کانپنا، عجیب و غریب جسمانی حرکت، بے ڈھب چال، ہاتھ، پاؤں اور چہرہ کے عضلات کا بغیر ارادہ پھڑکنے، بعض اوقات ناچنے کی سی جسمانی حرکت کو رعشہ یا کوریا (CHOREA) کا مرض سمجھا جاتا ہے۔ یہ علامات بچوں میں، پانچ چھ سال کی عمر کے بعد نمودار ہونا شروع ہوتی ہیں۔ ابتداء میں ایک بازو یا ایک ٹانگ اور بعض اوقات دونوں متاثر ہوتی ہیں۔ بچے کی حرکت میں ایک جھٹکا سا محسوس ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کو بھی نظر آ جاتا ہے۔
اُٹھنے، بیٹھنے میں، کوئی چیز اٹھانے اور رکھنے میں، روٹی کا نوالہ توڑنے، اٹھانے اور کھانے میں، بولنے میں، لکھنے میں بچہ کے بیرونی اعضاء میں بے چینی رہتی ہے جو اس کی حرکات سے نظر آتی ہے۔ بچہ ایک حالت میں زیادہ دیر نہیں رہ سکتا، ہر وقت پوزیشن تبدیل کرتا رہتا ہے۔ اگر بیٹھا یا لیٹا ہے تو بھی بار بار پہلو یا کروٹ بدلتا رہتا ہے۔ والدین یا گھر والے بتاتے ہیں کہ یہ نچلا نہیں بیٹھ سکتا۔ اگر صحیح علاج نہ کروایا جائے تو یہی علامات رفتہ رفتہ بڑھ کر وہ صورت اختیار کر سکتی ہیں جن کی تفصیل اوپر بیان ہو چکی ہے۔ میرے تجربے میں اِس مرض کا شکار لڑکے کم اور لڑکیاں زیادہ ہوتی ہیں (مجھے اِس کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آ سکی کہ ایسا کیوں ہے)۔
ایک بات کی وضاحت بڑی ضروری ہے کیونکہ اِس معاملہ میں ڈاکٹر حضرات بھی غلطی کر جاتے ہیں اور وہ یہ کہ عام لرزہ (کانپنا) جو بڑی عمر میں اور بوڑھوں میں ہوتا ہے؛ وہ رعشہ کی بیماری نہیں ہوتی بلکہ وہ اعصابی کمزوری کے سبب ہوتا ہے۔ تشخیص کی غلطی سے علاج میں دقت پیش آتی ہے؛ اِس لئے معالجین سے احتیاط کی درخواست ہے (عام لرزہ یعنی کانپنے اور اُس کے ہومیوپیتھک علاج کی تفصیل کسی اَور پوسٹ میں دی جائے گی)۔
رعشہ کی بیماری کے اسباب جو بیان کئے جاتے ہیں؛ اُن میں ریوماٹزم (Rhumatism) سرِفہرست ہے۔ ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں ریوماٹیزم کی علامات ہوں یا (Chorea) رعشہ کی؛ دونوں کا سبب موروثی مزاج ہی ہے۔ اِس تکلیف میں مبتلا مریضوں کے خاندانی اور موروثی مزاج سرطانی (کینسر) ہوتے ہیں۔ فیملی ہسٹری میں کوئی نہ کوئی موذی مرض (مثلاً کینسر، ٹی بی، دمہ، ہیپاٹائٹس، دل، گردے یا جگر کی بیماریاں وغیرہ) موجود پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رعشہ یا کوریا کے مریض کے موروثی مزاج کا سمجھ کر علاج کرنا ضروری ہوتا ہے۔
پیٹ کے کیڑے، چمونے (Worms) بھی اِس تکلیف کا اہم سبب ہوتے ہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ رعشہ کے مریض کا تفصیلی کیس لینے کے بعد تشخیص پیٹ کے کیڑے (چمونے) ہوئی۔ دو تین ماہ پیٹ کے کیڑوں کا علاج ہوا۔ کیڑے یا چمونے ختم ہوئے اور بچہ بالکل ہی ٹھیک ہو گیا۔ ایسے بچوں کے والدین سے کبھی کبھار کسی حوالہ سے رابطہ ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مکمل صحت یاب ہو چکے ہیں۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ پیٹ کے کیڑے بھی کسی بڑی تکلیف کا باعث تبھی بنتے ہیں کہ جب موروثی مزاج مدقوق یا سرطانی (یعنی ٹی بی یا کینسر) ہو۔ اِس لئے بچوں یا بڑوں میں پیٹ کے کیڑوں کو بے حد سنجیدگی سے لینا چاہئے۔
بیرونی اثرات:
اِس تکلیف کا سبب بہت زیادہ ڈر جانا اور دماغ میں چوٹ لگنا بھی اہم ہیں تاہم ایسے مریض بہت کم ہوتے ہیں۔
آٹزم (Autism spectrum disorders – ASD) کا شکاریعنی آٹسٹک (Autistic) بچوں کے مسائل بھی اکثر اوقات اِسی طرح کی تکلیفوں کا صحیح اور بروقت علاج نہ ہونے سے بڑھتے ہیں۔ آٹسٹک بچوں کے علاج میں بھی بالعموم یہی دوائیاں اِستعمال ہوتی ہیں۔
ہومیوپیتھک علاج اور ادویات
علاج کے لئے مریض کے مزاج کو سمجھنا اور اُس کے مطابق عمل کرنا یعنی دوا دینا ضروری ہے۔ مزاج اور خاندانی ہسٹری تفصیلی کیس لئے بغیر سمجھی ہی نہیں جا سکتی۔ صرف مرض کے نام کی دوائی سے علاج کا مستقل فائدہ نہیں ہوتا۔ ہومیوپیتھک لٹریچر میں اِس طرح کی تکالیف کے لئے ستر (70) سے زائد دوائیاں ملتی ہیں۔ میرے تجربہ میں مندرجہ دوائیاں زیادہ مفید ثابت ہوئی ہیں۔
ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں ایک وقت میں صرف ایک دوا کا اصول ہے۔ پوٹینسی (یعنی دوا کی طاقت) اور خوراک کی مقدار کا فیصلہ مریض اور مرض کی کیفیت کے مطابق کیا جاتا ہے۔ یہ دوائیاں بہت گہرا اور دیر تک اثر کرنے والی ہیں؛ اِس لئے اپنے اعتماد کے ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے مشورہ سے ہی اِستعمال کی جائیں۔
کارسی نوسن (Carcicosin)
ٹیوبرکولینم (Tuberculinum)
بسیلینم (Baccillinum)
میڈورائنم (Medorrhinum)
ہیپوزینم (Hippozinum)
اگاریکس (Agaricus)
سمی سی فیوگا (Cimicifuga)
کیوپرم ایسٹیکم (Curprum Aceticum)
کیوپرم آکسی ڈیٹم ںیگرم (Cuprum Oxydatum Nigrum)
اگنیشیا (Ignatia)
ٹیرنٹولا ہسپانیولا (Tarentula His)
کاسٹیکم (Causticum)
نکس وامیکا (Nux Vomica)
سٹرامونیم (Stramonium)
ہائیوسائیمس (Hyoscyamus)
زنکم میٹ (Zincum Metallicum)
(حسین قیصرانی – ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ – لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210)۔