’شفا‘: وہ خاتون جنھیں ان کی کاروباری ذہانت کی بدولت اسلام کی ’پہلی مارکیٹ منتظم‘ مقرر کیا گیا

’ایسے وقت میں جب مکہ میں صرف بیس لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے، شفا یہ مہارت حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں‘

  • مصنف,وقار مصطفیٰ
  • عہدہ,صحافی و محقق، لاہور

نام تو لیلٰی تھا مگر جڑی بوٹیوں سے ایسا کارگر علاج کرتیں کہ ’شفا‘ کے لقب سےمشہور ہوئیں۔

مکہ میں قریش کے عدی قبیلے سے تھیں۔ عبداللہ ابن عبدالشمس اور فاطمہ بنت وہب کی یہ بیٹی، حثمہ ابن حذیفہ سے بیاہی گئیں۔ مکہ ہی میں اسلام قبول کر چکی تھیں سو وہ تمام سختیاں بھی برداشت کیں جو اس ابتدائی دور میں مسلمان ہونے والے افراد کو جھیلنا پڑیں۔

ان دنوں علم سیکھنا سکھانا زیادہ تر زبانی ہوتا تھا۔

تاریخ دان ایف سی مرگاٹن لکھتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب مکہ میں صرف بیس لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے، شفا یہ مہارت حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔ مرگاٹن نے یہ معلومات احمد بن جابر البلادوری کی کتاب ’فتوح البلدان‘ کا ترجمہ کرتے ہوئے اخذ کیں۔ یہ ترجمہ ’دی اوریجنز آف اسلامک سٹیٹ‘ کے نام سے چھپا ہے۔

شفا خطاط بھی تھیں۔ ترکی سے چھپی کتاب ’خواتین خطاط : ماضی اور حال‘ سے علم ہوتا ہے کہ انھوں نے خطاطی سکھائی بھی۔ ان سے خطاطی سیکھنے والوں میں پیغمبرِ اسلام کی اہلیہ حضرت حفصہ بھی تھیں۔ ابو داؤد کے مطابق یہ دونوں خواتین رشتے دار تو تھیں ہی، مگر دوست بھی رہیں۔

عادل صلاحی لکھتے ہیں کہ شفا ایک ذہین خاتون تھیں اور اسلام لانے سے پہلے بھی مریضوں کا علاج کیا کرتی تھیں۔ جب انھوں نے اسلام قبول کیا تو پیغمبرِ اسلام سے پوچھا کہ کیا وہ علاج معالجہ جاری رکھ سکتی ہیں تو آپ نے انھیں ایسا کرنے کی ترغیب دی۔

عادل صلاحی کے مطابق پیغمبر اسلام نے ان سے یہ بھی کہا کہ وہ حفصہ کو یہ بھی سکھائیں کہ وہ جلد کی بیماری کا علاج کیسے کریں۔

اے بیولی لکھتے ہیں کہ شفا مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے والے پہلے افراد میں شامل تھیں۔ بیولی نے یہ بات محمد بن سعد کی کتاب ’الطبقات الکبیر‘ کے ترجمے میں لکھی ہے جسے انھوں نے ’مدینے کی خواتین‘ کے عنوان سے شائع کیا۔

شفا

،تصویر کا کیپشن’جب شفا نے اسلام قبول کیا تو پیغمبرِ اسلام سے پوچھا کہ کیا وہ مریضوں کا علاج معالجہ جاری رکھ سکتی ہیں تو آپ نے انھیں ایسا کرنے کی ترغیب دی‘

مدینہ میں انھیں مسجد نبوی اور بازار کے درمیان ایک گھر دیا گیا جہاں وہ اپنے بیٹے سلیمان کے ساتھ رہتی تھیں۔ تاریخ کی کتابوں میں احمد بن حجر عسقلانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ پیغمبرِ اسلام اکثر ان سے ملنے جاتے اور کاروبار کے بہترین طریقوں کے بارے میں مشورہ بھی کرتے تھے۔ عادل صلاحی کے مطابق ان دوروں کے دوران شفا ان سے دین کے سوالات پوچھتی تھیں۔ چونکہ وہ مسجد بھی جاتی تھیں، سو اپنے طور پر ایک اچھی عالم بھی بن گئیں۔

شفا سے 12 احادیث روایت ہیں۔

تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ شفا ابتدائی اسلامی معاشرے میں سب سے زیادہ قابل احترام خواتین میں سے ایک تھیں۔

جمال اے بدوی نے کتاب ’پیغمبر کے دور میں خواتین کا کردار‘ میں لکھا ہے کہ شفا اسلامی قانون کی ماہر تھیں اور انھیں بازار کی باضابطہ مبصر مقرر کیا گیا تھا۔ وہ اس بات کو یقینی بناتیں کہ سامان کی مناسب قیمت وصول کی جائے۔

یہ بھی پڑھیے

حضرت عمر خلیفہ بنے تو شفا سے اقتصادی پالیسی اور تجارت سے متعلق مشورہ لیا جاتا تھا اور اُن کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی۔ جیسے جیسے مدینہ کا معاشرہ ترقی کرتا گیا، تو یہ محسوس کیا گیا کہ یہ ضروری ہے کہ بازار کی نگرانی کی جائے جہاں لوگ خرید و فروخت کرتے ہیں۔

چنانچہ شفا کو مدینہ کا قضا السوق (بازار کا انتظام) اور قضا الحسبہ (احتساب) کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ یہ ذمہ داریاں تب کی عرب دنیا میں روایتی صنفی کرداروں سے ہٹ کر تھیں۔

وہ بازار میں ہونے والی تجارت کے معاملات میں اس بات کو یقینی بناتیں کہ کوئی دھوکا یا چال بازی نہ ہو اور خرید و فروخت اسلامی اقدار کے مطابق ہو۔ دکانداروں کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ اگر انھیں کسی خاص لین دین کی قانونی حیثیت کے بارے میں شبہ ہو تو وہ شفا سے پوچھ لیں۔

بازار کی منتظم کے طور پر، شفا جائز تجارت کو یقینی بنانے اور دھوکا روکنے کی ذمہ دار تھیں۔ وہ دیانت داری سے انصاف کا نفاذ کرتیں چاہے اس کے لیے طاقتور تاجروں کا مقابلہ ہی کیوں نہ کرنا پڑتا۔ وہ یقینی بناتیں کہ سامان کی منصفانہ تجارت ہو، قیمتیں مناسب ہوں، اور یہ کہ تاجر اخلاقی کاروباری طریقوں کی پیروی کریں۔

شفا

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشنتاریخ کی کتابوں میں احمد بن حجر عسقلانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ پیغمبرِ اسلام اکثر ان سے ملنے جاتے اور کاروبار کے بہترین طریقوں کے بارے میں مشورہ بھی کرتے تھے

یوون ریڈلی نے اپنے مضمون ’اقتصادی سرگرمیوں میں مسلم خواتین کی شرکت: ایک نقطہ نظر‘ میں لکھا ہے کہ شفا ایک قانونی ماہر اور جج کے طور پر بھی جانی جاتیں اور تنازعات کو حل کرتی تھیں۔

شفا کا تقرر انتہائی کامیاب رہا۔ حضرت عمر نے مکہ میں بھی ایک خاتون، سمرہ بنت نحیک، کو مارکیٹ کنٹرولر مقرر کر دیا۔

احتساب جج کے طور پر وہ افراد کے درمیان تنازعات حل کرتیں اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتیں۔ تاریخی بیانات کے مطابق شفا اسلامی قانون اور فقہ میں انتہائی ماہر تھیں اور وہ اپنے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ احکام کے لیے مشہور تھیں۔

زندگی کے ہر شعبہ سے لوگ اسلامی قانون سے متعلق امور میں رہنمائی اور مشورے کے لیے ان کے پاس آتے تھے۔

مؤرخ ابن اسحاق نے آٹھویں صدی میں لکھا ہے کہ کس طرح شفا نے ایک احتساب جج کے طور پر تنازعات کے حل کے لیے اسلامی قانون کے اپنے علم کا استعمال کیا۔

نکولس ایس ہاپکنز اور سعد الدین ابراہیم کی ادارت میں چھپنے والی کتاب ’اسلام میں خواتین: تاریخی اور عصری تحقیق کے مظاہر‘ میں لکھا ہے کہ شفا قانونی ماہر کے طور پر کام کرتی تھیں، انھوں نے بازار میں تنازعات میں ثالث کے طور پر کام کیا اور منصفانہ تجارتی طریقوں کو یقینی بنایا۔

شفا کی زندگی کا ایک اور قابل ذکر پہلو اسلامی قانون اور الہٰیات کے بارے میں ان کا گہرا علم تھا۔ وہ مشورہ چاہنے والوں کو اپنی دانش مندی سے بصیرت انگیز رہنمائی فراہم کرتی تھیں۔ وہ اپنے وقت کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ خواتین میں سے ایک کے طور پر جانی جاتی تھیں۔ ان کی وفات حضرت عمر ہی کے دور ِخلافت میں ہوئی۔

مجموعی طور پر، شفا کی زندگی ہمت، حکمت اور اسلامی تاریخ میں خواتین کے اہم کردار کا ثبوت ہے۔

0 0 votes
Article Rating
Picture of kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter