آٹزم: جب ایک ماں اپنے آٹزم کا شکار بچے کے لیے امید کی کرن بنیں
- دویہ آریا
- نمائندہ بی بی سی، نئی دہلی
یہ سب اس وقت شروع ہوا جب مگدھا کالرا نے محسوس کیا کہ وہ ہمیشہ ’آٹزم گاؤں‘ میں نہیں رہنا چاہتی ہیں، جہاں اُن کی ملاقات صرف سپیشل بچوں، ان کے والدین اور ڈاکٹروں سے ہو۔
جب سے مگدھا کو اس بات کا علم ہوا تھا کہ ان کا بیٹا مادھو آٹسٹک ہے تو اس کے بعد سے ان کا یہی معمول تھا۔
مادھو تین سال کے تھے، جب ان کی دادی نے محسوس کیا کہ ان کا پوتا کسی سے آنکھ ملا کر بات نہیں کر سکتا۔ رفتہ رفتہ مادھو نے بولنا تقریباً بند کر دیا اور اشاروں سے اظہار خیال کرنے لگے۔
مادھو کی والدہ مگدھا کے مطابق وہ ابتدائی سال بہت مشکل تھے۔ مادھو کئی بار پریشان ہو جاتا، ہاتھ پاؤں پٹخنے لگتا۔ اور پھر مگدھا نے ایک ڈائری میں ان چیزوں کی فہرست بنانی شروع کی جو اُن کے بچے کو پریشان کرتی تھیں۔
اس وقت ایسے خاندانوں نے ان کی مدد کی جن کے ہاں آٹسٹک بچے تھے لیکن ایک وقت ایسا آیا جب مگدھا کو احساس ہوا کہ وہ ’آٹزم سپیکٹرم زندگی‘ نہیں جینا چاہتی۔ انھوں نے سوچا کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں۔
مگدھا کہتی ہیں کہ ’ہر ماں باپ کے سامنے یہ سوال ہوتا ہے کہ ہمارے بعد بچوں کا کیا ہو گا؟ میں چاہتی ہوں کہ یہ دنیا میری اور میرے بیٹے کی اتنی ہی ہو جتنی دوسروں کی ہے۔ اسی لیے میں نے اسے باہر لے جانا شروع کر دیا۔ لوگوں سے تعارف کروانا شروع کر دیا، میں نے سوچا یہی وہ طریقہ ہو گا کہ وہ اپنی زندگی گزار سکے گا۔‘
مادھو ایسا کیوں ہے؟
بہرحال مادھو کے بارے میں دیگر بچوں کے پاس بہت سے سوالات تھے کیونکہ وہ مختلف نظر آتا تھا جس سے وہ پریشان ہو جاتے تھے۔ جیسے اپنے ہاتھ یا سر کو بار بار ہلانا۔
مادھو کی عمر 11 سال ہے لیکن ذہن اب بھی چھ سال کے بچے جیسا ہے۔ وہ اپنی عمر سے بہت چھوٹے بچے کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔ زیادہ نہیں بولتے اور اپنے آپ میں کھوئے رہتے ہیں۔
پاکستان کی طرح انڈیا میں بھی آٹزم کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور درست معلومات کی کمی کی وجہ سے عام لوگوں سے رابطہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
مگدھا کے بھتیجے اکثر پوچھتے ہیں کہ مادھو ان کے ساتھ کیوں نہیں کھیلتا۔ وہ کانوں پر ہاتھ کیوں رکھتا ہے؟ وہ ان کی طرف دیکھتا ہے اور نہ ان کی سُنتا ہے۔
مگدھا نے کامک بک بنا کر ان سوالات کا جواب دیا ہے۔
’اتنا مختلف نہیں‘
’ناٹ ڈیٹ ڈیفرنٹ‘ یعنی ’اتنا مختلف نہیں‘ نامی اس کامک بک کے مرکزی کردار کا نام مادھو ہے اور اس کی کہانی اس کے سکول جانے کے مخصوص تجربے کے گرد گھومتی ہے۔
مگدھا کے لیے یہ ایک آسان فیصلہ تھا کہ وہ مادھو کو کامک کا ’نیورو ڈائیورس‘ کردار بنائیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’میں اسے کیوں چھپاتی؟ میں تو اس کے تجربے کو آواز دینا چاہتی ہوں اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو درپیش چھوٹی چھوٹی دشواریوں کو سمجھیں تو آپ کو اپنے ذاتی تجربات کو ان کے ساتھ شیئر کرنا ہو گا۔‘
lahore Pakistan phone contact top online Autism Autistic best Homeopathic doctor dr medicine Homeopathy cure treatment qaisrani hussain kaisrani
اب دنیا کے لوگوں میں ’نیورو ڈائیورسٹی‘ یعنی اعصابی تنوع کے متعلق سمجھ پیدا ہو رہی ہے جس کے تحت آٹزم، اے ڈی ایچ ڈی (یعنی توجہ کی کمی کے سبب ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر)، ڈسلیکسیا، ڈسپریکسیا وغیرہ جیسے ’ڈویلپمنٹل ڈس آرڈرز‘ یعنی نشوونما میں بدنظمی جیسے مسائل آتے ہیں۔
برطانوی حکومت کا اندازہ ہے کہ سات میں سے ایک شخص نیورو ڈائیورس ہے جبکہ انڈیا میں ابھی تک اعصابی تنوع کے بارے میں کوئی معلومات جمع نہیں کی جا رہی ہیں۔
کامک کے کردار
مگدھا نے کامک بک کے لیے تین خواتین کے ساتھ کام کیا۔ ندھی مشرا بچوں کی تحریریں شائع کرنے والے ڈیجیٹل پلیٹ فارم ’بوکوسمیا‘ کی بانی ہیں۔ آیوشی یادو بچوں کی کہانیوں کی مصور ہیں اور ارچنا موہن بچوں کی کہانیوں کی مصنفہ ہیں۔
آیوشی نے اس پروجیکٹ سے پہلے کبھی مادھو جیسے بچوں کے ساتھ وقت نہیں گزارا تھا۔
وہ اپنے خاکوں اور تصاویر میں بچوں اور ان کے تاثرات کو بہت ابھار دیتی تھیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی مسکراتا چہرہ ہو تو تمام دانت نظر آتے ہیں اور چہرے کا پچھلا حصہ بھی نظر آتا ہے۔
مادھو کی تصویر تیار کرنا اس کے بالکل برعکس تجربہ تھا۔
ایوشی نے کہا ’میں بچوں کے پیارے سے گول چہرے بناتی تھی اور ایک مادھو تھا، لمبا، پتلا اور بے تاثر۔ اس فرق کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ مشترکہ سوچ میں جسے ہم پرکشش سمجھتے ہیں، ہم ویسے ہی ایک جیسے چہرے بناتے چلے جاتے ہیں۔‘
انھیں یہ ڈر تھا کہ کہیں مادھو ان کی تصویروں میں کم عقل یا بدتمیز نظر نہ آئے۔
مگدھا ٹیم کو مادھو کی تصاویر بھیجتیں، زوم کال پر اس کا کمرہ دکھاتیں اور اپنی زندگی کے تمام تجربات شیئر کرتیں جو کامک بک کی کہانی کی بنیاد بنا۔
جیسے کامک بک کا وہ حصہ جس میں مادھو اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیتا ہے کیونکہ اسے شور پسند نہیں۔
مگدھا کو یہ بات مادھو کے آٹزم کی تشخیص کے چند سال بعد معلوم ہوئی۔ یہ مادھو کی چھٹی سالگرہ تھی اور اس کے والدین نے بہت سے دوستوں اور رشتہ داروں کو مدعو کیا تھا لیکن مادھو کے لیے پارٹی کا شور برداشت کرنا مشکل ہو گیا۔
مگدھا نے بتایا ’اسے بہت سارے لوگوں کا آس پاس رہنا، اونچی آواز میں ’ہیپی برتھ ڈے‘ گانا، بچوں کا اس کے کمرے میں اس کی چیزوں کو چھونا پسند نہیں آیا۔ اس سال نے مجھے بہت کچھ سکھایا تھا کہ میں اس کے لیے جو درست سمجھتی تھی وہ اس کے لیے ٹھیک نہیں تھا۔ اس لیے اب ہم اس کی سالگرہ پر اس کے کمرے کی چھت کو غباروں سے بھر دیتے ہیں، اس کا پسندیدہ کھانا (نوڈلز) پکاتے ہیں اور ایک یا دو دوستوں کے ساتھ چڑیا گھر جاتے ہیں۔‘
لیکن کامک کے لیے پبلشر کی تلاش آسان کام نہیں تھا۔ روایتی پبلشر اس موضوع سے گھبراتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس میں لوگوں کی دلچسپی کم ہو گی اور لوگ اس سے جڑ نہیں پائیں گے۔
ندھی مشرا کی ویب سائٹ ’بوکوسمیا‘ یہ خطرہ مول لینے کے لیے تیار تھی۔
ندھی نے کہا کہ ’بچے اب اعصابی تنوع کے بارے میں سیکھنے کے لیے تیار ہیں۔ سینکڑوں بچوں نے ہماری ویب سائٹ کے لیے لکھا ہے اور جن مسائل کے بارے میں وہ لکھ رہے تھے ان میں ماہواری کے افسانوں سے لے کر خاندانوں، ذات پات اور معاشی تعلق سے امتیازی کلچر کو فروغ دینے والے مواد شامل تھے۔‘
ہم نے محسوس کیا کہ ’وہ اس کامک کا خلاصہ سمجھ سکیں گے۔‘
خوف کی بجائے امید
مگدھا اب ایک آٹسٹک بچے کی پرورش کے تجربے پر اپنا بلاگ، یوٹیوب چینل اور انسٹاگرام ہینڈل چلاتی ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ اگر آپ شیئر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو لوگ بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس اعتماد نے انھیں اپنے اندرونی خوف پر قابو پانے میں بھی مدد کی۔
سنہ 2019 میں مادھو کو پہلی بار دورہ پڑا۔ وہ گھر سے باہر نکل رہے تھے کہ وہ اچانک مگدھا پر گر پڑے۔ جسم سخت ہو گیا اور وہ بہت تیزی سے ہلنے لگے۔ خوفزدہ والدین اسے فوری طور پر ہسپتال لے گئے جہاں ایم آر آئی اور علاج کے بعد وہ صحتیاب ہو گئے۔
مگدھا کے مطابق اس دن کے تجربے نے انھیں اندر سے ہلا کر رکھ دیا اور وہ خدا اور دنیا سے بہت ناراض ہو گئیں۔
اس وقت سے مادھو کی صحت ٹھیک ہے لیکن ایسے دورے کا امکان ختم نہیں ہوا۔
اس کے باوجود مگدھا نے مادھو کو باہر لے جانا بند نہیں کیا۔ وقت لگا لیکن انھوں نے خوف کے سائے کی بجائے امید میں جینا سیکھا۔
مگدھا نے بتایا کہ ’مجھے یہ سمجھنے میں بہت مدد ملی کہ مادھو میرے ہاں ہی کیوں پیدا ہوا۔ اس کے ساتھ رہنا بہت سکون دیتا ہے، جیسے کہ خدا کے قریب ہوں۔ وہ اتنا معصوم ہے کہ لگتا ہے کہ وہ آپ کے محض قریب ہونے سے ہی مطمئن ہو جاتا ہے۔’
’میں یہ سب اس لیے کر رہی ہوں تاکہ میں اسے اس دنیا میں چھوڑ سکوں جو اس سے پیار کرے، جو اسے سمجھے۔ اور اگر پیار نہ کر پائے تو اسے سجمھے یا کم از کم اسے اسی کی طرح رہنے دے۔‘
Courtesy: https://www.bbc.com/urdu/regional-59203237