ہمارے جسم کےمتعدد افعال ایک خود کار نظام کے ماتحت ہیں۔ مثلاً دِل کا دھڑکنا، سانس کا چلنا، جسم کا درجۂ حرارت ایک خاص ڈگری تک برقرار رہنا وغیرہ۔ ان افعال کی ایک مربوط نظام کے تحت انجام دہی اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ ہم ایک صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک صحت مند فرد کا دِل ایک منٹ میں70سے 80مرتبہ دھڑکتا ہے۔ اسی طرح چاہے کوئی گرم صحرائی علاقے کا مکین ہو یا پھر برفانی پہاڑوں کا رہایشی، اُس کے جسم کا نارمل درجۂ حرارت 37ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ ہم ایک منٹ میں 14سے 16مرتبہ سانس لیتے ہیں۔ بہت گہری نیند، حتیٰ کہ کومےکی حالت میں بھی جسم کے یہ افعال اسی طرح انجام پاتے ہیں۔
جسم کے تمام خود کار افعال کو موسم و مزاج کی تبدیلیوں کے باوجود ایک خاص حد میں رکھنے میں ہارمونز کلیدی کردار ادا کرتے ہیں،جب کہ لازم خود کار افعال ایک ہارمون، تھائی راکسن (Thyroxine) کے ذریعے کنٹرول ہوتے ہیں، جو ہمارے گلے کے سامنے موجود ایک غدود، تھائی رائیڈ گلینڈ میں تیار ہوتا ہے۔
اگر کسی وجہ سے اس غدودکے افعال میں کوئی کمی آجائے،تو ہارمون کم مقدار میں بنتا ہے، جس کے اثرات پھر پورے جسم پر مرتب ہوتے ہیں۔واضح رہے کہ تھائی رائیڈ غدود کی کم زوری کے باعث، ہائپوتھائی رائیڈازم (Hypo Thyroidism )کامرض لاحق ہوجاتا ہے۔ تھائی رائیڈ غدود کے علاوہ بھی جسم میں بعض ایسے غدود پائے جاتے ہیں، جو خون میں شکر کی سطح برقرار رکھنے اور جسمانی نشوونما کے لیے بےحد ضروری ہیں۔
یہ تمام غدود دراصل دماغ میں موجودمرکز ’’Pituitary Gland‘‘ سے خارج شدہ ہارمونز کے محتاج ہوتے ہیں، جو ہر غدود کی ضرورت کے مطابق ہارمون تیار کرتا ہے۔ تھائی رائیڈ کےافعال کو کنٹرول کرنے کے لیے دماغ ایک’’ TSH: Thyroid-Stimulating Hormone‘‘نامی رطوبت خارج کرتا ہے، جس کی کمی یا زیادتی تھائی رائیڈ کی کارکردگی کا تعیّن کرتی ہے۔
تھائی رائیڈ غدود کو تھائی راکسن کی تیاری کے لیے ایک اور اہم عُنصر، آئیوڈین کی لازماً ضرورت پڑتی ہے، جو عموماً پانی یا غذا سے حاصل ہوتاہے۔ اگرچہ عام پینے کے پانی میں آئیوڈین کی کافی مقدار پائی جاتی ہے، لیکن چند مقامات، جیسے آزاد کشمیر اور شمالی پہاڑی علاقہ جات جہاں برس ہا برس سے ہونے والی بارشوں نے پہاڑوں کی سطح سے آئیوڈین بہا دیا ہےاور چشمے آئیوڈین سے تقریباً خالی ہو گئے ہیں، تو وہاں کے باسیوں کے پینے کے پانی میں آئیوڈین کی یہ کمی تھائی راکسن کی کمی کا سبب بنتی ہے، جب کہ دماغ سمجھتا ہے کہ فرد کا تھائی رائیڈ کم زور ہے، تو وہ زیادہ مقدار میں ٹی ایس ایچ پیدا کرنے لگتا ہے، جس کی وجہ سے تھائی رائیڈ غدود کا حجم کئی گُنا بڑھ جاتا ہے اور وہ غدود جو عام حالات میں نظر بھی نہیں آتا، ایک بڑے سیب جتنا یا پھر اس سے بھی بڑا ہوکر جس مرض کی شکل اختیار کرتا ہے،وہ ’’گلہٹر‘‘ کہلاتا ہے۔
ہائپو تھائی رائیڈازم لاحق ہونے کی تین بنیادی وجوہ ہیں،ایک تو ٹی ایس ایچ کم مقدار میں پیدا ہونا، دوم، تھائی رائیڈ غدود کسی مرض کا شکار ہوجائے ،تو تھائی راکسن کم مقدار میں بنے اور تیسری وجہ پانی اور خوراک میں آئیوڈین کی کمی ہے۔مرض کی علامات میں سرِ فہرست زیادہ سردی لگنا ہے، کیوں کہ تھائی راکسن کا اصل کام جسم کا درجۂ حرارت متوازن رکھناہےاور اس کی کمی سے عمومی طور پر درجۂ حرارت 37ڈگری سے نیچے آ جاتا ہے۔
اس صورت میں معمولی سی سردی بھی برداشت نہیں ہوتی۔ ہر وقت تھکن کا احساس غالب رہتا ہے اور بعض اوقات مریض کرسی پر بیٹھے بیٹھے سوجاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے بھی کہیں لیٹ جائے، تو منٹوں میں خراٹے لینے لگتا ہے۔ جسم کی چُستی اور پُھرتی ختم ہو جاتی ہے۔ دو چار سیڑھیاں چڑھنے سے بھی سانس پھولنے لگتی ہے۔ ایک اور عام شکایت ،جو خواتین میں زیادہ عام ہے کہ حد درجہ ڈائٹنگ کے باوجود بھی وزن بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
اصل میں ہمارے جسم میں نصب بھٹی، کیلوریز جلا کر جسم کو حرارت مہیا کرنے سمیت دیگر اعضاء کو چاق چوبندبھی رکھتی ہے، تووہ اپنی استعداد سے بہت کم کام کرنے لگتی ہے، لہٰذا جو بھی غذا استعمال کی جاتی ہے، وہ خرچ ہونے کی بجائے چربی کی شکل میں اکٹھی ہونے لگتی ہے۔ ذہنی عمل سُست پڑجاتا ہے اور عام ریاضی کے سوال یا دیگر مسائل کو سمجھنا اور ان کا حل تلاش کرنا مشکل لگنےلگتا ہے اور اسی بنا پر حلقۂ احباب میں مریض کو کند ذہن سمجھا جانے لگتا ہے۔
نیز، گھبراہٹ اور ڈیپریشن کی بھی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور ماہرِ نفسیات کی تجویز کردہ بہترین ادویہ استعمال کرنے کے باوجود افاقہ نہیں ہوتا۔ گفتگو میں روانی اور تیزی نہیں رہتی اور ایک جملہ مکمل ہونے میں کئی منٹ لگ جاتے ہیں۔ جِلد خشک ہوجاتی ہے،سَر، بھنوئوں اور جسم کے دیگر حصّوں کے بال بھی کم زور اور تعداد میں کم ہونے لگتے ہیں۔ حضرات میں تو گنج پن کی کئی وجوہ ہیں، لیکن خواتین، خاص طور پر کم عُمر لڑکیوں میں سَر کے سامنے والے حصّے کے بال کم ہونے لگیں، تو انہیں ہئیرٹانک یا بیش قیمت بال بڑھانے والے تیل پر رقم خرچ کرنے کی بجائے ڈاکٹر سے مشورے کے بعد تھائی رائیڈ کا ٹیسٹ کروانا چاہیے۔
بڑی عُمر کی خواتین کی آواز بھاری ہونا، ایک قدرتی تبدیلی ہے، لیکن اگر درمیانی عُمر کی خواتین کی آواز بھی مَردوں کی طرح بھاری ہونے لگے، تو یہ تھائی رائیڈ کی کمی کی علامت ہوسکتی ہے۔ نیز، اونچا بھی سُنائی دینے لگتاہے، جب کہ لڑکیوں میں ایّام کی بےقاعدگی بھی اس مرض کی اہم علامت تصوّر کی جاتی ہے۔
اگر حاملہ اس مرض کا شکار ہوجائے، تو حمل ضایع ہونا، مُردہ بچّوں کی پیدایش اور حمل کی دیگر پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں، جیسے Eclampsia ۔ جس میں حاملہ کو بے ہوشی کے دورے پڑتے ہیں۔ اگر بچّوں کو یہ مرض اوائل عُمری ہی میں لاحق ہوجائے، تو اس کے تکلیف دہ اثرات نہ صرف خاندان، بلکہ پورے معاشرے پرمرتب ہوسکتے ہیں۔ ایسے بچّوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما متاثر ہو جاتی ہے۔ وہ بظاہر صحت مند، گول مٹول نظر آتے ہیں، لیکن عام بچّوں کی طرح ان کا قد نہیں بڑھتا۔
بولنا بہت دیر سے شروع کرتے ہیں۔ زبان اتنی موٹی ہوجاتی ہے کہ مُنہ اکثر کُھلا رہتا ہے۔ ان کے رونے اور بولنے کے دوران آواز بھاری ہوجاتی ہے۔ اگر فوری علاج نہ کروایا جائے، تو یہ معذوری عُمر بھر کا روگ بن سکتی ہے۔ مرض کی تشخیص کے لیے معالج ٹی تھری، ٹی فور اور ٹی ایس ایچ نامی ٹیسٹس تجویز کرتا ہے اور جب حتمی تشخیص ہوجائے،تو مرض کی وجوہ کا تعیّن کر کے علاج کیا جاتا ہے۔
اگر وجہ ہارمون کی کمی ہو، تو اس کے مطابق مخصوص ادویہ تجویز کی جاتی ہیں، جس کے باقاعدہ استعمال سے چند ماہ میں مریض ٹھیک ہوجاتا ہے، جب کہ آئیوڈین کی کمی، آئیوڈین ملے نمک سے پوری کی جاسکتی ہے۔ مچھلی اور ناریل کا تیل بھی آئیوڈین کی کمی دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،لیکن اگر ناریل کے تیل کو خوراک کے طور پر استعمال کیا جائے، کیوں کہ صرف بالوں میں تیل لگانے سے یہ کمی دُور نہیں ہوسکتی ہے۔
https://jang.com.pk/news/459241