تین ماہ قبل جب کرونا وائرس اور اُس کے مسائل نے زور پکڑا تو جہاں دنیا بھر میں ہومیوپیتھی کا خوب چرچا ہوا وہاں ایرانی باشندوں نے بھی ہومیوپیتھی میں خاصی دلچسپی لی۔ مجھے بھی کافی کالز اور میسیجز کرونا کے علاج کی بابت موصول ہوئے۔ ظاہر ہے کہ سب کو معذرت ہی کی کہ کرونا وائرس کے علاج کا، ہر ملک کا اپنا پروٹوکول ہوتا ہے اور علاج کے لئے گورنمنٹ کے اصول و ہدایات پر عمل کرنا چاہئے۔
ان رابطوں میں سے چند ایک نے اپنے جسمانی، جذباتی، ذہنی اور نفسیاتی مسائل پر بات کی اور اس وقت چار ایرانی مریض آن لائن ہومیوپیتھک علاج شروع کر چکے ہیں۔ پہلا ایرانی مریض بہت اذیت ناک مسائل سے دوچار ہے۔ ڈر، خوف اور فوبیا جیسے نفسیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ اُن کا ایک اہم ترین مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ ہم جنس پرستی (Homosexuality) کا شکار ہے۔ علاج جاری ہے۔ دعا کریں کہ پروردگار اُن کی مشکلات حل کرنے میں میری مدد فرمائے۔
والد محترم علامہ ارشد قیصرانی دیگر کئی زبانوں کے علاوہ فارسی اور عربی کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ حدیث اور فقہ کے ساتھ ساتھ عربی فارسی کی بنیادی تعلیم بھی والد محترم نے مجھے بچپن میں ہی دے دی تھی۔
زندگی کی جوئے رواں کے ساتھ بہتے بہاتے جب لاہور پڑاو پڑا تو ڈاکٹر محمد سلیم مظہر (موجودہ پرو وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی
@Mohammad Saleem Mazhar) سے دوستداری عروج کو پہنچی تو انہوں نے نہ صرف فارسی زبان و ادب کی باقاعدہ خود تعلیم دی بلکہ ماسٹرز کا امتحان دلوا کر ایم اے فارسی (لینگوئج و لٹریچر) بھی کر دیا۔ علامہ اقبال، حافظ اور رومی کو پڑھنے کے علاوہ فارسی اب تک کہیں کام نہ آ پائی تھی۔ جب ایرانی مریضوں کا کیس اُن کی زبان میں لیا تو اِن محسنوں کی یاد تازہ ہو گئی۔
ابا جی، پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر، ڈاکٹر عظمیٰ زریں نازیہ اور محترمہ تابندہ قمر کا احسان و شکریہ کہ جن کے تعاون اور راہنمائی میں، فارسی زبان و ادب سیکھنے کا موقع میسر آیا۔ پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر کو ہومیوپیتھی علاج سے بھی اُس زمانے میں گہری دلچسپی تھی کہ جب میں اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا تھا۔
باباجی فرمایا کرتے تھے ’’جو قوم اپنے محسنوں کو یاد کرنا بھول جاتی ہے‘ اُس قوم میں محسنین پیدا ہونا بند ہو جاتے ہیں‘‘۔ میرے خیال میں یہ معاملہ صرف قوموں کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ اگر کوئی انسان بھی اپنے محسنوں کو یاد نہیں کرتا تو اُس کو محسنین ملنا بند ہو جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے مریض کا فارسی فیڈبیک:
اگر بخواهم احساس و فکرم را به فارسی بگویم:
مانند پیش خشمگین نمی شوم و پرخاشگری نمیکنم اما وقتی که با مردم خشمگین، تهدید کننده، توهین کننده و عصبانی رو در رو می شوم آنگاه دچار ترس و اضطراب می شوم.اگر شدت ترسم بالا باشد، آنگاه ممکن است لرزش دست و یا لرزش صدا هم بگیرم؛ در این حالت، منی که در حالت عادی هم حاضر جواب نیستم، بیش از پیش دچار پریشانی ذهن در دادن پاسخ قاطع و جامع به مخاطبانم میشوم. این امر سبب میشود اعتماد به نفسم پایین بیاید؛ زیرا پیش خود می پندارم با این حد از ترس، اضطراب و تشویش خاطر چگونه در زندگی شخصی و شغل وکالت بتوانم حواس جمع و درست پیش بروم؟!!
حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210۔