تعارف
زمین پر انسانی زندگی کی ابتدا ء کب اور کیسے ہوئی اس سے ہمارے مضمون کا تعلق نہیں ہمارا مضمون علم طب‘یعنی امراض اور علاج امراض ہے۔ اس کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی اور یہ سائنس‘ترقی کرتی ہوئی آج کس مقام پر ہے اور اس کا مستقبل کیا ہے؟
انسان نے اپنے بارے میں بڑی جستجو کی ہے ۔تحقیقات کی ہیں ۔معلوم یہ ہوا ہے کہ انسان ابتداء میں حیوانوں کی طرح غاروں میں اور درختوں پر انفرادی زندگی گزارتا تھا ۔پھر رفتہ رفتہ اجتماعی زندگی کا آغاز ہوا۔ اشیاء کے نام رکھ کر ان کے متعلق معلومات حاصل کیں ۔ ان کو استعمال میں لا کر ترقی کرتا ہوا تہذیب و تمدن کے دور میں داخل ہو گیا ۔ اس دور میں داخل ہو ا تو انسان کی اپنی اپنی انا نے سر بلند کیا اور خود غرضی و خود پسندی نے انسانی زندگی میں وہ طوفان برپا کر دیا کہ آج تک یہ طوفان تھم نہ سکا ۔‘میں ‘اور خود غرضی کے سبب تکبر اور حرص و ہوا نے جنم لیا۔ سر کشی‘ظلم‘فریب اور مکاری ‘غضبناکی ‘شہوت جیسے جذبا ت نے انسان پر غلبہ پا لیا اور ان جذبات نے انسان کے جسم میں تعفن پیدا کر دیا اور اسطرح یہ تعفن بڑھتاچلا گیا ۔جب اس میں انسان کی جنسی بے راہ روی کے سبب آتشک اور سوزاک جیسے موذی اور خبیث مواد کا اضافہ ہو گیا ۔ اور رفتہ رفتہ ساری نسل انسانی نہایت غلیظ اور متعفن مواد سے بھر گئی ۔زہریلے مواد نے مختلف امراض کی صورت میں ظاہر ہو کر جب انسانوں کی حالت اذیت ناک کر دی تو ان کے علاج کے لئے جستجو ہونے لگی ۔
علاج کا سلسلہ جڑی بوٹیوں سے شروع ہوا اور طویل عرصہ کے تجربات کے بعد امراض اور ان کے علاج نے ایک مکمل ‘علم طب ‘ کی حیثیت حاصل کر لی۔ علم طب کا اولین مرکز مصر بنا پھر یونان نے سبقت حاصل کر لی اور آج تک اس کی اہمیت ‘یونانی طب ‘کے نام سے موجود ہے ۔
یہ طریقہ علاج پھیلتا ہوا یورپ اور ایشیا تک جاپہنچا۔اور آخر کار یورپ نے اس میں خوب ترقی کی اور اس ترقی یافتہ علاج کا نام ایلوپیھتی رکھ دیا گیا۔ وقت گزرتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی ۔ اور ایلوپیھتی کو میڈیکل سائنس کا درجہ دے دیا گیا
اس لئے کہ مریضوں کا علاج سائنٹیفک طریقہ سے ہونے لگا۔ ادویات سائنٹیفک طریقہ سے تیار ہونے لگیں۔ تشخیص بھی سائٹیفک طریقہ سے ہونے لگی۔
عمل جراحی (سرجری) سے مریضوں کا علاج ادویات سے علاج کے ساتھ ہی شروع ہوچکا تھا ۔ اس کی ترقی کی رفتار بھی خاصی تیز تھی۔ جہاں طبیب ہوتے تھے۔ وہاں جراح بھی موجود ہوتے تھے۔ اور یہ دونوں شعبے الگ الگ تھے۔ جسطرح ترقی یافتہ ممالک میں فزیشن اور سرجن الگ الگ ہیں ۔ ترقی پذیر ممالک میں بھی جیسا کہ ہمارے ملک میں ایسا ہوتا جا رہا ہے۔
ایلوپیھتی رفتہ رفتہ ترقی کرتی چلی گئی اور یونانی طب کی حیثیت ثانوی رہ گئی۔ لیکن یہ احساس کسی طبیب یا ڈاکٹر میں پیدا نہ ہوا کہ ان کے طریقہائے علاج سے انسانی نسل کو کتنا نقصان ہو رہا ہے ۔لیکن جب بھی نسل انسانی کو شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے تو قدرت انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا مصلح پیدا کر دیتی ہے ۔جو اسے بالکل تباہ ہونے سے بچا لے ۔چنانچہ پچھلی صدی میں ایک نا مور ایلو پیتھک ڈاکٹر سیمونل ہنمن میں یہ احساس پیدا ہو ا کہ ادویات فائدہ سے زیادہ انسان کو نقصان پہنچا رہی ہیں ۔ مریضوں کا علاج کرتے ہوئے بڑی توجہ اور جستجو کے بعد اس کو یقین ہو گیا کہ انسانیت زیادہ پیچیدہ امراض میں مبتلا ہو رہی ہے ۔جس کا سبب زہریلی ادویات ہیں اور یہ ادویات خود امراض پیدا کرتی ہیں ۔ ملیریا بخار کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے اس نے دیکھا کہ بخار تو اتر جا تا ہے ۔لیکن بعد میں یہی مریض مختلف امراض لے کر آتے ہیں ۔کوئی کہتا ہے مجھے کمزوری زیادہ ہو گئی ہے ۔ کسی کا سر چکرانا درست نہیں ہوتا کسی کو بھس ہو گیا جگر اور تلی بڑھ گئی ہے۔ بھوک ختم ہو گئی ہے ۔ہاضمہ خراب ہو گیا ہے ۔ اسہال ہو گئے ہیں ۔اور ایسی کئی شکایات لے کر جب مریض آنے لگے تو اس نے تجربہ خود اپنے اوپر کیا ۔ کونین‘جس سے ملیر یا کا علاج کیا جاتا تھا عام مستعمل مقدار سے کئی گنا زیادہ مقدار میں کونین نگل گیا۔ تندرست و توانا تھا مگر کونین نے اپنا عمل خوب دکھایا۔ لرزہ سے بخار چڑھنے لگا اور وقفہ دے کر کئی با ر چڑھا۔ بخار ختم ہوا تو وہی علامات یکے بعد دیگرے پیدا ہونے لگیں جو مریض لے کے آتے تھے۔ اس نے سوچا کہ مادی مقدار میں ادویات خود امراض پیدا کرتی ہیں ۔
ان کی مادی حیثیت کو کیوں نہ کالعدم کیا جائے اور ان کی توانائی سے کام لیا جائے۔ توانائی حاصل کرنے کا وہی طریقہ اس نے اختیار کیا جو آج بھی رائج ہے۔ اس طرح کئی ادویات کی توانائیوں کو حاصل کر کے اس نے مریضوں کا علاج حسب علامات کرنا شروع کیا جو بڑا کامیاب ثابت ہوا۔ اور اس نے ہومیو پیتھک طریقہ ء علاج کا اعلان کردیا ۔بڑ ی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بڑے دکھ اٹھائے لیکن سب کچھ برداشت کرتے ہوئے حقیقت سے روگردانی نہیں کی۔ بڑی سست رفتاری سے یہ طریقہ ء علاج پھیلنے لگا اور مقبول ہوتے ہوئے اس مقام پر آ پہنچا ہے جو سب کے سامنے ہے ۔
اس حقیقت کی دریافت سے کہ مادی اشیاء میں توانائی بھی ہے بلکہ مادہ دراصل مظہر توانائی ہے ،ثابت ہوتا ہے ۔ موجودہ صدی میں ایٹمی توانائی کی دریافت اس حقیقت پر شاہد ہے ۔
ادویات کی توانائی کو امراض میں استعمال کرنے اور ان کے نتائج سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ توانائی مادہ کی ضد ہے ۔یعنی جو علامات مادی طور پر ادویہ پیدا کرتی ہیں ۔ ان کی توانائی علامات کو رفع کر دیتی ہے ۔
ایک حیر ت انگیز انکشاف یہ ہوتا ہے ۔ کہ کائنا ت کی ابتداء روح(یعنی توانائی ) کے مادہ میں تبدیل ہونے سے ہوئی اور اب پھر رفتہ رفتہ مادہ روح میں تبدیل ہو رہا ہے ۔
دریافت و انکشاف سے یہ اخذ کر لینا مشکل نہیں ہے کہ مادہ بذات خود کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ اس لئے یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ میڈیکل سائنس میں امراض کا علاج مادہ کی صورت میں کھبی شافی نہیں ہو سکتا ۔انسان در حقیقت روح انسانی کا مظہر ہے ۔صاف ظاہر ہے کہ بیمار جسم نہیں ہوتا انسان کی ذات بیمار ہوتی ہے ۔ اور جسم بیماری کو علامات سے ظاہر کرتا ہے ۔ روح کاشافی علاج روح ہی سے ہوتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں توانائی کو ادویات کی توانائی سے تندرست رکھا جا سکتا ہے ۔ اس سے یہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ انسانی ذات اپنے جسم کو خود بیمار کر تی ہے ۔اور نسل در نسل یہ بیماری پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ جسموں میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہے ۔
موسم اور وباؤں کے اثرات جسم پر عارضی ہوتے ہیں ۔وہ بھی ان جسموں پر جن کو انسان نے خود کمزور کر دیا ہوتا ہے ۔
معلوم ہوتا ہے کہ انسانی روح کے کچھ اختیارات ہیں کچھ فرائض ہیں اور کچھ ذمہ داریاں ہیں ۔ اور انہیں ادا کرنے کے لئے اسے ایک بہترین اور موزوں ترین ساخت کا جسم دیا گیا ہے ۔ کہ وہ اپنے اختیارات کے استعمال میں اس سے کام لے۔ یہ جسم روح کا قید خانہ نہیں بلکہ اس کا کارخانہ ہے ۔ اس روح کو اپنی موجودہ کیفیت پر اطمینان نہیں ۔ وہ ارتقاء پذیر ہونا چاہتی ہے ۔اور یہ اسی طرح ممکن ہے کہ وہ جسم کے اعضاء کو استعمال کر کے ارتقاء کو حاصل کر لے ۔اس کی ساری کوششیں اور محنتیں حصول ارتقاء میں صرف اسی صورت نتیجہ خیز ہو سکتی ہیں کہ وہ زمین اور اس کی زندگی کو سکون و آرائش سے مزین کر دے۔ اس کوشش اور محنت میں جو انسان زندگی بسر کرتا ہے ۔ اس کی روح ارتقاء پذیر ہوتی چلی جاتی ہے ۔ جو انسان اس کے لئے کوشش یا محنت نہیں کرتا اس کی روح الختاط پذیر ہوتی چلی جاتی ہے ۔ ہر انسان ذات کی اپنی اپنی اسقباد ہے جس کے مطابق اس نے کوشش و محنت کرنی ہوتی ہے ۔ جو ذات انسانی اپنی اسقباد کے مطابق کوشش اور محنت نہیں کرتی اس کا ارتقاء ممکن نہیں وہ اپنی پہلی حالت میں نادم و پشیمان ہو کر رہ جاتی ہے ۔ یہی اس کا الختاط ہے۔ مرنے کے بعد روح انسانی مرتی نہیں ۔ کیونکہ فناو بقاء مادے کے لئے ہے روح کے لئے صرف بقاء ہے۔
جسم کے مرنے کے بعد روح کہاں جاتی ہے ۔ روح کیا ہے ‘کہاں سے آئی‘ یہ مضمون الگ ہے ہمارا مضمون بیمار انسان کو تندرست کرنا ہے ۔
انسان کے امراض کے اسباب یا یہ کہ انسان بیمار کیوں ہوتا ہے ؟ اسباب تو بہت سے ہیں ۔لیکن سب سے بڑا سبب انسان کے جسم میں غلاظت و تعفن پہلے سے موجود ہو چکا ہے (ذکر کیا جاچکا ہے ) جس کا ذمہ دار وہ خود ہے ۔ اس غلاظت اور تعفن کو ہومیو پیتھک زبان میں سورا کیا جاتا ہے ۔
سورا انسان میں اگر نہ ہوتا تو کوئی خارجی سبب اس کو ہرگز بیمار نہ کرتا ۔ اور داخلی اسباب بھی اس پر ا ثر انداز نہ ہوتے ۔لیکن اب صورت حال بالکل اس کے برعکس ہے ۔ یہ چھوٹے بڑے خارجی اور داخلی اسباب اسے مریض بنا دیتے ہیں ۔زیادہ تر اسباب یہ ہیں جن میں خارجی اسباب کم اور داخلی ‘یا خود پید ا کردہ اسباب زیادہ ہیں ۔ خارجی اسباب میں موسم ‘سردی گرمی وغیرہ ‘وبائی امراض ‘آب و ہوا اور حادثے سر فہرست ہیں ۔ باقی سب اسباب انسان خود پیدا کرتا ہے۔ جن میں سے بعض نسل در نسل منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اور پھر یہ منتقل ہونے والے اسباب کئی امراض اور علامات پیدا کرنے ہیں ۔ مثلا تپ دق‘آتشک ‘سوزاک ‘وغیرہ جن کا مرکب آخر کار سرطان کی شکل اختیار کر لیتا اور پھر وہ بھی نسل در نسل منتقل ہوتا چلا جاتا ہے ۔یہ امراض اگر اپنی اصلی صورت میں پیدا نہ بھی ہوں ‘یعنی موروثی لحاظ سے ‘تاہم ان کی جزوی علامات ظاہر ہوتی رہتی ہیں اور مزمن شکل اختیار کر لیتی ہیں ۔مثلا ہاضمہ اکثر خراب رہتا ہے اسہال کبھی قبض ‘نزلہ کھانسی کی شکلایت اکثر ہو جاتی ہے عور ت بانجھ ہے ‘بچے معذرو پیدا ہوتے ہیں ۔ گنھٹیا ہو گیا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ جن کا ذکر آگے چل کر ہو گا ۔
یہاں سے آپ کا بحیثیت ہو میو پیتھک فزیشن کے ‘امتحان شروع ہوتا ہے ۔ فزیشن بننے کے لئے کسی اچھے ادارے سے سند بھی حاصل کر لی ہوگی ۔ یا آپ عرصہ سے پریکٹس کر رہے ہیں ۔ کبھی آپ نے سوچا کہ آپ ہومیو پیتھی کی طرف کیوں راغب ہوئے؟ در اصل انسان جو کام بھی اختیار کرتا ہے ۔مجبورا اور اتفاقا ۔لیکن بعض فن اور پیشے ایسے ہیں جنہیں وہ ارادتا اختیار کرتا ہے ۔ جن میں یہ ڈاکٹری کا پیشہ بھی شامل ہے ۔ بہر حال انسان جو کام بھی اختیار کرتاہے ۔ عام الفاظ میں ‘پیٹ کی خاطر‘کرتا ہے۔
اس پیٹ میں ضروریا ت زندگی کے علاوہ ایک چیز اور بھی ہے وہ ہے‘ حصول لذت ‘اور یہ ہے وہ انسانی خواہش جس نے انسان کو مہذب درندہ بنا دیا ہے ۔ مادہ لذت ہے زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی خواہش ۔باقی تمام لذتیں اس مال و دولت سے حاصل ہوتی ہیں ۔ ایک انسان مال و دولت جمع کرتا ہے تو بہت سے انسان ضروریات زندگی سے بھی محروم ہو جاتے ہیں ۔ا یک انسان دوسروں کے لئے وجہ ء محرومی و اذیت بنا رہے اس سے زیادہ تذلیل انسانیت کو ئی نہیں ۔
ایک ڈاکٹر یا طبیب اگر زیادہ سے زیادہ مال و دولت حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے ۔تو یہ انتہائی تذلیل انسانیت ہے ۔
آپ کو ہو میو پیتھک طریقہ ء علاج موزوں اور بے ضرر اور شافی طریقہ معلوم ہوا اس لئے آپ نے اسے اختیار کیا۔نیت میں دولت جمع کرنے کی کوئی خواہش نہیں ۔ آپ کا مقصد صرف یہ ہے ۔ کہ مریض تندرست ہوں اور ان پر زیادہ خرچے کا بوجھ بھی نہ پڑے یہانتک کہ ناداروں کا مفت علاج کرنے میں آپ کو مسرت ہو تو یقین رکھیں ۔ کہ قدرت آپ کو ضروریات زندگی سے کبھی محروم نہیں ہونے دے گی۔ اور آپ کے ہاتھوں ناقابل علاج مریض بھی شفا پائیں گے۔ ہر انسان کے فعل کا نتیجہ کا انحصار اس کی نیت پر ہوتا ہے ۔
انسان کی نیت میں فطور پیدا ہوتا ہے ۔ اور بیماریو ں کی ابتداء ہو جاتی ہے ۔ یہیں سے ہم اپنے مضمون کو عملی جامہ پہناتے ہیں ۔ حرص و بخل کے مارے ہوئے انسانوں کی تعداد بہت بھاری کثرت سے غالب ہے ۔ جاہل ہوں یا تعلیمایافتہ ‘غریب ہوں یا امیر‘سب کی نیت یا مزاج حرص و بخیل ہے۔ آپ ادویات کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھیں گے کہ حرص و بخل کی ادویہ سلفر ‘پلساٹلا‘لائیکویوڈیم نکس و امیکا سر فہرست ہیں۔اور یہ دوائیں آپ روزمرہ کے معمول میں بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں ۔ ان دواؤں سے حرص و بخل تو دور نہیں ہوتا لیکن اس سے پیدا شدہ علاما ت رفع ہو جاتی ہیں ۔ یہ کوئی نئی اور عجیب بات نہیں ہے ۔آپ کے مشاہدہ میں ہوگا‘جذبات کا اثر جسم پر کس طرح ہوتا ہے ۔ مثلا رنج و غم ‘غصہ‘ انتقام‘ذہنی صدمہ وغیرہ کے اثرات کا نتیجہ بعض اوقات موت بھی ہو سکتی ہے ۔ ذہنی کیفیت کے اثرات جسم پر لازما ہوتے ہیں ۔ جنسی طور پر انسان اس جذبہ سے مغلوب ہو کر بہت بڑے جرم کا مرتکب ہو جاتا ہے ۔فعل کا مرتکب انسان ٹھہرایا جاتا ہے ۔حالانکہ فعل جسمانی ہوتی ہے مگر سزا کی اذیت کا احساس انسان کی ذات کو ہوتا ہے ۔ یہ مسلہ بڑا نازک ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیمار تو طاہرا جسم ہی ہوتا ہے لیکن بیماری کے اثرات کا احساس انسانی ذات کو ہوتاہے ۔ کیونکہ اس کا سبب انسان کی ذات ہی ہے۔ انسانی ذات کیاہے ؟ انسانی ذات ‘روح ‘ انسانی ہے ۔انسان بچے کی شکل میں پیدا ہوتا ہے ۔ پھر بالغ ہو جاتا ہے ۔ پھر نصف عمر میں جا کر پڑھاپے کو جا پہنچتا ہے ۔ اور پھر مر جاتا ہے ۔ غور کریں یہ ساری کیفیات جسمانی ہیں ۔
انسانی ذات نہ بچہ ہوتی ہے ۔ نہ بڑی ہو کر بالغ ہوتی ہے ۔ نہ بوڑھی ہوتی ہے نہ مرتی ہے انسانی افعال کا نتیجہ انسانی ذات کا عروج وزوال ہوتا ہے ۔کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے حیات انسانی کا مقصد اس کا ارتقاء ہے ۔کسی شاعر نے خوب کہا ہے ۔
عبث ہے تظم بلیغ فطرت جو رخ نہیں حسن مدعا کا
حدیث عقبیٰ اگر غلط ہے تو کیا نتیجہ ہے ارتقاء کا
خلوص نیت سے بیماروں کو بیماریوں کی اذیت سے بچانے والا طبیب یا ڈاکٹر انتہائی عروج کا مستحق ہوتا ہے جو انسان دینا کی لذتوں میں محو ہو کر مقصد حیات کو فرا موش کر دیتا ہے ۔ اس میں اور حیوان میں کیا فرق ہے ؟پریکٹس کرتے ہوئے چند لوازمات کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ان کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں ۔
۱۔ مریض کی کیفیت کو بڑے تحمل اور غور سے سنیں مرض حاد(یعنی عارضی ہے ) تو ضروری نہیں لیکن مرض مزمن (یعنی پرانا ہے ) تو اس کی ساری کیفیت قلمبند کر لیں یہ ضروری ہے ۔پھر اس کی کیفیت کے مطابق ضروری معلومات حاصل کریں ۔ اس کا جسمانی معائنہ حسب ضرورت کریں ۔ خاندانی یعنی خونی رشتوں میں عوارضات موذی قسم کے معلوم کریں ۔
یہ نہایت ضروری ہے ۔سرطان، ٹی بی ،دمہ، زیابیطس،آتشک ،سوزاک جیسے موذی امراض یا ان کے اثرات نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں ان کی طرف خصوصی توجہ دیں ۔
۲۔ حاد امراض کا علاج کرتے ہوئے اسباب کا معلوم کرنا لازمی ہے ۔عارضہ سردی سے ہوا ‘گرمی سے ہوا۔ وبائی مرض ہے ۔ کوئی حادثہ تو پیش نہیں آیا۔ کوئی ذ ہنی صدمہ یا دیگر جذبات تو سبب نہیں بنا اب علامات کو دیکھیں ۔ اسباب و علامات کو مدنظر رکھ کر دوا تجویز کریں ۔
۳۔ حاد امراض میں دوا کی طاقت ۳۰استعمال کرنا بہت بہتر ہے ۔ ا ونچی طاقت دینا ضروری ہو جائے تو ۲۰۰ سے اوپر نہ جائیں ۔ اس سے پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ مر ض کی شدت کے مطابق دوا کو دوہرائیں ۔ عام حالات میں ۴‘۶ گھنٹے بعد ۔اور شدید حالتوں میں ۴‘۵ منٹ کے وقفہ سے یا ایک دو گھنٹہ بعد دیں۔
اس کا دارومدار مر ض کی شدت پر ہے ۔ خیال رہے کہ اگر دوا کا رد عمل ہو جائے ‘یعنی علامات میں زیادتی ہو جائے تو دوا بند کر دیں ۔ مرض خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔
۴۔ وبائی امراض میں تشحیص مرض اور مرض کا نام نہایت ضروری ہے ۔ خاص طور پر بخاروں میں ۔مثلا بخار ملیریا ہے یا ٹائیفائڈ ہے یا خسرہ ہے۔ وغیرہ وغیرہ اس طرح دوا کا تجویز کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔ بے شک دوا علامات کے مطابق دی جائے گی مگر نام بخار معلوم کرنا ضروری ہے ۔ بعض مزمن امراض کا تشحیص کرنا اور ان کا نام رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے ۔ مثلا مرض ٹی وی ہے‘گنھٹیاہے ‘دمہ ہے ‘مرگی ہے وغیرہ وغیرہ مرض حاد ہوں یامزمن بلا تشخیص محض علامت پر دوا تجویز کرنا بڑی الجھن پیدا کر دے گا ۔
۵۔ پہلی دوا تجویز کرنے میں جلدی نہ کریں ۔مرض مزمن ہو یا حاد بڑی توجہ اور غور کرنے کے بعد تجویز کریں ۔ پہلی دوا غلط تجویز ہو جائے تو مرض میں پیچیدگی پید ا ہو جائے گی ۔اور آپ کو یکے بعد دیگرے مختلف دوائیں دینی پڑیں گی۔ اکثر ایسا ہو رہا ہے ۔
یہ ڈاکٹر کے لاپرواہ ہونے کی علامت ہے ۔جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے ۔ نیت میں اگر مقصد صرف مریض کو مرض سے نجات دلا کر تندرست کرنا ہے تو ایسی غلطیاں یا لاپرواہی سرزد ہو ہی نہیں سکتی۔
۶۔ مزمن امراض میں دوا دے کر مریض کی حالت پر گہر ی نگا ہ رکھیں ۔ دوا دہرانے میں جلدی ہرگز نہ کریں ۔ دوا کی طاقت ۳۰ ہے تو چار دن انتظار کریں ۔۲۰۰ ہے تو ایک ہفتہ انتظار کریں ۔ 1m دی ہے تو دو ہفتے ‘دس ہزار دی ہے تو چار ہفتے۔ایک لاکھ طاقت کی دوا دی ہے تو تین ماہ انتظار کریں ۔ اگر دوا درست ہے اور مریض قابل علاج ہے تو انتظار کے عرصہ میں دوا کا عمل یا رد عمل ظاہر ہو گا ۔دونوں صورتوں میں دوا نہ دہرائیں جب تک مریض کی حالت بہتر ہوتی جائے مزید دوا نہیں دینی ۔بہتر حالت اگر رک جائے تو وہی پہلی دوا دہرائیں اور پھر اسی طرح انتظار کریں ۔دوا کا رد عمل ہو کر مریض کی حالت بہتر ہونے لگے گی ۔ اور جب تک بہتر ہوتی جائے دوا دہرائیں نہیں ۔ رد عمل کے بعد حالت بہتر ہو کر رک جائے اور مکمل شفا نہ ہو تو پہلی دوا سے ایک درجہ اونچی طاقت کی دوا دینا بہتر ہے ۔(پہلی طاقت بھی دہرائی جا سکتی ہے )
ایک درجہ سے مطلب ہے ۳۰ کے بعد ۲۰۰‘۲۰۰ کے بعد ہزار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۷۔ دوا دینے کے بعد اگر کوئی عمل یا رد عمل ظاہر نہیں ہوتا تو دوا غلط تھی اور اگر دوا علاما ت کے عین مطابق تھی تو مریض نا قابل علاج ہے ۔
۸۔ اگر دوا کے بعد مرض کی حالت بہتر ہو کر پھر چند دنوں بعد پہلے کی طرح ہو جاتی ہے یا اس طرح رد عمل کے بعدبھی اس طرح ہوتا ہے تو مریض نا قابل علا ج ہے ۔یادوا غلط تھی(یہاں دوا غلط سے مراد ہے کہ دوا مکمل طور پر مریض کی علامات اور بیماری سے مطابقت نہیں رکھتی تھی) ۔دوبارہ غور کریں
۹۔ دوا کے بعد اگر مرض میں کمی ہوئی لیکن مریض کی عام حالت بہتر ہو رہی ہے ۔دوا بالکل درست ہے اور مرض رفتہ رفتہ ختم ہو جائے گا ۔انتظار کریں ۔ دوا کو نہ دہرائیں ۔
۱۰۔ اگر مریض آپ کے پاس ایلو پیتھک علاج کروانے کے بعد آیا ہے تو علاج شروع کرنے سے پہلے نکس وامیکا ۳۰ کی چند خوراکیں دیں ۔ بعض اوقات آپ دیکھیں گے کہ صرف نکس دینے سے مریض کو مرض سے نجات مل گئی ۔اور کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ مریض موت کے منہ سے نکل آیا
چند ماہ پہلے ایک عورت اپنے دس ماہ کے بچے کو گود میں اٹھائے آئی ‘رو رہی تھی ۔میں نے بچے کے چہرہ پر سے کپٹر ا اٹھایا تو نیم مردہ نظر آیا۔ آنکھیں کھلی ‘بے جھپک‘سانس اور نبض کی رفتار بہت سست ‘آنکھ پر میلی تہ جو بری علامت ہے ۔پوچھا گیا تو ماں نے بتایا ۔بچہ دس دن پہلے کھانسی اور شدید بخار میں مبتلا ہوا ۔ ڈاکٹر کے پاس لے گئے ۔آٹھ دن کے علاج کے بعد پرسوں سے حالت یہ ہے ۔ ماں کے اسرار پر حالانکہ کوئی امید نہ تھی بچے کے بچنے کی ‘نکس وامیکا ۳۰ چار چار گھنٹے بعد چار خوراک دی گئیں ۔دوسرے دن بچہ ماں کی گود میں کھیلتا ہوا نظر آیا ۔ اسطرح کئی مریض ایلو پیتھک علاج کے بعد صرف نکس دینے سے بھی تندرست کئے ہیں ۔
۱۱۔ نا اہل ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کے علاج کے بعد بھی مریض ناگفتہ بہ حالت میں آتے ہیں۔یہ ڈاکٹر صاحبان بیک وقت مریض کو تین چار ادویات دینے کے عادی ہوتے ہیں۔ اور بعض ڈاکٹر اونچی طاقت میں دوائیں بلا ضرورت استعمال کرنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ بلا جواز ان کا استعمال بے دھٹرک کرتے ہیں ۔
طاقت میں دوائیں بلا ضرورت استعمال کرنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ بلا جواز ان کا استعمال بے دھٹرک کرتے ہیں ۔
اور بد قسمتی سے اب کچھ عرصہ سے ہومیو پیتھک مرکبات کا استعمال بے تحاشہ ہو رہا ہے ۔ حالانکہ ایک وقت میں صرف ایک دوا کا استعمال ہو میو پیتھی کا بنیادی اصول ہے ۔ ایسے سب ڈاکٹروں کے علاج کے بعد
اگر مریض آپ کے پاس آئے تو اسے ایلو۳۰ دو تین دن دیں ۔ تاکہ علامات واضح ہوں ۔ ہو میو پیتھک ادویہ کا اسی طرح بے دریغ استعمال ایلوپیتھک ادویہ سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے ۔ لیکن کیا کیا جائے؟
۱۲۔ ہومیوپیتھک میڈیکل سائنس بڑی دلچسپ ‘قانون فطرت کے مطابق‘اور علاج بے ضرر اور شافی ۔یہ فن اس قابل ہے کہ اس میں جہاں تک ہو سکے مہارت حاصل کی جائے تاکہ مریضوں کے لئے آپ مسیحا ثابت ہوں ۔ماہر فن ہونے کے لئے بڑی محنت اور توجہ کی ضرورت ہے ۔ میٹریا میڈیکا کا مسلسل مطالعہ ۔علامات اور ان کی پہلے تین درجہ کی ادویات کو بار بار لکھیں ۔ یہ لکھنا بہت ضروری ہے۔اس فن میں یاداشت اچھی کا ہونا ضروری ہے ۔ اور یہ بار بار لکھنے سے قائم ہوتی ہے ۔ ہر مریض کے لئے کتا ب کھول کر بیٹھ جانا اچھا نہیں ہوتا ۔
۱۳۔ مریض کی طرف توجہ کی ضرورت کی اہمیت کا اس کیس سے اندازہ لگائیں ۔ مریض ‘عمر۵۰ سال‘دو اشخاص اسے سہارا دے کر لائے ۔بے سہارا چل نہیں سکتا تھا۔دمہ ،شوگر،بلڈ پریشرہائی کا مریض تھا۔ لیکن موجودہ کیفیت نئی تھی ۔ بتا یا گیا کہ تین ہفتہ پہلے غسل کر کے نکلا تو چکر آیا اور گر گیا ۔بڑے نامور ایلوپیتھک ڈاکٹروں کے علاج کا نتیجہ صفر رہا۔ میں نے مریض سے پوچھا کہ ان تین امراض کے علاوہ کوئی اور عارضہ ۔کہنے لگا خونی بواسیر ۔پوچھنے سے معلوم ہوا کہ اس دن جب چکر آنے سے گر ا دودن پہلے بواسیر کا خون بہت زیادہ آیا تھا ۔ جتنا پہلے کبھی نہیں آیا۔ بات واضح ہو گئی ۔موجودہ علامات کا سبب اخراج خون تھا۔ چائنا ۳۰ کی تین چار خوراک دینے سے چکر ‘کمزوری وغیرہ ختم ہو گئے۔ مریض کا فوری طور پر موجودہ سبب سے پیدا شدہ علامات کا علاج ضروری تھا ۔کیونکہ یہ علامات سابقہ مزمن امراض کا نتیجہ نہیں تھا۔ توجہ دی گئی اور انعام مل گیا۔
۱۴۔ ایلو پیتھک ڈاکٹر بیشتر امراض کا سبب جراثیم بتاتے ہیں ۔ جراثیم بڑی ننھی سی مخلوق ہے جو صرف خوردبین (مائیکرو سکوپ) سے دیکھی جا سکتی ہے ۔ ویسے یہ نظر نہیں آتے ۔یہ ڈاکٹر صاحبان کہتے ہیں ۔ پہلے جراثیم پھر بیماری ۔
حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔پہلے بیماری پھر جراثیم مثال سے سمجھیں ۔ ایک شخص کو حادثہ پیش آتا ہے ۔ چوٹیں آتی ہیں ۔زخم ہو جاتے ہیں ۔فورا جرثیم کش دوا کا استعمال شروع ہو جاتا ہے ۔ ایک اور مثال ۔ایک شخص کو سردی کی شدت کی وجہ سے نزلہ ‘کھانسی ‘بخار کی شکایت ہو جاتی ہے ۔ سردی کا جھونکا اسی طرح لگا جس طر ح چوٹ اور اس سے تنفس کے اعضاء‘ناک‘حلق‘برانکائی میں سوجن پیدا ہوگئی اور جراثیم کش ادویات شروع کردی گئیں ۔ کیا یہ دونوں حملے جراثیموں نے کئے ۔؟ہوتا یہ ہے ۔ کہ یہ چھوٹی سی مخلوق داخلی اور خارجی طور پر ہر جگہ موجود ہے۔ اور ان کی کئی اقسام ہیں ۔ہر قسم کو اپنی اپنی ضرورت کی غذا درکار ہے ۔جہاں جہاں سے ان اقسام کو غذا مہیا ہوتی ہے ۔ وہاں یہ پہنچ جاتے ہیں ۔ مثلا چوٹ کے زخم میں ایک قسم کے جراثیم کے لئے غذا ہے ۔ اور سردی سے پیدا شدہ ورم میں غذا ایک الگ قسم کے جراثیم کے لئے ہے ۔عضوی لحاظ سے بھی غذا ان کی الگ الگ ہے ۔مثلا ناک کے اندر‘ پھپھٹرے ‘آنتیں وغیرہ وغیرہ ۔یہ تو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ان جرثومہ کو جہاں یہ آ کر اپنی غذا حاصل کر تے ہیں ۔ وہاں ان کو مار کر ختم کرنے کیلئے ایلو پیتھک ادویات پہنچائی جاتی ہیں اور ان ادویہ کی طاقت ان جرثومہ سے زیادہ ہوتی ہے ۔ کمزور طاقتور وں نے تو مار دئیے لیکن یہ زیادہ طاقت والے جسم کے اندر زندہ و جاوید موجود رہ گئے ۔ کیا یہ پہلوں سے زیادہ نقصان دہ ثابت نہ ہوں گے ۔؟ اسی طرح دیگر ایلو پیتھک ادویات ‘مکسن ‘نیند‘اور سہل وغیرہ ۔ وقتی طور پر تو کام دے جاتی ہیں مگر ان کی حیثیت جس میں غیر فطری ہے۔ جسم بیمار ہی تب ہوتا ہے جب غیر فطری مواد اس میں پیدا ہوتے یا داخل ہو جاتے ہیں ۔ ان حقائق پر غور کر کے انہیں تسلیم نہ کرنا محض تعصب ہے ۔ اور تعصب نے انسانی زندگی کو اذیت ناک بنا رکھا ہے ۔ ہر شعبہ ء زندگی میں آپ دیکھ لیں ۔قوم پرستی‘ نسل پرستی ‘فرقہ پرستی کے تعصب نے انسان کو انسان کا دشمن بنا دیا ہے ہم چوما دیگر سے نیست
(ہمارے جیسا اور کوئی نہیں ہے ) ‘میں اور ہم ‘ نے انسانیت کو تبا ہ کر دیا ہے ۔
۱۵۔ بعض مریضوں کا علاج کرنے میں بڑی دقت پیش آتی ہے ۔ایسے میں بڑی دانشوری سے کام لینا پڑتا ہے ۔ مثلا ایک مریض بعمر تقریباً ستر سال کو پیشاب کی تکلیف ہے ۔
جل کر رک رک کر آتا ہے اور باربار حاجت ہوتی ہے ۔ عمر کے لحاظ سے پراسٹیٹ گلینڈ کا بڑھ جانا سبب ہو سکتاہے ۔ اگر گردہ کا درد نہیں ہے تو مثانہ میں پتھری ہو سکتی ہے ‘ورم بھی ہو سکتا ہے ، اگر پتھری ہے تو وہ کتنی بڑی ہے ۔ سوجن ہے تو وہ کس نوعیت کی ہے۔ ایسے مریضوں کا میکانکی معائنہ کروانا ضروری ہو جاتا ہے ۔ ایکسرے ۔الٹر ا ساؤنڈ پیشاب ٹیسٹ کروا لینا چاہیے۔تشخیص واضح ہو جائے گی ۔ اگر مریض کو بار بار بلا تکلیف پیشاب آتا ہے ۔ پیاس بھی زیادہ ہے ۔کمزوری کا احساس بھی ہے ۔ تو ذ یابیطس (شوگر ) کا شبہ ہو گا ۔ اس کے لئے بھی ‘پیشاب اور خون کا ٹیسٹ کروانا ضروری ہے ۔
اسی طرح کچھ امراض اور بھی ہیں جن کی واضح تشخیص کے لئے میکانکی ٹیسٹوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مثلا سر درد شدید اور طول پکٹرتا جا رہا ہے ۔ رسولی کا شبہ ہو جائے تو ایکسرے یا سکیتنگ کروانی چاہیے ۔ عورتوں میں رحم کی موذی تکالیف کی تشخیص کے لئے الٹرا ساؤنڈ وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ علامات سے مرض کی تشخیص کرنا بے شک آپ کا معمول ہونا چاہیے لیکن کچھ امراض میں مذکورہ بلا طریقے اختیار کر لینا بہتر ہوتا ہے ۔ تشخیص کی تحقیق ہو جاتی ہے ۔
۱۶۔ بہت سے نامور ڈاکٹر وں کی کتابیں آپ کے زیر مطالعہ رہی ہیں ۔مطالعہ کرنا اچھی بات ہے ۔ لیکن ان کی لکھی ہوئی سب باتیں تسلیم کرلینا ضروری نہیں ہوتا ۔ خاص طور پر میٹریا میڈیکا ان کے لکھے ہوئے آپ دیکھتے ہیں ۔ اہم ادویات کے خواص انہوں نے کئی صفحات میں بیان کئے ہیں ۔آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ ان طول طویل تحریروں کو پڑھ کر آپ کا ذہن الجھ جا تا ہے ۔ اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ ان کو یاد رکھا جا سکے ۔ مثال کے طور پر ایک نامور ڈاکٹر کی کتاب میں صرف اکونائٹ دوا کا بیان اٹھایئس صفحات پر مشتمل ہے ۔ایسی اہم ادویات کی تعداد آپ کو معلوم ہے ۔بہت سی ہیں ۔ ان سب کی تمام علاما ت یاد رکھنا ممکن نہیں ۔ غالباً ا ن صاحبان نے ایک کی لکیر پر کچھ ردو بدل کر کے نئی لکیر مار دی ہے ۔ نہ معلوم کیوں ؟
ہر دوا کی چند مخصوص علامات ہوتی ہیں ۔ جو یاد بھی رکھی جاسکتی ہیں ۔ مثلا اکونائٹ کی خصوصیت صرف یہ ہے ‘علامات اچانک ظاہر ہوتی ہیں ۔ اور ان میں بڑی شدت پائی جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر ۔ایک مریض کو اچانک سردی لگ جاتی ہے ۔ جس کے سبب نرلہ‘کھانس‘بخار‘پیاس ‘بے چینی ‘درد وغیرہ علامات شدت سے ظاہر ہوتی ہیں ۔ اکونائٹ صیح دوا ہے۔ اسی طرح صرف درد‘صر ف کھانسی ‘صرف نزلہ مگر کوئی بخار نہیں ۔ اچانک مذکورہ علامات ظاہر ہوتی ہیں ۔ پھر بھی اکونائٹ دوا ہے ۔صرف دوا الفاظ ذہن میں رکھیں ‘اچانک‘شدت۔
ہر دوا کی علامات بکھرے ہوئے موتیوں کی طرح ہیں ۔ ان میں سچے موتی بھی ہیں اور کم قیمتی موتی بھی ہیں ۔ ان میں سے سچے موتی نکال کر دماغ کی جیب میں ڈال لیں ۔ حسسب ضرورت جوہر ی (مریض ) کو جا کر دیں ۔ خوب متاثر ہو کر انہیں قبول کرلے گا ۔صیح پورا پورا معاوضہ دے گا۔ شکریہ بھی ادا کرے گا ۔ کم قیمت والے موتی بھی کبھی کبھی کام آ جاتے ہیں۔ سچے موتی آپ دے چکے آپ کی ضرورت پوری نہیں ہوئی ۔ آپ کم قیمت والے موتیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں ان میں قیمت کے لحاظ کم و بیش فرق ہے ۔ ان میں سے بہتر نکال کر آپ ضرورت پوری کر سکتے ہیں ۔ آپ چند مثالوں سے سمجھیں ۔
ایک عورت دس گیارہ ماہ کے بچے کو اٹھائے آپ کے سامنے کرسی پر آ بیٹھتی ہے اور بچہ رونے لگتا ہے ۔عورت کھٹری ہو جاتی ہے ۔بچہ خاموش ہو جاتا ہے ۔اگر آپ کو کیمو ملا کی علامات یاد ہیں تو فورا ذہن میں آئے گی ۔پھر پوچھنے سے معلوم ہو گا کہ بچے کو بڑے بدبودار جلاب آرہے ہیں ۔ کبھی کبھی قے بھی کر دیتا ہے ۔ وہ بھی بد بو دار ۔ضد کرتاہے کہ اٹھائے لئے پھرو۔ دانت بھی نکال رہا ہے ۔
ایک بھاری بھر کم موٹی عورت‘دیہاتی چوہدرانی ہے ‘آکر شکایت کرتی ہے ۔ کی اس کا ہاضمہ اکثر خراب رہتاہے ۔ غذا ہضم نہیں ہوتی ۔ کھٹے ڈکار آتے ہیں ۔ سینہ جلتا ہے ۔ گھبراہٹ ہوتی ہے ۔ اتنی سردی پڑ رہی ہے اور وہ دروازے کھٹرکیاں کھول کر سوتی ہے ۔کیا پلساٹلا کی علامات نہیں ؟
زمیندار لوگ ہیں ۔دودھ ‘مکھن ‘گھی کا استعمال زیادہ ہے اس لئے ہاضمہ خراب ہو گیا ۔
ایک تعلیمیافتہ عورت آ پ کے پاس آتی ہے ۔کہتی ہے ۔ میں کمزور ہوتی جا رہی ہوں حالانکہ غذا اچھی ہے ۔میں گھٹیا عورتوں کی طرح فضول گھٹیا چیزیں نہیں کھاتی ۔ کبھی ٹانگیں سن ہو جاتی ہیں کبھی بازو ۔کبھی سوچتے سوچتے سر سن ہو جاتا ہے اس کے طرز گفتگو سے اخذ کر لیتے ہیں کہ عورت متکبر ہے ‘اپنے آپ کو بالاتر سمجھتی ہے ۔ اس کا اثر اس کے جسم پرہو رہا ہے ۔ دوا فورا آپ کے ذہن میں پلاٹینا آنی چاہیے ۔ ایک دبلا پتلا شحض آکر کہتا ہے ‘میری صحت بگڑی جا رہی ہے ۔میں کلرک ہوں فلاں دفتر میں کام کرتا ہوں ۔ ۔بلا وجہ میرے افسر مجھ پر برستے رہتے ہیں ۔ میں بول نہیں سکتا ۔ رات دن کڑھتا رہتا ہوں ۔ دوا ۔سٹیفں ہے ۔آپ اس کا پیشہ تو نہیں بدل سکتے۔ نصیحت کر سکتے ہیں کہ کڑھنے سے فائدہ نہیں آپکا نقصان ہی نقصان ہے ۔پرواہ نہ کیا کریں اور اگر آپ کا مزاج ایسا ہے تو کبھی کبھی یہ دوا لے لیا کریں ۔
مریضہ کہتی ہے ۔ مجھے دردیں ہوتی ہیں ۔کبھی یہاں کبھی وہاں ۔ رات کو تو میں کمرے میں سو نہیں سکتی ۔ درد جہاں بھی ہو رہا ہو زیادہ ہو جاتا ہے ۔ سردی ہے لیکن میں رات کو برآمدے میں جا سوتی ہوں ۔ دوا پلساٹلا میں کو ئی شبہ نہیں ۔
اسی طرح کی علامات مریضہ بیان کرتی ہے کہتی ہے ۔ دردیں ہیں کبھی ادھر کبھی ادھر اور سردی تو مجھ سے برداشت ہی نہیں ہوتی ۔ دردیں بڑھ جاتی ہیں ۔ زیادہ موسم سرد بھی نہیں مگر میں لحاف لے کر بند کمرے میں سوتی ہوں اس کی دوا سائیکلامن ہے ۔ پلساٹیلا اور سائیکلامن کی علامات ایک جیسی ہیں ۔پہلی کا مزاج گرم ‘کھلی ٹھنڈی ہوا پسند ہے اور دوسری سرد مزاج‘گرمی میں سکون ملتا ہے ۔
میکانکی ٹیسٹ بعض مریضوں کے مطلوب ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ میں نے لکھا ہے ۔ لیکن اگر آپ بڑی محنت اور رجوع کریں گے ۔ علامات آپ کے دماغ میں عضو ماؤف کی تصویر کھینچ لیں گی ۔ علامات سن کر آپ کا دماغ کیمرے کا کام کرے گا ۔ مرض کی نوعیت صرف فعلی بگاڑ ہے ‘ورم کی کونسی کیفیت ہے ‘ ساخت بگڑ چکی ہے ۔نو ساخت تو نہیں ۔ محنت اور رجوع کی ضرورت ہے ۔پھر شاید کبھی کبھی سیٹھتو سکوپ‘ ایکسرے وغیرہ کی ضرورت پڑے گی۔
۱۷۔ چند امراض میںآپ کے مشاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مثلا دمہ کا مریض ہے مگر نزلہ کھانسی بالکل نہیں ہے ۔ یہ یا تو محض ہو ا کی نالیوں کا تشیخ ہے یا دل کا دمہ ہے ۔ مریض کے پاؤں دیکھیں اگر وہاں سوجن ہے تو دمہ دل کا ہے ۔ اگر پاؤں سوجے ہوئے نہیں تو تشخیص دمہ ہے ۔ دل کے دمہ میں پاؤں کی سوجن لازمی ہے
۱۸۔ استسقاء(ڈراپسی‘پانی پڑنا)کے مریض آپ کے پاس آئیں گے ۔ کسی کے چہرے پر سوجن ہے ۔ کسی کے پاؤں ٹانگوں پر ‘کسی کا پیٹ سوجا ہوا ہے ۔ کسی کے سارے جسم پر سوجن آ چکی ہے ۔ چہرے پر سوجن گردوں کی بیماری کی علامت ہے ۔ ٹانگوں پاؤں پر سوجن دل کے کسی مرض کی علامت ہے ۔پیٹ کے سوجن کا سبب جگر کا کوئی مرض ہے ۔ سارے بدن پر سوجن سے مطلب ہے گردے ‘دل ‘جگر سب بیمار ہیں ۔ یہ سوجن ورم نہیں ۔پانی کا اجتماع ہے ۔ ڈراپسی کا علاج زیر عنوان ہذا درج ہے ۔آگے چل کر آ پ پڑھیں گے ۔
۱۹۔ علم کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔ تمام علوم کو حاصل کرنے کے لئے ماضی سے مدد لی جاتی ہے ۔ جو مستقبل میں مستقل ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اس طرح حصول علم کا ارتقاء جاری ہے ۔ انصاف سے دیکھا جائے تو ایلو پیتھک طریقہ ء علاج پرانا ہو چکا ہے ۔ جس طرح یونانی طب پرانی ہو کر رہ گئی اوراس کی جگہ ایلو پیتھی نے لے لی ۔ اب رفتہ رفتہ ہو میوپیتھی اس کی جگہ لے رہی ہے ۔ اس کو جلد غالب کرنے میں ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کا کام ہے ۔سائنس صرف وہ ہے جس کے کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں ۔ جو غیر متبدل ہوتے ہیں ۔جس سائنس کا کوئی بنیادی اصول نہ ہو اسے سائنس کہنا سائنس کی رسوائی ہے ۔ایلو پیھتی کا کوئی بنیادی اصول نہیں ہے ۔ ادویات تیار ہوتی ہیں اور امراض میں آزمائی جاتی ہیں ۔ نتائج نقصان دہ یا منفی برآمد ہوتے ہیں اور ان کو رد کر کے نئی ادویات تیار کی جاتی ہیں ۔ یہ سلسلہ جو محض تجرباتی ہے جاری ہے اسے سائنس نہیں کہا جا سکتا ۔ یہ وضاحت اس لئے کی جا رہی ہے ۔
کہ ہو میو پیتھک ڈاکٹر بنیادی اصول مرکبات استعمال کر کے چھوڑتے جا رہے ہیں ۔ یہ تجرباتی طریقہ ہے ۔یہ ڈاکٹراتنی عظیم سائنس کی جڑیں اکھیٹر رہے ہیں ۔
روزمرہ میرے پاس کئی مریض آتے ہیں اور مرکبات کی شیشیاں دکھا کر کہتے ہیں کہ فلاں ڈاکٹر نے یہ قطرے دئیے تھے ۔پہلے تو ان سے فائد ہ ہو ا مگر قطرے لیتے لیتے اب حالت بہت بگٹر گئی ہے ۔ یہی کچھ ایلو پیتھک ادویات کرتی ہیں ۔ دوا شروع کی تو سکون پھر زلزلہ اور پھر بادی ۔
۲۰۔ ایک فلاسفر نے دوسرے فلاسفر سے پوچھا تم دنیا میں کیسے آئے ۔پیدا ہوا اپنے ماں باپ کے سبب۔ تمہارے ماں باپ کہاں سے آئے؟ اپنے ماں باپ کے سبب۔ان کے ماں باپ کہاں سے آئے ؟
ان کے ماں باپ کے سبب ۔ تو پھر سب سے پہلے ماں باپ کہاں سے آئے ؟ خدانے ان کو پیدا کیا ۔ یہ خدا کہاں سے آیا؟ قدرتی طور پر ۔قدرت کہاں سے آئی ؟
یہ خدا کو معلوم ہے ۔کبھی ملا تو پوچھ کر بتاؤں گا! اس مثال سے ‘سبب‘ کی اہمیت کا اندازہ کریں کچھ بھی نہ پیدا ہوتا ہے۔ نہ رونما ہوتا ہے نہ محسوس ہوتا ہے ۔ سبب کے بغیر۔ یہی کیفیت مریضوں میں ہوتی ہے ۔ ہر مرض ‘حاد ہو یا مزمن ہر علامت چھوٹی ہو یا بڑی ‘خفیف ہو یا شدید‘ ان کا کوئی نہ کوئی سبب‘ خارجی ہو یا داخلی ‘ضرور ہوتا ہے ۔ آپ غور کریں گے ۔ تو معلوم ہو گا کہ عام طور پر اسباب کی علامات مخصوص ہوتی ہیں ۔ مثلا گر می کی شدت‘ سورج کی تپش یا لو لگنے سے سردرد جو ہوگا وہ ایسا ہی ہو گا جو گلونا ئنم میں پا یا جائے گا۔ اسی طرح سردی کی شدت کے سسب سر درد فیرم فاس کا ہو گا ۔ مرغن‘ثقیل غذا کا استعمال اعتدال سے زیادہ ہوا ۔اور تیزابیت پیدا ہوگئی ۔ علامات پلساٹلا یا کاربوویج کی ہو ں گی ۔اسی طرح ہر علت (سبب)کا معلول (نتیجہ ) ہوتا ہے ۔ موروثی مزاج بھی علت ہے ۔ اور اس کے نتائج محلول ہیں ۔ اور یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے ۔عورت کا جواں سال بیٹا اچانک فوت ہو جاتا ہے ۔ عورت صدمہ کی وجہ سے نڈھال ‘ضعف شدید کے دورے ‘دل بیٹھتا ہے ۔ سردپسینے ۔ہاتھ پاؤں ٹھنڈے اس مریضہ کو دیکھ کر کاربوو یجذہن میں آئے گی ۔ ہو سکتا ہے ۔عارضی طور پر اس کی حالت سبھل جائے ۔کیونکہ علامات موجود ہیں لیکن ذہنی ہیجان ‘کمزوری ‘بھوک معدوم ‘بیزاری وغیرہ جیسی علامات موجود رہیں گی ۔سبب تھا صدمہ ‘بدیں وجہ رنج و غم ۔اگفیشیا کے بغیر آرام نہیں آ سکتا ۔ سبب کے بغیر نہ کوئی چیز ہے نہ کوئی بات ہے ۔ نہ درد ہے ۔نہ احساس ۔نہ غم ہے ۔نہ خوشی ہے ۔
۲۱۔ خود اعتمادی کا ہونا ہر فن میں لازم ہے ۔اور یہ بلا محنت پیدا نہیں ہوتی ۔ آپ دیکھتے ہیں ۔کہ کھیل کے میدان میں وہی کھلاڑی کامیاب رہتا ہے ۔ جس نے بڑی محنت کی ہوتی ہے ۔اس محنت نے اس میں خود اعتمادی پیدا کی۔ اس کے اندر یقین پیدا ہو گیا کہ وہ مقابلہ جیت جائے گا۔ اور وہ جیت جاتا ہے۔ طب کا فن ایسا سنجیدہ فن ہے ۔ جس کا تعلق انسان کی زندگی اور موت سے ہے۔ مرضکی تشخیص اور دوا کی تجویز اگر خود اعتمادی سے نہ کی جائے تو گویا تذبذب کی حالت میں فیصلہ کیا گیا جو مریض کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ اس طرح مریضوں کا علاج کرنا محض ‘تکے‘ مارنا ہے ۔
آپ مختلف ماہرین فن کی کتابوں کا مطالعہ کریں ۔ان کتابوں میں سے اہم نقطے نکال کر دیکھ لیں اور ان کو بار بار لکھیں تاکہ اچھی طرح ذہن نشین ہو جائیں ۔ اکثر کتابوں میں آپ دیکھیں گے کہ تحریر بڑی طویل ہوتی ہے ۔ اور ایک نے دوسرے کی تحریر پر مکھی پر مکھی ما ر دی ہے ۔ اس کے باوجود ان میں سے اہم باتوں کا اخذ کر لینا مشکل نہیں ہے ۔ بعض ماہرین فن نے محض اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر امراض و علامات کو بڑی خود اعتمادی سے تجربہ کر کے لکھا ہے ۔ ڈاکٹر نشیں۔ڈاکٹر کینٹ اور ڈاکٹر اایلن پیش پیش ہیں ۔
ڈاکٹر نیش کی ایک مثال کو دیکھیں ۔ ایک جوان لٹرکی مریضہ ہے ۔ اسے حیض نہیں آتا۔ ٹانسلر بڑھے ہوئے ہیں تھکاوٹ اور کمزوری محسوس کرتی ہے ۔ معمولی جسمانی مشقت سے سانس پھول جاتا ہے ۔ اس کی بڑی بہن ٹی بی سے فوت ہوئی تھی ۔ مریضہ کو ٹیوبرکیولینم ایک ہزار طاقت کی صرف ایک خوراک سے مریضہ کی تمام علاما ت رفع ہو گئیں ۔ میں ڈاکٹر کلارک کا نام ان تین کے ساتھ شامل کرنا بھول گیا ۔ ان چاروں کی تحریروں سے فائدہ اٹھائیں ۔مسلسل مطالعہ اور مریضوں کی طرف پوری پوری توجہ دینے سے آپ کے اندر و جدانیکیفیت (انٹیوشن ) پیدا ہو جائے گی ۔ آپ مریض پر نگاہ ڈالیں گے اس کی باتیں غور سے سنیں گے ۔ مزمن اور دوا خود بخود آ پ کے ذہن میں اتر آئے گی۔
۲۲۔ اب آخر میں آپ کے سامنے اپنے ذاتی تجربات لاتا ہوں تا کہ آپ کی عملی طور پر راہبری ہو جائے ۔بڑے غور سے ان کو پڑھیں۔
۱۔ ایک عور ت ‘جو میری بڑی مداح تھی ۔ اپنی بہن کو میرے پاس لائی جس کا تین چار سال کا بچہ دو سا ل سے بیمار تھا۔ ایلو پیتھک اور ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کے زیر علاج رہنے کے باوجود مرض جو ں کا توں ہے ۔عورت نے آتے ہی مجھ سے کہا‘ڈاکٹر صاحب! پہلے یہ بتائیں بچے کو ہے کیا ؟ میں نے بچے کے چہرہ پر نگاہ ڈالی اور بے ساختہ میری زبان بولی ‘بچے کو کہیں نہ کہیں سے خون بہنے لگتا ہے اور پھر وہ رکتا نہیں
ظاہر ہے کہ دونوں عورتوں کے لئے مقام حیرت ہو گا ۔ کیفیت یہ بتائی گئی کہ منہ کے اند ر دائیں طرف گال پر ایک گول گہرا سرخ نیلگوں تقریبا ایک انچ قطر کا نشان بنتا ہے ۔جس میں سے خون بہنے لگتا ہے ۔ اور کسی طرح رکنے میں نہیں آتا ۔ کافی خون بہ جانے کے بعد خود بخود رک جاتا ہے ۔ پھر ڈاکٹر خون کی بوتل لگا دیتے ہیں ۔ کبھی بچہ گر جائے‘ چوٹ ناک پر آ جائے یا کہیں ذخم آجائے تو وہاں سے خون اسی طرح بہنے لگتا ہے ۔اور بغیر خود بخو د رک جاتا ہے ۔ مرض ہیمو فیلیا تھا ۔فاسفورس ۳۰ کی صرف ایک خوراک دی گئی ۔ جس کے بعد آج تک خون نہیں آیا ۔اس وقت بچہ آٹھ برس کا ہے اور تیسری یا چوتھی جماعت کا طالبعلم ہے ۔
۲۔ عورت عمر ۵۰برس۔ بارہ سال سے گنٹھیا کی مریض ۔چلنے پھرنے سے معذور۔ خوشحال گھرانہ ۔ ایلوپیتھک علاج باقاعدگی سے ہوتا رہا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ موروثی مزاج سر طانی جو پوچھنے سے معلوم ہوا ۔موجود حالت مریضہ کی آپ تصور میں لا سکتے ہیں ۔ کارسنوسن ۲۰۰ کی ایک خوراک دی گئی ۔ شدید ردعمل ہوا جو تقریبا چار ہفتے جاری رہا۔ اس کے بعد پہلے مریضہ کی عالم حالت بہتر ہوتی گئی ۔دو ماہ کے بعد معمولی چلنے کے قابل ہو گئی ۔اور آج دو برس سے وہ بالکل صحت مند ہے ۔
۳۔ مرد۔ عمر ۵۵ سال ۔دل کاعارضہ لے کر آیا ۔ جو چھ ماہ سے باوجود ایلو پیتھک علاج کے ٹھیک نہیں ہو سکا۔ بائیں پاؤں کے اوپر پرانا جلدی ابھار تھا جس کا علاج ہو رہا تھا۔ اسی دوران میں دل کی تکلیف ہو گئی ۔ پاؤں کی حالت‘بقول مریض کے بہت بہتر تھی۔ سلفر ۳۰ کی چند خوراکوں کے بعد۔ چار دنوں میں جلدی ابھار شدت سے نکلا اور دل کی تکلیف رفع ہو گئی ۔ تین بر س ہو چکے ہیں پاؤں کاابھار خفیف حالت میں قائم ہے ۔ دل کی تکلیف پھر نہیں ہوئی۔
۴۔ عورت عمر تقریبا پچیس سال ۔ذہنی مریضہ ۔ اضطراب پریشانی ۔رونے کو جی چاہتا ہے ۔الٹے پلٹے خیالات زندگی سے بیزار اور یہ سب کچھ بلاوجہ ۔ اگنیشیا۲۰۰ کی دو خوراکیں ‘ہفتہ کے وقفہ سے گردن پر جلدی ابھار رونما ہوا اور تمام ذ ہنی علامات مفقود ہوگئی۔
۵۔ مرد ۔عمر پچیس سال ۔مرگی کا مریض لٹرکپن سے دور ے مرگی کے ہورہے ہیں ۔ پہلے لمبے وقفہ سے ہوتے تھے اب وقفہ کم ہوتا جا رہا ہے ۔ کلکیر یا کارب ۲۰۰ دینے سے شدید دروہ پڑا اور اس کے بعد دس برس ہو چکے ہیں کوئی دورہ نہیں پڑا ۔اندازا پندرہ بیس مرگی کے مریض میں نے شفایاب کئے ہیں اور سب کلکیریا کارب ۲۰۰ سے ۔مختلف علامات کے مطابق مختلف ادویات ناکام رہیں ۔میرے تجربہ میں یہ دوا اس مرض کی مخصوص ثابت ہوئی ہے ۔
۶۔ عورت۔عمر تیس سال ۔حیض عرصہ سے رکا ہوا تھا۔ کبھی آیا بھی تو برائے نام ۔لیڈی ڈاکٹر سے تشخیص کرا کر گئی ۔الٹر ا ساؤنڈ نے رحم کی رسولی کی تصدیق کر دی۔ رسولی کچھ زیادہ بڑی نہ تھی ۔
علامات کوئی خاص نہ تھیں ۔ میڈورینم ہزار طاقت کی دو ہفتہ کے وقفہ چار خوراک کے بعد حیض باقاعد ہ آنے لگا ۔ چار ماہ بعد ملاحظہ کروانے سے معلوم ہوا کہ رسولی غائب ہو چکی ہے ۔
۷۔ عورت۔ عمر پنتالیس سال۔ حیض کا خون بہت ذیادہ کئی دن تک ۔اور کبھی ادرار خون حیض کے علاوہ ۔درد کے ساتھ۔ خون میں لوتھڑے جمے ہوئے خارج ہوتے تھے۔ ملاحظہ کرائے بغیر میں نے رسولی (فائیبرائڈ) تشخیص کی ۔میڈروینم دس ہزار طاقت کی ایک ماہ کے وقفہ سے چار خوراکوں کے بعد حیض باقائدہ ہو گیا ۔اورار خون ختم ہو گیا۔ رسولی غائب ہو چکی تھی ۔ درجنوں عورتوں کی رحمی رسولیاں ختم ہوئی ہیں اور سب میڈورینم سے ۔دو تشخیص شدہ رحم کے سرطان بھی اسی دوا سے ختم ہوئے ہیں۸۔ لٹرکی عمر سات آٹھ برس ۔کمزور،لاغر،بے خون رنگ، بھوک معدوم ۔ معمولی کھیل کود سے نڈھال اور دقت تنفس ۔دل کا معائنہ کرنے سے معلوم ہوا کہ دل کے ایک یا دو کیواڑ(والوز) کا عارضہ ہے ۔یہ مرض بالعموم پیدائشی ہوتا ہے ۔ اورم میو رینٹرونیٹمx ۳ ایک خوراک تین چار دن کے وقفہ سے دی گئیں ۔ رد عمل ہوا تو دوا روک دی ۔
اس کے بعد مریضہ کی حالت بہتر ہوتی چلی گئی ۔ چند ماہ بعد معائنہ کرنے سے معلوم ہوا کہ دل کی دھٹرکن بالکل اعتدال پر ہے ۔
۹۔ لٹرکی ۔ عمر دس برس ۔دو ماہ سے ایک بڑے شہر میں بڑے ہسپتال میں داخل ہے ۔اخراج خون پیشاپ میں ناک سے ‘منہ سے ہوتا ہے ‘خون کی بوتل لگا کر لٹرکی کو زندہ رکھا جا رہا ہے ۔ نیم بے ہوش پڑی ہے ۔ مجھے فون پر اس کی کیفیت بتائی گئی ۔ فاسفورس ۳۰چار چار گھنٹہ بعد تجویز کی گئی ۔ ۴۸ گھنٹے بعد خون کا اخراج رک گیا ۔ لٹرکی ہوش میں آگئی ۔ پہلے بخار بھی تھا ۔اب ٹمپریچر نارمل ہو گیا ۔
۱۰۔ عورت‘عمر ساٹھ سال ‘دس بر س سے فالج کی مریضہ ۔فالج دائیں طرف کا ہے ۔ چلنے پھرنے سے بالکل معذور ۔پلمبم ۳۰ دینے سے ایک ہفتہ بعد پیشانی پر ایک پھوڑا نمودار ہوا۔ اور اس کے پھٹ کر بہ جانے سے مفلوج اعضاء میں حرکت آنے لگی ۔ اور رفتہ رفتہ مواد بہ جانے سے مریضہ چلنے پھرنے لگی اور پھوڑا خود بخود مندمل ہو گیا ۔ بتایا گیا کہ فالج ہونے سے کچھ عرصہ پہلے مریضہ کے سر پر موٹی پھنساں اکثر نکلتی تھیں جو ایلو پیتھک علاج سے ختم ہو گئیں ۔ اس کے بعد فالج ہو گیا ۔
۱۱۔ مریض عمر ۳۰ سال ۔پورے ایک سال بعد۔ مخصوص دنوں میں بائیں آنکھ متورم ہو کر شدید درد کرتی ہے ۔ کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا ۔ ۳‘۴ ہفتہ کے بعد خودبخود آنکھ ٹھیک ہو جاتی ہے ۔ یہ کیفیت مریض نے بتائی ۔ اس وقت آنکھ متورم ہو چکی تھیں ۔ میں نے پوچھا نہیں معلوم کیوں ۔کیا تمہیں کبھی سانپ نے ڈسا ہے کہنے لگا ۔جی ہاں بارہ تیرہ برس پہلے سانپ نے کاٹا تھا اس کے بعد سے ہر سال میری آنکھ سوج جاتی ہے۔لیکیسس۳۰ کی ایک خوراک سے آنکھ تین دن میں ٹھیک ہو گئی اور اس کے بعدمتورم نہیں ہوئی۔
۱۲۔ عورت ۔عمر ۴۰ سال فالج دائیں طرف کا عرصہ تقریبا ایک سال سے کوئی خاص علامات نہیں کروٹیلس ہاریڈس۰ ۳ کی دن میں تین خوراک تین دن دینے سے مریضہ کا فالج نصف سے زیادہ ٹھیک ہو گیا ۔ اور پھر رفتہ رفتہ ایک ماہ کے بعد بالکل ٹھیک ہو گیا۔ دوا اس کے بعد نہیں دی گئی ۔
۱۳۔ مرد۔عمر ۳۰ سال بائیں ٹانگ رفتہ رفتہ کمزور اورہجممیں کم ہو رہی تھی ۔تقریبا ایک برس سے ۔فاسفورس پر سے چند ہفتوں میں مرض کا غلبہ ختم ہو گیا پھر ہفتہ کے وقفہ سے تین مزید خوراکوں سے
ٹانگ بالکل ٹھیک ہو گئی ۔
۱۴۔ بے شمار مریض مختلف امراض مزمنہ و حاد علاج سے تندرست ہوئے ہیں ۔ مثلا ٹی بی ‘دمہ‘گنٹھیا‘رسولیاں ‘ناسور‘وغیرہ ۔اور حاد امراض مثلا مختلف بخار ‘خسرہ‘نمونیا‘ٹائیفائڈ وغیرہ ۔آگے چل کر ان امراض کے زیر عنوان تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ ان کا غور سے مطالعہ کر کے ذہن نشین کریں ۔
بنی نوع انسان میں سورا مسلسل منتقل ہوتا چلا آرہا ہے ۔ کوئی انسان سورا سے محفوظ نہیں ہے ۔ ہر انسان میں سورا موجود رہتا ہے ۔ ذہن میں یہ سوال کھٹکتا ہے ۔ کہ انسان کو سورا سے نجات مل سکتی ہے ؟ نجات مل سکتی ہے لیکن اس کے لئے طویل عرصہ درکار ہے ۔جس طرح انسانی زندگی کو شیطان سے نجات نہیں مل سکتی ۔ جب تک نوع انسان کا مذہب ایک نہ ہو جائے ۔ اسی طرح انسان کو سورا سے نجات نہیں مل سکتی جب تک طریقہ ء علاج دینا میں صرف ایک نہ رہ جائے ۔ اور وہ طریقہ علاج ہومیو پیتھی ہے ۔ایلو پیتھک طریقہ ء علاج سے سورا کا معدوم ہونا نا ممکن ہے ۔یہ تو خود سورا میں اضافہ کرتا ہے
تعارف میں ایک اہم بات لکھنی رہ گئی وہ یہ کہ ایک طریقہ علاج بایو کیمسٹری ہے جس کا بانی ڈاکٹر شوسلر ہے ۔اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان چند کیمیاوی اجزاء سے بنا ہوا مٹی اور ہوا کا مجسمہ ہے ۔ان اجزاء کو نمکیات کا نا م دیا گیا ہے ۔ انسان کی ساخت میں کیمیاوی اجزاء کیلشیم ۔فاسفورس۔ سلفر ۔میگنشیگم ۔سوڈیم ۔سلیشیا۔فیرم ہیں ۔ بایو کیمسٹری کے مطابق یہ نمکیات باہمی تعاون سے (جو قدرتی ہے ) مرکبات کی صورت میں جسم کے لئے اجزائے غذا ہیں اور ان کا توازن انسان کو تندرست و توانارکھتا ہے ۔ یہ نمکیات ہومیو پیتھی کی طرح پوٹنٹائز کر کے دئیے جاتے ہیں ۔ یعنی کیمیاوی اجزاء کی توانائی حاصل کر کے محفوظ کی جاتی ہے ۔ جب انسان کے جسم میں ان کیمیاوی اجزاء کا توازن بگڑتا ہے تو اس توازن کو بر قرار رکھنے کے لئے ان کیمیاوی اجزاء کی توانائی سے مدد لی جاتی ہے ۔
کائنات کا غور سے تجزیہ کریں ۔سورج ‘چاند‘ ستارے۔یہ ہماری دنیاکی مٹی ‘پہاڑ‘پانی سب کیمیاوی اجزاء کے مرکبات ہیں ۔ اور ان میں جو متحرک ہیں وہ انہی کیمیاوی اجزاء کے باہم میل جول سے متحرک ہیں ۔اجزاء کی توانائی ان میں حرکت پیدا کرتی ہے ۔ جمادات‘نباتات‘حیوانات بھی انہی چند کیمیاوی اجزاء کے مرکبات ہیں ۔ اور حیوانات اپنی اجزاء کی توانائی کے سبب متحرک ہیں ۔
آدمی کا شمار حیوانات میں ہوتا ہے ۔ دماغ یعنی عقل دیگر حیوانوں میں بھی ہے ۔ لیکن ان میں علم و شعور کا فقدان ہے ۔آدمی علم و شعور حاصل کر کے انسان بن جاتا ہے ۔ یہ علم و شعور کہاں سے حاصل ہوتا ہے ۔ یہی ایک معمہ ہے جس کا حل تلاش کرتے ہوئے بے شمار صدیاں بیت گئیں ۔انسان اس معمہ کا حل تلاش نہیں کر سکا۔اس کے سوا چارہ نہیں کہ ایک غائب توانائی کو مان لیا جائے ۔جو ایک مرکز کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی مرکز سے انسان کو علم و شعور کی شعاعیں حاصل ہوتی ہیں ۔اور یہی شعائیں انسان کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ ایک مرکزی لامحدود روشنی کی شدت کوتسلیم کرلے جس کی لا محدود وسعتوں میں پھیلی ہوئی روشنی کی کرنیں انسان کو مس کر کے اس کو علم و شعور عطا کر رہی ہیں ۔ اور اسی روشنی کے طفیل حیات کائنات رواں دواں ہے۔ حرکت کاسبب توانائی ہے ۔توانائی کا سبب روشنی ہے ۔روشنی کا سبب خو د روشنی ہے ۔جس کی نہ کوئی ابتداء ہے نہ انتہاہے ۔
انسان کو بڑے غورو فکر کے ساتھ سوچنا چاہیے کہ وہ اس کی توازن بدوش زندگی کے اعتدال میں توازن بگڑتا کیوں ہے ۔ عام الفاظ میں وہ مختلف امراض میں کیوں مبتلا ہوتا ہے ۔ کیا بیماریاں بھی وہی روشنی پیدا کرتی ہے ؟ نہیں ! علم و شعور کی لامحدود روشنیبد اعتدالی کا سببکبھی نہیں ہوسکتی ۔ سبب یہ ہے کہ انسان علم و شعور کا استعمال صیح طور پر نہیں کرتا ۔ انسان خود موجب امراض ہے ۔زندگی کے توازن کو یہ خود بگاڑتا ہے ۔ انسان کے علم میں ہے کہ وہ اگر اپنی خواہشات اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھے تو اس کا کچھ نہیں بگڑ سکتا۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ یہ حضرت انسان خواہشات و جذبات کا غلام بن کر رہ گیا ہے ۔ اور یہی تمام امراض کا بنیادی سبب ہے۔ اپنی بد اعتدالیوں کے سبب جسم کے کیمیاوی اجزاء کے توازن و ترتیب میں خلل پیدا کر دیتا ہے اور جسم کے اعضاء میں بھی اعتدال قائم نہیں رہتا ۔
اعضاء کے اعتدال پر نہ رہنے کا نام بیماری ہے ۔
انفرادی طور پر بگاڑپیدا ہوا ۔ بگڑے ہوئے افراد کے مجموعی بگاڑ نے معاشرتی زندگی کو تہ و بالا کر دیا ۔اور پھر معاشرتی زندگی جہنم کا نمونہ بن گئی۔
بگڑ کر بکھر ی ہوئی انسانیت اس وقت انتہائی ذلت و اذیت میں مبتلا ہے ۔ہر لحاظ سے انحتاط پذیر ہے ۔زندگی کا ہر پہلو اذیتوں کی آگ میں جل رہا ہے ۔ ہمارا کام انسان کو بیماریوں کی اذیت سے نجات دلانے کی کوشش ہے ۔ لیکن اس کوشش میں خود مریض کی کوشش کا شامل ہونا ضروری ہے ۔صرف معالج کی کوشش مریض کو شفا نہیں دے سکتی اور معالج کو طریقہ علاج وہ اختیار کرنا چاہیے جو بے ضرر ہو ۔ورنہ انسان کے امراض میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
وہ طریقہ صرف ہومیو پیھتک طریقہ ء علاج ہے ۔ ایلو پیتھی نے انسانیت کو فائد ہ تو پہنچایا ہے لیکن اس سے کئی لاکھ گنا زیادہ نقصان بھی پہنچایا ہے اور پہنچا رہی ہے ۔
جیسا کہ ابھی آپ نے پڑھا ہے ۔ انسان مختلف اور مختصر کیمیاوی اجزاء کے مرکبات سے بنا ہوا ہے ۔اس کی بیماریوں کو انہی کیمیاوی اجزاء کی توانائی سے دور کرنا بہت زیادہ کامیاب ثابت ہوا ہے ۔خاص طور پر سلفر‘فاسفورس‘پوٹاشیم‘کیلشیم فیرم، سلیشا سوڈیم اور میگنیشیم ۔اور ان کے مرکبات بھی بڑے کامیاب ثابت ہوئے ہیں ۔ان کی مختصر سی جھلک آپ کو دکھاتے ہیں ۔
کلکیر یا فلور (کیلشیم فلورائڈ)
ہڈیوں کی بالائی سطح میں ۔دانتوں کی بالائی سطح میں ۔ لچکدار ریشوں میں اور جلد کی بالائی سطح میں پایا جاتا ہے اس کا توازن قائم رہے تو مندرجہ ذیل علامات پیدا ہوتی ہیں ۔ لچکدار ریشے ڈھیلے پڑ جاتے ہیں ۔خون کی نالیاں بڑی ہو جاتی ہیں ۔بواسیری سسے پیدا ہو جاتے ہیں ۔ رحم اپنی پوزیشن قائم نہیں رکھ سکتا اور دھرن کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ پیٹ ڈھیلا ہو کر لٹک جاتا ہے ۔جلد میں چھوٹے بڑے شگاف پڑ جاتے ہیں ۔ تحجر(پتھر کی طرح سخت ہو جانا)
اس کی محضوص علامت ہے ۔ گومڑ رسولی۔ پستان میں ہوں ۔خصیہ میں ہو ۔ہڈی کا ہو ۔ان کو تحلیل کر دیتی ہے ۔
کالی سلف (پوٹاشیم سلفیٹ)
جہاں خلیوں میں فولاد ہے وہاں یہ بھی موجود ہے ۔فولا د سے مل کر خلیوں کو آکسیجن پہنچاتی ہے ۔اس کی علامات ہیں بوجھل پن۔اکتاہٹ‘دل کی دھڑکن ‘اضطراب‘اداسی‘سردرد‘دانت درد‘ بیرونی اعضاء میں درد‘گرمی میں اور شام کے وقت ۔جلدی امراض۔نزلہ ۔جلد اور نزلاوی جھلیوں (یعنی خارجی اور داخلی سطح کی علامات)اخراج اس کا پیلا ہوتا ہے ۔ خون کی حرارت کو کنٹرول میں رکھتی ہے ۔اسی لئے بخار میں بہت مفید ہے ۔
کلکیر یا فاس (کلشیم فاسفیٹ)
تمام خلیوں (سیلز) میں موجود ہے ۔سب سے زیادہ ہڈی کے سیلز میں ۔ یہ خلیے بنانے میں بہت مدد گار ہے ۔حاد امراض کے بعد نئے خلیوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس وقت یہ اہم دوا ہے ۔ہڈی کی ساخت کو مکمل رکھنے کے لئے اس کی ضرورت بڑی لازم ہے ۔ جیسے ہڈی کے ٹوٹنے (فریکچر ) کے بعد اسے جوڑنے میں ۔کھوپڑی کے جوڑوں کے جڑنے میں ۔ بچوں کے دانت نکالنے میں ۔ الیبومن(جس رطوبت سے خون بنتا ہے )کا یہ ضروری جزو ہے ۔اگر کہیں سے انڈے کی سفیدی کی طرح کا اخراج ہو رہا ہے ۔ مثلا نزلہ‘لیکوریاوغیرہ تو اس وقت اس کی ضرورت لازم ہے ۔کمی خون کو پورا کر دیتی ہے ۔ ہڈیاں ٹیٹر ھی ہو جائیں (رکٹس) تو اس کی ضرورت ہے ۔ حیوانی یا انسانی جسم کی ساخت میں جو ہڈیوں کا پنجر ہے اس میں کیلشیم اور فاسفورس سب سے زیادہ اجزاء ہیں ۔ ان کا توازن بگڑ جائے تو بدن میں تباہی مچ جاتی ہے ۔
میگ فاس (میگنیشیم فاسفیٹ) (فاسفیٹ آف میگنیشیا)
خون کے خلیوں ‘عضلات‘مغز‘ حر ام مغز ،اعصاب‘ ہڈیوں اور دانتوں میں پایا جاتا ہے ۔ علامات اس کی ہوتی ہیں ۔ تشیج‘فالج‘درد شدیدرگڑ،مالش سے > اورچھونے سے < تشخص علامات (کنوالشنز‘سپازم ) اس دوا کی خاص علامات ہیں ۔ جو جہاں بھی ہوں ہچکی ‘پیٹ درد ‘دانت درد‘کالی کھانسی ‘لٹرکھٹرانی چال وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔ کلکیر یا سلف (کیلشیم سلفیٹ) کیلشیم اور گندھک کا یہ مرکب خون کو غلاظتوں سے پاک رکھنے کا ذمہ دار ہے ۔جب کہیں ورم پیدا ہوتا ہے ۔توفیرم فاس ورم پیدا کرنے والے مادہ سے خون کو پہلے صاف کرنے کی کوشش میں وہاں اکٹھا ہو جاتا ہے ۔بن نہ پڑے تو اس مادہ میں مزید غلاظت پیدا ہو جاتی ہے اور کالی میور (پوٹاشیم کلو رائڈ ) وہاں مدد کو پہنچتا ہے ۔ یہ بھی کامیاب نہ ہو تو سلیشیا(چونکہ تمام ٹشوز کو باہم جوڑ کر رکھنے کا ذمہ دار ہے )متورم جگہ کی اجتماعی ساخت کو برقرار رکھنے کے لئے غلیظ مادے کو ورم پھاڑ کر باہر نکال دیتا ہے ۔ اگر یہ غلیظ مادہ خبیث ہو اور خون سے خارج ہونے میں دیر کردے اور متورم جگہ سے پیپ کی شکل میں مسلسل بہتا رہے تو اسے کلکیر یا سلف ختم کر کے اپنا فرض پورا کر دیتا ہے ۔ نیٹرم فاس (سوڈیم فاسفیٹ) خون کے خلیوں (کارپسلز) میں ‘عضلات‘اعصاب‘ مغز اور آبی رطوبات میں موجود ہے ۔تیزابیت یا ترشی اس کی نمایاں علامت ہے ۔کھٹے ڈکار۔ بد ہضمی اسہال اور قے اور پسینہ سب سے ترش بو آئے۔ تیزابی مادہ جوڑوں میں جمع ہو جاتا ہے تو ریح کے درد پیدا ہو جاتے ہیں ۔ گردوں مثانہ میں پتھری پیدا ہو جاتی ہے ۔ فیرم فاس (آئرن فاسفیٹ) فولاد میں آکسیجن گیس کشش کرنے کی خاصیت ہے جو گیس وہ تمام ٹشوز کو اپنی گردش کے دوران میں پہنچاتے ہیں ۔ اور آکسیجن گیس ہی وجہ زندگی ہے ۔کہیں ورم پیدا ہو جائے تو اس کے پہلے درجہ میں دی جاتی ہے ۔ اخراج خون کو روکتی ہے ۔ اخراج خون کہیں سے بھی ہو ۔اجتماع کو رفع کر دیتی ہے ۔ نیٹرم سلف (سوڈیم سلفیٹ) نیڑم میور پانی کے لئے کشش رکھنا ہے اور اس کا توازن قائم رکھتا ہے ۔نیڑم سلف میں بھی یہ کشش ہے لیکن یہ ان آبی رطوبات کو خارج کرتا ہے ۔ جو فاضل ہوتی ہیں ۔ صفراوی علامات اس کی خصوصیت ہے ۔ کالی میور (پوٹاشیم کلورائڈ) سارے بدن کے خلیوں میں موجود ہے ۔انجمادرطوبات اس کا خاصہ ہے ۔خون کو گاڑھا کرتا ہے ۔نزلاوی اخراج سفید گاڑھا ہوتا ہے ۔ زبان پر سفید تہ بن جاتی ہے ۔ براز سفید ہو جاتا ہے ۔ جو یرقان کی علامت ہے ۔ نیٹرم میور (سوڈیم کلورائڈ) کھانے کا عام نمک ہے ۔پانی جسم کا اہم جزو ہے اور نمک کا توازن پانی کے توازن کو برقرار رکھتا ہے ۔ غیر ضروری اخراج آبی (پانی نما) ہوتے ہیں ۔ چاہے وہ ناک سے ‘آنکھوں ‘کان ‘سینہ‘مقعد وغیرہ سے ہوں۔ کالی فاس (پوٹاشیم فاسفیٹ) اعصاب ‘مغز‘عضلات ‘اور خون میں موجود ہے ۔اعصاب میں توازن قائم رکھنا اس کی ذمہ داری ہے ۔ یہ متوازن ہے تو اعصاب متوازن ہیں ۔ تعفن اس کی اہم علامت ہے جسم سے یا کسی اخراج سے بدبو آئے تو یہ اعصاب کے ضائع ہونے کی علامت ہے ۔ سلیشیا (سلسک ایسڈ) ٹشوز کو باہم جوڑ کر رکھنے کا ذمہ دار ہے ۔اس لئے جسم کے ہر عضو میں موجود ہے ۔ ٹشوز کے درمیان کوئی غیر فطری چیز آجائے اسے باہر نکال دیتا ہے ۔ اسی لئے ورم کی کیفیت میں اس کا کردار بڑا اہم ہے ۔ مریض کو سردی کا اثر جلدی ہو جاتا ہے ۔ خاص طور پر سر کو ذرا ٹھنڈک لگی اور سر درد ہوگیا ۔دانت درد سرد اشیاء سے یہاں تک کہ منہ میں ذرا سی ٹھنڈی ہوا گئی اور دانت درد ہوگیا ۔ پرانے زخم اور ناسور کہیں بھی ہوں ان کو مندمل کر دیتا ہے ۔ پیٹ ABDOMEN بچوں میں بہت بڑا اور سخت ۔ایسے بچے عام طور پر خنازیری (مدقوق) مزاج کے ہوتے ہیں ۔ یہ مزاج اکثر و راثت سے نسل در نسل چلتا ہے ۔ بچے کے والدین یا وارثوں سے پوچھ کر اس بات کی تحقیق کر لینی چاہیے ۔ بنیادی دوابسیلنیم ہے ۔ دیگر ادویات عارضی اثر کریں گی۔بسیلنیم ۲۰۰ دی جانی چاہیے ۔ کوئی بھی دوا خصوصاًنوسوڈزکی ایک خوراک دے کر لمبا انتظار جو کم از کم مہینوں پر محیط ہو کیا جانا چاہیے عورتوں میں پیٹ بڑا اور لٹکا ہوا عام طور پر زیادہ بچے پیدا کرنے کے سبب ہوتا ہے ۔ سیپیا ۲۰۰ سے کسی حد تک کم ہو سکتا ہے ۔کسی بھی دواکی ۲۰۰ طاقت ہفتہ میں ایک بار سے زیادہ استعمال نہ کی جانی چاہیے اگر اس دوران تکلیف بڑھ جائے تو لمبا انتظار کریں ۔اگر تکلیف کم ہو جائے تو بھی انتظار کیا جانا بہتر ہے ۔جب تک کہ علامات کم ہوتے ہوئے ایک خاص جگہ پر آ کر رک نہ جائیں ۔اگر ایک ہفتہ کے دوران تکلیف میں کمی یا زیادتی نہیں ہوتی تو دی گئی دوا غلط تھی ۔دوبارہ غور کریں ۔ پیٹ میں ایسا محسوس ہو جیسے کوئی زندہ چیز حرکت کر رہی ہے ۔دوا تھوجا ہے ۔ مزمن امراض میں ۳۰ طاقت کا استعمال اگر کیا جائے تو ایک خوراک روزانہ یا تین دن کے وقفہ سے دوا استعمال کریں ۔تکلیف میں کمی یا زیادتی کی صورت میں صرف اور صرف اور صرف پلاسبو کا استعمال کریں ۔جیسا کہ اوپر بیان کی گئی تکلیف میں تھوجا ۳۰ کی ایک خوراک روزانہ چار دن تک دیں ۔ ہومیو پیتھک دوا کا مسلسل استعمال انتہائی خطرناک ہے۔اگر کسی مریض کو مدر ٹنکچریا کوئی اور چھوٹی طاقت دیر تک دیا جانامقصود ہو تو چار دن دوا دے کر چار دن وقفہ کر لینا مناسب ہے ۔پیٹ میں درد‘براز(پاخانہ ) عام طور نرم ‘غیر منہضم۔ کالو سنتھ۳۰۔حاد امراض میں دوا ہمیشہ ۳۰ یا اس سے کم طاقت میں دی جانی چاہیے۔دوا کی خوراک کے وقفہ کا تعین تکلیف کی شدت کے مطابق کیا جانا چاہیے ۔جو کہ ۴ گھنٹہ یااس سے بھی بہت کم یا بہت زیادہ ہو سکتا ہے ۔مثلاً پیٹ درد‘قبض براز۔ پلمبم ۳۰ پیٹ درد‘ سید ھا لیٹنے یا کھٹرا ہونے سے >ڈایو سکوریا۳۰ ایک سے تین خوراک روزانہ
(دوہرا ہونے سے >کالوسنتھ۳۰<ڈایو سکوریا۳۰) پیٹ درد‘ گرمائش اور دبانے سے>میگ فاس۳۰<دبانے سے <بیلاڈونا۳۰۔پیٹ کے اندر کیا ہے ۔درمیان میں ۔دونوں پسلیوں کے درمیان معدہ ۔دائیں طرف پسلی کے نیچے پتہ اور جگر۔ بائیں طرف پسلی کے نیچے تلی اور لبلبہ ۔پیٹ کے درمیان میں چھوٹی آنتیں ۔پیٹ کے دائیں بائیں بڑی آنت۔پیٹ کے دائیں بائیں آنتوں کے پیچھے دو گردے ناف کے نیچے مثانہ ۔اور عورتوں میں نسوانی اعضاء رحم‘خصتہ الرحم جو مثانہ سے ذرا پیچھے ہٹ کر ۔ان
تما م اعضاء کے اوپر ‘پیٹ کے اندرباریطون (پیری ٹونیم وال ) پسلیوں کے نیچے اور پیٹ کے اوپر ‘درمیان میں ‘ڈایا فرام ہے (حجاب حاجز) جو چھاتی اور پیٹ کے جوف کے درمیان دونوں کو الگ کرتا ہے ۔ عمل تنفس میں دونوں جوف کے اعضاء کے درمیان لچکدار تکیہ ہے جوان کے ایکدوسرے پر دباؤ یا رگڑ سے محفوظ رکھتا ہے ۔
نفخ ۔اپھارہ ۔چائنا۳۰ ۔ کاربو ویج ۳۰ ایک خوراک روزانہ سے زیادہ کسی بھی تکلیف میں نہیں دی جانی چاہیے یا تین دن کے وقفہ سے دیں ۔ لائیکو پوڈیم ۳۰یا ۲۰۰ ۔ریفنس۳۰ چار چار گھنٹہ بعد (نہ ڈکارنہ گوز)۔
بالائی ۔ کاربوویج۳۰ایک خوراک روزانہ یا تین دن کے وقفہ سے (دیکھئے معدہ)۔
دائیں طرف ۔کارڈوسQ چار چار گھنٹہ بعد دن میں چار دفعہ تین چار دن دے کر تین چار دن وقفہ ۔(دیکھئے جگر )
بائیں طرف ۔سیانوتھسQ چار چار گھنٹہ بعد دن میں چار دفعہ تین چار دن دے کر تین چار دن وقفہ ۔(دیکھئے طحال ولبلبہ )۔
دونوں طرف ۔چائنا۳۰ ایک خوراک روزانہ ۔
زیریں۔ سیپیآ۳۰ تین دن کے وقفہ سے یا ۲۰۰ کم از کم وقفہ ایک ہفتہ (دیکھئے رحم ۔مثانہ)
دائیں طرف ۔ لائیکوپوڈیم ۳۰ یا ۲۰۰
بائیں طرف ۔ ایسا فوٹائیڈا۳۰ایک خوراک روزانہ
اگر اس قسم کے دنبل یا بڑے پھوڑے بار بار نکلیں تو انتھر یکینم ۳۰ دیں ۔ہفتہ میں دو بار دینا بہتر ہے ۔ ایسی صورت میں موروثی سبب معلوم کر کے اس کے مطابق علاج کرنازیادہ بہتر ہے ۔
جلد پر جو بھی ابھرے خون میں غلاظت کی علامت ہے اور اندرونی اعضاء کو بیمار ہونے سے بچانے کے لئے قدرتی امداد ہے ۔سبب مریض کا ذاتی بھی ہو سکتا ہے ۔ جیسے سوزاک یاآتشک کے دب جانے سے ۔اس سبب کو بھی نظر انداز نہ کریں ۔
حادثے (ایکسی ڈنٹس) ACCIDENTS.
حادثے میں اگر جھٹکا لگے ۔ جسم ‘دماغ‘ ہل جائیں یا چوٹ بلا ذخم ہو تو آرنیکا ۳۰ہر چار گھنٹے بعد
دیں ۔ زخمی حالت میں اسی طرح کیلنڈولا دیں ۔چاقو وغیرہ سے کٹ جانے کے لئے سٹیفس ۳۰ایک خوراک سے چار خوراک روزانہ دیں ۔دوا وقفہ سے بھی دی جا سکتی ہے ۔ اعصاب یا ریڑھ کی چوٹ کے لئے ہائی پیریکم ۳۰ روزانہ یا وقفہ سے دیں ۔ تکلیف پرانی ہو تو ۲۰۰ یا اونچی طاقت میں دوا پیچھے بیان کئے گئے طریقہ کے مطابق دی جا سکتی ہے (دیکھئے پیٹ ) ۔ہڈیوں کو ضرب آجائے تو روٹا یا سمفائٹم ۳۰ ۔۲۰۰ دیں ۔ہڈی ٹوٹ جائے تو سمفائٹم ۳۰ ۔۲۰۰ دیں ۔ موچ آ جا ئے تو روٹا ۳۰ ایک سے تین چار خوراک روزانہ یا رھسٹاکس ۳۰ کی صرف ایک خوراک دے کر دو تین دن انتظار کریں ۔جوڑ کو چوٹ آئے یا اتر جائے تو روٹا ۳۰ دن میں ایک سے تین چار دفعہ دیں ۔ جسمانی مشقت کی وجہ سے اگر کوئی تکلیف ہو تو آرنیکا ۳۰ تین چار خوراک روزانہ یا رھسٹاکس ۳۰ تین دن کے وقفہ سے دیں ۔ نوک دار سوئی ‘کانٹا وغیرہ لگ جائے لیڈم ۳۰ ایک خوراک سے تین خوراک تکلیف کی شدت کے مطابق روزانہ دیں ۔
بھٹر‘شہد کی مکھی وغیرہ کے ڈنک بھی اس چبھن کی طرح ہوتے ہیں ۔ لیڈم ۳۰ دیں اور خارجی طور پر اسی کا اچھی طرح رگڑ کر لگائیں ۔جانور کاٹ جائے تو دوا لائسن ۲۰۰ ہفتہ وار دیں ۔مثلا اگر کتا کاٹ جائے تو مذکورہ بالا دوا ہفتہ وار تین دفعہ دیں ۔
چکنائی ۔ گوشت ۔انڈا تیز مصالحے کا استعمال بہت کم کر دینا ضروری ہے ۔ جسمانی ورزش یا سیر کرنا سود مند ہو گا ۔ تندرستی کو بحال رکھنے کے لئے جسمانی ورزش یا سیر ویسے ہی لازمی ہے ۔ عادات میں سستی ہو تو نکس وامیکا ۳۰ ایک خوراک وقفہ سے اور لائیکو پوڈیم ۳۰ ایک سے تین خوراک روزانہ دیں ۔ذائقہ ترش ہو تو کلکیریا کارب ۳۰ وقفہ سے دیں ۔نیٹرم فاس x۶ روزانہ ایک خوراک بھی دی جا سکتی ہے ۔ سلفر ۳۰ ایک خوراک روزانہ یا وقفہ سے دینا بھی تیزابیت میں مفید ہے ۔
تیزابیت سے آبی رطوبات میں ذرات پیدا ہو جاتے ہیں جنہیں گردے خارج نہیں کر سکتے وہ ریگ اور پتھریاں بن جاتی ہیں ۔یا دوران خون میں شامل ہو کر جوڑوں اور عضلات میں جمع ہو کر گنھٹیا کا موجب بنتی ہیں ۔
کیل ۔پھنسیاں (ایکنی) ACNE.
اکثر بلوغت میں پہنچ کر لڑکے لٹرکیوں کو چہرہ پر باریک یا موٹے دانے نکلتے ہیں ۔عام زبان میں انہیں کیل کہتے ہیں ۔ جلد پر ‘کہیں بھی کچھ نکلے خون میں غلیظ مواد کی نمود ہے ۔
انٹیم کروڈ۳۰ ایک خوراک روزانہ اور پلساٹلا ۳۰ وقفہ سے معمولی کیلوں میں مفید ہیں اگر کیل موٹے اور زیادہ نکلیں تو تھوجا ۲۰۰ وقفہ سے دیں ۔اگر ان کے مقام پر خارش بھی ہو تو ریڈیم ۳۰ وقفہ سے دیں ۔ مزمن یا خبیث کیلو ں کے لئے کاربواین۳۰ وقفہ سے ایک خوراک دیں ۔ا ن کے مندمل ہو جانے کے بعد جو داغ یا گڑھے باقی رہ جاتے ہیں ۔ وہ رفتہ رفتہ خوبخود معدوم ہو جاتے ہیں ۔ خارجی طور پر ادویات کا لگانا‘ کریموں کا استعمال بے کار اور جلد کو خراب کرتا ہے ۔
شراب (الکوہل ) ALCOHOL.
شراب ۔کی عادت اور اس کے بد اثرات (الکوہل ) منشیات کی عادت دواؤں سے نہیں چھوٹتی ۔اس کے لئے انسان کو اپنی قوت اداری سے کام لینا چاہیے ۔شراب اوردیگر منشیات کے بداثرات کے لئے نکس وامیکا۳۰وقفہ سے ۔ لیکیسس۳۰ وقفہ سے ۔بڑی مفید اودیہ ہیں ۔
کمئی خون (انیمیا) ANAEMIA.
عام اسباب خون اور دیگر رطوبات کا زیادہ خارج ہو جاناہے ۔ لیکن یہ کئی دیگر امراض کی ملحقہ علامت ہے ۔بعض اوقات جگر کے امراض سے پیدا ہوتی ہے ۔ اور طحال (تلی ) بڑھ جانے سے ۔ ضروری ہے کہ اصل سبب کو مدنظر رکھ کر دوا دی جائے ۔ دراصل یہ بذات خود مرض نہیں ہے بلکہ مختلف امراض کی ایک علامت ہے ۔سبب اگرخون اور دیگر رطوبات کا اخراج ہو تو چائنا ۳۰ وقفہ سے بہترین دوا ہے ۔ بچوں اور لڑکپن میں کلکیر یا فاسx ۶ صبح اور نیڑم میورx۶شام بہت مفید ہیں ۔بائیو کیمک سائنس کی فلاسفی ہے کہ جسم میں بارہ نمکیات پائے جاتے ہیں ۔جن کے توازن کا بگاڑ مختلف علامات پیدا کرتاہے۔ اس بگاڑ کو درست کرنے کیلئے ایک یا ایک سے زیادہ نمکیات اکھٹے کر کے یا باری باری دیئے جا سکتے ہیں ۔مگر ہومیو پیتھک ادویات کی فلاسفی اس سے مختلف ہے ۔اور اس میں ادویات کو اکٹھا کرنا یا باری باری دینا صریحاًغلط ہے ۔ میں نے فیرم میورx۳ اور فرائی آرسx۳کو بھی بہت مفید پایا ہے ۔ ان ادویات کا طریقہ استعمال چار دن دے کر چار دن وقفہ پھر چار دن ہونا چاہیے۔اس طرح دو تین دفعہ کر سکتے ہیں ۔
موروثی مزاج ‘مدقوق ‘سرطانی ‘ وغیرہ بھی ہو سکتا ہے۔ علاج اس کے مطابق ہو گا۔
غصہ (اینگر) ANGER
حیوانی جذبہ ہے انسان کا اس سے مغلوب ہونا اچھا نہیں لگتا ۔ کوشش کے باوجود اگر غالب ہو تو نکس وامیکا۳۰ یا سٹیفس۳۰وقفہ سے مدد کریں گی ۔ اس کے بد اثرات کو دور کرنے کیلئے کالوسنتھ ۳۰ اور کیمو ملا ۳۰ روزانہ یا وقفہ سے کامیاب ہیں ۔ اگر غصہ آئے اور مجبورا دبا لیا جائے تو اس سے مزاج و جسم پر بہت بڑا اثر پڑتا ہے ۔اس کے لئے سٹیفس ۳۰ ۔۲۰۰ بڑی زود اثر دوا ہے ۔وقفہ سے دیں ۔
غصہ نکالا تو نہیں گیا لیکن پھر انسان کڑھتا رہتا ہے ۔اس کڑھنے اور کڑھنے کے بداثرات کے لئے بھی سٹیفس ۳۰۔۲۰۰ہی دوا ہے ۔
ٹخنے (اینکلز) ANKLES
ٹنحنے کے جوڑ میں درد یا سوجن اور درد ہو تو اسے ریح کا درد ہی کہا جا سکتا ہے ۔ یہ ریح مواد لئے عام ہوا سے بھاری ہو کر جوڑوں میں بیٹھ جاتی ہے ۔ یہ مواد وہاں ورمی کیفیت پیدا کر دیتا ہے ۔ یہ ورم سب جوڑوں میں یا کسی کسی جوڑ میں پیدا ہو سکتا ہے ۔بڑا تکلیف دہ اور ضدی مرض ہے ۔ اس کا بنیادی سبب اکثر موروثی مزاج ہوتا ہے۔ سرطان ‘ٹی بی ‘آتشک‘ سوزاک ‘ ان میں سے کوئی ایک یا ایک سے زیادہ بھی ہو سکتاہے۔ علاج اس مزاج کے مطابق ہو گا ۔ اسی مرض ریوماٹزم کا گنٹھیا آخری درجہ ہے یہ گنٹھیا زیادہ موذی شکل اختیار کر لے تو اسے نقرس(پلا گرا یا پوڈاگرا)کہا جاتا ہے ۔اس سے دائیں پاؤں کے انگوٹھے کے جوڑ میں پیدا ہوتا ہے ۔ جو کہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے ۔
درد اگر صرف ٹخنے میں ہو تو اس کی بہترین دوا لیڈم ۳۰ روزانہ یا ۲۰۰ وقفہ سے ہے ۔لیڈم کی خاص علامت یہ ہے ۔ کہ نچلے حصہ میں شروع ہوتا ہے ۔اور اوپر کی طرف جاتا ہے ۔ ٹخنے اگر کمزور ہوں توکلکیریا فاسx۶ اور نیٹرم میور x۶صبح شام باری باری دیں ۔چار دن دے کر چار دن وقفہ ضروری ہے (دیکھئے ریوماٹیزم۔ریاحی درد)
ANXIETY, CARE, GRIEF, EFFECT OF
اضطراب ۔رنج و غم کے اثرات۔
اگنیشیا ۲۰۰ بڑی زود اثر اور قابل اعتماد دوا ہے ۔
سکتہ (اپوپلیکسی) APOPLEXY
غشی یا بے ہوشی کا دورہ ہے جو بڑھاپے میں زیادہ تر اور کم عمر میں کم ہوتا ہے ۔ سبب دماغ کو خون پہنچانے والی نالیوں میں رکاوٹ یا دماغ میں ادرار خون (برین ‘سیمریج ) ہوتا ہے ۔ اچانک بھی ہو سکتاہے ۔ رفتہ رفتہ بھی ۔اکثر بڑھاپے میں رفتہ رفتہ ہوتا ہے ۔ جب ہو جائے تو مریض بے حس و حرکت بے ہوش خراٹے لے رہا ہوتا ہے ۔
اس میں بلڈ پریشر عموما زیادہ ہوتا ہے ۔ اس میں فالج بھی ہو سکتا ہے ۔ جو ایک طرف کا ہوتا ہے۔ پہلے تین دن پر خطر ہوتے ہیں ۔موت واقع ہو سکتی ہے ۔ اس کے بعد مریض کی بے ہوشی طول پکڑ سکتی ہے ۔ اگر مریض ہو ش میں آ جائے تو یہ خوش قسمتی ہے ۔ ہوش کے بعد فالجی کیفیت رہ جائے تو اس کا علاج ہو سکتاہے ۔ سکتہ کا حملہ پھر بھی ہو سکتا ہے ۔اس لئے بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ۔
دوا حسب علامات ۔
اوپیم ۳۰ (چار چار گھنٹہ بعد) ۔ ایکو نائٹ ۳۰(اچانک حملہ ہوتو چار چار گھنٹہ بعد ) اگر دوا کا اثر ہوا تو ایک آدھ دن میں ہو جائے گا۔
فالج کا علاج فالج کے عنوان میں درج ہے ۔
ورم زائدہ (اپنڈے سائٹس)APPENDICITIS.
اپنڈکس چھوٹی سی آنت ہے جس کا ایک سرا اندر کی طرف وہاں کھلتا ہے جہاں چھوٹی آنتیں اور بڑی آنت آپس میں ملتی ہیں ۔ دائیں طرف پیٹ کے نچلے حصہ میں اسے فالتو سمجھا جاتا ہے ۔حالانکہ حاجت براز میں اس کا دخل ہے۔ اس کا ورم بہت عام ہے اور اس کا اپریشن بھی بہت عام۔ اپریشن کر کے اسے نکال دیا جاتا ہے ۔ ہاں ایک ضروری بات۔ اس کا دوسرا سرا بند ہوتا ہے ۔ اس میں کوئی غذا کا چھوٹا سا جزو اندر چلا جائے تو وہ بوسیدہ ہو کر ورم پیدا کر دیتا ہے۔ کیونکہ وہ جزو غذا نہ پیچھے آنتوں میں جا سکتا ہے ۔ اور نہ آگے ‘کہ آگے کا منہ بند ہوتا ہے ۔ کتابوں میں اس کی دوائیں آئرس ٹینکس اور لیکیس اور کچھ دیگر ادویات درج ہیں ۔ لیکن میرے تجربہ میں یہ سب ناکام ثابت ہوئی ہیں ۔ میرے تجربہ میں چاربائیو کیمک ادویات فیرم فاس+کالی میور+کالی فاس 228کالی سلف کا مرکب بڑا کامیاب ثابت ہوا ہے ۔چاروں کو ہم مقدار ملا لیا جائے‘ دواؤں کی طاقت ۶‘۱۲‘۳۰ سب با اثر ہیں ۔ اس مرکب کے ۳‘۴ قطرے ہر چار گھنٹے بعد دیں ۔ آرام آنا فورا شروع ہو جائیگا ۔ ۲‘۳ دن میں مکمل آرام ‘
بھوک(اپے ٹائیٹ) APPETITE.
بھوک کا نہ ہونا عام شکائت ہے ۔ اس کے کئی اسباب ہیں ۔وقتی طور پر رنج و غم‘غصہ بہت زیادہ خوشی ‘خرابی ہاضمہ ‘اضطراب وفکر و غیرہ ۔ اگر مزمن صورت اس علامت نے اخیتارکر لی ہو تو یہ کسی مزمن بیماری کی علامت ہے ۔مثلا ٹی بی۔ سر طان وغیر ہ ۔اصل مرض کا علاج کریں ۔ چائنا ۳۰ (ایک خوراک روزانہ یا وقفہ سے )رہسٹاکس۳۰۔۲۰۰(وقفہ سے )جن شیانQ (صبح و شام )
اضطراب ‘رنج و غم وجہ ہو ۔ اگنیشیا ۲۰۰ (وقفہ سے )
غصہ اگر سبب ہوتو ۔ کیمو ملا ۳۰(ایک خوراک روزانہ )۔سٹیفس۳۰ یا ۲۰۰ (وقفہ سے )
زیادہ خوشی ہو ۔ کا فیا ۳۰(ایک خوراک روزانہ )
ہاضمہ کی خرابی ہو ۔ نکس وامیکا ۳۰ ۔پلسا ٹلا ۳۰(ایک خوراک روزانہ یا وقفہ سے )
بعض اوقات بھوک اعتدال سے بہت بڑھ جاتی ہے ۔ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے۔ اس کی دوا
آیو ڈم ۳۰ (ایک خوراک روزانہ )۔ سلفر۳۰(وقفہ سے )۔ سورینم ۲۰۰ (ایک خوراک دے کر لمبا انتظار )۔اگر بھوک پیٹ کے کیٹروں کی وجہ سے زیادہ لگے تو سائنا۲۰۰۔(وقفہ سے )
(دیکھئے رغبت،خواہش ۔نفرت )
شرائین (آرٹریز) ARTERIES
خون دو قسم کی نالیوں میں گردش کرتاہے ۔ وریدوں میں گندہ خون اور شرائین میں صاف شدہ خون ۔ شرائین کا ایک ہی مرض قابل توجہ ہے۔ وہ ہے ۔ ان کا دبیز(موٹا) ہو جانا۔ غذا میں ثقیل اشیاء کا اعتدال سے زیادہ استعمال ۔مثلا گھی‘مکھن‘گوشت‘انڈا وغیرہ کا ۔ ان کا فاضل مواد شرائین میں اندورنی سطح پر تہ بہ تہ جمع ہو جاتا ہے ۔جس سے نالیوں کا راستہ تنگ ہو جاتا ہے ۔اور دل پر اسکا دباؤ بڑھ جاتا ہے ۔ کیونکہ تنگ نالیوں سے خون کو گزارنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر کا مرض ہوتا ہے ۔جو بڑا عام ہے ۔ غم و غصہ ‘صدمہ ‘وغیر ہ جیسے جذباتی اسباب بھی شرائین کو موٹا کر دتیے ہیں ۔ کیونکہ فاضل مواد کے اخراج کے کئی راستے ہیں ۔ بول وبراز، پسینہ،جلدی ابھار وغیرہ ۔ جذبات کے اخراج کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کا دباؤ شرائین پر پڑتا ہے ۔ جذبات کا اثر دل پر پڑتاہے ۔ اور دل شرائین کی طرف منتقل کر دیتا ہے خود کو بچانے کے لئے !
فاسفورس۳۰ (وقفہ سے ) پلمبم۳۰ ۔۲۰۰(وقفہ سے )خصوصاًاگر شریانوں میں کسی قسم کی رکاوٹ ہو مثلاً شریانی رسولی وغیرہ۔آؤرم میور نیٹرونیٹمx ۳(وقفہ سے )بلڈ پر یشر زیادہ ہو ۔
دمہ (استھما) ASTHMA.
یہ مرض بچوں ،بڑوں ،مردوں ،عورتوں ،سب میں بہت عام ہے ۔ایک قسم دمہ وہ ہے جس میں صرف ہو ا کی نالیوں (برونکائی) میں تشنج کے سبب سانس میں دقت پید ا ہو جا تی ہے ۔ نالیوں میں بلغم نہیں ہوتی ۔دوسری قسم جو بہت عام ہے وہ بلغمی دمہ ہے ۔اس میں بلغم نالیوں میں جمع ہو جاتی ہے ۔ جس کے سبب نالیوں میں تشنج پید ا ہو کر دمہ کا دورہ ہو جاتا ہے ۔
کھانسی آتی ہے بلغم خارج ہونے لگے تو سانس بہتر آنے لگتا ہے ۔ورنہ مریض کی حالت قابل رحم ہوتی ہے ۔ اس مرض میں موروثی مزاج کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے ۔کیونکہ یہ مرض اکثر نسل در نسل چلتا ہے ۔ ایسی صورت میں بسیلینم ۲۰۰ (لمبا وقفہ ) یا ہپوزینیم ۳۰(لمبا وقفہ ) سب دواؤں سے زیادہ مفید ثابت ہوئی ہیں ۔
دمہ کے دورہ کے دوران میں مندرجہ بالا دوائیں ہر گز نہ دیں ۔ دورہ میں آپی کاک۳۰(صرف ایک خوراک)۔ آرسینک ۳۰(صرف ایک خوراک )۔نیڑم سلف x ۶(دن میں ایک سے تین چار دفعہ ) کارآمد ہیں ۔ ان میں سے کوئی دوا عاملات کے مطابق دینے سے دورہ ختم ہو جائے گا۔ آرسینک کی اہم علامت یہ ہے کہ مریض لیٹ نہیں سکتا ۔بیٹھنے سے کچھ بہتر طور پر سانس لے سکتا ہے ۔اپی کاک میں متلی ہوتی ہے اور کبھی قے بھی جس میں بلغم ہوتا ہے ۔ نیڑم سلف عام دوا ہے اور بچوں کے لئے زیادہ مفید ہے ۔ دیگر مخصوص حالتوں میں
بڑھاپے میں دمہ شروع ہو جائے۔ بارائیٹا میور ۳۰(ایک خوراک روزانہ ) صرف موسم سرما میں ہو۔
کاربو و یج ۳۰(ایک خوراک روزانہ یا وقفہ سے )۔
اگر اس کی ابتداء خسرہ کے بعد ہوئی ہو ۔ کارپوویج ۳۰ پہلے شدید نزلہ ‘ چھینکیں ‘ناک سے پانی کی طرح نزلہ ‘معقد مین خراش اور پھر دمہ کا دورہ ۔ آریلیا ریسموسا ۳۰ (ایک خوراک روزانہ ) ۔بعض مریضوں میں دمہ محض سانس کی نالیوں کے تسشنج کی وجہ سے ہو سکتا ہے ۔ نزلہ ‘کھا نسی کی شکائت نہیں ہوتی ۔
اس کے لئے ہائیڈرو سایانک ایسڈ ۳۰ (ایک خوراک روزانہ )یا کیوپرم ۳۰ (ایک خوراک روزانہ )مفید ہیں ۔مدقوق مریضوں میں ڈروسرا۳۰ ۔میفا یٹس ۳۰ (ایک خٰوراک روزانہ ) مفید ہیں ۔ شرابیوں کے دمہ کے لئے بھی یہی دونوں ادویات مفید ہیں ۔
دمہ دل کے مرض کے سبب بھی ہوتا ہے ۔ (کارڈیاک استھما) اس کے لئے زیر عنوان دل دیکھئے۔
سوکھا(اٹروفی) (مراسمس) ATROPHY,MARASMUS
عموماً یہ مرض بچوں میں ہوتا ہے ۔ جس میں بچے اچھی بھلی غذا کھانے پینے کے باوجود سوکھتے چلے جاتے ہیں ۔ اکثر اسہال ہوتے ہیں ۔ اور بعض اوقات کھانسی اور بخار بھی ۔ دراصل یہ مرض آنتوں کی ٹی۔بی ہے جو بغض اوقات پھیپھٹروں کو بھی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
اس کی بہترین قابل اعتماد دوا ٹیوبرکیولینم ۳۰ یا ۲۰۰(لمبا وقفہ ) ہے ۔صرف ایک خوراک سے سینکڑوں بچوں کومیں نے شفا یاب کیا ہے ۔ آزما کر دیکھ لیں ۔
بچوں کے سوکے کے لئے یہ عام اصطلاح ہے لیکن سوکھنا کسی کا بھی ہو ۔ جسم کا یا کسی عضو کا ہومیو پیتھی میں ایک علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ مثلا کسی مرض میں بدن کا سوکھتے جانا‘پستان کا سوکھنا ‘گردن یا ٹانگوں وغیرہ کا اس علامت کا عام مستعمل اور کامیاب دوا آیوڈم۳۰(روزانہ یا وقفہ سے ایک خوراک )
ہے ۔ بچوں میں اگر ٹانگوں کا سوکھنا نمایاں ہو تو ابرو ٹینم۳۰ (وقفہ سے )مخصوص دوا ہے ۔
بغل (ایکسلا) AXILLA
اگر کوئی موروثی مزاج نہ ہو تو بغل کی علامات کا علاج در ج ذیل ہے ۔
درد‘خارش‘ پھوڑا۔ جگلنز سائنریا جگلنزر یجیا۳۰ (ایک خوراک وقفہ سے یا روزانہ)
بغل کے غدو دکا ورم ۔ بارائیٹا کا رب ۳۰(وقفہ سے)۔ایلیپس ۳۰(وقفہ سے )
پسینہ زیادہ ۔ کالی کارب ۳۰(ایک خوراک روزانہ یا وقفہ سے )
ریڑھ اور حرام مغز کے سبب۔ پکرک ایسڈ ۳۰(ایک خوراک روزانہ )
شدیدعصبی درد ۔ ویریو لینم۳۰۔۲۰۰ (وقفہ سے )
بالائی بایاں حصہ کندھے کے نیچے ۔چینو پوڈیم۳۰(ایک خوراک روزانہ )
بالائی دایاں حصہ کندھے کے نیچے ۔چیلیڈونیم۳۰(ایک خوراک روزانہ )
ضعف ۔ فاسفورس ۳۰ (وقفہ سے )سلیشیا۳۰(ایک سے دوخوراک روزانہ )
دیکھئے ‘نظام اعصاب ،ریڑھ،
صفراوی علامات(بلیئس نس) BILIOUSNESS.
جگر کی خرابیکے سبب پیدا ہوتی ہیں ۔اور اکثر ان کا سبب کوئی نہ کوئی موروثی مزاج ہوتا ہے ۔ اس کا معلوم کرنا ضروری ہے اور اسی کے مطابق علاج ہو گا۔ دیگر ادویات درج ذیل ہیں ۔
سر درد ‘اسہال ‘ صفراوی قے(پیلی یا سبز کڑوی )۔آئرس ورسیکولر ۳۰(ایک خوراک روزانہ اگر الٹی سے سر درد کو آرام آئے ) نیٹرم سلف(دوا کی طاقت بالحاظ عمر ایک سے تین خوراک
روزانہ بالحاظ شدت تکلیف)
جگر میں درد ‘قبض‘سر درد۔ برائیونیا ۳۰(ایک سے تین خوراک روزانہ ) ۔
آنکھوں میں درد‘برار‘ساہی مائل بدبو دار۔ فاسفورس ۳۰(وقفہ سے )
صفراوی مادہ جگر بناتا ہے۔ اور یہ جگر سے ملحقہ پتہ میں جمع ہوتا رہتا ہے ۔ اور پتہ اسے حسب ضرورت معدہ میں پہنچاتا ہے ۔جہاں یہ غذا میں ہضم ہونے میں مدد دیتا ہے ۔ اگر جگر کی خرابی سے یا پتہ میں خرابی سے یہ مادہ معدہ میں زیادہ مقدار میں چلا جائے تو یر قان کا مرض لاحق ہو جاتا ہے ۔ براز کا رنگ سیاہ ‘سیاہی مائل سبز ہو جاتا ہے ۔ اگر پتہ سے اس کا اخراج نہ ہو تو یہ مادہ خون میں مل کر یرقان پیدا کر دیتا ہے۔ اس میں براز سفید یا سفیدی مائل ہو جاتا ہے ۔ (دیکھئے \” یرقان\” )
مثانہ (بلیڈر) BLADDER.
گردوں سے بول چھن کر مثانہ میں آ کر جمع ہوتا ہے ۔ اور یہاں سے بذریعہ پیشاب کی نالی خارج ہوتاہے
گردوں سے مثانہ میں دو نالیوں سے گزر کر آتا ہے۔یہ نالیاں دونوں گردوں سے مثانہ میں آ کر کھلتی ہیں ۔انہیں ‘یورے ٹرز‘ کہا جاتا ہے ۔ اور جہاں سے اخراج ہوتا ہے ۔ اسے یورتھرا۔ کہتے ہیں ۔
مثانہ کے عام امراض دو ہیں ۔ مثانہ میں ورم یا پتھری
مثانہ کے ورم میں علامات درد اور پیشاب کا تھوڑا تھوڑا اور جل کر آنا۔بعض اوقات کھل کر پیشاب آتا ہے ۔مگر درد اور جلن کے ساتھ۔ ورم جب زخم کی صورت اختیار کر جائے تو پیشاب میں خون اور پیپ کا اخراج ہوتا ہے۔ ان علامات کی اول درجہ کی دوا کنتھیرس ۳۰ (ایک سے چار خورا ک روزانہ )ہے ۔خون یا پیپ کا درد کے ساتھ خارج ہونا سوزاک کی بھی علامت ہے ۔تخصیص کر لینی چاہیے ۔ سوزاک کا ذکر الگ کیا گیا ہے۔
مثانہ کے دیگر عوارضات بھی ہیں ۔ جیسا کہ دیگر اعضاء کے مثلا مثانہ کی کوئی نو ساخت رسولی وغیرہ ‘سرطان ‘مثانہ کا پھیل جانا یا سکٹر جانا وغیرہ ۔ ان کے علاج کے لئے موروثی مزاج کا پتہ لگائیں ۔اس کے بغیر علامات مزمن ہوں تو کوئی دوا کار گر نہ ہو گی ۔
مثانہ کی پتھری خارج کرنے کے لئے سارسپر لا۳۰(دن میں تین چار مرتبہ ) بڑی مفید ثابت ہوئی ہے۔ بشرطیکہ اتنی بڑی نہ ہو ۔ جو پیشاب کی نالی سے نکل نہ سکے ۔ اس کا علاج اپریشن سے نکالنا ہے ۔
درد۔ میگ فاس ۳۰ (دن میں تین چار دفعہ )
فالج ۔ کاسٹیکم ۳۰ (دن میں تین چار دفعہ )
رسولی ۔ تھوجا ۳۰ (ایک خوراک روزانہ یا دقفہ سے)
سر طان ۔
خونی قے۔ اپی کاک۳۰ (صرف ایک خوراک )فاسفورس ۳۰
(صرف ایک خوراک )
خون میں بول کا زہر شامل ہونا (بلڈ یوریا )۔کیو پرم آرس x ۳۔۳۰ (روزانہ یا وقفہ سے ایک خوراک )
خون میں کولیسڑول کی زیادتی ۔ کو لیسٹرینم x۳۔۳۰ (وقفہ سے ایک خوراک )
خونی پیشاب ۔(جلن کے ساتھ)۔ کنتھرس ۳۰ (ایک سے تین خوراک روزانہ )
خونی پیشاب ۔(جلن کے بغیر)۔ فیرم فاس (طاقت بالحاظ عمر ۔ایک سے تین خوراک روزانہ )
خونی بلغم ۔ دیکھئے ۔ \” تپ دق \”
ہیموفیلیا۔ خطرناک ،موذی ،خبیث مرض ہے ۔عموماً بچپن اور لڑکپن کی عمر میں ہوتا ہے ۔ناک پہ چوٹ لگی یا کہیں زخم آ گیا جو تھمتا ہی نہیں ۔منہ میں چھوٹا سا گول سرخ نشان بنا جو پھیل کر بڑا ہوتا گیا اور پھر وہا ں سے اخراج خون جو رکنے میں نہیں آتا ۔اس مرض کا سبب بالعموم موروثی مزاج \”سرطانی \”ہوتا ہے ۔قابل اعتماد دوا ۔ فاسفورس۳۰ (لمبا وقفہ )
لیوکو سائی تھیمیا یا لیو کیمیا ۔خون کے سرخ خلیے کم ہو جاتے ہیں اور سفید بڑ ھ جاتے ہیں تلی بڑھ جاتی ہے جگر کا فعل بگڑ جاتا ہے ۔ بعض اوقات ناک وغیرہ سے خون بھی ہونے لگتا ہے ۔
دوا ۔ چائنا ۳۰ ( ایک خوراک روزانہ یا وقفہ سے )۔آر سینک آیوڈایئڈ۳x۔
۳۰ (روزانہ یا وقفہ سے ایک خوراک )
\”مورثی مزاج کو مد نظر رکھ کر بھی علا ج کیا جا سکتا ہے \”
خون کی کمی ۔بھس (انیمیا)۔ دیکھئے \”انیمیا \”
بیشتر ہڈیوں کے امراض موروثی مزاج کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ۔ زیادہ تر وجہ آتشک ‘ٹی بی یا سرطان ہوتے ہیں ۔ ان میں آتشک پیش پیش ہے ۔ سفلینم ۔بسیلینم یا ٹیو بر کیولینم کارسنوسن ، سرہینم مزاج کے مطابق حیرت انگیز نتائج پیدا کرتی ہیں ۔ اگر موروثی مزاج سبب نہ ہو تو امراض کا علاج ان دواؤں سے ہوگا ۔ ہڈیوں کی پرورش ناقص ہو۔ کلکیر یا فاس x ۶ (ایک خوراک روزانہ )
ہڈیوں کا بڑھ جانا ۔ کلکیر یا فلور x۶x۱۲x۳۰ (ایک سے تین خوراک روزانہ ۔پوٹنسی بلحاظ عمر) ہیکلا لاوا ۳۰۔(ایک سے تین خوراک روزانہ بلحاظ شدت تکلیف) اگر درد بھی ہو فاسفورس۳۰(وقفہ سے ایک خوراک )۔مرک کار۳۰ (وقفہ سییا روزانہ )
ہڈیوں کا ٹیرھاہو جانا ۔ کلکیر یا فاس x۶(ایک سے تین خوراک روزانہ ) ۔فاسفورس ۳۰(وقفہ سے ) کلیکر یا کارب ۳۰‘۲۰۰(وقفہ سے )۔
ہڈیوں کی ورمی کیفیات ۔ آورم میورx۳‘۳۰(ایک خوراک روزانہ یا وقفہ سے )۔ مرکسال ۳۰(ایک سے تین خوراک روزانہ )فاسفورس۳۰ (وقفہ سے ۔میزیریم ۳۰(ایک خوراک روزانہ یا وقفہ سے)۔ لمبی ہڈیاں ۔ فائٹولکا ۳۰(ایک سے تین خوراک روزانہ )۔
ہڈیوں کا بوسیدہ ہو جانا ۔ فاسفورس ۳۰‘۲۰۰ (وقفہ سے )۔سلشیا ۳۰(روزانہ )‘۲۰۰(وقفہ سے )۔ بسیلینم ۲۰۰‘1M (ایک خوراک دے کر لمبا انتظار)
ہڈیوں کا نرم پڑ جانا ۔ کلکیر یا فاس x۶(ایک خوراک روزانہ )
ہڈیوں کی ٹی بی ۔ ٹیوبر کیو لینم ۲۰۰ ‘1M (ایک خوراک دے کر لمبا انتظار)
ہڈی خورہ (کیرسیز) فاسفورس۳۰،۲۰۰(وقفہ سے )سلیشیا۳۰ (روزانہ )۲۰۰(وقفہ سے
بسیلینم۲۰۰ (لمبا انتظار)
ہڈیوں کا سرطان ۔ فاسفورس۳۰ ،۲۰۰ (وقفہ سے )
ہڈیوں کا درد۔ آورم میور ۳۰ (مزمن )(ایک سے تین خوراک روزانہ بلحاظ شدت ۔یوپے ٹوریم ۳۰(بخار میں(ایک سے چار خوراک روزانہ )میزیریم ۳۰(وقفہ سے )فلورک ایسڈ۳۰ (ایک سے دو خوراک روزانہ )
شدیددرد ہو تو سٹیلینجیا۳۰ (خوراک بلحاظ شدت )
سر کی ہڈی بڑھ جائے ۔ کائی بائیکرومیکم ۳۰(وقفہ سے )
جبڑے کی ہڈی بڑھ جائے ۔ پلمبم الییٹی کم ۳۰(وقفہ سے )
دماغ کے امراض (برین ڈیزیزز) BRAIN.
دماغ نظام اعصاب کا مرکز ہے۔مغزاور حرام مغز (ریڑھ کے اند ر )مرکز احساسات و حرکات ہیں ۔خاص طور پر مغز جہاں احساسات پیدا ہوتے ہیں ۔ اور \” احکام\”حرکت اعضاء اور رطوبات کے لئے جاری رہتے ہیں ۔اگر مغز میں کوئی \”خانہ خراب\”ہو جا ئے تو متعلقہ عضو یا اعضاء کی حرکت میں فرق نمایاں ہو جائے گا ۔حرام مغز (ریڑھ )حرکت اعضاء کو کنٹرول کرتا ہے ۔اس میں خرابی واقع ہ و جائے تو بھی حرکت میں فر ق نمایا ں ہو جائے گا۔واضح الفاظ میں سارے نظام حرکت کا مرکز مغز اور حرام مغز ہے ۔خدر (سن ہونا )درد ،جلن،ٹھنڈک،وغیرہ کا احساس دماغ میں ہوتا ہے ۔احساسات کا اظہار جو زبان یا اشارے سے یا لکھنے سے کیا جاتا ہے وہ بھی مغز ہی سے ہوتا ہے ۔ بصیرت ،سماعت ،ذائقہ وغیرہ وغیرہ تمام قوتیں اور ان کا مرکز یہی مرکز ہے ۔بہت سے موذی امراض ،فالج (دیکھئے\”فالج\”)،رعشہ وغیرہ مغز و حرام مغز میں خرابی کے سبب پیدا ہوتے ہیں ۔(مزیدتفصیل کے لئے دیکھئے \”تشنج\” )۔
د ماغ کی خرابی کے لئے دیکھئے ۔\”ذہنی علامات\”۔ درد کے لئے دیکھئے ۔\”سر درد\”۔
دما غ کے اوپر جھلی یا پردہ ہے جس میں دماغ محفوظ ہے ۔ اس جھلی کی ورمی کیفیات (مینن جائیٹس )دماغ کا سب سے زیادہ خطر ناک حاد مرض ہے ۔ یہ بذات خود کوئی مرض نہیں سوائے گردن توڑ بخار کے ۔باقی اسباب دیگر امراض ہیں جو اس میں ورم پیدا کرتی ہیں ۔مثلا تائیفائڈ بخار ۔انفلوئنزا۔ نمونیا۔ تپ دق (جو موروثی مزاج کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے ) اسی طر ح آتشک اور سوزاک بھی ۔ متعلقہ مرض کا علاج صیح ہو رہا ہو تو یہ کیفیت پیدا ہی نہیں ہوتی ۔ اگر ہو جائے تو اسی علاج سے رفع ہو جاتی ہے ۔
بعض بچے دماغی لحاظ سے معذور پیدا ہوتے ہیں ۔ جو شکل سے ہی پہچانے جا سکتے ہیں ۔ سبب وہی موروثی ہوتا ہے ۔ معلوم کر کے اس کے مطابق علاج کرنے سے بہتر ہو جاتے ہیں ۔ بالکل درست نہیں ہوتے ۔ میں نے موروثی مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی بچے کسی حد تک درست کئے ہیں ۔
بعض بچوں کا سر بڑا ہوتا ہے ۔اوررفتہ رفتہ بڑا ہوتا جاتا ہے ۔ ان کے سر میں پانی ‘یعنی مواد ‘ہوتا ہے ۔ جس کی مقدار بڑھتی جاتی ہے ۔ اور سر بہت بڑا ہو جاتا ہے ۔
page 50 completed
دماغ کے سرطان میں بھی سر در د نا قابل برداشت ہوتا ہے ۔ اس میں بینائی پر اثر ہونا ضروری نہیں اور نہ ہی فالجی کیفیات ضروری ہیں ۔ان کے ہونے کاا مکان ہوتا ہے۔ دوا کارسنوسن ۲۰۰ ہے ۔میں نے ایک مریضہ کا علاج ۲۰۰ سے کیا ۔اور وہ شفا یاب ہوئی ۔اور اس مرض کااور مریض میرے پاس آیا ہی نہیں۔
ضعف۔کمزوری۔ زنکم۳۰(ایک خوراک روزانہ )۔اناکارڈیم۳۰ (ایک خوراک روزانہ)۔کالی فاسx ۶۔کلکیریافاس x۶(ایک خوراک روزانہ )
ورمی کیفیات ۔ بیلا ڈونا۳۰ (ایک سے چار خوراک یا زیادہ ۔کم بلحاظ شدت )
میں رسولی ۔ پلبم۳۰ ،۲۰۰(وقفہ سے )
کا نرم پڑ جانا۔ فاسفورس ۳۰ ،۲۰۰ (وقفہ سے )وینیڈ یم۳۰ ،۲۰۰ (وقفہ سے )
پستان کے امراض (بر یٹس) BREASTS.
عورتوں میں ننھے گود کے بچوں کو دودھ پلانے کا ذریعہ ہیں ۔ دودھ پلانے کی مدت میں اکثر پستان کے چند عوارضت عام ہیں ۔اچھی طرح صفائی نہ رکھنے سے بھٹنیاں (جہاں سے بچہ دوھ پیتا ہے )سو ج کر معمولی سی پھٹ جاتی ہیں ۔ جب بچہ دودھ پیتا ہے تو کافی درد ہوتا ہے ۔دو اگر یفایٹس ۳۰ (وقفہ سے ) رٹاہنیا ۳۰ (ایک خوراک روزانہ ) ہے ۔بعض اوقات بچہ پستان کو سر مار دیتا ہے تو پستان میں ورم پیدا ہو جاتا ہے ۔جو بڑا نکلیف دہ بن جاتا ہے ۔ اور عام دنبل کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ اس لحاظ سے علاج وہی ہو گا۔ جو دنبل (پھوڑے ) کا ہے ۔ پہلے بیلاڈونا ۳۰ ۔پھر مرکسال ۳۰ (ایک سے تین خوراک روزانہ) ۔ اگر دودھ زیادہ چڑھ جائے
تو پستان میں ورم جیسی سختی پیدا ہو جاتی ہے ۔ اس کی دوا برائیونیا ۳۰ ہے ۔ پستان میں بعض اوقات گانٹھیں بن جاتی ہیں ۔ سخت ہوتی ہیں اور ان میں اکثر درد نہیں ہوتا ۔ بعض اوقات درد ہوتا ہے ۔یا چھوٹی بڑی رسولیاں بن جاتی ہیں جو اکثر درد کرتی ہیں ۔ ان کا ہجم پہلے چھوٹا ہوتا ہے ۔پھر بڑھتا جاتا ہے ۔ ان گانھٹوں اور رسولیوں کا علاج کو نیم ۳۰(ایک خوراک روزانہ ) یا ۲۰۰ (وقفہ سے )ہے ۔ اگر موروثی مزاج سر طانی ہے تو کارسنوسن ۲۰۰ (لمبا وقفہ ) دینی چاہیے ۔ یہ دوا پستان کے سرطان کے لئے بھی بڑی کامیا ب ثابت ہوتی ہے ۔
میرا تجربہ اس پر شاہدہے ۔دوا کی ۲۰۰ طاقت ہی دینی چاہیے ۔
دودھ پلانے والی ماؤں میں دودھ کی کمی ہو تو اگنس ۲۰۰ یا فاسفورس۲۰۰(وقفہ سے )یہ کمی پوری کر دیں گی ۔
پستان چھوٹے (غیر فطری ) ہوں یاچھوٹے ہو جائیں ۔یعنی سوکھ جائیں تو آیوڈم۳۰(ایک خوراک روزانہ ) اور سیبل سر Q(صبح ،شام)یا ۳۰ (ایک خوراک روزانہ ) مفید ہیں ۔ پستان بہت بڑے ہوں تو چمافلاQ (صبح و شام ) یا کلکیریا کارب ۲۰۰ (وقفہ سے ) دوا ہے ۔
چوٹ ۔ کونیم۳۰ (ایک سے دو خوراک روزانہ )یا بیلس پر ینسQ (ایک سے تین خوراک روزانہ )
سرطان (کینسر) CANCER.
نہیں معلوم اس کی ابتداء کب ہوئی ۔ موجودہ دور میں ساری دینا کے انسان اس کی گرفت میں ہیں ۔ اگر یہ کسی کو نہیں ہیتو بھی اس کا دل ہر وقت اس سے خائف ہے ۔کیونکہ اس کا علاج تا حال نا کام ہے ۔ سبب معلوم نہیں ہوسکا۔ اور سائنسدان اس کے اسباب بیان کرتے رہتے ہیں ۔
جن کا کوئی ٹھوش ثبوت کسی کے پاس موجود نہیں ۔سب اندازے ہیں ۔ بڑا المیہ یہ ہے کہ نسل در نسل منتقل ہوتا جاتا ہے ۔ خود نہ ہو تو اسکے اثرات مختلف موذی امراض کی صورت میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں
میرے خیال میں یہ تینوں مائیزم ‘سورا ‘آتشک اور سوزاک (سائیکوسز) کا مجموعی نتیجہ ہے کہ یہ تینوں کسی انسان میں اکتھے ہو جاتے ہیں ۔ اور پھر ان میں نسل در نسل ایلو پیتھک ادویات کے زہر یلے اثرات کا اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ مادی صورت میں دی جانے والی دوائیں مرض کو ختم نہیں کرتیں بلکہ مرض ان دواؤں سے مل کر نئی اور زیادہ خبیث صور ت اختیار کر لیتا ہے۔
اور آخر کار جب کوئی صورت باقی نہیں رہتی تو مرض اپنی ساخت ہی بدل لیتا ہے ۔ اور ایک نو ساخت میں نمودار ہو جاتا ہے ۔انسان کی توانائی مسلسل جسم سے غیر فطری اور زہریلے مادے خارج کرنے میں کوشاں رہتی ہے اور جب یہ مادے مقدار میں بہت زیادہ جمع ہو جاتے ہیں ۔ تو انسان کی توانائی بے بس ہو جاتی ہے ۔ ہومیو پیتھک ادویات سے مادی صورت میں نہیں بلکہ ان کی توانائی سے انسان کی توانائی کو مدد دی جاتی ہے ۔اس سے نہ صرف یہ کہ زہریلے مادوں میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ ان مادوں کو ختم کرنے میں انسان کی توانائی کو بڑی مدد ملتی ہے ۔ اور مرضکی صورتیں نہیں بدلیتں اور نہ یہ نو ساخت میں تبدیلی اختیار کر سکتا ہے ۔ نو ساخت کی خبیث صورت کو سرطان کہا جاتاہے ۔ سرطان کا علاج ہو میو پیتھی میں کسی حد تک ہے بشرطیکہ مرض کی ابتد اء میں کیا جائے ۔
میں نے پستان کے سرطان کا علاج کارسنوسن ۲۰۰(لمبا وقفہ ) سے کیا ہے اور بڑی کامیابی ہوئی ہے ۔ دماغ کے سرطان کے لئے یہی دوا اونچی طاقت میں کا میاب ہے ۔
خون کے سرطان کے لئے فاسفورس ۳۰ یا ۲۰۰ (لمبا وقفہ )مفید ہے ۔ ہڈی کے سرطان کے لئے بھی فاسفورس۳۰،۲۰۰ (لمبا وقفہ ) ہی کامیا ب رہی ہے ۔ پستان میں اگر رسولی ہو اور درد کرے تو بھٹنیاں دیکھیں اگر یہ درمیان سے پھٹ کر دو یا زیادہ ہو گئی ہیں یا اندر کی طرف دھنس گئی ہیں تو یہ
سر طان کی علامت ہے ۔
جگر‘ آنتوں ‘ حلق وغیرہ کے سرطان کے علاج میں تا حال کا میابی نہیں ہوئی ۔
جلد کے سرطان کے لئے ۔ کالی آرس x۳یا ۳۰ (وقفہ سے ) زبان کے سرطان کے لئے ۔ کالی سایا نیٹم ۳۰(لمبا وقفہ )
سرطان کہیں بھی ہو عام دوا آسیڑیاز کی بڑی تعریف کی گئی ہے تا حال آزمایا نہیں ۔
سرطان کہیں بھی ہو سکتا ہے ۔ اور اس کی جڑیں پھیل کر سارے جسم کو متاثر کر سکتی ہیں ۔جب زیاہ پھیل جائے تو اس کا کوئی علاج نہیں ۔
اس سے پیدا ہونے والا درد اکثر شدید ہوتا ہے ۔درد کے لئے چند دوائیں ہیں جو مفید ثابت ہوئی ہیں ۔وہ ہیں ۔ یوفوربیئم،سلیشیا۳۰(خورا ک بلحاظ شدت ) رحم کے سرطان میں میڈورینم اونچی طاقت میں (لمبا وقفہ )جادو کا اثر دکھاتی ہے ۔مجھے کبھی مایوسی نہیں ہوئی ۔
رحم کے سرطان میں لیپس۳۰ (لمبا وقفہ ) بھی کامیاب ثابت ہوتی ہے ۔ یہ دونوں ادویہ رحم یا خصیہ الرحم کی ہر قسم کی نو ساخت ‘رسولیاں ‘پولیپس وغیرہ کے لئے بڑی کامیاب ثابت ہوئی ہیں ۔
کاربنکل (پھوڑا) CARBUNCLE. یہ ایک دنبل (پھوڑے ) کی قسم ہے جو زیادہ تر شوگر کے مریضوں کو نکلتا ہے ۔ اور زیادہ تر گردن کے پیچھے یعنی گردن کی پشت پر یاکہیں اس کے نزدیک ۔یہ اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب خون میں شوگر بہت زیادہ ہو جاتی ہے ۔ علاج میں سب سے زیادہ ضروری شوگر کو کنٹرول کرنا ہے ۔بہترین دوا انتھریکس ۳۰ (وقفہ سے )ہے ۔یہ دوا پھوڑے کا علاج ہے شوگر کا نہیں۔
نظام تنفس RESPIRATORY SYSTEM. نزلاوی امراض۔ نظام تنفس
نزلہ ‘کھانسی ‘کی شکائت بڑی عام ہے ۔ خاص طور پر موسم سرما میں ۔ ذرا سی بے احتیاطی ہوئی
سردی لگی اور نزلہ ہو گیا اور پھر کھانسی ۔اگر نزلہ و کھانسی مزمن شکل اختیار کر لے یا بار بار حملہ اس کا ہو یا باوجود احتیاط کے ہو جائے تو یہ موروثی مزاج کا سبب ہوتا ہے ۔
خاص طور پر ٹی بی یا سرطانی مزاج نزلہ کا اخراج یا جلدی ابھار بالعموم ان دو خبیث امراض سے بچانے کی قدرتی مد د ہے ۔ جس سے ان کا زہر یلا مواد خارج ہوتا رہتا ہے ۔ اسی طرح کان بہنا ‘مقعد کا نا سور وغیرہ کا اخراج قدرتی مد د ہے ۔ اگر یہ مزمن شکل اختیار کر لیں ۔ ایسی صورت میں ٹیوبرکیولہنم 1Mیا بسیلینم اور کارسنوسن۳۰، ۲۰۰(لمبا وقفہ ) دینی چاہیے ۔ ۔ یہ دوائیں حسب مزاج دی جائیں ۔
مجموعی طور پر ان دو مزاجو ں کے لئے ہپوزینیم ۳۰ (لمبا وقفہ )نہایت مفید ثابت ہوئی ہے ۔ مزمن امراض میں ان پانچ دواؤں کو ذہن میں رکھیں ۔ اور چھٹی دوا جو کبھی کبھی بطور مدگار دینی پڑتی ہے وہ ہے
سو رینم ۲۰۰(لمبا وقفہ )۔ اس کو بھی ذہن میں رکھیں ۔ کئی مزمن امراض دیگردواؤں سے بھی میں نے ٹھیک کی ہیں ۔اگر علامات مرض دوا کی علامات کے عین مطابق ہوں اکثر کمال یہ ہوتا ہے ۔ کہ علامات ایک جیسی ہوں ۔ یعنی مرض اور دوا کی ‘تو جلد پر ابھار ظاہر ہو جاتاہے۔ یا کوئی اخراج جاری ہو جاتا ہے ۔ جو ماضی میں ایلو پیتھک دواؤں سے دب گیا تھا اور اس ابھار اور اخراج سے رفتہ رفتہ مرض ختم ہو جاتا ہے ۔اور بعد میں ابھار یا اخراج خود بخود غائب ہو جاتے ہیں ۔
اب آئیں نزلہ کی طرف ۔نزلاوی جھلیوں میں خراش یا ورمی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ اسباب بیان ہو چکے ہیں ۔ یعنی سردی لگنے سے یاکوئی ترش یا ٹھنڈی چیز کھانے پینے سے اور بعض اوقات تیز مرچ مصالحیسے ۔نزلہ میں اکثر پہلے ناک میں اور حلق میں خراش پیدا ہوتی ہے ۔ چھیننکیں آتی ہیں ۔اور ناک سے پانی کی طرح کا اخراج ہونے لگتا ہے ۔ اگر یہ اخراج رکے نہیں یا دواؤں سے روکا نہ جائے تو گاڑھا ہو کر ختم ہو جاتا ہے ۔گلاخراب اور کھانسی ساتھ نزلہ کے ہو جائے تو وہ بھی ٹھیک ہو جائے گا ۔ بعض اوقات معمولی سی غلطی سے نزلہ کھانسی طول پکٹر جاتے ہیں ۔ اور نوبت دمہ یا ٹی بی تک جا پہنچتی ہے ۔بعض دفعہ نمونیا ہوجاتا ہے ۔ اور اس کا نتیجہ ٹی بی نکلتا ہے ۔ نزلہ کھانسی کاعلاج بر وقت ہونا چاہیے ۔ اچانک سردی لگ جانے سے ہو تواکونائٹ ۳۰(صرف ایک خوراک ) دیں بدلتے موسم میں جب دن گرم اور رات ٹھنڈی ہوتی ہے تو ڈلکا مارا ۳۰(ایک سے تین خوراک ) بہتر ہے ۔
جب اخراج گاڑھا ہو جائے تو مرکسال ۳۰(ایک سے تین خوراک ) ۔اور طول پکٹر رہا ہو تو ہیپر سلفر ۳۰(تین خوراک روزانہ ) ۔اگر ٹانسلز متورم ہو جائیں درد کریں ۔ تو بیلا ڈونا ۳۰(ایک سے تین خوراک روزانہ )۔ اگر نمونیا کی شکایت ہو جائے تو اکو نائٹ کے بعد برائیو نیا ۳۰(تین چارخوراک روزانہ یا فاسفورس ۳۰(وقفہ سے ) حسب علامات ۔نمونیا ‘نزلہ ‘کھانسی ہو جانے کے علاوہ بھی سردی لگ جانے سے ہو جاتا ہے ۔ خاص طور پر بچوں میں اس کے لئے اکو نائٹ ‘برائیونیا‘فاسفورس ہی علامات کے مطابق اہم دوائیں ہیں ۔اگر نمونیا طول پکڑ جا ئے تو لائیکو پوڈیم ۳۰ (تین خوراک روزانہ )سے بہتر کوئی دوا نہیں ۔ میں نے نمونیا کے مریض نیو موکوکسینم ۳۰ کی صرف ایک خوراک سے درست کئے ہیں ۔
اگر کسی دوا سے شفا نہ ہو رہی ہو تو ٹیوبر کیولینم ۳۰ بڑی کار آمد دوا ہے ۔ اور صرف ایک خور اک کافی ہے ۔ ننھے بچوں کو نمونیا ہو جائے تو بعض اوقات انیٹم ٹارٹ ۳۰(صرف ایک خوراک ) کا دینا نا گزیر ہو جاتا ہے ۔ علامات مخصوص ہوتی ہیں ۔ بخار‘کھانسی ‘سینے میں سانس لیتے ہوئے یا کھانستے وقت بلغم کی آواز ‘غنودگی اور غنودگی میں چونکنا‘پیاس ندارد یہ اس دوا کی اہم علامات ہیں ۔
نمونیا کے مریض کو آپ بغور دیکھیں ‘بے چین ہو گا یا غنودگی ہو گی ‘ سانس میں تیزی ‘نتھنے سانس لیتے ہوئے پھولتے ہوں گے ‘درجہ حرارت مسلسل زیادہ جو کم ہو بھی تو تھورا سا ‘مثلا ۱۰۴ ڈگری سے گر کر ۱۰۲ڈگری ۔عموما پیاس کی شدت ۔کھانستے ہوئے سینے میں درد ‘بچہ ہو گا تو روئے گا۔ یہ کیفیت دیکھنے کے بعد سیٹھتو سکوپ کی ضرورت ہی نہیں رہتی چاہیں تو اس سے تسلی کر لیں ۔
اعضائے تنفس کی کچھ اور بیماریاں بھی ہیں ۔ مثلا پھیپھڑوں کا پھیل جانا‘ بلغم سے بھرا رہنا‘ پھیپھڑے کا سرطان (حلق کے امراض اور ٹی بی کا ذکر الگ کیا گیا ہے )
پھیپھٹروں کا فالج جو لاکھوں میں ایک کو ہو جاتا ہے ۔ ان تمام امراض کا یا تو خاندانی مزاج ہوتا ہے یا نزلہ کھانسی کے بگڑ جانے سے ہوتا ہے ۔ ان امراض میں بھی ٹیو بر کیو لینم یا بسیلینم یا ہپوزینیم کام آتی ہیں ۔ دیگر ادویات سے شاید ہی کوئی مریض شفا یاب ہو جائے۔
ایک اصطلاح ہے الرجی جو ڈاکٹر لو گ ہر اس بیماری کے لئے استعمال کرتے ہیں
نزلاوی اخراج ۔
ابتدائی ۔ فیرم فاس یا ایکونائٹ (اگر شدید ہو )
پانی کی طرح ۔ نیٹرم میور
سفید ۔ کالی میور یا مرکسال
پیلا۔ کالی سلف یا مرکسال
سبز۔ نیٹرم سلف یا ہپرسلف
مشکل سے نکلے،آنکھوں کے پیچھے اور سر ،چہرے وغیر ہ میں درد ۔ کالی بائی کرومیکم
کاکڑا۔(چکن پاکس) CHICKEN-POX.
جسم پر چھوٹے چھوٹے دانے ایک دوسرے سے فاصلے پر نکل آتے ہیں ۔ پیٹ پرکمر پر چہر ہ بازو‘ٹانگوں پر ۔بخار ‘ہلکا کبھی کبھی زیادہ۔ بچوں کی بیماری ہے اور بعض اوقات بڑوں کو بھی کاکٹرا نکل آتا ہے ۔ وبائی مرض ہے ۔ ایک ہفتہ میں دانے خشک ہو کر ختم ہو جاتے ہیں ۔ چیچک نما دانے ہوتے ہیں ۔مگر داغ یا گڑھے پیچھے نہیں چھوڑ جاتے ۔ خطر ناک مرض نہیں ہے ۔
فیرم فاس x۶ اور کالی میور x۶ باری باری دیں اور اگر بخار نہ ہو تو صرف کالی میور x۶ کافی ہے ۔بعض اوقات بخار نہیں ہوتا ۔ انٹیم ٹارٹ ۳۰ بھی مفید دوا ہے ۔
ہیضہ (کالرا) CHOLERA
بہت خطر ناک وبائی مرض ہے ۔ اسہال بالکل پتلے مقدار میں بہت بڑے ۔قے اور پیاس مریض بیک وقت بہت سا پانی پیتاہے اور قے کر کے نکا ل دیتا ہے ۔
قے اور پھر جلاب ۔مریض کمزوری سے نڈھال ہو جاتا ہے ۔ فوری طور پر طبی امداد نہ دی جائے تو چند گھنٹوں میں مریض کی موت واقع ہو جاتی ہے ۔ ویراٹرم البم ۳۰ کے ۳‘۴ قطرے ایک پیالی پانی میں حل کر دیں۔ اس کا ایک چمچ دیں اور اس کے بعد ہر قے اور جلاب کے بعد ایک چمچ دیں ۔جلاب یا قے نہ ہو تو دوا کی ضرورت نہیں ۔ یہ دوا ویسے بھی دی جا سکتی ہے ۔ اگر یہی علامات ہوں لیکن وبائی ہیضہ نہ ہو تو صرف ایک خوراک ویراٹرم البم ۳۰ کی شفا کے لئے کافی ہے ۔
ہیضہ میں اس کی ایک ہی خوراک عموماً شافی ہوتی ہے ۔
رعشہ (کوریا) CHOREA
کاپننا ۔ جھٹکے لگنا اور بے ڈھبی چال یا حرکات ‘بعض اوقات ناچنے کی سی حرکت ‘یہ علامات بچوں میں ‘پانچ چھ سال کی عمر کے بعد نمودار ہوتی ہیں ۔ ابتداء میں ایک بازو یا ایک ٹانگ یا دونوں متاثر ہوتی ہیں ۔ بچے کی حرکت میں کم و بیش جھٹکا سا محسوس ہوتا ہے ۔جو دیکھنے والوں کو بھی نظر آ جاتا ہے ۔
مثلا بیھٹنے ‘اٹھنے میں کوئی چیز اٹھانے اور رکھنے میں لقمہ توڑنے اٹھانے اور کھانے میں ‘بولنے میں ۔بچہ کے بیرونی اعضاء میں بے چینی رہتی ہے جو اس کی حرکات سے نظر آتی ہے ۔
وہ ایک پوزیشن میں زیادہ دیر نہیں رہ سکتا‘ پوزیشن بدلتا رہتاہے ۔بیٹھیلیٹے پہلو بدلتا رہتا ہے ۔ یہی علامات رفتہ رفتہ بڑھ کر وہ صورت اختیار کر لیتی ہیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں ۔
عام لرزہ (کانپنا) جو بڑے اور بوڑھوں میں ہوتا ہے ۔ وہ رعشہ کی بیماری نہیں ہوتی ۔اعصابی کمزوری کے سبب ہوتا ہے (ذکر الگ کیا گیا ہے )
رعشہ کی بیماری کے اسباب جو بیان کئے گئے ہیں ‘ مثلا ریو ماٹیز م وغیرہ تو یہ امراض بھی موروثی مزاج ہی کے سبب پیداہوئے ہیں ۔رعشہ کا سبب بھی یہی ہوتا ہے ۔ یہ مرض لڑکوں کی نسبت لڑکیوں میں زیادہ ہوتا ہے ۔
مزاج سر طانی ہوتا ہے ۔ اسی کے مطابق علاج ہو گا ۔ عام مستعمل ادویات ہیں ۔
اگاریکس ۲۰۰۔ سمسسی فیوگا۲۰۰۔ اگیشیا۲۰۰۔ کیوپرم ایسٹیکم ۳۰(وقفہ سے )
نظام دوران خون۔CIRCULATORY SYSTEM
دل ،دوران خون کے امراض
دل کی دھٹرکن سے انسان زندہ ہے ۔ یہ جسمانی زندگی کا موجب ہے ۔ اسکی حرکت بند ہو جانے سے جسم تو مردہ ہو جاتا ہے لیکن اس کی روح نہیں مرتی جس نے دل کو متحرک کر رکھاہے ۔ اور اس کی حرکت سے جسم بھی متحرک رہا ۔بہر حال یہ ایک الگ مضمون ہے ۔ہمارا مضمون الگ ہے ۔
نومولودبچے کے دل کی دھٹرکن 140,130 فی منٹ ہوتی ہے ۔عمر بڑھنے کے ساتھ یہ رفتار کم ہوتی جاتی ہے ۔ اور بلوغت میں پہنچ کر 70 تا 80 ہو جاتی ہے ۔ پھر عمر ڈھلنے کے ساتھ مزید کم ہو کر 60 تک ہو جاتی ہے ۔
دل کی دھٹرکن سے خون وریدوں اور شرائین میں گردش کرتا ہے ۔ وریدی خون غذا کے ہضم وجذب سے وریدوں میں آتا ہے ۔جو گردش کرتا ہوا دل کی بڑی خون کی نالیوں میں پہنچتا ہے ۔ سانس لینے سے آکسیجن گیس وہاں جا کر خون میں شامل ہوکراسے صاف کرتی ہے ۔ اور دل کی دھٹرکن اس صاف شدہ خون کو شرائین کے ذریعہ سے گردش دے کر جسم کے ہر حصے میں پہنچاتی ہے ۔ یہ صاف شدہ خون تمام اعضاء اور اجزاء میں جذب ہو کر ان کو صحت مندو توانا رکھتا ہے ۔یہ مختصر سانقشہ ہے نظام دوران خون کیتفصیل کے لئے دل اور دوران خون کی فزیالوجی اور انا ٹومی کا مطالعہ کریں ۔
دل کے امراض کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔یہ ٹھیک ہے تو زندگی ہے ۔ سب سے زیادہ دل کی دھٹرکن اعتدال سے زیادہ کی شکائیت سے واسطہ پڑتا ہے ۔اس کے کئی اسبا ب ہیں ۔ہاضمہ کی خرابی جذبات مثلا رنج وغم ‘غصہ ‘اضطراب وغیرہ اعتدال سے زیادہ جسمانی مشقت ۔دل کا بڑھ جا نا۔ تھائیرائڈ گلینڈ کا بڑ ھ جا نا(گلہڑ۔ گائڑ) منشیات ‘شراب ‘تمباکو نوشی وغیرہ۔
چائے اور کافی کا زیادہ استعمال اور خود دل کے اپنے امراض ۔جن میں دل کی ورمی کیفیات ‘ضعف قلب ۔دل کے والوز (جو پانچ ہیں ) کے عوارضات ان کے علاوہ وریدوں اور شرائین کے عوارضات عورتوں میں نسوانی اعضاء کے امراض۔ مردوں میں جنسی بد اعتدالیاں ۔اعصابی کمزوری غرضیکہ دل کی دھڑکن (پالپی ٹیشن ) ٹیکی کا رڈ یا (جب رفتار دھٹرکن کی بہت زیادہ تیز ہو) سبب معلوم کرنا نہائت ضروری ہے
پیدائشی نقائص۔ ًدل میں موریً \”Patent Ductus Arteriosus\” یادل دائیں طرف
اس کا سبب دوران حمل ماں کا ایلو پیتھک ادویات کا بے دریغ استعمال ہے ۔
آورم میور نیٹرو نیٹم 3x سے میں نے دل میں موری کے درجنوں مریض ٹھیک کئے ہیں ۔(دل کا ر خ نہیں بدلا جا سکتا )
۔سبب خرابی ہاضمہ ہو تو ۔ پلسائلا ۳۰(وقفہ سے )۔ ایبیزنیگرا۳۰(ایک خوراک روزانہ )
رنج و غم ۔ اگنیشیا ۳۰ یا ۲۰۰(وقفہ سے ) ۔ایبیز نیگرا۳۰(ایک خوراک روزانہ )
غصہ ۔ نکس وامیکا ۳۰ ۔سٹیفں ۳۰ (وقفہ سے )
جسمانی مشقت۔ آرنیکا ۳۰۔
گلہڑ۔ سپانجیا۳۰۔ تھائرائڈینم ۳۰(لمبا وقفہ )
تمباکو نوشی ۔ سٹروفینتھس۳۰ ۔ نکس وامیکا ۳۰۔سپایجیلیا۳۰ (وقفہ سے یا ایک خوراک روزانہ
منشیات ۔ نکس وامیکا۳۰(وقفہ سے )۔لیکسس ۳۰(وقفہ سے )۔ سٹرو فنقس ۳۰(وقفہ سے یا ایک خورا ک روزانہ )
چائے کافی ۔ چائنا۳۰۔ کافیا۳۰ (ایک خوراک روزانہ یا وقفہ سے ) ۔
نسوانی اعضاء کے امراض ۔ سمسی فیو گا ۳۰ (وقفہ سے )
جنسی بد اعتدالی ۔ فاسفوس ۳۰(وقفہ سے)
اعصابی کمزوری ۔ ایوینا سٹائیواQ (دن میں دو تین دفعہ)
ضعف قلب ۔ کریٹے گس Q (ایک خوراک روزانہ )
خوف۔ اکونائٹ ۳۰(ایک خوراک روزانہ )
ریومیٹک۔ کالمیا ۳۰۔(دائیں طرف یا دونوں طرف دردسینہ میں )
سپایجیلیا۳۰(بائیں طرف درد سینہ میں )
کیکٹس۳۰ (گھٹن سینہ میں اور بلڈ پریشر کم )
کریٹی گسQ(درد اور بلڈ پریشر زیادہ )
(ریومیٹک ہارٹ کی جو ادویات اوپر بیان کی گئی ہیں عموماً ان کی ایک خوراک روزانہ استعمال کریں )
درد دل (انجائناپکٹورس)
ترقییافتہ ہونے کا تحفہ ہے ۔یعنی یہ مرض تعلیمیافتہ جدت پسند خوشحال لوگوں میں زیادہ ہے ۔بے علم پسماندہ غریب لوگوں میں بہت کم آپ دیکھیں گے ۔ یہ دل کا تشنج (سپازم ) ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے ۔ جب دل کی بڑی نالیوں میں کوئی رکاوٹ ‘مثلا خون کا انجماد (کلاٹ) پیدا ہو جائے۔ دل گردش خون میں مصروف ہے اور اس رکاوٹ کی وجہ سے اس میں تشنج پیدا ہو جاتاہے ۔ عام طورپر یہ تشنج خون کی نالیوں یعنی دل کی بڑی نالیوں (کارونری آرٹریز)میں پیدا ہوتا ہے ۔اس کی وجہ یا تو خون کا گاڑھا ہونا ہے ۔
یا انجماد خون یا بڑی شرائین کا دبیز ہوتا ہے ۔اگر خود دل میں تشنج پیدا ہو جائے تو یہ مرض کا رونری تھرو مبو سیس کہلاتا ہے ۔ جس سے دل زخمی بھی ہو سکتا ہے ۔ (مائیو کارڈئیل انفارکشن ) دونوں حالتوں میں نتیجہ موت بھی ہو سکتا ہے ۔ ان دو امراض ‘انجائنا پکٹو رس اور کارونری تھر و مبو سیس کو الگ الگ کیا گیا ہے ۔ درد دل دونوں میں یکساں ہے ۔انجائنا میں بلڈپریشر کم ہوتا ہے اور تھرومبوسس میں زیادہ ہوتا ہے ۔
استقاد(ڈراپسی) خون میں پانی کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور یہ خون کے ساتھ گردش میں نہیں شامل ہوتا۔ ایک جگہ ٹھہرا رہتا ہے ۔وہ جگہ سوج سی جاتی ہے جو ورم نہیں ہوتا ۔بھر بھراہٹ (اوڈیما) کہا جاتا ہے ۔ دل کے امراض کی وجہ سے ہو توپاؤں اور ٹانگیں سوج جاتی ہیں ۔گردوں کے سبب ہو تو چہرہ سوج جاتا ہے۔ جگر کے امراض کے سبب پیٹ سوج جاتا ہے۔ سوجن سارے بدن پر ہو تو تینوں اعضاء ماؤف ہوتے ہیں ۔ بعض اوقاتکمی خون یاحمل کے دوران عورتوں میں بالخصوص ٹانگوں میں سوجن آ جاتی ہے ۔جس کا سبب یہ مرض نہیں ہوتا ۔ فرق یہ ہوتا ہے کہ ان اعضاء کے امراض کے سبب ہو تو سوجن والی جگہ کو دبانے سے گڑھا پڑ جاتا ہے ۔
جو آہستہ آہستہ پھر غائب ہو جاتا ہے۔ ڈراپسی نہ ہو تو دبانے سے گڑھا نہیں پڑتا۔ ڈراپسی خبیث اور خطر ناک مرض ہے۔ اس کا علاج بڑے غور سے کرنا چاہیے ۔ اس مرض کی عام مستعمل ادویات یہ ہیں ۔ ایپس۳۰۔ آرسینک ۳۰۔لائیکو پوڈیم ۳۰۔ اپوسائینم ۳۰۔ بلانٹااورینٹیلس ۳۰۔ پائلو کارپس ۳۰ ۔ ہیلی بورس ۳۰ ۔ ڈجی ٹیلس ۳۰۔ ۔ اورم میور نیٹرو نیٹم x۳۔چائنا ۳۰۔فیرم میٹ۳۰
قلبی ڈراپسی کے لئے کریٹی گس Q(ایک خوراک روزانہ) ۔ ڈجی ٹیلس۳۰ ۔اپو سائینم ۳۰ ۔ باقی ادویات کا ذکر زیر عنوان متعلقہ آئے گا۔ دل کے ہجم کا بڑھ جانا دل کے کسی مرض کے سبب ہوتا ہے۔ اس مرض کا علاج کریں ۔ تجربہ میں کریٹی گس Q مفید ثابت ہوئی ہے۔ تھائیرائیڈینم۳۰(لمبا وقفہ )
دل پر چربی چڑھ جا نا۔ اس کا عام سبب شراب نوشی کی کثرت ہے ۔اور زیادہ مرغن غذا کے استعمال سے بھی ہو سکتا ہے۔ فاسفورس۳۰ ۔کلکیر یا کارب۳۰(وقفہ سے ) ۔
دل کے دمہ کے لئے ۔ آئبیرس ۳۰ ۔سپانجیا۳۰۔لائیکو پس۳۰ ۔سنبل۳۰ ۔
دل کی حرکت کم ہونا( بریڈی کا رڈ یا ) ۔اس میں بعض اوقات دل کی رفتار اتنی دھیمی اور سست ہوتی ہے ۔ کہ نبض میں دھڑکن محسوس نہیں ہوتی ۔ڈجی ٹیلس ۳۰(ایک خوراک روزانہ یا وقفہ سے ) ۔دل کی دھٹرکن بہت تیز ہو (ٹیکی کارڈیا )تھا ئیرائیڈینم 3x ۔نٹرم میور 12x ۔سپایجیلیا۳۰ (ایک خوراک روزانہ )۔دھٹرکن بے قاعدہ ہویا دل پھٹرکتا ہو تو بھی ڈجی ٹیلس یا نیٹرم میور دیں ۔دل میں جلن ہو تو فاسفورس ۳۰ (وقفہ سے )۔ٹھنڈک کا احسا س ہو تو کالی میور 6x (ایک سے تین خوراک روزانہ ) ۔
ہیلو ڈرما۳۰ (ایک خوراک روزانہ )
دل کے پانچ کیواڑ (والوز ) ہیں ۔ جو حرکت دل کے ساتھ ساتھ کھلتے اور بند ہوتے ہیں ۔ ان میں اگر خرابی ہو تو دھڑکن اس طر ح ہوتی ہے جیسے انجن چل رہا ہو ۔ سیٹھنو سکوپ سے دیکھیں ۔
اورم میورنیٹرونیٹم x۳ بڑی کامیابدواہے۔
قبض(کانسٹی پیشن ) CONSTIPATION.
آپ نے کیا کھایا کیا پیا اس کی اتنی اہمیت نہیں ۔ جتنی اخراج براز کی ۔ضرورت کی غذا تو آپ نے ہضم و جذب کر لی لیکن بے ضرورت فضلات کا اخراج پوری طرح نہ ہو ا تو وہ آپ کے بدن کو زہر آلود کر دے گا۔ گھر‘ گلی کوچوں کی مکمل صفائی نہ ہو تو تعفن اور بیماریوں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ بدن آپ کی رو ح کا گھر ہے ۔ یہ غلاظت سے پاک نہ ہو تو روح پاکیزہ نہیں رہ سکتی ۔روح آپ کی توانائی ہے جو کسی غیر فطری مواد کی موجودگی جسم میں برداشت نہیں کرتی۔ گندگی جتنی زیادہ ہوگی انتا ہی زیادہ اس پر بوجھ بڑھے گا۔
اگر قبض کا سبب کوئی دیگر مرض ہے تو اس کا علاج کریں ۔وگرنہ محض بذات خود علت ہے تو اس کا علاج یہ ہو گا۔ براز کی حابت ہو لیکن اخراج نہ ہو یا تھوڑا ہو اور بار بار ایسا ہو ۔ نکس وامیکا ۔لائیکو یوڈیم (یہ آنتوں کی قوت اخراج کی بے قاعدگی کی وجہ ہے )
براز بہت موٹا ہے اور بڑی وقت سے خارج ہوتا ہے ۔ ویرٹریم الیم
براز بکری ‘بھیٹر کی مینگنوں کی طرح سے ۔ میگ سیور براز خشک اور موٹا ہے ۔ برائیونیا اورسپم ۔ اوپیم میں کئی دن حاجت ہی نہیں ہوتی ۔ براز سخت ہے با نرم بڑا زور لگانے سے خارج ہوتا ہے۔ الیو مینا(آنتوں کی قوت اخراج کمزور ہے ) براز سخت اور خون آلود ہے۔ نائٹرک ایسڈ براز ٹھوس ہے اور از خو د خارج ہو جانا ہے تو آپکو ۔
براز ڈنڈے کی طرح لمبا ہے ۔ فاسفورس براز کچھ سخت کچھ نرم ۔ انٹیم کروڈم
براز سخت آنوں آلود۔ گرلیائٹس قبض مزمن یا شدید ‘موزی,
پیٹ درد ہو تو پلمبم
سل ‘دق (ٹی ۔بی ( ٹیوبر کیو سیز)CONSUMPTUION.
دنیا کے ہر خطے میں کہیں کم کہیں زیادہ ‘اس مرض نے انسانیت پر غلبہ پا رکھا ہے ۔ انسان مدتوں سے اس مرض کے خلاف لڑتا آ رہا ہے ۔ لیکن اس مرض سے مجموعی طورپر چھٹکارا حاصل نہیں کر سکا۔
اور یہ موذی مرض نسل در نسل چلتا ہے اور اس نے تباہی مچا رکھی ہے۔ اگر کوئی شخص اس سے بچا ہوا ہے تو وہ اس کے اثراتسے کئی دیگر امراض میں مبتلا رہتا ہے اور اس کا سبب اس مرض کے موروثی مزاج کا ہونا ہے۔ اور اب تو سرطان اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ گیا ہے۔ اور یہ دونوں انسانی نسل کو تباہ کر رہے ہیں
ایلو پیتھک ڈاکٹر دعوی کرتے ہیں ۔ کہ انہون نے اس مرض پر قابو پا لیا ہے ۔
یہ صر ف دعوی ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں ۔ امریکہ جیسے ملک میں یہ اس وقت وبا کی طرح پھیل رہا ہے۔ حسب معمول ان کی دوائیں مرض کی علامات کو دبائے رکھتی ہیں ۔اتفاق سے چند مریض اپنی طاقت و توانائی سے یا مر خنیف ہونے کے سبب صحت یاب ہو جاتے ہیں ۔
یہ مرض اکثر پھیپھٹروں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ دیگر اعضاء پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ مثلا آنتیں ‘ ہڈیاں ‘ جلد ‘ دماغ‘ وغیرہ کہیں بھی حملہ آور ہو سکتا ہے۔ لیکن نسبتا کم ۔
کئی علامات مدقوق مزاج کے مریضوں میں طاہر ہوتی رہتی ہیں جبکہ مریض ابھی مرض میں مبتلا نہیں ہوتا۔ مثلا جلد پر داد (رلگ ورم )یا اس شکل کے ابھار ‘ناک پر مسلسل پھنسیاں نکلنی دیتی ہیں ۔ مریض اکثر ۔نزلہ ‘کھانسی کا شکار رہتا ہے۔ اکثر ہاضمہ خراب رہتا ہے ۔اسی طرح جو عارضہ بھی ہوتا ہے پیچھا نہیں چھوڑتا یا کبھی یہ ہوتا ہے کہ ایک عضو کسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے اور پھر اسے چھوڑ کر مرض کسی دوسرے عضو میں ظاہر ہو جاتا ہے۔ مریض تندرست کبھی نہیں ہوتا۔ایلو پیتھک ڈاکٹر ٹسٹ کرنے اور مختلف ادویات کا تجربہ کرنے میں دقت اور مریض کے پیشے ضائع کرتے رہتے ہیں ۔ حالانکہ ایسے مریضوں کا علاج اتنا مشکل مسلہ نہیں ہے۔ ٹی وی ہو یا متعلقہ دیگر علامات جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے ۔ ٹیو بر کیو کینم 1M کی ایک خوراک بدن ہیں انقلاب بر پا کر دے گی ۔ مریض کی حالت جب تک بہتر ہو رہی ہو دوسری خوراک نہ دیں ۔ جب یہ بہتری کی کیفیت رک جائے پھر ایک خوراک اور دیں ۔ ایسا عموما تین چار ہفتہ کے بعد ہوتا ہے۔ اور دوا کی ضرورت پڑتی ہے ۔کھانسی بخار‘ پسینہ ‘کمزوری ‘ٹی بی کی تمام علامات اس ایک خوراک سے رفع ہوتی جائیں گی ۔
اگر دیگر علامات اس ایک خوراک سے رفع ہوتی جائیں گی ۔
اگر دیگر علامات ہیں تو وہ بھی ‘کسی عضو میں ہوں ‘رفع ہوتی جائیں گی ۔ ٹی بی پھیپھٹروں کا لہو‘ ہڈی کا ‘دماغ کا ‘ جہاں بھی ہو ۔ یہ ایک خوراک معجزہ دکھائے گی ۔
مرض ٹی بی کے تین درجے کئے گئے ہیں ۔پہلے درجہ میں کھانسی ‘ ہلکا بخار ‘ کمزوری ‘بھوک کی کمی ‘کھانسی کے ساتھ کبھی بلغم کا اخراج ۔ دوسرے درجہ میں انہیں علامات میں قدرے شدت ‘بلغم بعض اوقات خون آلود ‘ پسینہ تیسرے درجہ میں مزید شدت علامات ‘اس درجہ میں مریض تقریبا لا علاج ہو جاتا ہے ۔میں نے بہت سے مریض تیسرے درجے میں درست کئے ہیں ۔
خاص طور پر فہرائی آیوڈائڈ x۳ یا ۳۰ سے ۔اس سے کھانسی کے ساتھ خون فورا رک جاتا ہے اور دیگر علامات کی شدت میں کمی آ جاتی ہے ۔اس کے بعد آرسینک آیوڈایڈ x۳ یا ۳۰ سے باقی علامات رفتہ رفتہ دور ہوتی جاتی ہیں ۔ ٹی بی کے علاج میں بہت سے اور دوائیں بھی استعمال ہوتی ہیں ۔ جب ان کی علامات واضح طور پر موجود ہوں ۔مثلا۔
فاسفورس ۳۰ اگر بایاں پھیپھڑہ ماؤ ف ہو ۔کھانسی صبح و شام زیادہ ہو اور کبھی خشک کبھی بلغمی ۔مریض بائیں طرف بالکل نہیں لیٹ سکتا۔ سینگو نیر یا ۳۰ جب دایاں پھیپھڑہ ماؤ ف ہو ۔کھانسی بلغمی جو کبھی کبھی بدبو دار ہوتی ہے ۔
آرسینک آیوڈائڈ x ۳ مرحل کر شروع سے آخر تک بڑی مفید ثابت ہوئی ہے ۔ یہ دوا خالی پیٹ نہیں لینی چاہیے بخار ۔کمزوری ۔پسینے ۔کھانسی جو اس مرض کی نمایاں علامات میں سب اس دوا میں موجود ہیں ۔
کالی کارب ۳۰ بڑی اہم دوا ہے اگر علامات کھانسی خاص طور پر سحری کے وقت زیادہ ہو ۔اور مریض کمزوری محسوس کرتا ہے ۔ پسینے آئے ہوں اور کمر درد مسسلسل ہو ۔
سٹینم ۳۰ بھی مفید ہے ۔ اگر مریض چھاتی میں خالی پن محسوس کرے بلغم کا ذائقہ نمکین ہو چھاتی میں خالی پن کا احساس اس کی خاص علامت ہے۔ اگر ٹی ۔بی کے مریض میں سرطانی مزاج (موروثی ہو تو پہلے بٹو بر کیو کینم دینی چاہیے اور اس کے عمل یا رد عمل کا انتظار کیا جائے ۔
تشنج(کنولشن‘سپازم) CONVULSIONS-SPASMS,ETC یہ ایک علامت ہے جو کئی امراض میں پریشانی کا باعث بن جاتی ہے۔ اور بعض اوقات از خود ایک مرض کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ تشنج عموما عضلات میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کا درد خاصہ شدید ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ خطر ناک تشنجی درد دل کا درد ہوتا ہے جو بعض اوقات جان لیوا ثابت ہوتا ہے ۔تشنج کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ ٹانگوں میں ‘بازؤں میں ‘کمر ‘گردن ‘پیٹ جسم کے کسی حصہ میں جہاں عضلات موجود ہیں ۔
بچوں کا ایک تشنجی مرض عام ہے ۔ بچہ کا روتے روتے سانس رک جاتا ہے۔ چہرہ نیلگوں ہو جاتاہے۔ اور چند منٹ کے بعد ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اسے ام الصبیان کہتے ہیں ۔ اس کی بہترین دوا کیوپرم ۳۰ ہے ۔ یہ دوا تشنج کی عام دوا ہے اور دوسرے نمبر پر میگ فاس۔
تشنج میں عضلات ایک دم سکٹرتے ہیں اور جب تک پھر وہ پھیل کر اپنی جگہ پر یعنی اپنی اصلی حالت پر نہ آئیں درد ہوتا رہتا ہے۔ بعض دفعہ عضلات جلد ی جلدی سکٹرتے پھیلتے ہیں جیسے ہچکی میں معدہ کے عضلات ۔گردے میں پتھری کو خارج کرنے کیلئے گردہ کے عضلات سکڑتے ہیں تو درد گردہ کی شکایت ہوتی ہے ۔ دراصل جسم کی ہر حرکت اعصاب یعنی عصبی نظام پیدا کرتا ہے۔ اس کا مرکز دماغ اور حرام مغز(ریڑھ میں ) ہے ۔ ایک تو وہ حرکات ہیں جو فطری طور پر ہر وقت جاری ہیں ۔چلنا پھرنا ‘سننا‘دیکھنا‘ بولنا وغیرہ ۔جو غیر فطری حرکت ہوتی ہے ۔ وہ غیر فطری مواد یا جسم کے کسی حضہ میں خرابی کی وجہ سے پید ا ہوتی ہے۔ جسم میں ہر جگہ اعصاب کی بجلی کی تاروں کی طرح جال بچھا ہوا ہے۔ اور یہ سب تاریں باریک اور موٹی ‘مغز اور حرام مغز سے چسپاں ہیں ۔ا ن کے ذریعہ سے مرکز میں حساسات پیدا ہوتے ہیں اور مرکز کے ذریعہ سے ان اعصاب کو اپنے فرائض ادا کرنے کا احساس پیدا ہوتاہے ۔ آنکھ دیکھنے کا آلہ ہے دیکھتا دماغ ہے ‘کان سننے کا آلہ ہے سنتا دماغ ہے ۔ ناک سونگھنے کا آلہ ہے سونگھتا دماغ ہے ۔وغیرہ وغیرہ ۔ جہاں کہیں بھی خرابی ہو گی یہ اعصاب مرکز کو اس کا احساس دلا دیتے ہیں ۔ اور دماغ ان اعصاب کو خرابی دور کنے کا حکم دیتا ہے۔ اور وہ متعلقہ عضلات یا پھٹوں (ٹنڈنز) میں حسب ضرورت حر کت پیدا کرتے ہیں ۔ اس حرکت سے جو درد یا کوئی دیگر احساس پیدا ہوتاہے ۔
وہ احساس دماغ کو ہوتا ہے ۔
اگر اس طرح خرابی دور نہ ہو تو دماغ بیرونی امداد کا بندوبست کرتا ہے ۔ دبانے سے ٹھنڈک سے ‘گرمائش سے اور کئی طریقوں سے اور ان سے بھی خرابی دور نہ ہو اور اس کا احساس جاری رہے تو پھر وہ دواؤں سے اس خرابی کو دور کرنے کی کوشش کے لئے ڈاکٹروں اور حکیموں اور جراحوں سے مدد لی جاتی ہے۔
اس طرح انسانی زندگی میں ان کا وجود لازم ہو گیا ہے ۔ خرابی کیوں پیدا ہوئی ہے اس کا ذکر آ چکا ہے ۔ اور یہ لازم صاحبان کیا کر رہے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے ۔ ذکر تھا تشنج کا ۔جسم کے کسی حصہ میں ہو ۔ وجہ کوئی بھی ہو دوا اول نمبر پر کیو پرم او ر دوسرے نمبر پر میگ فاس ۔ان کے علاوہ بھی ادویات ہیں ۔مثلا ٹیرنٹولا جو اکثر تشنجی ہیٹریا میں کامیاب ہے ۔سائیکیوٹا واٹروسا جو گردن توڑ بخار میں اول درجہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ بربیرس جو درد گردہ میں کامیاب ہے ۔پیٹ درد میں کالوسنتھ ۔ درد دل میں کیکٹس ۔تفصیل کے لئے دیکھئے اعضاء کے عنوان کے تحت ۔ تشنجی کیفیات پیٹ کے کیٹروں کے سبب ہو سکتی ہیں ۔ دوا سلٹنا ۳۰ یا ۲۰۰ ہے ۔
کھانسی (کف) COUGH.
کھانسی کیوں آتی ہے اور کیسے آتی ہے ۔ نظام تنفس کے اعضاء ‘ نرخرہ (لیرنکس) یا قصبتہ الریہ (برونکائی ) میں مختلف کے سبب خراش پیدا ہوتی ہے ۔ وہاں کھجلانے کے لئے انگلیاں تو پہنچ نہیں سکتیں ۔جس طرح جلد پر ہو تو کھجلا لیا جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جو سانس اندر پھیپھڑوں میں جاتا ہے۔ وہ بجائے آہستہ خارج ہونے کے ایکدم اکھٹا زور سے خارج ہوتا ہے اور مقام ماؤف کے کھجلا لیتا ہے۔ اس طرح سانس جب اکھٹا زور سے نکلتا ہے ۔ تو کھانسی کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح جب ناک میں فراش پیدا ہوتی ہے تو ہوا اکھٹی ہو کر زور سے جب نکلتی ہے تو چھینک کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ یہ خرائیں ناک کے اندر اس مقام پر ہوتی ہے جہاں انگلی نہیں پہنچ سکتی ۔ کیسے کیسے ہیں قدرت کے کمال ۔
کھانسی امراض حلق‘ نرخرہ وغیرہ ‘ ہو اکی نالیوں (برونکائی ) اور پھیپھڑوں کے امراض کی وجہ سے ہوتی ہے۔ عام نزلاوی کیفیت کی علامت ہے اور مرض سل (ٹی بی ) کی بھی دل کے عارضہ کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے ۔تشخیص کرنا معالج کا کام ہے ۔ کھانسی خشک بھی ہوتی ہے۔ اور بلغمی بھی ۔ تشنجی بھی اور کالی کھانسی بھی ۔کھانسی کا علاج آسان کام نہیں ہے۔ اگر کسی دوا کی مخصوص علامت سے کھانسی کی علامت مل جائے تو آسان ورنہ مشکل ۔
خشک کھانسی کے لئے ۔ فاسفورس ۳۰(کھبی کبھی بلغمی) ریومیکس ۳۰
ریو میکس کی کھانسی ذرا سی ٹھنڈی ہوتی ہے ۔اگر اسی طرح سردی سے زیادہ ہو لیکن بلغمی ہو تو ہپیر سلفر دینی چاہیے ۔
ڈروسرا ۳۰ تشنجی کھانسی کے لئے بہترین ہے ۔اگر مریض کو کھانستے غوطہ لگ جائے اور کھایا پیا الٹ دے یعنی قے ہو جائے ۔ کالی کھانسی کے لئے مخصوص دوا ہے۔ کالی کھانسی کے لئے پرٹوسن ۳۰ تبر بہدف ہے۳‘۴ دن کے وقفہ سے دی جائے ۔چند خوراکوں سے کالی کھانسی رفع ہو جاتی ہے ۔ پرانی ہو تو ۲۰۰ میں دیں ۔ کھانس کا زور خاص طور پر روزانہ صبح کے وقت ہو اور مزمن شکل اختیار کر لے تو ٹیو برکیو لینم نہایت ماثر دوا ہے ۔
آدھی رات کو زیادہ ہو تو آرسینک یا نکس وامیکا سحری کے وقت ہو تو کائی کارب ۔یہاں کالی بائیکرومیکم بھی کارگر ہے اگر بلغم لسیدار ہو ۔
کرولیم ربرم ۳۰ کی کھانسی ‘عموما کالی کھانسی میں ایسا ہوتاہے ۔ کہ مشین گن کی طرح (مینٹ گن ) ہوتی ہے۔ مسلسل سیکنڈ کے وقفہ سے ۔
کمزوری ‘ضعف(ڈیبیلٹی‘ ویکنس) DEBILITY. WEAKNESS
اس کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے ۔حاد مرض بھی ۔مزمن امراض بھی ۔ کئی بچے پیدا ہی کمزور ہوتے ہیں
سبب معلوم کرنا لازم ہے ۔زیادہ تر سبب والدین ہوتے ہیں ۔ دونوں یا دونوں میں سے ایک ۔ ایسے بچوں کے کمزور پیدا ہونے کا سبب موروثی مزاج ہی ہو سکتا ہے ۔ دوا سبب کے مطابق بچے کو دیں اور والدین کو بھی ۔ تا کہ آئیندہ بچے صحت مند پیدا ہوں ۔ اکثر ایسے بچے سوکھے (راسمں ) میں مبتلا ہوتے ہیں ۔
یا ہو جاتے ہیں ۔ ایسے بچے زیادہ تر میں نے ٹیو بر کیو کینم ۳۰ یا ۲۰۰ سے شفا یاب کئے ہیں ۔یہ مرض دراصل ٹی بی ہے جو پہلے آنتوں پر اثر انداز ہو تا ہے ۔ اور پھر پھیپھٹروں پر ۔ بچے کو عموما اسہال کی شکایت رہتی ہے۔ اور بعض اوقات بخار بھی ہوتا ہے ۔ضروری نہیں ۔اس سے ثابت ہوتا ہے ۔کہ موروثی مزاج مدقوق ہے ۔
ذہنی علامات (مائنڈ)۔ MIND
عریانی ۔بے حیائی ‘شبوت پرستی ‘ حادثے ‘ چوری ‘ڈکیتی‘ فراڈ ‘ اغواء‘ ظلم و تشدد ‘بیماریاں ‘ اچانک اموات اور اس طرح کے واقعات آپ ہر روز دیکھتے ہیں ‘ سنتے ہیں ‘ اخباروں میں پڑھتے ہیں ۔ ان حالات و واقعات میں رہنے والوں کے ذہنوں میں شہوت ‘ خوف‘ لالچ‘ طیش‘ مایوسی‘ رنج و غم ‘ انتقام جیسے جذبات کا غلبہ رہتا ہے ۔تو یہ قدرتی امر ہے۔
اس لئے بیشتر ذہنی علامات کو اتنی اہمیت نہیں دی جا سکتی ۔البتہ ان کے بد اثرات کو رفع کیا جا سکتا ہے ۔ مثلا رنج و غم کے اثرات کے لئے اگنیشیا ۲۰۰ غصہ و طیش کے کیمو ملا ۳۰ یا کالو سنتھ ۳۰ سٹیفس ۳۰ یا ۲۰۰ (غصہ دیا لینے کے اثرات ) شہوت کا غلبہ ہو تو سٹیفس ۳۰ ۔اوریگینم ۳۰(مردوں میں )گریٹی اولا ۳۰ (عورتوں میں ) خوف کا غلبہ ہو تو اکو نائٹ ۳۰ یا اور کئی ادویا ت خوف کی نوعیت کے مطایق دی جاسکتی ہیں ۔ دو ذہنی امراض اپنی الگ حیثیت رکھتی ہیں اور یہ بالعموم موروثی ہوتی ہیں ۔
مراقیہ اور مالیخولیا۔ (ہائپو کونڈ رائسزاور میلا نکولی ) یہ دونوں امراض بڑی مندی امراض میں سے ہیں ۔ اور ان کا علاج بڑے غور و تدبر سے کرنا پڑتا ہے۔ اکثر مریضوں کی ذہنی کیفیت الگ الگ ہوتی ہے ۔ دوا کا چناؤ بڑے دھیان سے کرنا چاہیے۔ بعض اوقات ان کا سبب بھی موروثی مزاج ہوتا ہے ۔ اور ان کا علاج آسان ہو جاتا ہے ۔
بعض بچوں اور بڑوں میں چند غیر عام علامات غور طلب ہوتی ہیں مثلا بچہ سات آتھ ماہ کی عمر کا ہے اور رات بھر سوتا نہیں ۔ روتا بھی نہیں ۔ جاگتا رہتا ہے یا کھیلتا رہتا ہے۔ یہ سر طانی مزاج کی علامت ہے ۔بعض مرد اور عورتیں غیر معمولی طور پر مذہب کی طرف مائل ہوتی ہیں اور اکثر حالت انکی مذہبی جنون تک جا پہنچتی ہے ۔بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اپنے آپ کو ولی پھر پیغمبر یا اوتار اور آخر کار خود کو خدا سمجھنے لگتے ہیں ۔ ایسے مریضوں کی دوا سلفر ہے یا ویراٹرم ۔
ذہنی علامات جو روزمرہ آپ کے سامنے آئیں گی ان کی ادویات اچھی طرح ذہن نشین کریں
چڑ چڑ اپن ۔ کیموملا ضدی پن ۔ نکس وامیکا
غصہ ‘طیش ۔ نکس وامیکا
تکبر (آیووگینس ) اور اس کے ساتھ شہوت غالب ہو تو دوا پلاٹینا سے بہتر کوئی نہیں ۔ (یہ عورتوں میں مفید ہے ۔ شہوانی عورتوں میں بالعموم تکبر زیادہ ہوتا ہے ۔ احساس برتری ہوتا ہے۔ دوسروں کو کمتر سمجھتی ہیں ۔بعض اوقات یہ احساس بر تری لاشعور میں ہوتا ہے۔ جو رویہ سے معلوم نہیں ہوتا۔ لیکن بغور ایسی عورتوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے۔ چھوٹا دکھائی دینا ایسی نمایاں علامت ہے کہ نقص بینائی میں اگر چیزیں حیوئی نظر آئیں تو واحد دوا پلائینا ہے
مغموم ۔اداس۔ پلسائلا۔اگنیشیا غضبناک ۔ بیلاڈونا
جلد باز ۔ میڈورینم ۔ہیپر ۔بیلاڈونا ۔نکس ۔ نیٹرم میور
انسان کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو صفات کا مرکب ہے۔ ایک ارادہ یا خواہش اور دوسرا ضمیر (ول اینڈ کانشس نس) کچھ فلسفہ دان کہتے ہیں ۔ کہ دماغ ارادے کا آلہ ہے اور دل ضیمر کا آلہ ہے ۔فلسفہ دان کہتے ہیں ۔ انسان کے پاس صرف دماغ ہے جو دونوں کا آلہ ہے ۔ پہلوں کا خیال ہے کہ ارادہ یا خواہش دماغ میں پیدا ہوتی ہے اور اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ دل کرتا ہے۔ اگر ارادہ بد ہے تو دل (یعنی ضیمر ) عمل کرنے سے روکے گا ۔
اگر ارادہ نیک ہے تو دل تعاون کرے گا ۔ دوسرون کا خیال ہے کہ ارادہ عمل کرنے کا فصیلہ دماغ ہی کرتا ہے کیونکہ عمل نتیجہ میں نفع یا نقصان کی تمیز عقل ہی کرتی ہے۔ غالبا پہلے فلسفہ دان خدا کو ماننے والے ہیں اور دوسرے زہریلے ہیں ۔ غوروفکر کرنے کی بات یہ ہے کہ خدا کومانا جائے یا نہ مانا جائے ۔فر ق کیا پڑتا ہے۔ فرق یہ پڑتا ہے کہ اگر خدا کو نہ مانا جائے تو زندگی بے مقصد ہو کر رہ جاتی ہے ۔ مانا جائے تو مقصد ارتقاء ہے ۔ ارتقائے حیات مقصد نہ ہو تو حیوانات و نباتا ت و جمادات اور انسان میں فرق کیا رہ جاتا ہے۔
افسوس تو یہ ہے ۔ کہ خدا کو ماننے والے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے اس قدر بد اعمال ہو چکے ہیں کہ نہ ماننے والوں کے مقابلہ میں تنگ انسانیت ہیں ۔یہ مضمون طویل ہے اتنا کچھ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر انسان با مقصد زندگی بسر کرنے کا مستقم ارادہ کر لے تو وہ بیمار نہیں ہو سکتا اور نہ اپنی نسل تباہ کرے گا ۔
اسے یقین ہو گا کہ بری خواہشات اور بر ے جذبات کا غلام بننے سے اس کا ارتقاء رک جائے گا تو وہ کسی فعل بد کا مرتکب نہیں ہو گا ۔ تمام موذی اور خبیث امراض انسان کے بد اعمال کا نتیجہ ہیں ۔ا نسانیت کی بلند اقدار مد نظر نہ ہوں تو انسان محض ایک کیمیاوی اجزاء کے مرکبات کی بناء پر چلنے پھرنے والا روبوٹ ہے۔ اور خود مختار روبوٹ ہے ۔
بری سوچ ‘بد ارادے ‘بری خواہشات ‘برے جذبات سے اعضاء پراگندہ ہو جاتے ہیں ۔ اور پھر پراگندگی ‘ اعضاء ‘ذہن کو پرا گندہ کرتی ہے ۔
سے ہر وقت ہوتا ہے ۔ اگر کسی وجہ سے شکر کے اجزاء میں طبعی فقیرات نہ واقع ہوں اور وہ بدن میں خرچ نہ ہو سکیں تو خون میں اس کی مقدار بہت بڑھ جاتی ہے ۔ اس فوائد شکر کو گردے بذریعہ بول خارج کردیتے ہیں ۔
اسباب ۔ غذا میں زیادتی ‘ خاص طور پر شیریں غذا کی اور جسمانی ورزش کم ۔ذہنی مشقت ۔ ذہنی صدمہ ۔رنج و غم ۔ کثرت جماع۔
علامات۔ اکثر پیشاب اور پیاس کی زیادتی مگر ہمیشہ ہر مریض میں نہیں ۔ بھوک کی زیادتی اور باوجود اس کے بڑھتی ہوئی کمزوری ۔ ٹانگیں خاص طور پر مثاثر ہوتی ہیں ۔
علاج ۔ نیڑمیور ۔ نیٹرم سلف۔ پنکر ہاٹینم ( خون میں شوگر کی زیادتی )
ذیابیطس(ڈائبیٹز) DIABETES.
پیشاب میں شکر کی زیادتی ۔ خون میں شکر کی زیادتی ۔(شوگر عام مستعمل اصطاح ہے ) کسی مزمن موذی مرض سے کم نہیں ۔ جس قدر دیگر غذائیں ہمارے جسم کو قوت بخشتی ہیں اور بدن کے اندر جل کر حرارت پیدا کرتی ہیں ۔اسی طرح شیریں غذا بھی قوت کا باعث بنتی ہے ۔ نشاستہ اور شکر کے اجزاء آلات ہاضمہ کے عملے سے ایک خاص قسم کی شکربن جاتے ہیں ۔ یہ اجزاء ہاضمہ سے جذب ہو کر جگر میں پہنچتے ہیں ۔ جگر کے عمل سے پھر ایک نشاستہ میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔
یہ نشاستہ ذخیرہ کے طور پر جگر میں جمع رہتا ہے۔ اور پھر انگوری شکر میں تبدیل ہو کر بتدریج اور ایک اندازہ کے ساتھ خون میں شامل ہوتا ہے۔ یہ شکر بدن کی ساختوں میں پہنچ کر اور روح حیوانی سے مل کر جل اٹھتی اور حرارت و قوت پیدا کرتی ہے ۔شکر کے اس طرح جلنے اور خرچ ہونے سے بخارات پیدا ہوتے ہیں جن کا تنقیہ پھیپھٹرے وغیرہ ۔
خناق( ڈفتھیریا) DIPHTHERIA
نہایت خطر ناک وبائی مرض ہے۔ بچوں میں زیادہ بڑوں میں کم ۔حلق میں ہوا کی نالی ( نرخرہ وغیرہ ) کا ورم ہے ۔بخار ہوتا ہے۔ آواز بیٹھ جاتی ہے۔ سانس دقت کے ساتھ بآواز ‘ گلے میں درد ‘ سانس میں اس قدر دقت کہ مریض گردن کو پیچھے کی طرف جھکا کر سانس لیتا ہے۔ سانس لیتے ہوئے ایسی آواز آتی ہے جیسے لکٹری پر آری چل رہی ہو۔ مریض بہت بے چین ہوتاہے ۔ چند گھنٹوں میں موت واقع ہوجاتی ہے
طبی امداد کی فور ی طور پر ضرورت ہوتی ہے ۔
اسقسقاء(دراپسی ) DROPSY.
پانی کا اجتماع جسم کے کسی حصہ میں پانی (رطوبات ) جمع ہو جانا۔ کل جسم کا استغا کو انا سارکا کہتے ہیں ۔
دماغ کے پردوں میں پانی جمع ہو جائے (ہائیڈ روسیفیلس)پھیپھٹروں کے پردے میں (ہائرو تھوریکس)
جوڑوں میں ‘ٹھوس اعضاء او ر ساختوں میں بھی پانی جمع ہو جاتاہے۔ یہ مرض امراض جگر و دل و گردوں کے سبب پیدا ہوتا ہے۔ یہ تین اعضائے رئیسہ خون میں سے غلیظ یا زہریلی رطوبات کو ضائع کر کے خون کو قابل اجزائے حیات بخشتے ہیں ۔
اگر یہ تین یا ان میں سے کوئی ایک یا دو بیمار ہو جائیں تو خون غلیظ رطوبات لئے خون کسی نالیوں میں گردش کرتا ہے۔ تاکہ تمام اعضاء کی ضرورت پوری کرے لیکن یہ اعضاء غلیظ رطوبات والی غذا لینے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ توپھر وہ غلیظ رطو بات کہاں جائیں ۔ یہ رطوبات جلد کے نیچے جمع ہوتی رہتی ہیں یاکسی خللد میں ۔ اخراج ان کا ہوتا نہیں کیونکہ گردے بیمار ہیں ۔جگر بیمار ہے۔ دل بیمار ہے ۔ نہ دل خون کو صاف کرنے کے قابل ۔نہ جگر غلاظت کو کشید کرنے کے قابل نہ گردے ان کو خارج کرنے کے قابل نتیجہ میں یہ مرض ہو جاتا ہے۔ جسے استقاء کہتے ہیں ۔
مذکورہ تین اعضانے رئیسہ کے بیمار ہونے کا سبب زیادہ تر موروثی مزاج ہوتاہے اور اکثر سرطانی مزاج ہوتاہے۔ ایسی صورت میں علاج مزاج کے مطایق ہو گا۔ (خیال رہے کہ متورم جگہ دبانے سے گڑھا پڑ جائے تو وہ استقاء ہے نہ پڑے تو بھر بھر اہٹ ( اڈیما)ہے جو کمی خون کی علامت ہے )
عام دوائیں ایپس اور آرسینک مستعمل ہیں جو شافی ثابت ہوئی ہیں ۔ اس مرض میں پیشاب کا اخراج کم ہو جاتا ہے۔ دونوں ادویہ میں یہ علامت ہے ایپس میں پیاس نہیں ہوتی اور آرسینک میں پیاس زیادہ ہوتی ہے ۔ اکثر معالج اپو سائنم بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں ۔لیکن اس کا اثر عارضی ہوتا ہے ۔
شافی نہیں ہے۔ جگری ‘ استسقار میں درئیکو پوڈیم سے میں نے کئی مریض درست کئے ہیں
کلیکریا آرس x۳ ۔ہر قسم کے استقاء میں بہت مفید ثابت ہوئی ہے۔
بد ہضمی (ڈسپپیا) DYSPEPSIA.
عارضی ہو تو بد پرہیزی کا سبب ہوتا ہے۔ مزمن ہو تو کئی دیگر امراض کی علامت ہے ۔معدہ ‘آنتوں اور جگر وغیرہ کے کسی مرض کی وجہ سے ہے ۔ سبب کودور کرنا چاہیے ۔ دوا کا فیصلہ علامات کے مطایق کریں ۔
اعتدال سے زیادہ کھا پی لینا ۔ انیٹم کروڈم ۳۰
مرغن اور ثقیل غذا سے ۔ پلساٹلا ۳۰ ۔ کالی میور
غذا کی بے قاعدگی سے۔ نکس وامیکا ۳۰
زیادہ میھٹی اشیاء سے ۔ آرجنٹم نائیٹرکیم ۲۰
بد ہضمی کے سبب تیزابیت پیدا ہوتی ہے ۔ جس کے سبب ہوا (گیس پیدا ہوتی ہے ۔ ہلکی لطیف ہو تو اس کا اخراج ہو اجاتا ہے ( ڈکار یا گوز)
ڈایا فرام ۔ (حجاب حاجز)
عضلاتی ساخت کا موٹا عضو ہے جو جوف بطن اور چھاتی کے پنجرہ کے درمیان واقع ہے ۔ تقریبا ایک انچ موٹائی میں دائیں طرف کی چوتھی پسلی اور بائیں طرف کے پانچویں پسلی کے نیچے واقع ہے ۔اس کی نچلی سطح ‘دائیں طرف ‘جگر اور دائیں گردہ کے ساتھ ملحق ہے اور بائیں طرف تلی ‘لبلبہ ‘معدہ اور بائیں گردہ کے ساتھ ملحق ہے اس کی بالائی سطحدل اور پھیپھٹروں کا سہارا ہے۔ یہ بالائی جوف چھاتی اور جوف زیریں ( بطن پیٹ ) کے درمیان ایک حجاب ہے جس میں لچک ہے ۔اور تنفس میں پھیپھٹروں کے لئے نہائت مفید سہارا ہے۔
کان (ائیرز) EARS- سماعت کا آلہ ہے جس کے ذریعہ سے ہم سنتے ہیں ۔ بیرونی اور اندرونی خارش ‘ کان درد‘ کان بہنا اور بہرہ پن عام علامات ہیں ۔
دردسردی لگ جانے سے با نزلاوی یا ورم پیدا ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر پیدائشی طور پر بچہ بہر ہ ہو تو وہ گونگا بھی ہوگا ۔ کیونکہ بچہ بڑوں کی آواز سنتا نہیں اس لئے بولنے سے معذور ہوتا ہے۔
اس سے آپ یہ اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں ۔ کہ انسان کے تمام اعضاء کس طرح ایک دوسرے سے وابستہ ہیں ۔انسان کا جسم ایک مشین ہی کی طرح ہے ۔ جس کا ہر پرزہ ایک دوسرے سے وابستہ ہے ۔ ایک پرزہ خراب ہوا۔ اور ساری مشین اثر انداز ہو گئی ۔ جس طرح مشین کے پرزے بدل لئے جاتے ہیں اسی طرح کوئی کوئی عضو صحت مند انسان کا ضرور تمند انسان میں پیوست کیا جارہا ہے۔
لیکن انسان کے اعضاء بنائے نہیں جا سکتے کان کے عوارضات اور ان کی دوا
کان درد ۔ بیلا ڈونا ۳۰ ۔ فہرم فاس ۳۰
کان بہنا ۔ کالی میور ۔مرکسا ل ۔سورینم(مزمن اور بدبودار) سلیشیا (مزمن ) ایلیپس
(مزمن ‘بدبودار‘بہروپن )
کان میں کھمبلی ۔ کالی سلف۔ سلفر ۔ بیرونی طور پر کھجلی ‘ جلدی ابھار‘ گریفائٹس
کان کی پشت کی ہڈی میں ورم ‘درد‘ کیپسیکم ۔ کان بہنا اگر مزمن صورت اختیار کر چکا ہو تو اسے بند کرنے کی کوشش کرنے سے پہلے مریض کے موروثی مزاج کا معلوم کرنا لازمی ہے ۔ اگر مزاج مدقوق یا سرطانی ہے تو کارسن ۲۰۰ یا ہپوزینم ۳۰ دیں ۔ بلا سوچے سمجھے کان کا بہنا روک دیا جائے ۔تو کسی اندرونی عضو کا بیمار ہو جانا عین ممکن ہے ۔ جو شدید طور پر نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔
کان بجنا ۔(آوازیں ) اور چکر (مینائرز ڈیزیز) نیٹرم سیلی سائیلیکم
ناک (نوز) NOSE. ناک کے ذریعہ سے آپ سانس لیتے ہیں ۔ اور سونگھنے کے کام بھی آتا ہے۔ خود ناک امراض محدود چند ہیں ۔ اندرونی جھلی کی ورمی کیفیت ناک میں
(پولیپس) ناک کی ہڈی کا ورم یا اس کا ٹیڑھا ہو جانا یا بڑھ جانا اور اوزینا۔ بیرونی ناک پر پھنسیاں نکلنا جو بار بار نکلیں تو مریض کا مزاج مدقوق ہے ۔ جڑوں والا پھوڑا نکلنا جو مزمن شکل اختیار کر لے
تو وہ بھی مدقوق مزاج کی علامت ہے۔
ناک کی جھلی کے ورم یا زخم کے لئے ۔ کالی بائیکرو سیکم ۳۰
مہ کے لئے ۔ کلیکر یا کارب۲۰۰ ۔متوجا ۲۰۰
ناک کی ہڈی کے لئے ۔ انہولینیم ۳۰۔ اگر ہڈہ کا روم ہو تو پیپر سلفر ۲۰۰
ناک کی نزلاوی کیفیت میں بڑی عام ہے ۔ جیسے زکام ( کورائنرا ) کہا جاتا ہے۔ دھول ‘ دھوائیں ‘ سردی اس کے اکثر اسباب ہوتے ہیں ۔اس کی بہترین دوا‘ اگر مزمن ہو تو سودینم ۲۰۰
ناک کے اندر نزلاوی مواد جما رہے یا خشک ہو کر چھلکے سے بن جائیں ۔ کالی بائیکرمیکم
جلد (سکن ) SKIN. جلد کے امراض ‘ یا جلد پر ابھار کہہ لیں بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ایلو پیھتی میں ان امراض کو دیگر اعضاء کے امراض کی طرح شمار میں لائے اور جناب سکن سپیشلسٹ بیرونی اور اندورنی ادویات استعمال کر کے ان صفایا کر کے مریض کو بھی خوش کر دیتے ہیں ۔ اور خود بھی بڑے خوش ہو جاتے ہیں ۔
قدرت نے اندرونی اعضاء کو نچانے کے لئے زہر یلے مواد کو باہر نکال پھینکا تھا اور ڈاکٹر صاحب نے پھر ان مواد کو اندر داخل کر دیا۔ تھوڑے عرصہ کے بعد مریض کبھی دل کے مرض میں یا پھیپھڑوں یا جگر وغیرہ کے مرض میں مبتلا ہو گیا اور پھر وہ کبھی تندرست نہ ہو سکا۔
حتی کہ وہ ایک ہو میو پیھتک ڈاکٹر کے پاس آیا ۔تمام کیفیت بیان کی ۔ڈاکٹر نے دوا دی جس سے وہی مواد پھر جلد پر نمودار ہوا اور مریض رفتہ رفتہ مزید علاج سے شفا یاب ہو گیا ۔ جلدی ابھار کو محض جلد کا مرض سمجھ کر اس کا علاج ہرگز نہ کرنا چاہیے ۔ مریض کے اپنے مزاج اور موروثی مزاج کو معلوم کریں اور اس کے مطابق علاج کریں ۔ (جلد کے ساتھ بال و ناخن بھی شامل ہیں ان کو عوارضات بھی کسی داخلی دشمن کی نشاندہی ہی کرتے ہیں)
چند مخصوص قسم کے جلدی ابھار ہیں جن سے موروثی مزاج کا معلوم کرنا واضح ہو جاتاہے۔
مثلا داد(رنگ روم) یا اس شکل کے ابھار مدقوق مزاج کی علامت ہے ۔ دوا بسیلینم ۲۰۰ یا ایک ہزار ہے ۔مہاسے (وارئس ) یا بہت سے قل (مولز) سرطانی مزاج کی علامت ہے ۔ناک پر مسلسل پھنسیاں نکلیں یا موذی قسم کا پھوڑا نکلے جو ٹھیک ہونے میں نہ آئے تویہ مدقوق مزاج کی علامت ہے ۔دوا ٹیو بر کیو لینم ۲۰۰ یا ۱۰۰۰ ہے ۔اس سے پہلے مہاسے اور تل جو لکھے گئے ہیں ۔ اس کے لئے دوا کارسن ۲۰۰ ہے ۔ چینل بھی مدقوق یا سرطانی مزاج کی علامت ہے۔
نظام تولید مرداں (رسیجنر ٹیو سسٹم میلز)
REGENERATIVE SYSTEM(MALES) )
اس میں الدتنا سل ‘خصٹے ‘ پرائیٹ گلینڈ اعضاء ہیں ۔پرا ئیٹ مذی پیدا کرتاہے جس کی وجہ سے شہوت بیدار ہوتی ہے ۔ خصئے منی پیدا کرتے ہیں ۔ جو مادہ تولید ہے۔ جو بذریعہ آلہ تناسل خارج ہو تاہے ۔ جنسی بلوغت تقریبا تیرہ چودہ برس کی عمر میں نمودار ہوتی ہے ۔
نسل کشی کا یہ نظام حیوانی ہے ۔ اس میں انسان اور حیوان بر ابر ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ حیوان جبلی طور پر یہ فعل کرتا ہے اور انسان خواہش اور ارادے سے کرتاہے ۔
انسان پوشیدگی میں کرتا ہے۔ حیوان سر عام کرتا ہے۔ انسا ن پوشیدگی شرم و حیاء کی وجہ اختیار کرتا ہے۔ جو حیوان میں نہیں ہے ۔جب شرم و حیاء کا پردہ اٹھ جاتا ہے تو انسان جنسی لحاظ سے مکمل حیوان بن جاتا ہے۔
سن بلوغت میں پہنچتے ہی جنسی خواہش مرد پر غالب آ جاتی ہے اور و ہ‘ زیادہ تر‘ غیر فطر ی طریقوں سے رطوبات تولید کے اخراج کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ اور اس وقت تک اس کا بے دریغ اخراج کرتا رہتاہے۔ جب تک کہ جنسی خواہش ماند نہیں پڑ جاتی ۔
جوش میں یہ ہوش مفقود ہو جاتا ہے کہ وہ کیا کھو رہا ہے ۔ بیشتر اعضاء کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں ۔اور اس کمزروی کے باعث رفتہ رفتہ وہ مختلف امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
امراض کے اسباب تو اور بھی ہیں ۔لیکن یہ سبب انسان کے لئے ذلت انسانیت ہے ۔اور اس کی جنسی بے راہ روی کا نتیجہ آتشک اور سوزاک جیسے موزی امراض بھی نسل انسانی کو تباہ و برباد کرنے کے لئے پیدا ہو جاتے ہیں ۔
بلوغت کا ابتدائی جرم مشت زنی ہے ۔ اس ہتک آمیز عادت کو چھٹرانے کے لئے اوریگنیم ۳۰ یا ۲۰۰ بڑی زود اثر دوا ہے ۔ اس عادت کے نتائج کے لئے فاسفورک ایسڈ ۳۰ یا ۲۰۰ اور سٹیفس ۳۰ یا ۲۰۰ بہت مفید ثابت ہوئی ہیں ۔ اس کے بعد شکائت مجنون شہوت کریں گے ۔جریان اور احتلام کی ۔ادویات ہیں ۔ چائنا ۳۰ فاسفورک اسیڈ ۳۰ سیلکس ۳۰ فاسفورس ۳۰
یہ ادویات احتلام کے لئے ہیں ۔
جریاں مذی ہو تو ۔ سیلینیم ۳۰ یا ۲۰۰ جریان منی کے لئے ۔ فاسفورک ایسڈ ۲۰۰
پھر وقت آ جاتا ہے شادی کا ۔ ابھی ہوئی نہیں یا ہوچکی ہے ۔ شکائت ہو گی جنسی لحاظ سے کمزوری کی ۔اس کے لئے بہترین دوا ہے ایگنس (۳) ۔یہ دوا ان لوگوں کے لئے بہت مفید ہے جنہیں سوزاک ہو چکا ہے اور کئی بار ہو چکا ہے۔ شکائت ہو گی سرعت انزال کی یعنی مجامعت میں اخراج من بہت جلدی ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے ۔ زنکم ۳۰ یا ۲۰۰ ۔کاربو اینی میلس ۳۰ ۔ چائنا ۳۰۔ فاسفورس ۳۰
لائیکو پوڈیم ۳۰ یا ۲۰۰۔ شادی ہوئے سال دو سال گزر گئے اولا د سے محروم ہیں ۔منی کا ٹیسٹ کروایا تو جرثومہ حیات کا فقدان یا ذرخیر بہت کم (آزو سپرمیا ) اسے کہتے ہیں ۔ علاج قہر آزما ہے ۔میں نے فاسفورس ۲۰۰ سے دو یا تین مریض ٹھیک کئے ہیں ۔ اور کچھ مریض ایسے جن کا مزاج موروثی مدقوق یا سرطانی تھا جو کارسوسن ۲۰۰ سے یا ٹیوبر کیو لینم 1M سے باپ بنے۔
کثرت مجامعت معمول ہے ۔عمر ڈھلی تو جنسی کمزوری سے شرسار ہوئے ۔ پچھلی عمر میں لائیکو پوڈیم CM نعمت ہے ان مردوں کے لئے جو جنسی لذت کے غلا م بن چکے ہوں ۔
مشت زنی جنسی بے راہ روی ہے۔ اغلام (سوڈومی )بھی ہے بیرا ہ روہ ہے ایسے صدو مت بھی کہتے ہیں اور صدو مت کروانے کی خواہش جنسی پرورشن ہے۔
ایسے اشخاص کو کیٹا مائیٹ کہتے ہیں ۔ غیر فطری خواہش کو دور کرنے کے کئے ۔سٹیفس ۲۰۰ ۔اگنس ۲۰۰ نکس وامیکا اور پلاٹینا ۲۰۰ مفید ہیں ۔ مردوں کی کچھ شکایات جو عام ہیں ۔ جنسی خواہس معدوم یا بہت کم ۔ اگنس ۳۔ کالی کارب ۔۲۰۰ ۔اونسموڈیم ۳۰ یا ۲۰۰ ۔سیلینیم ۲۰۰۔سببل سیرولٹا Q
خواہش زیادہ لیکن مجامعت میں نا اہل ۔ فاسفورس ۔ کالی کارب ۔ کلکیر کارب ۔کونیم ۔ لائیکوپوڈیم
غیر معتدل جنسی خواہش اور قوت ۔ اوریگینم ۔پلائینا ۔ کنتھرس ۔ بالو سائمس
جنسی خواہش کو دبائے رکھنے کے نتائج۔ کونسیم قضیب(عضو تناسل)
پتلا ہو جائے یا چھوٹا ۔ یا ٹیڑھا ہو جائے ۔ آرجنٹم مشیلیکم ۳۰ یا ۲۰۰ ۔سٹیفس ۳۰ یا ۲۰۰
نظام تولید نسواں ۔ REGENERATIVE SYSTEM (FEMALES)
فطرت نے عورت کو پس پردہ حیا سنوارا ہے ۔ لیکن مرد کی بے حیائی بے راہ روی نے یہ پردہ چا ک کر ڈالا ہے ۔ تاہم شرم و حیا کا پردہ کسی حد تک اب بھی خال خال نظر آتاہے۔
نسوانی جنسی اعضاء میں رحم (یوٹرس)خصیتہ الرحم (اوریز)رحم کے دائیں بائیں ‘ فیلو پین ٹیو بز جو رحم اور خصتیہ الرحم کے درمیان واقع ہیں اور ان دونوں میں ان کے سرے جا کھلتے ہیں ۔مرد کے عضو تناسل کی طرح (کلائٹورس )نظر ایک چھوٹا اور لمبا سا اوبھار ہے ۔اس کی ساخت سے بہت کچھ مشابہت رکھتی ہے ۔ اس میں بھی کسی قدر استادگی پیدا ہوتی ہے ۔ خصیتہ الرحم میں ایک مادہ تیار ہوتا ہے ۔جس کو عورت کا مادہ تولید سمجھنا چاہیے اسی مادہ کے ساتھ جب مردوں کا نطفہ قدرتی طور پر وصل پاتا ہے یہ مادہ فاذف نامی کی راہ رحم کے جوف کی طر ف آتا ہے۔ اور پورے دنوں تک بچہ کی پرورش رحم کے اندر ہوتی رہتی ہے ۔بچہ کی پرورش رحم کے خون سے ہوتی ہے ۔رحم کی دیواروں میں رگوں کا جال ہے اس سے جذب ہو کر غذا آنول میں پہنچتی ہے اور آنول سے بچہ کے بدن میں ۔یہ خون وہی سے جسے حیض کہتے ہیں ۔ جو حمل کے درمیان رکا رہتا ہے۔اور بچہ کی پرورش کا باعث بنتا ہے۔ (بظر(قفیب نسواں ) میں استاگی شہوانی جذبہ کے سبب پیدا ہوتی ہے اور اس کے سرسے پر باریک مسام ہوتے ہیں ۔
جہاں سے مادہ تولید رستا ہے ۔ جبکہ مردوں کے قفیب کی نالی میں سے یہ مادہ خارج ہوتا ہے ) بیرونی طرف فرج(ولوا ) جس کے دونوں طرف فرج کے لب (لیبیا ) ہوتے ہیں ۔اور اس کے نیچے اندر کی طرف اندام نہانی (وہجائنا ) ہے ۔نرم عضلاتی ساخت کی وجہ سے دخول قفیب میں آسانی ہوتی ہے اور عورت کی تکلیف سے بچاتے ہیں اب آتے ہیں نسوانی امراض کی طرف۔
سیلان الرحم (لیکوریا ) ۔سیپیا ۳۰ یا ۲۰۰ ۔پلساٹلا ۳۰ یا ۲۰۰ ۔کریوزوٹ ۳۰ (خراشدار اور بدبودار) (پلساٹلا کا اخراج گاڑھا ہوتا ہے ۔ سیپیا کا قدرے بد بو دار) لیسدار ہو تو کالی بائیکرومیکم رحم اور خصیتہ الرحم کی ورمی کی کیفیات کی دوائیں عام ورم کی ہیں ۔ مثلا ۔ بیلا ڈونا ۔مرکسال ۔بیپر سلفر ۔سلیپا
لیکیسس ۔زخم رحم کے لئے بھی وہی مرک کار ۔نائیٹرک ایسڈ ۔کالی بائیکرو میکم ۔ ورم کی مخصوص دوائیں میں مرکسال میل کم سیل اور زخم کے لئے آورم میو رنیٹرونیٹم ۔رحم یا خصیتہ الرحم کی رسولیاں وغیرہ (عام نو ساخت )یا سرطان کے لئے مپڈورسینم اونچی طاقت ۔لیپس ۳۰ یا ۲۰۰
حیض (منسبز) حیض کے شروع ہو نے کی عمر آب وہوا ‘ماحول اور لڑکی کی ذہنی کیفیت کیمطابق مختلف ہوتی ہے ۔ہمارے ملک میں گیارہ سے چودہ برس کی عمر میں حیض آنا شروع ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات سن بلوغت آ جاتا ہے اگر جلد آ جائیں تو ۔ فیرم مٹیلیکم ۳۰۔ سلشیا۔ٹیو برکیو لینم آنے میں دیر ہوجائے ۔
پلساٹلا ۳۰ یا ۲۰۰(مزاج گرم) سائیکلا من (مزاج سرد) مددگار دوائیں ہیں
سلفر۳۰۔ نیٹرم میور ۳۰۔ کالی کارب ۳۰ اس کے بعد حیض (ماہواری بھی کہتے ہیں کیونکہ معمولا ایک ماہ بعد آتا ہے ) کی بیقاعدگی وغیرہ ۔
دیر سے یعنی کچھ دن چڑھ کر آئے ۔ پلساٹلا ۔ سلفر ( یہ دوا اوقات حیض کم ‘دیر سے اور دیگر بیقاعدگیوں کے لئے بہت مفید ہیں ) یہ دیگر ادویات ہیں
دیر سے اور کم۔ گریفائیٹس ۔ سنیشوQ ۔نیٹرم میور ۔ میگنیشیا کارب ۔ حیض کی بے قاعدگیوں کے لئے مفید ادویا ت ہیں ۔ الیٹرس Q ۔ ہیلو نباس Q ۔اسوکا Q۔سنبشوQ۔
َقبل از وقت اور زیادہ ۔ ٹیوبر کیو لینم
حیض۔ قبل از وقت ۔سن بلوغت سے پہلے سلشیا ۔کلکیریا کارب ۔سبائنا۔ فہرم
معمول بعد از بلو غت ‘قبل از وقت اور زیادہ ۔فہرم قبل از وقت اور کم ۔پلائینا۔میگنیشیا کارب ۔کونیم ۔کالی کارب ۔ لیکیسس۔ دن چڑھ کر اور زیادہ ۔ کلکیر یا کارب ۔ چائنا بورکس ۔
دن چڑھ کر اور کم ۔ پلساٹلا ۔گر یفائٹس ۔سلفر ۔سائیکلا من ۔ نیٹرم قیور ۔ بے قاعدہ ۔ سمتی فیو گا ۔ پلاٹینا اگنیشیا ۔ نکس موسکاٹا۔ خون کی ہجانے رطوبت (لیکوریا ) ایوڈم کا کولس ۔زنتھو کسانلم
گوشت کے دھو کر طرح ۔ سفلینم ۔ لیکیس ۔ ماہ میں دو بار ۔ سیپیا ۔کلکیر یا فاس
بوسٹا ۔میگ کارب ۔ بندش ۔ بالکل نہ آئے ۔ سلفر ۔سلشیا ۔ لائیکوپوڈیم ۔ فاسفورس
حیض ۔ متبادل ۔ ناک ‘منہ وغیرہ سے ( وائکیرٹس ) فارسفورس ۔ برائیونبا ۔ لیکیسس
کے دنوں میں بستانوں میں تناؤ ۔ کونیم ۔کلکیر یا کارب ۔ لیک کنیسنم ۔ دوران میں ہیضہ کی سے علامت ۔ امونیم کارب ۔ متعفن ۔ سفلینم ۔
زیادہ خون ‘ انتا ہی زیادہ درد۔ ٹیوبر کیو لینم ۔فاسفورس ۔سمسی فیو گا ۔ درد ‘ غیر معمولی ۔کیموملا
ٹائیفائڈ بخار(محرکہ تپ)(انیڑک فیور ) TYPHOID
میعاری بخار بھی کہتے ہیں ۔حالانکہ اس کی کوئی میعاد نہیں ہوتی ۔ آنتوں میں ورم پیدا ہوتا ہے۔ اور درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ بخار سردی سے نہیں چڑھتا مگر کبھی کبھی خفیف سردی ہے ۔ درجہ حرارت صبح کم ۱۵ڈگری‘۹۹ ڈگری ۔ دوپہر کے وقت ۱۰۳‘۱۰۴ ڈگری سے بھی بعض اوقات بڑھ جاتا ہے۔ شام سے کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ رات کو مزید کم ہو کر پھر بڑھ جا تا ہے ۔ پھر صبح کم ۔یہ اس کا معمول ہے ۔ لیکن بعض اوقات درجہ حرارت میں بے قاعدگی بھی ہو جاتی ہے ۔
نبض کی رفتا ر درجہ حرارت کی نسبت سے سست ہوتی ہے۔ ناف کے گرد دبانے سے درد ہوتا ہے ۔ بچہ ہو گا تو دبانے پر ورئے گا ۔پیٹ درد بغیر دبانے کے بھی ہو سکتا ہے ۔ کبھی قبض یا کبھی جلاب ۔زبان پر غلیظ تہ منہ سے بدبو ۔باقی بخار کی عام علامات ‘ دردیں ‘ بے چینی یا غنودگی ‘ بڑبڑ انا وغیرہ ۔خفیف کھانسی بھی ہوتی ہے ۔
بعض اوقات ہذیاتی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ( دیکھئے ہذیان)
میرے تجربہ میں سب سے زیادہ کامیاب دواٹائیفائیڈ ینم ۳۰ ہے ۔اس کی خوراک روزانہ دیں ۔ ۳‘۴ دنوں میں بخار اتر جائے گایا ردعمل ہوگا۔ ردعمل کے بعد دوا بند کریں ۔
بخار اتر جائے گا۔ حسب علامات دیگر ادویات اس دوا ( ٹا ئیفائیڈ ینم ) کے ساتھ بھی دی جاسکتی ہیں ۔ مثلا قبض ‘سردرد‘ پیاس ہو تو برائیو نیا ۳۰ ۔اسہال متفن ‘جسم میں درد ہو تو بپٹشیا ۳۰ ۔کھانسی زیادہ یا نمونیا کی شکایت ہو جائے تو فاسفورس ۳۰۔
غذا ٹھوس قطعی طور پر نہ دیں ۔صر ف محلو ل ( لکوئڈ ) غذا دیں ۔مثلا دودھ ‘ دہی ‘ ساگودانہ ‘ یخنی ‘ فروٹ جوس وغیرہ ۔
مرگی (ایپی لیپسی ) EPILEPSY
لیٹے ‘بیھٹے ‘سوئے ‘ چلتے پھرتے بے ساختہ ایک بلند آواز ہوک آٹھتی ہے اور مریض بے ہوش کر ذبح شدہ جانور کی طرح تڑ پنے لگتا ہے۔ جسم اور بازو‘ ٹانگیں جھٹکتے ہیں ۔ منہ سے پانی یا جھا گ نکلتا ہے ۔ چند منٹوں کے بعد یہ درد ختم ہو جاتا ہے۔ مریض ہو ش میں آجاتا ہے ۔لیکن اسے کچھ معلوم نہیں کہ اسے کیا ہوا۔
بے ہوشی کے دورے کئی امراض میں پڑتے ہیں لیکن مذکورہ علامات کی تصویر سامنے ہو تو تشخیص میں غلطی نہیں ہو سکتی ۔ مرض پرانا نہ ہو تو اکثر بو فو۳۰ کا میا ب دوا ہے ۔ ۲۰۰ طاقت بھی مفید ثابت ہوئی ہے ۔ اگر مرض پرانا ( مزمن) ہو تو کلکیر یا کارب ۳۰ دیں ۔ میں نے اس دوا سے کافی تعداد مریضوں کی درست کی ہے ۔
اس کی ۲۰۰ یا اس سے اونچی طاقت شدید اور طویل ردعمل پیدا کرتی ہے ۔ اور آخر کار نتیجہ بھی خاطر خواہ نہیں نکلتا ۔ دور ے صرف نیند کے دوران میں پڑیں تو سلیشیا ۲۰۰ مفید ثابت ہوئی ہے ۔ چاند کے گھٹنے بڑھنے پر ہو تو بھی دوا سلیشیا ہی ہے ۔
زہر باد(اپرسی پیلس) (سرخ بادہ بھی کہتے ہیں )
جسم کے کسی حصہ پر ورم نمودار ہوتا ہے۔عام ورم کی طرح مقام ماؤف سرخ چمکیلا ہوتا ہے۔ بخار ہو جاتا ہے۔ اور درجہ حرارت ۱۰۴ ڈگر ی سے بھی اوپر بڑھ جاتا ہے ۔عام ورم میں بخار کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔ سبب وہی ہے خون میں زہریلے مواد کا ورم کی شکل میں ظاہر ہونا۔ یہ ورم پھٹ کر بہتا نہیں بلکہ کئی روز تک ورم پر سے جلد کے چھلکے اترتے رہتے ہیں ۔
تھوڑے ہی عرصہ کے بعد کسی اور مقام پر ظاہر ہوتا ہے ۔جو اس کا خاصہ ہے
شروع ہی میں ورم اور بخار کے لئے بیلاڈونا ۳۰ دیں تو بخار اتر جائے گا اور جلد ہی چھلکے اتر کر مرض ختم ہو جائے گا۔ اگر یہ بار بار مقامبدل کر ظاہر ہو تو گریفائٹس ۲۰۰ واحد دوا ہے ۔
آنکھیں (آئیز) (چشم ‘آنکھ) EYES
آنکھوں کی ساخت بڑی پیچیدہ ہے ۔اس کے تفصیلی بیان کے لئے ایک مکمل کتا ب کی ضرورت ہے ۔اسی طرح آنکھ کے امراض بھی بڑے پیچیدہ اور زیادہ ہیں ۔ امراض چشم و بینائی کے ان امراض کا ذکر کیا جاتا ہے ۔جن سے عام واسطہ پڑتا ہے۔
رمد ( آشوب چشم ۔کنجنکئے وائٹس ) بڑی عام تکلیف ہے اور زیادہ تر بچوں میں ۔آنکھ کے اوپر کی سطح اور پپوٹوں ( لڈز) کی سطح تک ورمی کیفیت ہے ۔اسے آنکھ آنا اور آنکھ دکھنا بھی کہتے ہیں ۔ پلساٹلا ۳۰ بہت مفید ثابت ہوئی ہے۔ مریض کو ٹھنڈ ی ہوا اور ٹھنڈ ا پانی سکون دیتا ہے۔ آنکھوں کے پیوٹے گد کی وجہ سے چیک جاتے ہیں ۔خاص طور پر صبح کے وقت جس کی وجہ سے آنکھیں کھلتی نہیں ۔انکھیں پانی سے دھونا اور صاف کرنا پڑتی ہیں ۔ آنکھیں پانی سے دھونا اور صاف کرنا پڑتی ہیں ۔ آنکھیں زیادہ سرخ اور درد ہو تو بیلا ڈونا ۳۰۔ آنکھیں سرخ اور پانی زیادہ ہے ۔جلن ہو تو یوفر یزیا ۳۰ ۔ پیوٹو ں کی اندرونی سطح پر دانے دار ابھار ہو جسے روہے یا کلرے (ڑاکوما) کہتے ہیں ۔ اس کے لئے تھوجا ۳۰ یا ۲۰۰ یہ مرض مزمن ہوتا ہے ۔
عارضی ابھار ہو تو مندرجہ بالا ادویا ت سے ٹھیک ہو جاتا ہے ۔رمد اگرطول پکٹر جائے اور عام ادویات سے درست نہ ہو رہا ہو تو اس کا سبب یا آتشکی مزاج ہو گا یا سوزاکی مزاج ۔ان دونوں اسباب کی صورت میں ہپوزینپم ۳۰ شافی ثابت ہو گی ۔ ان دو اسباب کے علاوہ اگر آنکھ میں زخم ہو جائے تو کالی بائیکرومیکم ۳۰ مفید ثابت ہو گی ۔ پیپ کا مواد بننے لگے تو پیپر سلفر ۳۰۔ آنکھوں کے کونوں ( کمیشر ز) میں شگاف ‘چھوٹا سا ہو جا تا ہے ۔اس کے لئے گریفائٹس ۳۰ دیں ۔
پپو ٹو ں پر گو ہنجنی ‘بدر کی بھی کہتے ہیں (سٹائی ) نکل آئے تو پلساٹلا ۳۰ بار بار نکلے ‘ اکثر پیپ بنتی ہے اور پھٹ کر بہ جاتی ہے اور اسی طرح بار بار ہو تو ہپپر سلفر ۳۰ یا سٹیفس ۳۰ دینی چاہیے ۔بعض یہ رسولی کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ او رکبھی ویسے رسولی ‘چھوٹی ہوتی ہے ۔ نکل آتی ہے (کلازئین ) اس کی قابل اعتماد دوا سٹیلس ۲۰۰ ہے یا کلکیر یا کارب ۲۰۰
پپوٹوں میں فالج کی سی کیفیت پیدا ہوجائے اور لٹک جائیں ( ٹوسس) جیلسییم ۲۰۰ دیں ۔
پپوٹے اندر کی طرف یا باہر کی طرف خم کھا جائیں (اندر کی طرف انٹروپین ‘ باہر کی طرف ایکڑوپین )
( لوگ پڑبال کہتے ہیں ) دوا ہے بوریکس ۳۰ یا ۲۰۰ ۔ آنکھوں کے اندر ناک طرف آنسؤں کی تھیلی (لیکرائیمل سیک ) ہوتی ہے ۔ اس کے ورم کے لئے ۔ پلسائلا ۳۰ ۔کلیمیٹس ۳۰ اس تھیلی کا عارضہ اکثر نو مولود بچوں میں دیکھا گیا ہے ۔
سپر نگ کٹار۔ آنکھوں کی بڑی ضدی بیماری ہے۔ ایلو پیھتی والے اسے لاعلاج قرار دیتے ہیں ۔ آنکھیں اکثر رہتی ہیں ۔ان میں کھجلی کم و بیش ہوتی ہے۔ بعض اوقات گد بھی کرتی ہیں ۔موسم گرما میں اس کا زور ہوتا ہے۔ ٹھنڈک آنکھوں کو سکون دیتی ہے ۔دوا پلسائلا ۲۰۰ یا 1M یقینی ہے ۔
آنکھوں پر سفیدی چھا جائے (اوپییٹی ) اس کے لئے ۔ سلیشیا ۲۰۰ ۔کلکیریا کارب ۲۰۰ میگ کارب ۲۰۰ یو فریزیا ۳۰۔ سفید موتیا (کیٹا رکٹ ) کے لئے ۔کلکیر یا فلور x۱۲ ‘سلشیا x۱۲ اور آنکھوں میں صبح و شام ڈالنے کے لئے سائنیریریا آئی ڈراپ ۔کونیم ۲۰۰( بوجہ چوٹ)
کالا موتیا ( گلاکوما) کے لئے فاسفورس ۳۰ یا ۲۰۰ ۔درد کے لئے کالوسنتھ ۳۰۔
(سٹرابسمس) بھینگا پن ( سکوئنٹ ) کے لئے ۔ الیو مینا ۲۰۰ ۔سائیکلامن ۔ جیبو رانڈی ۔
بینائی کے عوارضات۔ دور کی کمزور ہو (مائیو پیا) یا نزدیک کی ( پائپر مروپیا ) ہو سبب اس کا موروثی مزاج ‘ عام طور پر سر طانی یا مدقوق ہوتا ہے۔ میں نے کارسنوسن ۲۰۰ سے بہت سے لٹرکو ں اور لٹرکیوں کی عینک اتر وائی ہے ۔ آزما کر دیکھ لیں ۔ ورنہ دیگر اسباب معلوم کریں ۔
صر ف ضعف بینائی میں ‘ جبکہ بینائی سے کام لینے ‘ پڑھنا لکھنا یا ٹی وی دیکھنا یا سلائی وغیر ہ کرنے سے سر درد یا آنکھوں میں درد ہو اور کام نہ ہو سکے تو روٹا ۳۰ یا ۲۰۰ کبھی مایو س نہیں کرتی ۔
دن کو کم دکھائی سے ۔ بوتھر وپس ۳۰ ۔ رات کو کم دکھائی دے ۔ بیلا ڈونا
دھندلا دکھائی دے ۔ ٹبیکم ۳۰ اندھیرا دکھائی دے ۔دیکھئیے ‘اندھاپن‘
ایک کے دو دکھائی دیں ۔ سفلینم ۲۰۰۔ جلبسییم ۔فاسفورس۔ ( ڈپلوپیا)
نصف نظری۔ آدھا دکھائی دے ( ہپی اوپیا ) ٹائی ٹینم ۳۰۔ نیٹرم میور۔ لیکیسس
ناخنہ ( ٹیر سیجیم ) ۔رہٹا ینا ۳۰ ۔زنکم۳۰ ۔سلفر ۔ ڈھیلے خود بخور د حرکت کریں (نسٹیگمس)
اگاریکسں ۲۰۰ ۔میگ فاس ۲۰۰۔ کو وے (کینتھائی ) آنکھوں کے کونے ۔ بیڈیا گا ۳۰
ان میں کھجلی یا درد ہو ۔دیگر ادویا ت ۔گیمبوجیا ۳۰ ۔ سنابیرس ۳۰۔ کالی نائیٹریکم
اندھا پن ۔ باسؤ سائمس ۔سٹرامونیم ۔کونیم ۔ سلشیا ۔ اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جانا ۔ بیلاڈنا ۔اوٹپیم (امبلائی اوپیا ۔اموروسیس) ۔فاسفورس
چکاچوئد ۔ سلیشیا ۔ کالی کارب ۔ دھندلاپن ۔سلیسیا ۔ پلسائلا ۔کاسنبکم ۔ کنینس۔ یوفر یز یا ۔ فاسفورس ۔ لکیم ٹا ئیگر نیم ۔ تارے دکھائی دیں ۔ بیلا ڈونا ۔ مکھیاں سی ‘کالے نقطے وغیرہ ۔ سڑامونیم ۔فاسفورس ۔ چیزیں بڑی دکھائی دیں ۔ فاسفورس ۔اوکسالک ایسڈ ۔ نکس وامیکا
چیزین چھوٹی دکھائی دیں ۔ پلایٹنا
دور کی بینائی کمزور ۔فاسفورس ۔فائسوسیٹگما ( مائی اوپیا) ضعف بینائی ۔ جیبو رانڈی ۔فاسفورس(ٹنشن)
رنگدار دکھائی دے ۔ فاسفورس ۔ چمکدار دکھائی دے ۔ سفلینم
ایک آنکھ سے دیکھنا ۔ فاسفورس ۔ ٹیڑھا دکھائی دے ۔ نیٹرم میود۔ سلفر آیوڈائڈ ۔فاسفورس
زاویائی نقص (اسٹگماٹرم ) للیم ۔ٹیوبر کیو لینم ۔
اماؤورسیز۔ (اندھاپن) رفتہ رفتہ اوراچانک بھی ہو سکتاہے۔ بینائی میں نقص واقع ہونے لگے تو محتاط رہیں ۔ ایمبلائی اوپیا۔ (نقص بینائی) یہ خطر ناک علامت ہے اس کا انجام اندھا پن بھی ہو سکتا ہے ۔ آنکھوں کے ڈھیلے خود بخود متحرک (نسیٹگمس)
رنگ مختلف نظر آئیں یعنی رنگدار دکھائی دے ۔ بیلاڈونا ۔سنٹونن۔فاسفورس
بینائی کے تمام نقائص میں مندرجہ ذیل ادویات کی علامات متعلقہ کو بڑی اہمیت دیں ۔
فاسفورس ۔اوکسالک ایسڈ۔ نکس موسکاٹا۔ فائسو ستگما۔ للہم ۔ حبیلسیم ۔رونا۔ سنٹو نن۔ بیلاڈونا ۔ ٹبیکم ۔ موروثی مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے ۔ ٹبو بر کیو لیٹم بابسیلینم ۔کارسفوس ۔
(بینائی کے بہت سے عوارضات کے لئے نقتھا لینم نہایت مفید ثابت ہوئی ہے ) یو تھر وپس
گوہنجنی ۔بدرکی (سٹائی ) پپوٹو ں پر پھنسی نکلتی ہے۔ اور اکثر بار بار نکلتی ہے ۔ایک پھٹ کر بہ جاتی ہے ۔تو دوسری نکل آتی ہے ۔ (دیکھئیے آنکھیں)
مزمن نہ ہو توپلسائلا ۳۰ دیں۔اگر بار بار نکل رہی ہو ۔ تو ہپیر سلفر ۳۰ یا ۲۰۰ دیں ۔بعض اوقات یہ پھنسی پھٹ کر بہتی نہیں بلکہ رسولی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اسے کلازئین کہتے ہیں ۔ دوا اس کی سٹیفس ۳۰ یا ۲۰۰ ہے ۔
بدرکی ہو رسولی ‘آنکھ کے پپوٹو ں پر نچلے با اوپر کے پپوٹے پر کہیں بھی نکل سکتی ہے ۔
چہرہ (فیس) FACE. چہرہ باطن کی تصویر ہے۔اسے غور سے دیکھیں بہت کچھ معلوم ہو جائے گا۔ بھر بھراہٹ ( اوڈیما) گردوں کی طرف دھیان دیں ۔
ایپس ۳۰۔ آرسینک ۳۰ ۔آنکھوں کے نچلے پپوٹے ۔ایپس ۔اوپر کے ۔کالی کارب ۔دونوں ۔فاسفورس
ہلکے آنکھوں کے گرد یا نیچے ۔سیاہی مائل یا نیلے ۔سائنا ۲۰۰ ۔سینٹونن۳۰ ۔ تھوجا۔
چہرہ نیلگوں ۔ کاربو و نیج ۳۰ ۔ کیو پرم ۳۰( بچوں میں ٹسنجی دوروں میں ) ویسے دل اور دوران خون کی طرف توجہ دیں ۔ جھائپیں ( چھایاں ۔ فریکلز ۔ لیور سپائس) لائیکو پوڈیم ۳۰ یا ۲۰۰ سیپیا ۳۰ یا ۲۰۰
کیل ۔پھنسیاں (ایکنی ) انٹیم کروڈم ۳۰۔ پلسائلا۳۰ ۔تھوجا ۲۰۰ (مزمن یا خبیث) ریڈیم ۳۰ یا ۲۰۰ (خبیث خارش ہی ہو )
بل (رنکلز) پڑ جائیں قبل از وقت ۔ لائیکویوڈیم ۲۰۰۔ چہرہ کبھی سرخ کھبی سفید ۔فہرم ۳۰
مرجھا یا ہوا ۔ نیڑم میور ۳۰ یا ۲۰۰ ۔
غشی ۔بے ہوشی (فیتنگ ) FAINTING ۔ بذات خود مرض نہیں ہے ۔مختلف امراض کی علامت ہے ۔فوری طور پر ہوش میں لانے کے لئے موسکسQبڑی زود اثر دوا ہے ۔ باقی ادویات حسب امراض ان کے زیر عنوان درج ہیں ۔
پاؤں (فیٹ) FEET. پاؤں کی اپنی مخصوص بیماریاں کوئی نہیں ۔ ریح کے درد ہو سکتے ہیں ۔ اس کے لئے متعلقہ عنوان دیکھ لیں ۔ کچھ احساسات ہیں ۔
جلن ( تلووں میں ) سلفر ۳۰ ۔ ٹھنڈے ۔ کاربوریج ۳۰
خدر(سن ) ۔ ربسٹاکس ۳۰۔ پلا ئینا ۳۰
بخار۔ (فیور ) FEVER. مختلف قسم کے بخار امراض کے نام کے ساتھ درج کئے گئے ہیں ۔ لیکن پیشتر اس کے کہ بخار کی تشیحص ہو علامات اور ادویہ درج ذیل ہیں ۔
بخار ۔سر درد۔ قبض۔ پیاس۔ برائیونیا ۳۰۔ جسم میں درد ۔ اسہال بدبو دار ۔ بیٹشیا ۳۰
جسم میں درد ۔سر درد۔ پسینہ ۔ پیاس ندارد۔ آنکھوں میں درد۔ جیلییم ۳۰
اچانک سردی لگ جانے سے ۔بے چینی ۔پیاس ۔ کلا خراب کھانسی ۔اکونائٹ ۳۰
گلے میں سوجن ۔سر درد ۔ بیلا ڈونا ۳۰ بچوں میں دانت نکالتے ہوئے ۔ بیلاڈونا ۳۰
ہمیو فیلیا۔ HAMEOPHILIA.
خون کا پیدائشی مرض ہے ۔عام طور پر جب بچہ کھیلنے کو دنے کی عمر میں پہنچتا ہے ۔ تو ظاہر ہوتا ہے ۔ذراسی چوٹ لگی ناک پر خون بہنے لگا اور پھر رکنے میں نہیں آیا۔ خون میں انجماد خون کرنے والے جزو کی کمی بتائی جاتی ہے۔ اکثر جسم پر کہیں نہ کہیں نیل پر جاتے ہیں ۔ بچے کا چہرہ بے خون سفید رہتا ہے۔ میرے پاس چار بچے اس مرض کے آئے ۔سب کی عمرتقریبا تین سے پانچ ‘چھ برس تھی ۔ چاروں فاسفورس ۳۰ کی صر ف ایک ایک خوراک سے اب تک ٹھیک ہیں اب وہ نوجوان صحت مند ہیں ۔ علاج کے دوران میں دیکھا گیا کہ خون تو پھر نہیں بہا لیکن جسم کے رنگ جوانی میں بھی سرخی مائل نہیں ہوئے ۔پوچھنے سے معلوم ہوا کہ خاندان ‘یعنی خونی مزاج سرطانی ہے ۔چاروں ہی کا ۔ سب کو ہپوڑپنیٹم ۳۰ کی صرف ایک دفعہ ایک خوراک دی گئی ۔ اور نیل ختم رنگ میں سرخی آ گئی ۔
ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ اکثر مزمن امراض میں مرض کا سبب ایک بنیادی ہوتا ہے اور دوسرا فوری یا ثانی ۔مثلا اسی مرص ہیموفیلیا کا بنیادی سبب سر طانی مزاج تھا جس کے سبب خون میں انجماد خون کے جزو کا فقدان ہوا جو علامات ظاہر ہونے سے معلوم ہوا ۔ ایک اور مثال یہ کہ ایک شخص کو نزلہ کھانسی کی اکثر شکایت ہو جاتی ہے ۔ذرا سی سردی لگی یا ٹھنڈی یا ترش کھانے پینے کی اشیاء کا استعمال ہوا اور اعضائے تنفس کے کسی مقام کی نزلاوی جھلیوں نے ان کا اثر لیا۔ ورم کی کیفیت پیدا ہو گئی ۔ نزلہ کھانسی کی شکایت ہو گئی ۔
بنیادی مزاج مدقوق تھا۔ جس کی وجہ سے نزلاوی جھلیاں متاثر تھیں ۔ یعنی ان کی ساخت میں ضوف آپکا تھا ۔ کہ سردی یا سرد اشیاء اسباب ثانی تھے۔ یعنی نزلاوی جھلیوں کی غیر معتدل ساخت کی حیثیت ثانوی تھی اور فوری سبب سردی اور سرد و ترش اشیاء بنتی تھیں ۔
اس کا ثبوت سورینم ۲۰۰ یا ٹیو بر کیو لینم ۲۰۰ یا ہزار کی صرف ایک خوراک نے بہم پہنچا دیا ۔یاد رکھیں کہ سیورا اور سکرفولا دونوں حقیقی بھائی ہیں (سکرفولا‘ ٹی بی کی تما م اقسام کا مجموعہ ہے ) ( سورا بڑا بھائی ہے سکرفولا غیر حاضر ہے لیکن سورا موجود ہے ۔ہر انسان میں سورا اس وقت تک موجود رہتا ہے۔ جب تک اسے ہومیو پیتھک ادویا ت سے ختم نہ کر دیا جائے۔
ورنہ موت کے ساتھ مرتا ہے ۔ سورا سے انسانیت کو نجات مل سکتی ہے۔ اگر دوسرے علاج کے طریقے بالکل معدوم ہو جائیں ۔ انسانی زندگی میں امن و سکون کبھی قائم نہیں ہو سکتا جب تک تمام انسانوں کا مذہب ایک نہ ہو جائے ۔ ایسا نہ ہونے کا سبب شیطان ہے ۔ گو یا طبی دنیا کا سورا شیطان ہے ۔اس کے ہونے کا سبب یہ ہے کہ دوسرے علاج کے طریقے موجود ہیں ۔
انسانوں کا مذہب ایک ہو جائے تو شیطان ختم ۔طریقہ علاج صرف ایک ہومیو پیتھی رہ جائے تو سورا ختم ۔
ناسور (فسچولا) FISTULA.
زیادہ تر ہڈی کا پرانا زخم ہے جس سے پتلا یا گاڑھا مواد بہتا رہتا ہے۔ گوشت کا ناسور بھی ہوتا ہے۔ مگر کم ۔اکثر بہتا رہے تو درد نہیں ہوتا ۔ بہنا رک جائے تو درد ہوتا ہے۔ اس کا مزاج اکثر مدقوق ہوتا ہے ۔معقد کا لاسور (جسے بھگندر کہتے ہیں ) دانت کا ناسور ۔ہڈی کا ناسور (کہیں بھی ہو سکتا ہے )جسے گھبیر کہتے ہیں ) عام طور پر ران کی ہڈی یا کولھے کی ہڈی یا ریڑھ کی ہڈی میں ہوتا ہے۔ پہلے ورم پیدا ہوتا ہے۔ پھر وہ پھٹ کر بہنے لگتا ہے۔ اور اس کا بہنا ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ۔
زیادہ مستعمل کا میا ب ادویات ہیں فلورک ایسڈ ۔سلیشیا۔ بسکیینم ۔ (دوا کی طاقت ۲۰۰ یا اس سے اونچی )کلکیر یا فلور ۲۰۰ ۔ٹیو برکیو لینم ۔مدقوق مزاج ہو تو بیلینم یا ٹیو برکیو لینم کے بغیر آرام نہیں آئے گا۔
گنگرین۔ GANGRENE. ہاتھ یا ہاتھ کی انگلیوں ‘پاؤں یا پاؤں کی انگلیوں میں ورم کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ مقام ماؤف سیاہی مائل رنگ اختیار کر تا جاتا ہے۔
درد بھی ہوتا ہے اور مقام ماؤف بے جان سا بھی محسوس ہوتا ہے۔ زیادہ تر ذیابیطش کے مریضوں کی بیماری ہے۔ شوگر پر قابو نہ پایا جا سکے تو اس مقام سے کافی پیچھے ہٹ کر بازو یا ٹانگ کو کاٹ دیا جاتاہے۔ تاکہ جسم کو مجموعی طور پر پہچایا جائے۔ مقام ماؤف سیاہ اور بوسیدہ ہو کر اوپر کی طرف پھیلتا ہے۔ پورے بازو یا ٹانگ کو بوسیدہ کر کے مردار کر دینا ہے ۔اس لئے کاٹنے کا عمل نا گزیز ہو جاتا ہے۔ میں نے لیکیس ۳۰ اور ۲۰۰ سے بہت سے مریضوں کے اعضاء کاٹنے سے بچائے ہیں ۔
معدہ (سٹومک ) STOMACH. اگر موروثی مزاج سبب نہ ہو تو معدہ کی عام تکا لیٹ بوجہ بد پر ہیزی ہوتی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ غذا کی بے قاعدگی یا بد پر ہیزی کی وجہ سے معدہ میں اکثر تیزابیت پید ا ہوتی ہے ۔ غذا میں خمیر سے اٹھتا ہے اور ہوا پیدا ہونے لگتی ہے ۔یہ ہوا پیدا ہونے کا سلسلہ آنتوں میں بھی جاری رہتا ہے۔ غذا کی ماہیت غیر معتدل ہو جاتی ہے۔ پیٹ میں اپھارہ پیدا ہوجاتا ہے۔
بزاز عام طور پر غیر منہضم خارج ہوتا ہے۔بعض اوقات قبض کی شکایت ہو جاتی ہے۔ تیزابیت ہی کی وجہ سے ریح کے درد ‘گردوں مثانہ اور پتہ میں پتھری ‘معدہ میں زخم یا آنتوں میں ذخم جیسے عوارضات پیدا ہو جاتے ہیں ۔
معدہ میں درد ہو ۔ آرجنٹم نائٹریکم ۳۰ ۔یہ معدہ کی ورم کی کیفیت کے لئے بھی شافی ہے ۔ درد اگر خالی معدہ میں ہوا ور کھانے سے وقتی طور پر آرام ہو تو اناکارڈیم ۳۰ ( یہ زخم معدہ کی علامت ہے)
معہ میں جلن ہو پلساٹلا ۳۰ ۔سلفیور ک ایسڈ۳۰ تیزابیت کے لئے مفید ادویات ہیں ۔پسلاٹلا ۔سلفیورک ایسڈ ۔روبینیا۔ کاریوویج۔ میڑم فاس۔ فم معدہ میں ابلے ہوئے انڈا ۔ السر ۔ ایٹرو پین سلف۔
غدودیں(گلینڈز) GLANDS. غدود چھوٹے بڑے بعض بہت چھوٹے بعض بڑے ‘لبلبہ ‘جگر اور گردے وغیرہ بھی غدود میں شمار ہوتے ہیں ۔ اس لئے کہ غدود کا فعل رطوبات کو خارج کرنا ہے۔یا دوسرے الفاظ میں ان میں سے رطوبات خارج ہوتی ہیں
مثلا جلد کے نیچے نہایت چھوٹے جو روغنی رطوبت اور پسند خارج کرتے ہیں ۔ پستان کے جو دودھ خارج کرتے ہیں ۔یہ ہر جگہ ضرورت کے مطابق رطوبات خارج کرتے ہیں ۔ جو رطوبات خارج ہوتی ہیں وہ خوں میں شامل ہو جاتی ہیں۔ اور اس ذریعہ سے اعضاء کی ضرورت پوری کرتی ہیں۔
بعض رطوبات بلا واسطہ خارج ہوتی ہیں ۔ جیسے پستان میں دودھ جلد پر پسینہ وغیرہ ۔چند غدود بڑے اہم ہیں ۔غدیدہ ( ایڈی نائڈز) حلق کے اگلے محراب کے اندر لوزتین (ٹانسلز واقع ہیں۔اسی طرح حلق کی چھت کے سامنے نا ک کے غار کے پیچھے حصہ اور نرم تالو کی پشت میں دو غدو ہیں ۔جنہیں بوزہ حلق (فرنجیل نانسلز)کہتے ہیں ۔ یہ ٹانسلر ۱۲ سال کی عمر میں خود بخود جذب ہو جاتے ہیں اور ناک کے پچھلے حصہ کے سوراخ کو بند کر دیتے ہیں ۔ ان غدو کے ورم کے ایڈی نائڈز ہی کہا جاتا ہے۔
یہ چھوٹے بچوں کا مرض ہے ۔ بچہ دودھ پیتے وقت ناک سے سانس نہیں لے سکتا۔ باربار دودھ پیتے ہوئے منہ پستان یا نپل سے لگا دیتا ہے ۔ بچہ اکثر منہ کے راستے لیتا ہے۔ جس کے سبب ہونٹ موٹے ہو جاتے ہیں ۔ نیند میں خراٹے لیتا ہے۔ سانس لینے میں دقت محسوس کرتا ہے۔
جس کے باعث بعض اوقات سینہ پڑھا ہو جاتا ہے۔ آواز میں فرق پڑ جاتا ہے۔ رنگ زرد۔ دبلاپن ۔ منہ سے بدبو۔ کان درد۔ نزلہ ۔کھانسی ‘نمونیا جسے عوارضات سے لاحق ہو جاتے ہیں ۔سوتے میں بچہ چونک جاتا ہے۔ کند ذہن اور حواس بافتہ ہو جاتا ہے۔
تھائرائڈ گلینڈ ۔یہ ڈھال نما غدود حلق میں ہو اک ی نالی کے بالائی حصہ کے سامنے واقع ہے ۔ اس کے فعلی بکاڑ سے یا اس کے بڑھ جانے سے بڑے سنگین امراض پیدا ہو جاتے ہیں ۔مثلا گلبرڑ۔ دل کے امراض ۔میکسوڈیما۔ کریٹسے نزم ۔ ہارمونز مثاثر ہوتے ہیں ۔
دیوانگی سی جو جاتی ہے ۔ جسم کی پرورش ناقص ہو جاتی ہے۔ تمام ہدیوں بڑھ جاتی ہیں ۔ مٹاپا بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔
گردوں کے کلاہ (بالائی مقام) پر دو غدو ( سپر ارئیل گلینڈز) ہیں جو تھائرائڈ گلینڈ کی طرح بڑے اہم ہیں انہی سے ایک دوا کارٹیزوں تیار کی جاتی ہے ۔ جو ایلو پیتھی کا امت دھارا ہے ۔ اور اس کے بد اثرات کی کوئی انتہانہیں ۔ اس کے بعددیگر ادویا ت اثر ہی نہیں کرتیں ۔ ریح ۔گنٹھیا ۔ درد‘ کوئی بھی ہو۔
رحم کا عضلات میں سیکٹر پیدا کرتا ہے اور بلڈ پریشر بڑھاتا ہے ۔
پرائیت گلینڈ ( غدومذی) قفیب کی نالی کے گرد ( اندرونی ) غدود ہے ۔عام طور پر بڑھاپے میں بڑھ جاتا ہے ۔یا متورم ہو جاتا ہے۔ اور پیشاب میں دقت اور رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے
سپرا رینل گلینڈز۔ دیکھے پچھلا صفحہ ۔ گردوں کے ۔ ۔۔۔
سیلوری گلینڈز۔ اندرون جبڑا منہ میں ہیں جو رال شکل کی رطوبت خارج کرتے ہیں ۔ جو معدہ میں غذا ہضم کر نے میں مدد دیتی ہے۔ (وہ لال جو ترش یا مزے دار چیز سے منہ سے پانی آ جاتا ہے۔ اسی طرح پیٹ کے اعضاء میں کئی غدور ہیں ۔جو رطوبات کو جذب اور خارج کرتے ہیں ۔
مجموعی طور پر غدو کا کا م رطوبات کو جذب کرنا اور رطوبات کو خارج کرنا ہے۔ خون میں سے رطوبات کو جذب کرکے ان کی نوعیت کو حسب ضرورت بدن تیدیل کر کے خار ج کرتا ہے۔
گلہڑ(گائڑ) (تھائیر ائڈزم ) GOITRE.
گلے کے اندر تالو کے نزدیک حلق کی طرف ایک چھوٹا سا غدود ہے جونہائیت اہم ہے۔ سارے جسم کی پرورش کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ سوج جاتا ہے۔ اور حلق کے باہر گردن کے سامنے کا حصہ پھول کر بڑا ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات آنکھوں کے ڈھیلے باہر کی طرف آ جاتے ہیں اسے ایکسا فتھلمک گائڑ کہتے ہیں ۔ مریض کے دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے ۔کوئی حرکت سے جو مزید بڑھ جاتی ہے۔ اور سانس پھول جاتا ہے۔
اس سے کئی امراض پیدا ہو جاتے ہیں ۔ یعنی پیدا ہو سکتے ہیں ۔ان کا پیدا ہونا ضروری نہیں ہے۔ مثلا مٹاپا۔ تمام ہڈیوں کا بڑھ جانا۔ دل کا بڑھ جانا۔ یوں سمجھ لیں کہ بڑھ جانا‘ مخصوص علامت ہے کیونکہ اس کا کنٹرول پرورش پر نہیں رہتا ۔خود مریض ہو گیا ہے !
لٹرکپن میں یہ مرض علاج سے ٹھیک ہو جاتا ہے ۔بڑی عمر میں ٹھیک ہونے میں بڑا وقت لیتا ہے۔ اس کے بعد تھاٹیرائڈینم ۳۰ ۔اور لائیکوپس ۳۰ میں نے آیوڈیم سے کوئی مریض ٹھیک نہیں کیا ۔استعمال کیا ہے لیکن نا کام۔
سوزاک (گونوریا) GONORRMOEA.
پیشاب کی نالی میں زخم ہو جاتا ہے۔ پہلے درد کے ساتھ اکثر خون ملا پیشاب آتا ہے۔ پھر درد کے ساتھ پیپ آتی رہتی ہے ۔یہ نتیجہ ہوتا ہے انتہائی جنسی بے راہ روی کا ۔پھر مرد سے عورت کو اور عورت سے مرد کو یہ مرض ہوتا رہتا ہے۔
ایلو پیتھک یا کسی دیگر علاج سے درد اور پیپ تو ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ مرض جسم میں سرائیت کر جاتا ہے۔ اور مختلف اعضاء میں کئی علامات اور موذی امراض پیدا کر دیتا ہے۔
مثلا نزلہ ‘ دمہ ‘ ٹی بی ‘ گنٹھیا اور کئی دیگر امراض اور اس کے اثرات نسلوں میں منتقل ہوتے رہتے ہیں ۔ سوزاک پرانا ہو جائے تو پیشاب کی نالی سے پیپ آتی رہتی ہے ۔لیکن اکثر درد نہیں ہوتا۔ بعض اوقات درد بھی ہوتا ہے۔ ابتداء ہی میں اس مرض کو ختم کرنا ضروری ہے ۔ زخم کو وہیں مندمل کر دینا اس کا صیح علاج ہے ۔ اور یہ ہو میو پیتھی کر سکتی ہے۔ تھوحا ۳۰ پہلی دوا ہے۔ اور دوسرے نمبر پر کنینس سٹائیوا۳۰۔
گنھٹیا(گاؤف) GOUT. ظاہرا یہ جوڑوں کے درد اور ورم سے پہچانا جاتا ہے۔ لیکن حقیقتا جو زہر یلا مواد جوڑوں پر اثر انداز ہوتا ہے وہی اگر کسی اندرونی عضو پر اثر انداز ہو تو نہایت موذی اور بعض اوقات جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
خاص طور پر یہ دل کو متاثر کرتا ہے ۔ اس مرض میں بھی موروثی مزاج کا دخل عام طور پر ضرور ہوتا ہے۔ خاص طور پر سرطانی مزاج کا ۔میں نے بہت سے مریض اس مرض کے رسنوسن ۲۰۰ سے ٹھیک کئے ہیں ۔اس کا رد عمل عموما ہوتا ہے اور شدید ہوتا ہے۔
لیکن اس کے بعد رفتہ رفتہ مریض رو بہ صحت ہوتا چلا جاتا ہے۔ دوسرا سبب اس کا سوزاک کا دب جانا ہے۔ جس کا قصوروارمریض خود ہوتا ہے۔
ایسے مریضوں کے لئے میڈورینم 1M یا 10M میں مفید دوا ثابت ہو ئی ہے۔ اس کی علامات دن میں زور پکٹرتی ہیں اور رات کو کم ہو جاتی ہیں ۔ اگر آتشک کے دب جانے سے یہ مرض عو د کر آئے تو سفنینم 1M کارگر ہے ۔اس کی علامات ‘یعنی درد وغیرہ رات کو زور پکٹرتی ہیں ۔
اگر جوڑوں کا ورم بگڑ جائے تو جوڑ سوج کر پتھر ا جاتے ہیں اور ان کی شکل عجیب بے ڈھبی سے ہو جاتی ہے ۔ اس کے لئے تھوحا۲۰۰ اور کلکیر یا فلور ۲۰۰ مفید ہیں ۔
بواسیر(پائیلز‘ہیمو رائڈز)PILES(MAEMORRHOIDS) یہ مرض بڑا عام اور تکلیف دہ ہے ۔مقعد میں با ہر کی طرف با اندورن مقعد یا دونوں مقام پر مسے بن جاتے ہیں۔ یہ مسے کوئی نئی ساخت نہیں ہوتے ۔بلکہ مریض کی اپنی ہی وریدوں میں وہاں غلیظ خون جمع ہو جاتا ہے۔ جو مسوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
بواسیر خونی بھی ہوتی ہے اور اندھی بھی جس میں خون نہیں آتا اسے بادی بواسیر لو گ کہتے ہیں ۔ خون بعض اوقات زیادہ آتا ہے ۔بعض اوقات کم ۔درد کم بھی ہوتا ہے اور بہت زیادہ بھی ۔قبض ہو تو یہ زیادہ تکلیف دیتی ہے ۔خون اور درد تو دواؤں سے ٹھیک ہو جاتا ہے۔ لیکن مسوں کو ختم کرنا بہت لمبا وقت لیتا ہے۔ لو گ اکثر اس کا اپریشن کوا لیتے ہیں ۔
جس کے نتائج بڑے خطر ناک ثابت ہوئے ہیں ۔ کیونکہ غلیظ خون کے جمع ہونے کی وریدیں تو کاٹ دی جاتی ہیں اور یہ غلاظت کسی اور عضو کو بیمار کر دیتی ہے۔ خاص طور پر پھیپھڑوں کو۔
خونی بواسیر کے لئے ہما میکس ۳۰ عام مفید دوا ہے۔
اندھی بواسیر کے لئے آئسکوئس Q یا ۳۰ درد ہوتا ہے ۔خون آئے بھی تو بہت کم آتا ہے ۔درد شدید ہو ‘خون آئے یا نہ آئے سڑونشیا ۳۰ بڑی کارگر دوا ہے۔ مسے انگور کے خوشے کی طرح باہر نکل آتے ہوں تو آیلو ۳۰ دیں ۔
بال(ہیئر) HAIR. بال گرنا بہت عام ہے۔ یہ علامت عام طور پر بالوں کو اپنی غذائیت نہ ملنے کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ یا سر میں لفہ پیدا ہونے سے بال گرنے لگتے ہیں ۔ بعض اوقات کھبی بھی ہوتی ہے۔ بعض امرض مثلا ٹائیفائڈ بخار وغیرہ کے بعد بھی بال گر جاتے ہیں ۔ سر کے بال بلکہ تمام بد ن کے بال گر جاتے ہیں ۔ جس کا سبب موروثی مزاج ہوتا ہے ۔زیادہ تر آتشکی مزاج ہوتا ہے۔ سر کے بالوں کا صفایا ہو جائے تو بھی یہی مزاج ہوتا ہے۔
بال قبل از وقت سفید ہونے کی شکائیت بڑی عام ہے۔ کم عمر میں لڑکے لٹرکیوں کے بال سفید ہونے شروع ہو جاتے ہیں ۔ میرے خیال میں موجود ہ پیچیدہ اور ہیجانی زندگی ہے ۔بچوں اور بڑوں کے تھیپڑوں نے بڑوں اور بچوں کو بد حواس کر رکھا ہے۔ زندگی کی چکی کی رفتا ر بہت تیز ہو چکی ہے جس میں لوگ بد حواس ہو کر بستے چلے جا رہے ہیں ۔ عمر کا زوال بڑ ی جلدی اور تیزی سے ہو رہا ہے ۔
بال جلدی سفید کیوں نہ ہوں ۔طوفان برپا ہو جائے تو بچے اور بڑے سب متاثر ہوتے ہیں ۔ اس طوفان کو روکا تو نہیں جا سکتا ۔ اس کے اثرات کا علاج ہو سکتا ہے۔
بفہ یا خشکی سے بال گریں ۔ فلورک ایسڈ بال تیزی سے اور زیادہ گریں ۔فاسفورس ۔
سارے بدن کے بال گرنے لگیں یا گر جائیں ۔فاسفورس اور سفلینم (اس کے بر عکس بال جسم پر بہت زیادہ ہوں یا لڑکیوں کے چہروں یا جسم پر ہوں ۔ تھوحا۔ میڈورینم قبل از وقت سفید ہو جائیں ۔ فاسفورک ایسڈ بالوں کے سرے پھٹ کردو ہونے لگیں ۔ تھوحا۔ بال الجھے ہوئے ۔میڈ ورینم ۔ٹیو بر کیو لینم
(بال آلجھ جائیں تو کنگھی کرنا مشکل ہو جاتا ہے )
سر (ہیڈ) HEAD. درد سر اتنا عام ہے کہ اس کی دوا تجویز کرنا بذات خود درد سر ہے ۔ یہ سر ہی تو ہے ۔ جس میں مغز ہے جو تمام احساسات کا مرکز ہے ۔
نظام ہاضمہ میں خرابی ہو تو سر درد ۔جگر میں خرابی ہو تو سر درد۔نزلہ ہو تو سر درد دل ‘گردے ‘نسوانی اعضاء ‘غرضیکہ خرابی کہیں اور درد سر موجود ۔سر درد کا سبب معلو نہ ہو تو اسے رفع کرنے کیلئے دوا تجویز کرنا ناممکن ہے ۔
اگر یہ درد مزمن صور ت اختیار کر جائے تو دوا تجویز کرنے میں بڑی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ پہلے اسباب کو لیتے ہیں ۔ خرابی ہاضمہ ۔ نکس وامیکا ۔پلساٹلا۔انئیم کروڈم ( بسیارخوری )
خون کا دباؤ سر کی طرف ۔بیلا ڈونا ۔ گلو نائنم ۔ سردی لگ جائے ۔ اکونائٹ ۔فیرم فاس
گرمی کی لو سے ۔ گلونائنم ۔ نیٹرم کارب نزلہ کا اخراج رک جائے ۔ کالی بانیکر میکم ۔لیکیسس
عصبی درد ۔سائجیلیا(ب) سنگوبزیا (د) آرسینک (مائیگرین) صفراوی درد۔ آئرس ورس۔
درد شقیقہ ۔ دیکھئے عصبی درد
ہرنیا (فقق) HERNIA. پیٹ کے اندر باریطون ( پیری ٹونیم جھلی ہے جس نے آنتوں کو اٹھایا ہوا ہے۔ اس میں جہاں ڈھیلا پن یا شگاف پیدا ہو جائے آنتیں اس مقام میں یعنی اس شگاف یا ڈھیلی شدہ جھلی میں داخل ہو جاتی ہیں اور وہ جگہ باہر کی طرف پیٹ میں ابھر آتی ہے۔ با ناف میں ‘یا فوڈں میں ‘اور فوطوں کا ہجم بڑا ہو کر لٹک جاتا ہے۔ ہرنیا بچوں ‘مردوں ‘عورتوں میں بھی ہو جاتا ہے۔ عورتوں میں ‘ خاص طور پر پیٹ کے مختلف اپریشنوں کے سبب ہو جاتا ہے۔ پیٹ کے اپریشن میں باریطوں کو بھی کاٹنا پڑتا ہے اور وہاں بخیئے باریطون کے پھر کٹ جانے کا باعث بن جاتے ہیں۔ وہاں خلا پیدا ہو جاتا ہے ۔اور اس خلاء میں آنتیں داخل ہو کر پیٹ میں باہر کی طرف ابھار پیدا کر دیتی ہیں ۔
پیٹ میں ناف کا ہرنیا ‘ اکثر بچوں میں ہوتا ہے۔ ابھری ہوئی ناف کو دبانے سے ناف نیچے ہو جاتی ہے۔
دباؤ چھوڑنے سے پھر ابھر آئی ہے۔ بچہ جب روتا ہے تو زیادہ ابھر آتی ہے
اپریشن سے پیدا ہونے والے ہرنیا کا کوئی علاج نہیں ۔پیٹ کے ہرنیا کا اپریشن جہت کم کامیا ب ہوتا ہے ۔ پھر ہو جاتا ہے۔ مردوں میں فوطے کے ہرنیا کا اپریشن
ہچکی (ہکف) HICCOUGE ۔ معدہ میں تشنجی کیفیت پیدا ہونے سے ہچکی آتی ہے ۔ اور اس کا عموما سبب معدہ کاغذا سے پر ہوتا ہے۔ اکثر خودبخود رفع ہو جاتی ہے ۔اگر طول پکڑ جائے تو ہائیڈروسیانک ایسڈ ۳۰ زود اثر دوا ہے ۔موت کی ہچکی کی کوئی دوا نہیں ۔
کسی دیگر مرض میں ہچکی آنے لگے تو اس مرض کا علاج کرنا چاہیے ۔علاج صیح ہے تو ہچکی ٹھیک ہو جائے گی۔
ہرنیا۔ بعض اوقات کا میاب ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ نہیں ہوتا ۔ لائیکو پوڈیم ۲۰۰ سے میں نے دائیں طرف کے فوطے کا ہرنیا بہت دفعہ ٹھیک کیا ہے۔ بائیں طرف کا گریفائیٹس ۲۰۰ سے ۔بچوں کے ناف کے ہرنیا میں سلیشیا نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا ۔ہر نیا کے درد کے لئے نکس وامیکا ۳۰ واحد دوا ہے ۔ سوڈینم ۲۰۰ عد د گاردوا ہے ۔
خصئیے فوطے(ٹٹیکلز سیکروٹم ) TESTICLES.
خصیئے فقیب کے نیچے دائیں بائیں دو بیضہ نما غدود ہیں جو مرد کا مادہ تولید (صنی ) بصورت رطوبت خارج کرتے ہیں ۔ فوطے ان پر جلدی غلاف ہے جس میں یہ محفوظ ہیں ۔
بچوں میں بعض اوقات نیچے فوطوں میں نہیں اترتے ۔ اس کے لئے آورم ۳۰ کامیا ب دوا ہے۔ خصیوں میں درد یا ورم پیدا ہو جائے تو پلسائلا دوا ہے ۔ ورم کی وجہ اکثر سوزاک دب جانے ‘یعنی مادہ سوزاک ‘پیپ نما ‘بہنا رک جانے سے ہوتی ہے ۔ دوا پھر بھی پلساٹلا ہے۔
بعض اوقات خصیئے پتھر کی طرح سخت ہو جاتے ہیں ۔
دوا کلکیر یا فلور کوئنیم سر فہرست ہیں ۔سب موروثی ہو سکتا ہے۔ معلوم کر کے اس کے مطابق علاج کریں ۔
اختناق الرحم (ہسٹیریا) HYSTEREA.
اس مرض کیلئے نفظ ہسٹیریا مستعمل ہے ۔تین بلوغت کے نزدیک جا کر یا اس میں داخل ہو کر لڑکیاں زیادہ لڑکے کم اس مرض کا شکار ہو جاتے ۔اس مرض کی علامات اتنی عجیب ہوتی ہیں۔ کہ جن بھوت یا آسیب کا شبہ کیا یقین ہونے لگتا ہے۔
مریض کو اکثر بے ہوشی کے دورے پڑتے ہیں ۔ لٹرکی ہو تو بے ہوشی کے بعد کبھی ہنستی ہے ۔کبھی روتی ہے کبھی طیش میں آجاتی ہے۔ بے ہوشی میں اس کے اندر اتنی طاقت آ جاتی ہے کہ اس کے ہاتھ میں کو ئی چیز آ جائے تو اس دو مرد بھی نہیں چھڑا سکتے ۔باتیں عجیب و غر یب کرت ہے ۔
بعض ایسی غیب کی باتیں تو با لکل درست ثابت ہو جاتی ہیں ۔
ایسے کیوں ہوتا ہے اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔میرے خیال میں اس عمر میں پہنچ کر جنسی قوت ‘جو حیوانی قوت ہے ۔اور جو چندلڑکوں لڑکیوں میں قدرتی طور پر اعتدال سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ بیدار ہو کر انسانی عنصر پر غالب آ جاتی ہے ۔ یعنی انسانی قوت تمیز‘ احساس ‘شرم و حیا وغیرہ سب پر غالب آ کر حیوان بنا دیتی ہے ۔اور حیوانی حسیں بڑھ جاتی ہیں ۔
حیوانی حسیں انسان کی حسوں سے قدرتی طور پر تیز ہوتی ہیں ۔ بہت سے مثالیں ہیں ۔
آندھی ‘طوفان یا دوباراں نزلہ آنے سے پہلے حیوان شور مچا دیتے ہیں ۔ کتے ‘گھوڑے وغیرہ کی حس آپ نے دیکھی ہو گی ۔ انسان بولتا چالتا حیوان سے اس نے اس کی حس حیوانی جب بڑ ھتی ہے تو یہ بو ل کر بتا دیتا ہے۔ یہ بڑا لمبا مضمون ہے اور الگ مضمون ہے ۔انسان اپنی عقل سے آلے بنا کر جو کچھ معلوم کرتا ہے ۔ حیوان کی حسس آلے کا کام کرتی ہے ۔
مجموعی طور پر ہسٹیریا کی کامیا ب ترین دوا اگنیشیا ۲۰۰ ہے ۔ یعض اوقات بے ہوشی کے دور ے تشنجی ہوتے ہیں اعضاء میں شدید تشنج پیدا ہوتا ہے۔ جس کی مفید شریں دماٹیرئٹولا۳۰ ہے۔
فوری طور پر بے ہوش مریض کو ہوش میں لانے کے لئے موسکس Q استعمال کرنی چاہیے۔ یہ دوا سونگھنے سے بھی مریض ہوش میں آ جاتا ہے ۔
ملیریا بخار(یا نوبتی بخار) MALARIA.
مرطوب آب وہوا اور مرطوب مقامات میں یہ مرض پر وقت موجود رہتا ہے۔ اور بعض اوقات وبائی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ہمارے ملک میں مرطوپ مقامات اور آپ و ہوا زیادہ ہے اس لئے یہاں عام ہے۔
سردی لگتی ہے ۔ پھر گرمی درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ جو بعض اوقات 10c ڈگری سے بھی اوپر چلا جا تا ہے۔ پھر پسینہ آتا ہے ۔ اور بخار اتر جاتا ہے ۔دوسرے دن یادودن چھوڑ کر کبھی کبھی تین دن چھوڑ کر اسی طرح بخار چڑھتا اور اترتا ہے ۔مچھر کو اس کے اسباب میں سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ وہی جرثومہ کا جنون ہے جو بے معنی ہے۔
مرطوبیت میں گندگی کا اضافہ فضااور غذا میں بھی پرا گندگی غذا اور آپ و ہوا انسان میں داخل ہو کر خون کو پراگندہ کر دیتی ہے۔ انسان کی توانائی یہ غلاظت خون سے نکالنے کے لئے کوشش کرتی ہے۔ تو دونوں کی کشمکش سے وہ علامات پیدا ہوتی ہے۔ جو اوپر درج ہیں ۔اسمیں مچھر کا کو قصور نہیں
یرقان (جانڈس) JAUNDICE. یرقان جگر میں خرابی کے باعث ہوتا ہے۔ جگر خون میں زہریلے مواد اپنے اندر جمع کرتا ہے۔ اس مواد سے صفرا پیدا کر کے پتہ میں پھنچتا ہے ۔ تو حسب ضرورت صفراء معدہ میں داخل کرتا ہے۔ جس سے غذا ہضم ہونے میں مدد ملتی ہے۔ خرابی جگر سے یہ صفرء مطلوبہ مقدار میں معدہ میں نہ پہنچے تو خون میں داخل ہو جاتاہے۔ جس کے سبب براز رنگ و سفید ہو جاتا ہے۔
اور جسم کا رنگ ‘ آنکھیں وغیرہ پتلی ہو جاتی ہیں ۔ اگر یہ صفراد خرابی جگر کے باعث معدہ میں زیادہ چلا جائے تو براز کا رنگ سیاہی مائل یا سیاہ ہو جاتاہے۔ جس کی وجہ سے اسے کالا برقا ن کہتے ہیں ۔
جو بعض اوقات جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ یرقا ن نومولود بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کو ہو سکتا ہے۔ بار بار ہو تو یہ بری علامات ہیں ۔کیونکہ اس طرح سرطان کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایسی صحت میں موروثی مزاج کا معلوم کرناضروری ہے ۔
نومولود بچوں کے لئے مرکسال ۳۰ کی صرف ایک خوراک کافی ہے۔ یہی دوا بڑوں میں بھی عام طور پر استعمال کی جاتی ہے اور کامیا ب ہے۔
جب پیشاب کا رنگ بہت پیلا ‘ اسی طرح جسم کا رنگ پیلا ہوجائے اور براز سفید ہو تو میں ہمیشہ کالی میور (کوئی طاقت x۶یا ۶ سے ۳۰ یا x ۳۰ تک) استعمال کرتا ہوں جس نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا ۔
براز سیاہ ہو تو فاسفورس ۳۰ سے بہتر کوئی دوا نہیں ۔ بعض اوقات جسم پر بلا ابھار خشک خارش ہوتی ہے۔ اس کے لئے ڈولیکس ۳۰ واحد دوا ہے۔
نظام بول(یورینرمی سسٹم ) URINARY SYSTEM
دائیں بائیں ‘پیٹ کے ‘دو گردے ‘مثانہ‘ دو نالیاں جو گردوں سے مثانہ میں کھلتی ہیں اور فصیب میں پیشاب خارج کرنے کی نالی ‘یہ اعضاء ہیں نظام بول کے ۔
ہاضمہ کے دوران آبی مواد گردوں کے طرف آتا ہے۔ گردے اسے دو نالیوں (یوریٹرز) کے ذریعے مثانہ میں پہنچاتی ہیں جہاں سے پیشاب کی نالی (یورھرا) کے ذریعے پیشاب کو خارج کرتی ہے ۔
آبی مواد میں بھاری مواد شامل ہو تو وہ گردے میں جمع ہو جاتا ہے۔ جو پتھری کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پتھری چھوٹی ہی ہو سکتی ہے ۔ بڑی لمبی اور مواد لیگ کی شکل میں بھی جمع ہو سکتا ہے۔ گردوں سے یہ پتھری یا مواد نالیوں اور مثانہ میں بھی آ سکتا ہے۔ کئی دیگر امراض گردوں کو مثاثر کرتے ہیں ۔ مثلا دل ‘جگر ‘وغیرہ کے امراض ۔اور گردوں کے امراض کے سبب یہ اعضاء بھی متاثر ہو جاتے ہیں ۔
گردے چھننی کا کا م کرتے ہیں ۔ نظام ہاضمہ میں غذا کے ہضم و جذب ہونے کے دوران آبی مواد گردوں کو ملتا ہے تاکہ وہ اسے چھان کر مثانہ کی طرف بھیج دیں اور وہاں سے اس کا اخراج ہو جائے۔
نظام ہاضمہ میں خرابی ہوتو گردوں تک آنے والا مواد نا قابل اخراج مواد بھی ساتھ لے آتا ہے جو گردوں میں جمع ہو کر ریگ یا پتھری پیدا کرتا ہے ۔ یا گردوں کو نقصاں پہنچاتا ہے ۔اس لئے ہاضمہ کا درست ہو نا ضروری ہے ۔صرف گردوں کے امراض کا علاج کرنا بے گا ر ہو گا ۔
ایک اور وجہ بھی گردوں کے لئے باعث ضرر ہے وہ ہے کثرت جماع ۔اس کا پرہیز بھی لازمی ہے ۔ اب گردوں کے امراض اور ان کا علاج درد گردہ کے امراض اور ان کا علاج درد گردہ عام طور پر ریگ یا پتھری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یا ورمی کیفیات کے سبب۔
پتھری بڑی نہ ہو اس کو خارج کرنے اوردرد کو رفع کرنے کے لئے بریرس زلگیر سQ یا ۳۰ بائیں گردہ کے لئے ۔اور ٹبیکم ۳۰۔ دائیں گردہ کے لئے اوسیم کینم ۳۰ اور لائیکو یوڈیم دونوں گردوں کے لئے کنتھیرس ۳۰ اور اورابینس کنتھیرس میں پیاس ہوتی ہے۔ اور ایپس میں پیاس نہیں ہوتی ۔ مثانہ کے ورم کے لئے بھی یہی دو ادویات ہیں ۔مثانہ کی پتھری کے لئے سارپسر رو۳۰ دیں ۔ پتھری نالیوں میں اٹک جائے تو اطراف کے لحاظ سے وہی ہیں جو گردوں کے لئے ہیں ۔
گردے ۔کام کرنا چھوڑ دیں ۔ زسنجیپرس
نظام ہاضمہ (ڈائجیٹوسسٹم) DIGESTIVE SYSTEM.
غذا کو منہ میں دال کر دانتوں سے چبا جاتا ہے ۔ زبان غذا کو الٹ پلٹ کر نے میں مدددیتی ہے ۔لعاب دہن اس غذا میں شامل ہوتا ہے۔ جو ہضم میں مد د دیتا ہے۔
یہ غذا نرم ہو کر ملقوم (گاہٹ یا اوسوفیگس میں سے گزر کر معدہ میں آتی ہے۔ معدہ کی حرارت اور داخلی حرکت اسے مزید نرم اور قابل جذب بناتا ہے۔ جگر سے پتہ کے ذریعے صفرا اس میں شامل ہو کر اس کو ہضم و جذب ہونے میں مدد دیتا ہے۔ معدہ میں غذا قریبا تین گھنٹے رہتی ہے۔ پھر وہ بارہ انگشتی انت (ڈوآڈینم )کے ذریعے آنتوں میں داخل ہوتی ہے
آنتوں میں بذریعہ غدو حدلمب (لمفیٹک گلینڈز) جذب ہونے لگتی ہے۔ اس میں بھی تقریبا چار گھنٹے لگ جاتے ہیں ۔ چھوٹی آنتوں سے گزر کر بڑی آنتوں میں داخل ہوتی ہے۔ جذب ہونے کا عمل جاری رہتا ہے۔ بڑی آنت کے آخری حصہ (دودہ منقسم ) (ریکٹم ) میں داخل ہو کر بذریعہ مقعد (اینس ) خارج ہو جاتی ہے ۔ خارج والا مواد (فضلہ ‘بزاز) زفیسزیامٹول ) فالتو مواد غذا ہے ۔
جو ضروری اجزا ء جذب ہونے کے بعد بیج جاتا ہے۔ (خیال رہے کہ بڑی آنت کو قولون کہتے ہیں ) نظام ہاضمہ کے امراض بہت سے ہیں ۔ بعض کا ذکر زیر عنوان ‘ بدہضمی ‘ قبض ‘ معدہ ‘ جگر ‘آچکا ہے ۔اب بعض کا ذکر ‘اسہال‘ وغیرہ کا کیا جاتا ہے۔
تیزابیت ( ایسڈیٹی ) دیکھئے صفحہ ۶۷
اسہال (ڈائریا) (جلاب) DIARRHOEA.
بہت سے اسباب ہیں ۔عارضی طور پر یہ شکائت با لعموم بدپرہیزی یا کسی غیر فطری چیز کھانے پینے سے ہو جاتی ہے ۔ پرہیز اور احتیاط سے رفع ہو جاتی ہے ۔بچوں میں بڑوں کی نسبت ذیادہ ہوتی ہے۔
دو برس تک ماں کے دودھ پر پلنے کا فطری حق بچوں کا ہے لیکن اکثر بچے اس حق سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ اور کسی دوسرے دودھ پر پلنے لگتے ہیں ۔ ایسے بچوں کا پیٹ خراب ہی رہتا ہے۔ظاہر ہے کہ ایسے بچے صحت مند و تو انا نہیں ہوتے ۔اگر ماں کا دودھ کم ہے تو دوا سے یہ کمی پوری ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر مائیں صر ف ‘ عورت ‘بن کر رہنے کی دلدادہ ہوں تو اس کا علاج کیا ہو سکتا ہے۔
بچے کو دودھ پلانے کا صیح طریقہ یہ ہے کہ ننھے بچوں کو اڑھائی گھنٹے کے بعد پلایا جائے پھر عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ وقفہ لمبا کیا جائے ۔ رواج یہ ہے کہ بچہ رویا اور دودھ حاضر اس سے بھی بچے کو اسہال کی شکائت ہو جاتی ہے ۔براز (جلاب ) پتلا ‘ بڑا ‘بلا درد‘پیاس ‘کمزوری ۔چائنا گاڑھا یا پتلا ‘درد‘ کھانے پینے کے بعد۔کولوستھ پانی کی طرح پتلا‘ اخراج پحپکاری کی طرح ‘ پیٹ میں درد کے ساتھ۔ کمزوری ۔ کروٹن پتلا ‘بڑا ‘بودار‘ اباک (موسم گرما میں ۔
نظام حرکت ۔ LOCOMOTOR SYSTEM.
کمر ‘ بازو‘ ٹانگیں ‘جوڑ‘ عضلات ‘ پھٹے ‘گردن اس میں شامل ہیں ۔ان اعضاء میں کمزوری بھی ہو سکتی ہے درد بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن عام مرض ‘ ریاحی درد اور اس کی وجہ سے ان اعضاء کا ورم ‘ گنٹھیا ‘ ریومائزم بھی ہو سکتا ہے اور یہ مرض قریبا ہر ملک میں عام ہے ۔
رہسٹاکس۔کامٹیکم ۔سلیشیا۔ پلساٹلا۔ لائیکو پوڈیم ۔ سلفر۔نکس وامیکا۔ کلکیر یا کارب ۔ آرمینک ۔ لیڈم ۔کالی کارب ۔زنکم ۔ سیپیا۔ لیکیسس۔ بیلاڈونا۔ گریفائٹس۔ نائڑک ایسڈ۔ مرکسال ۔ الیوینا
ٹانگیں(لوئر لمبز) LEGS.
* درد۔ رہسٹاک ۔یوپے ٹوریم ۔فائٹو لکا۔ گو آئکم ۔ آرینک آیودائڈ۔پکرک ایسڈ۔ پولی گن ۔ سٹیلنجیا ۔نائیٹرک ایسڈ۔ بیلو نیاس ۔ سلفر آیو ڈائڈ۔ ویریو لینم
* خون کا دباؤ انگوں کی طرف۔ آورم ۔آرجنٹم مٹیلیکم۔ فیلنڈریم ۔تھائرائڈ سینم۔ میفائس
* جلن ۔ نیٹرم سلف۔ کروٹیلس ہوریڈس
* ٹھنڈی ۔ کاریو و یج ۔للیم۔ * گیلی ۔ للیم
* بوجھل ۔ رہسٹاکس ۔ جیلسجیم۔ کلکیر یا کارب۔ پکرک ایسڈ۔ایسومیٹا۔نیٹرم کارب ۔سلفر
* خدر(سن ہونا)تھائرائڈینم۔ گریفائٹس۔پلانٹاگو۔رہسٹاکس
* بے چینی ۔زنکم ۔میڈوریم۔کاریویج۔رہسٹاکس۔کالی کارب۔ٹیرنٹولا۔آرسینک۔اگاریکس
* مجامعت۔ کلکیر یا کارب ۔نیٹرم میور۔
* کمزوری۔ جیلسیم۔رہسٹاکس۔ کیودارے ۔کاکولس۔ مینگنم
کوڑھ(جذام)(لپروسی) LEPROSY.
ایلوپیتھک سائنس میں حسب معمول اس کا سبب ایک خاص قسم کا جراثیم بتایا گیا ہے۔
جرثومہ کے بارے میں آپ پڑھ چکے ہیں ۔کہ ان کی حقیقت کیا ہے۔ نہایت موذی اور خبیث مرض ہے جس کا سبب آتشکی مادہ ہے۔ سب سے پہلے ‘عام طور پر ‘یہ ہاتھوں کی انگلیوں کے سروں پر ‘ ناک اور ہونٹوں پر ورمی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سفیدی مائل سرخ ہوتا ہے۔ اور رفتہ رفتہ انگلیوں کی ہڈیوں اور گوشت ناک کی ہڈی اور گوشت ہونٹ کے گوشت کو کھانے چلا جاتا ہے اور اخر کار ان کی بڑی بدلنا صورت بنا دیتا ہے۔
آپ کسی کوڑھ کے مریض کو دیکھیں گے تو بہت طاری ہو جائے گی ۔ بعض مریضوں کے پاؤں کی انگلیاں یعنی ان کا گوشت اور ہڈیاں ختم کر دیتا ہے۔ آپ پڑھ چکے ہیں کہ آتشک ہڈیوں اور نرم ٹشوز پر اثر انداز ہوتی اور اس کا اثر گہرا اور تباہ کن ہوتا ہے۔ علاج
لیو کیمیا(یا لیکو سائی تھیمیا) خون کا سفید پڑ جانا ۔ سبب اس کا عام طور پر موروثی مزاج ہے ۔تلی جگر اور خصوصا غدو لمفاویہ بڑھ جاتے ہیں ۔ مسوڑے نرم اور متورم ہو جاتے ہیں ۔رنگ زرد پڑ جاتا ہے۔ ہاضمہ خراب ہو جاتاہے۔ پسینہ بکثرت آتا ہے۔
سیلان الرحم(لیکوریا) LEUCORRHOEA.
بہت عام نسوانی مرضہے۔ اسے عام نزلاوی مرض کی طرح سمجھ کرعلاج کرنا چاہیے۔ دوا کا چناؤ زیادہ تر مواد جو خارج ہوتا ہے۔ اس کے مطابق بہتر ہو گا اگر یہ کسی مخصوص مرض رحم یا اندام نہانی کی وجہ سے ہو تو اس کا علاج کرنا چاہیے۔
عام گاڑھا نزلاوی اخراج ۔ پلساٹلا ۳۰اسی طرح کا اخراج مگر مقدار میں زیادہ اور شدید کمر درد ہو۔ کلکیریا اوائیسٹا۳۰۔ گاڑھا زرد ہو یا انڈے کی سفیدی کی طرح کا۔ بوسٹا۳۰
انڈے کی سفیدی کی طرح مگر گرم ۔یوریکس ۳۰ سبزی مائل گاڑھا یا پتلا پانی کی طرح بدبودار مقدار میں زیادہ ۔سیپیا۳۰۔ مقدار میں بہت زیادہ ۔ خراشدار‘ موذی مزمن ‘ الیومینا۲۰۰
چھوٹی عمر میں بچوں کو ‘ کلکیریا کارب یا سیپیا
جگر(لور) LIVER. جگر کی اہمیت اعضائے ریئسہ میں کسی سے کم نہیں نظام ہاضمہ کو اعتدال میں رکھنے کا نہایت اہم عضو ہے ۔اس کا کمال یہ ہے ۔ کہ جسم کو ضرر پہنچانے والے مواد اپنے اندر جمع کرتا ہے۔ اس مواد سے صفراء پیدا کرتا ہے۔ اسے پتہ کے ذریعے معدہ میں پہنچایا ہے ۔جہاں یہ غذا کو ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ عام طور پر انتہائی بد پرہیز ی اور موروثی آفت سے متاثر ہو کر بیمار پڑ جاتا ہے ورنہ بڑا قوی عضو ہے۔
اس کے امراض اور علاج ۔۔
اس کا بڑھ جانا ۔ کارڈؤس اسی کا سکٹر جانا۔ (سر ہو سز) فاسفورس۳۰۔وینڈیم۳۰۔آورم میور۳۰
فعلی بگاڑ۔ کارڈؤسQ ۔ درد جگر ۔ جرائیونیا ۳۰
ورم جگر ۔ برائیونیا۳۰۔مرکسال ۳۰ ۔ہیپر سلفر ۳۰۔ چربی چڑھ جانا(فیٹی بوز) فاسفورس۳۰۔ وہنیڈیم ۳۰۔ سرطان ۔ کولسٹرینم ۳۰x۶‘۳۰
یرقان کا ذکر الگ کیا جا چکا ہے۔ جگر کے تمام امراض میں موروثی مزاج کو ضرور ملحوظ رکھیں اور اسی کے مطابق علاج کریں ۔
نظام اعصاب(نروس سسٹم) NEROVOUS SYSTEM
مغز ‘حرام مغز ‘اور چھوٹے بڑے عصبی ریشے جو سارے جسم میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ انسان کی حرکت اور احساسات کا ذریعہ ہیں ۔ مغز اور حرام مغز ان کے مراکز ہیں ( دیکھئے زہر عنوان ‘فالج)
اعصابی کمزوری ۔ جیلسیہیم ۳۰۔ سکوئل Q ۔ ایوینا سٹا ئیواQ اعصابی درد۔ آرسینک ۳۰۔ سپائجیلیا ۳۰(ب) سینگونیریا ۳۰(د) اعصابی ورم۔(نیورائٹس) آرسینک۳۰ ۔بیلاڈونا۳۰
ریڑھ (سائین) اور اس کے اندر حرام مغز ( سپائنل کارڈ) کے امراض بڑے پیچیدہ ہیں ۔بڑی توجہ اور غور طلب ہیں ۔ریڑھ کا خم کھا جانا‘ ایک طرف کو ‘دائیں یا بائیں ۔ سامنے کی طرف ‘ جیسے کبڑا پن۔ سبب اکثر ٹی بی یا موروثی مزاج مدقوق۔
ریڑھ کے مبروں کی ورمی کیفیات ۔حرام مغز اور اس کے گرد جھلی کا ورم۔ ریڑھ کے اجزاء کا دببز (موٹا) ہو جانا۔ شگاف یا خلاء پیدا ہو جا نا۔ ریڑھ کے مروں کے درمیان۔
ریڑھ کی ساخت تو ہڈیوں میں شمار ہوتی ہے۔ اورہدیوں کے امراض میں اسی کے امراض بھی شمار ہوتے ہیں ۔لیکن حرام مغز کے امراض الگ شمار ہوتے ہیں ۔ ان امراض کے نتیجہ میں فالجی کیفیات عام طور پر ظاہر ہوتی ہیں ۔ کسی بیرونی جگہ کا سن ہونے سے(خدر ) لے کر نیم یا مکمل فالج کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے ۔بیرونی اعضاء مثلا کمر‘ بازو‘ ٹانگیں ‘ وغیرہ میں درد بھی ہو سکتا ہے۔
ایسے حالات میں علامات کے ساتھ اسباب علامات کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ موروثی مزاج کی اہمیت مزمن امراض میں آپ کے ذہین نشین ہو چکی ہو گی ۔
خسرہ( میزلز) MEASLES. وبائی مرض ہے۔ بچوں میں زیادہ بڑوں میں کم۔ پہلے دبخار ‘کھانسی ‘ درجہ حرارت ۱۰۲ڈگری سے اوپر ہی رہتا ہے۔ تیسرے دن چہرہ پر باریک سرخ دانے نمودار ہوتے ہیں ۔جو رفتہ رفتہ سارے جسم پر نکل آتے ہیں۔
اگر کوئی پیچیدگی ‘نمونیا ‘ اسہال ‘دانے پورے نکلیں ۔ نہیں یا دب جائیں ۔ پیدا نہ ہو تو چار دن کے بعد ‘ بعض دفعہ تین دن کے بعد‘ دائیں مرجھا کر کالے پڑ جاتے ہیں ‘ بخار کم ہو جاتا ہے اور مرض کی میعاد پانچویں دن ختم ہو جاتی ہے ۔موربیلیلم ۳۰ کی صرف ایک خوراک دینے سے تمام دانے نکل آتے ہیں ۔ کوئی پیچیدگی پیدا نہیں ہوتی اور میعاد پوری ہو کر مرض ختم ہو جاتا ہے ۔
عام مستعمل دوائیں ‘یا اگر صنعت در پیش ہو تو اکونائٹ ۳۰ مسلسل چار گھنٹے بعد دیں ۔ اسہال ہوں تو پلساٹلا ۳۰ اس کے ہمراہ دیں ‘دانے نکل نہ رہے ہوں یا دب جائیں تو سلفر ۳۰ دیں ۔ نمونیا کی شکایت ہو جائے تو فاسفورس ۳۰ اور برئیونیا ۳۰ دیں ۔
منہ(ماؤتھ) MOUTH. منہ کے عارضوں کا سبب معلوم کر کے اس کا علاج کرنا چاہیے ۔ اکثر موروثی مزاج ہوتا ہے ۔
اکثر موروثی مزاج ہوتا ہے ۔ ورمی کیفیات ‘چھالے زخم وغیرہ ہو جاتے ہیں ۔سبب عام طور پر ‘ جبکہ زخم بار بار نمودار ہونے لگتے ہیں ‘سرطانی مزاج ہوتا ہے ۔یا ایک مرض ہے سنگر ہنی (سپرو) جس میں چھالے یا زخم بار بار نمودار ہوتے ہیں ۔
اور اس کی دوا ہے فرلگیریا ۳۰ یا ۲۰۰ ۔دیگر ادویات عام ورمی کیفیات کے لئے ہیں ۔
کیشیکم ۳۰ ۔ مرک کار ۳۰ ۔ (زخم ) نائیٹرک ایسڈ(زخم ) میور یا ئک ایسڈ۳۰ (بار بار زخم )۔ایرم ٹرف۳۰ (باچھیں مثاثر ہوں ) مرکسال ۳۰ (رالیں ٹیکیں )بوریکس اگر موروثی مزاج سرطانی ہو تو ہپورنیم ۳۰۔ اور کارسنوسن ۲۰۰۔ نوٹ۔ امراض سنگرہنی کی خاص علامات یہ ہیں کہ ہاضمہ خراب ہو تو منہ ٹھیک ۔ہاضمہ درست ہو تومنہ خراب ۔
گلسوئے ۔کن پیٹرے(ممپس) MUMPS.
وبائی مرض ہے ۔ بالائی جبٹرے کا پاس گردن کی طرف کان کے نیچے ورم پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ ورم پیر وئڈ گلینڈز کا ہوتا ہے ۔(غدودہیں ) بخار۔ درد جوبعض اوقات بڑا شدید ہوتا ہے ۔ کبھی ایک طرف کبھی دونوں طرف ۔
زیادہ تر بچوں میں بڑوں میں کم یہ مرض ہوتا ہے۔ خارجی یا غلط علاج سے یہ دب کر مردوں میں خصیوں کو متورم کر دیتا ہے۔ اور عورتوں کے پستان متورم ہو جاتے ہیں ۔ بعض اوقات دل متاثر ہو جاتا ہے۔ بڑی خطر ناک اور پیچیدہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ بڑی احتیاط سے علاج ہونا چاہیے۔
جب تک بخار رہے بیلا ڈونا ۳۰ دیں ۔ درد ہو لیکن بخار رفع ہو جائے یا نہ ہو تو مرکسال ۳۰ دیں خصئیے یا پستان یا دل متاثر ہو جائے تو پلساٹلا ۳۰ مفید ہے ۔
ناخن (نیلز) NAILS. ناخنوں کی ساخت کا بگڑ جانا کئی شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے۔جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے۔ اس کا سبب بھی کوئی نہ کوئی بگڑ ا ہوا موروثی مزاج ہوتا ہے۔
علاج مزاج کے مطابق ہوگا۔
ان کی ساخت بگڑنے کی عام مستعمل ادویات یہ ہیں ۔
سلیشیا۔ تھوجا۔ گریفائیٹس۔ انٹی مونیم کروڈم ۔الیومینا ۔ آرسینک۔
ایک علامت ہے ناخنوں (پاؤں کے) کا ملحقہ گوشت میں دھن جانا (انگروئنگ ٹونیلز ) بڑی تکلیف وہ علامت ہے۔ اکثر پاؤں کے انگوٹھے متاثر ہوتے ہیں ۔ بعض اوقات تمام انگلیاں ۔تین دوائیں کارگر ثابت ہوئی ہیں ۔ میگنٹ پویس آسٹری ایلس ۳۰ اور سلیشیا ۲۰۰ ۔نائٹر ک ایسڈ۔
نوساخت EXCRESCENCES.
رسولیاں ۔ گومٹر وغیرہ (ٹیو مرز وغیرہ) (نوساخت ) ایلو پیتھک ڈاکٹروں سے پوچھیں کے یہ کیا ہیں کیوں نکلتے ہیں تو کہہ دیں گے اصل سبب معلوم نہیں ہو سکا۔
نو ساخت کی شکل جیسی بھی ہو ‘مہاسے (وارٹس) بھی ان میں شامل ہیں ان کا سبب سورا‘ آتشک‘ سوزاک (سائیکو سز) ان میں سے کوئی ایک یا دو یا تینوں ہو سکتا ہے۔ ان کی کئی شکلیں ہوتی ہیں اور کوئی مقام بھی ہو سکتا ہے۔علاج ‘ دیئے گئے اسباب کے مطابق ہو گا ( ایک بات ذہن نشین کر لیں ‘ سورا اور سکرفولا‘ یعنی ٹی بی کی تمام اقسام ‘ ہم جنس ہیں ) اگر مزاج موروثی سرطانی ہو تو ہر قسم کی نو ساخت کے لئے کارسنوسن سر فہرست ہے۔
فالج (پیر یلیس) PARALYSIS. نظام اعصاب میں مداخلت بے جا سے ہوتا ہے ۔ نظام حرکت بے حس و بے حرکت ہو جاتا ہے۔ مکمل طور پر نہ ہو تو نیم فالج (پیر یسس) سا ہو جاتا ہے۔ فالج دائیں طرف یا بائیں طرف یا نچلے دھٹرکا یا کسی ایک عضو کا یا ٹانگوں اور بازؤں دونوں کا ۔رعشہ کی علامت کے ساتھ ہو سکتا ہے ‘ لڑکھٹرانی چال بھی ہمراہ ہو سکتی ہے۔ جھٹکے لگنے کی علامت بھی ساتھ ہو سکتی ہے ۔ اور رفتہ رفتہ عضلات کا سوکھنا بھی ساتھ ہو سکتا ہے۔
نصف حصہ (دایاں یا بایاں )کا فالج دماغ کے کسی عارضہ ہوتا ہے۔ جس طرف عارضہ ہو اس کی الٹی طرف مفلوج ہو جاتی ہے ۔ دماغ میں ادرار خون (برین ہیمریج) خون منجمد ہو کر اس کا سدہ اٹکنے سے ‘یا کسی اور مقام سے یہاں سدہ آ کر اٹک جانے سے چوٹ لگنے سے یا دماغ میں رسولی اس کے اسباب ہوتے ہیں ۔فالج اچانک بھی ہو سکتا ہے۔ اور رفتہ رفتہ بھی ‘
پوری ایک طرف‘ چہرہ تک ‘قوت گویائی ‘حرکت سب مفلوج ہو کر رہ سکتی ہیں اور ایسا نہیں بھی ہوتا ‘ صرف ایک طرف مفلوج ہوتی ہے۔ بعض اوقات زاویائی اثر ہوتا ہے ۔ مثلا ایک طرف کا چہرہ
اور دوسری طرف مکمل طور پر ۔رسولی سبب ہو تو بینائی پر اثر پڑتا ہے۔ آنکھوں کی پلکوں پر پڑتا ہے ۔
فالج ہسیٹریکل بھی ہو سکتا ہے۔ اسے نفسیاتی فالج بھی کہہ سکتے ہیں ۔ فالج حرام مغز میں کسی عارضہ کے سبب بھی ہو سکتا ہے ۔ لیکن اس سے کوئی حصہ بے حس و حرکت نہیں ہوتا۔ اس سے حرکت پر کنٹرول نہیں رہتا۔ اور چلنے پھرنے یا دیگر حرکات میں عجیب سی کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں ۔
نچلے دھٹر کا فالج بھی حرام مغز ہی کے عارضہ سے ہوتا ہے۔ اس کی چوٹ بھی سبب ہو سکتاہے۔ لقوہ بالعمو سردی لگ جانے سے ہوتاہے ۔ اور بعض اوقات دماغ میں متعلقہ حصہ کی خفیف خرابی سے بھی ہو جاتاہے ۔سردی کا اثر بھی دماغ ہی پر ہوتاہے۔
بائیں طرف۔ لیکیسس۔وائیپرا۔ دائیں طرف۔ پلحبم۔کروٹیلس
نچلے دھڑکا ۔ نکس وامیکا کسی ایک عضو کا‘ لقوہ وغیرہ۔کاسٹیکم ۔ہیٹریکل ۔موسکس
رفتہ رفتہ ۔ فاسفورس ۔پلحیم دیکھئے ‘چوٹ‘پولیو‘ وغیرہ
اس مرض میں بھی موروثی مزاج کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔اور دوا بھی اسی کے مطابق ہو گی ۔
پسینہ ( سوپٹ۔پرسپائریشن) SWEAT.
موسم کے لحاظ سے پسینہ کا آنا بڑا ضروری ہے ۔نہ آئے تو یہ نقص ہے ۔ بخاروں میں پسینہ آنا درجہ حرارت کم ہونے کی علامت ہے۔
سرد پسینہ کمزوری (ضعف) کی علامت ہے۔ ٹی بی میں پسینہ اکثر بہت زیادہ آتا ہے۔ خاص طور پر رات کو ‘جس سے کمزوری بہت بڑھ جاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ پسینہ سرد ہو بعض اوقات پسینہ جسم کے کسی ایک حصہ میں آتا ہے۔ جب پسینہ ایک علامت بن جائے تو ادویات یہ ہیں ۔
پسینہ نہ آئے جو ضروری ہے۔ پلمیم ۳۰
سرد پسینہ ۔ کاربو یج۳۰۔ ویراٹرم البم( پیشانی پر) ٹی بی میں پسینہ کی زیادتی ۔ چائنا۳۰
یک طرفہ پسینہ ‘کسی ایک حصہ میں۔ کلکیریاکارب ۳۰
بدبودار پسینہ ۔ سنائیٹرک ایسڈ۳۰۔ سلشیا۳۰۔ پسینہ زیادہ آئے اوراس سے مرض میں اضافہ ہو ۔ مرکسال ۳۰
جوڑ‘عضلات‘پٹھے(RHEUMATISM. )
ریح کے درد۔ (جوڑ‘ عضلات‘ پٹھے) ( ریوماٹزم) جوڑوں میں درد بلا ورم کے ساتھ‘ کمر‘ بازو‘اور ٹانگوں میں درد ابتداء میں ریح کے درد کہلاتے ہیں ۔
جو بڑھ کر گنٹھیا کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور اس مرض کا تیسرا درجہ نقرس (پلاگرایا پوڈاگرا) ہے جو دائیں پاؤں کے انگوٹھے کے جوڈ میں ورم اور درد کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ نہایت تکلیف دہ مر ض ہے ۔عمل تسشخیص (پتھالوجی) کے لحاظ سے اس کے اسباب وغیرہ جو بھی بیان کرتے ہیں ۔ تحریروں میں موجود ہیں ۔یہ سب ‘فیشن ‘ ہے ۔اس مرض کا بنیادی سبب یا موروثی مزاج مدقدقی ہے یا سرطانی ۔ اس کے علاوہ اگر کوئی سبب ہے تو وہ آتشک اور سوزاک ہے ۔
جو آخر کار دیگر علاجوں کے بعد کارسنوسن سے ہی ٹھیک ہوتا ہے۔ یہ میں تجربہ کی بناء پر لکھ رہا ہوں ۔ کارسنوسن ۲۰۰ کا اکثر شدید رد عمل (ری ایکشن ) ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات کافی دنوں تک ہوتا رہتا ہے لیکن اس کے بعد شفا یابی شروع ہو جاتی ہے۔ اور مکمل آرام آنے کے بعد یہ مرض کبھی لاحق نہیں ہوتا ۔
بے خوابی یا بے آرام نیند کاکوئی نہ کوئی سبب ہوتاہے ۔عمر چاہے جو بھی ہو ۔ ایسی صورت میں سبب معلوم کرنا چاہیے اگر یہ کیفیت طول پکڑ جائے۔ زندگی طوفان ہے ۔جو جتنا اس طوفان میں گھرا ہواہے۔
اتنا ہی وہ بے سکون ہے ۔آرام کی نیند حرام ہے ۔بچہ اگر رات کو سوئے نہیں ۔روئے بھی نہیں اور جاگتا رہے۔ کبھی کھیلنے لگ جائے تو یہ سرطانی مزاج کی علامت ہے۔
بچہ دن میں سوئے رات میں روئے بے چین رہے ۔ جلایا۳۰
بچہ رات کوسوئے لیکن دن میں روئے اور بے چین رہے۔ لائیکو پوڈیم ۲۰ یا ۲۰۰
بچہ دن رات بے چین رہے ‘ روے چلائے تو دوا ۔ سورینم ۳۰ یا جلاپ ۳۰ ہے ۔
کوئی خاص وجہ نہ ہو اور رات کو نیند نہ آئے لیکن دن میں نیند آجائے‘ بڑوں میں ۔
بڑوں میں عام بے خوابی کے لئے۔ کافیا۳۰ یا ۲۰۰ کالی فاس x ۶
ریڑھ حرام مغز( سپائین ۔سپائینل کارڈ) SPINE .
ریڑھ میں پہچانی (اری ٹیشن ) کیفیت عام ہے۔ مقامی طور پر کوئی تکلیف نہیں ہوتی ۔ بلکہ مختلف اعضاء پر ہوتی ہے ۔اگر مقامی طور پر ہو جسے علامات مقامی ظاہر کریں ۔ تو موروثی مزاج کا معلوم کر کے اس کے مطابق علاج کرنا چاہیے۔
ہیجانی کیفیت کے لئے جو ادویا ت مفید ہیں ۔سمسی فیوگا۳۰یا ۲۰۰ ۔ سلشیا ۳۰ یا ۲۰۰ ۔اگنشیا۲۰۰۔سلفر ۳۰ یا ۲۰۰ ۔اگاریکس۳۰ یا ۲۰۰ ۔سیکیل کار ۳۰ ۔
اس کیفیت میں مختلف اعضاء متاثر ہوتے ہیں ۔ مثلا گردن کی پشت اور اس کے گرد‘ بازو‘ ٹانگیں ‘ حلق‘ سر ‘وغیرہ ۔
حلق میں تکلیف ہو ‘کچھ نگلنے میں تکلیف ہو‘ ریڑھ کے بالائی حصہ میں جلن اور درد ہو۔ گوئیکو۳۰
باقی مندرجہ بالا ادویات حسب علامات دیں ۔ریڑھ کی ہڈی ٹیڑھی ہوجائے ۔ کلکیر یافاس x۶ سلشیاx۱۲
فاسفورس۳۰ یا ۲۰۰ ۔کلکیر یا فاس x۶سلیشاx۱۲۔فاسفورس ۳۰ یا ۲۰۰ ۔کلکیر یا کارب
ورم پیدا ہو جائے۔ پائروجن ۳۰۔ پھوٹ جائے اور پیپ کا اخراج ہونے لگے ۔کلکیریا سلف x۶۔ بسیلینم ۲۰۰۔ ریڑھ کے نچلے حصہ پر سلی پھوڑا نو مولود بچوں میں آپ دیکھیں گے ۔بڑا موذی اور خطر ناک مرض ہے۔ بسیلینم ۲۰۰ یا 1M سے کبھی شفا ہو جاتی ہے اور نہیں بھی ہوتی اور جراحی کی مدد لینی پڑتی ہے ۔بسیلینم کے ہمراہ کھبی کبھی کلکیریا فاس x ۶ دینی چاہیے۔
ریڑھ کے درد کے لئے ۔پکرک ایسڈ ۳۰ یا ۲۰۰ ٹیلوریم ۳۰۔ دمچی کے آخری سرے پر درد ہو ۔ سلشیا۲۰۰ کاسٹیکم ۲۰۰ ۔سائی کیوٹا ۳۰ ۔کالی بائیکرومیکم ۳۰ ونتھوکسائیلم Q
آتشک(سفلس) SYPHILIS. جنسی بے راہ روی کا نتیجہ ہے ۔جس طرح سوزاک زخم عضو تناسل پر ‘اگلے حصہ میں عام طور پر جس میں نہ درد ہوتا ہے۔نہ کھجلی ۔رفتہ رفتہ پھیلتا جاتا ہے۔ اور آخر کار عضوتناسل کو بوسیدہ کر دیتا ہے۔یا اس کا زہر خون میں سرائت کرکے بے شمار علامات اور امراض پیدا کر دیتا ہے۔ مثلا جلدی ابھار‘ بال گرنا‘ گرمڑ‘ پھر ہڈیوں ‘دماغ اور حرام مغز پر اثر انداز ہوتا ہے۔ منہ میں زخم ‘یا سخورہ ‘ جلد پر زخم ‘خون کی نالیاں پھیپھٹرے‘ اعصاب وغیرہ سب اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں ۔گنٹھیا ‘دمہ‘ ٹی بی ‘سرطان جیسے موذی امراض بھی اس کے سبب پیدا ہو سکتے ہیں ۔
اور یہ امراض نسل در نسل منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ ان سب امراض و علاامات کا علاج آتشکی مزاج کی بناء پر ہی شافی ہو سکتا ہے۔ علاج سے پہلے مزاج کا معلوم کرنا لازمی ہو سکتا ہے۔ علاج سے پہلے مزاج کا معلوم کرنا لازمی ہے ۔ ورنہ علاج بے اثر ہو گا۔علامات کے مطابق دوا دینے سے ہوسکتا ہے عارضی فائدہ ہو لیکن مکمل شفا مزاج کو بدل دینے سے ہی ہو سکتی ہے ۔اس کے لئے دو ادویات ہپورینیم اور کارسنوسن سر فہرست ہیں ۔
ان کے علاوہ حسب علامات ‘مرکسال ۔کالی آیوڈئیم ۔نائیٹرک ایسڈ۔ مرکری کے دیگر مرکبات نائٹولکا ۔کالی بائیکروسیکم ۔ سنابیرس ۔سٹلنجیا ۔ تھوجا۔ گریفائٹس۔ میزیریماور بڑے اچھے نتائج حاصل ہوتے ہیں ۔ ابتداء میں جب یہ قفیب پر مردوں میں اور فرج کے لب کے اندرونی حصہ میں عورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ تو اس حالت میں مفید دوا مرکسال ہے ۔ عام طور پر لوگ اس مرض کا علاج ایلو پیتھک ڈاکٹروں سے کرواتے ہیں اور ظاہرا زخم مندمل ہو جانے پر سمجھا جاتاہے کہ مرض سے نجات مل گئی ۔ حالانکہ مرض دب جاتا ہے۔ اور مختلف اعضاء پر اثر انداز ہو کر صحت کو تباہ کر دیتا ہے۔
دانت اور مسوڑھے(ٹیتھ اینڈ گمز) TEETH-GUMS.
دنیا کے ہر خطہ میں دانت اور مسوڑ ھوں کے امراض انسان کی لذت دہن کے سبب بڑے عام ہیں بچے ‘بڑے سب ملوث ہیں۔اسباب اور بھی ہوتے ہیں ۔ لیکن ان میں اضافہ انسان بڑی بے دریغی سے کرتا ہے۔بچہ دانت نکالنے کی عمر میں داخل ہوتا ہے اور دانتوں کا مسلہ شروع ہو جاتاہے ۔
علاج۔۔۔۔۔ بچہ دانت نکال نہیں رہا یا ان کے نکلنے کی رفتار بڑی سست ہے ۔کلکیر یافاس x۶ ۔کلکیر یا کارب ۳۰ ۔ دانت میلے‘ بد رنگ ‘ ٹیڑھے میٹرھے نکل رہے ہیں ۔ سٹیفس۳۰ ‘ سفلینم ۲۰۰
دانت نکل آئے‘ بوسیدہ ہونے لگے (کیڑا لگ گیا) درد ہوتا ہے۔۔۔۔کریو زوٹ ۳۰
بڑوں میں ۔دانتوں کی بوسیدگی اوپر سے ۔۔۔مرکسال ۳۰ ۔ بوسیدگی اطراف سے ۔۔۔ سٹیفس ۳۰
بوسیدگی جڑھ سے ۔۔۔ تھوجا ۳۰‘۲۰۰ درد۔۔۔مرکسال ۳۰(سرد‘گرم)
سلشیا ۳۰(سر د‘منہ میں ہوا بھی جانے تو ) پلساٹلا ۳۰(گرم) کافیا ۳۰ ( گرم‘ سرد)
ماسخورہ ( پاپٹوریا) عام مرض ہے ۔ اس میں مسوڑھے متورم بوسیدہ ۔ دانت بد رنگ بد نما ۔منہ سے بدبو آتی ہے۔ مسوڑھوں سے خون یا پیپ خون آلود۔بہترین دوا ہے ۔۔۔۔سفلینم ۲۰۰
زبان (ٹنگ) TONGUE. زبان پر مختلف رنگوں کی یہ جمی ہوتی ہے ۔جو بیماری کی حالت میں مرض کی تشخیص کرنے اور دوا تجویز کرنے میں مدد دیتی ہے۔
صاف اور سرخ اور خشک ۔۔۔۔آرسینک ۳۰
۔ فلورک ایسڈ۔ سفلینم ۔آورم ۔خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
درمیان میں سیاہی مائل اطراف میں سرخ ۔۔ مرک کار۳۰۔ موٹی سفیدتہ۔۔۔ انیٹم کروڈ ۳۰۔ برائیونیا ۳۰۔ کالی میور۔ سفید یا بھوری تہ۔۔۔ کالی میور x۶یا ۳۰۔ سیاہ زبان ۔ ۔۔ کاربوریح ۳۰
سیاہی مائل ۔۔۔۔ فاسفورس ۳۰۔ موٹی زردی مائل سفید۔۔ بپشیا ۳۰۔ سفید‘ آبلے دار ‘ لائیکوپوڈیم ۳۰
۔کالی میور ۔ زرد پیچھے کی طرف سامنے صاف۔ نکس وامیکا ۳۰
موٹی غلیظ زرد۔۔۔ سلفر ۳۰ ۔ نیٹرم صاف۔ سامنے نوک سرخ۔ رہسٹاکس ۳۰
اطراف سفید‘درمیان سرخ۔۔ کاسٹیکم ۔ ہرنقسے سے بنے ہوئے۔۔ٹیرکسیکم Q نیڑم میور ۳۰
پیچھے کی طرف درد۔۔۔۔ نیڑم فاس x۶یا ۳۰ زبان پر یعنی سطح پر شگاف۔ بیلاڈونا ۳۰
پر سے چھلکے اتریں اور شگاف ۔۔ریننکولس ایس ۳۰۔ شگاف ‘درد‘خون نکلے۔۔ ایرم ٹرف ۳۰
شگاف درمیان میں ۔۔۔۔رہس وینائیٹا ۳۰۔ پر سے چھلے اتریں ۔۔۔۔ ٹیرکسیکم Q
موٹی ‘ سوجی موٹی ‘ باہر نکلی ہوئی ۔۔۔مرکسال ۳۰۔ سوجی ہوئی ‘چھلکے اتریں ۔۔اوکسالک ایسڈ ۳۰
کا فالج۔۔۔۔ کاسٹیکم ۳۰ ۔ کا سرطان ۔۔ کالی سائانیٹم ۳۰ ۔آورم ۳۰ ۔الیومن ۳۰۔کانڈورانگو۳۰
پر زخم ۔۔ میورائک ایسڈ ۳۰۔ کے نیچے زخم۔ لائیکوپوڈیم ۳۰۔ نائیٹرک ایسڈ ۳۰
کے نیچے رسولی (رینولا) تھوجا ۳۰ یا ۲۰۰
آواز(وائس)VOICE ۔ بچوں میں اور بڑوں میں اکثر آواز بیٹھ جانے کی شکایت ہو جاتی ہے ۔اس کے عام اسباب ہیں نزلہ جس سے گلا متاثر ہوتا ہے ‘ زیادہ بولنے یا گانے یا بچوں میں چیخنے چلانے سے ۔باربار ہو با مزمن صورت اختیار کر لے۔ آواز بالکل بیٹھ جائے تو موروثی مزاج کا پتہ لگانا لازمی ہے ۔اور اکثر اس کا سبب موروثی مزاج مدقوق ہو گا یا سرطانی اس کے مطابق علاج کریں ۔
نزلاوی ہو تو کاسٹیکم ۳۰ ۔اگر ساتھ ‘کتا کھانسی ‘ہو تو ۔ ۔ سپانجیا۳۰۔ مزمن مدقوق ہو یا سرطانی تو ہپوزئیم ۳۰ بہترین دوا ہے۔ آواز کا استعمال زیادہ کرنے والوں یا جنہیں مجبورا اونچا بولنا پڑتا ہے۔ ان کے لئے آرجنٹم مسیلیکم ۳۰ بڑی مفید ہے ۔
لیکن اس کا استعمال وقفہ کے ساتھ مسلسل کرنا پرے گا۔ کیونکہ سبب مسلسل موجود ہے۔
آواز بالکل باطل ہو جائے یعنی بولنے والے کی بات سنی ہی نہ جائے تو دوا کا سٹیکم ۳۰ یا ۲۰۰ ہی ٹھیک ہے۔
دوسرا بعض اوقات نہایت موثر ہے جب آواز بیٹھ جائے ۔کھانسی شدید ہو ۔کمزوری تیزی سے بڑھ رہی ہو ۔ ہلکا بخار ہو ۔دراصل یہ حنجرہ کے ٹی بی کی علامات ہیں اور اکثر اس کا سبب پھیپھڑوں میں ٹی وی کے اثرات موجود ہوتے ہیں ۔
قے (دیکھئے نظام ہاضمہ ) VOMITING.
کرم حکم ۔ پیٹ کے کیٹرے(ورمز)WORMS.
پیٹ کے کیٹرے عام علامت ہے خاص طور پر بچوں میں ان کی کئی اقسام ہیں ۔چھوٹے سفید‘ چھوٹے سفیدکالے منہ والے ‘ ٹھوڑے سے لمبے ۔زیادہ لمبے (ملہپ) کدو کیٹر ا وغیرہ ۔
مٹی وغیرہ کھانے سے ‘میٹھا کھانے سے ان میں اضافہ تو ہو سکتا ہے۔ یہ اصل سبب نہیں ہے۔ اصل سبب موروثی مزاج ہے۔ خاص طور پر ٹی ۔بی اور سرطان اول تو مٹی کھانا یا زیادہ میٹھا کھانا بذات خود غیر فطری علامات ہیں ان کا بھی کوئی سبب ہوتا ہے۔ مٹی کھانے کا سبب اگر کلشیم کی کمی کہا جائے تو یہ کمی کیوں ؟ بچہ دودھ پیتا ہے۔ اورکئی ایسی چیزیں کھاتا پیتا ہے۔
جن میں کلشیم موجود ہوتا ہے۔ تو پھر کمی کیوں ؟ دراصل کلشیم جذب نہیں ہوتا اور اس کا سبب وہی موروثی مزاج ہے۔ بعض اوقات علامات کے مطابق کسی مرض کا علاج کرتے ہوئے سرہینم یا بسیلینم دینے سے بہت سے کیٹرے بزاز میں خارج ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ اور ایسے مریضوں کا مزاج موروثی یا تو سرطانی تھا یا مدقوق ۔یہ ہے سائنس ۔دواؤں سے کیڑے خارج کرنے سے مزاج نہیں بدلتا
کلکیریا کارب ۲۰۰ یا الیو مینا ۲۰۰ دینے سے بچے مٹی وغیرہ کھانا چھوڑ جاتے ہیں ۔ کلکیریا کے مریض کا براز ڈھیلا ہوتا ہے اور الیو مینا کے مریض کو ہمیشہ قبض کی شکایت رہتی ہے۔ اور اس تشخیص کے مطابق دوا دینی چاہیے ۔بعض اوقات ان دواؤں ہی سے مزاج بدل جاتے ہیں ۔اگر مریض مٹی وغیرہ کھانا چھوڑ دے ۔
لیکن کچھ عرصہ بعد پھر کھانے لگے تو اسے کسی نوزوڈ کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر وہ نوزوڈ جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ ذکر کیٹروں کا ہو رہا تھا مٹی وغیرہ کھانے کی بات بیچ میں آ گئی یہ اچھا ہوا ۔اکثر بچے مٹی وغیرہ کھاتے ہیں اور اگر بچوں کا موروثی مزاج بدل دیا جائے تو وہ کئی خبیث امراض سے محفوظ ہو جاتے ہیں
عام ادویات جو مستعمل ہیں ۔ سائنا۔ ٹیوکریم ۔ سنٹونن۔ کلکیریا کارب۔ نیٹرم فاس۔ کیو پرم آکس نگx ۳ تمام قسم کے کرم ختم کر دیتی ہے نکس وامیکا ۳۰ کے ساتھ باری باری دینے سے کدو کیٹرا ختم ہوتا ہے ۔ دوا کا پورا ناہے ۔ کیوپرم
رغبت ۔ خواہش DESIRE —
شراب۔۔ لیکیسس۔ کروٹیکس سیب۔۔۔انیٹم ٹارٹ ۔۔کڑوی اشیا۔۔نیڑم میورنکس۔ڈجی ٹیکس ۔۔ مٹی ‘چوناوغیرہ ۔۔کلکیریا کارب ۔۔الیومینا۔۔ انڈا۔۔کلکیریا کارب
مرغن ۔۔ نکس۔نائیٹرک ایسڈ۔ اوسیک۔پیپر۔ برف ۔آئس کریم ۔ فاسفورس
گوشت ۔میگ کارب ۔کلکیریا فاس ۔سلفر۔ ۔ دودھ۔۔ سلیشیا۔ نیڑم میور۔۔ ریسٹاکس
پیاز۔۔ ابلیم سیپا۔۔ چٹپئی ۔۔۔ ہیپر۔ سلفر ۔سٹیس۔ ۔۔۔نمکین۔۔ فاسفورس ۔نیڑم میور
ترش ۔۔ ہیپر۔ ویراٹرم البم ۔کرولیم ربرم ۔۔ میٹھی ۔۔ آرجنٹم بائیٹرلکم
گرم مزاج اشیاء۔۔ آرسنک ۔لائیکولوڈیم۔ برائیونیا۔ مولی وغیرہ (کورس) ۔ایپر کینا ڈنسز
نفرت۔۔۔AVERSION ..
شراب ۔۔ رہسٹاکس۔ باہٹو ساٹمس۔ روٹی (گندم ) نیڑم میور۔چانٹا۔۔ مکھن ۔۔پلساٹلا۔چاٹنا
انڈا۔۔ فیرم ۔۔ مرغن غذا۔۔ پلساٹلا۔چائنا۔۔ مچھلی ۔۔گریفائٹس۔۔ گرم مزاج اشیاء ۔۔ فیرم ۔چائنا۔پٹرولیم ۔پلساٹلا۔۔۔گوشت۔ نکس۔پلساٹلا۔سلفر۔ چائنا۔۔۔ دودھ ۔ کلکیریا کارب ۔۔فاسفورس۔ سلفر۔ نیٹرم کارب ۔۔ میٹھی اشیاء۔ ۔ گریفائٹس ۔فاسفورس۔ سلفر۔
نمک۔نمکین اشیاء ۔۔ کرولیم ربرم ۔ گریفائٹس۔ پانی ۔لائسن ۔سٹرامونیم یا ٹو ساٹمس
===================
حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210۔
===================
ڈائری ڈاکٹر صفدر