مرض کا دب جانا – ڈاکٹر بنارس خان اعوان Suppression

محترم ڈاکٹر حضرات!
جنوبی پنجاب کے اس چھوٹے سے شہر دریاخان میں پنجاب سرحد اور سندھ کے دور دراز علاقوں سے اتنی بڑی تعداد میں ڈاکٹر حضرات کا اجتماع بلاشبہ ڈاکٹر جنید عمر اور ڈاکٹر راؤ محمد اخترکی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحبان ما شاء اللہ بڑی محنت، لگن اور دلچسپی سے کئی چھوٹے بڑے سیمینار منعقد کرا چکے ہیں۔ یہ سیمینار ان کے ہومیوپیتھی سے محبت کا ثبوت ہیں جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ان کے اس جذبے کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ان کے ساتھ ان کی ساری ٹیم اور ایشین ہومیوپیتھک میڈیکل لیگ پاکستان ونگ کے صدر ڈاکٹر اظہر انتصار بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ڈاکٹر A.H.Grimmer نے لکھا ہے۔ ہومیوپیتھی خدا کی طرف سے اس کے بندوں کے لئے تحفہ ہے۔ ہومیوپیتھی محبت، امن اور خدمت کا استعارہ ہے، آفاقی طریقہ علاج ہے۔ جارج وتھالکس کا کہنا ہے۔ ہومیوپیتھک پریکٹس کا مقصد لوگوں میں خوشیاں بانٹنا ہے۔
مشہور خلیفہ ہارون رشید کو بغداد کے مشہور درویش بہلول دانا نے کہا تھا؛ جب خدا کسی بادشاہ پر خوش ہوتا ہے تو وہ اسے عقل دیتا ہے۔
جوناتھن شور (امریکی ہومیوپیتھک ڈاکٹر) نے کہا ہے کہ خدا جب کسی سے خوش ہوتا ہے تو اسے ہومیوپتھ بنا دیتا ہے۔
میں سمجھتا ہو کہ عقل اور ہومیوپیتھی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ہومیوپیتھی نے اپنے چاہنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کیا اور یہ صرف اپنے عاشقوں پر ہی اپنے راز ظاہر کرتی ہے۔ جو اس سے دھوکہ کرتا ہے خود دھوکے میں رہتا ہے۔

محترم حاضرین کرام!
میرا آج کا موضوع نہایت اہم بھی ہے طویل بھی اور خشک بھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ حضرات اسے کس حد تک سن پائیں گے۔ اہم اس طرح کے Suppression ہومیوپیتھی کا ایک نازک موضوع Burning Issue ہے اور صحت انسانی کا اس سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ اور خشک اس لئے کہ اس میں فلاسفی بھی ہے اور میٹیریا میڈیکا بھی۔ اور یہ دونوں موضوعات ایسے ہیں کہ ان کا نام سن کر ہی نیند آنے لگتی ہے۔ تاہم یہ علم کی باتیں ہیں اور جسے اس کی پیاس ہو گی وہی اس کی طلب کرے گا۔ اور بقول علامہ اقبال: رقص میں لیلٰی رہے گی یا لیلٰی کے دیوانے۔
میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ فلاسفی اور میٹیریا میڈیکا کو ثقیل طبی اصطلاحوں سے ہٹ کر عام فہم انداز، روزمرہ مثالوں اور عام فہم زبان Street Language میں پیش کیا جائے۔ اور یوں دوا کی منطق اور مرکزی خیال کو سامنے لایا جائے۔ کیونکہ میٹیریا میڈیکا رٹا لگا کر زبانی یاد کر لینے کا نام نہیں ہے۔ میٹیریا میڈیکا کو رٹا لگا کر یاد کرنے کی مثال یوں ہے جیسے کوئی شخص ٹیلیفون ڈائریکٹری کو لاحاصل زبانی یاد کرنے کی کوشش کرے۔
کہ جیسے پانی میں دائرہ سا کوئی بنائے تو کچھ نہ پائے۔
میرے خطاب کا فوکس ہمیشہ نوجوان، نئے اور کم تجربہ کار ڈاکٹر حضرات ہوتے ہیں تاکہ یہ ساتھی اپنی پریکٹس کے شروع سالوں میں ہی اپنی بنیادیں مضبوط کر لیں اور اپنی سمت درست کر لیں۔اور میرے نزدیک وہ ساتھی جن کا تجربہ پندرہ سال سے کم ہے میں انہیں کم تجربہ کار ہی Under experience تصور کرتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک ہومیوپیتھک آرٹ اتنا سستا بھی نہیں کہ پانچ سات سالوں میں اس کی سمجھ لگ جائے۔ استثنائی بات الگ ہے۔

تو محترم ڈاکٹر حضرات:
میں اصل موضوع پر آتا ہوں۔

Suppression کیا ہے؟
اس کا چند لفظی جواب یوں دیا جا سکتا ہے،
*علاج کا مخالف سمت کا رخ اختیارکرنا*
Suppression is the Opposite of Direction of Cure
Direction of Cure کیا ہے؟
یہ ہیرنگ لاء ہے۔ جس کے چار نکات ہیں ۔یعنی
* اوپر سے نیچے
*مرکز سے محیط
* زیادہ اہم سے کم اہم اعضا کی طرف
*سب سے آخری علامت سب سے پہلے اور سب سے پہلے آنے والی علامت کا سب سے آخر میں غائب ہونا۔
لہذا دوران علاج (ما سوائے ایڈوانس پتھالوجیکل کیس) جہاں بھی ہیرنگ قانون کی خلاف ورزی ہو گی وہاں Suppression ہو گی۔ ڈکشنری میں Suppression کا مطلب ہے۔
* فزیالوجی کی سطح پر کسی کام (Activity) کا رک جانا
* اپنے داخلی تقاضے، اقدام کو دانستہ خفیہ رکھنے کا عمل۔
*ایسا علاج جس سے بظاہر بیماری کے آثار دب جائیں۔
Suppression کئی قسم کی ہیں۔
مثلاً جذبات کا دب جانا جیسے غصہ، غم، حسد، بے عزتی، مایوسی، بری خبر سننا۔
فزیالوجی کی سطح پر بیماری کا دب جانا، جیسے حیض کا دب جانا، پسینے کا دب جانا، خارش کا دب جانا۔
دمہ کے دب جانے سے جوڑوں کے دردوں کا آ جانا۔
ذہنی سطح پر تخلیقی کام کرنے کی صلاحیت کا جاتے رہنا، حساب کتاب میں کمزور ہونا،
غیر ہومیوپیتھک دواؤں کے استعمال، سرجری، ویکسی نیشن سے بیماریوں کا دب جانا۔
ہومیوپیتھک دواؤں کے غیر ہومیوپیتھک علاج سے بیماریوں کا دب جانا۔
موجودہ دور میں ایک اور خطرناک ہتھیار دریافت ہوا ہے جو خوب Suppression کرتا ہے۔ اور وہ ہے لیزر تھراپی۔ لیزر تھراپی جسم میں سو فی صد غیر مشابہ بیماری پیدا کرتی ہے۔
پانی میں کلورنیشن اور فلورنیشن، فضائی آلودگی، سگریٹ کا دھواں، غذا میں مختلف کیمیاوی مادوں کی موجودگی، کھاد اور کیڑے مار دوائیں، ویکسینیشن، ایکس رے، انٹی بائیوٹکس، کارٹی زون، کیموتھراپی اور ریڈی ایشن کے استعمال سے ایک ہومیوپیتھ کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ یہ سارے عوامل بیماریوں کی Suppression کا سبب بنتے ہیں۔
ایلوپیتھک دواؤں میں کارٹیزون سے بڑھ کر شاید ہی کوئی اور دوا علامات کو اتنی شدت سے Suppress کرتی ہو۔
گھروں میں ایلومینیم کے برتن جو استعمال ہوتے ہیں اور دانتوں کا ڈاکٹر دانتوں کی بھرائی میں جو فلورائڈ استعمال کرتا ہے یہ نہ صرف ہومیوپیتھک دواؤں کے شفائیہ عمل میں رکاوٹ ڈالتے ہیں بلکہ بیماری کی Suppression کا بھی سبب بنتے ہیں۔ اور ان کے مضر اثرات کا زائل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ آئندہ چل کر ایسے کیمیکلز مہلک بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔
تاہم ایلومینم کا زہر Cadmium Oxydatum کو پوٹنسی کی حالت میں استعمال کرنے سے Antidote کیا جا سکتا ہے۔
A. H. GRIMMER نے ریڈی ایشن کو عالمگیر زہر (Universal Poison) قرار دیا ہے۔
حوالہ: The Collected Works.
کینٹ نے لکھا ہے کہ ایک جذباتی صدمہ کسی مرض کو اتنی شدت سے دبا سکتا ہے کہ ہزار کپ کافی کے بھی نہیں دبا سکتے۔
ایک غیر مشابہ بیماری کسی دوسری غیر مشابہ بیماری کو دبا سکتی ہے۔ مثلاً مزمن گھٹنے کا درد، شدید دانت درد کی وجہ سے دب سکتا ہے۔ دانت درد ٹھیک ہو جانے پر گھٹنے کا درد واپس آ جائے گا۔ جہاں تک Suppression کا تعلق ہے۔ سٹیورٹ کلوز نے اس کی تعریف یوں کی ہے۔
دوا کے خارجی استعمال، میکانکی (سرجیکل) کیمیاوی یا جزوی علاج یا قوی اثر کرنے والی ادویات جو داخلی طور پر کثیر مقدار میں استعمال کرائی گئی ہوں اور جو بلا واسطہ فزیالوجیکل یا زہریلے اثرات کی حامل تو ہوں لیکن صحیح معنوں میں معالجاتی یا شفائی عمل سے عاری ہوں ایسے طریقہ علاج سے ظاہری علامات کو دور کر دینا، مرض کو دبا دینا یا وقتی طور پر افاقہ پہنچانا کہلاتا ہے۔

ایچ سی ایلن نے چائنا سلف کے بیان میں لکھا ہے۔ بخار کے علاج اور اسے دبا دینے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ہومیوپیتھ کے لئے لازم ہے کہ وہ محض بخار کی سردی یا ٹمپریچر کو کم کرنے پر ہی توجہ نہ دے۔ (مریض کو نظرانداز کر کے) صرف ٹھرما میٹر پر توجہ کرنے جیسی شعبدہ بازی کو ایلوپیتھ حضرات تک ہی رہنے دے۔ جو اپنی دواؤں کو سائنٹفک کہتے نہیں تھکتے۔ درست ہومیوپیتھک دوا سے مریض پہلے ٹھیک ہوتا ہے ٹمپریچر بعد میں اترتا ہے۔ ایلوپیتھک دوا سے ٹمپریچر پہلے اترتا ہے مریض بعد میں ٹھیک ہوتا ہے۔ کمزوری مزید بعد میں ٹھیک ہوتی ہے۔
میری رائے میں ہر وہ فزیشن جو اپنے آپ کو ہومیوپیتھ کہتا ہے اسے چاہیے کہ ہر نوبتی بخار کا علاج ہومیوپیتھک پوٹنٹائزڈ دواؤں کی مدد سے قانون بالمثل کے مطابق کرے۔ ہومیوپیتھک علاج سے مریض کو جزوی فائدہ پہنچانا Suppression ہے۔(ایچ سی ایلن۔ تھیرا پیوٹکس آف فیور)
(الزبتھ رائٹ نے کتاب “ہومیوپیتھی آرٹ اینڈ سائنس” میں لکھا ہے کہ روزمرہ کی چھوٹی موٹی شکایات میں ہلکی پھلکی دواؤں کا استعمال بھی خرابی کی بہت بڑی جڑ ہے۔ مریض کو آرام پہنچانے کی غرض سے دوائیں دینا جہالت سے کم نہیں۔)
Dr. Anshutz E P.لکھتے ہیں۔ بہت سوں کی رائے کے مطابق خواتین کو محض اس بنا پر سرجری کے عمل سے گزرنا پڑ رہا ہے کہ (ماضی میں) ان کے گنوریا کا علاج نہ ہو سکا بلکہ نا مناسب علاج سے دبا دیا گیا۔
گنوریا کے بارے میں بیوریو آف میٹیرا میڈیکا جون 1907 میں لکھا ہے۔ گنوریا کا یا تو علاج ہوتا ہے یا دب جاتا ہے کوئی تیسری حالت نہیں ہوتی۔ماسوائے درست ہومیوپیتھک علاج کے اس کا لوکل یا خارجی علاج نا ممکن ہے۔ اور اگر دب جائے تو نہ صرف مریض بلکہ اس کی آئندہ نسل کو بھی نہیں بخشتا۔ غلط علاج سے گنوریا کو دبا دینے سے کہیں بہتر ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اور ہومیوہیتھ یاد رکھیں کہ گنوریا کی کسی خصوصی دوا کا وجود نہیں۔ ہر کیس کو الگ اور نیا کیس سمجھیں۔
پیٹرمورل (Peter Morrell) کے نزدیک Suppression یوں ہے ،
ایسی دوا جس کے استعمال سے بظاہر تکالیف کا آرام آجائے لیکن بیماری وہیں کی وہیں رہے۔ Suppression باالعموم ایسی اشیاء کے استعمال سے ہوتی ہے جو دوائیہ اثرات رکھتی ہیں چاہے وہ حکیمی دوا یا غذا ہی کیوں نہ ہو۔ ایسی دوا یا دوائیں اپنے اثرات میں زہریلی دواؤں کے بہت قریب ہوتی ہیں۔ ایسی دواؤں کے استعمال کے نتیجے میں suppression فوری بھی ہو سکتی ہے اور طویل مدت بعد بھی۔ ایسی دواؤں سے جو مادی حالت (Material dose) میں استعمال کرائی جائیں یا اگر پوٹنسی میں ہوں اور بلا جواز لمبی مدت تک دہرائی جاتی رہیں Suppression کرتی ہیں۔ Suppression کرنے والی دوا عموماً چھوٹی (Small remedy) ہوتی ہے اور علامات کا جزوی احاطہ کرتی ہے۔
Suppression کرنے والی دوا اگرچہ بالمثل نہیں ہوتی تاہم علامات سے مکمل لاتعلق بھی نہیں ہوتی۔ ایسی دوا سے مریض اگرچہ اثر پذیری (Susceptibility) رکھتا ہے تاہم دوا شفائیہ اثرات کی حامل نہیں ہوتی۔ خارجی چوٹ لگنے اور زخموں پر جراثیم کش دواؤں کے استعمال سے Suppression نہیں ہوتی۔ کینٹ مکتبہ فکر کے حامی Suppression کو بہت اہمیت دیتے اور اس کے خلاف پرچار کرتے ہیں۔
کینٹ نے Suppression کے حوالے سے لکھا ہے۔
* بیماری میں دوا کا خارجی استعمال نہ کریں کیونکہ اول تو یہ بے فائدہ ہو گی اور اگر اس نے تکلیف دور کر دی تو محض خارجی سطح پر کرے گی اور یوں اصل بیماری (جو جسم کے اندر تھی) اندر ہی دب کر رہ جائے گی۔
* مریض (دوران علاج) جس قدر شفایابی کے مراحل طے کرتا چلا جائے گا اسی حساب سے بیماری باہر (جلد پر) کا رخ کرے گی۔
* علاج کے رستے میں اگر کوئی خارجی رکاوٹ ہے تو اسے دور کرنا (ہٹانا) قدرتی امر ہے۔ لیکن میں آپ کو تنبہیہ کرتا ہوں کہ جو شے داخلی ہے اس کا علاج بھی داخلی ہوگا۔
ہانیمن نے آرگینن میں جا بجا Suppresion کا ذکر کیا ہے۔
ملاحظہ ہو دفعہ46, 59, 69, 185-206, 276, 285, 289
یہ بات نہایت دلچسپ ہے کہ ایلوپیتھی میں Suppression کو بجائے کوئی مسئلہ سمجھنے کے اسے مسئلے کا حل (علاج) سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس ہومیوپیتھی اسے نہ صرف مسئلہ بلکہ برائی کا محور قرار دیتی ہے۔ اور ہانیمن نے اسے دنیائے طب کا سب سے بڑا جرم قرار دیا ہے۔ حوالہ کے لئے دیکھئے آرگینن Aphorism 203 ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ دوران علاج ایک Suppression کسی دوسرے مرض کا سبب بنتی ہے۔ مریض اگر یہ بیان دیتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب جتنا عرصہ آپ کی دوا کھاتا رہوں آرام رہتا ہے؛ دوا چھوڑوں تو تکلیف دوبارہ آ جاتی ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ Suppression ہو رہی ہے۔ دوسروں کا کیا ذکر ہمارے ہاں بہت سے ہومیوپیتھس کے گھروں میں آئے دن ایسا ہوتا ہے کہ ادھر صبح اٹھتے ہی بچے نے چھینک ماری ادھر فوراً ایلم سیپا منہ میں ڈال دی جاتی ہے۔ جسم ذرا سا گرم محسوس ہوا ایکونائٹ تجویز کر دی گئی، کان سرخ ہے تو بیلاڈونا، ڈکار آ گئی تو کاربوویجی، کھانا کھانے میں زیادتی کر لی تو پلساٹیلا ہاضمہ کے لئے موجود۔ تھک جانے پر بجائے اس کے کہ آرام کیا جائے آرنیکا لے لی۔ ایسی رسائی نہ صرف غلط بلکہ غیر سائنسی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے:
کیا آپ نے قوت حیات کو کام کرنے کا موقع دیا؟
کیا وائٹل فورس نے آپ سے مدد کی اپیل کی؟
کیا آپ نے واضح علامات کے ظاہر ہونے کا انتظار کیا؟
کیا اس روش سے آپ وائٹل فورس کو بیرونی امداد کا عادی نہیں بنا رہے؟
اس کی مثال یوں ہے جیسے آپ نے گھر کے کام کاج کے لئے چھ عدد ملازم رکھے ہوئے ہیں۔ اگر وہ سارے ملازم غیر حاضر ہو جائیں تو آپ کے لئے پانی پینا بھی ایک
مسئلہ بن جائے گا۔ ایک پتھالوجی بن جائے گی۔

پتھالوجی کیا ہے؟
کہا جاتا ہے مغلیہ دور زوال میں دوران جنگ بعض مغل شہزادے محض اس بنا پر فرار ہونے سے رہ گئے کہ جوتے پہنانے والا کوئی نہ تھا۔ اسے پتھالوجی کہتے ہیں۔
ہر وہ شکایت جو آپ کے روزمرہ معمولات میں رکاوٹ بنے چاہے وہ ذہنی سطح پر ہو، جذباتی یا جسمانی سطح پر ہو پتھالوجی کہلائے گی۔
مثلاً کسی غم کے موقع پر آپ اداس ہو جاتے ہیں یا آپ کو کسی کی غلط بات پر غصہ آ جاتا ہے تو اسے پتھالوجی نہیں کہیں گے۔ لیکن آپ ذرا ذرا سے بات پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور دوسروں کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں تو یہ پتھالوجی ہے۔ اور کیس ٹیکینگ میں ایسی علامات کی بڑی اہمیت ہے۔ بھوک لگ جانے پر آپ کھانا کھاتے ہیں تو یہ پتھالوجی نہیں ہے۔ لیکن پیٹ بھر گیا ہے لیکن آنکھیں اب بھی بھوکی ہیں تو یہ پتھالوجی ہے۔
خیر یہ بات تو ضمناً بیچ میں آ گئی۔

یاد رکھیے !
آپ اگر آج اپنے بچے کے جسم پر خارش کا ایک دانہ بھی برداشت نہیں کر سکتے تو کل کو چنبل کے لئے تیار رہیے۔
اگر آج آپ کو ایک چھینک بھی بری لگتی ہے تو کل کو دمہ کے لئے تیار رہیے اور اگر آج کھٹی ڈکاریں دبا رہے ہیں تو کل (خدانخواستہ) معدے کے السر کا کیا کریں گے؟
میری نظر میں ایسے ہومیوپیتھ ڈاکٹر حضرات جو تھوک کے حساب سے مریض دیکھتے ہیں اور فلاسفی سے نابلد ہیں وہ مریض کی ایک ایک علامت کو دباتے چلے جاتے ہیں۔ یوں اگلی بار مریض کوئی نئی تکلیف دہ علامت لے آتا ہے۔ اور ڈاکٹر صاحب اسی ایک علامت پر توجہ مرکوز کر کے اسے بھی دبا دیتے ہیں اور یوں ایک نہ ختم ہونے والا شیطانی چکر چل پڑتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب خوش ہیں کہ ریزلٹس مل رہے ہیں اور مریض خوش ہیں کہ آرام آ رہا ہے۔ دراصل دونوں دھوکہ کا شکار ہیں۔ ایک دھوکا دے رہا ہے، ایک کھا رہا ہے۔ مت بھولئے کہ قابل علاج کیسوں میں عارضی افاقہ دینا Suppression ہے۔ ایسا کرنا الجھے ہوئے ریشم میں ہاتھ پھنسا کر دھاگے کا سرا تلاش کرنے کے مترادف ہے۔
ریفرنس:Chronic Diseases and Theory of Miasms ہومیوپیتھی کے اچھے پہلو میں ایک برا پہلو یہ بھی پوشیدہ ہے کہ نالائق ہومیوپیتھ کو شعبدہ بازی کا موقع ہاتھ آ جاتا ہے۔ وہ کیسے؟
آئیے پروفیسر RISQUEZ کی زبانی سنتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں!
“مثلاً ایک مریض ڈاکٹر کو آ کر کہتا ہے، ڈاکٹر صاحب یہ دیکھئے جب میں بازو ہلاتا ہوں تو مجھے اس مقام پر درد ہوتا ہے (مریض اس مقام کو انگلی سے دبا کر دکھاتا ہے)۔
ڈاکٹر۔ اچھا بس اسی مقام پر؟
مریض۔ جی ہاں اسی مقام پر۔
ڈاکٹر صاحب بغیر کوئی وقت ضائع کئے فوراً کالی بایئکرومیکم 30 تجویز کرتے ہیں۔ درد غائب ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی واہ واہ ہو جاتی ہے اور شعبدہ بازی کام کر جاتی ہے۔ وہ کیسے؟
شاید ڈاکٹر صاحب کو ادراک نہیں کہ کالی بائی کرومیکم اپنے اندر سفلس میازم لئے پھرتی ہے۔ آپ نے درد والی (سنگل) علامت تو غائب
کر دی لیکن مریض کو سفلس میازم کے حوالے کر دیا۔
میری جھکی نگاہیں تلاش کرتی ہیں
کوئی پیار کا لہجہ، کوئی اصول کی بات
کیا آپ جانتے ہیں اس علامت پر کتنی دوائیں تجویز کی جا سکتی ہیں؟ رابن مرفی کی ریپرٹری میں ان کی تعداد 82 اور Synthesis میں 90 ہے۔ یہ تو ٹریفک سے بھرے چوراہے سے لال بتی اتار دینے کی بات ہوئی۔ یہ تو پریشر کوکر کا ریلیف والو بند کر دینے کی بات ہوئی۔
یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ حاد (Acute) امراض میں مبتلا نہ ہونا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ آپ بہترین صحت کے مالک ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس یہ آپ کے لئے خطرے کی گھنٹی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اور آپ (خدانخواستہ) کسی بڑی اور خطرناک مرض میں مبتلا بھی ہو سکتے ہیں۔
Suppression کیسے ہوتی ہے؟ اسے سمجھنے کے لئے فرض کریں ایک بچہ جسے بار بار ٹانسلز ہوتے ہیں۔ آپ کے علاج سے اب اسے یہ شکایت نہیں رہی آپ بھی خوش، بچہ بھی خوش، بچے کے والدین بھی خوش، اب وہ ٹھنڈا پانی بھی پی لیتا ہے، کھانا بھی خوب کھاتا ہے۔ پہلے دبلا پتلا تھا اب وزن بڑھ رہا ہے۔ لیکن حقائق کیا ہیں؟
علاج سے پہلے بچہ کلاس میں پہلی دس پوزیشنوں میں تھا۔ علاج کے بعدآخری دس میں چلا گیا ہے۔ والدین کہتے ہیں اب یہ کچھ لا پرواہ سا ہو گیا ہے۔ تھوڑا بہت جھوٹ بھی بول لیتا ہے۔ پیٹ آگے کو نکلنا شروع ہو گیا ہے۔ چہرہ گول مٹول جیسے کسی نے ہوا بھر دی ہو بظاہر بہت صحت مند لیکن مکان کی سیڑھیاں چڑھنا دشوار، بہت جلدی تھک جاتا ہے، بچہ کہتا ہے مجھے سبق یاد نہیں رہتا، بھول جاتا ہے۔ والدین گھبرا کر بچے کو ایلوپیتھک سپیشلسٹ کے ہاں لے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر کہتا ہے بچے کو سٹیرائیڈز دیئے گئے ہیں۔ ہومیوپیتھک ڈاکٹر کہتا ہے میں نے سٹیرائیڈز استعمال نہیں کرائے میں قسم کھاتا ہوں۔ میرے کلینک کی تلاشی لے لو۔ وہ بھی سچ کہتا ہے۔ لیکن اسے یہ معلوم نہیں کہ اس نے بچے کے ٹانسلز تو ٹھیک کر دیئے لیکن دواؤں کے غلط استعمال سے اس نے بچے کو وقت سے پہلے سورا سے سائیکوسس میں پہنچا دیا ہے۔
اسے کہتے ہیں:
؂ دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

ہومیوپیتھی کیا ہے؟
ہومیوپیتھی ایک محرک (Dynamic) طریقہ علاج ہے۔ ہومیوپیتھک فلاسفی کے تحت جسم نے خود ہی خود کو ٹھیک کرنا ہوتا ہے۔
Body has self repairing mechanism
اس کی ایک اور مثال یوں ہے جیسے ایک کسان جو کھیتوں میں کام کرتا ہے۔ اکیلا وزن اٹھا کر سر پر نہیں رکھ سکتا۔ اس کی مدد کو ساتھ والا کسان آتا ہےماور وزنی گڈا اٹھا کر اس کے سر پر رکھ دیتا ہے۔ ہومیوپیتھک دوا کی مثال بھی اتنی سی ہے۔ یہ بھی وزنی گڈا اٹھانے میں آپ کے کام آتی ہے۔ اب اسے اٹھا کر گھر تک لے جانا کسان کا کام ہے۔
ہومیوپیتھک دوا جب مریض کو دی جاتی ہے تو اس کا عمل فوری اور لمحاتی ہوتا ہے۔ اس نے جو کچھ کرنا ہوتا ہے اسی وقت کر دیتی ہے۔ ایسی سوچ کہ فلاں دوا دو، چار یا دس بیس دن تک کام کرتی رہتی ہے میں ذاتی طور پر اس پر یقین نہیں رکھتا۔ البتہ یہ وائٹل فورس ہے جو بتدریج اپنا عمل جاری رکھتی ہے دوا کے کام کرنے کی مدت کا تعلق بیک وقت بیماری کی نوعیت، شدت اور قوت حیات کے ردعمل سے ہے۔
ہومیوپیتھی میں امراض دو اسباب کی بنا پر ناقابل علاج ہیں۔
1 ۔ جسم کے کسی عضو کی تباہی و بربادی
2 ۔ قوت حیات میں ردِ عمل کا فقدان
ہومیوپیتھی تو بیمار کے Immune system کو، اس کی وائٹل فورس کو Push کرتی ہے۔ ذرا سی تحریک دیتی ہے۔ تاکہ وہ بیماری کا کماحقہ، مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو سکے باقی کام تو اس نے خود ہی کرنا ہوتا ہے۔
وائٹل فورس کے بغیر نہ زندگی کو تصور کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی سرگرمی اور فعالیت کا۔ اس کے بغیر سب کچھ فنا ہے۔ قوت حیات کا تصور بہت پرانا ہے۔ بہت ہی پرانا۔ یہ تصور چین میں آج سے دو ہزار سال قبل مسیح موجود تھا۔ بعد میں ارسطو اور افلاطون وغیرہ نے اس پر فلسفیانہ بحث کی۔
Stimulation کو جاننا ضروری ہے۔ یہ کیا ہوتی ہے اسے میں ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔ آپ نے دیکھا ہو گا ایک کوچوان تانگہ چلاتے ہوئے گھوڑے کے جسم پر ڈائریکٹ چابک مارنے کی بجائے بانس کے ڈنڈوں پردے مارتا ہے اور اس سے جو شڑاپ کی آواز پیدا ہوتی ہے اس سے گھوڑا مزید تیز بھاگتا ہے۔ یہ تحریک یعنی Stimulation ہے ڈکشنری میں اس کا مطلب لکھا ہوا ہے۔
ترغیب دینا، جوش و جذبہ ابھارنا، تحریک پیدا کرنا۔
کسی دوا کے ذریعے بدن میں کام کاج کے لئے توانائی پیدا کر دینا۔
آپ کے پیار کے دو بول، بچے کے کام کی تعریف، حوصلہ افزائی کی تھپکی، ہلہ شیری اس کے لئے Stimulation کا کام کرتی ہے۔
آپ نے یہ بھی نوٹ کیا ہوگا بعض اوقات کوچوان کی یہ Stimulation کام نہیں آتی اور وہ غصہ میں آکر تابڑ توڑ چابکیں ڈائریکٹ گھوڑے کے جسم پر برساتا ہے جس کے رد عمل میں (یعنی چابک کے پرائمری ایکشن کے نتیجے میں) گھوڑا کچھ دور تک تو خوب دوڑتا ہے لیکن بار بار کے ڈائریکٹ ایکشن سے تنگ آ کر اکثر اوقات احتجاجاً سرکشی پر اتر آتا ہے اور اس ردعمل کے نتیجہ میں دولتی بھی پڑ سکتی ہے اور تانگہ (الار) بھی ہو سکتا ہے۔
آپ مثال کے پہلے حصہ کو ہومیوپیتھک اور دوسرے کو ایلوپیتھک طریقہ کار سمجھ لیں۔ وائٹل فورس بھی دائریکٹ چابک پڑنے پر Irritate ہو جاتی ہے۔ سرکشی پر اتر آتی ہے۔

حاضرین کرام!
اگر غور کریں تو ایک ہومیوپیتھ کے لئے تین بنیادی اور سادہ اصولوں پر یقین رکھنا اور عمل کرنا بہت ضروری ہے اور وہ تین اصول کیا ہیں؟
۱ بیماری کا سبب اور علاج صرف Dynamic سطح پر ہے اور محض مادی سطح پر نہیں۔
۲ علامات بیماری کے اظہار کا ذریعہ ہیں نہ کہ (بذات خود) بیماری۔
۳ دوائیں صرف اسی صورت درست کام کرتی ہیں جب مریض کی جملہ علامات سے باالمثل ہوتی ہیں۔
اور یہ تین بنیادی اصول ہیں جنہیں ہانیمن نے آرگینن میں بہت واضح بیان کر دیا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آرگینن کو ہومیوپیتھی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ورنہ سب کچھ بہہ جائے گا اور کچھ باقی نہ بچے گا۔
کیونکہ نیا آرگینن لانے کے لئے ہمیں نیا ہانیمن چاہیے۔ نئے اصول و قوانین چاہییں، پرونگ کا نیا نظام چاہیے۔ جو ابھی تک اور مستقبل قریب میں کہیں نظر نہیں آتا کیونکہ ہانیمن جیسے لوگ روز روز تو پیدا نہیں ہوتے۔

حاضرین کرام!
آپ اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ روز مرہ پریکٹس میں مندرجہ بالا تینوں اصولوں کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ آپ کسی بھی ہومیوپیتھک سٹور پر چلے جائیں۔ ایک ایک پیکنگ میں نصف درجن یا اس سے کچھ زیادہ کے مرکبات بھرے ہوتے ہیں۔
فرض کریں ایک شخص کھانسی کا سیرپ خریدتا ہے اور اگر سیرپ میں موجود کوئی ایک دوا اس کی کھانسی میں موافق آتی ہے تو وہ ٹھیک ہو جاتا ہے (یہ ٹھیک ہونا بذات خود سوالیہ نشان ہے)۔ اگر وہ دوا اس سیرپ کا جزو نہیں ہے تو اس کی کھانسی ٹھیک نہ ہو گی اور وہ ہومیوپیتھی کو بے کار طریقہ علاج سمجھ بیٹھے گا۔ اور اگر فرض کریں اسے کمر درد بھی ہے اور بد ہضمی بھی تو وہ مزید دو Combinatin خریدے گا اور یوں بیک وقت بیس پچیس دوائیں استعمال کر رہا ہو گا۔ اندر جا کر یہ دوائیں اس کے جسم و جاں پر کیا کیا گل کھلاتی ہوں گی اس کا تو ہانیمن کو بھی پتہ نہیں ہو گا۔ اللہ ہی جانے۔۔۔۔
کیونکہ اس طرح ان کی پرونگ نہیں ہوئی۔ دوائیں مرکبات کی صورت دے کر وائٹل فورس کو امتحان میں ڈالنے اور پریشان کرنے والی بات ہوئی۔
اس صورت حال کو سمجھنے کے لئے فرض کریں ایک ایسا گھر جس میں بیک وقت کچھ مہمان داخل ہو رہے ہوں، اور عین اس وقت:
* اہل خانہ کی پڑوسیوں سے تو تکار چل رہی ہو،
* بھیک مانگنے والا دروازے پر کھڑا صدا لگا رہا ہو۔
* ڈاکیہ بے رنگ خط وصول کرانا چاہ رہا ہو۔
*محکمہ پولیس گھر کی تلاشی لینے پر بضد ہو،
*ٹیلیفون کی گھنٹی مسلسل بج رہی ہو،
* بچہ دودھ کے لئے چلا رہا ہو۔
* روئی توے پر پڑی ہو
تو اہل خانہ کا کیا حال ہو گا؟
کچھ ایسا ہی حال وائٹل فورس کا بھی ہوتا ہے جب ہم اسے بیک وقت بہت سی دواؤں کے سپرد کر دیتے ہیں۔
فرض کریں دس آدمی مل کر ایک شخص کو کمرے سے باہر نکالنا چاہتے ہیں۔ اور وہ دس کے دس بیک وقت اسے باہر نکالنے کے لئے زور لگا رہے ہیں لیکن ہر شخص الگ سمت میں اپنی مرضی کا زور لگا رہا ہے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟
جو ساتھی محنت سے جی چراتے ہیں ایسے مرکبات استعمال کرانا ان کی مجبوری ہو سکتی ہے بہرحال میرا یہ موضوع نہیں ہے۔
اور اگر فرض کریں وہ ایسے مرکبات کو اپنے جسم پر خوب آزمانے اور مایوس ہونے کے بعد کسی ہومیوپیتھ کی خدمات حاصل کرتا ہے تو ایک ماہر ہومیوپیتھ اس کی کیا مدد کر سکے گا کیونکہ ساری علامات گڈ مڈ اور کیموفلیج ہو چکی ہوں گی۔ ہم ہومیوپیتھس کو دوران علاج جو مشکلات پیش آتی ہیں ان میں Suppression بہت بڑی وجہ ہے۔ لوگ محض بیماریاں نہیں بلکہ بیماریوں کا مجموعہ Syndromes لئے پھر رہے ہیں۔
پنبہ کجا کجا نہد دامن تار تار شد۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بیشتر مریض علاج کا موقع ضائع کر کے ہومیوپیتھی کا رخ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے پبلک کو شناسا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ درست علامات کا فقدان ہوتا ہے۔
کیس میں درست علامات کا حاصل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ بعض اوقات اصل علامات دبی ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک خاتون جس نے I.U.D.رکھوائی ہوئی ہے۔اس کی Device نکلوا کر کچھ دن پلاسیبو دینا پڑے گی تاکہ اصل علامات ظاہر ہو جائیں۔
(Kent Minor Writings Page 62)
اگر ایک خاتون مانع حمل دوا لے رہی ہے تو علاج سے پہلے اسے دوا ترک کرنی ہو گی۔
روزمرہ پریکٹس میں ہمیں ایسے بہت سارے بچوں سے واسطہ پڑتا ہے جو ویکسی نیشن کے بد اثرات کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کو باالعموم تھوجا تجویز کی جاتی ہے۔ تاہم اگر تھوجا سے مثبت نتائج حاصل نہ ہوں تو بچے کو اس کی مزاجی دوا تجویز دی جائے۔ ہماری نظر میں مزاجی دوا ویکسی نیشن سے بدرجہ ہا بہتر ہے۔ بچوں میں ویکسی نیشن بڑا متنازعہ معاملہ ہے۔ انسانی صحت کے وسیع تر مفاد میں ضروری ہے کہ اس پر ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی کے درمیان تفصیلی اور سنجیدہ مکالمہ ہو۔

Suppression کی ایک اور مثال۔
فرض کریں ایک مریض آپ کے پاس آتا ہے اس کا گلا شدید درد کرتا ہے۔ درد بائیں جانب ہے اور چھوا جانا برداشت نہیں ہوتا۔ تکلیف گرم مشروبات سے بڑھتی اور ٹھنڈے سے کم ہوتی ہے۔ یہ علامات لیکسس کی ہیں۔ آپ لیکسس دیتے ہیں اور مریض فوری ٹھیک ہو جاتا ہے۔ چند ہفتے بعد دوبارہ وہی شکایت لے کر آپکے پاس آتا ہے اور ایسا بار بار ہو رہا ہے۔ اور یوں اگر آپ بار بار لیکسس دے کر اس کا علاج کر رہے ہیں تو یہ طریقہ کار درست نہیں ہے۔
کیوں؟
اس لئے کہ میازم تھیوری سے نا واقفی کی بنا پر آپ اس کی بیماری کو مزمن کی بجائے محض حاد سمجھ کر علاج نہیں کر رہے ہیں بلکہ Suppress ۔ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ درمیانی وقفہ میں جب حاد علامات غائب ہو چکی تھیں مریض کی جملہ علامات نوٹ کر کے انٹی سورک دوا دی جاتی۔ جیسا کہ ہانیمن نے کہا ہے کیونکہ ایسا اگر نہ کیا جائے تو مرض Suppress ہو جاتا ہے۔
جو ساتھی نوسوڈز کا بلا جواز اور کثرت سے استعمال کرتے ہیں وہ خوابیدہ میازم کو جگا دیتے ہیں۔
میازم تھیوری سے ناواقف ہومیوپیتھ بظاہر علامات پر نان میازمیٹک دوائیں دیتا رہتا ہے اور بار بار Palliation کرتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے مرض سو جاتا اور میازم جاگ پڑتا ہے۔ اسے کہتے ہیں!
کتے کو سلا دیا، بھیڑئیے کو جگا دیا۔
Suppression کا مطلب ہے کہ آپ قوت حیات کی حالت کا خیال کئے بغیر اس کی ویلفیر کا دھیان کئے بغیر زبردستی کچھ علامات غائب کر دیتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں دبا دیتے ہیں۔
مثلا کیڑے مار دوائیں دے کر کیڑے ختم کر دینا، آپریشن کر کے ٹانسلز کاٹ دینا، بواسیری مسوں کا کاٹ دینا۔ موہکے کاٹ دینا کریمیں لگا کر خارش کا روک دینا وغیرہ۔
کینٹ نے لکھا ہے فسچولا کے آپریشن کے بعد ٹی بی کا مرض لگ سکتا ہے اور اگر ایسا ہو تو دوا بربرس ولگیرس ہو گی۔ (حوالہ کینٹ لیکچرز)
T.P. CHATTERJEE نے کتاب Fundamentals of Homoeopathy میں لکھا ہے۔ اگر فسچولا کے لئے طویل مدت تک وقتی افاقہ پہنچانے والی دوائیں (Palliative) استعمال کرائی جائیں تو ٹی بی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور اگر برونکائٹس کے لئے جز وقتی دوائیں استعمال کرائی جائیں تو دمہ اور اس کے بعد ٹی بی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ palliation کے لئے ناممکن ہے کہ وہ بیماری کا جڑ سے خاتمہ کر سکے۔
Palliation صرف اسی صورت جائز ہے جب مرض ناقابل علاج ہو، جہاں اور کوئی چارہ نہ ہو اور مریض کی زندگی بچانا مقصود ہو اور اسے اذ یت ناک دردوں سے نجات دلانی ہو۔

ایلوپیتھک طریقہ علاج اور Suppression
دراصل جب علاج کی بات ہوتی ہے تو لوگوں کا ذہن فوراً علاج کا مطلب یوں لے لیتا ہے جیسے بخار کا علاج، جوڑوں کے درد کا علاج، کینسر کا علاج وغیرہ یا علامات اور شکایات کا نام و نشان مٹا دینا یا آپریش کر کے ناکارہ عضو کو نکال دینا یا جسم کے کسی عضو کو کسی دوسرے مصنوعی عضو سے بدل دینا جیسے Transplant وغیرہ۔ ایلوپیتھک سسٹم چونکہ Suppressionپر یقین نہیں رکھتا لہذا ان کے ہاں ایسا علاج درست علاج کہلاتا ہے۔ جبکہ عملی طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بے شمار فارماسسٹ اور ڈاکٹر حضرات چونکہ ایلوپتھک دواؤں کے مضر اثرات سے آگاہ ہوتے ہیں اس لئے اپنے اور اپنے بچوں کے لئے ایلوپیتھک دوائیں استعمال کرتے ہوئے گھبراتے ہیں اور اکثر ہومیوپیتھک علاج کو ترجیح دیتے ہیں۔
سرجری کے حوالے سے ایلوپیتھی کی بڑی تعریف کی جاتی ہے کہ یہ لوگ تشخیص کے حوالے سے جسم کا ذرہ ذرہ دیکھ سکتے ہیں (اور یہ حقیقت بھی ہے) اور ناکارہ دل گردوں کو کارآمد سے بدلنے کا دعویٰ کر تے ہیں۔ ایسا نعرہ بظاہر تو بڑا دلفریب اور مسحورکن محسوس ہوتا ہے لیکن کیا ان لوگوں نے کبھی اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ انہیں اس سٹیج پر جہاں دل گردے ناکارہ ہوئے، پہنچایا کس نے؟ کیا اسی Suppressive علاج کی بدولت ان کی یہ حالت نہیں ہوئی؟
شکریہ پرسش غم کا مگر اسرار نہ کر
پوچھنے والے یہ تیرا ہی کہیں راز نہ ہو

جو بے چارے مریض اس سٹیج پر آ پہنچتے ہیں آ پ ان کی ماضی کی ہسٹری پر غور کریں اور دیکھیں کے کتنے طویل ایلوپیتھک علاج کے بعد ان کی یہ حالت ہوئی ہے۔ اور کیا تبدیلی اعضاء سے انہیں آئندہ کے لئے دوا دارو سے نجات مل جاتی ہے؟ اور کیا ان کا مدافعتی نظام اس قابل رہ جاتا ہے کہ جسم کی حفاظت کر سکے؟ اس کے باوجود !
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
سرجری ایک ایسا شعبہ ہے جس کی کامیابیوں پر ایلوپیتھک سسٹم بہت ناز کرتا ہے۔ ہومیوپیتھی بھی اس پر زیادہ بحث نہیں کرتی نہ اس کی مخالفت کرتی ہے بلکہ ناگزیر حالات میں سرجری کی افادیت کی قائل ہے۔تاہم ہومیوپیتھک نکتہ نظر کے مطابق بے شمار کیسوں میں اگربروقت ہومیوپیتھک علاج کرا لیا جائے تو ناحق سرجری سے یقیناً بچا جا سکتا ہے۔سرجری پر زیادہ نازاں ہونے کی ضرورت نہیں۔ کامیاب سرجری کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ مریض دوبارہ سے پہلے کی طرح فعال ، توانا اور خوش و خرم زندگی گزار سکے گا۔
بیماری کو اگر ایک درخت سے تشبیہ دی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ایلوپیتھ(اور سرجن) اس کی شاخیں کاٹتے رہنے کو ہی علاج سمجھتے ہیں جب کہ ہومیوپیتھس اس کی جڑیں کاٹ کر اس کا ہمیشہ کے لئے قلع قمع کرتے ہیں۔
اور حاضرین کرام: یہ تو آپ جانتے ہیں کہ کسی بھی پودے یا درخت کی جتنی بار شاخیں کاٹی جائیں گی وہ دوبارہ اتنی تیزی سے پھیلے گا اور نشونما پائے گا۔
اور کیا کسی نے غور کیا ہے کہ ایسے آپریشن کے بعد مریض کے شب و روز کیسے گذرتے ہیں ؟
جو گذرتے ہیں داغ پہ صدمے
آپ بندہ نواز کیا جانیں
کیا انہیں متواتر ایسی دوائیں نہیں کھانا پڑتیں جو مسلسل ان کے دفاہی نظا م کو دباکررکھتی ہیں؟کیا ان کی کوالٹی آف لائف پہلے جیسی لوٹ کر آتی ہے یا کبھی نہیں آتی؟
جو لوگ ایلوپیتھک سسٹم کی تعریف میں رطب السان ہیںیہ وہ لوگ ہیں جو خوش قسمتی سے کسی مزمن، گہرے اور پیچیدہ مرض میں مبتلا نہیں ہوئے۔اورجنہیں ہسپتالوں کے چکروں میں پڑ کر جوتے گھسانے اور خوار ہونے کے تلخ تجربات سے نہیں گذرنا پڑا۔جن کے ہزاروں لاکھوں روپے ڈاکٹروں کی نظر نہیں ہوئے۔اللہ ہر کسی کو بچائے۔
دراصل مریض کو (باالخصوص مزمن امراض میں)جب بیماری کا نام تشخیص کر کے بتا دیا جاتا ہے تو بیمار لاشعوری طور پر یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ ڈاکٹر کو چونکہ بیماری کی سمجھ لگ گئی ہے لہذا اب علاج بہت قریب ہے۔اور اس حوالے سے درد کش ادویات بھی مریض کو حوصلہ عطا کرتی ہیں کیونکہ بیشتر مریض اس بات کا ادراک نہیں رکھتے کہPain killing اور علاج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ علاج کی منزل بتدریج دور ہوتی چلی جاتی ہے اور مریض پر نئی نئی بیماریوں کے لیبل لگتے چلے جاتے ہیں۔

ایلوپیتھک طریقہ علاج پر ایک دلچسپ سروے رپورٹ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اسے امریکی ڈاکٹر Issec Assimov نے 1978 میں شائع کیا۔ لکھتے ہیں ،
1976 میں لاس اینجلس کے ڈاکٹروں نے ہڑتال کر دی جومسلسل پانچ ہفتوں تک جاری رہی۔لہذا مریضوں کو دواؤں کے بغیر گزارا کرنا پڑا۔ ہڑتال شروع ہونے سے پہلے مریضوں میں مرنے کا ریٹ 19.2فی دس لاکھ تھا جو ہڑتال کے شروع دنوں ہی میں کم ہو کر 16.2 رہ گیا۔اور جب ڈاکٹر حضرات ہڑتال ختم کر کے اپنے سٹیتھو سکوپ کے ساتھ واپس آئے تو Death rate ایک دم جمپ کر کے 20.4پر چلا گیا۔
جب دو ملکوں کی فوجیں آپس میں لڑائی لڑتی ہیں تو ہر فوج سٹرٹیجی کے حساب سے ایک سے زیادہ دفاہی محاذ (حصار)بناتی ہے۔ تاکہ دوران جنگ اگر ایک محاذ پر شکست ہو جائے تو دوسرے محاذ کا دفاع مضبوط کر لیا جائے۔غلط طریقہ علاج سے مریض کی ظاہری علامات کو دبا دینا ایسے ہی ہے جیسے فوج کا فرنٹ لائن محاذ تباہ کر دیا جائے۔
روزمرہ مشاہدے میں یہ بات آتی ہے کہ ایک شخص جسے شروع میں نزلہ زکام یا چھینکیں آتی ہیں اور وہ حسب ضرورت کبھی پیناڈول، کبھی جوشاندہ اور کبھی کسی گھریلو ٹونے ٹوٹکے سے کام چلانے کی کوشش کرتا ہے یا کسی ڈاکٹر سے اینٹی باےؤٹکس یا اینٹی الرجک دوائیں کھا لیتا ہے اور یوں اس تکلیف سے چھٹکارہ حاصل کر لیتا ہے۔اوریوں اب اس کی روٹین بن جاتی ہے ادھر گلا خراب ہوا ادھرڈاکٹر صاحب سے دوا لے لی۔اس طرح مہینوں بلکہ سالوں گزر جاتے ہیں۔اب آہستہ آہستہ جسمانی دفاہی نظام کمزور ہوتا چلا جاتا ہے، مرض طاقت پکڑتا جاتا ہے اور ڈاکٹر صاحب قوی انٹی باؤٹکس کا کورس شروع کرا دیتے ہیں۔اور اگر ناک گلے وغیرہ کا (بظاہر)کامیاب علاج کر لیا جائے تو یہی مریض اب اعصابی سر درد ، دمہ یا نمونیہ کا شکار ہو جاتا ہے۔دمہ کے حوالے سے مریض Chest speciallist کے وارڈ میں داخل ہو جاتا ہے۔اور حسب ضرورت طویل المعیاد دوائیں استعمال کرتا رہتا ہے۔جس میں مختلف قسم کے سپرے ،Puff وغیرہ شامل ہیں ۔اول تو اس علاج کا کوئی اختتام ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مریض گردے کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اب اسے نیفرالوجی ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
گردے کا (کامیاب) علاج چل ہی رہا ہوتا ہے کہ دل کے مسائل پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں ۔اس موقع پر ماہر امراض قلب کا کردار سامنے آ جاتا ہے ۔ یوں ایک مریض بیک وقت کئی سپیشلسٹ حضرات میں تقسیم ہوتا چلا جاتا ہے۔وقت گزرنے پر اپنے نصیب کے مطابق کچھ مریض ڈایلسز مشین پر چلے جاتے ہیں کچھ دل کے بائی پاس پر، کچھ Stuntڈلوا لیتے ہیں اور کسی کے دل میں Pace-makerرکھ دیا جاتا ہے۔اگر زندگی مزید مہلت دے تو نفسیاتی امراض گھیرا ڈال لیتے ہیں اور مریض کو Psychiatry وارڈ میں داخل کر لیا جاتا ہے۔
اور مریض، جیتا ہوں اس طرح کہ غم زندگی نہیں، کی تصویر بنا ہوتا ہے۔
ایلوپیتھک سسٹم کا المیہ یہ ہے کہ نہ تو یہ مزاجی طریقہ علاج پر یقین رکھتا ہے اور نہ ہی اسے سمجھنے یا اس پر غور کرنے کو تیار ہے۔اس علاج کے آغاز کا تو ہر کسی کو علم ہے لیکن انجام کا کسی کو پتہ نہیں۔ اس سسٹم میں مریض کی وحدت کو نظرانداز کر کے اسے درجنوں حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اور اکثر ہر مرحلے پر مریض کے کامیاب علاج کا اعلان کیا جاتا ہے۔اور مریض مرحلہ وار ایک کامیاب علاج(؟) سے گزرتا ہوا دوسرے کامیاب علاج میں داخل ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایساعلاج جس کا کوئی اختتام نہیں کوئی منزل نہیں۔
یہ کیسا کارواں ہے کہ رواں ہے بے ارادہ!
امریکہ کے ایک معروف نان ہومیوپیتھک ڈاکٹر Walter M Bortz نے ایک کتاب لکھی ہے۔ جس میں لکھا ہے۔
We live too short and die too long.
آگے چل کر مزید لکھا ہے۔دوائیں کھانابے سود ہے۔اگر ایلوپیتھک علاج کے بارے میں کہا جائے کہ یہ Suppression کرتا ہے تو جواب ملتا ہے کون سی Suppressionہمارا کام بکٹیریا، وائرس کو Kill کرنا ہے سو ہم کامیابی سے ایسا کرتے ہیں۔لیکن حقائق یہ ہیں کہ بکٹیریا اور وائرس آئے دن اپنے آپ کو مزید Immuneکر رہے ہیں، مزیدطاقتور بنا رہے ہیں، اپنا دفاع مضبوط کر رہے ہیں لیکن اس رفتار سے اینٹی باےؤٹکس دریافت نہیں ہو رہی ہیں۔یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو اس وقت ایلوپیتھک سسٹم کو در پیش ہے۔
کیا وائرس یا بکٹیریا واقعی بیماری کااصل سبب ہیں؟ اور کیا انہیں مار دینے،ختم کر دینے سے واقعی بیماری ختم ہو جاتی ہے؟ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو بحث طلب ہے۔
یہاں ہم مختصراً Harris L Coulterکی کتاب AIDS And Syphilis- Hidden Linksکا حوالہ پیش کرتے ہیں۔یہ کتاب امریکہ میں 1989میں شائع ہوئی۔ مصنف کے مطابق شواہد اور اعدادوشمار اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ ایڈز پھیلانے کا سبب HIVوائرس ہے۔کیونکہ یہ وائرس ایڈز کے مریضوں کی نصف سے بھی کم تعداد میں پایا گیا۔اور جن مریضوں میں اس وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز پائی گئیں انکی تعداد دس سے بیس فی صد تھی۔
امریکہ کی نیشنل ایجنسی فار کنٹرول آف ڈی سیز(CDC)کی تحقیقات کے مطابق ایسے پیرا میڈیکل سٹاف جنہیں اپنی ڈیوٹی کے دوران اتفاقاًHIVوائرس سے آلودہ انجکشن کیسوئی چبھنے کا واقعہ ہوا، ان کے معائنہ کے دوران معلوم ہوا کہ 870ایسے لوگوں میں صرف چار کے خون میں وائرس موجود پایا گیا۔

ایک اور تحقیق کے مطابق 104 ایسے لوگ جن کے خون یا بلغمی جھلیوں کا ایڈز کے مریضوں کے خون سے اتصال ہوا ان میں کسی ایک کو بھی ایڈز نہیں ہوئی۔
ایک تیسری تحقیق کے مطابق چار خواتین کو مصنوعی طریقہ سے ایسے سپرم سے حاملہ کیا گیا جو ایڈز کے مریضوں سے حاصل کیا گیا تھا۔ چاروں کے ہاں ایڈز فری صحت مند بچوں نے جنم لیا۔
بیکٹیریا اور وائرس کو بن بلائے مہمان نہ سمجھا جائے۔یہ ہر دروازے پر بلا تمیز دستک نہیں دیتے۔
قدرت کے آفاقی قوانین ہر جگہ یکساں لاگو ہوتے ہیں۔بیکٹیریا یا وائرس پر جسمانی دفاعی نظام کو نقصان پہنچانے کا ناحق الزام لگایا جاتا ہے۔
جب مریض کوایلوپیتھک دوا دی جاتی ہے ،اگر دوا طاقتور ہے تو وہ اندر جا کرعلاج باالضد کے تحت غیر مشابہ بیماری پیدا کرتی ہے اور یوں قدرتی بیماری دب جاتی ہے۔ اور فزیشن خوش ہو جاتا ہے کہ مرض کو کنٹرول کر لیا گیاہے۔ لیکن اگر (خوش قسمتی سے) مریض کی وائٹل فورس طاقتور ہے تو کچھ عرصہ بعد وہ قدرتی بیماری کو پھر سے سامنے لے آتی ہے۔ جس پر فزیشن فتویٰ دیتاہے کہ مریض Drug Resistant ہے لہذا مریض کو پہلے سے قوی اینٹی بائیوٹک دوا تجویز کر دی جاتی ہے۔دوسرے فزیشن کی نسبت ماہر امراض جلد اورگائناکالوجسٹ کا کردار مرض کو Suppress کرنے میں زیادہ ہے ۔ کیونکہ ان کے ہاں لوکل اور خارجی علاج زیادہ ہے۔ مثلاًماہر امراض جلد کے ہاں چنبل کے علاج کے لئے زنک مرہم ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے مرض بہت گہرائی تک Suppress ہو جاتا ہے۔ اور مریض تشویش اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتاہے۔
ایلوپیتھک سسٹم میں علامات دور کرنا یا لیب رپورٹس کی روشنی میں مرض کو ٹھیک کرنامقصود ہوتا ہے۔ مثلاً جلد پر خارش ہے دانے ہیں تو مختلف کریمیں استعمال کرانے پر خارش اور دانے ختم ہو جاتے ہیں بعد میں اگر اس مریض کو گردے میں انفکشن ہو جاتی ہے تو انٹی بائیوٹکس دیکر انفکشن کو ٹھیک کر دیا جاتا ہے۔ اور اگرآرتھرائٹس ہو جاتا ہے تو کارٹیزون تھراپی سے اس کی دردیں دور کر دی جاتی ہیں ۔ بعد میں اسے بلڈ پریشر ہو جاتا ہے تو بلڈ پریشر کم کرنے کی دواؤں پر لگا دیا جاتا ہے۔ اور یوں اگر اسے ڈیپریشن ہو جائے تو اینٹی ڈیپریشن دوائیں اور Tranquilizar پر لگا دیا جاتا ہے۔ان کے ہاں انفرادیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ہومیوپیتھک نقطہ نظر سے یہ سب Suppression کے زمرے میں آتا ہے۔ کارٹیزون کے استعمال سے Suppression کے نتیجے میں Ulcerative colitis, Chron’s Disease, Rheumatoid Arthrits, Lupus جیسی بیماریاں لگ سکتی ہیں۔
درد کش دوائیں سب سے زیادہ Suppresion کرتی ہیں۔یہ وائٹل فورس کی حساسیت کو (جس کی بنا پر یہ بیماری کے خلاف جدوجہد کرتی ہے)کم کر دیتی ہیں۔
حوالہ A Collected Works.
ایلوپیتھک سسٹم اس بات پر پقین ہی نہیں رکھتا اور نہ اس کا علاج کرتا ہے کہ کوئی Physical Trigger بھی Suppression کا باعث بن سکتاہے۔ مثلاً ان کے تشخیصی کتابچے (MANUAL)میں پاؤں بھیگ جانے سے حیض کا رک جانا (دب جانا)شامل نہیں ہے۔ لہذا انکے ہاں اس کا علاج بھی نہیں ہے۔
ایلوپیتھک طریقہ علاج اور ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے۔کہ وہ لوگ Field of Toxicology سے بحث کرتے ہیں۔جب کہ ہومیوپیتھی میں فیلڈ آف Symptomalogy پر بحث ہوتی ہے جو Toxicology یعنی بیماری کے ظاہر ہونے سے قبل ظاہر ہوتی ہے۔لہذا بیماری کے خلاف نبرد آزما ہونے میں دونوں طریقوں میں جو فرق ہے اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ اول الذکر سسٹم لڑائی میں اس وقت تک شامل نہیں ہوتا یا جنگ کا خطرہ محسوس نہیں کرتاجب تک کہ دشمن اس پر مکمل تیاری سے حملہ نہ کر دے اور اس کی فوجوں کو نقصان پہنچا کر اس کے کسی حصہ پر قبضہ نہ کرلے۔یعنی لڑائی سے پہلے جب دشمن تیاریاں کر رہا ہوتا ہے، سرحدوں پر اس کی فوجوں کی نقل و حرکت ہو رہی ہوتی ہے، فضائی خلاف ورزیاں ہو رہی ہوتی ہیں، زبانی کلامی بیان بازی ہو رہی ہوتی ہے ، یہ اسے چنداں اہمیت نہیں دیتا۔ہنوز دلی دوراست کے مصداق اس کے راڈار اور انٹینیاایسے خطرات کا کوئی نوٹس نہیں لیتے۔جب کہ آخرالذکر (ہومیوپیتھی)زمانہ امن ہی میں دشمن کی خفیہ چالوں پر گہری نظر رکھتا ہے اور اس بات کا رسک نہیں لیتا کہ دشمن کے پہلے وار کا انتظار کرے بلکہ اس سے پہلے کہ دشمن اپنی پوری قوت سے حملہ آور ہو،وار کر دیتا ہے۔ماڈرن اصطلاح میں آپ اسے Preemptive Strike کہہ سکتے ہیں۔
فرض کریں آپ نے دشمن کو مارناہے۔آپ کے پاس بندوق بھی ہے اور ہینڈ گرینیڈ بھی۔آپ دونوں طریقوں سے مار سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ بندوق سے ماریں گے تو آپ کو نشانہ باندھنا ہو گا۔ارادہ کرنا ہو گا، احتیاط کرنی ہو گی کہ نشانہ خطا نہ چلا جائے۔اور اگر آپ ہینڈ گرینیڈ پھینکتے ہیں تو زیادہ نشانہ بازی کی ضرورت نہیں۔ہینڈگرینیڈ خود ہی بہت کچھ کر لے گا۔اور عین ممکن ہے کہ دو چار پاس کھڑے غیر متعلق لوگوں کو بھی اڑا دے۔ پہلا طریقہ علاج ہومیوپیتھک جبکہ دوسرا ایلوپیتھک بنتا ہے۔ فیصلہ خود کر لیں کہ کون سا اچھا ہے۔ایلوپتھک دواؤں سے جو Suppression ہوتی ہے اسے دور کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہی دوا200 پوٹنسی میں ہفتہ وار بنیادوں پر مریض کو دہرائی جائے۔ اور اگر اس سے فائدہ نہ ہو تو حالات اور علامات کے مطابق Aloe, Car/veg, Sul., Nux/vom, Sep.,Thuj, میں سے کوئی مناسب دوا استعمال کرا کر دوبارہ کیس لیں اور علامات اکھٹی کریں۔ یا ایسی علامات جو مریض میں ایلوپیتھک دواؤں کے استعمال سے پہلے موجود تھیں آپ ان کی بنیاد پر بھی دوا تجویز کر سکتے ہیں۔

Luc. De. Schepper نے لکھا ہے۔آج سے پچاس سال پہلے بچوں میں ناک بہنے کاسستا، فوری اور بے ضررعلاج موجودتھا جس کے کوئی مضر اثرات بھی نہ تھے۔ وہ یہ کہ جوں ہی ناک بہتی بچے فوراً اپنی آستین سے صاف کر دیتے۔ آ ج ہم ان کی ناک میں سپرے کرتے ہیں۔ انٹی بائیوٹکس انٹی الرجک کا فوری کورس کرواتے ہیں اور یوں ہم انہیں کھانسی برونکائٹس اور پھر دمے کے حوالے کر دیتے ہیں۔کینٹ نے ایسے ہی اخراج کوصحت مندانہ نشانی لکھا ہے لیکن!
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ ۔
ہم ذرا سے نزلہ زکام کو چوبیس گھنٹے دینے پر بھی تیار نہیں۔ ذرا صبر کرنے پر تیار نہیں۔
یاد رکھئے!
Suppression جب بھی ہو گی بیماری پہلے سے زیادہ قوی اور خطرناک ہو گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ درست ہومیوپیتھک علاج کیا ہے؟
* ایسا علاج جس میں مریض کو طاقت ور اور بیماری کو کمزور کیا جائے۔
* ایسا علاج جس سے سکون اور شانتی نصیب ہو۔اطمینان قلب ہو اور نفس مطمئن ہو۔
* ایسا علاج جس کے توسط سے ذہنی، جذباتی اور جسمانی سطح پر ہم آہنگی(harmony) پیدا ہو جائے۔
جس طرح آواز کی ہارمونی موسیقی میں ہے، ماحول کی ہارمونی خوشی میں ہے، معاشرے کی ہارمونی امن میں ہے اسی طرح جسم و جاں اور قوت حیات کی ہارمونی صحت میں ہے۔اور یہ ہارمونی قوانین قدرت کا اٹوٹ انگ ہے۔
مثبت سوچ، نیک عمل اور سیدھی راہ پر چلے بغیر ہارمونی کا تصور محال ہے۔
صحت محض بیماری کی غیر موجودگی کا نام نہیں ہے۔
درست ہومیو پیتھک علاج کا مطلب قوت حیات کو ابنارمل کارکردگی سے نارمل کارکردگی میں واپس لانا ہے۔
جارج وتھالکس نے صحت کی یوں تعریف کی ہے:
Freedom from limitation of freedom.
آرگینن پیراگراف 3 ۔کے مطابق ایک ہومیوپیتھ کو بیماری کا درست علم ہونا چاہیے۔اور اسے یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اس نے کیا حکمت عملی اختیار کرنی ہے ،نیز شفا یابی کے راستے میں جو رکاوٹیں آنی ہیں انہیں کیسے دور کرنا ہے۔
ہر وہ تھیوری جسکی پشت پر پریکٹیکل ثبوت نہ ہو رد کر دیں۔ ہانیمن نے خود بہت ساریتھیوریاں پیش کیں لیکن اس نے عملاً انہیں سچ کر دکھایا۔ہانیمن نے اپنے ہم عصروں کو چیلنج کیا کہ میری دوائیں اپنے کلینک میں آزمائیں اور خود تجربہ کریں آیا یہ کام کرتی ہیں یا نہیں۔ بے کار الزام تراشی کا کیا فائدہ۔

کینٹ نے Lesser writings صفحہ 429پر لکھا ہے۔تجربہ کار ہومیوپیتھ ببخوبی آگاہ ہیں کہ ٹانسلز کا پھول جانا، دل کا بڑھ جانا، جگر کا سکڑ جانا، شوگر یا چھاتیوں کا کینسر وغیرہ بیماریوں کے نام پر کوئی ایسی دوا (یا دوائیں)نہیں ہے جو مریض کو شفایابی سے ہمکنار کر سکے۔ ایسے ناموں پر تجویز کی گئی دوائیں ممکن ہے مریض کو جز وقتی سکون عطا کر دیں لیکن شفایابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
فرض کریں ایک بچہ ہے اسے جب بھی ٹانسلز کی شکایت ہوتی ہے آپ سے دوا لیتا ہے تو اس کے ٹانسلز ٹھیک ہو جاتے ہیں اور ایسا نہ صرف گذشتہ10 سال سے ہو رہا ہے بلکہ پوری فیملی ایک مدت سے سارے بچوں کے ٹانسلز کی دوا آپ ہی سے لیتی ہے۔اور آپ اسے اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں!کیا یہ بات باعث تعجب نہیں ہے؟
سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا آپ ان کا ہومیوپیتھک علاج کر رہے ہیں یاعلاج کے نام پہ بار بار Suppression کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ایسے موقع پر اکثر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ریذلٹس ملتے ہیں۔اگر آپ ریذلٹس کی بات کرتے ہیں تو کوئی شک نہیں ریذلٹس تو آپکو مل رہے ہیں کیونکہ مریض کی شکایت یا شکایات رفع ہو جاتی ہیں۔ وہاں بھی ٹانسلز کے مریض سالوں زیر علاج رہتے ہیں اور آپکے ہاں بھی اگر ایسا ہی ہوتا ہے تو دونوں میں فرق کیا ہوا؟
المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بیشتر ہومیوپیتھس کا کردار ایسا ہے جیسے Luc.De. Schepper نے کہا ہے۔
Talking Homoeopathy and Walking Allopathy
یہ لوگ ہومیوپیتھک دواؤں کو ایلوپیتھک سٹائل سے استعمال کراتے ہیں۔ اور ہوتا وہی ہے جو ایلوپیتھک وے میں ہوتا ہے۔ وہاں بھی آرام آتا ہے۔ یہاں بھی آرام آتا ہے۔وہاں بھی مر ض دب جاتا ہے، یہاں بھی دب جاتا ہے۔وہاں بھی مریض کی ڈاکٹر سے جان نہیں چھوٹتی یہاں بھی نہیں چھوٹتی۔ تو فرق کیا ہوا؟
آپ تیل اور پانی کو آپس میں مکس نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ1912 میں امریکن انسٹیٹوٹ آف ہومیوپیتھی کے فیلڈ سیکریٹری نے کہا۔
“You cannot mix oil and water.”
مثلاً ایسے ہومیوپیتھ حضرات جو وزن کم کرنے کیلئے لوگوں کو فائٹولاکا کے گیلن پلا رہے ہیں اور فائٹولاکا ٹیبلٹس کی درجنوں بوتلیں کھلا دیتے ہیں کاش انہیں سمجھ ہوتی ، یا اگر انہیں سمجھ ہے تو کاش ان کا ضمیر زندہ ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا اور ان کے نزدیک ہومیو پیتھی کسی بزنس کا نام نہ ہوتی تو وہ مریضوں پرکبھی ایساظلم نہ کرتے۔ کیونکہ کینٹ نے کہا ہے ایک ہومیوپیتھ جس میں ضمیرنام کی کوئی شے نہیں ہو، ہومیوپیتھی اس کے لئے بڑا نفع بخش کاروبار ہے۔
دلیل یہ دی جاتی ہے کہ فائٹولاکا سے وزن کم ہوتا ہے۔ واقعی ہوتا ہوگا اور کیوں نہ ہو ۔کیا آپ نہیں جانتے کہ فائٹولاکاانٹی سفلس، انٹی کینسر دوا ہے!آپ ایک طرف اس کا وزن کمکر رہے ہیں اور دوسری جانب اسے سفلس میازم کے حوالے کر رہے ہیں۔
اسی لئے تو کینٹ نے نیٹرم میور کے بیان میں لکھا ہے،
Homoeopathic failures are the worst failures on earth.
ہمارے ہاں بے شمار دوائیں بلاجواز استعمال کی جاتی ہیں۔جس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔
اسی طرح بچوں کے دانت نکالنے کے لئے ایک نمبر بڑا مشہور ہے۔خوب چلتا ہے۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ کیلشیم کی کمی کا شکار ہے؟ کیا وائٹل فورس نے آپ سے فالتو کیلشیم کی اپیل کی ہے؟

حاضرین کرام!
یہ وہ صورت حال ہے جس پر آج ہم بات کر رہے ہیں کہ :
*Suppression کیا ہے؟
*کیوں ہوتی ہے؟
*اور اس سے کیسے بچا جا سکتاہے؟
یہاں ہم ایک بچے کا دمہ کا کیس فرض کر لیتے ہیں۔ جو آپکے پاس زیر علاج ہے ۔ آپ اس کا علاج کرتے ہیں چاہے سنگل ڈوز، سنگل پوٹنسی یا multipleدواؤں سے یہ بعد کی بات ہے۔آپ کے علاج سے بچے کو چھ ماہ سے دمہ کا آرام ہے۔ بچے کے والدین بھی خوش آپ بھی خوش۔ لیکن اچانک چھ ماہ بعد اسے دمہ کا اتنا شدیددورہ پڑتا ہے کہ ہومیوپیتھک دواؤں سے کنٹرول ہی نہیں ہوتا اور اسے ہسپتال میں داخل کرانا پڑتا ہے۔Nabulizerلگانا پڑتا ہے۔ آکسیجن دینا پڑتی ہے۔ ایسا کیوں ہوا ؟ ہومیوپیتھ والدین کوقصوروار ٹھہراتا ہے ۔ ضرور بدپرہیزی ہوئی ہوگی۔ بچے نے ٹھنڈے پانی سے نہالیا ہو گا۔ پیپسی پی لی ہو گی۔مالٹا چوس لیا ہو گا۔ والدین بھی سن کر چپ ہو جاتے ہیں۔ شاید بچے نے چپکے سے کچھ کھا لیا ہو۔ والدین کو چپ کرانے کی بات تو الگ ہے۔شاید اس طرح آپ اپنا بھرم رکھنے میں کامیاب ہوجائیں۔ لیکن آپ سوچیں اور غور کریں کہیں کوئی غلطی، کوئی بلنڈر تو نہیں ہوا؟
آپ نوٹ کریں!
* کیا اس کی بھوک پیاس نارمل ہے؟
* کیا اسکی نیند پر سکون ہے؟
* کیا اس کا کام کاج میں جی لگتا ہے۔ ہشاش بشاش ہے۔Active ہے؟
* پڑھائی لکھائی میں اچھاجا رہا ہے۔ سبق ٹھیک سے یاد ہوتا ہے؟
اور اگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے تو چاہے آپ نے اس کی دردیں دور کی ہیں۔ چھینکیں بند کی ہیں، ٹانسلز ٹھیک کئے ہیں ، لیکوریا روکاہے یا دمہ اس کی کچھ اہمیت نہیں ۔کیونکہ آپ نے مریض کو ٹھیک نہیں کیا ہے۔ آپ نے مکین کو نظر انداز کر کے مکان پر توجہ دی ہے ۔آپ اصل کو چھوڑ کر نقل کے پیچھے لگ گئے ۔آپ نے وائٹل فورس کو ایک کی غلامی سے چھڑاکر دوسرے کی غلامی میں دے دیا ہے۔ آپ نے Suppression کی ہے۔آپ نے محض علامات دور کرنے کو علاج جانا۔
آپ نے ہمیں انگریزوں کی غلامی سے نکال کر ان کے غلاموں کی غلامی میں دے دیا(بہرحال یہ جملہ معترضہ ہے)
مریض حیران ہے۔
*ہمیں تلاش تھی جسکی یہ وہ سحر تو نہیں*
یہ سمجھ بیٹھنا کہ ہومیوپیتھک علاج علامات دور کرنے کا نام ہے اتنا ہی گمراہ کن ہے جتنا کوئی یہ سمجھے کہ فائر الارم شور پیدا کرنے کا آلہ ہے۔لیکن فائر الارم جب شور پیدا کرتا ہے تو ہم اسے بند کرنے کی بجائے فوراً اس ممکنہ آگ کی طرف توجہ کرتے ہیں جو اس شور کا سبب ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ ہمارا جسم جب کسی حادثہ، کسی ایمرجنسی میں علامات کی صورت الارم بجاتا ہے تو ہم فوراً الارم آف کر دیتے ہیں۔
کیا ہمارا یہ رویہ عجیب نہیں ہے؟
کیا ایسا ردعمل قوانین فطرت کی خلاف ورزی نہیں ہے؟
آپ کا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو گھر کی رکھوالی کے لئے رکھے گئے کتے کو محض اس بنا پر گولی مار دے کہ رات کو بھونکتا ہے۔نیند میں خلل ڈالتا ہے۔
یاد رکھئے! بیماری کبھی ایک علامت کے ساتھ نہیں آتی اور کسی ایک علامت کا دور کر دینا شفا یابی نہیں ہوتا۔ اور یہ بات ایچ اے رابرٹس نے کہی ہے۔
ہانیمن نے ہمیں مجموعہ علامات پر سنگل ریمیڈی دینے کو کہالیکن ہم سنگل علامت پر مجموعہ ادویات دے ڈالتے ہیں۔ اور جب پھنس جاتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں۔ اندھیرے میں ٹامک ٹویاں مارتے رہتے ہیں۔اسے کہتے ہیں ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔
جو ساتھی بیماریوں کے حوالے سے بعض دواؤں کو ذہن میں بٹھا لیتے ہیں غلطی کر جاتے ہیں۔مثلاً ای اے فیرنگٹن نے دوا کالی برومیٹم کے حوالے سے لکھا ہے۔”کالی برومیٹم کو’’ مرگی کی دوا‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ اس نے کبھی مرگی کا کوئی کیس ٹھیک کیا ہو۔البتہ اسنے مرگی کے کیس دبائے ضرور ہیں۔اور نہ صرف دبائے ہیں بلکہ مریض کو پہلے سے ابتر حالت میں پہنچایا ہے۔

ڈاکٹر ایچ سی ایلن نے جب اپنی کتاب کلیدی علامات (Key Notes)لکھی تو اس کے دیباچہ میں لکھا۔ یہ کتاب میں نے قابل، اہل علم اور فہم و فراست کے حامل ڈاکٹر حضرات کے لئے لکھی ہے۔تاکہ انہیں درست دوا کی شناخت میں واضح رہنمائی مل سکے۔
کتاب لکھتے وقت ڈاکٹر صاحب کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ بعد میں آنے والی نسلیں اس کتاب کی نقل میں ٹونے ٹوٹکوں کا ڈھیر لگا دیں گی۔ آج حالت یہ ہے کہ مارکیٹ ایسی کچرا ٹائپ کتابوں سے بھری پڑی ہے۔ ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔مثلاً دائیں کان کے درد کی فلاں دوا ہے اور بائیں کی فلاں۔جنسی کمزوری ہے تو لائیکوپوڈیم اور جسمانی ہے تو الفالفا۔ ایسے سارے نسخے گمراہ کن ہیں۔ جسے دیکھو بابائے ہومیوپیتھی بنا ہوا ہے۔ لہذا
مشتری ہوشیار باش۔
ایسے ساتھی جن کا علم اور تجربہ ابھی کم ہے اگر وہ محض کلیدی علامات کا سہارا لیکر دوا تجویز کرتے ہیں تو بیماری کے دب جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔کم علمی کے ساتھ کلیدی علامات سے کھیلنا ایسے ہی ہے جیسے کسی بچے کے ہاتھ میں تیز دھارآلہ دے دیا جائے۔
دواؤں کا شافی علم حاصل کئے بغیرکلیدی علامات کے استعمال سے آپ کے ساتھ بھی ویسی ہی پریشان کن صورت حال پیش آ سکتی ہے جو اس سٹوڈنٹ کے ساتھ پیش آئی جو زووالوجی کا پرچہ دے رہا تھا۔سوالیہ پرچے میں کچھ جانوروں کے گھٹنے تک ٹانگوں کے خاکے دےئے گئے تھے اور پوچھا گیا تھا کہ ان خاکوں کی مدد سے جانوروں کے نام معلوم کریں۔ طالبعلم بڑا پریشان ہوا اور اس نے پرچے پر یہ لکھ کر کہ زندگی میں اس سے خراب پرچہ میں نے کبھی نہیں دیا، پرچہ واپس کر دیا۔ ممتحن نے اس کا خالی پرچہ دیکھتے ہوئے کہا، بیٹا تم تو فیل ہو گئے ہو، تمہارا کیا نام ہے؟ لڑکے نے اپنی پتلون دونوں ٹانگوں پرگھٹنوں تک اوپر اٹھاتے ہوئے جواب دیا۔ ٹانگیں دیکھ کر نام معلوم کرلیں ۔
لہذا امتحان کی تیاری نہ ہو تومحض ٹانگیں دیکھ کر نام معلوم نہیں کئے جا سکتے۔(میٹریا میڈیکا کی تیاری نہ ہو تو محض کلیدی علامات دیکھ کے دوا معلوم نہیں کی جا سکتی)۔
کینٹ Minor writingsصفحہ 394 پر لکھا ہے۔کلیدی علامات کی اگرچہ اہمیت ہے اور انہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن جب تک آپ میٹیریا میڈیکا کا علم حاصل نہیں کرپاتے۔ جب تک آپ جنرل اور عضویاتی علامات کے باہم تعلق کا ادراک نہیں کر پاتے محض کلیدی علامات پر بھروسہ کرنے سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔
دوا کے انتخاب کے معاملے میں اگر بالمثل کا سو فی صد یقین نہ ہو تو ہائی پوٹنسی کا استعمال نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ایسے موقع پر نچلے درجے کی پوٹنسی استعمال کرائیں۔اوراگر بالمثل کا سو فی صد یقین نہ ہو تو خطرناک دواؤں مثلاً فاسفورس،سلیشیا،لیکسس وغیرہ کے قریب جانے سے اجتناب کریں۔ایسی دوائیں (بلاجواز استعمال پر)مریض کو اس کی جڑوں سے ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔لہذا!
“HANDLE WITH CARE”
نچلے درجے کی پوٹنسی استعمال کرنے سے،
* Aggravation شدید نہیں ہو گی۔
* Suppressionزیادہ نقصان دہ نہیں ہو گی۔
* مزید ہائی پوٹنسی استعمال کرانے کے امکانات رہیں گے۔
ہومیوپیتھک علاج سے Suppression کیوں ہوتی ہے؟

بیشتر ساتھیوں کو ادراک نہیں ہے کہ ہومیوپیتھک دوائیں بھی Suppression کرتی ہیں۔ یہ بھولے ساتھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہومیوپیتھی فائدہ نہ کرے تو نقصان بھی نہیں کرتی ۔بہت کم ہومیوپیتھ ہیں جو دوران علاج ہیرنگ لاء کا خیال رکھتے ہیں۔ یا اگر وہ خیال رکھنا بھی چاہتے ہیں تو باالمثل دوا کا انتخاب نہیں کر سکتے،بلا جواز دہراتے رہتے ہیں۔
بعض ہومیوپیتھس ساتھیوں کی روٹین ہے کہ وہ مزمن امراض میں اس وقت تک ہائی پوٹنسی دوا دہراتے چلے جاتے ہیں جب تک کہ دوا کا ایکشن ظاہر نہ ہو جائے۔ایسی اپروچ درست نہیں ہے۔ ایسے طرزعمل سے Suppression ہوتی ہے۔
حوالہ:انٹرنیشنل کانگرس، جولائی 1911 ۔The repetition of the remedy
اگر ٹائیفائیڈ علاج کے بعد مریض کمر درد کی شکایت کرے یا اس کے بال گرنا شروع ہو جائیں تو یہ بھی Suppression ہے۔
دیکھنے میں آ یا ہے کہ بعض مریض اپنا علاج خود کرتے ہیں ۔اس سے بھی Suppression ہوتی ہے۔بعض ساتھیوں نے Self medication کے حوالے سے کتابیں بھی لکھی ہیں۔ایسا شاید انہوں نے نیک نیتی کے ارادہ سے کیا ہو۔لیکن میری ذاتی رائے میں خودکردہ علاج خطرہ سے خالی نہیں۔ہمیں عوام کو ایسے علاج کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کرنا چاہیے۔انسانی مشینری میں ہاتھ ڈالنا بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔
الزبیتھ رائٹ نے کتاب’’ ہومیوپیتھی آرٹ اینڈ سائنس‘‘ میں لکھا ہے۔بعض لوگ چھوٹی موٹی شکایات پر ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے فارمیسی سے خود ہی دوا خرید کر کھا لیتے ہیں۔ایسا کرناخطرہ سے خالی نہیں۔جو لوگ ایسا رویہ اپناتے ہیں وہ خواہ مخواہ اپنی بیڑی دواؤں کی ’’گھمن گھیری‘‘ میں پھنسابیٹھتے ہیں۔اور شفایابی کی منزل سے بھٹک جاتے ہیں۔
درست، مزاجی یا باالمثل دوا اس وقت تک تجویز نہیں کی جا سکتی جب تک آپ باقی شرائط کو پورا نہیں کرتے۔ مثلاً میٹریا میڈیکا کا علم، بیماریوں کا علم ،ہومیوپیتھک فلاسفی کا علم۔
ہومیوپیتھک فلاسفی کو سمجھے بغیر میٹریا میڈیکا کے استعمال کی مثال یوں ہے جیسے کوئی شخص اندھیری رات میں بغیر ہیڈ لائٹس کے گاڑی چلانے کی کوشش کرے۔
جیسا کہ احمد فراز نے کہا:
فراز ظلم ہے اتنی خود اعتمادی بھی
کہ رات بھی تھی اندھیری چراغ بھی نہ لیا
امریکن ڈاکٹرA.H.GRIMMER نے Collected Works میں لکھا ہے۔ کامیاب نسخہ دوا تجویز کرنے کے لئے ضروری ہے کہ میٹریا میڈیکا کا استعمال ہومیوپیتھک فلاسفی کی روشنی میں کیا جائے۔تاکہ فزیشن کو مستقبل میں بھی رہنمائی ملتی رہے۔ بیمار ی ، فزیالوجی اور پتھالوجی کے علم کے ناپختہ ہونے کے سبب ہم نہیں جانتے کہ جسم میں کون سا عضو زیادہ اہم ہے اور کون ساکم اہم۔
کینٹMinor writings صفحہ715 میں لکھا ہے ۔بیماری کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ کو غلط کی پہچان نہیں ہوگی تو آپ درست کا انتخاب کیسے کر سکیں گے؟
آپ کو بے ایمان کی پہچان نہیں ہو گی تو آپ دیانت دار کو کیسے پہچان سکیں گے؟
ہمارے گاؤں کے ایک سکول ماسٹر صاحب تھے ریٹائر ہونے کے بعد دکان یعنی ہٹی کھول لی۔ بزنس کا تجربہ تو تھا نہیں جو آتا ادھار لے جاتا اور پھر واپس نہ کرتا۔تھوڑے ہی دنوں میں چھابے خالی ہو گئے۔ ماسٹر جی نے خالی ٹین ڈبوں کی طرف حسرت سے دیکھتے ہوئے اورٹھنڈی آ ہ بھرتے ہوئے کہا۔ سودا تو مک گیا(ختم ہو گیا) پر بے ایمان کی پہچان ہو گئی۔لہذا دیانت دار کی پہچان کے لئے لازمی ہے کہ آپ کو بددیانت کی پہچان ہو۔
ڈاکٹرپروفل وجیاکر نے Suppression کے حوالے سے اپنی شروع پریکٹس کے سالوں میں سے نمونے کے کچھ کیس لکھے ہیں۔
۱۔ ایک ساٹھ سالہ خاتون جو گذشتہ پندرہ برس سے اعصابی درد میں مبتلا تھی۔ میرے علاج سے ٹھیک ہو گئی۔ بہت ساری دواؤں کے استعمال کے بعد جب کچھ نتیجہ نہ نکلا تو بالآخر
Iris vers IM دن میں تین بار مسلسل تین ماہ کے لئے استعمال کرائی گئی۔خاتون تین ماہ تک بالکل ٹھیک رہی لیکن آہستہ آہستہ اسے ایک ہاتھ میں رعشہ کی بیماری شروع ہوئی جو بتدریج پھیلتی پھیلتی پارکنسن (Parkinsons) مرض میں تبدیل ہو گئی اور اب گذشتہ 15 سال سے وہ نیم مردہ حالت میں بستر پر پڑی ہے۔

۲۔ ایک اور خاتون جس کے سر کے بال اڑ گئے تھے میرے علاج سے اس کا سر بالوں سے بھر گیا اور علاقے میں میری بڑی واہ واہ ہوئی۔بڑی تعریفیں ہوئیں۔ دور و نزدیک سے میرے پاس بے شمار مریض آنے لگے۔ سر کے بال اگانے کے لئے اسے Vinca minor 200 مسلسل6 ماہ تک استعمال کرائی گئی۔جانتے ہیں کیا ہوا؟ سر کے بال تو اگ آئے لیکن خاتون کو چھاتی کا کینسر اور وہ مر گئی۔
کینٹ کہتا ہے دکھ اس بات کا نہیں کہ آپ کی دوا سے مریض مر گیا بلکہ دکھ تو اس بات کا ہے کہ آپ کی دوا سے مریض مر جاتا ہے اور آپ یہ جان ہی نہیں پاتے کہ آپ کی دوا سے مرا ہے! (دیکھئے کینٹ لیکچرز ۔ہیپر سلفر کا بیان)
ڈاکٹر جے سی برنٹ نے کتاب جلدی امراض میںSuppressionکے حوالے سے ایک بچے کا کیس لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
1880 کے آخر میں میرے پاس جنوبی انگلینڈ سے بصارت سے محروم ایک چار سالہ بچے کو لایا گیا۔ معلوم ہوا کہ شروع دو سال تک بچے کی نظر ٹھیک تھی ۔اس کے بعد اسے پہلے دائیں پھر بائیں آنکھ میں موتیا اترا اور اپنی عمر کے تیسرے سال میں بینائی کھو بیٹھا۔ہسٹری لینے پر معلوم ہوا کہ بچے کو جب وہ ابھی چند ماہ کا ہی تھا کہ اسے سر میں خارش شروع ہو گئی جس کا علاج (آٹھسے نو ماہ کی عمر کے دوران) سلفرکا مرہم لگا کر کیا گیا۔لہذا میری تجویز کردہ پہلی دوا کے نتیجے میں ہی نہ صرف اس کے سر کی خارش اور دانے وغیرہ باہر آ گئے بلکہ اس کی بینائی بھی بحال ہو گئی۔لیکن اسی دوران بچے کی ماں نے میرے علم میں لائے بغیر جلدی علاج کے لئے دوبارہ مرہم کا لیپ کیا۔ مرہم نے جادو جیسا اثر کرتے ہوئے جلدی ابھار اور خارش کا نام و نشان مٹا دیا۔اور ساتھ ہی بینائی کا بھی۔
جوناتھن شور نے اپریل1989 کے سیمینار میں Suppressionکے حوالے سے ایک بچے کے کیس کا ذکر کیا ہے۔لکھتے ہیں،
میرے کلینک میں ایک بچے کو اس کی ماں لے کر آئی۔بچے کو کان کی تکلیف تھی۔ میں نے دیکھا بڑا شریف بچہ ہے۔ جب تک میرے کلینک میں رہا ارد گرد کے ماحول سے بے خبر خاموشی سے اپنے کھلونوں سے کھیلتا رہا۔ ذرا شرارت نہیں کی، چپ چاپ ،کسی شے سے چھیڑخانی نہیں کی۔میں نے علامات کے مطابق مرکیورس دے دی۔اگلی نشت میں اس کی ماں نے بتایا کہ میں نے ایلوپیتھک ڈاکٹر سے بھی مشورہ کیا ہے اور وہ کہتا ہے کہ بچے کے کان سے مواد آ رہا ہے اسے انٹی باےؤٹکس دینا پڑیں گی۔میں نے اس بار نوٹ کیا کہ بچہ پہلے سے زیادہ فعال ہے۔ کلینک میں خوب بھاگ دوڑ رہا ہے۔اور شرارتیں کر رہا ہے۔میں نے اس کی ماں سے پوچھا ، یہ گھر میں کیسا ہے؟ اس کی ماں نے جواب دیا۔ بڑا ہی شریف بچہ تھا۔ لیکن جب سے تمہاری دوا استعمال کرائی ہے اس نے ہر شرارت سیکھ لی ہے۔گھر میں چھوٹی بہن کی خوب پٹائی کرتا ہے۔ میں نے اس کی ماں کو بتایاکہ یہ بچہ شریف اور مسکین نہیں تھا بلکہ بیماری کے زیر اثر اس کا اصلی مزاج دبا ہوا تھا۔اب اسے درست مزاجی(ہومیوپیتھک) دوا ملی ہے تو اس کے اندر کا انسان سامنے آیا ہے۔کان بہنے پر گھبرانے کی ضرورت نہیں اور انٹی باےؤٹکس کے استعمال سے اس کی بیماری دوبارہ دب جائے گی۔لیکن وہ خاتون شاید میری دلیل سے مطمئن نہیں ہوئی اور اس نے انٹی باےؤٹکس کا کورس کروا دیا۔ مجھے اس کا بہت افسوس ہوااور بچہ پھر پہلے کی طرح شریف مسکین بن گیا ۔
A..H.GRIMMERنے ٹیوبرکلونیم کے بیان میں لکھا ہے کہ دواؤں کے غلط استعمال سے کھانسی کو دبا دینے، مریض کو صاف ستھری اور کھلی فضا میں رکھنے، بہترین غذا دینے یا آپریش کر کے ٹی بی کے غدود نکال دینے جیسے سارے اقدامات عارضی نوعیت کے ثابت ہوتے ہیں۔ایسے اقدامات اگرچہ بظاہر سودمند دکھائی دیتے ہیں لیکن تجربہ یہ بتاتا ہے کہ مزاجی اوراینٹی میازمیٹک دواؤں کے استعمال کے بغیرکلی شفا ناممکن ہوتی ہے۔ ٹی بی اپنی شکل اور طریقہ واردات بدل لیتی ہے۔اور مریض مزید خطرناک ذہنی اور اعصابی بیماریوں حتی کہ کینسر جیسے مہلک مرض میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے۔
ہیرنگ لا کی اہمیت کے حوالہ سے کینٹ Minor writingsصفحہ612 میں لکھاہے۔
ایک شخص جس کا من مریض ہو، جس پر جمود کی کیفیت طاری ہو، جس میں جینے کی امنگ دم توڑ رہی ہو، جسے بہن بھائی بیوی بچے اچھے نہ لگتے ہوں۔ ایسے لوگوں کو جگر یا دل کا عارضہ لاحق ہوتا ہے کیونکہ جگر یا دل کا تعلق انسان کے من سے ہے۔ ایسے شخص کو اگر دوا دی جاتی ہے اور آپ مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس کے دل اور جگر میں بہتری کے آثارپیدا ہو رہے ہیں لیکن اس میں جینے کی امنگ بیدار نہیں ہو رہی تو فوراً دوا کا تریاق(Antidote) کیجیے ورنہ آپ کا مریض مر جائے گا۔کیونکہ علامات غلط سمت میں جا رہی ہیں۔

دوسری مثال: فرض کریں آپ نے ایک مریض کوجسے ڈیپریشن اور حافظہ کی کمزوری ہے دوا دی۔اگلی بار مریض Urinary tract infection کی شکایت لے آتا ہے آپ لیب ٹیسٹ کراتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گردوں سے البیومن خارج ہو رہی ہے۔آپ کیا کریں گے؟ کیا علاج غلط تھا کہ گردوں پر اثر ہو گیا؟ کیا آپ دوا بدل دیں گے؟
ٹھہرےئے! مریض کا انٹرویو لیتے ہیں۔ مریض اپنی ڈیپریشن میں کمی اور موڈ و مزاج میں خوشگواری اور روزمرہ معمولات میں دلچسپی محسوس کرتا ہے۔مریض کی نیند پرسکون ہو گئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو دوا درست تھی اسے بدلنے کی ضرورت نہیں۔کیوں؟
اس لئے کہ ذہن نے اپنا بوجھ اتار کر گردوں(قدرے کم اہم اعضاء)پر لا پھینکا ہے۔اور یہ ہیرنگ لاء کے عین مطابق ہے۔شفا کا عمل درست سمت میں جاری ہے۔انتظار کریں اور حالات پر کڑی نظر رکھیں، گردے بھی اسے اتار کر کسی مزید غیر اہم عضو پر لا پھینکیں گے۔ ہومیوپیتھی میں شفایابی کا یہی سٹائل ہے۔
بیماری جب(ہیرنگ لاء کے مطابق)اوپر سے نیچے یا اندر سے باہر کو آتی ہے تو مختلف اعضائے جسمانی پر بکھر جاتی ہے لیکن وہاں عارضی پڑاؤ کے دوران انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاتی۔
آپ مریض کا خیال رکھیں، مریض اپنی لوکل اور عضوی علامات سے خود نمٹ لے گا۔
قوت حیات کو اپنے فیصلے خود کرنے دیں اور اس کے فیصلوں کا احترام کریں۔یہ وائٹل فورس ہی ہے جو جسم کے اندر حالت صحت میں توازن برقرار رکھتی ہے۔
دیکھیئے! جب آپ کسی ضرورت مند کو قرضہ دیتے ہیں تو آپ اس سے جزیات پر بحث نہیں کرتے کہ اس رقم سے تم نے آٹا کتنے کا خریدنا ہے اور دال کتنے کی خریدو گے۔اور باقی رقم کہاں اور کیوں خرچ کرو گے۔اور نہ ہی قرض خواہ یہ بات پسند کرے گا کہ اس کے ذاتی معاملات میں اس حد تک مداخلت کی جائے۔اسی طرح قوت حیات بھی اپنے معاملات میں دخل اندازی پسند نہیں کرتی۔قوت حیات کو اپنے فیصلے خود کرنے دیں۔وہ آپ سے جتنی مدد مانگے اتنی دے دیں۔دوران علاج جب مریض شفائیہ عمل سے بخیروخوبی گذر رہا ہو تو مزید کوئی فالتو محرک نہ دیں۔کیونکہ قوت حیات خود ہی معاملات سلجھا لے گی۔
اگر آپ کو راہ چلتے گلی میں کسی مکان سے میاں بیوی کے لڑائی جھگڑے کی آوازیں آتی ہیں تو کیا آپ اس گھر میں داخل ہو کر جھگڑا نمٹانے اور جج بننے کی کوشش کریں گے؟ یقیناً ایسی کوشش بڑی مضحکہ خیزاور احمقانہ ہو گی۔
آپ نے دوا اس حالت میں دینی ہے جس میں مریض موجود ہے۔ مثلاً آپ سانپ کو مارنا چاہتے ہیں اور آپ کے ہاتھ میں لاٹھی موجود ہے۔ آپ سانپ کے بل میں گھس جانے سے پہلے اسے کسی جگہ بھی مار سکتے ہیں لیکن آپ اس کے بل میں گھسنے کا انتظار نہیں کریں گے۔
مریض کے حال ( یعنی لمحہ موجودہ) کو قابو کرنا سیکھیں۔ہیرنگ لا کا مشاہدہ کرنا سیکھیں، یہی آپ کی کامیابی کا راز ہے۔
فزیالوجی کے علم کے مطابق ( جس کا ایک ہومیوپیتھ کو لازمی علم ہونا چاہئے) جسم کے اندر غذا کی تقسیم کا عمل ہیرنگ لاء کے مطابق ہوتا ہے۔ اور اس عمل میں انرجی ضائع نہیں ہوتی اور یہ تقسیم اوپر سے نیچے ، مرکز سے محیط، زیادہ اہم سے کم اہم اعضا اور اندر سے باہر کو ہوتی ہے۔ اسے Animal Growth Axis کا نام دیا گیا ہے۔
بیماری کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ بیماری کی بڑھوتری کے دوران انرجی صرف ہوتیہے۔ اسی لئے بیماری کے دوران کمزوری کا احساس ہوتا ہے۔ اسے Disease Axis کہا جاتا ہے۔
ہومیوپیتھک دوا Animal Growth Axis کے متوازی سمت میں کام کرتی ہے اور یوں نشوونما کے نظام کو تقویت عطا کرتی ہے۔ اور جسکی مدد سے زہریلے مادے یا بیماری کو ہر ٹشو اورخلیہ سے باہر نکالتی ہے۔اور اس عمل میں توانائی ضائع نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ مریض (درست)دوران علاج کمزوری محسوس نہیں کرتا۔
آپ ماں کے پیٹ کے اندر رحم میں جنین کی نشوونماکا کا نظام دیکھ لیں ہیرنگ لاء کے مطابق ہوتا ہے۔ مرکز سے محیط، زیادہ اہم اعضا پہلے بنتے ہیں جلد سب سے آخر میں بنتی ہے۔ہیرنگ لاء آپ کو زندگی کے ہر شعبہ میں نظر آئے گاجسم کے خود حفاظتی نظام سے لے کر گھر کی صفائی ستھرائی تک آپ کو ہیرنگ لاء کی جھلک دیکھنے کو ملے گی۔
بیماری جب Suppress ہوتی ہے۔ تو سات تہوں تک دب سکتی ہے ۔ اسے سمجھنے کیلئے امبریالوجی کے علم کے مطابق جسم انسانی کے سات تہیں کچھ ا س طرح ہیں۔
1.ECTODERM
2. ENDODERM,
3.CONNECTIVE TISSUES,
4.MESODERM,
5.ENDOCRINES,
6.NEURAL PLATE,
7.MIND

پہلی یا سب سے اوپر والی تہہ میں جو اعضاء یا ان کے حصے شامل ہیں ان میں جلد، ناخن، منہ، ٹانسلز، آنکھ کے عدسے کی بیرونی جلد اور بلغمی جھلیوں کے مقامات اتصال۔
* دوسری تہہ میں نظام تنفس، نظام انہظام، نطام بول کا استر(Lining)اور Glandular Tissues شامل ہیں
* تیسری تہہ میں عضلات، نسیجیں، پٹھے،جوڑ اور خون شامل ہیں۔
* چوتھی تہہ میں دل، لمفاوی غدود، گردے اور پھیپھڑے شامل ہیں۔
* پانچویں تہہ میں تھائرایڈ، لبلبہ، Endocrines system اور
Neuro transmittersشامل ہیں۔
* چھٹی تہہ میں مرکزی اعصابی نظام شامل ہیں۔
* ساتویں اور سب سے گہری تہہ میں R.N.A اور D.N.A شامل ہیں۔
ان سات تہوں میں بیماری جہاں بھی موجود ہو گی وہ اپنا اظہار مختلف فعال(Active) میازم کے مطابق مختلف انداز میں کریگی۔ مثلاً جلدی امراض کے حوالے سے پہلی تہہ یعنی Ectoderm میں بیماری کا اظہار میازم کے حوالے سے یوں ہو گا۔

سورا میازم کے تحت Rashes ، چھالے، Acne جلد کی خشکی وغیرہ
سائیکوسس میازم کے تحت Warts, Corns وغیرہ
سفلس میازم کے تحت Fissures, Ulcers، کان کا پردہ پھٹ جانا وغیرہ
شروع کی پہلی تین تہوں کا علاج آسان ہے کیونکہ ان مرحلوں میں Functional اور Bio Chemical سطح پر تبدیلیاں ہوتی ہیں۔لیکن جب مزید گہرے سٹیج پر بیماریاں پہنچ جاتی ہیں تو وہاں پرC.N.S. اور Genitic Code ڈسٹرب ہو جاتے ہیں۔

ریپرٹری سے SUPPRESSIONمثالیں۔
جذباتی سطح پر SUPPRESSION کی کئی مثالیں ہیں۔
Rubrics:
Saddness after suppressed menses.
Phobias,
Obsessive compulsive disorder,
. Suicidal impulses
ذہنی سطح پر Suppression کی مثالیں
Rubrics:
Forgetfulness ,
Concentration difficult,
Confusion of mind
میں آپ کے سامنے کچھ ایسی نشانیوں کا ذکر کرو ں گا جن سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دوران علاج آیا مرض دب رہا ہے یا علاج درست سمت میں ہو رہا ہے۔
علاج غلط سمت میں جا رہا ہے!مثلاً
*مریض کی علامت(درد ، جلدی ابھار، بخار،زکام وغیرہ)غائب ہو گئی لیکن مزید گہری علامت یا بیماری سامنے آگئی۔
*تھکاوٹ اور کمزوری کا ہونا۔
*کام کاج میں جی نہ لگنا۔
*اداسی اور بجھا بجھا مزاج۔
*بیخوابی، بھوک کا کم ہو جانا۔
* پہلے غصہ آتا تھا اب اداسی اور افسردگی رہتی ہے۔
علاج درست سمت میں جا رہا ہے۔
*کمزوری دور ہو رہی ہے۔
*روز مرہ کے کام کاج میں جی لگنے لگا ہے۔
*نیند اور بھوک پیاس نارمل ہو گئی ہے۔
*قوت برداشت بڑھ گئی ہے۔
*موسموں کی تبدیلی اب زیادہ مسائل پیدا نہیں کرتی۔
*خوف، بے چینی، تشویش میں کمی۔
*روزمرہ معاملات میں دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔
ہومیوپیتھک علاج میں بعض ایسی دوائیں ہیں جو دبی ہوئیعلامات
(Suppressed symptoms) کو ظاہر کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ ان میں کلکیریا، میڈورینم، سورانیم،نکس،سلفر، سیپیا،کاسٹکم،سلیشیا، تھوجا،سفلینم اورٹیوبرکلونیم شامل ہیں۔یہ دوائیں حسب علامات استعمال کی جا سکتی ہیں۔تاہم اگر یہ فیل ہو جائیں تو دوا ایکس رے (X-RAY) پر غور کریں۔
حوالہ ایچ سی ایلن۔میٹیریا میڈیکا آف نوسوڈز۔
ڈاکٹر کینٹ نے کاربوویجی کے بیان میں لکھا ہے۔ایسا مریض جو بے شمار الٹی سیدھی دوائیں کھا چکا ہو اور جس کی وائٹل فورس اتنی کمزور ہو چکی ہو کہ مناسب ردعمل کہ قابل نہ ہو وہاں کاربوویجی وائیٹل فورس کو نئے سرے سے تحریک دے کر واضح علامات کو سامنے لے آتی ہے۔کاربوویجی میں یہ کمال ہے کہ یہ قوت حیات کو پھر سے منظم کر دیتی ہے۔

SUPPRESSION کے حوالے سے یہ سوچ لینا کہ سارا ایلوپیتھک نظام ہی برا ہے درست نہیں ہے۔ اور یہ فیصلہ کر لینا کہ ساری عمر سرجن کا منہ نہیں دیکھنا، قابل تعریف رویہ نہیں ہے۔ زندگی میں بعض ایسی صورتیں پیش آ سکتی ہیں کہ سرجری ناگزیر بھی ہو سکتی ہے۔
مثلاً کولون میں رکاوٹ آ گئی ہے۔
اپینڈے سائٹس کے پھٹنے کا ڈر ہے۔
ہرنیا ایڈوانس سٹیج میں چلا گیا ہے۔
فریکچر ہو گیا ہے،
جسم کے کسی حصے میں پانی جمع ہو گیا ہے،
ڈیلیوری کے وقت جنین کوخطرہ ہے اور حاملہ خاتون کو سیزرین سیکشن میں REFER کرنا ضروری ہو گیا ہے۔
لہذا ایسے حالات میں انسانی جان کو رسک پر نہیں لگایا جا سکتا۔ کیونکہ انسانی جان اصولوں سے زیادہ قیمتی ہے۔
ہانیمن نے بھی اس نوعیت کی سرجری کی مخالفت نہیں کی۔
حوالہ Aphorism 186.
تاہم سرجری کے بعد مریض کی شفایابی میں ہومیوپیتھی طریقہ علاج سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔شفایابی کے عمل کو تیز تر کیا جا سکتا ہے۔
آپ کو دوا کی Aggravationاور دوا کے غلط ایکشن میں فرق کرنا آتا ہو۔آپ کو اس بات کا فہم ہو کہ کس موقع پر دوا کا طریاق کرنا ہے اور کہاں محض (شفایابی کے عمل کا)انتظار کرنا ہے۔ورنہ آپ کا حال بھی اس حکیم صاحب کی طرح ہو سکتا ہے،
کہتے ہیں(دروغ بر گردن راوی) ایک حکیم صاحب نے کسی مریض کو دوا دی تو مریض بستر پر پھڑکنے لگا، گھر والے پریشان ہو گئے۔ حکیم صاحب فرمانے لگے پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔یہ در اصل میرے دئیے گئے کشتے اور بیماری کے درمیان جنگ ہو رہی ہے۔ کوئی دخل اندازی نہ کرے۔ تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کی مریض ٹھنڈا ہو گیا اور بیماری جیت گئی۔
The first duty of practioner is to heal the sick, not demonstrate the theory
. ڈاکٹر ہریش جے چند اپنی کتاب A Compendium of my Lectures میں لکھتے ہیں۔کہ لندن فاکلٹی آف ہومیوپیتھی کی ممبرشپ کے حصول کے لئے جب دوران انٹرویو مجھ سے پوچھا گیا کہ اگرشوگرکاایک مریض جو کوما میں چلا جائے آپ اس کیلئے کیا کریں گے؟کیا آپ اسے انسولین لگائیں گے؟ میرے جواب دینے میں ہچکچاہٹ کو ڈاکٹر J.D.Kenyon نے محسوس کرتے ہوئے کہا ۔ کیا تم اسے محض اس لئے موت کے منہ میں جانے دو گے کہ ہومیوپیتھی انسولین اور انجکشن کی مخالف ہے؟ نہیں جنٹلمین ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ تمہارا کام مریض کو بچانا ہے نہ کہ پیتھی کو۔
ہذا محترم ڈاکٹر حضرات:
سب سے پہلے ہم فزیشن ہیں اس کے بعد ایلوپیتھ یا ہومیوپیتھ ہیں۔ایمرجنسی میں مریض کو بچا لیں ۔ اس کی زندگی رہی تو علاج بھی ہوتا رہے گا۔اور طریقہ علاج پر بھی بات ہوتی رہے گی۔پشتو کی ایک کہاوت ہے۔ ’’زندہ رہو گے تو بہت کچھ سن لو گے‘‘،
جہاں تک مرض کے Suppress ہو جانے کا معاملہ ہے ۔ اسے نہ صرف عوام الناس بلکہ ایلوپیتھک سسٹم میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ اور آنیوالے وقت میں یہ ایشو ایک Burning Issue بھی بن سکتا ہے۔اور یہ وہ وقت ہو گا جب پبلک ہومیوپیتھک طریقہ علاج کی طرف اپنی توجہ بڑھائے گی۔ لیکن کیا ہومیوپیتھس یہ چیلنج قبول کرنے کیلئے تیار ہیں ؟ابھی سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
ہم ہومیو پیتھک پریکٹیشنرز کو کبھی بھی کونیم کی طرح بے لچک’’RIGID‘‘ نہیں ہونا چاہیے۔جارج وتھالکس نے لکھا ہے کہ کونیم کے دماغ میں پتھربھرے ہوتے ہیں، وہ کسی نئے آئیڈیے کو قبول نہیں کرتا ۔ ہر شعبہ زندگی میں لچک (FLEXIBILITY) کا ہونا بہت ضروری ہے۔ بقول یونانی ہومیوپیتھ الفون گیوکنز:
Homoeopathy means really flexibility
flexibility کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر Reflexibility کی صفت بھی ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ مریض جو کچھ بیان کرے ہمارا ذہن فوراً اس سے متعلقہ دوا کی طرف چلا جائے۔ہمیں بیماریوں کا علم سیکھنا ہو گا۔ آرگینن سے رشتہ استوار کرنا ہو گا۔ ہومیوپیتھی کے حوالے سے پبلک کی تعلیم و تدریس کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنے ساتھیوں کی تربیت کرنا ہوگی۔ہمیں سہل پسندی کی روش ترک کرنا ہو گی۔

دوسرے سسٹم کو برا بھلا کہنے کی بجائے ہمیں خود اپنے معیار کو بڑھانا ہوگا۔ باہمی میل ملاپ اور افہام و تفہیم کی فضا قائم کرنا ہو گی ۔ اپنے اصول و قوانین پہ قائم رہتے ہوئے مل جل کر چلنا ہو گا۔
ہومیوپیتھک علاج کے حوالے سے مریضوں کو اعتماد میں لینا بہت ضروری ہے۔مثلاً آپ ایک مریض کو دوا دیتے ہیں اور اسے Aggravationہو جاتی ہے۔وہ درد یا ڈر کے مارے فوراًایلوپیتھک ڈاکٹر سے دردکش دوا لے لیتا ہے۔اور اسے آرا م آ جاتا ہے۔اور آپ جانتے ہی ہیں کہ ایلوپیتھک برادری ہمیں بخشنے والی تو نہیں، وہ ہمیں بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے کیوں جانے دیں گے۔ اس لئے احتیاط کی ضرورت ہے۔کسی بھی کیس میں ہم نہ تو Aggravationکا قطعی وقت دے سکتے ہیں اور نہ ہی دوا کا عمل شروع ہونے یا نتائج ظاہرہونے کی (قطعی)پیشین گوئی کر سکتے ہیں کیونکہ ہر مریض نیا مریض ہوتا ہے ۔تاہم تجربہ کار ہومیوپیتھ درست اندازہ لگا سکتا ہے۔
کون سی دوا کتنے دن تک کام کرتی ہے۔اس سوال کا بھی نپا تلا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ایک ہی دوا کسی مریض میں اگر چھہ ماہ تک کام کرتی رہتی ہے تو ممکن ہے وہی دوا کسی دوسرے مریض میں دوسرے دن ہی کام کرنا چھوڑ دے۔اس کا انحصار بڑی حد تک مریض کی توانائی ، اس کے دفاہی نظام، بیماری کی نوعیت اور شدت ، ماحول اور مریض کے کام یا پیشے کی نوعیت پر ہے۔
ہومیوپیتھی کے حوالے سے ہمارا تعلیمی معیار کس سطح پر ہے۔ میں آپ کو کینیڈا کی مثال دیتا ہوں۔ڈاکٹر اینڈرے سین وہاں کی اکیڈمی آف ہومیوپیتھی کے ڈین ہیں۔انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا، ہمارے ہاں کالج سے فارغ التحصیل سٹوڈنٹس دو فی صدسے بھی کم تعداد میں خالص ہومیوپیتھی کی پریکٹس کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔کیونکہ نظام تعلیم بہت ناقص ہے۔

حاضرین کرام!
اگر کینیڈا کا یہ حال ہے تو اپنے ہاں کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ اینڈرے سین نے تو ایک موقع پر مزید سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔ لکھتے ہیں :اندھے اندھوں کی تقلید کر رہے ہیں۔
Blind is leading the blind.
ہم میں سے بیشتر ساتھی دوسروں سے سنے سنائے نسخوں اور Tips (بخشیش میں دیا گیا نسخہ)کو اپنی پریکٹس میں استعمال کرتے ہیں ۔ یہ دراصل محنت سے جی چرانا ہے اور قابل تعریف رویہ نہیں ہے۔ ہومیوپیتھی مانگے تانگے نسخوں سے کام چلانے کا علم نہیں ہے۔ یہ ایسا شکار ہے کہ خود مار کر کھانا پڑتا ہے۔ایک ہومیوپیتھ ہومیوپیتھی کی حرکی قوت(Dynamic Power) کا اس وقت تک اندازہ ہی نہیں کر سکتا جب تک اسے سنجیدگی سے نہیں اپناتا۔جوساتھی اسے ڈھلمل یقین سے اپناتے ہیں بہت جلد ان کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں۔
آپ کا ایک ایسے شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو ساری عمر تیراکی پر لیکچر دیتا رہے لیکن خود پانی میں نہ اترا ہو؟ایک ہومیوپیتھ کو تو روزانہ کمرہ امتحان میں بیٹھنا پڑتا ہے۔
میرے ذاتی نکتہ نظر کے مطابق جوڈاکٹر حضرات ہومیوپیتھی سے متعلق جدید اور اعلی لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں لیکن انہیں ہومیوپیتھی کے بنیادی اصولوں اور فلسفہ سے شناسائی حاصل نہیں ، انہیں ایسے مطالعہ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ایسے لوگ بہتے ہوئے پانی پہ مکان کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔جال لے کر ہوا پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
شارٹ کٹ کی اس میں اجازت نہیں ہے۔ہانیمن نے شارٹ کٹ کی مثال یوں دی ہے جیسے کوئی شخص پیسہ کمانے کے لئے چوری کرے ،پکڑا جائے اور جیل چلا جائے۔
میری ساتھیوں سے درخواست ہے کہ وہ سہل پسندی سے باہر نکلیں۔ جب تک آپ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے۔ کوئی آپ کااکرام نہیں کرے گا۔ کوئی آپ کا احترام نہیں کرے گا۔چیلنجز بہت ہیں اور انہیں قبول کرنے والے بہت کم ہیں۔ہومیوپیتھی بڑی مخفی قوت کی حامل ہے لیکن اس سے فائدہ اٹھانے والے بہت کم ہیں۔ہومیوپیتھی تو آپ کو فخر سے سر اونچا کر کے چلنا سکھاتی ہے۔
ہومیوپیتھک دوائیں پوٹنسی کی حالت میں واحد ی قوت ہیں جو جسم انسانی میں نسلوں سے موجود عفونتوں (TOXINS)کو نکال باہر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ اور اس صفت میں یہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ہمیں دنیائے طب میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
جو ڈاکٹر سچے دل سے اس کی پریکٹس کرتا ہے اس کے ہاتھوں بڑے معجزے ر ونما ہو تے ہیں۔ایک اچھا اور دیانت دار ہومیوپیتھ بیک وقت دو انعمات کا مستحق ہوتا ہے۔ مریض کے شفایاب ہونے پر اسے اللہ کی طرف سے انعام ملتا ہے اور مریض کی طرف سے دعائیں ملتی ہیں۔
ہمیں ایلوپیتھک برادری کے ایجادکردہ بیماریوں کے ناموں سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں۔چاہے وہ کینسر یا ایڈز ہی کیوں نہ ہوں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک ایڈز کا وائرس دریافت نہیں ہوا تھا تب بھی تولوگ اس بیماری کا شکار ہوتے تھے۔ انہوں نے تو ہر دو چار سال میں کوئی نہ کوئی وائرس ڈھونڈھ نکالنا ہے ۔ یہ سلسلہ تو چلتا رہے گا۔اگر غور کیا جائے توسارے کینسر بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ان کی نظر میں شاید ایک جیسے ہوتے ہوں۔ہمارے ہاں تو ہر کینسر نیا کینسر ہوتا ہے۔سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔بقراط نے کہا تھا ، دنیا میں جتنے کلینیکل کیسیز ہیں اتنی بیماریاں ہیں۔ہمارے نکتہ نظر سے تو ہر بیمار ایک نئی بیماری ہے۔نہ دو مریض ایک جیسے ہوتے ہیں نہ ان کی بیماریاں اور نہ ان کا علاجیہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو ہومیوپیتھی کو ایلوپیتھی سے الگ کرتا ہے۔انفرادیت ہومیوپیتھی کی شان اور پہچان ہے۔
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے
فیصلہ ہو نہ سکا تیری شناسائی کا
Essence of Homoeopathy is Individualization

سچی بات تو یہ ہے کہ بیماری کا وجود ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ صحت اور بیماری ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ دنیاکا کوئی شخص
ہزار کوشش کے باوجود بیماری سے بچ نہیں سکتا۔
کینٹ Minor writings صفحہ 280 میں لکھا ہے۔
سبب اور علاج ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
CURE AND CAUSE ARE DIFFERENT PLANES IN THE SMAE SPHERE.
قدیم یونانی تاریخ سے ہمیں یہ کہاوت ملتی ہے۔ وہ جو زخم لگاتا ہے وہی مرہم رکھتا ہے۔ ہومیوپیتھی جسم میں جاری کیمیاوی اور پیتھالوجیکل تبدیلیوں سے بحث نہیں کرتی بلکہ اس انرجی سے بحث کرتی ہے جو ان تبدیلیوں کا سبب بنتی ہے۔ اگر دنیا ابھی ہومیوپیتھی کو وہ مقام نہیں دے رہی جس کی یہ مستحق ہے تو بھی پریشانی اور مایوسی کی کوئی بات نہیں۔ وہ ساتھی جنہیں اس کی کچھ کچھ سمجھ لگ گئی ہے وہ اسے امانت سمجھتے ہوئے ان لوگوں تک پہنچائیں جنہیں اس کی ضرورت ہے۔ ہومیوپیتھک فلاسفی کو اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھنے کے لئے ہمیں (ہومیوپیتھ کو) اپنی ذہنی سطح کو کینٹ، بوننگھاسن اور سی ہیرنگ کی سطح تک بلند کرنا ہو گا۔ اور جب تک ہم فلسفہء زیست کو ہانیمنن کی نظروں سے دیکھنا نہیں سیکھیں گے ہم اس طریقہ علاج سے مکمل فائدہ نہ اٹھا سکیں گے۔ ہم اس بے مثل طریقہ علاج سے انصاف نہیں کر سکیں گے۔ ہم مر یضوں سے انصاف نہیں کر سکیں گے۔
جوناتھن شور نے کہا ہے لوگوں کے ہومیوپیتھی پر اعتقاد کی کمی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان کے دماغوں میں سختی آ گئی ہے۔ بہت زیادہ مادہ پرستی آ گئی ہے۔
(Their minds are calcified)۔
ہومیوپیتھی کی مثال اس بچے کی طرح ہے جو زمانہ حمل کی تکمیل سے پہلے (Premature) پیدا ہو گیا ہو۔ دنیا کو اسے سمجھنے میں ابھی دیر لگے گی۔ ہمیں ہمت نہیں ہارنی، عقیدے کو مضبوط رکھنا ہے، مشن کو جاری رکھنا ہے۔ ہر لاعلاج مرض کو قابل علاج بنانا ہمارا مشن ہے۔ کیونکہ ہم سائنس کی اس حقیقی روشنی کے پیروکار ہیں جو لا محدود سے محدود کی طرف سفر کرتی ہے۔
دراصل کسی شے کا فہم و ادراک یا شعور حاصل کرنے کے تین مرحلے ہیں۔
* پہلامرحلہ حواس خمسہ کے ذریعے(سائنسی آلات کی مدد سے)
* دوسرامرحلہ دلیل اور منطق سے سوچ و بچار سے،
* تیسر مرحلہ ا کشف و وجدانی صلاحیت سے۔
جوں جوں انسانی سوچ و بچارارتقائی عمل سے گذرتی چلی جائے گی اسی قدردوسرا اور تیسرا مرحلہ یک جان ہو تے جائیں گے۔ اور یہ دن ہومیوپیتھی کا دن ہو گا۔ یہ وہ دن ہو گا جب ہومیوپیتھی کا سورج طلوع ہو گا۔ جب اس کی روشنی چہار سو پھیلے گی۔
ہم جو اس کرہ ارض پر بقراط Hippocrates) ( کے آخری اورمستقبل کے طریقہ علاج (Medicine of Future)کے پہلے نمائندہ ہیں۔ ہم جو Psychosomatic Medicine کی فیلڈ میں اول نمبر پر ہیں۔ ہمیں اس دن کا انتظار ہے۔
Ref: (Homoeopathy the Fundamentals of its Philosophy)
حاضرین کرام!
ہماری سٹریٹیجی کیا ہونی چاہیے؟ دراصل ہمارے لئے جو چیلنج ہے وہ وائرس نہیں ہے، وائرس کے خوفناک نام نہیں ہیں۔ بلکہ صحت اور بیماری کے درمیان ازل سے جاری بقا کی جنگ میں مضبوط دفاعی حصار قائم کئے رکھنا، قوت مزاحمت بڑھائے رکھنا اور Homeostasis کی فضا برقرار رکھناہے۔ یہ ہے وہ چیلنج جو ہر وقت ہمیں درپیش رہتا ہے

محترم ڈاکٹر حضرات!
کیا آپ خود کو انسانیت کی خدمت اور اس چیلنج کے لئے تیار پاتے ہیں؟ اس کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔
چند ایسی دواؤں کی مثالیں جو Suppression ہونے پر مندرجہ ذیل علامات میں ظاہر ہوتی ہیں۔
خسرہ دب جانے پر بہرہ پن سلفر
خارش دب جانے پر دمہ سلفر
چھپاکی دب جانے پر دمہ ایپس
بچوں میں جلدی امراض دب جانے پر دمہ پلسٹیلا
پتہ نکال دیے جانے پر شکایات چائنا
خسرہ دب جانے پر رعشہ رس ٹاکس
رحم نکال دیے جانے پر شکایات سیپیا
بانجھ پن کے علاج میں ہارمون تھراپی لینے پر سیپیا، تھوجا، نکس وامیکا
سلفر کے بے جا استعمال پرخارش دب جانے پر سورانیم، پلسٹیلا
Scabies کے دب جانے پر لائیکو پوڈیم
شادی کے فوراً بعد اندام نہانی کی انفکشن میڈورینم، تھوجا، سٹیفی
پاؤں بھیگ جانے پر حیض کا دب جانا پلسٹیلا
برتھ کنٹرول گولیاں کھانے پرتکالیف سیپیا، تھوجا، پلسٹیلا، فولی کو لینم
اسپرین کھانے سے علامات کا دب جانا کیپسیکم
آنکھ کان یا ناک کا اخراج
دب جانے پر متاثرہ جلد کا بے حس ہو جانا لیڈم
انٹی باےؤٹکس کے استعمال سے کان کا اخراج دب جانا مرکیورس
حیض دب جانے پر گلہڑ بن جانا فیرم میٹ
جوڑوں کی دردیں دب جانے پر دل کی تکالیف کالمیا
نوبتی بخار دب جانے پر چھپاکی الیٹریم
پسینہ دب جانے پر دل کے امراض برائٹا کارب
پسینہ دب جانے پر استسقائی سوجن ڈلکا مارا
پسینہ دب جانے پرآنکھوں میں موتیا سلیشیا
پسینہ دب جانے پرحیض رک جانا کیوپرم میٹ
پسینہ دب جانے پرفالج زنکم میٹ
پسینہ دب جانے پرنظر کی کمزوری سلیشیا
پسینہ دب جانے پرقوت گویائی کا متاثر ہونا کالی فاس
جلدی ابھار دب جانے پرفالج کاسٹیکم
نزلہ زکام دب جانے پربائی کی درددیں جلسیمیم
سوزاک دب جانے پربیضتہ الرحم کاورم کینتھرس
گنوریا دب جانے پر بائی کی دردوں کا آ جانا ڈفنی انڈیکا
گنوریا دب جانے پر فوطوں کی تکالیف سپونجیا
ایگزیما دب جانے پرمرگی کے دورے کالی میور
جلدی ابھار دب جانے پراسہال لائیکو پوڈیم
بواسیر دب جانے پر بہرہ پن نکس وامیکا
بواسیر دب جانے پر نیفرائٹس(گردوں کا ورم) بربریس ولگیرس
بواسیر دب جانے پر کیکٹس
جلدی تکالیف دب جانے پرکان سے بدبودار اخراج اورم سلف
غصہ دب جانے پربار بار پیشاب آنا سٹیفی
زچگی کے بعد خواتین کا دودھ دب جانے پربخار۔ بیلاڈونا
نزلہ زکام دب جانے پربائی کی درددیں جلسیمیم
سوزاک دب جانے پربیضتہ الرحم کاورم کینتھرس
گنوریا دب جانے پر بائی کی دردوں کا آ جانا ڈفنی انڈیکا
گنوریا دب جانے پر فوطوں کی تکالیف سپونجیا
ایگزیما دب جانے پرمرگی کے دورے کالی میور
جلدی ابھار دب جانے پراسہال لائیکو پوڈیم
بواسیر دب جانے پر بہرہ پن نکس وامیکا
بواسیر دب جانے پر نیفرائٹس(گردوں کا ورم) بربریس ولگیرس
بواسیر دب جانے پر کیکٹس
جلدی تکالیف دب جانے پرکان سے بدبودار اخراج اورم سلف
غصہ دب جانے پربار بار پیشاب آنا سٹیفی
زچگی کے بعد خواتین کا دودھ دب جانے پربخار۔ بیلاڈونا
خوف کے سبب قوت گویائی کا متاثر ہونا کالی فاس
نہانے سے حیض دب جانا کلکیریا فاس
اسہال دب جانے پردماغی تکلیف میگنیشیافاس
اسہال دب جانے پربھینگاپن پوڈوفائلم
سوزاک دب جانے پرپروسٹیٹ کی تکلیف میڈورینم
جلدی ابھار دب جانے پرہایڈروسیل ابراٹینم
حیض دب جانے پرمعدہ کی تکلیف کاکولس انڈیکا
حیض دب جانے پر مرگی کے دورے پلسٹیلا
حیض دب جانے پرپھیپھڑوں سے جریان خون کیکٹس
حیض دب جانے پرفالج لیکیسس
حیض دب جانے پرجنسی خواہش کا بڑھ جانا انٹم کروڈم
حیض دب جانے پر نکسیر برائی اونیا
حیض دب جانے پرچھوٹے جوڑوں میں دردیں کالوفائلم
حیض دب جانے پرگوشت اور پٹھوں میں دردیں سمی سی فیوگا
حیض دب جانے پرلیکوریا سبائنا
لیکوریا دب جانے پرتکالیف ایسی کیولس، سلفر، امونیم میور
سردی یا خوف کی بنا پر حیض دب جانا ایکونایٹ
نزلہ زکام دب جانے پرآدھے سر کا درد کالی بائکرومیکم
جلدی امراض دب جانے پرجلد کی خشکی کالی سلف
طویل المعیاد اخراج دب جانے پرہسٹیریا ہو جانا ایسافوٹیدا
جلدی امراض دب جانے پر دمہ ہیپر سلفر
سانپ سے ڈسے جانی کی ہسٹری تھوجا
مشت زنی کرنے یا پسینہ دب جانے پر دل کا عارضہ برائٹا کارب
ملیریا کے پرانے دبے ہوئے کیس سیپیا
موسم گرما میں ٹھنڈے پانی سے نہانے پر پسینہ دب جانا برائی اونیا، رسٹاکس
پانی میں کام کرنے سے حیض دب جائے اور حم سے جریان خون شروع ہو جائے وسکم البم
خوف و ہراس کی فضا میں رہنے سے بچوں کی ذہنی اور جذباتی نشو ونما رک جائے اوپیم
ھمبستری کی خواہش روکنے پر چڑچڑاپن اور ہمبستری کے بعد کمزوری اور نقاہت للیم ٹگ
جنسی خواہشات دب جانے پر متفرق شکایات مثلاً:
حافظہ کی کمزوری،چکر آنا، روز مرہ معمولات میں عدم دلچسپی،
ڈیپریشن، سر درد، خوف، نامردی، کینسر کونیم
نوٹ: ۱۔ بھکر، ایشین ہومیوپیتھک میڈیکل لیگ کے نیشنل سیمینار میں پڑھا گیا۔
۲۔ گوجرانوالہ، اسلامک ہومیوپیتھک میڈیکل ایسوسی ایشن کے سالانہ سیمینار میں
پڑھا گیا۔

0 0 votes
Article Rating
kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter