- مصنف,بسمہ فاروق بھٹ
رتو بسواس کو دو سال قبل اچانک نیند کی کمی کی شکایت رہنے لگی اور انھوں نے مسئلے کے حل کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کیا لیکن ان کے معالج کی تجویز کردہ ’اینٹی سائیکوٹک‘ (ذہنی عارضوں کے علاج کے لیے تجویز کردہ) دوا نے ان کی صحت کے لیے مزید مسائل کھڑے کر دیے۔
24 سالہ رتو کا تعلق انڈیا کے شہر آگرہ سے ہے اور انھیں ایک مقامی ڈاکٹر نے ذہنی سکون کے لیے کچھ دوائیں تجویز کی تھیں۔
جب انھیں اس دوا سے بھی فرق نہیں پڑا تو انھوں نے ایک ماہرِ نفسیات سے رابطہ کیا۔ اس ڈاکٹر نے رتو میں ’بارڈر لائن پرسنیلٹی ڈِس آرڈر‘ (بی پی ڈی) کی تشخیص کی اور انھیں مزید اینٹی سائیکوٹک ادویات تجویز کر دیں۔
لیکن ان ادویات کے منفی اثرات نے ان کی تولیدی صحت کو مزید بگاڑ کر رکھ دیا اور انھیں دیگر پریشانیاں بھی لاحق ہو گئیں۔
رتو کہتی ہیں کہ ’چھ ماہ ان ادویات کے استعمال کے بعد میری تین ماہ تک ماہواری چھوٹ گئی اور اسی سبب میں نے پھر اپنے گائناکولوجسٹ سے رابطہ کیا۔‘
آگرہ سے تعلق رکھنے والی 24 سالہ خاتون کے مطابق ان کے گائناکولوجسٹ نے ان کا معائنہ کیا اور بتایا کہ اینٹی سائیکوٹک ادویات کے استعمال کے باعث انھیں پی سی او یعنی پولی سسٹک اووری سنڈروم ہو گیا ہے۔
اینٹی سائیکوٹک ادویات کے خواتین پر مضر اثرات
بی پی ڈی ایک ذہنی عارضہ ہے اور اس سے متاثر ہونے والے شخص کی صحت کو بہتر کرنے کے لیے ڈاکٹر اکثر اینٹی سائیکوٹک ادویات تجویز کرتے ہیں۔
امریکہ کی نیشنل لائبریری آف میڈیسن کے مطابق اینٹی سائیکوٹک ادویات مردوں کے مقابلے میں خواتین پر زیادہ منفی اثرات چھوڑتی ہیں۔
ریسرچ کے مطابق اینٹی سائیکوٹک ادویات کے استعمال کے سبب اکثر خواتین کا وزن بڑھ جاتا ہے، جسم میں موجود کیمیکل کا توازن بگڑ جاتا ہے، جسمانی کمزوری محسوس ہونے لگتی ہے، سیکس سے دل اُٹھ جاتا ہے اور اکثر انھیں ماہواری میں تاخیر اور چھاتی بڑھ جانے جیسی کیفیات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
رتو کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’پی سی او کے ساتھ ساتھ ان دواؤں سے میرا وزن بھی تقریباً 20 کلو بڑھ گیا۔‘
’ایک طرف میرے لیے یہ ادویات انتہائی خطرناک ثابت ہو رہی تھیں اور دوسری طرف مجھے لاحق ذہنی مرض کو قابو میں رکھنا بھی ضروری تھا۔‘
کچھ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اکثر اینٹی سائیکوٹک ادویات کے منفی اثرات اتنی تیزی سے ظاہر ہوتے ہیں کہ ان کے فوائد کہیں چھپ ہی جاتے ہیں۔
ماہر نفسیات سمجھتے ہیں کہ ان دواؤں کے استعمال کی صورت میں سامنے آنے والے مضر اثرات اکثر سنجیدہ مسائل میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر وشال چھابرا ایک ماہرِ نفسیات ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اینٹی سائیکوٹک ادویات ’جنسی کمزوری اور ماہواری میں تاخیر کا سبب بن سکتی ہیں یا پھر ان کے استعمال کے باعث کچھ مریضوں کی ماہواری ہمیشہ کے لیے رُک بھی سکتی ہے۔‘
ماہرین اس معاملے کی بھی تحقیق کر رہے ہیں کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین پر اینٹی سائیکوٹک ادویات کے زیادہ منفی اثرات کیوں پڑتے ہیں۔
سینیئر گائناکولوجسٹ مینو فضیلت نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جو مریض اینٹی سائیکوٹک ادویات استعمال کر رہے ہوتے ہیں ان کے جسم میں پرولیکٹن بڑھ جاتا ہے اور اس سبب ان کی ماہواری میں خلل پڑتا ہے۔‘
’جن مریضوں کے جسم میں پرولیکٹن بڑھ جاتا ہے انھیں بانجھ پن کی شکایت بھی ہو سکتی ہے۔‘
تو اس کا حل کیا ہے؟
لیکن ماہر نفسیات یہ بھی کہتے ہیں کہ اینٹی سائیکوٹک ادویات کے منفی اثرات کا مطلب یہ نہیں کہ ذہنی عارضوں میں بہتری لانے والی ان دواؤں کا استعمال بالکل ہی ترک کر دیا جائے۔
ڈاکٹر وشال چھابرا کہتے ہیں کہ ’اگر ان ادویات کے مضر اثرات ہیں تو ہمارے پاس ان سے نمٹنے کے بھی موجود ہیں۔ جیسے کہ اگر مریض کے جسم میں پرولیکٹن کی سطح بڑھا جائے تو اینٹی سائیکوٹک دوا کی خوراک میں کمی کر دیتے ہیں۔‘
’اس طریقے سے اینٹی سائیکوٹک دوا کے ساتھ مزید ادویات بھی شامل کر دی جاتی ہیں جس سے پرولیکٹن کی سطح بھی نہیں بڑھتی اور ماہواری میں تاخیر یا چھاتی میں جلن بھی ختم ہوجاتی ہے۔‘
Courtesy: BBC Urdu