پڑھنے، لکھنے میں مشکل کا سامنا کرنے والے ’ڈیسلیکسیا‘ کا شکار بچے: ’سکول والوں نے کہا بچے کے ساتھ نفسیاتی مسئلہ ہے‘
- مصنف,محمد زبیر خان
-
’مجھے بچپن اور زمانہ طالب علمی میں سبق یاد نہ ہونے پر باقاعدہ مار پڑتی تھی۔ اس وجہ سے میں ہر صبح سکول جاتے ہوئے دعا کرتا تھا کہ یااللہ پاکستان اور انڈیا کی جنگ چھڑ جائے یا سکول پر بم کا گولہ گر جائے اور مجھے کبھی سکول نہ جانا پڑے۔‘
خیبرپختونخوا کے شہر ایبٹ آباد میں سپیشل ایجوکیشن کا تعلیمی ادارہ چلانے والے ماہر تعلیم محمد عرفان نے ہمیں اپنی زندگی کی کہانی سنانے کا آغاز ان الفاظ سے کیا۔
’وہ دور میری زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ اب کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ پھر میرا بچپن لوٹ آئے اور میں عام بچوں کی طرح اسے گزار سکوں۔‘
محمد عرفان نے سنہ 2017 میں سپیشل ایجوکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اسی دوران انھیں پتا چلا کہ انھیں ’ڈیسلیکسیا‘ کا مرض ہے جس میں متاثرہ فرد کو الفاظ پڑھنے، پہچاننے، سمجھنے، یاد رکھنے اور لکھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔
عرفان ابھی تک اپنا بچپن نہیں بھولے اور اسے یاد کر کے وہ اکثر جذباتی ہو جاتے ہیں کیونکہ انھیں بچپن میں لکھائی، پڑھائی اور یاد کرنے جیسے معاملات میں شدید مشکلات کا سامنا رہتا تھا۔
لیکن اس کیفیت کا شکار ان جیسے بے شمار لوگ پاکستان میں ہیں۔
ڈیسلیکسیا کیا ہے؟
اسلام آباد کے انسٹیٹوٹ آف ڈیسلیکسیا ایجوکیشن اینڈ ایٹیچیوٹ سڈیٹز (آئیڈیاز) کی بانی اور چیئرمین ارم ممتاز کہتی ہیں کہ سادہ الفاظ میں بچوں کے لکھنے، پڑھنے اور یاد کرنے کے مسائل کو ڈیسلیکسیا کہا جاتا ہے۔ جن بچوں کو الفاظ پڑھنے، لکھنے، یاد کرنے میں مسائل ہوں ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ڈیسلیکسیا کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں ڈیسلیکسیا کے حوالے سے والدین اور اساتذہ میں زیادہ شعور نہیں ہے اور کوئی زیادہ تحقیق بھی نہیں ہے۔
حکومت پاکستان نے ڈیسلیکسیا ایکٹ 2020 متعارف کروایا تھا جس کو نافذ کرنے کا عمل جاری ہے۔
ارم ممتاز کا کہنا تھا کہ اس ایکٹ کے تحت ہر سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے لیے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ ڈیسلیکسیا کے حوالے سے اپنے اساتذہ کو تربیت فراہم کریں گے اور ایسے طالب علموں کی شناخت کی جائے، ان طالب علموں کو غیر روایتی اور جدید انداز میں تعلیم دی جائے اور کسی بھی طالبعلم کو صرف پاس، فیل یا کم نمبروں کی بنیاد پر سکول سے نہیں نکالا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈیسلیکسیا کے شکار بچوں کے لیے خصوصی نصاب کی تیاری کا کام جاری ہے جو کسی حد تک مکمل کر لیا گیا ہے۔
ارم ممتاز کے مطابق سب سے زیادہ ضرورت تھیراپسٹ یا معالج کی پڑے گی جس کے لیے تجویز پیش کی گئی ہے کہ یونیورسٹیوں میں نفسیات کے مضمون میں ڈیسلیکسیا کو شامل کیا جائے۔
وہ کہتی ہیں کہ ابھی صوبائی حکومتوں کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں یہ ایکٹ پاس نہیں ہوا۔ ’امید کرتے ہیں وہاں پر بھی اس طرف توجہ دی جائے گی۔‘
ارم ممتاز: ’ڈیسلیکسیا کوئی مرض نہیں ہے‘
’ڈیسلیکسیا بچے اللہ کا خاص تحفہ ہوتے ہیں‘
ارم ممتاز کہتی ہیں کہ ڈیسلیکسیا مرض یا خرابی نہیں ہے۔ اس کے لیے کوئی دوائی نہیں ہے۔ یہ صرف پڑھنے لکھنے کی ایک مشکل ہے۔
ان کے مطابق یہ پیدائشی طور پر اور عموماً مورثی ہوتی ہے۔ بعض اوقات کسی حادثے یا چوٹ کی بنا پر بھی ہو سکتی ہے مگر ایسے بچوں میں ذہانت اور تخلیقی صلاحیت دوسروں سے زیادہ ہی ہوتی ہے۔
’یہ لکیر کے فقیر نہیں ہوتے۔ جس گھر اور خاندان میں اگر ڈیسلیکسیا کا شکار بچہ ہو تو وہ اس کو اللہ کا خاص تحفہ سمجھے اور اس کی قدر کرے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا کی کئی نامور شخصیات ڈیسلیکسیا کی شکار تھیں۔ نامور سائنسدان آئن سٹائن، کاروبار کی دنیا میں تہلکہ خیز کامیابیاں حاصل کرنے والے برطانوی سر رچرڈ برانسن، برطانوی سپیس سائنسدان میگی ایڈرن، امریکی صدور جان ایف کینڈی، جارج واشنگٹن، جارج ڈبیلو بش اور اگر نام گنوانے بیٹھ جائیں تو شاید فہرست ختم نہیں ہو گی۔‘
’یہ سب وہ لوگ تھے جنھیں لکھنے پڑھنے میں مشکلات کا سامنا تھا مگر انھوں نے دنیا کو بدل دیا تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ مگر ہمارا معاشرہ ایسے بچوں کے ساتھ جو رویہ رکھتا ہے وہ تکلیف دہ ہے جس کے نتائج بہرحال اچھے نہیں نکلتے ہیں۔
’سکول نے کہا ہمارے بچے کے ساتھ نفسیاتی مسئلہ ہے‘
محمد عرفان کا بچپن تو زیادہ خوشگوار نہیں تھا مگر اسلام آباد میں چوتھی جماعت میں پڑھنے والے ایک کم عمر طالب علم نبیل (فرضی نام) اس حوالے سے خوش قسمت ثابت ہوئے کیونکہ ان کے والدین نے بروقت ہی اپنے بیٹے کی مشکل کا اندازہ لگا لیا تھا اور اب وہ تعلیم کو بہتر طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
نبیل کی والدہ نے بتایا کہ ’سکول سے کہا گیا کہ ہمارے بیٹے کا کوئی مسئلہ ہے اس کو بچوں کے ماہر نفسیات کو دکھانا چاہیے۔ ہم خود بھی بہت پریشان رہتے تھے کہ پڑھائی میں کمزور لگ رہا تھا۔ جب بیٹے کو بچوں کے ماہر نفسیات کو دکھایا تو پتا چلا کہ یہ ڈیسلیکسیا کی مشکل کا شکار ہے۔ جس کے بعد ہم نے ان کی تعلیم کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہیں اور اب وہ بہت اچھی کارگردگی دکھا رہے ہیں۔‘
نیبل کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کے دو بیٹے ہیں۔ ایک بیٹا سکول کے ہر امتحان میں اچھے نمبر لیتا ہے۔ اس کو سبق بھی جلدی یاد ہو جاتا ہے، پڑھائی کے وقت یکسوئی اور توجہ بھی رہتی ہے جبکہ ڈیسلیکسیا کے شکار دوسرے بیٹے کی پڑھائی پر کوئی توجہ نہیں ہوتی تھی۔ ان کو پڑھنے کے لیے بٹھانا بھی ایک مسئلہ ہوتا تھا۔‘
ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’اگر وہ کسی نہ کسی طرح پڑھنے کے لیے بیٹھ جائے تو پھر اس کی یکسوئی قائم رکھنا مشکل ہوتا، اگر کمرے میں کوئی کھلونا ہوتا یا کوئی بات کرتا تو وہ اس کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔‘
’عدم توجہ کے باعث بچے کی شخصیت پر منفی اثر پڑتا ہے‘
ارم ممتاز کہتی ہیں ہر کلاس میں عموماً ڈیسلیکسیا کا شکار بچوں کو استاد ’کند ذہن‘، ’نالائق‘ یا ’نکما‘ کا لبیل لگا دیتے ہیں، انھیں گھر اور سکول میں ڈانٹ پڑتی ہے، ان پر توجہ کم ہو جاتی ہے جس کا ایسے بچوں کی نفسیات اور شخصیت پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ایک طرح سے بچہ تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے، کلاس میں پچھلی سیٹوں پر چھپ کر بیٹھ جاتا ہے اور گھر میں بھی خاموش، ڈرا اور سہما ہوا رہتا ہے۔ کسی کے ساتھ دوستی نہیں کرتا، کسی کے ساتھ زیادہ بات نہیں کرتا اور اس کو معاشرے کے ساتھ چلنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ ماں باپ، اساتذہ کو اپنے دل کی بات نہیں کہہ سکتا۔‘
ارم ممتاز کا کہنا تھا کہ ایسے بچے اکثر اوقات مختلف قسم کی زیادتیوں اور جسمانی زیادتی کا بھی نشانہ بنتے ہیں۔ یہ بچے عموماً اپنے جاننے والوں اور خاندان کے لوگوں کے ہاتھوں ہی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔
’ایسی بہت سی کہانیاں میرے پاس ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ کسی کے ساتھ بات ہی نہیں کر پا رہے ہوتے۔ ان پر جو کچھ گزر رہی ہوتی ہے وہ خود اس کو برداشت کرتے ہیں اور اس میں ان کی صلاحیتں دب جاتی ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ان تمام معاملات کا نتیجہ ڈپریشن یا ذہنی تناؤ کی صورت میں نکلتا ہے اور اکثر اوقات خودکشی جیسے خیالات بھی آ سکتے ہیں۔
ارم ممتاز کے مطابق دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ’کچھ بچے شرارتی اور ضدی بن جاتے ہیں۔ کلاس یا گھر میں کچھ بچوں کی تعریف ہوتی ہے جبکہ ان بچوں کو ڈانٹ پڑتی ہے۔ توجہ اور پیار تو بچوں کا فطرتی حق ہے جب انھیں توجہ اور پیار نہیں ملتا تو وہ کلاس اور گھر میں شرارتیں شروع کر دیتے ہیں۔‘
’کلاس میں کبھی کسی بچے کو تنگ کیا، گھر میں اپنے بہن بھائی کو چھیڑا، استاد کو کچھ کہہ دیا، کسی کا لنچ اور کوئی چیز چھپا دی۔ جس کے نتیجے میں ان کا گھر اور کلاس میں منفی انداز میں ذکر ہوتا ہے۔‘
ارم ممتاز کا کہنا ہے کہ ’اس منفی ذکر سے وہ خوشی محسوس کرتے ہیں کیوں انھیں توجہ ملتی ہے۔ وہ اور زیادہ توجہ حاصل کرنے کے لیے اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔ جو وقت اور عمر کے ساتھ بڑھتی جاتی ہیں۔ ان کی نفسیات اور شخصیت پر منفی اثرات غالب ہو جاتے ہیں اور وہ معاشرے کا اچھا فرد نہیں بن پاتے ہیں۔‘
’بی کو ڈی اور ڈی کو بی لکھتا اور پڑھتا تھا‘
محمد عرفان
محمد عرفان اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’زمانہ طالب علمی میں بہت زیادہ پڑھتا تھا مگر سبق یاد نہیں ہوتا تھا۔ مکمل توجہ بھی نہیں ہوتی تھی۔ الفاظ کی پہچان نہیں ہوتی تھی۔ بی کو ڈی اور ڈی کو بی لکھتا اور پڑھتا تھا۔‘
اردو گرائمر میں بھی غلطیاں کرتا تھا جیسے ہے ہیں،گا گی، کی کا، لکھتے ہوئے غلط کر جاتا تھا۔ اکثر اوقات دائیں بائیں کا پتا نہیں چلتا تھا۔ انگریزی تو سمجھ ہی نہیں آتی تھی۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’انگریزی میرے لیے عذاب تھی۔ الفاظ کی ادائیگی بھی مشکل سے ہوتی تھی۔‘
محمد عرفان کا کہنا تھا کہ ’میرے والد صاحب سعودی عرب میں ہوتے تھے۔ وہ محنت مزدوری کرتے تھے اور مجھ پر دباؤ تھا کہ میں پڑھ لکھ کر اچھے نمبر لوں۔ مگر میرے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں کم نمبر آئے تھے۔ جس نے مجھے فرسٹریشن میں مبتلا کر دیا تھا۔ کچھ سکول میں مار پیٹ کا اثر اور کچھ کم نمبر یہ دونوں چیزیں میرے لیے عذاب بن گئی تھیں۔‘
محمد عرفان کہتے ہیں اس صورتحال اور بچپن کی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ کی وجہ سے فیصلہ کیا کہ میں ایسا تعلیمی ادارہ کھولوں گا جس میں بچے کو ڈانٹا اور مارا نہیں جائے گا، جدید اور غیر روایتی طریقوں سے تعلیم کے علاوہ ان پر توجہ اور پیار دیا جائے گا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب میرے پاس کئی کامیاب کہانیاں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ڈیسلیکسیا والے ناکام ہوتے تو شاید میں سب سے پہلے ناکام ہوتا لیکن ایسا نہیں ہے، میں سپشل ایجوکیشن کا ادارہ چلا رہا ہوں۔ میں نے وقت کے ساتھ اپنی صلاحتیوں اور کمزوریوں کو خود سمجھا ہے۔‘
محمد عرفان ڈیسلیکسیا کے شکار بچوں کی ذہنی حالت کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کچھ عرصہ قبل ایبٹ آباد میں ایک طالب علم نے خودکشی کی تھی۔ خودکشی کرنے کی وجہ اس طالب علم کا راہ فرار تھا۔ اس کو ہاسٹل میں داخل کروایا گیا تھا کیونکہ وہ گھر پر پڑھائی نہیں کر پا رہا تھا۔ ویک اینڈ پر گھر آنے کے بعد وہ سکول نہیں جانا چاہتا تھا مگر جب اسے سکول جانے کا کہا گیا تو اس نے پنکھے سے پھندے لگا کر خودکشی کر لی۔‘
محمد عرفان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اس کی موت کے بعد اس بچے کی کاپیاں دیکھی تو ان میں ویسی ہی غلطیاں تھیں جس طرح کی غلطیاں ہم ڈیسلیکسیا کے شکار بچے سے توقع کر سکتے ہیں۔ وہ مشکل کا شکار تھا جبکہ اس کے مسئلے کو سمجھنے کی بجائے اس کی ڈانٹ ڈپٹ ہو رہی تھی۔‘
’پیار کی ڈوز بڑھا دیں‘
ارم ممتاز کا کہنا تھا کہ ’مسئلہ ان بچوں کے ساتھ نہیں ہوتا مسئلہ والدین اور اساتذہ کے ساتھ ہوتا ہے جو ان کی صلاحیتوں کو سمجھ نہیں سکتے ہیں۔ اکثر اوقات والدین اپنی ناتمام خواہشات کو اپنے بچوں میں تلاش کرتے ہیں۔ والد خود ڈاکٹر نہیں بنے تو وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں۔ جب ڈیسلیکسیا والے بچے یہ نہیں کر پاتے تو وہ خود زیادہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب یہ ہمارے پاس آتے ہیں تو ان کو سمجھاتے ہیں تو اکثر دونوں والدین اور عموماً ان بچوں کے والد اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتے کہ ان کا بچہ ڈیسلیکسیا کا شکار ہے۔
جب وہ حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے تو مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ارم ممتاز کا کہنا تھا کہ اس مشکل کو سمجھتے ہوئے اس کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ ایسے بچوں کو بس پیار اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے بچوں پر پیار کی ڈوز کو زیادہ بڑھا دینا چاہیے۔
تعلیم کے روایتی نہیں جدید اور دلچسپی کے طریقے
نبیل (فرضی نام) کی والدہ کہتی ہیں کہ ہمیں سمجھ آ گیا کہ ہمارے ڈیسلیکسیا کے شکار بچے کو زیادہ محبت، پیار اور توجہ کی ضرورت ہے۔ ہم انھیں زیادہ پیار، محبت اور توجہ دیتے ہیں۔ پہلے اس طرح ہوتا تھا کہ جب انھیں پڑھانے کے لیے بٹھاتے تو اس کی توجہ نہ دینے پر مجھے غصہ آتا تھا۔ اب ہم نے سیکھ لیا ہے کہ ہمیں بہت زیادہ صبر اور حکمت کے ساتھ بیٹے کی دلچسپی کے مطابق آگے بڑھنا ہے۔
ان کے لیے پیار، توجہ زیادہ کرنا ہو گی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اور سکول کو بھی ان میں دن بدن بہتری مل رہی ہے۔
ان کی والدہ کہتی ہیں کہ اب ہم اس کو پڑھاتے ہوئے اس کی دلچسپی کا خیال رکھتے ہیں۔ ہم اس کو لکھائی پر مجبور نہیں کرتے بلکہ کچھ ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ خود لکھائی پر آمادہ ہو جائے۔ اس کو یاد کرنے کا نہیں کہتے بلکہ ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر اس کو کیٹ (بلی) یاد کروا کر جملے بنوانے ہیں تو ہم کیٹ کے حوالے سے اس کو کوئی دلچسپ بات بتائیں گے اور وہ بات بتا کر کہیں گے کہ ہمیں بھی کیٹ کے متعلق بتاؤ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس کو کارڈز پر بلی بنی ہوئی دکھائیں گے۔ جس کے بعد اس کے لیے اس کو یاد کرنا سمجھنا اور لکھنا زیادہ مشکل نہیں رہتا ہے۔
والدہ کہتی ہیں کہ یہ بچہ حقیقت میں مختلف ہے۔ وہ اس عمر ہی میں میرا بہت خیال رکھتا ہے۔ اپنی الماری کو دوسروں سے زیادہ بہتر رکھتا ہے اور وہ زیادہ تخلیقی ذہن کا مالک ہے۔
’ہمیں لگتا ہے کہ وہ شاید آرٹسٹ بننا چاہے گا وہ جو بھی بننا چاہے گا اس میں وہ کامیاب ہو گا۔‘
آئیڈیاز کی اظہرہ ناز کہتی ہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں جو نظام رائج ہے یہ فرسودہ ہے۔ اس نظام میں ٹیچر بلیک بورڈ پر لکھتا ہے اور بچوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی کاپی پر لکھ لیں۔ یہ نظام طالب علموں کی صلاحیتوں کو اجاگر نہیں کرتا۔ ڈیسلیکسیا کا شکار بچوں کے لیے تو یہ نظام بالکل بھی نہیں چل سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اہم مسئلہ والدین اور بالخصوص اساتذہ میں ڈیسلیکسیا کے حوالے سے آگاہی اور شعور پیدا کرنا ہے۔
جب تک اساتذہ ڈیسلیکسیا کو نہیں سمجھ سکیں گے اس وقت تک بچے کی شناخت ممکن ہی نہیں ہوسکے گی۔
اظہرہ ناز کہتی ہیں کہ جب یہ سمجھ میں آجائے کہ بچے کو لکھنے، پڑھنے میں مشکل کا سامنا ہے تو اس وقت اساتذہ اور ماں باپ کو مل کر بچے کو مختلف طریقے سے تعلیم دینا ہو گی۔ اس کی پانچوں حسوں کو جگایا جائے اس کے استعمال کے طریقے سکھائے جائیں۔
اظہرہ ناز کا کہنا تھا کہ اس کے مختلف اور الگ طریقے استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان کو بار بار سنایا جاسکتا ہے، بچے کو آمادہ کیا جائے کہ وہ اونچا پڑھے تاکہ دماغ تک سننے کے راستے کو استعمال کیا جاسکے، سمجھانے کے دوران جسم کی حرکات کو شامل کیا جاسکتا ہے، بچے کو پڑھتے ہوئے تصور کرنے کا فن سکھایا جائے، پہلے خلاصہ بیان کیا جائے، الفاظ کی بنیاد بتائی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تھوڑا مشکل ضرور ہو سکتا ہے مگر ایک مرتبہ جب بچہ یہ سیکھ لیتا ہے تو پھر آگے بڑھتا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس کی کس شعبے میں اور کیا دلچسپی ہے۔
اس کو اپنی دلچسپی کے شعبے ہی میں عملی زندگی گزارنے کی تعلیم و تربیت فراہم کی جائے۔ جس کے نتیجے میں وہ اپنی خداد صلاحیت کو بروئے کار لا کر اپنے دلچسپی اور شوق کے شعبے میں نام اور پیسہ دونوں کما سکتا ہے۔
ارم ممتاز کے مطابق بچوں کے گھر والوں اور اساتذہ کو بار بار آئن سٹائن کی زندگی کی کہانی پڑھنا چاہیے۔ بالخصوص ہر ایسے بچے کی ماں کو یہ کہانی ضرور پڑھنا چاہیے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n5n2581ljo