لاہور سے تعلق رکھنے والی بیالیس سالہ آمنہ کنسلٹ کرنے کے لئے تشریف لائیں۔ بھائی کی موجودگی میں بہت اہم مسائل اور علامات پر گفتگو کرنا ممکن نہیں تھا لہٰذا بیماریاں تکلیفیں ہی زیر بحث رہے اور کیس واضح نہ ہو سکا۔
”مَیں بچپن سے ہی اپنے جذبات کا اظہار کرنا نہ سیکھ پائی۔ بڑے بھائی کی بیماری، ضد اور چڑچڑے پن کی وجہ سے والدین پریشان رہتے تھے۔ میں نے توجہ حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ احتیاط اور سمجھوتے کا رویہ اختیار کیا۔ نتیجتاً والدین کی خصوصی محبت اور توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ بچپن میں سماجی تعلقات اور میل جول کم ہونے کی وجہ سے مجھے اکثر تنہائی کا احساس رہتا تھا۔ اس احساسِ تنہائی سے بچنےکے لئے جائنٹ فیملی سسٹم میں شادی کرنے کو ترجیح دی۔ شادی کے بعد جہاں شوہر اور سسرال کو مطمئن رکھنے کی پوری کوشش کی وہاں بچوں کی اچھی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے بھی ساری توجہ لگا دی۔ یہاں تک کہ میں نے اپنے آپ کو مکمل نظرانداز کر دیا۔ چونکہ تنہائی کا شکار رہ چکی تھی اس لئے کسی صورت رشتوں کی بے قدری پسند نہیں کرتی تھی۔میرے شوہر اور ان کی والدہ کا آپس میں ہر معاملے پر اختلافِ رائے رہتا تھا۔ لہٰذا مجھے دونوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا مستقل مسئلہ درپیش رہتا تھا۔ شوہر کی رائے کا احترام کرتی تو ساس ناراض ہو جاتیں؛ دوسری صورت میں شوہر ناراض رہتے۔ غرض مَیں دونوں کی باہمی لڑائی میں پس کر رہ گئی۔ مسائل جب حد سے گزرنے لگے تو شوہر کی مرضی پر چلنے میں ہی عافیت جانی۔ مگر شوہر کے ٹیڑھے مزاج کو سمجھنا اور اس کے مطابق چلنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ دوسری طرف میری ساس صاحبہ کا مزاج تھا کہ وہ میری محنت اور لگن کو غلط رنگ دے کر مجھے سب کی نظروں میں گرانے کی کوششوں میں لگی رہتیں۔ اظہارِ رائے پر ایک نادیدہ سنسر لگ چکا تھا۔ رونے پر پابندی شوہر نے لگا رکھی تھی۔ لہٰذا اب ساری بھڑاس بچوں پر نکلنے لگی آخر کار اس پر بھی میری ہی شامت آئی۔ سسرال کی پابندیوں، سازشوں اورمخالفتوں کا مقابلہ کرتے کرتے میری ہمت جواب دے چکی تھی۔ آہستہ آہستہ میری صحت اور مزاج بگڑنے لگا۔ سسرال کو تو اِس میں بھی جیسے ایک موقع ہاتھ آ گیا۔ مجھے مختلف بیماریوں کے وہم ڈالنے لگے۔ میرے شوہر کے لئے کسی صورت یہ قابلِ قبول صورت حال نہ تھی کہ گھر میں مجھے منفی انداز میں موضوع بحث لایا جائے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف ڈاکٹروں سے مشورہ کرنا اور کئی طرح کی ادویات کا استعمال تو معمول بنتا گیا مگر صحت بہتر نہ ہو سکی۔ وہی کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اسی ذہنی تناؤ، اضطراب اور جذباتی کشمکش میں دن رات گزرنے لگے۔ایک دن صبح مجھے نیند سے بیدار ہوتے ہی شدید گھبراہٹ اور بے چینی (Panic Attack) کا سامنا تھا۔ پہلی بار مجھے شدت سے احساس ہونے لگا کہ میں واقعی بیمار ہوں۔ کافی علاج معالجے کے بعد جب مثبت نتائج برآمد نہ ہو سکے تو مجھ پر الزامات کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ اِس ماحول اور کیفیت نے میری خود اعتمادی کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ ہر وقت خیالات کا ایک تسلسل سا دماغ میں جاری رہتا تھا۔ ماضی اور حال ایک فلم کی طرح دماغ میں گھومنے لگے۔ ہر واقعہ دہراتے ہی زخم پھر تازہ ہونے لگتے۔ یہ صورتحال میرے لئے کافی پریشانی کا باعث بن چکی تھی۔ اب ماضی کی اذیت ناک سوچوں سے باہر نکلنا اور نارمل زندگی گزارنا ہی میرا ٹارگٹ بن گیا۔ تمام تکلیف دہ واقعات، حالات اور لوگوں کے رویوں کا تجزیاتی جائزہ لینے کے بعد اپنے دماغ سے چھانٹی کرنا شروع کر دیا۔ تکلیف دہ واقعات اور لوگوں کے رویوں سے مناسب بے پروائی برتنے سے کچھ ذہنی سکون کی صورتحال پیدا ہوئی۔ اپنی ذہنی تربیت کے ساتھ ساتھ آرام اور خوراک پر توجہ دی۔ قصہ مختصر یہ کہ اپنے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔مگر یہاں دوسرے بہت سے عوامل آڑے آ گئے۔ زندگی کی تیز رفتاری میں اپنے لئے ٹائم نکالنا تقریباً ناممکن ہی رہا۔ اونچ نیچ بہت سے سبق تو سکھا گئی مگر صحت کی کمزوری کا مسئلہ حل ہوتا نظر نہ آیا۔ ایک ماہر معالج کی تلاش ہر وقت میرے ذہن میں رہتی تھی۔ میری خوش قسمتی کہ ایک ٹریننگ ورکشاپ میں ہومیوپیتھی کا کوئی حوالہ آیا تو ایک محترمہ نے ڈاکٹر حسین قیصرانی کے طریقہ علاج اور کام کی بہت تعریف کی حالانکہ وہ خود بھی ڈاکٹر ہی تھیں۔ یوں مَیں ڈاکٹر صاحب، صاحب آپ تک پہنچ گئی”۔بیماری، علامات اور ہومیوپیتھک علاج سے ہونے والی بہتری کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
جسمانی صحت دن بدن کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ روٹین کی ذہنی اور جسمانی سرگرمیوں سے اکثر پٹھوں میں گٹھلیاں، درد اور کھلیاں پڑ جاتی تھیں۔ (ایک ماہ ہومیوپیتھی دوا کے استعمال کے بعد اب پٹھوں میں درد، گٹھلیاں اور کھلیاں نہ ہونے کے برابر ہیں)۔
جلدی تھکاوٹ ہو جانا معمول تھا۔ تھکاوٹ اور بوجھل پن کا احساس مسلسل رہتا تھا۔ (علاج شروع ہوتے ہی جسمانی اور ذہنی طاقت تیزی سے بحال ہونا شروع ہو گئی)۔
بھوک، پیاس کا احساس نہ ہونے کے برابر تھا۔ کھانے پینے کی چیزوں میں ذائقہ اور مزہ کم محسوس ہوتا تھا۔ اکثر خوراک اب الرجی کی کیفیت پیدا کر رہی تھی۔ (ایک ماہ کے علاج سے بدہضمی اور گیس کے مسائل کافی حد تک کنٹرول ہو چکے ہیں مگر ان میں کبھی کبھار شدت بھی آ جاتی ہے)۔
گہری اور پرسکون نیند کی کمی تھی۔ اکثر صبح ہونے سے پہلے ہی آنکھ کھل جاتی اور دوبارہ اچھی نیند آنا ممکن نہ رہتا۔ (نیند اب ساری رات آتی ہے اور اکثر ہوتی بھی بہت گہری اور پرسکون ہے)۔
ذہن اور جسم پر ایک سستی سی طاری رہتی تھی۔ تنگ اور وزنی کپڑے تک بھی جسم برداشت نہیں کرتا تھا۔ اور کبھی کبھار سر گردن اور کندھے شدید دباؤ کا شکار ہو جایا کرتے تھے۔ مالش اور دبوانے سے وقتی آرام حاصل ہو جایا کرتا تھا۔ (آئے دن مالش کی اب ضرورت نہیں رہی اور علاج سے یہ مسائل خود بخود حل ہو رہے ہیں)۔
چند سال پہلے دو تین بار تو اچانک شدید ذہنی اضطراب اور جسمانی بے چینی کی حالت (anxiety) ہوئی جس پر قابو پانا ممکن نہ تھا۔ لہٰذا مجھے ایمرجنسی میں ہسپتال پہچانا ضروری ہو جایا کرتا تھا۔ ذہنی تناؤ اور خوف سے جسم کے اندر ایک لہر سی دوڑ جاتی اور کبھی تو کپکپی کی کیفیت بھی محسوس ہوتی۔ لیکوریا اور ورم کی تکلیف بھی رہ چکی تھی۔ (ڈاکٹر حسین قیصرانی کے علاج سے ان تمام مسائل سے اب تک واسطہ نہیں پڑا۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی کوئی مسئلہ اس قدر شدید نہیں ہو گا)۔
ناپسندیدہ لوگوں اور حالات سے الجھن ہونے لگی تھی۔ لوگوں سے ملنا ملانا (Anti Social) اور گھومنے پھرنے کی خواہش کم ہی ہوتی تھی۔ اکثر بیزاری کا احساس ہونے لگتا۔ اب لوگوں سے مل کر اچھا محسوس ہوتا ہے۔
دھوپ اور گرمی تقریباً ناقابل برداشت تھی۔ مصیبت یہ کہ گرمیوں میں اے سی (AC) اور سردیوں میں ہیٹر دونوں ہی ناپسندیدہ تھے۔ اب موسم بدل جانے کے باوجود اے سی پٹھوں میں تکلیف کا باعث نہیں ہے۔ ذہنی اور جسمانی کام کرنے سے اطمینان اور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ جبکہ پہلے ذہنی اضطراب اور انتشار کی کیفیت کی وجہ سے توجہ اور یک سوئی سے کام کرنا ممکن نہ رہتا تھا بلکہ بہت جلد تھکاوٹ ہو جایا کرتی تھی۔
بھولنے کی عادت بھی تھی۔ بھولی ہوئی بات یا کام جب تک یاد نہ آتے ایک مسلسل بیزاری اور غصہ کی کیفیت رہتی تھی۔ Perfectionist ہوں اگر کسی کام کو کرنے کا ٹھان ہی لیا تو اس کو مکمل کرنے کی بے چینی لگ جاتی تھی۔ چیزوں کی بے ترتیبی بھی قابل برداشت نہیں تھی۔ ہر وقت ذہن میں مستقبل کا خوف اور بے یقینی کی کیفیت موجود رہتی تھی۔ لہٰذا ذہنی الجھن (Confusion)، تجزیہ کاری اور آنے والے وقت کی منصوبہ بندی اور جلد بازی کرنا بھی عادت میں شامل تھا۔ ایک ماہ میں مجموعی بہتری کی صورتحال یہ ہے کہ تمام منفی خیالات اور رویوں میں واضح بہتری پیدا ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے باقاعدہ کوشش اور محنت سے اپنی سوچ اور رویوں کو درست کرنا پڑتا تھا۔
آمنہ کی ہسٹری اور انٹرویو سے حاصل شدہ معلومات کی مزید تحقیق اور تجزیے سے یہ بات سمجھ آئی کہ ہوش سنبھالتے ہی اپنے “جذبات کو دبا کر رکھنے” (Suppression of Emotion) کا مزاج رہا ہے۔ فطری جذبات کی تسکین ہو سکی اور نہ ہی اُس نے انہیں ظاہر ہونے دیا۔ زندگی کے ابتدائی سال پاکستان سے باہر گزرے۔ جوانی میں اُسے ہاسٹل میں رہنا پڑا۔ وہ رشتوں اور رشتہ داروں کے لئے ہمیشہ ترستی رہی۔ عملی زندگی کے مسائل اور سسرال کے منفی رویوں کو برداشت کرتے کرتے وہ خود کئی نفسیاتی اور جذباتی مسائل کا شکار ہو چکی تھی۔ حق پر ہونے کے باوجود اپنے حق کے لئے لڑنے سے ہمیشہ احتیاط روا رکھی۔ عجیب و غریب قسم کے ڈر، فوبیا، خوف، وہم، بے یقینی، تفکر، پریشانی، غصہ میں مبتلا ہو گئی اور کڑھتے رہنا اس کی عادت بن چکا تھا۔لاشعوری طور پر اس کا ذہن Fixation کا شکار ہو چکا تھا۔ دوسروں کو مطمئن اور خوش رکھنے کے لئے اپنی خواہشات اور جذبات کی قربانی کو شعار بنا لیا تھا۔ سمجھوتہ غموں سے کر لو فلسفۂ زندگی بن گیا۔ اس selflessness یا خود فراموشی کے مزاج سے ان کے ارد گرد کے ماحول اور لوگوں نے فائدہ اٹھانا شروع کردیا اور وہ اپنا دباؤ بڑھاتے چلے گئے۔ آخرکار آمنہ کے اعصاب شل ہو کر رہ گئے۔ کمزور اعصاب کے ساتھ ان کی زندگی تو کٹھن ہوئی ہی مگر ساتھ ہی جسمانی اور جذباتی صحت خراب ہونے لگی۔ یہ اب پریشر ککر بن گئی۔ ہر غم، دکھ، جذبہ، جذبات، پریشانی اور فکر اندر ہی اندر جمع کرتی گئی مگر ہر ممکن کوشش یہ رہی کہ باہر کچھ نہ نکلے۔ اب پریشر ککر پھٹنے کے قریب ہے۔محترمہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، عمدہ اور نفیس شخصیت کی مالک نظر آئیں۔ اونچی، لمبی، انتہائی پُر اعتماد مگر حد سے زیادہ نرم و نازک جسامت کی حامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتیں مگر صحت کی خرابی سے ڈر ہے کہ میں اپنی روٹین جاری نہیں رکھ پاؤں گی۔ وہ ایک مشہور و معروف شخصیت کے ساتھ چند پراجیکٹس میں مصروف ہیں جو اِن کی خوبیوں کی معترف ہیں اور ان پر مکمل اعتماد کرتی ہیں۔ اعتماد اور حسنِ سلوک سے پیش آنے کی وجہ سے لوگ جلدی متاثر ہو جاتے ہیں۔ حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے میں کمال حاصل ہے۔ جب تک صحت ٹھیک تھی تو شاید ہی کسی سے کھل کر کبھی جھگڑا کیا ہو۔ دوسرے کھلم کھلا ان پر زیادتی کرتے رہتے تھے مگر جھگڑا نہیں کرتی تھیں۔ غصہ کا بس ایک ہی حل ان کے پاس تھا اور وہ تھا پی جانا۔ بظاہر سکون اور نرمی سے بھرپور مزاج لیکن اندر صحت سخت خراب ہو رہی تھی۔انہی کی زبانی سنئے:
اب میرے اندر مزید ہمت باقی نہیں رہی۔ میں سخت مزاج بلکہ سنگ دل ہونے لگی ہوں۔ جذباتی طور پر میں زخموں سے چُور ہو چکی ہوں۔ میں بہت حساس ہوتی جا رہی ہوں۔ حال ہی میں والدہ کی جو وفات ہوئی تو میں بالکل ہی نڈھال ہو چکی ہوں۔ اب اپنی بات کے اظہار میں یکدم جذباتی ہو رہی ہوں۔ میری یاد داشت بہت ڈسٹرب ہوئی ہے۔ بھولنے کی بیماری اپنی جگہ لیکن میرے لئے بڑی بیماری یہ ہے کہ جب تک بھولی ہوئی بات دوبارہ یاد نہ آ جائے؛ بے چین اور اضطراب میں رہتی ہوں۔سیر و سیاحت بہت زیادہ پسند ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات، سر سبز میدانوں، کھیتوں اور کھلیانوں میں جا کر طبیعت کِھل اور کُھل اٹھتی ہے۔ بچپن ہی سے دودھ سے الرجی ہے۔ نیند بہت ہلکی ہے اور اکثر تین چار بجے کھل جاتی ہے۔ ڈاکٹر نے پیٹ کے کیڑے بتائے تھے اور اُس کی دوائی بھی استعمال کروائی تھی۔
روتی تو پہلے بھی تھی لیکن امی کی وفات کے بعد یہ ایک مستقل فیچر ہے۔ گھر میں روؤں تو عجیب و غریب باتیں سننی پڑتی ہیں سو چھپ کر ہی روتی ہوں۔ سردیوں میں ٹھنڈی ہوا سے طبیعت میں بہت خرابی ہو جاتی ہے۔ پیریڈ ماہواری کے کچھ دن بعد لیکوریا بھی رہتا ہے۔ صبح اُٹھنے پر جسم بہت تھکا ہوتا ہے اور درد کرتا ہے۔وزن خطرناک حد تک کم ہے۔ ہر قسمی علاج معالجے، نسخے اور ٹوٹکے استعمال کرنے کے باوجود وزن میں بہتری پیدا نہیں ہوتی۔ یہ 42 کلو گرام ہے اور سالوں سے ہے۔ خواہش اور امید ہے کہ آپ کے علاج سے وزن بھی کچھ بڑھ جائے۔ پاکستان شفٹ ہونے کے بعد اس سوسائٹی کے لوگوں کے مزاج اور رویوں کو سمجھنے اور نئے تعلقات بنانے میں کافی دقّت پیش آئی۔ لوگ ہمارے مزاج اور معیار کے مطابق نہ تھے۔ بناوٹی کلچر کی وجہ سے بھی گھلنے ملنے میں خوف اور احتیاط کا رویہ غالب رہا۔ کزنز بھی عمر میں مجھ سے بڑی تھیں۔
بلی سے ڈر اور نفرت کا رشتہ بھی پرانا ہے کیونکہ وہ بچپن میں میرا فیڈر لے گئی تھی (فیڈر چھڑوانے کے لئے بلی کو علامتی طور پر استعمال کیا گیا تھا)۔ جی ہاں! بلی کا قریب آنا ناگوار گزرتا ہے۔۔
اور آپ کو میں بتا دوں نہ میں پاگل ہونا چاہتی ہوں، نہ میں مرنا چاہتی ہوں اور نہ ہی اپنی ساس کی طرح دوسروں کی زندگی خراب کرنا چاہتی ہوں۔ میں اپنے چھوٹے بڑوں کے تجربے سے بہت کچھ سیکھتی ہوں مگر copy اور paste نہیں کرتی۔ میں نے ہمیشہ بہتر زندگی کی خواہش کی ہے اور اس میں ڈاکٹر قیصرانی! آپ نے میری مدد کرنی ہے۔
(ہومیوپیتھک ڈاکٹر اور سٹوڈنٹس کے لئے)
ہومیوپیتھک دوا اور علاج
آمنہ کو ہومیوپیتھک دوا سٹیفی سیگریا (Staphysagria) دی گئی۔ علاج شروع کرنے کے دوسرے دن سے ہی واضح فرق آنا شروع ہو گیا۔ کمزوری کے پیشِ نظر تیسرے ہفتہ میں ہلونیاس مدر ٹنکچر (Helonias Q) بھی جاری کروایا گیا تاکہ کمزوری کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔ ماہانہ فیڈ بیک اُن کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔ اِس کا خلاصہ اوپر بھی درج ہے۔ علامات کے مطابق دوائیاں حسبِ ضرورت دی جاتی رہیں۔ آرسنیک البم، کالی کارب، کونیم یا ٹیوبرکولینم کی ضرورت بھی پڑی ہے۔
محترمہ کے فیڈبیک اپ ڈیٹ میں یہ بات سب سے اچھی لگی:
“اب زندگی میں ٹھہراؤ اور جذباتی سکون محسوس ہونے لگا ہے۔ وہ سکون ڈاکٹر صاحب؛ جو آج سے تیرہ چودہ سال پہلے اپنی ماں کے گھر سے ملا کرتا تھا۔ اس کی جھلک محسوس ہونے لگی ہے”۔
Review after one month’s homeopathic treatment by Hussain Kaisrani:
I was striving hard for the health-care. Homeopathic Doctor Hussain Kaisrani made the process comfortable and easier. Inner feeling of well being coupled with relief in symptoms, in short time – only one month – is something really amazing. I never even dreamed of recovery on such a “massive” speed.
I switched from one doctor to another, to gain optimum health. But it had become a dream. Determination and considerate efforts of my healer is about to make this dream come true. His treatment methodology is marvellous. His keen approach, attention focus and regular interaction became a motivational force. I had clarity of mind, I was opened up but to communicate effectively was made possible by the doctor himself.
Here is the brief and to the point review of the one month homeopathy treatment.
Over whelming feeling of pressure on the mind and body is fading away.
This feeling of covering and thick layer created heaviness and much discomfort in my mind and body as well as caused panic attacks in the past.
I had to do much effort to convince myself to accomplish a task. Now the automation has started to replace the forceful attitude towards life.
Now I feel generally comfortable with others, less irritated. Inner restlessness has decreased.
Heat and cold intolerance is getting better. Now I can enjoy AC. The sunlight is still unbearable though.
Now I can work with more focused mind. Mind is getting more active and sharp.
I feel less fatigued than before. Both mental and physical Energy levels seem to get better. I don’t feel “burnt out “ generally.
Sweating issue is getting better.
I have become more expressive.
I still forget things but the good thing is those are not disturbing me anymore.
Difficulty in focusing attention while driving, especially at night. Foggy mind or vision, I cannot clarify, still persist but significantly improved.
Vision and hearing are better.
Less stress on ears and mind but there are ups and downs.
Sleep is getting better.
Sometimes I wake up early in the morning but I feel fresh and energetic. Exactly a week ago and before my sleep used to break around 3am daily.
Sudden temperature change causes sneezing but there is no fear or chance of getting fever is being felt.
Appetite is getting better but no disturbing cravings. Taste buds are working better. Same is the case with the feeling of thirst.
Some foods create gas trouble, less absorption and wind retention.
Muscular stiffness create much trouble. Aching muscles and muscular stress combined together create fatigue.
There’s also improvement regarding this issue.
Immunity used to be low during the rainy season. But the immunity remained better during the previous month.
Now it is easier to handle routine work.
Pressure on the head, neck and shoulder muscles has almost vanished. Very rarely it comes back.
Anxiety is still there but it has decreased significantly. I feel less tensed and worried.
Confusion, absent mindedness and double-mindedness is totally gone.
Appearance is also better.
Deep feeling of deprivation and loneliness after the death of my mother has become tolerable.
I can confidently say Overall improvement is 75%.
Thanks to Allah for guiding me to Hussain Kaisrani and homeopathic treatment.