(ڈاکٹر بنارس خان اعوان، واہ کینٹ)
ٹھندے خشک موسم کی دوا ہے۔
نکس وامیکا دراصل شاہوں، شہنشاؤں، شہزادوں اور سورماؤں کا خاندان ہے۔ اگر تاریخ پر نظر دوڑائیں تو رومن ایمپائر کی مثال نکس پر بہت فٹ بیٹھتی ہے۔ یہ لوگ بڑے جنگجو، مہماتی، عیاش اور بے خطر تھے۔ میٹریا میڈیکا کی پولی کریسٹ دواؤں میں اس کا درجہ باشاہوں کا سا ہے۔ اینایم چودھری کے بقول اگر انسانی آبادی کو کردار اور رویے کی بنا پر تقسیم کیا جائے تو نکس کے حصہ میں دو تہائی آ جائے۔یہ لوگ جس شعبہ زندگی میں بھی ہوں اپنا نمایاں مقام بنا لیتے ہیں۔اپنے مقصد کے حصول کے لیے، اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے انہیں چاہے کتنی بھی قیمت چکانی پڑے دریغ نہیں کرتے۔
بقول افتخا رعارف
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
ٹیوبر کلونیم کی طرح یہ لوگ اپنی زندگی کی موم بتی دونوں سروں سے جلائے رکھتے ہیں۔اور اس فانی دنیا کو خیرباد کہنے میں بھی دیر نہیں کرتے۔ ان کی گاڑی کی طرح ان کی زندگی کی گاڑی بھی ٹاپ گےئر پر دوڑتی ہے۔
چار ایسی ٹاپ کلاس دوائیں ہیں جو پلے بوائے کوکوالیفائی کرتی ہیں اور وہ ہیں، نکس وامیکا، ٹیوبر کلونیم، لیکسیس اور لائیکوپوڈیم۔ اچھے سے اچھا کھانا،شراب ، شباب اور اقتدار کا نشہ۔ یہ چار صفات اگر کسی ایک شخصیت میں دیکھنی ہوں تو وہ نکس وامیکا ہے۔ان چارو ں صفات میں یہ انتہا پسند ہے۔اس میں نہ صرف اقتدار کی ہوس ہوتی ہے بلکہ یہ اسے حاصل کرنا اوراس سے کام لینا بھی جانتا ہے۔ اکثر نکس حضرات جب ان کی شادی کی عمر گذر جاتی ہے تب انہیں شادی کا خیال آتا ہے لیکن اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہوتا ہے۔ بابر عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔
نکس اپنے آفس میں یہ تصور ہی نہیں کر سکتا کہ وہاں چائے اور دیگر کھانے پینے کے لوازمات میسر نہ ہوں۔ آئے دن پارٹیاں نہ ہوں، ہلہ گلہ، موسیقی نہ ہو، مقابلہ بازی کی فضا نہ ہو۔نکس جس محکمہ کا باس ہوتا ہے وہاں نہ خود ٹک کر بیٹھتا ہے نہ عملہ کو ٹک کر بیٹھنے دیتا ہے۔نکس جس آفس کا باس ہوتا ہے، اس عملے کی سختی آئی رہتی ہے۔کیونکہ اس کا ہر آرڈر کن فیکون کی طرح ہوتاہے۔ یعنی ادھر منہ سے بات نکلی ادھر پوری ہونی چاہیے۔I want this immediately اس کا محبوب تکیہ کلام ہوتا ہے۔کسی بھی ایسی جگہ جہاں رش ہو ۔ مثلاً بنک، پوسٹ آفس وغیرہ جہاں لمبی لائینیں لگی ہوں ان کے لئے لائن میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔سڑک پر لال اشارے کی بتی پر رکنا ان کے لئے انتہائی صبر آزما ہوتا ہے۔ یہ سمجھتے ہیں اس طرح ان کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔بے صبرے پن کے حوالے سے یہ آرسنک، ارجنٹم نائٹرکم اور سلفر کے قریب ہے۔
آفس میں اس کی میز کی درازیں مختلف مسکن، Pain Killer اور ہاضمے کے چورن وغیرہ سے بھری ہوتی ہیں۔نکس وامیکا جہاں ظاہر ہو گی وہاں آپ کو نظام انہضام کی شکایات ضرور ملیں گی۔
اس کو اگر کہہ دیا جائے کہ آپ آرام سے بیٹھ جائیں اور کچھ کام نہ کریں تو اس کے دماغ میں کھلبلی ہونے لگتی ہے۔ٹیرنٹولا ، ہیپر سلفر اور اسارم کی طرح اس کے اعصاب کی تاریں ہر وقت تنی رہتی ہیں۔یہاں تک کہ نیند میں بھی اس کا دماغ فعال(Active) رہتا ہے۔ رات کو دیر تک جاگنا اور صبح کو دیر تک سونا اس کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے۔علی الصبح چار بجے اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔
دوستی کے حوالے سے یہ لوگ صنف مخالف سے دوستی پسند کرتے ہیں اور ان سے اپنی تعریفیں سن کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔رشتے ناتوں اور دوستی کے معاملے میں یہ لوگ ذرا خود غرض ہوتے ہیں جبکہ انہیں یہ دعوی ہوتا ہے کہ یہ بہت مخلص ہوتے ہیں۔خبط عظمت میں مبتلا یہ لوگ دلوں کی بجائے سروں پر حکومت کرنے کے فن سے آشنا ہوتے ہیں۔ان کے برعکس فاسفورس کی محبت انتہائی آئیڈل،کتابی اور غیر مشروط ہوتی ہے۔مندرجہ ذیل جملہ فاسفورس کے لئے ہے۔
HER LOVE IS SO INNOCENT AND UNCONDITIONAL THAT ONLY A ROBOT OR ADEVEL COULD RESIST IT.
ان کی زندگی بہت فاسٹ ہوتی ہے۔ ہمارے ایک دوست تھے نکس۔ بہت فاسٹ ڈرائیونگ کرتے تھے ۔ میں نے انہیں پوچھا کہ آپ کتنی سپیڈ تک ڈرائیو کرتے ہو۔ کہنے لگے میں نے کبھی سپیڈو میٹر کی طرف دھیان نہیں دیا ۔ٹاپ گےئر پر جتنا ایکسیلیٹر دب سکے دبا دیتا ہوں۔مزید کہا، میرا یہ اصول ہے کہ اگر سڑک پر کوئی گاڑی میری گاڑی سے آگے جا رہی ہو تو میں سمجھتا ہوں میں SLOW ڈرائیونگ کر رہا ہوں۔
یہ شخص کبھی مطمئن نہیں ہوتا اس میں قناعت کا فقدان ہوتا ہے۔ہل من مزید کے فلسفہ کے مطابق خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے۔اس کی خواہشات کو غالب نے اچھی طرح بیان کیا ہے۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
کینٹ ریپیرٹری میں اس عادت کو Discontended لکھا گیا ہے۔اس حوالے سے یہ اناکارڈیم، ہیپر، کلکیریافاس، سلفراور ٹیوبرکلونیم کا مقابلہ کرتا ہے۔
میٹیرا میڈیکا کی بڑی (پُٹھی)دوا ہے۔یعنی الٹ چلنے والی۔ وہ کیسے؟ مثلاً یہ لوگ اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں۔ اور اگر آپ ان کی بات یا مرضی پر نہ چلیں توطوفان اٹھا دیتے ہیں۔ یہی چیز ہمیں نکس کے فزیکل لیول پر بھی نظر آتی ہے۔ مثلاً پاخانے کی حاجت ہے، مریض زور لگا رہاہے لیکن نہیں آتا ۔زور لگانا چھوڑتا ہے تو تھوڑا سا آ جاتا ہے۔پیشاب کی حاجت بھی ہے اور پیشاب رکا ہوا بھی ہے ۔ مریض پیشاب کرنے کے لئے زور لگا لگا کر پسینے پسینے ہو جاتا ہے لیکن پیشاب نہیں آتا ۔جوں ہی تھک ہار کر زور لگانا چھوڑتا ہے تو تھوڑا سا پیشاب نکل آتا ہے۔ یہی کیفیت قے کی ہے۔ جی متلا رہا ہے۔ مریض الٹی کرنا چاہتا ہے لیکن ہوتی نہیں۔اور پھرخود بخود ہوبھی جاتی ہے۔پیشاب رک رک کر آ رہا ہو تو مریض کوہلکے گرم پانی کے ٹب میں بٹھانے سے بعض اوقات افاقہ ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو نکس وامیکا یقینی دوا ہوتی ہے۔یہ لوگ ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہننا پسند کرتے ہیں۔ مرضی کے خلاف بات اک ذرا برداشت نہیں۔ایک شخص نے محض اس بنا پر اپنی بیوی کو طلاق دے دی کہ اس کے منع کرنے کے باوجود تین دن تک لگاتارگوبھی پکاتی رہی۔
نکس اگر گھر میں اپنے بچے کو پڑھا رہا ہو اور بچہ سوال کا جواب دینے میں ذرا سی دیر کر دے تو فوراً ایک تھپڑ بچے کے منہ پر جا پڑتا ہے۔ نکس کسی کو سوچنے کے لئے بھی زیادہ وقت نہیں دیتا۔اور یہی نکس جب اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں کوئی گیم مثلاً کیرم بورڈ وغیرہ کھیل رہا ہو تو آپ دیکھیں گے کہ اس کے اور بچوں کے رویے میں کوئی فرق محسوس نہیں ہو گا۔ یعنی ابا جی بھی بچوں میں مل کر بچوں کی طرح جذباتی، ہیجانی اور ہر حالت میں گیم جیتنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیں گے۔یعنی آپ محسوس کریں گے گویا چار بچے کیرم کھیل رہے ہیں۔
آپ نے ایک کرکٹ کے کھلاڑی کو دیکھا ہو گا جب بھی وہ کسی کا کیچ پکڑتے یا اسے رن آؤٹ کرتے ہیں تو تیزی سے بار بار اپنا مکہ فضا میں لہراتے ہیں اور اپنے دانتو ں کوآپس میں اس زور سے دباتے ہیں جیسے مد مقابل کو کچا ہی کھا جائیں گے ۔خوشی،غصہ اور احساس برتری کا ملا جلا رحجان، یہ نکس کا سٹائل ہے۔اس کے علاوہ ہماری کرکٹ ٹیم کے ایک فاسٹ باؤلر نکس وامیکا کی چلتی پھرتی تصویر ہیں۔صحت کو داؤ پر لگا کر ریکارڈ بنانے کے چکر میں رہتے ہیں۔
یہ لوگ جب غصے میں آتے ہیں تو۔۔۔۔۔ہمارے ایک میجرصاحب جاننے والیہیں۔ان کا ایک ملازم ہے۔جب غصے میں اسے ڈانٹنے پر آتے ہیں تو چھوٹی موٹی ڈانٹ پلا کر ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ ملازم بے چارے کو رلا کر چھوڑتے ہیں۔جی بھر کر غصہ اور بھڑاس نکال لینے کے تھوڑی دیر بعد اسے پاس بلائیں گے۔ اس کی دلجوئی بھی کریں گے اور جیب سے سو روپے بھی نکال کر دے دیں گے۔
ریپرٹری میں اس عادت کی Rubricہے: Scolding, Abusive
یہاں نکس کے مقابلے میں جو دوائیں آتی ہیں۔ ان میں کیمومیلا، لائیکو پوڈیم، ہیپرسلفر اور اناکارڈیم ہیں۔
ایسی نوجوان مائیں جنہیں بچوں کی پرورش کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا اور بار بار IRRITATE ہوتی ہیں اور بجائے صبر کے بچوں کو دو چار تھپڑ لگا دیتی ہیں انہیں نکس وامیکا لے لینا چاہیے۔ نکس ایسی خوتین کی بھی دوا ہے کہ اکیلے میں ان کے دل میں ایک عجیب اور بے تکا خیال آتا ہے کہ وہ اپنے خاوند کو قتل کر دیں۔
یہ لوگ گہرے رنگ کے شیشوں کا چشمہ پہننا پسند کرتے ہیں۔فاسفورس اور ٹیوبر کی طرح خاموشی اور تنہائی سے ان کی جان جاتی ہے۔نکس پیسہ کمانے کا فن جانتا ہے۔اور جتنی تیزی سے پیسہ کماتا ہے اتنی ہی تیزی سے اسے خرچ کرنا اور لٹانا بھی جانتا ہے۔
نکس اگر مریض کے روپ میں ہو تو اتنے پیارے نپے تلے ربط اور ترتیب سے اپنا کیس بیان کرے گا کہ درمیان میں آپ کو ٹوکنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔کینٹ نے لکھا ہے،
IDEAS ABDUNDANT, CLEARNESS OF MIND.
ان کی ہربات میں ایک سلیقہ ہوتا ہے، انہوں نے ہر کام کے لئے ایک S.O.P.یعنی (STANDARD OPERATING PROCEDURE) بنایا ہوتا ہے۔
میرے ایک دوست ہیں۔ نکس وامیکا کی چلتی پھرتی تصویر ہیں۔ جب کبھی وہ مجھے اپنے ہاں بلاتے ہیں تو سب سے پہلے ٹیلیفون پر ملاقات کا وقت طے کریں گے وقت طے ہو جانے پر مجھے معلوم ہوتا ہے کہ دو بجے کا مطلب ان کے نزدیک ایک بج کر ساٹھ منٹ ہوتے ہیں۔اورجب میں ان کے گھر جاتا ہوں تو اکثر مجھے کال بیل نہیں بجانی پڑتی، اوپر بالکونی پر کھڑے میرا انتظار کر رہے ہوتے ہیں ۔وہیں سے آواز لگائیں گے، گاڑی سامنے دیوار کے دائیں جانب پارک کریں اس طرف سایہ ہے اور گاڑی ہماری نظروں کے سامنے بھی رہے گی۔گاڑی کو ڈبل لاک لگا دیں۔ دروازہ کھلا ہے سیدھا اوپر تشریف لے آئیں۔صاف ستھرے ڈرائنگ روم میں داخل ہونے پرمیرے ساتھ ان کا انداز کچھ یوں ہوتا ہے۔ آپ اس صوفہ پر بیٹھیں یہاں سے ہیٹر آپ کے قریب ہو گا۔اچھا آج سب سے پہلے ہم سیاست پر بات کریں گے، پھر کھانا ہو گا کھانے کے بعد چائے اور چائے کے دوران مزید گپ شپ ہو گی۔ چار بجے مجھے اسلام آباد جانا ہے لہذا چار سے پہلے ہم یہ محفل برخواست کر دیں گے۔ ڈایننگ ٹیبل خوب سجا کر رکھتے ہیں۔ڈایننگ ٹیبل پہ ان کی ہدایات کچھ اس طرح ہوں گی۔ آپ اس کرسی پر بیٹھیں، کرسی کو ذرا قریب کر لیں ، گلاس آپ کی دائیں جانب پڑا ہے۔ روٹیاں ساتھ ساتھ آتی رہیں گی تاکہ گرم گرم مل سکیں۔ نیپکن اپنے سامنے بچھا لیں۔کھانے کے دوران ان کی ہدایات کا سلسلہ جاری رہتا ہے یہ لیجیے وہ لیجیے۔قائل ہوتے کم ہیں کرتے زیادہ ہیں۔سننے کی بجائے سنانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں کسی مشین کے ساتھ بیٹھا کھانا کھا رہا ہوں۔ہر بات میں پروٹوکول ۔کالی کارب کی طرح لگی لپٹی کے بغیرصاف ستھرے ، دو اور دو چار کے لہجے میں بات کرتے ہیں ۔بہت اچھے ہیں لیکن انہیں مل کر اپنائیت کا احساس نہیں ہوتا، چاشنی، جذبات کی گرمی اور وضعداری کی کمی محسوس ہوتی ہے۔جیسے کوئی چیز بیک وقت آپ کو اپنی طرف کھینچ بھی رہیہو اوردھکیل بھی رہی ہو۔مصافحہ کرنے پر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی روبوٹ سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔جبکہ فاسفورس کو ملنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھائیں تو وہ سینہ پھیلا دیتا ہے۔اور اتنی گرم جوشی سے ملتا ہے کہ طبعیت خوش ہو جاتی ہے۔
ایک صاحب نائی کی دکان پر بال بنوانے گئے۔دوران حجامت نائی کو ہدایات دے دے کر زچ کر دیا۔مثلاً کرسی کی پشت کو سیدھا کرو، داڑھی کو مزید صابن لگا کر گیلا کرو۔ استرے کو درست زاویے سے چلاؤ۔قینچی یوں نہیں چلاتے بلکہ یوں چلاتے ہیں۔ بالوں کو سامنے کے رخ سے لمبا اور ساےئڈوں سے کم لمبا رکھو۔تم نے دائیں مونچھ پتلی اور بائیں موٹی کر دی ہے۔ دونوں کو احتیاط سے برابرکرو۔تولیے کو سیٹ کرو۔ نائی بے چارہ بہت اپ سیٹ ہوا۔ خاموشی سے حجامت بناتا رہا۔ جب فارغ ہوا تو گاہک نے پوچھا کتنے پیسے؟۔رہنے دیں جناب ۔ نائی نے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجاتے ہوئے طنزیہ لہجے میں جواب دیا۔ ہم اپنی برادری والوں سے پیسے نہیں لیتے۔ یہ صاحب نکس وامیکا تھے۔ سکے۔نہ صرف ڈاکٹر صاحب بلکہ ان کے مریض بھی وقت کے پابند ہوتے ہیں۔ لیکن اگر آپ ان سے بحث میں پڑ جائیں یا ان کی کسی دلیل کو رد کر دیں تو لائیکوپوڈیم کی طرح ان کا پارہ ہائی ہو جاتا ہے۔مزاج کے خلاف کچھ برداشت نہیں کرتے۔کینٹ نے لکھا ہے۔
INTOLERANT TO CONTRADICTION
کیموملا کی طرح ان کے چڑچڑے پن کی کوئی حد نہیں ہے۔
بعض پروفیسر اور پڑھاکو حضرات جو پڑھائی میں دن رات ایک کر دیتے ہیں، کسی پروجیکٹ میں پڑ کرہفتوں گھر سے باہر ہی نہیں نکلتے۔ چائے کافی پی پی کر اور مرغن غذائیں کھا کھا کر معدہ خراب کر بیٹھتے ہیں۔ ان کی خاص دوا ہے۔ کھانے پینے میں ہر ایسی غذا یا مشروب جو ان کے بدن میں تحریک پیداکرسکے انہیں پسند ہوتیہے۔ ریپرٹری میں اس کے لئے RUBRIC: STIMULANTS DESIRE ہے۔اگر انہیں ہومیوپیتھی سے دلچسپی پیدا ہو جائے تو پھر اپنی اہلیہ کو بھی نظرانداز کر دیتے ہیں۔سلفر کی طرح یہ لوگ اپنے علم اور برتری کو شو آف بھی کرتے ہیں۔ایسے ڈاکٹر حضرات جو بہت زیادہ دیر تک کلینک پر بیٹھتے اور سٹڈی کرتے رہتے ہیں انہیں کبھی کبھی نکس لے لینا چاہیے۔
نوٹ: جنوری 2007 ایشین ہومیوپیتھک میڈیکل لیگ کے انٹرنیشنل سیمینار منعقدہ بھوربن مری میں پڑھا گیا۔