیوپیتھی میں سائیڈ ایفکٹس نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں ہر مریض کا انفرادی سطح پر علاج کیا جاتا ہے۔ یعنی اس میں ایسا نہیں کہ ایک پیناڈول ہر کسی کے سر درد میں مفید ہو، ہمارے ہاں ہر مریض سے تفصیل لے کر اس کی خصوصی دوا کا انتخاب کیا جاتا ہے اور یہ بڑا محنت طلب کام ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے آپ درزی سے کپڑے سلواتے ہیں۔ درزی آپ کے جسم کا ناپ لیتا ہے اور یوں وہ کپڑے آپ کے جسم پر فِٹ بیٹھتے ہیں لیکن جب آپ ریڈی میڈ گارمنٹس خریدتے ہیں تو ان کا آپ کے جسم پر فِٹ بیٹھنا ضروری نہیں۔
اور دوسری بات یہ کہ ہومیوپیتھک دوا خام حالت میں نہیں ہوتی بلکہ ایک خاص عمل کے ذریعے اس نہایت لطیف شکل دے دی جاتی ہے جو اسے سائیڈ ایفیکٹس سے پاک کر دیتی ہے۔
اور تیسری بات یہ کہ مہنگائی کے اس دور میں بھی یہ قابلِ قدر حد تک سستا علاج ہے۔
آج کل کے دور میں مریض چاہتا ہے کہ اس کی بات کو توجہ سے سنا جائے، اسے وقت دیا جائے۔ ایک اچھا ہومیوپیتھ مریض کی ساری باتیں نہایت توجہ اور دلچسپی سے سنتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اکثرحالتوں میں مریض کی بیماری کے پس منظر میں سماجی، معاشی اور جذباتی مسائل ہوتے ہیں جو اس کی جسمانی بیماری کا اصل سبب ہوتے ہیں۔ جب تک ان پر توجہ نہ کی جائے مریض کی کلی شفایابی ناممکن ہے۔
ہایت بے ضرر طریقہ علاج ہے۔ میٹھی میٹھی گولیاں جنہیں بچے اور بڑے خوش ہو کر کھاتے ہیں۔ اور دیر پا علاج۔ اتنا پیارا سسٹم آف تھیر اپیوٹکس کہ آپ ایک نومولود جس کو پیدا ہوئے چند گھنٹے گذرے ہیں اس کا بھی اور سو سال کے بوڑھے کا بھی علاج کر سکتے ہیں۔
اس کی خوبیاں بے شمار ہیں۔ اگر میں گنوانے پر آ جاؤں تو آپ کا ٹائم ختم ہو جائے لیکن ہم نے موضوع کو آگے بھی بڑھانا ہے۔

۲۔ گردے Bean Shaped Organ ہیں جو کہ ہمارے جسم میں دونوں پسلیوں کے پیچھے نیچے کی طرف ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ موجود ہیں گردے ہمارے جسم میں سے فاسد مادوں کو باہر نکالنے کا کام کرتے ہیں
ہر گردے میں ایک لاکھ کے قریب چھوٹے چھوٹے یونٹ ہوتے ہیں جنہیں نیفروں کہا جاتا ہے۔ یہ فلٹریشن کا کام کرتے ہیں۔
ہمارے گردے ایک دن میں تقریبا 180 لیٹر کے قریب خون کو صاف کرتے ہیں
یعنی چوبیس گھنٹے میں تقریبا ایک سواسی لیٹریابیس بالٹی خون گردوں میں سے گزرتا ہے اور یہ اسے سکین کر کے فالتو پانی، زہریلے مادوں کو چھان پھٹک کر بدن سے باہر خارج کر دیتے ہیں گردے نہ صرف خون کو چھاننے کا کام کرتے ہیں بلکہ صاف اور صحت مند خون کو دوبارہ جسم میں دھکیل کر اسکی صحت مند حالت کو برقرار رکھنے کا بھی باعث بنتے ہیں اس عمل سے نہ صرف جسم کے اندر نمکیات کا توازن برقرار رہتا ہے بلکہ اس سے جسم کا بلڈ پریشر بھی کنڑول میں رہتا ہے اور بھی بے شمار فنکشن ہیں۔
گرسے ایسے ہارمونز بھی Release کرتے ہیں جن سے ہمار بلڈ پریشر اور جسم میں شوگر کی مقدار کنٹرول میں رہتی ہے۔
بلکہ جب ہم سٹریس، ٹینشن اور جذباتی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں تو یہ ہارمون اس وقت بھی ہماری مدد کرتے ہیں۔
یوں سمجھیں کے ہمارے جسمانی نظام کو توازن میں رکھنے میں ان کا بنیادی کردار ہے۔

۳ ۔ گردے کی پتھری کی میں چند چیدہ چیدہ علامات آپ کو بیابن کر دوں۔ گردوں کے مقام پر درد۔ بعض اوقات یہ درد دائیں بائیں پھیلتا ہے یا سامنے پیڑو کے مقام تک بھی آتا ہے۔
پیشاب میں جلن یا پیشاب کا رک رک کر آنا۔ پیشاب کا سرخی مائل ہونا
پیشاب کا بار بار آنا، متلی کی کیفیت، پیشاب کا مقدار میں کم ہونا یا پیشاب میں رکاوٹ محسوس ہونا۔
یہ سب علامات گردوں کی پتھری میں آ سکتی ہیں۔
یاد رکھیں کہ جب پتھری اپنی جگہ سے حرکت کرتی ہے اس وقت مریض کو شدید درد ہوتا ہے۔

۴۔ جہاں تک گردے کی پتھری کے علاج کا تعلق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جتنا شافی اور موٗثر علاج ہومیوپیتھی میں ہے، شاید ہی کسی اور طب میں ہو۔
ہومیوپیتھی علاج میں ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں بلکہ کہنا چاہییے ہزار ہا مثالیں موجود ہیں۔ جہاں چند دنوں میں مریض کو پتھری سے نجات مل گئی۔ مجھے ذاتی طور پر ایک مریضہ کا تجربہ ہے جہاں چند گھنٹوں میں اللہ کا کرم ہوا اور اس کی پتھری نکل گئی۔ تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ بالعموم چند ہفتوں میں ہومیوپیتھک علاج سے پتھری نکل جاتی ہے۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے بہت اچھی اور زود اثر دوائیں موجود ہیں۔ بالخصوص درد گردہ میں جہاں مریض درد سے تڑپ رہا ہوتا ہے، وہاں ہومیوپیتھک دوائیں بہت اچھا اثر کرتی ہیں۔ آپ کو Pain killer کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
آپ نے گردوں کے دیگر امراض کے بارے میں سوال کیا ہے تو عرض کرتا چلوں کہ گردے کی خرابی کا معاملہ بھی بڑا عجیب و غریب ہے بعض اوقات یہ اسی فیصدی بھی خراب ہوجائے تو اس کے متعلق پتہ نہیں چلتا۔ لیکن اندر ہی اندر خرابی اتنی ہو چکی ہوتی ہے کہ اچانک پتہ چلتا ہے کہ مریض کے تو گردے فارغ ہو گئے ہیں۔ اور یہی بات جگر کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ جگر بھی عام طور پر خراب ہونے میں بہت ٹائم لیتا ہے۔ مثلاً ہیپاٹائٹس ہی کو لے لیجیے، اسی لیے اس کو Sailent Killer کہا جاتا ہے کہ بعض اوقات برسوں مریض کو معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ ہیپاٹایٹس جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو چکا ہے۔ چناںچہ ہمیں سال دو سال بعد گردوں کے حوالے سے اپنا کوئی نہ کوئی ٹیسٹ کرواتے رہنا چاہئے اور کچھ نہیں تو پیشاب کا روٹین ٹسٹ تو ضرور کروانا چاہئے۔
اگر کسی شخص کا بلڈ پریشر ہائی رہنا شروع کر دے تو اسے اپنے گردوں کا ٹسٹ ضرور کروا لینا چاہیے۔
اسی طرح گروں کی خرابی میں پیشاب کی مقدار کم ہو جاتی ہے یا جسم پر خصوصاً چہرے اور پاؤں پر سوجن آ جاتی ہے۔
اس کے علاوہ اور بہت سی نشانانیاں ہیں جو گردوں کی خرابی کا پتا دیتی ہیں۔
مثلاً متلی، بھوک کی کمی، تھکن کا احساس، خارش، ذہنی تھکاوٹ وغیرہ۔
آپ یہ بات سن کر حیران ہوں گے کہ پاکستان میں اس وقت تقریباً 250 ملین لوگ امراض گردہ میں مبتلا ہیں اور ان کی تعداد میں آئے دِن اضافہ ہو رہا ہے۔ اور بدقسمتی سے جو مریض Dialysis پر چلے جاتے ہیں، علاج پر ان کا اوسطاً خرچ بیس لاکھ روپے سالانہ تک آ سکتا ہے۔
جہاں تک ہومیوپیتھک علاج کا تعلق ہے؛ اللہ کے فضل سے یہاں بھی اس کا کردار نہایت اہم اور سود مند ثابت ہو رہا ہے۔ ہمارے بعض ہومیوپیتھس تو خصوصاً اس مرض کے علاج کے لیے مشہور ہو چکے ہیں۔ آپ کے یہاں مری روڈ، کمیٹی چوک کے قریب ایک ڈاکٹر صاحب (ڈاکٹر اعجاز علی) اس حوالے سے بہت مستند ہیں۔ اکثر مریضوں میں دیکھا گیا ہے کہ ہومیوپیتھک علاج کے سبب ان کی ڈائیلاسز سے جان چھوٹ گئی۔

۵۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے گردوں کے فیل ہونے میں جہاں اور بہت سارے اسباب کارفرما ہیں وہاں Diabetes یعنی شوگر کی بیماری، ہائی بلڈ پریشر سب سے بڑے اسباب ہیں۔
شوگر کا مرض ہو جانے سے چونکہ خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے لہذا یہ گلوکوز گردوں میں جو چھلنیاں لگی ہوتی ہیں، فلٹرز لگے ہوتے ہیں؛ انہیں نقصان پہنچاتا ہے۔
ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے بھی خون کی ان نالیوں کو جو گردوں کو جاتی ہیں اور گردوں میں جو فلٹر لگے ہوئے ہیں، خون کا دباؤ انہیں نقصان پہنچاتا ہے۔
اس کے علاوہ گردوں کی پتھریاں اور بعض دواؤں کے سائیڈ ایفکٹس بھی گردوں کو بری طرح نقصان پہنچاتے ہیں۔
اگر ہم غور کریں تو گردوں کی بیماریوں میں ہماری اپنی لاپروائیاں بھی شامل ہیں۔ مثلاً غیر متوازن خوراک، غیر صحتمندانہ بازاری کھانے وغیرہ۔
۶۔ جی بہت اچھا سوال ہے آپ کا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے جس کا مفہوم ہے، میں نے جسمِ انسانی کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ ہمارے جسم میں قدرت نے جہاں ضروری سمجھا متبادل چیزیں بھی بنا کر رکھ دیں۔ یہاں ابھی تفصیل کا وقت نہیں۔
شاید آپ کے علم میں ہو کہ دنیا میں ہر ہزار بچوں میں ایک صرف ایک ہی گردہ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے معروف فلم سٹار محمد علی کا صرف ایک ہی گردہ تھا ساری زندگی انہوں نے اس ایک گردے کے سہارے بہت سارا کام کیا اور پرلطف زندگی گزاری۔
۷ جی ہاں، درست فرمایا آپ نے۔ ہمارے معاشرے میں سیلف میڈیکیشن اور ٹوٹکوں کا رواج عام ہے۔ اور یہ بڑی بدقسمتی ہے۔ لوگ گھر بیٹھے غیر معیاری دوا خرید کر کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر اپنی صحت کا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ ابھی رمضان کا مہینہ ہے ایسے حضرات جو گردوں کے عارضے کا شکار ہیں۔ یا Diabetic ہیں انہیں روزہ رکھنے کے حوالے سے اپنے طبیب سے مشورہ ضرور کر لینا چاہیے۔
میرا سامعین کو یہی پیغام ہے کہ اولاً دوا ہمیشہ ڈاکٹر کے مشورہ سے استعمال کریں، اپنے معالج کوساری تکالیف نہایت تفصیل سے بیان کریں۔ثانیاً: ہمیشہ اچھی کمپنی کی تیار کردہ دوا استعمال کریں۔
یاد رکھیں اللہ کی بنائی ہوئی یہ مشینری یعنی ہمارا جسم نہایت قیمتی ہے۔ اسے عطائی ڈاکٹروں اور غیرمعیاری دواؤں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
اور آخری بات: ہمیشہ اچھے ہومیوپیتھک ڈاکٹر کا انتخاب کیجیے۔ معالج کی قابلیت آپ کے علاج میں اہم رول ادا کرتی ہے۔

0 0 votes
Article Rating
kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Hussain Kaisrani

Hussain Kaisrani (aka Ahmad Hussain) is a distinguished Psychotherapist & Chief Consultant at Homeopathic Consultancy, Lahore, Learn More

Recent Posts

Weekly Tutorial

Sign up for our Newsletter