آٹزم ۔۔۔ بچوں کی صلاحیتیں متاثر کرنے والی تکلیف ۔۔۔ سعدیہ عاطف لاہور

سعدیہ عاطف صاحبہ ماہرِ نفسیات اور آٹزم کی تکلیف میں مبتلا — آٹسٹک — بچوں کی تربیت اور تحقیق میں مصروف ہیں۔ ہمارے اچھے باہمی مراسم ہیں اور اُن سے آٹزم کے حوالہ سے چند نشستیں بھی ہو چکی ہیں۔ اُن کی یہ تحریر (اگرچہ ہومیوپیتھک طریقہ علاج کے حوالہ سے نہیں ہے تاہم) اِس موضوع پر معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ “صحافی” کے شکریہ کے ساتھ شئیر کی جاتی ہے۔

آئٹزم (Autism) خود میں مگن رہنے کی کیفیت کا نام ہے، یہ دنیا کے ہر خطے، رنگ ونسل اور طبقے میں بلا امتیاز پایا جانے والا مرض ہے، اس کی علامتیں پیدائش کے ابتدائی تین سال کے دوران کسی بھی وقت ظاہر ہوسکتی ہیں، کچھ بچے ابتدائی دو سال کے دوران بولنے اور سیکھنے کے عمل سے گزرتے ہیں پھر اچانک تین سال کی عمر تک پہنچنے تک ان صلاحیتوں کو اچانک کھو دیتے ہیں۔

آئٹزم دماغی نشوونما کی بے ترتیب حالت کو کہتے ہیں، یہ کیوں لاحق ہوتا ہے اس کی ابھی تک کوئی خاص وجہ پتہ نہیں چل سکی، تاہم مختلف ماہرین نے آئٹزم کی بہت سی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دوران حمل کسی بھی قسم کی منشیات کے استعمال سے ہوتا ہے، بعض تحقیق میں ویکسین (حفاظتی ٹیکوں) ایم ایم آر کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے، اکثر اوقات ماں کی دوران حمل کسی صدمہ یا مسلسل پریشانی یا افسردگی کو بھی وجہ بنایا جاتا ہے۔

اس وقت ہر 45 میں سے ایک بچہ آئٹزم کا شکار ہے، آئٹزم میں مبتلا بچہ عام بچوں کی طرح نظر آتا ہے مگر اس کا رویہ اسے دوسرے بچوں سے مختلف بناتا ہے۔

آٹزم عام طور پر ان حصوں پر اثر انداز ہوتا ہے جو بچوں کے سیکھنے اور بولنے میں استعمال ہوتے ہیں، اس لئے ان بچوں کو سکھانے اور سمجھانے کا عمل قدرے مختلف اور دشوار ہوتا ہے۔

آئٹزم کے شکار بچے کو عموماً تین طرح کے مسائل درپیش ہوتے ہیں، پہلا سماجی رابطے میں دشواری، دوسرا بول چال میں مشکلات اور تیسرا بار بار ایک ہی رویہ اپنائے رکھنا۔

یہ بچے آنکھ میں آنکھ ملا کر بات نہیں کر سکتے، کسی سے ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے، اس کے علاوہ ان کی دماغی صحت متاثر ہوتی ہے، بلاوجہ رونا، بہت زیادہ رونا یا بہت زیادہ ہنسنا، درد کا احساس نہ ہونا یا بہت زیادہ ہونا، ایسے بچوں کو اکثر نیند کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔

آٹزم کی نمایاں علامتوں میں بات نہ کرنا، بہت کم بات کرنا، ایک بات کو بار بار دہرانا، دوسرے بچوں سے مختلف حرکتیں کرنا، اپنی دنیا میں مگن رہنا، روز مرہ زندگی میں تبدیلی کو برداشت نہ کرنا، کھلونوں سے عام بچوں کی طرح نہ کھیلنا، بہت آہستہ یا بہت اونچا سننا، بے چین رہنا یا حرکت کرنے کی کوشش نہ کرنا، خطرے کو نہ سمجھنا، کسی کے چھونے سے بے چین رہنا، بار بار ہاتھوں اور انگلیوں کو غیر معمولی حرکات دینا شامل ہیں۔

ایسے بچوں میں کچھ غیر معمولی صلاحیتیں ہوتی ہیں، مثلاً ان کی یادداشت بہت اچھی ہوتی ہے،

بروقت تشخیص اور خاطر خواہ تربیتی پروگرام سے ایسے بچوں میں بہت زیادہ تبدیلی لائی جا سکتی ہے، ایسے بچوں کو اپنی تعلیمی اور روزمرہ زندگی کی چیزوں سے مستفید ہونے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا عام بچے کو ہے، لہٰذا بچے کے والدین، خاندان کے افراد اور اساتذہ جو ان بچوں کی تربیت کرتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ ان کی صلاحیتوں کو ابھارنے کی بھرپور کوشش کریں۔

سپیچ تھراپی Speech Therapy سے ان بچوں کو بولنے میں مدد ملتی ہے، اس کےعلاوہ Applied Behavior Analysis سے ان بچوں کے رویوں کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور انہیں روز مرہ کے کام بھی سکھائے جاسکتے ہیں۔

آئٹزم کا فی الحال کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکا لیکن بروقت تشخیص، والدین کی بھر پور توجہ اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی بچوں میں بلاشبہ تبدیلی لا سکتے ہیں۔

ان بچوں کو معاشرے کا ایک موثر شہری بنانا ہمارا اخلاقی فرض ہے، اس کا علاج سو فیصد ممکن نہیں تاہم بروقت تشخیص اور مختلف تھراپی کے استعمال سے بچوں کی بہتر تربیت کرکے ان کا مستقبل روشن بنایا جاسکتا ہے۔

Courtesy:

https://sahafi.pk/autism-is-spectrum-disorder-which-disturbs-the-abilities-of-children/

0 0 votes
Article Rating
Picture of kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter