ہم میں سے بہت سے افراد عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ تھکن کا شکار ہونے کی شکایات کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اس کا تعلق عام طور سے غذائی کمی سے جوڑا جاتا ہے اور جسم میں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مختلف سپلیمنٹس اور ملٹی وٹامنز تجویز کیے جاتے ہیں۔
یہ سپلیمنٹس یا وٹامنز ہمیں گولیوں، مشروبات یا پاؤڈرز کی صورت میں مل جاتے ہیں جو ہمارے جسم میں مختلف وٹامنز، منرلز، کیلشیم، آئرن اور پروٹین جیسے غذائی اجزا کی کمی کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
جہاں ان سپلیمنٹس اور ملٹی وٹامنز کے کچھ فوائد ہیں وہیں ان کے بعض مضر اثرات بھی ہیں جو لوگوں کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیں۔
تاہم طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ غذائی سپلیمنٹس اچھی خوراک کا نعم البدل ہرگز نہیں ہو سکتے۔
ماہرین کے مطابق 30 سال سے زائد عمر کی خواتین میں ایسے سپلیمنٹس کا استعمال بڑھ گیا ہے۔
ڈاکٹر سنیلا گرگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ملٹی وٹامنز سبزی خوروں کے لیے بھی نہایت اہم ہیں لیکن مختلف طرزِ زندگی کے حامل افراد کے لیے ملٹی وٹامنز کی تعداد کبھی بھی یکساں نہیں ہو سکتی اس لیے ضروری ہے کہ سپلیمنٹس کا استعمال ہمیشہ ڈاکٹر کے مشورے سے ہی کیا جائے۔‘
ڈاکٹر راج آرون نے بی بی سی کو بتایا کہ اپنی پریکٹس کے دوران انھوں نے 30 سے 40 سال کی ایسی خواتین دیکھی ہیں جو خود سے ملٹی وٹامنز کا استعمال شروع کر دیتی ہیں تاہم یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ ملٹی وٹامنز کے اپنے مضراثرات بھی ہوتے ہیں اس لیے ان کے استعمال میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
ملٹی وٹامنز اور فوڈ سپلیمنٹ کے حوالے سے انڈیا کے ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈائبٹیس، اوبیسٹی اینڈ کولیسٹرول کی ڈاکٹر سیما گلاٹی کا کہنا ہے ’شہروں میں یہ رواج عام ہے کہ لوگ ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائے سیلف میڈیکیشن کے تحت اپنا علاج خود کرنے لگ جاتے ہیں۔
’چاہے درد کے لیے دوا لینا ہو یا اپنی علامات کو سمجھنا ہو اس کے لیے ڈاکٹر کے بجائے فارمیسی کا رخ کرتے ہیں اور بعض اوقات ان کے علاج کے بجائے یہ دوائیں الٹا نقصان پہنچاتی ہیں۔‘
ڈاکٹر سیما کے مطابق ’گوگل یا سوشل نیٹ ورکس سے معلومات حاصل کر کے ادویات کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ اور بہت سی دوائیں ڈاکٹروں کی منظوری کے بغیر بھی دستیاب ہیں جو کہ فائدے مند ہونے کی بجائے نقصان دہ ہے۔‘
’وٹامن اے اور وٹامن ای کی زیادتی قے اور بینائی میں دھندلاہٹ کا سبب بن سکتی ہے‘
ایک بات جس پر تمام ڈاکٹرز متفق ہیں وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر کی طرف سے تجویز کردہ سپلیمنٹس کو تجویز کردہ مقدار میں ہی استعمال کیا جائے کیونکہ تجویز کردہ مقدار سے زیادہ سپلیمنٹ لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
البتہ ان سپلیمنٹس کا زیادہ استعمال جسم پر بھی مضر اثرات چھوڑ سکتا ہے۔
غذائیت اور جسمانی کارکردگی پر تحقیق کرنے والے ادارے این ڈی او سی کی سربراہ ڈاکٹر سیما گلاٹی بتاتی ہیں کہ وٹامن ای اور اومیگا3 فیٹ سلیوب وٹامنز ہیں، ان وٹامنز کو ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر استعمال کرنا ان کے جسم میں جمع ہونے کا باعث بن سکتا ہے جو جسم میں کئی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔
’وٹامن اے اور وٹامن ای کی ذیادتی بار بار قے ہونے، بینائی میں دھندلاہٹ سمیت دیگر مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔‘
’اگرچہ وٹامن ای بلڈ پریشر کو کم کر سکتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ پھیپھڑوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے لہٰذا ان کو ڈاکٹر کے مشورے کے ساتھ ہی استعمال کیا جائے۔‘
ڈاکٹر سیما گلاٹی کے مطابق ’بہت سے وٹامنز جسم میں تحلیل ہو جاتے ہیں اور اگر یہ زیادہ مقدار میں جسم میں داخل ہو جائیں تو یہ بھی فضلے کے ذریعے جسم سےخارج ہو جاتے ہیں۔‘
وٹامن بی
وٹامن بی جسم میں خون کے سرخ خلیات یعنی ریڈ سیلز بنانے میں مدد فراہم کرتا ہےاور ساتھ ہی ساتھ یہ دماغ اور اعصابی خلیوں کو مضبوط بنانے کا بھی کام کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر جسم میں وٹامن ڈی کی کمی واقع ہو جائے تو اس سے انسانی جسم پر واضح اثرات ہو سکتے ہیں۔ جن میں
- جلد زرد پڑنے لگتی ہے
- تھکن اور کمزوری کا احساس غالب رہتا ہے
- قبض اور گیس کے مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے
- بھوک میں کمی واقع ہوتی ہے
- دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کا سامنا اور سانس لینے میں دشواری ہو سکتی ہے
یہ وٹامنز دو محتلف شکلوں میں دستیاب ہوتے ہیں جن میں ان کی مطلوبہ مقدار ڈاکٹر تجویز کرتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں کو بھی وٹامنز تجویز کیے جاتے ہیں تاہم ماہرین کے مطابق اگرشوگر کے مریض ایسے سپلیمنٹس کو بغیر کسی وجہ کے زیادہ دیر تک استعمال کریں تو یہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
’وٹامن ڈی کی ذیادہ مقدار سے کیا مسائل ہوتے ہیں؟
ڈاکٹر راج ارون کے مطابق وٹامن ڈی کی کمی بچوں سے لے کر بڑی عمر کے افراد تک میں نظر آتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ کھلی فضا سے اجتناب اور ذیادہ تر چار دیواری کے اندر وقت گزارنا کہا جاتا ہے۔
سورج کو وٹامن ڈی کے حصول کا قدرتی ذریعہ سمجھا جاتا ہے لیکن اب لوگ باہر کم نکلتے ہیں۔ اگر پیدل چلنے، کھیل کود یا جسمانی مشقوں کے دوران سورج کی روشنی جسم تک پہنچتی ہے تو وٹامن ڈی جسم میں کیلشیم کو جذب کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔
ڈاکٹر راج ارون کے مطابق ’ہمیں صرف تین ماہ تک وٹامن ڈی لینا چاہیے، لیکن لوگ اس دورانیہ کو بڑھا دیتے ہیں اور اس صورت میں آپ کو سانس لینے میں دشواری، ہاضمے کے مسائل، تھکاوٹ، چکر آنا، الجھن، بار بار پیشاب کی حاجت ،ہائی بلڈ پریشر اور دیگر ضمنی اثرات ہو سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر سیما گلاٹی کا کہنا ہے کہ باوجود اس کے کہ لوگ اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں اور ڈایئٹ کے دوران ایسی غذا کا انتخاب کرتے ہیں جس کی ان کے جسم کو ضرورت ہوتی ہے تاہم اس دوران خوراک کا مطلوبہ تناسب خراب ہو جاتا ہے اور وٹامنز بھی غیر متوازن ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اچھی غذائیت کا موازنہ سپلیمنٹس سے نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اچھی غذائیت جسم میں تمام غذائی اجزاء کی کمی کو دور کرنے میں مدد دیتی ہے۔
اگرچہ جب خواتین کی عمر30 سال سے بڑھنے لگے تو یہ سپلیمنٹس مدد کرتے ہیں، لیکن یہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ انھیں صرف ڈاکٹر کے مشورے پر ہی استعمال کیا جانا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ یوگا اور ورزش کو بھی زندگی کا حصہ لازمی بنایا جائے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd14p1v5xl5o