(اِس کیس کی پریزینٹیشن یعنی تحریر و کمپوزنگ محترمہ ربیعہ فاطمہ کی مرہونِ منت ہے)۔
یہ کیس ہے 25 سالہ نوجوان کا؛ جو لاہور کی ایک فیکٹری میں بطور انڈسٹریل انجینئر تعینات ہیں۔ جب وہ 5 جولائی 2018 کو باقاعدہ مشورہ کرنے کے لئے تشریف لائے تو معلوم ہوا کہ ان کو صحت کے حوالے سے شدید مسائل کا سامنا ہے۔
اس سے پہلے وہ انٹرنیٹ پر میرے کام اور ہومیوپیتھی کے متعلق کافی معلومات حاصل کر چکے تھے۔ وہ ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے زیرِ علاج بھی رہے جنہوں نے اُن کو بیک وقت کئی دوائیاں استعمال کرنے کے لئے دیں مگر، اُن کے بقول، انہیں اُس سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکا۔ ویب سائیٹ اور فیس بک پیج پر میرے کئی کیس سٹڈی کیے، یعنی کہ محتاط چھان بین کرنے کے بعد ان کی تسلی ہوئی تو ہی انہوں نے ملاقات کا ٹائم مقرر کیا۔چیک اپ کے لئے تشریف لائے تو ان کے پاس مختلف ڈاکٹروں کے نسخے، ٹیسٹ اور استعمال شدہ دوائیوں کی ایک لمبی فہرست موجود تھی۔ کئی ماہ سے جاری علاج معالجے سے، اُن کے مطابق، کوئی فائدہ ہونا تو درکنار؛ صحت ہی متواتر گرتی جا رہی تھی۔ ذہنی کوفت اور مایوسی میں بھی مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ کیس کافی پیچیدہ صورت اختیار کر چکا تھا؛ تقریباً دو گھنٹے کی نشست ہوئی تو مسائل کھل کر سامنے آ گئے۔
کئی ڈاکٹرز اور ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں چکر لگا لگا کر اب اس نوجوان پر انتہائی مایوسی کی کیفیت طاری تھی۔ بار بار ایمرجنسی جانے کی وجہ سے ان کی جاب اوردیگر کام بھی ڈسٹرب ہو رہے تھے۔ انہوں نے علاج معالجے کے دوران مندرجہ ذیل جسمانی اور ذہنی علامات کا تذکرہ کیا، فرمایا کئے؛
“فیکٹری کی طرف سےمیس، پُر آسائش اور آرام دہ رہائش کی سہو لت میسر ہے جہاں مَیں اپنے کولیگز کے ساتھ رہائش پزیر ہوں۔ رات گئے مجھے شدید گھبراہٹ کا دورہ پڑتا ہے۔ سینے میں جلن اور درد کے ساتھ سانس گھٹ جانے اور دل بند ہونے کا خوف لاحق ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے میری حالت کنڑول سے باہر ہو جاتی ہے اور مجھے فوری طور پر ہسپتال پہنچانا ضروری ہو جايا کرتا ہے۔ اُس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب مَیں زندہ نہیں بچوں گا، سانس بند ہو جائے گی یا دل کام کرنا چھوڑ جائے گا۔
بے پناہ گھبراہٹ، ڈر، خوف اور ہارٹ اٹیک کی کیفیت طاری ہونے کی وجہ سے آئے دن ای سی جی (ECG) کروائی جاتی رہی ہے مگر ہر بار ڈاکٹر یہی کہتے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ معدہ کی خرابی، تیزابیت اور انگزائٹی کی دوائیں تجویز کر دی جاتی ہیں اور بس۔ بائیں بازو اور بائیں ہاتھ میں مسلسل جلن رہتی ہے۔ مٹھی بند کرنے سے دل میں درد اور دھڑکن بھی مزید تیز ہو جاتی ہے۔ سانس اندر لینے (Inhale) کے دوران دل، سینے، بازو اور کندھوں میں درد شروع ہوتا ہے۔ دھڑکن بہت واضح طور پر محسوس ہوا کرتی ہے۔ مزید یہ کہ دھڑکن کبھی کم اور کبھی زیادہ ہونے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے جو بہت زیادہ ٹینشن اور سٹریس (Stress) کا باعث بنتا ہے۔ بلڈ پریشر میں اتار چڑھاؤ تو اب معمول بن چکا ہے۔ دل پر دباؤ اور تکلیف کے خوف سے بائیں کروٹ پر سونا ممکن نہیں رہا۔ کوئی کتنی دیر ایک ہی کروٹ سو سکتا ہے۔ سیڑھیاں چڑھنے اور اچانک پوزیشن بدلنے سے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔
نیند کے مسائل بھی بہت شدید نوعیت کے ہیں۔ کمرے میں اکیلے سونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مجھے اپنے کمرے میں “جن بھوتوں” کے موجود ہونے کا بہت ڈر رہتا ہے۔
رات گئے جب کئی بار طبیعت خراب ہوئی تو اب ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ طبیعت خراب ہو جائے گی۔ سوتے میں ڈر جانا بھی معمول ہے۔ آنکھ کھلتے ہی جسم کے اندر کپکپاہٹ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ دن کے مختلف اوقات میں ٹانگوں میں بھی کپکپی کا مسلسل احساس موجود رہتا ہے۔ پیٹ سے لے کر اوپر کے جسم کی طرف کسی چیز کے سفر کرنے کا احساس ہوتا ہے۔ اس چیز اور اس کی حرکت کی وضاحت کرنا مشکل ہے۔
ریشہ، نزلہ، زکام اور کیرے کی مستقل شکایت رہنے کی وجہ سے کئی قسم کی اینٹی بائیوٹک اور اینٹی الرجی ادویات کا مسلسل استعمال جاری رہتا تھا۔ اب سانس کی نالی ہر وقت جکڑی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ گلے پر دباؤ کا مستقل احساس بھی رہا کرتا ہے۔ جی ہاں! نزلہ، زکام اور بخار کا گمان ہوتے ہی ادویات کا استعمال شروع کر دیا کرتا تھا۔ ٹھنڈے اور گرم مشروبات پینے کے دوران جلن کا ایک خاص احساس خوراک کی نالی سے معدے تک باقاعدہ محسوس ہوتا ہے۔ معدے میں جلن اور بوجھل پن بھی ہے۔ منہ میں اکثر بہت زیادہ چھالے ہو جاتے تھے مگر اب کم ہوتے ہیں۔ قبض کی شکایت بھی اکثر رہتی ہے۔
مختلف قسم کی الرجی کی شکایت بھی رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب! آپ سب تفصیلات پوچھ اور سن رہے ہیں مگر دوسرے ڈاکٹر تو دو تین باتوں کے بعد دوائی لکھ کر فارغ کر دیتے ہیں۔ میرے مسئلے واقعی ہیں بھی تو اتنے زیادہ۔
خوراک کے معاملے میں حد درجہ محتاط واقع ہوا ہوں بلکہ انگزائٹی (Health Anxiety) کا شکار ہوں۔ اکثر چیزوں کو اپنے لئے ناموزوں سمجھتے ہوئے اُن کو کھانے پینے سے پرہیز کرنے لگا ہوں۔ چاول کھانے سے خصوصی طور پر طبیعت میں خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
آنکھوں میں متواتر جلن کی وجہ سے تسلسل کے ساتھ ادویات استعمال کرتا رہتا ہوں۔ دیکھیں تو سہی کہ آنکھوں کے گرد کتنے سیاہ حلقے بن چکے ہیں۔ بھوک ناقابل برداشت ہوا کرتی ہے۔ خالی پیٹ ہو نے کا تو تصور ہی جان لیوا ہے۔ بھوک اچانک اور شدت کے ساتھ لگے تو ساتھ ہی جسم میں کپکپی ہونے لگتی ہے۔
زندگی کے ہر معاملے میں حد درجہ احتیاط برتنا معمول بن چکا ہے۔ حتٰی کہ ٹریفک سگنل پر رات کے بارہ بجے بھی سگنل کھلنے کا انتظار کر رہا ہوتا ہوں جبکہ باقی سب آ جا رہے ہوتے ہیں”۔
مشاہدہ اور کیس کا تجزیہ
ان کے معمولات زندگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان کی نفسیاتی کیفیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر حساس طبیعت کے مالک تھے۔ اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے اور کھانے پینے کے معاملے میں بے تحاشا پرہیزاور ادویات کے بے حد استعمال نے ان کی مجموعی صحت اور زندگی پر منفی اثرات مرتب کر رکھے تھے۔ اندر سے ڈر، خوف، فوبیا (Fear and Phobias) اور عدم اعتمادی کا شکار تھے اس لئے اپنے ارد گرد احتیاط کی مضبوط دیواریں قائم کر کے خود کو محفوظ تصور کر رہے تھے۔ مگر یہ سب ان کی خام خیالی اور ناقص منصوبہ بندی ہی ثابت ہوئی۔ ایک دوست کی وفات نے ان کے ذہن اور شخصیت پر گہرے منفی اثرات مرتب کئے۔ پھر انہیں ہر وقت موت کا خوف اور وہم (Fear and Phobia of death) رہنے لگا۔
کمزور صحت کا احساس ان کے اعتماد کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا کرتا۔ کسی کا کہا ہوا منفی جملہ ان کو کئی دن بے چین کيے رکھتا۔ سارا وقت یہی بھوت ان کے سر پر سوار رہتا کہ وہ اپنی صحت کیسے بہتر کریں۔
قصہ مختصر؛ طرح طرح کے وہم، خدشات، وسوسوں اور فوبیاز نےانہیں گھیر رکھا تھا۔ اللہ کی عطا کردہ بہت سی نعمتوں کو اپنے اوپر حرام کر چکے تھے۔ تفکرات اور کڑھنے کی عادت نے ذہنی طور پر وقت سے پہلے ہی مزاج کو بوڑھا کر دیا تھا۔ دوستوں کی محفلیں، گپ شپ، موج مستی غرض جوانی کے کسی شغل سے کوئی شغف باقی نہ رہا تھا۔ ہر کوئی صحت کا پوچھتا سو اب میل ملاقات بھی کافی حد تک محدود کر چکے تھے۔ کوشش، امید اور کامیابی کی سوچ کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ ذہنی اضطراب اور انتشار کی وجہ سے اپنی جاب کو بہتر کرنے کا موقع بھی ہاتھ سے گنوا بیٹھنے کا خطرہ لاحق تھا۔
ان کا تعلق ملتان سے ہے اور لاہور میں فیکٹری کی طرف سے فراہم کردہ رہائش میں قیام پذیر تھے۔ ایک آدھ چھٹی کے موقع پر جب سب لوگ گھروں کو چلے جاتے تو ان کو پریشانی لاحق ہو جاتی۔ جن، بھوت اور صحت کی اچانک خرابی کے خوف اس شدت سے تھے کہ وہ محض ایک رات گزارنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کرتے۔ گھر چونکہ دور تھا تو قریبی شہر میں کسی دوست یا رشتے دار کے ہاں ٹھہرنے کا انتظام سوچتے رہتے۔
کامیاب علاج کے بعد ان کا اعتماد کس قدر بڑھ چکا ہے ملاحظہ فرمائیں اُن کے اپنے الفاظ میں۔
“اس دفعہ عید الاضحٰی اور پھر محرم کی چھٹیوں کے موقع پر اپنی صحت اور علاج کی کامیابی کو ٹیسٹ کرنے کے لئے میں نے خو ب جی بھر کر کھانے کھائے مگر ہاضمے یا صحت پر کوئی برا اثر مرتب نہیں ہوا۔ اب میرے چہرے پر رونق آ چکی ہے، جسم بھرنے لگا ہے اور وزن میں بھی اضافہ جاری ہے۔ آنکھوں کے گرد جو سیاہ حلقے پڑ گئے تھے وہ بھی ٹھیک ہو گئے ہیں۔ اس بات کا احساس مجھے میرے ملنے والوں نے بھی دلایا ہے۔ اوہ ہاں! میں کئی بار اپنے کمرے میں اکیلا بھی سویا ہوں۔ ایک بار ہلکا سا احساس رہا کہ کمرے میں “جن” ہیں لیکن میں آرام سے سو گیا۔ آپ نے میرے کمرے سے “جن” بھی نکال دئے۔ ویسے ڈاکٹر صاحب آپ نے ٹھیک کہا تھا کہ “جن” کمرے میں نہیں دل و دماغ میں تھے۔
مجھے ایک اچھی جاب کی آفر ہوئی لیکن آپ سے ڈسکس کرنے کے بعد میرے لئے فیصلہ کرنے میں کوئی دقت نہیں رہی۔ حالانکہ آپ کوئی نصیحت اور مشورے بھی نہیں دیتے مگرپھربھی آپ سے بات کر کے ذہن بالکل صاف ہو جاتا ہے”۔
جب گزشتہ ہفتے چیک اپ کے لئے تشریف لائے تو علامات کی لمبی چوڑی فہرست میں سے کچھ بھی باقی نہ بچا تھا۔ کافی سوچ بچار کے بعد انہوں نے زیادہ مرچ مصالحہ دار خوراک کھانے پر سینے میں جلن کی شکایت بتائی جو ظاہر ہے کہ ایک عام سی علامت ہے۔ انہوں نے خصوصی طور پر بتایا کہ دوائیوں کا جو ڈھیر انہوں نے احتیاطاً سنبھال کر رکھ چھوڑا تھا اسے بھی نمونے کے طور پر پیش کریں گے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ وہ کامیاب ہومیوپیتھک علاج سے پہلے کس قدر ادویات کھانے پر مجبور رہ چکے تھے۔
میری خواہش پر انہوں نے انگزائٹی (Anxiety) / پینک اٹیک (Panic Attack) اور کامیاب علاج کی تفصیل اردو میں لکھی جس کے فوٹوز آخر میں دیے جا رہے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
“میں ایک پرائیویٹ فیکٹری میں بطور انڈسٹریل انجینئر جاب کر رہا ہوں۔ میری زندگی بہت پُر سکون تھی کہ اچانک نومبر 2017 کو رات کے وقت گہری نیند کے دوران 4 بجے کے قریب میرے دل کی دھڑکن بہت تیز ہونے لگی اور بلڈ پریشر بھی ہائی ہو گیا۔ میرے بدن میں خوف کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ ہارٹ اٹیک کا خدشہ محسوس کرتے ہوئے میں نے فوراً چلنا پھرنا شروع کر دیا۔ مگر طبیعت سنبھلنے کی بجائے یوں محسوس ہوا کہ دل کی دھڑکن بند ہو چکی ہے۔ میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو رہے تھے اور سر چکرانے لگا۔ خوف کے مارے میری جان ہی نکلی جا رہی تھی۔ میں نے اپنے روم میٹ کو جگا کر فوری طور پر ہسپتال پہنچانے کی درخواست کی۔ خراب حالت کے پیشِ نظرجنرل ہسپتال لاہور کی ایمرجنسی میں سب سے پہلے ای سی جی کروائی گئی جو کہ بالکل نارمل تھی۔ رپورٹ دیکھ کر دل کو تسلی ہوئی اور طبیعت سنبھلنے لگی۔ لہٰذا دوائی استعمال کیے بغیر واپس آ کر سکون سے سو گیا۔
مگر قسمت میں اب سکون کہاں تھا۔ ایک ہفتے بعد ہی دوبارہ اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے پھر جنرل ہسپتال لاہور ایمرجنسی میں لے جایا گیا۔ پھر ای سی جی ہوئی مگر رپورٹ بالکل نارمل تھی۔ طبیعت ذرا نارمل ہوئی تو ہم گھر واپس آئے۔ مَیں ڈرا ہوا تھا مگر سو گیا۔ میری نفسیاتی کیفیت عجیب تھی۔ مَیں کسی کو بتانے سے ڈر رہا تھا کہ جو بھی سنے گا اگنور (Ignore) کر دے گا۔ ایک ہفتہ ٹھیک گزرا ہوگا کہ صبح ناشتہ کے بعد طبیعت خراب ہوئی۔ بلڈ پریشر شوٹ کر گیا۔ اب کی بار مجھے ایک پرائیویٹ کلینک لے جایا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو ساری کنڈیشن بتائی۔ انجیکشن لگا اور بلڈپریشر کی دوائی دے دی گئی۔ اُن کو میری پرابلم کی سمجھ ہی نہ آئی۔
کچھ دنوں بعد سردیوں کی رات پھر ایسے ہی ہوا۔ اب مجھے کچھ اوپر کی طرف آتا ہوا محسوس ہوا۔ دل گھبرا گیا اور پرائیویٹ کلینک میں لے جایا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے تمام تفصیل سن کر بتایا کہ یہ GERD یعنی Gastric Esophageal Reflex Disease ہے اور مجھے Prescription بھر کے دوائیوں کا دے دیا جسے دیکھ کر مجھے بہت پریشانی ہوئی۔ میں نے یہ دوائیاں استعمال نہ کیں۔ اب طبیعت زیادہ تر دن میں خراب ہونے لگی۔ کچھ کھاتا پیتا تو دل گھبراتا اور سانس اور گلا بند محسوس ہوتا کہ جیسے گلے میں کوئی چیز اٹکی ہو۔ کچھ دن ایسے ہی چلتا رہا۔ پھر ایک دن آفس میں اچانک طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو حسبِ معمول فوراً ایمرجنسی لے جایا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے چیک کیا تو بی پی (Blood Pressure) نارمل تھا۔ ڈاکٹر نے دوائیاں دیں پر آرام بالکل بھی نہ آیا اور ساری رات جاگ کر گزارنی پڑتی۔ رات کو پسینے پر پسینہ آتا اور خوب دل گھبراتا۔ ڈر اور خوف میں بے حد اضافہ ہوگیا۔ کچھ سمجھ نہ آتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ تھوڑا سا چل لیتا تو تھک جاتا اورجسم بہت کمزور ہو گیا۔ کسی کام میں دل نہ لگتا۔ چند دنوں کے اندر ہی ایمرجنسی کے چار پانچ چکر لگ گئے۔ ایک دن تو میں ہسپتال کی ایمرجنسی میں بیٹھا رہا کہ کچھ ہو گیا تو آنے کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن ڈاکٹر نے او کے کر کے مجھے بھیج دیا۔
اب وہم، خوف اور بے یقینی کے عالم میں دن رات گزرنے لگے تھے۔ ٹیسٹ رپورٹس کا بالکل نارمل ہونا مسئلے کی پراسراریت کو مزید بڑھا رہا تھا۔ آفس سے چھٹی لے کر ملتان جا کر بھی علاج کرایا ۔ وقتی طور پر تو فرق پڑا لیکن علاج ختم ہوتے ہی تمام علامات لوٹ آئیں۔ اب مایوسی کا یہ عالم تھا کہ کسی ڈاکٹر کی تشخیص اور دوائی کی تاثیر پر یقین باقی نہ رہا۔ میں اب یقین کر چکا تھا کہ میرے یہ مسئلے کبھی ختم ہونے والے نہیں ہیں۔ لاہور واپس آ کر مجبوراً ایک مشہور ڈاکٹر سے چیک کروایا تو انہوں نے دو ماہ کے لئے معدہ کی مشہور دوائیاں ناشتہ سے پہلے استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ میرے مسئلے اُسی طرح چلتے رہے اگرچہ مَیں نے دوائی باقاعدہ جاری رکھی۔ جب دو ماہ استعمال کے بعد بھی میری حالت نہ سنبھلی تو میں نے پکا کر لیا کہ میرا مسئلہ اب کوئی نہ سمجھے گا اور یہ کبھی ختم بھی نہ ہو گا۔
اسی مایوسی کے عالم میں ہومیوپیتھک علاج کے بارے میں انٹرنیٹ اور فیس بک پر پڑھنا شروع کیا تو مجھے ڈاکٹر حسین قیصرانی صاحب کا فیس بک پیج نظر آیا۔ میں نے اُن کے پیش کردہ کیس خوب غور سے پڑھے اور ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اللہ تعالٰی نے ٹھیک کرنا تھا تو اللہ نے میری دعا سنی اور قبول کی۔ میں نے ویب سائٹ پر معلومات کے لئے لکھا تو اُسی دن جواب آ گیا۔ فون پر وقت طے کر کے پہنچ گیا۔ انہوں نے میرا کیس توجہ سے سنا اور تسلی دی کہ تمام چیزیں جو میرے ساتھ ہو رہی ہیں وہ نہ صرف حقیقت پر مبنی ہیں بلکہ قابلِ علاج بھی ہیں۔ مَیں نے علاج شروع کر دیا۔ ہومیوپیتھک دوائی اور سیشن سے ایک ماہ کے اندر فرق محسوس ہوا۔
تین ماہ کی سائیکوتھراپی اور ہومیوپیتھک علاج کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے مکمل صحت یاب کر دیا اور ڈاکٹر صاحب کو اپنے کرم سے نوازا۔ تین ماہ گزرنے کے بعد، اللہ کے فضل سے، اب مَیں ہر چیز کھا پی رہا ہوں بالکل ہی ایسے جیسے میری صحت نومبر 2017 سے پہلے نارمل تھی۔ اب مجھے معمولی سی معدہ (Stomach) کی جلن ہے اور میرے باقی تمام مسائل حل ہو چکے ہیں۔
ہومیوپیتھک علاج کے بعد میرے جو مسائل حل ہو چکے ہیں وہ یہ ہیں:
بد ہضمی (Indigestion)
گلے کا بند ہونا، محسوس ہونا — اِس کے لئے ایلوپیتھک ڈاکٹر صاحب نے (Hiatus Hernia) بولا کہ والو (Valve) کمزور ہو گیا ہے۔
بائیں بازو کا جلنا۔ دل کا عجیب انداز سے دھڑکنا (Uneven Heartbeat)۔
ٹانگوں کا کانپنا۔ دل گھبرانا۔ بلڈ پریشر بڑھنا یا کم ہو جانا (High Blood Pressure / Low Blood Pressure)۔ دل کی دھڑکن محسوس ہونا۔
پیٹ سے اوپر کوئی چیز آتے محسوس ہونا۔
معدہ کا جلنا (Heartburn)۔ قبض رہنا (Constipation)۔
الرجی (Allergy) کی شکایت رہنا، نزلہ زکام کا مسئلہ۔
کندھوں اور سینے میں درد (Pain in Chest and Shoulder area)۔
سانس لینے میں دقت (Short Breathing)۔
بائیں سائیڈ پر سونے سے دل گھبرانا۔
ڈاکٹر حسین قیصرانی کے (Kind Behavior) کی مَیں جتنی تعریف کروں، کم ہے۔
تجزیہ، ہومیوپیتھک دوائیں اور علاج
(ہومیوپیتھی سٹوڈنٹس اور ڈاکٹرز کے لئے)
مریض کی مجموعی شخصیت، زندگی اور صحت کے حوالہ سے محتاط رویے، بے چینی اور صحت کے حوالہ سے مایوسی، بہت زیادہ فکر، نزلہ زکام الرجی اور ڈر خوف اہم ترین مسائل تھے۔ وقت مقرر کرتے وقت انہوں نے بالخصوص کہا کہ وہ پورے آٹھ بجے میرے آفس ہوں گے اور ٹھیک پورے آٹھ بجے وہ میرے سامنے موجود تھے؛ نہ ایک منٹ پہلے نہ ایک منٹ بعد۔ وہ بات چیت کے دوران اپنا گلا بار بار صاف کر رہے تھے۔ وضع قطع اور لباس وغیرہ کے حوالہ سے بالکل ہی نارمل نظر آئے جیسے اس عمر میں عام طور پر نوجوان ہوتے ہیں۔
کیس کی علامات، مریض کی شخصیت اور مزاج پر غور کرنے سے کوئی تصویر واضح نہیں بن رہی تھی۔ مجھے آرسنیکم البم (Arsenic Album)، کالیم کاربونیکم (Kalium Carbonicum)، کاربو ویج (Carbo Veg)، اکونائیٹ (Aconite) اور نکس وامیکا (Nux Vomica) میں سے انتخاب کرنا تھا۔ مشہور یورپی ہومیوپیتھک ڈاکٹر جارج وتھالکس (George Vithoulkas) نے اپنی کتاب (Essence of Materia Medica) میں نکس وامیکا کے باب میں اسی خاص کیفیت کا ذکر کیا ہے جس سے یہ صاحب گزرے اور گزر رہے ہیں۔ وتھالکس کے مطابق:۔
“مریض معدہ کی خرابی، معدہ کے زخم یا بڑی آنت میں رکاوٹ کی تکلیف کا ذکر کرتے ہیں۔ آخرکار وہ ڈاکٹر سے چیک اپ کرواتے ہیں تو وہ ان کو سمجھاتا ہے کہ اُن کی تکلیف جسمانی کے ساتھ نفسیاتی اور ذہنی بھی ہے۔ وہ تیزابیت ختم کرنے والی دواؤں بھی دیتا ہے اور ساتھ ہی انگزائٹی اور ڈپریشن کنٹرول کرنے کی دوائیں بھی تجویز کر دیتا ہے یا سائکٹرسٹ (Psychiatrist) کو ریفر کر دیتا ہے۔ یہ دوائیاں محض تھوڑے عرصہ کے لئے مریض کی تکلیفوں کو کنٹرول بلکہ دبا سکتی ہیں۔ دراصل تکلیف اندر بڑھ رہی ہوتی ہے سو وہ زور پکڑ کر مریض کے اعصابی نظام کو بے حد حساس بنا دیتی ہے”۔
علاوہ ازیں یہ محترم بہت زیادہ ایلوپیتھک دوائیاں کھا چکے تھے، معدہ اور رات کو نیند کی خرابی بھی بہت اہم مسئلہ تھی سو نکس وامیکا سے آغاز کرنے کا فیصلہ کیا۔ نکس وامیکا (Nux Vomica 30) صبح اور رات دس دن کے لئے دی گئی۔
اگلی نشست میں نوجوان کا اپنے اوپر اعتماد دیکھنے لائق تھا۔ نتائج ناقابلِ یقین حد تک بہترین تھے۔ وہ زندگی میں واپس آ چکے تھے۔
اگلے تین ماہ میں نکس وامیکا ہی ہماری اہم دوا رہی اور حسبِ ضرورت دی جاتی رہی۔ مریض کے پاس کسی ایمرجنسی سے بچنے کے لئے ایکونائیٹ، کالی کارب اور کاربو ویج رکھوا دی گئیں اور ہر دوا کی علامات بھی اس وضاحت کے ساتھ سمجھا دی گئیں کہ صرف اُسی صورت میں ایک گولی لینی ہے کہ اگر ہسپتال جانے جتنی مجبوری پیش آ جائے۔ تین بار ایسے مواقع آئے لیکن انہوں نے صبر کیا اور ان میں سے کوئی دوا ایک بار بھی استعمال نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے فضل کے بعد اِسی حوصلہ، ہمت اور برداشت نے اِن کو بہت فائدہ دیا۔
بعد ازاں علامات کے مطابق ایک بار کالی کارب (Kali Carb) دینی پڑی اور آخر میں اکونائیٹ (Aconite)۔ درمیان میں علامت کے مطابق عارضی تکلیف کے باعث یوفریشیا 30 (Euphrasia)۔ گذشتہ دو ہفتوں سے وہ میڈیسن فری ہیں اور میرے رابطہ میں ہیں۔ کھانے پینے میں بے احتیاطی بلکہ کافی زیادہ کھا لینے سے ایک دو بار تھوڑی تکلیف ہوئی لیکن دوائی لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔
پروردگار سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے۔
حسین قیصرانی – سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ، لاہور پاکستان ۔ فون 03002000210