ایک فلاسفر نے دوسرے فلاسفر سے پوچھا تم دنیا میں کیسے آئے؟
اُس نے جواب دیا ”اپنے ماں باپ کے سبب پیدا ہوا”۔
تمہارے ماں باپ کہاں سے آئے؟
“اپنے ماں باپ کےسبب”۔
ان کے ماں باپ کہاں سے آئے؟
“ان کے ماں باپ کےسبب”۔
تو پھر سب سے پہلے ماں باپ کہاں سے آئے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
اِس مثال سے “سبب” (Cause / Reason) کی اہمیت کو اُجاگر کرنا مقصود ہے۔ ہماری اِس مادی دنیا میں “سبب” کے بغیر نہ کچھ پیدا ہوتا ہے؛ نہ رُونما ہوتا ہے اور نہ محسوس ہوتا ہے۔ یہی کیفیت مریضوں اور اَمراض میں ہوتی ہے۔ ہر مرض چاہے وہ حاد (Acute) ہو یا مزمن (Chronic)، ہرعلامت چھوٹی ہو یا بڑی، خفیف ہو یا شدید؛ اُن کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوتا ہے۔ یہ سبب یا وجہ خارجی (External) بھی ہو سکتی ہے اور داخلی (Internal) بھی۔
آپ غور کریں گے تو معلوم ہو گا کہ عام طور پر اَسباب کی علامات مخصوص ہوتی ہیں ۔ مثلاً گرمی کی شدت، سورج کی تپش یا لُو لگنے سے جو سَردرد ہوگا وہ ایسا ہی ہو گا جو ہومیوپیتھک دوا (Glononinum) “گلونائنم” (کی علامات) میں پایا جائے گا۔ اسی طرح سردی کی شدت کے سبب سردرد “فیرم فاس” (Ferrum Phosphoricum) کا ہو گا ۔ مرغن، ثقیل غذا کا اِستعمال اِعتدال سے زیادہ ہونے اور تیزابیت پیدا ہو جانے سے جو علامات پیدا ہوں گی وہ “پلساٹلا” (Pulsatilla) یا “کاربوویج” (Carbo Vegetabilis) کی ہوں گی۔
اسی طرح ہر علت (سبب یعنی Cause) کا معلول (نتیجہ یعنی Effect) ہوتا ہے۔ کسی مریض کا موروثی مزاج علت ہے اور اس کے نتائج معلول ہیں اور یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے۔
ایک اَور مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی بیوہ عورت کا جواں سال اکلوتا بیٹا خدانخواستہ اچانک فوت ہو جاتا ہے۔ عورت صدمہ کی وجہ سے نڈھال ہو جاتی ہے، ضعفِ شدید کے دَورے پڑتے ہیں، دل بیٹھتا ہے، سرد پسینے آتے ہیں اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ اس مریضہ کو دیکھ کر “کاربوویج” (Carbo Vegetabilis) ہی ذہن میں آئے گی بشرطیکہ اِن تکالیف کا سبب (بیٹے کی وفات) کا معلوم نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ “کاربوویج” لینے سے عارضی طور پر اُس بیچاری کی حالت سنبھل بھی جائے کیونکہ ظاہری علامات “کاربوویج” کی ہیں۔ اِس کے باوجود ذہنی ہیجان، بھوک ختم، کمزوری، بیزاری وغیرہ جیسی علامات پھر بھی موجود رہیں گی۔ ایسا کیوں ہے؟ اِس لئے کہ “سبب” تھا جوان بیٹے کی وفات کا شدید صدمہ اور اُس کی وجہ سے رنج و غم کی اِنتہا۔ اِس سبب کو سمجھ کر جب ہم دوائی کا اِنتخاب کریں گے تو وہ “کاربوویج” نہیں بلکہ “اِگنیشیا” (Ignatia Amara) ہو گی۔ “اِگنیشیا” کی ایک خوراک دینے سے مریضہ کو جو فائدہ ہو گا وہ شاید کسی اَور دوا کے اِستعمال سے نہ ہو۔
اس مثال اور ساری تفصیل سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ سبب کے بغیر کوئی چیز ہے نہ کوئی بات؛ نہ درد ہے نہ احساس؛ نہ غم ہے اور نہ کوئی خوشی؛ نہ صحت ہے اور نہ ہی کوئی بیماری!!!!! لہٰذا، ہومیوپیتھک طریقۂ علاج میں کسی بھی مسئلے اور تکلیف کا سبب تلاش کرنے کے لئے مریض کے انٹرویو میں بعض اوقات ایک گھنٹہ سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ سبب معلوم ہو جائے تو علاج میں بڑی سہولت ہو جاتی ہے — ڈاکٹر اور مریض دونوں کے لئے۔ جو لوگ بغیر سبب جانے یا تفصیلی کیس انٹرویو لیے دوائی دینا اور لینا چاہیں وہ ہومیوپیتھک علاج میں کبھی اچھے اور دیرپا نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ تُکے، ٹوٹکے اور اندازے ہی ہوتے ہیں جو کبھی کبھار چل بھی جاتے ہیں مگر اکثر بُری طرح ناکامی ہی ہوتی ہے۔
میں، چونکہ ہومیوپیتھک علاج کے تمام تر تقاضوں کو پیشِ نظر رکھ کر ہی تشخیص اور علاج کرتا ہوں، اِس لئے میرے پاس کسی قسم کا کوئی نسخہ موجود نہیں ہے۔ فیس بُک، فون پر یا ملاقات میں جو خواتین و حضرات کسی مرض کی دوا پوچھتے ہیں، اُن سے اِس لئے ہمیشہ معذرت کرنا پڑتی ہے کہ مریض کی مکمل تفصیل، پیدائش، بچپن، جوانی، خاندانی اور موروثی مزاج اور اُس کے اثرات پر ہر پہلو سے گفتگو کرنے کے بعد ہی مرض کا سبب معلوم ہو سکتا ہے۔ سبب، علامات کی تفصیل اور مریض کے تفصیلی مشاہدہ اور جائزہ کے بعد جو دوا مناسب ترین معلوم ہوتی ہے، وہی مریض کو دی جاتی ہے اور اُس کے عمل اور ردِعمل کو پیشِ نظر رکھ کر اگلی دوا کا اِنتخاب کیا جاتا ہے۔ یہ ایک پراسیس ہے جس کو اختیار کئے بغیر ہومیوپیتھک طریقۂ علاج سے کماحقہٗ فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا۔ یہ کام چند منٹ کی بات چیت، فون یا فیس بُک پر پیغامات میں سرانجام پانا ممکن ہی نہیں ہے۔
اِسی طرح جب کوئی صاحب یا صاحبہ قد میں اضافہ، موٹاپے میں کمی، بے اولادی، کمر درد، چہرے کے دانے، بالوں کا گرنا، شیاٹیکا، ڈیپریشن، نیند کی کمی، شدید غصہ، زنانہ یا مردانہ مسائل کی دوا پوچھنے پر اِصرار کریں تو مریض کی تمام علامات اور “سبب” جانے بغیر کوئی دوائی بتانا ممکن ہی نہیں ہے۔
( حسین قیصرانی ۔ ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ & سائیکوتھراپسٹ، لاہور پاکستان۔ فون 03002000210۔ )