آج ایک بچی کا کیس ڈسکس کرتے ہیں جس کی عمر تیرہ سال ہے اور وہ کئی قسم کے ذہنی، جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔ اُس کے والدین کراچی کے تھے تاہم گذشتہ بیس سال سے لندن میں ہیں۔ بیٹی وہیں پیدا ہوئی، پلی بڑھی ہے۔ برطانیہ میں ایسے بچوں کو برٹش بارن (British Born) کہا جاتا ہے۔
یہ بچی بہت ذہین ہے اور محنتی بھی۔ اُس کا قد ابھی سے ہی اپنے ماں باپ سے بڑا ہے تاہم وہ بہت زیادہ دبلی پتلی اور سمارٹ ہے۔ اُس کی ماں کے بقول ایسے جیسے کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو۔ کھایا پیا اُس کے جسم کو لگتا ہی نہیں۔ ہر وقت ڈسٹرب، بے چین اور غصہ سے بھری رہتی ہے۔ ذرا سی بات کسی نے کہہ دی تو منہ بسور کر رونا دھونا شروع کر دیتی ہے۔ بات مزاج کے ذرا سا خلاف ہو تو آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ کسی کام یا چیز سے سکون نہیں ملتا؛ تھوڑی دیر بعد ہر چیز سے اُکتا جاتی ہے۔ ماں کے بقول اِس کا نام ہی اُکتائی بیگم ہونا چاہئے۔ میں نے اِس حوالہ سے منیر نیازی کا شعر سنایا۔
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا؛ اُکتائے ہوئے رہنا
بے ساختہ بولیں؛ ہاں ہاں یہ یہ، بالکل ایسے۔
والدین نے رابطہ اِس لئے کیا کہ اُن کی بیٹی کی جسامت فگر کچھ بہتر ہو جائے یعنی اُس کی ظاہری جسمانی کمزوری ختم ہو جائے اور جسم بھرا بھرا نظر آئے۔ کیس کی تفصیل ہر پندرہ دن بعد لی جاتی رہی۔ بچی کے معاملات کی فائنل شکل مندرجہ ذیل بنی۔
’اکتائی بیگم‘ کی کہانی، اُس کی والدہ کی زبانی:۔
باہر جانے سے اگرچہ اُس کو نزلہ زکام کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ سردی برداشت نہیں کر سکتی مگر اِس کے باوجود گھر سے باہر جانے کی بہت ضد کرتی ہے۔ نزلہ زکام کا ایک دَور مشکل سے ختم ہوتا ہے تو دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔ سکول سے آتے ہی اس نے کوئی بہانہ یا جواز سوچا ہوتا ہے کہ باہر لے جانا پڑے۔ جب تک ہم باہر گھومتے رہیں، یہ مطمئن رہتی ہے۔ مثلاً ہائی روڈ یا لائبریری جانے کا کوئی جواز بنا لے گی مگر جب وہاں اُس کے کام سے کچھ وقت رکنا پڑے تو تھوڑی دیر میں بور ہونا شروع ہو جائے گی۔ ذرا سا بھی آرام سکون اور چین نہ اِسے نصیب ہے اور نہ ہمیں کرنے دیتی ہے۔
پارک جانے کی ضد کرے گی مگر دس پندرہ منٹ کھیلنے کے بعد تھک جائے گی۔ جب کہیں گے کہ اب کیا مسئلہ ہے تو کہے گی کہ کچھ نیا چاہئے بالکل ہٹ کر کچھ۔۔ تھکاوٹ، پنڈلیوں میں درد یا سر درد کی شکایت مستقلاً رہتی ہے۔
گرمیوں میں یہاں کے لوگ سمندر پر جاتے ہیں۔ جاتے وقت تو یہ بہت خوش ہوتی ہے لیکن وہاں پہنچتے ہی واپس جانے کی ضد کرتی ہے۔ پتہ نہیں ڈرتی ہے یا کوئی اَور وجہ ہے مگر سمندر کے قریب نہیں جاتی۔
یہ سارے مسئلے کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ بچپن سے ہی اِس کو سنبھالنا مشکل تھا۔ توبہ توبہ؛ بے حد مشکل۔ ہم کتنی بھی کوشش کرتے یہ کسی چیز یا بات سے مطمئن نہیں ہوتی تھی۔ ہر معاملے میں اپنی مرضی کرتی تھی۔ ڈھیٹ پنے کا سب سے بڑا ایوارڈ یہ جیت سکتی ہے۔ اپنی مرضی کا کھلونا یا کوئی چیز ضد کر کے خریدتی مگر تھوڑی دیر بعد اُس میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔ یہ چھوٹی تھی تو ڈانٹ ڈپٹ سے گزارا ہو جاتا تھا مگر اب بہت ڈر لگتا ہے۔ ڈاکٹر حسین! آپ تو لندن میں رہے ہیں؛ آپ سمجھ سکتے ہیں نا کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔
ہم اِس کے ہاتھوں بہت تنگ ہیں۔ اِس کے والد تو دیرسے گھر آتے ہیں مگر میرے لئے یہ کسی عذاب سے کم نہیں۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ یہ سب کچھ میری دشمنی میں کرتی ہے۔ ڈاکٹر ! آپ کو کیا بتاؤں۔ مجھے تو ایک لمحے کے لئے خوش نہیں دیکھ سکتی۔ پتہ نہیں کہ اِس کو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ میں کچھ سکون سے ہوں تو یہ کچھ ایسا کر دیتی ہے کہ مَیں بہت شدید ڈسٹرب ہو جاؤں۔ اَور کچھ نہیں تو کوئی پلیٹ یا گلاس توڑ دے گی اور چیخنا چلانا شروع کر دے گی کہ غلطی گلاس یا پلیٹ کی تھی۔ جس دن مَیں کام سے بہت تھکی ہوئی ہوں گی تو اِس کو کہیں درد شروع ہو جائے گا۔
اِس کو سمجھنا یا سمجھانا بہت مشکل ہے۔ ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ ایسا کیوں کرتی ہے۔ یہ مجھے ایسے ایسے جواب دیتی ہے کہ میں حیران بلکہ پریشان رہ جاتی ہوں۔ ایسی باتیں جو کوئی بڑی عمر کا انسان کرے۔ میں آپ کو بتا بھی نہیں سکتی کہ غصے اور جھگڑے میں یہ کیا کچھ کہتی ہے۔ یہ بہت خطرناک بچی ہے؛ ڈاکٹر ، بہت ہی خطرناک۔
مجھے اِس سے بہت ڈر لگتا ہے۔ مجھے ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ یہ ضرور کچھ بڑی گڑ بڑ کرے گی۔ گھر میں توڑ پھوڑ تو عام بات تھی لیکن اب سکول سے بھی شکایت آئی ہے کہ وہاں بھی یہ چیزیں پھینکنے لگی ہے۔بات کونسل تک گئی۔ ہمارے انٹرویو کئے گئے اور بیٹی کی تھراپی ہوئی۔ سائکالوجسٹ کو اِس نے بتایا کہ چیزیں توڑ کر سکون ملتا ہے۔
اِس کی کمر کے ایریا میں بال بھی کافی زیادہ ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
جب چھوٹی تھی تو بات بات پر یہ کہتی تھی کہ جان سے مار ڈالوں گی۔ گالیاں دینے سے نہیں رُکتی۔ سوتے وقت کبھی کبھار بہت پسینہ آیا ہوتا ہے حالانکہ یہاں گرمی بھی نہیں ہوتی۔ نیند میں اپنے دانت بہت پیستی ہے۔
ٹانسلز کا آپریشن ہو چکا ہے۔ چہرے پر دانے ہوتے رہتے ہیں جو کریم لگانے سے ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں۔جب سے اِس کو پیریڈز شروع ہوئے ہیں تو حیض کے دنوں میں رات کو کبھی کبھار چیخ مار کر اُٹھ جاتی ہے۔
اِس کے چہرے پر بچوں والی رونق تو خیر کبھی آئی ہی نہیں مگر اب (مینسز کے بعد) تو یہ پیلی پڑتی جا رہی ہے۔ جسم دن بدن کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ کبھی کبھار یہ اتنی ناراض اور مایوس ہو جاتی ہے کہ کسی سے بات تک نہیں کرتی۔
میٹھا بہت کھاتی ہے اور آئس کریم بھی۔ مگر اِس کے جسم کو کچھ بھی نہیں لگتا۔ شاید اِس کی نیند پوری نہیں ہوتی کیونکہ صبح اُٹھانے پر بہت رولا ڈالتی ہے۔
ماہواری کے درد (dysmenorrhea) ناقابلِ برداشت ہوتے ہیں اور پین کِلرز (Pain Killers) دینی پڑتی ہیں۔ حیض / پیریڈز (Menses / Periods) سات سے دس دن جاری رہتا ہے۔ مجھے اِس کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کو ڈپریشن بھی ہوتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے ڈاکٹر قیصرانی؟
کتوں سے بہت ڈر لگتا ہے اور بلی کو دیکھ کر عجیب شکلیں بناتی ہے۔ کہتی ہے کہ بلی مجھے گندی لگتی ہے۔ اِس کی دوست نے کھلونا بلی کا تحفہ دیا مگر اِس نے ہاتھ تک نہ لگایا اور پھینکوا دیا۔
ہومیوپیتھک علاج اور دوائیں
تقریباً 6 ماہ بچی کا علاج جاری رہا۔ صورتِ حال کی مناسبت اور علامات کے مطابق مندرجہ ذیل ہومیوپیتھک دوائیں اِسی ترتیب میں دی گئیں۔
ہومیوپیتھک اصول یہ ہے کہ ایک وقت میں صرف ایک ہی دوا دی جاتی ہے۔ ہومیوپیتھک ڈاکٹر کیس کی تفصیل کو سمجھتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے کہ کس خاص موقع پر کون سی دوا کی ضرورت ہے اور کتنی۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر اور مریض (یا اُس کے والدین) کا باقاعدہ رابطہ ہونا علاج کا لازمی حصہ ہے۔
پروردگار کے فضل و کرم سے بچی کی شخصیت، جسمانی ساخت اور شکل و شباہت میں واضح تبدیلی آ گئی ہے۔ وزن آٹھ کلوگرام تک بڑھ چکا ہے۔ اُس کا موڈ مزاج بہتر ہو گیا ہے اور بے سکونی میں بھی افاقہ ہے۔
نکس وامیکا (Nux Vomica)
بسیلینم (Bacillinum Burnett)
کلکیریا فاس (Calcarea Phosphorica)
ٹیوبرکولینم بووینم کینٹ (Tuberculinum Bovinum Kent)
کلکیریا فاس (Calcarea Phosphorica)
ٹیوبرکولینم بووینم کینٹ (Tuberculinum Bovinum Kent)
ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور ہومیوپیتھی کے سٹوڈنٹس کے لئے
یہ ٹیوبرکولینم کیس ہے۔ اگر ایسے مریضوں کا باقاعدہ ہومیوپیتھک علاج نہ ہو سکے تو یہ شدید قسم کی جسمانی کمزوریوں اور نفسیاتی تکلیفوں سے دو چار رہتے ہیں۔ بے حد چڑچڑے اور رونے دھونے کا مزاج رکھنے کی وجہ سے اِن کے تعلقات کسی سے بھی ٹھیک نہیں رہتے۔ یہ بار بار اپنی جاب تبدیل کرتے رہتے ہیں اور ان کے بس میں ہو تو گھر بار بھی۔
ایسے لوگ ڈاکٹرز بھی تبدیل کرتے رہتے ہیں اور بہت کم ہی اپنے علاج سے مطمئن ہو پاتے ہیں۔
ان میں سے اکثریت کو 45 سال کی عمر تک بلڈ پریشر، دمہ، ٹی بی یا شوگر کے مرض میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
ہومیوپیتھک علاج کے دوران علامات کے مطابق ہی دوا دی جاتی ہے تاہم واضح فائدہ تب ہو پایا ہے کہ جب بسیلینم یا ٹیوبرکولینم دینے کا موقعہ آیا۔
—-
حسین قیصرانی – سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ، لاہور پاکستان ۔ فون 03002000210