محترم حا ضرین کرام!
Hepatitis- Cمیرے لئے بہت آسان ہوتا کہ میں آپ کے سامنے اپنا کوئی کیس پیش کرتا کہ فلاں مرض میں میں نے فلاں دوا دی اور مریض ٹھیک ہو گیا۔ یا میں نے اتنے عدد کینسر اور اتنے
کے مریض ٹھیک کئے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کو کیا حاصل ہو گا۔ بطورسامعین آپ کے لئے سوائے ایک خبر کے اس کی چنداں اہمیت نہیں ہوگی۔
اگر چہ اس طرح کے کیس پیش کرنے کی بھی ایک اہمیت ہے لیکن جتنے سیاق و سباق سے انہیں پیش کیا جانا چاہے بالعموم ویسا نہیں کیا جاتا۔ سننے یا پڑھنے والا ایک تشنگی محسوس کرتا ہے۔
میں نے ایک بار ایک ہومیوپیتھک میگزین میں کسی ڈاکٹر صاحب کا کیس پڑھا۔ لکھتے ہیں۔
’’ایک بار میرے کلینک میں ایک پلپلے جسم والی موٹی خاتون داخل ہوئی جس کی ٹانگیں پتلی تھیں، پسینہ اس کے سر سے نچڑ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ابلے انڈوں سے بھرا لفافہ تھا اور وہ انڈے کھائے جارہی تھی۔ میں نے اسے کلکیریا کارب دی اور وہ ٹھیک ہو گئی۔ ‘‘
حاضرین کرام!
آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ آپ کو اس کیس سے کیا راہ نمائی ملی۔ آپ کو روزمرہ پریکٹس میں کتنی ایسی خواتین سے واسطہ پڑتا ہے جو ابلے ہوئے انڈوں کی ٹوکری ہاتھ میں اٹھائے منہ میں چباتے اور سر سے پسینہ گراتے چلتی پھرتی کلکیریا کارب کا اشتہار بنی آپ کے کلینک میں داخل ہوتی ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر مشکل کس بات کی ہے۔ لیکن حقائق اس بات کی نفی کرتے ہیں۔ اپنی تعریف میں رام کہانیاں بیان کرنا اور بات ہے اور نیک نیتی سے ہومیوپیتھی کی پریکٹس کرنا الگ بات ہے۔
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا!
معاف کیجئے گا میں یہاں موجود اہل علم اور پرانے تجربہ کار ڈاکٹر حضرات کی بات نہیں کر رہا۔ میں تو ان نئے، نوجوان اور کم تجربہ کار ڈاکٹرز کی بات کر رہا ہوں جو حصول علم کے لئے دور دراز کا سفر کر کے، سینکڑوں روپے خرچ کر کے اور اپنا قیمتی وقت نکال کر اتنے مہنگے ہوٹلوں میں آتے ہیں، وہ کیا لے کر جاتے ہیں؟ کیا کبھی آپ نے سوچا؟
یقین کیجئے! ان کی ترجیحات میں کینسر اور ایڈز جیسے امراض پر ہاتھ ڈالنا یا
HCV (+IVE) کو HCV (-IVE) کرنا نہیں۔ انہیں آپ صحیح طریقے سے کیس ٹیکنگ اور Analysis سکھائیے، انہیں میٹریا میڈیکا اور فلاسفی پڑھنا سکھائیے، انہیں آپ ریپرٹری دیکھنا اور سمجھنا سکھائیے۔ انہیں مریض کی زبان سے نکلے الفاظ کو ریپیرٹری کی زبان عطا کرنا سکھائیے، انہیں علامات میں فرق کرنا سکھائیے۔ انہیں سنگل دوا کا انتخاب اور پھر اس پر بھروسہ کرنا سکھائیے۔ انہیں کیس میں کامیاب ہونا سکھائیے۔ انہیں ناکام ہونا سکھائیے اور ناکام ہو کر پھر سے کامیاب ہونا سکھائیے۔ انہیں ہومیوپیتھی کی محبت میں مبتلا ہونا سکھائیے۔
سینئر اور تجربہ کار حضرات سے میری درخواست ہے کہ وہ اپنی بند مٹھی کھول دیں۔ آپ کے پاس جو علم ہے وہ امانت ہے اسے دوسروں تک پہنچائیے۔ کتابیں اگرچہ بہت کچھ دیتی ہیں لیکن سب کچھ نہیں دے سکتیں۔
یقین کیجئے! گلی کوچوں میں ہمارے نادان دوست ہومیوپیتھی کی پریکٹس کر رہے ہیں جس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو رہا ہے۔ Profession کی بہت بدنامی ہو رہی ہے جو بالآخر سب کی بدنامی ہے۔
اب میں اصل موضوع پر آتا ہوں۔
حاضرین کرام!
کیس ٹیکنگ اور Analysis کے بارے میں آپ نے بہت کچھ پڑھا اور سنا ہو گا۔ تاہم یاد رکھیئے!کیس ٹیکنگ میں کبھی بھی 2+2=4 کا فارمولا نہیں چل سکتا۔
یہ ایسا معاملہ ہے جسے برسوں کی عرق ریزی کے بعد ایک ہومیوپیتھ کچھ سمجھنے کے قابل ہو تا ہے۔ بلکہ ایک ڈاکٹر نے کیا خوب کہا ہے، جب عمر ختم ہونے لگتی ہے تو ہومیوپیتھی کی سمجھ آنے لگتی ہے۔ کیس ٹیکنگ پر جتنا کچھ بیان کیا جائے کم ہے۔ہے سیکھنے کی چیز اسے بار بار سیکھ۔
بعض ہومیوپیتھس میں Intitution یعنی وجدانی صلاحیت ہوتی ہے۔ جس کی بنا پر وہ بہت جلد کسی حتمی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں۔ اور یوں دوا تجویز کرنا ان کے لئے آسان ہو جاتا ہے۔ جبکہ بعض کا دماغ سائنسی، تکنیکی اور مادہ پرستانہ نوعیت کا ہوتا ہے۔ اور وہ باقاعدہ مجموعہ علامات اور ریپرٹرائزنگ کے ذریعہ تجزیہ کر کے دوا کا انتخاب کرتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں دونوں کی اہمیت اپنی جگہ پر مسلم ہے اور ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ ہم بیک وقت دونوں صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کر سکیں۔ جارج وتھالکس نے کہا ہے، بے شک ہومیوپیتھی آرٹ بھی ہے اور سائنس بھی، تاہم سائنس (محنت اور مطالعہ اور مشاہدہ) کی مشکل گھاٹی سے گزرے بغیر آرٹ کی منزل سر کرنا بہت مشکل ہے۔ بقراط نہ کہا: زندگی کے پاس اتنی مہلت نہیں کہ وہ آرٹ کی ساری منزلیں سے کر سکے۔ موقع ہاتھ سے نکلے جا رہا ہے۔ تجربہ جن پہ تکیہ کرتا ہے وہی پتے ہوا دینے لگتے ہیں۔ قوت فیصلہ بے بس ہے، لاچار ہے۔
محترم ڈاکٹر حضرات!
ہومیوپیتھی بہت مشکل فن ہے۔ شاید اللہ کی مرضی اسی طرح تھی ورنہ وہ چاہتا تو اسے آسان بنا دیتا۔مثلاً سلفر کا کیس لیں۔ اگر ایسا ہوتا کہ ہر وہ شخص جو رات کو اپنے پاؤں
بستر سے باہر نکال کر سوتا ہے جسے کھٹی میٹھی چیزیں پسند ہیں جو کپڑوں کی استری اور صفائی کے بارے میں لا پرواہ ہے، سلفر کھانے سے ٹھیک ہو جاتا۔
اورہر نیلی آنکھوں والی لڑکی جس کا منہ خشک ہوتا اور پیاس نہ ہوتی پلسٹیلا ہوتی تو ہومیوپیتھی کتنی آسان ہو جاتی۔ بلکہ پھر تو وہ کھیل تماشا ہوتی۔ جیسے سر درد کا ہر مریض پیناڈول کی گولی کھانے سے (بظاہر) ٹھیک ہو جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو شاید ایسے منظور نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
میں نے دنیا کھیل تماشے کے لئے نہیں بنائی۔
ہومیوپیتھی میں کیس ٹیکنگ اس بات کی متقاضی ہے کہ اس میں صرف یک جہتی Single directional نہیں بلکہ Multi directional approach چاہیے۔ یعنی مجموعہ علامات ہمیں دو رخی جبکہ Essence ہمیں سہ رخی معلومات مہیا کرتا ہے۔
کیس ٹیکنگ میں معلومات کا ایک ایک ٹکڑا جمع کرنا ہوتا ہے اور پھر ان ٹکڑوں کو کمال مہارت سے یوں جوڑنا ہوتا ہے کہ وہ مجسم دوا بن جائے۔ اسی اک نام آرٹ ہے۔
ESSENCE
(جوہر)
آئیے دیکھتے ہیں Essence کیا ہے۔
Essence دراصل کسی دوا کو اس کی روح کے ساتھ نہایت گہرائی اور گیرائی میں سمجھنے کا نام ہے۔ کسی دوا پر مکمل عبور حاصل کرنے کا نام ہے۔ دوا کی اصل، دوا کی فطرت، دوا کا مرکزی خیال، اسے جو بھی نام دیں، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں سب سے پہلے جارج وتھالکس نے اس کا نظریہ پیش کیا۔ بعد میں کیلے فورنیا کے ڈاکٹر Bill Gray نے اسے امریکہ میں متعارف کرایا۔
Essence دراصل دواؤں کو ایسے سمجھنا ہوتا ہے جیسے آپ کسی شخص کی انفرادی پہچان رکھتے ہیں۔ مثلاً جیسے آپ اپنے پرانے اور گہرے ساتھیوں کے بارے میں دعویٰ کر سکتے ہیں کہ آپ انہیں نہایت اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ آپ کا ان سے گہرا رشتہ کئی سالوں پر محیط ہے۔ آپ نے انہیں ہر خوشی، غم اور غصہ کے موقع پر، دنیاوی معاملات میں، لین دین میں، جذبات میں، ذاتی پسند ناپسند میں الغرض ہر رنگ میں دیکھا ہوتا ہے۔ آپ ان کے نظریات اور رویوں سے واقف ہوتے ہیں۔ لہذا جو تاثر اور شبیہہ آپ نے الگ الگ اپنے ہر دوست کے بارے میں قائم کیا ہوتا ہے۔ وہی Essence ہے۔ جس کی ہم بات کر رہے ہیں۔ یہ وہ انفارمیشن ہے جو آپ کو بین السطور ملتی ہے۔ یہ وہ نقش ہے جو دوران انٹرویو آپ کو مریض کی آنکھوں میں اس کے دل کے نہاں خانوں میں جھانکنے پر نظر آتا ہے۔ یہ ایسا معلومات کا خزانہ ہے جو کسی مریض کی شخصیت کے ہمہ جہت پہلو کو نمایاں کرتی ہے۔
جب آپ مزاجی دواؤں کا Essence سمجھنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو ہومیوپیتھی آپ کے لئے آسان ہو جائے گی۔ خصوصاً ایسے پیچیدہ کیس جنہیں ONE SIDED کہا جاتا ہے، ایسے کیسوں میں علامات خلط ملط ہو جاتی ہیں یا دب جاتی ہیں وہاں پر ESSENCE کام آتا ہے۔
Essence یعنی جوہر کا انحصار کئی باتوں پر ہے۔ مثلاً
CAUSATION
(اسباب)
نیٹرم میور کی مثال لے لیں اس میں غم اور دکھ کے اسباب اور کنارہ کشی اور پردہ پوشی کے رحجان کی خاص اہمیت ہے اس کے بغیر نیٹرم میور کا Essence مکمل نہیں ہو گا۔اسی طرح سٹیفی سگیریا میں جذبات اور غصہ کا دب جانا خاص الخاص علامت ہے۔ سٹیفی کا مریض اپنے حقوق حاصل کرنے کی ہمت نہیں پاتا۔اس کے بغیر سٹیفی کا Essenceنا مکمل ہے۔ ٹانسلز کا ایسا کیس جس کے پس منظر میں بکٹیریا Streptococcal کی انفکشن ہے وہاں دوا Streptococcin کے بارے میں سوچنا ہو گا۔
TEMPO
(رفتار ،چال)
دوا کے بالمثل ہونے میں مرض اور دوا کے ٹمپو کا بالمثل ہونا بھی ضروری ہے۔ ایلومینا کی مثال لیں، نہایت دھیمے مزاج والی اور متذبذب دوا ہے۔ سست روی سے اثر انداز ہوتی ہے۔ لہذا اس کی علامات بڑی آہستگی سے نمودار ہوتی ہیں۔ لہذا اگر کسی کیس میں ایلومینا دوا بنتی ہے لیکن علامات میں سستی کی بجائے تندی اور تیزی ہے تو ایلومینا کا Essence نہیں ہے۔ گمان غالب ہے کہ ایلومینا کام نہیں کرے گی۔
اسی طرح ایکونائٹ کے مزاج میں تیزی اور اچانک پن ہے۔ بیلاڈونا میں علامات کا تیزی سے آنا، کچھ دیر رک کر غائب ہو جانا اور پھر تیزی سے عود کر آنا اس کا Tempo ہے۔ ان باتوں کا دھیان رکھنا ہو گا۔
CENTRE OF PATHOLOGY
( مرکزی دائرہ کار)
بعض دواؤں کا مختلف جسمانی اعضاء سے خصوصی ناطہ ہوتا ہے ، اسے Elective affinity کہتے ہیں۔ مثلاً نکس وامیکا کا مرکزی اثر
(GIT) Gastro intestinal tract پر ہے۔ اگر مجموعہ علامات نکس وامیکا کی طرف اشارہ کرتی ہیں لیکن GIT میں کوئی شکایت نہیں ہے۔ تو آپ کو نکس وامیکا تجویز کرنے سے پہلے درجن بار سوچنا ہو گا۔
فرض کریں لائیکوپوڈیم دوا بنتی ہے لیکن مریض کو نظام بول کی کوئی شکائت نہیں ہے تو دوا کی سیلیکشن مشکوک ہو سکتی ہے۔
اس طرح برائی اونیا میں بلغمی جھلیاں، نیٹرم میور میں جذبات + سر درد، جیلسیمیم میں آنکھوں پر بوجھ، لائیکوپوڈیم کی دائیں سائڈ اور لیکسس کی بائیں سائیڈ ان کی Elective affinity ہے۔
PHYSIOGNOMY
(علم قیافہ، چہرہ شناسی)
جب ہم لمبے قد، تنگ چھاتی، روشن آنکھوں اور ملائم چہرے والے شخص کی بات کرتے ہیں تو فاسفورس سامنے آتی ہے۔جب ہم ڈھیلے ڈھالے، پلپلے جسم اور شکنوں والے چہرے کی بات کرتے ہیں تو کلکیریاکارب۔لیکن جب ہم ڈھیلے ڈھالے ، ملائم اور شکنوں کے بغیر چہرے کی بات کرتے ہیں تو برائٹا کارب، اور جب ہم جھریوں زدہ چہرے گال اندر کو پچکے اور اپنی عمر سے زیادہ نظر آنے والے لڑکے کی بات کرتے ہیں تو ارجنٹم نائٹریکم سامنے آتی ہے۔ اور جب ہم لمبے تڑنگے پرکشش نوجوان اور لمبی پلکوں کی بات کرتے ہیں تو ٹیوبرکلونیم کی بات کرتے ہیں۔
اسی طرح شخصیت کو لیتے ہیں۔
بات بات پر چیلنج کرنے والا ہر مہم کے لئے تیار، نکس وامیکا۔ بڑھکیں مارنے والا اور مبالغہ آرائی سے کام لینے والا لائیکو۔ ناانصافی اور ظلم کے رستے میں کھڑا ہو جانے والا کاسٹیکم، دوسروں کے معاملات میں ٹوہ لینے والا تھوجا، دوسروں کے رعب میں آجانے والا اور اپنے حقوق سے دست بردار ہو جانے والا سٹیفی۔ جیو اور جینے دو کا قائل نیٹرم میور یہ سب Essence میں شامل ہیں
یاد رکھئے!
ہر چہرہ انفرادیت کا آئینہ دار ہے۔
Evere face is reflection of an individual
پریکٹس میں آپ کی کامیابی کا دارومدار آپ کی درست کیس ٹیکنگ پر ہے۔ دوران کیس ٹیکنگ ایک ہومیوپیتھ کو بار ہا مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اکثر اوقات مجموعہ علامات ایک سے زیادہ دواؤں کی طرف اشارہ کرتا ہے یا ایسی کلیدی علامات ملتی ہیں جو ایک سے زیادہ دواؤں میں پائی جاتی ہیں یا کلیدی علامات اور مجموعہ علامات ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں Essence کی بنیاد پر انتخاب دوا آسان ہو جاتا ہے۔
موجودہ دور کا نیا اور تیزی سے بدلتا ہوا لائف سٹائل، فضائی آلودگی، زراعت میں کھادوں کا استعمال، فصلوں پر جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ، کیمیاوی مادوں کا عمل دخل، تصنع، ریا کاری Multiple personalities ،ویکسی نیشن اور مختلف طریقہ علاج کے نتیجے میں علامات اگر دب نہ جاتیں تو مجموعہ علامات پر علاج بہت آسان ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ پولی کریسٹ دواؤں کا Essence سمجھنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔
TOTALITY
(مجموعہ علامات)
آبالمثل دوا تک پہنچنے کے لئے معلومات کا دوسرا بڑاذریعہ ہے یہ ساری ضروری علامات اکٹھی کر کے ریپرٹرائز کرنے کا مشینی انداز ہے۔ اگر مجموعہ علامات اور Essence کا تقابلی منظر پیش کرنا ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ مجموعہ علامات دو رخی تصویر (Two dimensional) جبکہ Essence سہ رخی (Three dimensional) تصویر پیش کرتا ہے۔ مجموعہ علامات کے بارے میں ایک بات یاد رکھیں۔
Totality does not mean that each and every symptom combined togather, but only the essential totality of symptoms.
مجموعہ علامات کا مطلب ہے علامات کا معیاری مجموعہ نہ کہ عددی مجموعہ۔
کیس کی خصوصی علامات کو دوا کی خصوصی علامات کے ساتھ بالمثل ہونا چاہیے۔
جو علامت جتنی شدت سے اور جتنی نمایاں مریض میں پائی جاتی ہے اسی شدت سے اور اتنی نمایاں دوا میں بھی پائی جانی چاہیے ورنہ بالمثل کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔
Keynote
(کلیدی علامات)
معلومات حاصل کرنے کا تیسرا ذریعہ ہے۔
کلیدی علامت کے لئے لازم ہے کہ وہ عجیب ہو ، نادر ہو اور روٹین سے ہٹ کر ہو، جو ڈاکٹر کو غور کرنے پر مجبور کر دے۔ مثلاً سلفر کا مریض سردی کے مارے کمبل اوڑھنے پر مجبور ہے لیکن پاؤں بستر کے اندر نہیں رکھ سکتا یہکلیدی علامتہے۔ سلفر کے مریض کو میٹھا پسند ہے لیکن یہ کلیدی علامت نہیں ہے کیونکہ بہت ساری دواؤں میں میٹھا پسند کیا جاتا ہے۔(36دوائیں)
اگنیشیا کے گلے کی تکلیف میں ٹھوس شے آسانی سے نگلی جا سکتی ہے جبکہ مائع گذارنا مشکل ہے عجیب بات ہے لہذا کلیدی علامت ہے۔
خوف و ہراس کی کیفیت میں یا اچانک کسی واقعہ کے غیر متوقع رونما ہونے پر اسہال لگ جانا ارجنٹم نائٹرکم کی کلیدی علامت ہے۔
پیشاب کی نالی کا ورم، چھونے سے درد کرتا ہے اور مریض ٹانگیں پھیلا کر چلنے پر مجبور ہے۔ کینابس انڈیکا کی کلیدی علامت ہے۔
Past and Family History
(ماضی کی ہسٹری)
One sided اور پیچیدہ کیسوں میں دوا تک پہنچنے کا اہم ذریعہ ہے اس موضوع پر ڈاکٹر عبدالرحمٰن نے دسمبر 2002 مسعود میموریل ڈے پر نہایت اچھی طرح تفصیلاً بیان کیا ہے۔
مریض کی ماضی کی ہسٹری کو دیکھنا اور کھنگالنا پڑتا ہے کہ وہ کسی گہری اور مزمن مرض میں تو مبتلا نہیں رہا ہے۔ یا مریض یوں کہے کہ مجھے جب سے(کئی سال پہلے) ٹائیفائیڈ یا نمونیہ وغیرہ ہوا ہے تب سے میں اپنے آپ کو ٹھیک محسوس نہیں کرتا تو ایسی علامات کو اہمیت دینا چاہے۔ اسے NEVER WELL SINCE کہتے ہیں۔
مثلاً دوران حمل اگر ماں کو تشنجی دورے پڑتے رہے ہوں تو بچے کو بھی بغیر بخار کے ایسے دورے پڑ سکتے ہیں یا اسے ایسے اسہال لگ سکتے ہیں جن کی کوئی توجیہہ بیان نہ کی جا سکے۔ حوالہ: ایس کے بنرجی۔ میٹیریا میڈیکا آف rare ریمیڈیز۔
Never Well Sinceکی مثالیں:
کاروبار تباہ ہو جانے پر جلسیمیم، نکس وامیکا، سلیشیا
رقم ڈوب جانے پر آرنیکا، اورم میٹ،آرسنکم البم۔
باس سے لڑائی ہو جانے پر نکس وامیکا ، سلفر
سخت گیر والدین کے بچوں کے لیے کارسی نوسن، نیٹرم میور، سٹیفی سگیریا، اناکارڈیم
پے در پے صدمات کاسٹیکم، امبرا گریسا، فاسفورک ایسڈ
عصمت دری سٹیفی، آرنیکا، سیپیا، کاسٹیکم
سن بلوغت کے بعد سے جلسیمم، فاسفورس، پلسٹیلا
Miasmatic tendency کی مثال
مثلاً آپ کے پاس ایک سائکوٹک مریض آتا ہے اور آپ کسی حتمی دوا تک نہیں پہنچ پاتے۔ آپ پوچھتے ہیں؟ کیا آپ کو گنوریا ہوا تھا؟ وہ کہتا ہے نہیں۔ کیا آپ کے والد صاحب کو ہوا تھا؟ یہ ایسا سوال ہے کہ شاید ہی کوئی مریض ہمیں یہ انفارمیشن دے سکے۔ لیکن یہ انفارمیشن حاصل کرنے کا ایک متبادل طریقہ بھی ہے۔ آپ پوچھیں
سوال: ان کی وفات کیسے ہوئی؟
جواب: حرکت قلب بند ہونے سے۔
سوال : کتنی عمر میں؟
جواب: تقریباً 45 سال کی عمر میں۔
یاد رکھئے۔
اوئل عمری میں حرکت قلب بند ہونے سے موت واقع ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ پس منظر میں گنوریا سبب تھا۔
یہاں آپ بلا تردد میڈورینم دے سکتے ہیں۔ مزید رہنمائی کے لئے دیکھیے۔ Clarke’s Clinical repertory کا Chapter
PAST HISTORY OF DRUGS
(گذشتہ علاج کی ہسٹری)
مریض کی ماضی کی ہسٹری بہت اہمیت کی حامل ہے۔ مثلاً کوئی شخص پنسلین کا انجکشن لگوانے کے بعد کوئی خاص Syndrome develop کر لیتا ہے تو اسے پوٹنسی کی حالت میں پنسلین دی جا سکتی ہے۔ ایسا کرنے سے بعض اوقات کیس واضح ہو جاتا ہے۔ تاہم ایسا صرف اسی صورت میں کرنا چاہیے جب مجموعہ علامات پر دی گئی دوا کام نہ کرے۔ اسے آئسوپیتھی کہتے ہیں۔ اس طرح ویکسی نیشن کے بد اثرات کو دور کرنے کے لئے اکثر تھو جا تجویز کی جاتی ہے۔ تاہم تھوجا چیچک کی ویکسی نیشن کے بد اثرات کو زائل کرنے میں اچھا کام کرتی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ چہرے پر ایسے دانوں کے نشانات جو گڑھا نما ہوتے ہیں وہاں تھوجا زیادہ بہتر کام کرتی ہے۔ دوسری قسم کے ویکسین کے بد اثرات دور کرنے میں سلیشیا بہتر کام کرتی ہے۔
ایک اور اہم نکتہ جس کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ وہ ان ” ہومیوپیتھک دواؤں” کے بارے میں ہے جو مریض آپ کے کلینک میں آنے سے پہلے استعمال کر چکا ہے۔ بد قسمتی سے اس پہلو کو ہمارے ہاں زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ کیا معلوم مریض پچھلے ڈاکٹر سے فاسفورس کھا کر آ چکا ہو اور آپ کاسٹیکم دے دیں اور ایسا ہو جانے کے بہت امکانات ہوتے ہیں۔ کیونکہ فاسفورس اور کاسٹیکم ایک دوسرے کی دشمن ہونے کے علاوہ ایک دوسرے کے بہت قریب بھی ہیں۔ یوں سمجھیں یہ دو تلواریں ہیں جو ایک نیام میں نہیں رہ سکتیں۔ لہذا یہاں غلطی سے کاسٹیکم دینے پر سارا کیس گڑ بڑ ہو جائے گا۔
کینٹ لیکچرز میں لکھا ہے ”ایک ہومیوپیتھ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ جب مریض اس کے پاس سے رخصت ہو رہا ہو یا ڈاکٹر ایسے مریض کو کسی دوسرے ڈاکٹر کی طرف روانہ کر رہا ہو تو مریض کو ماضی میں دی گئی ساری دواؤں کی معلومات دے دینا چاہئے تاکہ اگلے ڈاکٹر کے لئے کیس ٹیکنگ میں مشکل نہ ہو۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم میں سے کتنے اس ہدایت پر عمل کرتے ہیں۔ دراصل اس اصول کی خلاف ورزی کر کے ہم اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں ہومیوپیتھس کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ اس اصول کی خلاف ورزی بھی ہے۔
FOCUS
(مقام انتشار)
ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہو گا کہ کون سی شکایات یا علامات شدت سے ہماری توجہ چاہتی ہیں۔یا مریض کی مرکزی شکایت کیا ہے۔ مثلاً کوئی شخص بار بار یہ کہتا ہے کہ اسے کینسر ہو جائے گا تو اس کی اس بات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ عین ممکن ہے اسے کینسر شروع ہو چکا ہو۔ یا مثلاً عرق انساء کے درد میں مریض کہتا ہے اگر مجھے کھانسی آئے تو میرے لیے موت کا سماں ہوتا ہے۔ ایک مریض بار بار یہ کہتا ہے ڈاکٹر میرے چہرے کی چھائیوں کا کچھ کریں۔ ایک خاتون جس کے سر کے چند بال روزانہ گرتے ہیں لیکن اس نے اتنی سی شکایت کو اپنے اعصاب پر سوار کر رکھا ہے کہ وہ گنجی ہو جائے گی۔ ہر بار آتی ہے اور اپنے بالوں کے گرنے کا رونا لے کر بیٹھ جاتی ہے۔ تو ایسی علامات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہے۔
FOCUS کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔
مثلاً ایک سادہ دیہاتی، کسان یا ریڑھی والا ہے جو اپنے سر درد کی شکایت لے کر آیا ہے ایسے کیسوں میں بالعموم آپ کو جذباتی علامات دیکھنے کو نہیں ملیں گی لہذا اس میں سر کھپانے کی ضرورت نہیں وہاں modalities آپ کی زیادہ مدد کریں گی۔ یا کبھی کبھار اشیائے خور و نوش
کی رغبت یا عدم رغبت کام دے جاتی ہیں۔ فرض کریں ایک شخص کو دیوار میں کیل ٹھونکنے کے دوران انگلی پر ہتھوڑی لگ گئی۔ وہ درد سے کراہتا آپ کے کلینک میں داخل ہوتا ہے اور آپ کیس ٹیکنگ کے دوران فیملی ہسٹری پر چلے جاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں آپ کی بیوی کے آپ سے کیسے تعلقات ہیں۔ ممکن ہے یہ سن کر اور طیش میں آ کر وہ شخص وہی ہتھوڑی آپ کے سر پر دے مارے۔ ایسے کیسوں میں خواہ مخواہ ذہنی اور جذباتی علامات کریدنے کی کوشش نہ کریں۔
Focus کی بات ہو رہی ہے تو خواتین میں اعضائے تناسل کی علامات کی خاص اہمیت ہے اگر کوئی دوا ان کا احاطہ نہیں کر رہی تو بالمثل تک پہنچنا مشکل ہے۔ بلکہ جارج وتھالکس (George Vithoulkas) نے تو انہیں جنرل علامات کے ہم پلہ شمار کیا ہے۔
CONFIRMATION
(توثیق)
یہ انتخاب دوا کا آخری مرحلہ ہوتا ہے مثلاً آپ نے لائیکو کا انتخاب کیا لیکن پیشاب کی کوئی علامت نہیں ملی، نکس کا انتخاب کیا لیکن نظام انہظام بالکل ٹھیک کام کر رہا ہے۔آرسینکم کا انتخاب کیا لیکن مریض میں احساس عدم تحفظ نہیں پایا جاتا۔ تو آپ کو سوچنا ہو گا کہ کہیں کوئی غلطی تو نہیں ہو گئی، کسی معلومات کی کمی تو نہیں رہ گئی۔ دوا کو یقینی بنانے کیلئے کھانے پینے میں شدید رغبت یا عدم رغبت، خواب، گرمی/ سردی کا معاملہ، جنسی علامات سونے کی پوزیشن وغیرہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
نوٹ: یہ لیکچر ایشین ہومیو پیتھک میڈیکل لیگ کے سالانہ سیمینار منعقدہ پی سی لاہور میں پڑھا گیا۔