شدید غصہ، بیوی بچوں سے مستقل بد تمیزی، توڑ پھوڑ اور غیر مستقل مزاجی – کامیاب علاج، فیڈبیک

سپائیڈر مین، سپرمین، آئرن مین ۔۔۔۔۔ ان کرداروں کی پہچان سپر پاورز کے طور پر کی جاتی ہے۔ اگرچہ ان کا حقیقی دنیا سے تو کوئی تعلق نہیں ہے مگر یہ فرضی دنیا کے ہیرو ہیں جو آپ کو ہر طرح مشکل سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ مجھ سے یقین نہ کریں لیکن ایک سپر پاور حقیقی ہے اور وہ ہے ۔۔۔۔ وومین یعنی عورت۔

آپ کا بیٹا بیمار ہے۔۔۔۔ ذہنی مریض ہے۔۔۔ نشہ کرتا ہے۔۔۔ جوا کھیلتا ہے، کوئی کام نہیں کرتا یا پھر کسی بری صحبت کا شکار ہے ۔۔۔۔ تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ اس کی شادی کر دیں۔۔۔ بیوی آئے گی تو خود ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ کیونکہ بیوی ایک سپر ہیرو (Super Hero) ہے۔۔۔۔ ایسی خداداد صلاحیتوں کی مالک جو تمام جذباتی، نفسیاتی، ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا علاج بخوبی کر سکتی ہے۔۔۔

مجھے بھی شادی کے نام پر ایک ایسے ہی کھونٹے سے باندھ دیا گیا جس کے مالک کو سدھارنے کے لیے ایک غیر معمولی بیوی کی ضرورت تھی۔۔۔۔ شادی کے بعد لگا کہ شوہر ذرا غصے والے ہیں لیکن چند دن بعد ذرا سی بات پر سارے کانچ کے برتن ٹوٹنے کے ساتھ ہی میرے تمام خواب چکنا چور ہو گئے۔ پھر یہ روز کا معمول بن گیا۔۔۔ جہاں کہیں کبھی کوئی خلافِ مزاج بات ہوئی وہاں جو کچھ سامنے آیا، توڑ دیا۔

مسائل کی ایک لمبی فہرست تھی:
* ہر وقت لڑائی جھگڑا کرنا
* چھوٹی چھوٹی بات پر برتن توڑنا
* مہمانوں کی آمد پر ہنگامہ کرنا
* کوئی کام کاج نہ کرنا، مستقل مزاجی کی انتہائی کمی جس کی وجہ سے کوئی کاروبار سیٹ نہیں ہوتا
* تنہائی اور اندھیرے کا ڈر
* ایکسیڈنٹ فوبیا (Fear of Accidents / Dystychiphobia) کہ اگر میں بائک چلاؤں گا تو میرا ایکسیڈنٹ ہو جائے گا
* بلندی کا خوف (Acrophobia or Fear of Heights / Phobia of High Places) ۔ بلند جگہ پر نہیں جا سکتا
* خود اعتمادی کا اتنا فقدان (Lack of Self Confidence) ہے کہ اپنا نقصان کر لے گا لیکن اپنا مدعا بیان نہیں کر پائے گا
* کسی سے دوستی نہیں ہوتی
* لوگوں سے گھل مل (Anti Social) نہیں سکتا بلکہ ایسی جگہ جاتا ہی نہیں جہاں لوگوں سے ملنا پڑے
* انتہائی ضروری بات کے علاوہ کسی سے گھر میں بات نہیں کرتا
* انتہائی غیر ذمہ دار (Irresponsible Attitude) ہے۔ اگر گھر میں کوئی بیمار ہے تو ڈاکٹر پر بھی نہیں لے کے جاتا
* دوسروں کی موجودگی میں بیوی کی تذلیل کرنے کا موقع نہیں جانے دیتا بلکہ کوئی موقع نہ بھی ہو تو بھی تذلیل کرنا ضروری ہے ۔۔۔۔۔
* کس بھی ایسی جگہ نہیں جا سکتا جہاں رش ہو (Agoraphobia) جیسے کوئی شادی یا جنازہ وغیرہ۔ مسجد نہیں جاتا کیونکہ وہاں اور لوگوں سے سامنا ہو گا۔

زندگی عذاب بن گئی تھی۔ شروع شروع میں تو خدمت اور محبت سے دل جیتنے کی کوشش کی لیکن میرے مد مقابل تو گویا ایک پتھر تھا جس سے سر تو پھوڑا جا سکتا تھا لیکن اُسے نرم کرنا ممکن نہ تھا۔ اسی طرح دس سال گزر گئے۔ میں مایوس ہو چکی تھی۔ کسی بھی قسم کی امید اور توقع کرنا چھوڑ چکی تھی۔ محبت، خدمت، فرماں برداری، صبر سب کچھ بیکار تھا۔ اسے سدھرنا تھا نہ سدھرا۔ اولاد بھی اس کی کوئی روش نہ بدلی سکی۔ باقی معاملات میں تو سمجھوتہ کسی حد تک ممکن تھا لیکن بے روزگاری کی ہمہ وقت لٹکتی تلوار آنے والے دنوں کی تاریکی کی خبر دیتی تھی۔ خواہشوں کا گلا گھونٹتے اور ضرورتوں کو گھسیٹتے زندگی کی گاڑی ہچکولے کھا رہی تھی۔
پھر ایک دن میرے اللہ نے میری سن لی۔ میری ایک دوست نے مجھے ڈاکٹر حسین قیصرانی کے بارے میں بتایا۔ میں نے فون پر رابطہ کیا اور اپنے شوہر کے متعلق ساری تفصیل بتائی۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے حوصلہ دیا اور علاج کی بھرپور کوشش کی یقین دہانی کروائی۔

تین ماہ کے علاج سے میرے شوہر میں جو تبدیلیاں آئیں وہ ناقابلِ یقین ہیں۔ علاج کے دوران بہت سے اتار چڑھاؤ آئے لیکن ڈاکٹر قیصرانی نے دن اور رات کے فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمہ وقت علاج اور کاؤنسلنگ (counselling) کے لیے اپنی دستیابی کو یقینی بنائے رکھا۔ گھر بیٹھے ہومیوپیتھک دوائی کا میسر ہونا اور کہیں جائے بغیر فون پر سائیکوتھراپی (Psychotherapy) کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ اور سچ تو ہے کہ میرے جیسی خاتون کے لیے اپنے شوہر کو کسی (Psychiatrist) سائکاٹرسٹ کے پاس لے جانا ممکن ہی نہیں تھا۔ اور ویسے بھی میرے شوہر جس طرح کے پیچیدہ مسائل کا شکار تھے ان کے حل کے لیے بھرپور توجہ اور مہارت (Expertise) درکار تھی جو صرف ڈاکٹر صاحب کا ہی خاصہ ہے۔ ڈاکٹر حسین قیصرانی کے علاج نے میرے گھر بلکہ میری زندگی کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا۔

ڈاکٹر حسین قیصرانی صاحب! آپ کا بہت شکریہ اور مہربانی۔
گھر میں اب سکون رہتا ہے۔ لڑائی جھگڑے کا مستقل ماحول اب نہیں رہا۔
میرے شوہر نے اپنا کاروبار شروع کر دیا ہے اور دن رات محنت کرنے لگ گئے ہیں۔ اب ہر بات پر برتن نہیں توڑتے۔ گھر کی ساری ذمہ داری اٹھا لی ہے۔ دوسرے لوگوں سے میل جول میں بہتری آئی ہے۔ اب تو مجھ سے باتیں بھی کرتے ہیں۔ بلندی کا خوف ختم ہو گیا ہے۔ اب اندھیرے سے بھی اُن کو ڈر (Nyctophobia – severe fear of the dark) نہیں لگتا۔ الحمدللہ! اب جمعہ پڑھنے بھی جانے لگے ہیں۔ چہرے پر بشاشت ہوتی ہے۔ میں اللہ کی شکر گزار ہوں اور آپ کی بھی۔

میری زندگی کے اندھیروں میں امید کے دیے روشن کرنے کے لیے میں ہمیشہ آپ کی احسان مند رہوں گی۔ مہربانی بہت بہت۔

===================
حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210۔
===================

0 0 votes
Article Rating
Picture of kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter