بال یا وبال؟ وہم وسوسے ڈپریشن انگزائٹی پینک اٹیک ہومیوپیتھک علاج دوا – حسین قیصرانی

کوئی تین ماہ قبل میری ایک کلائنٹ نے اپنی کزن کو علاج کے لئے میری طرف ریفر کیا۔ وہ دراصل مختلف قسم کے وہم، خوف اور فوبیاز میں مبتلا تھی مگر (جسے عام زبان میں کہتے ہیں کہ) اُس کی سوئی اپنے بالوں پر اڑی (Fixed Idea) ہوئی تھی۔ وہ کئی ماہر ڈاکٹرز اور بیوٹیشنز سے باقاعدہ علاج کروانے اور مایوس ہو جانے کے بعد ہر ممکن قسم کے ٹونے، ٹوٹکے اور نسخے بھی آزما چکی تھی مگر اُس کے بال (اُس کے خیال میں) اب ویسے خوبصورت اور لمبے نہیں رہے تھے کہ جیسے کچھ عرصہ پہلے ہوا کرتے تھے۔

ان سے پہلا کیس ٹیکنگ انٹرویو بُری طرح ناکام ہوا۔ اُن کا ہر فقرہ بالوں سے شروع ہو کر بالوں پر ہی ختم ہوتا تھا۔ مثلاً جب پوچھا گیا کہ پیاس کیسی ہے؟ تو جواب آیا “بال ٹھیک تھے تو بہت پانی پیتی تھی مگر جب سے بال روکھے اور بے جان ہوئے ہیں تو مجھے کوئی خیال نہیں آتا سوائے بالوں کے”۔
نیند کیسی ہے؟ “رات دو تین بجے تک بالوں کے متعلق نیٹ پر پڑھتی رہتی ہوں۔ اٹھنے میں دیر ہو جاتی ہے بلکہ آنکھیں کھولنے کو دل نہیں کرتا؛ اِس لئے پڑی رہتی ہوں کیونکہ میرے بال ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ “۔
انہوں نے واضح کر دیا کہ مجھے ہومیوپیتھی میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں مگر اگرمیرے بال بہتر ہو سکتے ہیں تو پھر ہی علاج کرواتی ہوں۔ انہیں بتایا گیا کہ بال بہتر ہوں یا نہیں؛ آپ بہتر ہوجائیں گی اِن شاء اللہ۔
ایک ہفتہ کی دوائی دے کر دوسرے سیشن کا وقت دیا گیا۔
دوسری نشست میں وہ قدرے پُر سکون تھیں۔ اِس دوران ایک آدھ بار وہ مسکرائیں بھی۔ کہنے لگیں کہ آپ صحیح کہہ رہے تھے کہ بال میرے سر پر سوار ہیں۔ عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہی بالوں کو سر پر سوار کیا ہے لہٰذا یہ قدرتی بات ہے۔ اس بات کو انہوں نے بہت انجوائے کیا اور خوب کھل کر ہنسیں۔ کہنے لگیں “باجی صحیح کہتی ہیں کہ آپ بہت اچھے ڈاکٹر ہیں۔ بات کو توجہ سے سنتے اور سمجھتے ہیں ورنہ ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ تم پاگل ہو گئی ہو، تمہیں کچھ بھی نہیں ہے اور تم خواہ مخواہ وہم کرتی ہو”۔
گپ شپ کے ماحول میں بات جاری رہی اور کوئی گھنٹہ بھر میں کیس کی تفصیلات میسر آ گئیں؛ جس کا خلاصہ یہ ہے:
گھر بلکہ پورے خاندان کی سب سے چھوٹی اور اکلوتی بیٹی ہیں، لاڈوں میں پلی بڑھیں۔ والدہ ایک بڑی پوسٹ پر ہیں؛ اِس لئے ہر جگہ یعنی سکول کالج وغیرہ میں خواہ مخواہ آو بھگت والا ماحول رہا۔ کوئی معمولی سے معمولی ذمہ داری بھی اُن پر نہیں ڈالی گئی۔ کسی بڑی پریشانی کا پوچھا تو سوچ میں پڑ گئیں۔ کافی سوچنے کے بعد بولیں: اپنے بالوں کے علاوہ بڑی پریشانی یہ آئی تھی کہ ایک بار ہماری فلائیٹ کینسل ہو گئی تھی۔ کھانے پینے کا پوچھا تو پتہ چلا کہ کچھ بھی کھائیں نمک خوب استعمال کرتی ہیں۔ اِملی، اچار، لیموں پانی، چپس الغرض ہر کھانے پینے کی چیز میں نمک اوپر سے ڈالتی ہیں۔ پیپسی کوک بھی پئیں تو تھوڑا سا نمک ڈالنا نہیں بھولتیں۔
مینسز / حیض کبھی وقت پر نہیں آتے۔ ایک دن پہلے ہی بہت آوازاری شروع ہو جاتی ہے اور جسم میں کریمپ پڑتے ہیں۔ تھکاوٹ، سُستی اور درد پہلے دن بہت ہوتا ہے۔ پھر کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ کمر درد بھی اُن دنوں تنگ کرتا ہے۔ لیکوریا آتا ہے سفید اور پانی کی طرح۔
میٹھا پسند ہے اور کھاتی بھی خوب ہیں۔ ہاتھ پاؤں کے جوڑ جیسے ٹیڑھے ہو رہے ہوں۔ ہاتھ پاؤں کبھی کبھار سو جاتے ہیں۔ شور سے، تیز روشنی اور میوزک سے سر درد شروع ہو جائے تو فوراً کوئی دوائی لے لیتی ہیں۔ جب ڈسٹرب ہوتی ہیں تو کسی سے بات نہیں کرنا چاہتیں بالکل بھی۔
چند مخصوص لوگوں کے علاوہ کسی سے تعلق نہیں بناتیں۔ اپنے راز کسی کو بھی نہیں بتاتیں۔ صرف اتنا بولتی ہیں کہ جو ضروری ہو۔
علاج معالجہ مفت تھا اور فیملی میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈاکٹر؛ سو ذرا سی کوئی تکلیف ہوئی نہیں تو دوائی لی نہیں۔ درمیان میں کچھ عرصہ نفسیاتی اور ذہنی مسائل بھی آئے مگر اُن کے خیال میں اب اُنہیں ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ بس کبھی کبھار تھوڑا بہت ڈیپریشن، اچانک غصہ، بے چینی، آوازاری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور دل گھبراتا ہے مگر یہ سب بھی بالوں کے گرنے یا خراب ہونے پر ہی ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو مصروف رکھوں تو وقت ٹھیک گزرتا ہے۔ جب ذرا فارغ بیٹھوں تو خیال پریشان کرنے لگتا ہے کہ جب بال ہی اچھے نہیں رہے تو زندگی کا کیا فائدہ؟ ویسے ڈاکٹر صاحب، آپ کو معلوم ہے کہ بال ایسے کیوں ہو جاتے ہیں؟ میرے جواب کا انتظار کئے بغیر گفتگو جاری رکھتے ہوئے بولیں: میں نے بہت ریسرچ کی ہے۔ بالوں کی یہ حالت اس لئے ہوتی ہے کہ پیچھے کوئی بڑی بیماری ہوتی ہے ۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔

ایسے لوگوں (بلکہ جوان مریضوں) کی ساری ریسرچ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی کہانیاں ہوتی ہیں۔ اس موضوع پر دن رات پڑھ پڑھ کر اُنہوں نے مستقبل قریب اور بعید میں ہونے والی بیماریاں بھی اپنے اوپر طاری کر لی ہوتی ہیں۔ مایوسی کی دلدل میں ایسے پھنستے ہیں کہ نکلنے کے لئے جتنا زور لگاتے ہیں؛ اُتنا ہی مزید دھنستے جاتے ہیں۔

اِن تمام معاملات اور بالخصوص بالوں کے لئے اُن کی تشویش کو سمجھتے ہوئے ہومیوپیتھک دوا نیٹرم میور (Natrum Muriaticum) دی گئی۔ اِس سے کافی مسائل میں بہتری آئی لیکن (اُن کے خیال میں) بال بہتر ہوئے نہ ہی اُن کی تشویش اور پریشانی میں واضح کمی آئی۔ ایک ماہ بعد دوا فاسفورک ایسڈ (Phosphoricum Acidum) دی گئی۔ اِس سے بھی، اُن کے خیال میں بالوں میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ تاہم یہ فرق ضرور پڑا کہ اب وہ بالوں کا کم ہی ذکر کرتیں جیسے یہ کوئی مسئلہ نہ ہو۔ حسبِ ضرورت اپنے اصل مسائل کا علاج کروا  رہی ہیں۔ بال اب وبالِ جان نہیں  رہے۔

ملاحظہ فرمائیں فیڈبیک کہ جو کلائنٹ کی کزن نے بھیجا ہے۔

…… آپ کو ایک دلچسپ بات بتانا تھی۔ آپ مصروف تھے اس لئے بتا نہ پائی۔

کل آمنہ آئی تھی۔ اپنے مخصوص دھیمے اور ٹھنڈے ٹھار انداز میں کہنے لگی:

تمہیں پتہ ہے کہ سر بہت ہی اچھی دوائی بناتے ہیں۔ اب میرے پیریڈز بھی ٹائم پر ہو گئے ہیں۔ سٹریس ، انگزائٹی اور ڈیپریشن کی دوائی تو بہت ہی کمال کی دیتے ہیں۔

بس بالوں کی میڈیسن کام نہیں کرتی۔ باقی سب میڈیسن بہت زبردست اثر کرتی ہیں۔

خوشگوار حیرت سے میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ مجھے نصیحت کرنے لگی :

تم تھوڑی مشکل مشکل باتیں کرتی ہو نا؛ ہو سکتا ہے کہ اُن کو سمجھ نہ آتی ہو اِس لئے تمہیں مستقل آرام نہیں آ پاتا۔ ورنہ یہ طے ہے کہ دوائی اچھی دیتے ہیں سر۔ بہت اثر کرتی ہے۔ میرے تمام مسئلے توجہ سے سنتے ہیں۔ کبھی کبھار میں اُن کو تنگ بھی کرتی ہوں جب مجھے سٹریس زیادہ ہو جاتا ہے۔ ……

 

 

 

0 0 votes
Article Rating
kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter