آج سے ٹھیک ایک سال پہلے میں نے ڈاکٹر حسین قیصرانی صاحب سے علاج کے سلسلے میں رابطہ کیا۔ اس ایک سال کے عرصے میں، میں ڈاکٹر صاحب سے کس قدر استفادہ کر سکی اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے میرے ماضی کی ایک جھلک دکھائی جائے۔
میرا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کے لئے زندگی صرف آسانیوں اور آسائشوں کا نام ہے۔ ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھنے کے باوجود میں نے اپنی زندگی میں کوئی بھی کمی اور محرومی نہیں دیکھی۔ میں اپنے والدین، بہن بھائی غرض کہ اپنے خاندان میں سب کی لاڈلی تھی۔ میرے والد میری ہر خواہش اپنا فرض سمجھ کر پوری کرتے تھے۔ اس محبت کے علاوہ اللہ نے مجھے ہر قدم پر کامیابی سے بھی نوازا۔ سکول ہو یا کالج میں نے ہر جگہ اپنی کامیابی کی تاریخ رقم کی۔ میری فیملی میں مجھے رول ماڈل سمجھا جاتا تھا۔ میری تمام کزنز میری خوش قسمتی کی مثالیں دیتی تھیں۔ فیملی کی سپورٹ اور اللہ کی نوازش نے میری ذات کو بہت مضبوط اور نڈر بنا دیا تھا۔ میں بڑی سے بڑی پریشانی کا بھی بہت بہادری سے سامنا کرنے کا ہنر رکھتی تھی اور اپنی وقت پر صحیح فیصلہ کرنے اور پھر اس پر ڈٹے رہنے کی خوبی کی وجہ سے جانی جاتی تھی۔ میں بلا خوف و خطر کامیابیاں اور خوشیاں سمیٹتی ہوئی زندی کے سفر پر گامزن تھی جب اچانک میں ایک اندھیری دیوار سے ٹکرا گئی۔
میرے والد صاحب اچانک اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ میری اپنے والد صاحب کے ساتھ انسیت اس قدر زیادہ تھی کہ میں اس حادثے کو برداشت نہ کر سکی۔ میرے گھر والوں نے اس موقع پر مجھے سنبھالنے کی بہت کوشش کی لیکن میں نے خود کو سب سے الگ کر لیا۔ اس حادثے نے میری شخصیت کو توڑ کر رکھ دیا اور میری ذات پر جمی خود اعتمادی اور جرات مندی کی مضبوط تہیں ایک ایک کر کے ٹوٹنا شروع ہو گئیں۔ ایک انجانے خوف نے مجھے اتنی مضبوطی سے جکڑ لیا کہ میں بہت کوشش کے باوجود بھی اس سے باہر نہ نکل سکی۔
میرے والد صاحب کی وفات کے چھ ماہ بعد میری زندگی کا ایک اور باب شروع ہوا، میں اگر اسے حسین باب کہوں تو غلط نہ ہو گا، جب میں رخصت ہو کر اپنے پیا گھر سدھار گئی۔ خوش قسمتی نے میرا دامن یہاں بھی نہ چھوڑا اور مجھے ایک بہت ہی خیال رکھنے والا شوہر اور محبت کرنے والا سسرال ملا۔ خصوصی طور پر میرے سسرال میں سب میری اپنے والد سے وابستگی کی شدت سے واقف تھے اس لئے انہوں نے ہر طرح سے اس حادثے کو بھلانے اور مجھے خوش رکھنے کی کوشش کی لیکن میرے لئے ان سب کی ہر کوشش بے ثمر تھی۔ میں کسی طور بھی اس محبت کو قبول کرنے کو تیار نہ تھی شائد اس کی ایک وجہ اپنوں کو کھو دینے کا وہ خوف تھا جو میرے دل و دماغ میں بہت گہرائی تک گھر کر گیا تھا۔ میں اپنی اس ذہنی کشمکش سے مسلسل لڑ رہی تھی جب ایک نئی جستجو شروع ہو گئی؛ اولاد کی جستجو۔ مجھے اپنے تمام مسائل کا حل بس یہی لگا کہ میں خود کو بچوں میں مشغول کر لوں لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کئی سال کوشش کرنے کے بعد جب مجھے اس میں ناکامی کا سامنا کر نا پڑا تو میرا ذہن پوری طرح ماؤف ہو گیا۔ میرے شوہر اور گھر والوں نے اس مقام پر بھی میرا بھرپور ساتھ دیا لیکن میں سنبھل نہ سکی۔ میں نے چونکہ کبھی ناکامی نہیں دیکھی تھی اپنی زندگی میں اس لئے اتنی بڑا ناکامی کو برداشت نہ کر سکی اور ڈھیر سارے خود ساختہ شکوے شکائتیں اور خوف لے کر ڈپریشن کے گھر کی راہ لی جو دونوں بانہیں پھیلا کر مجھے کب سے اپنی طرف بلا رہا تھا، جو بالآخر چھ سالوں کی انتھک محنت کے بعد میری مضبوط شخصیت میں وہ سوراخ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو ہی گیا جس سے وہ میرے دل ودماغ پر قابض ہو سکے۔ چیخنا چلانا، بلا وجہ اور ہر وقت لڑنے کے بہانے تلاش کرنا، چیزیں پھینکنا اور ہر کسی کے لئے برا گمان رکھنا یہ میری عادت بن گئی۔ میری ہر صلاحیت اور قابلیت کو ڈپریشن نے دیمک کے طرح آہستہ آہستہ چاٹنا شروع کر دیا۔
میری بگڑتی ذہنی حالت نے میری صحت پر بھی بہت برا اثر ڈالا اور میں بہت سے جسمانی مسائل کا بھی شکار ہو گئی۔ میری قوت مدافعت خطرناک حد تک کم ہو گئی۔ مجھے بے خوابی کا بھی سامنا کرنا پڑا جس سے میری طبیعت میں بہت زیادہ چڑچڑا پن پیدا ہو گیا۔ نیند اور کھانے کی بے قاعدگی کی وجہ سے میرا وزن بھی اس قدر بڑھ گیا کہ اندرونی مسائل کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ پیریڈز میں بے قاعدگی اور پی۔ ایم۔ ایس ایک نئی آزمائش بن کر ہر ماہ میرے سامنے کھڑے ہو جاتے۔ اس خوف سے کہ میرے ساتھ کبھی کچھ اچھا نہیں ہو سکتا اور میری ہر پسندیدہ چیز مجھ سے چھن جائے گی میں نے زندگی کو جینا ہی چھوڑ دیا تھا بلکہ صرف زندگی کے دن گزار رہی تھی۔
میری ذہنی حالت دن بدن بدتر ہوتی جارہی تھی اور اب میں اس مقام پر تھی جہاں میں خود کو بھی نقصان پہنچا سکتی تھی جب میرے شوہر نے کسی دوست سے ڈاکٹر حسین قیصرانی کے بارے میں سنا اور ان سے علاج کا فیصلہ کیا۔ یہ میرے لئے ایک اور آزمائش کی طرح تھا لیکن ڈاکٹر صاحب کے طریقہ علاج اور حلیمی طبیعت نے میرے لئے ان سے علاج کو بہت آسان بنا دیا۔ میرے لئے ان کا وجود ایک ایسے نجات دہندہ کی طرح ثابت ہوا جس کی بدولت میں اپنی تمام ذہنی اور جسمانی تکلیفوں سے آزاد ہو سکی۔
ڈاکٹر حسین قیصرانی صاحب سے علاج کے ایک سال بعد ہی میری شخصیت کی دڑاڑیں بھرنا شروع ہو گئیں اور میں پہلے کی طرح مضبوط اور نڈر بن گئی۔ میری بیماریاں جنہیں میں نے خود پر بلا وجہ طاری کیا ہوا تھا سب ہوا ہو گئیں۔ میں پہلے کی طرح ہنسی خوشی زندگی کی طرف رواں دواں ہو گئی۔ میرے تمام خوف اور خدشات ایک ایک کر کے دم ٹورنا شروع ہو گئے حتیٰ کہ میری زندگی کا سب سے بڑا خوف، بے اولاد ہونے کا، وہ بھی اب مجھے ہراساں نہیں کرتا۔ ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے میرا ازدواجی رشتہ جو ڈپریشن کی وجہ سے ٹوٹنے کے درپے تھا وہ بھی بہت خوشگوار ہو گیا۔
ہاں اپنے والد صاحب کی موت کا غم ابھی بھی میرے لئے اتنا ہی تکلیف دہ ہے جتنا ماضی میں تھا لیکن اب میں اس قابل ہو گئی ہوں کہ اس تکلیف کو ہمت سے بغیر کسی اور رشتے کو تکلیف دیے برداشت کر سکوں مطلب “تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے”۔ میں نہیں جانتی کہ میں اس تبدیلی کو کب تک قائم رکھ سکتی ہوں لیکن ایک بات جو میں جانتی ہوں وہ یہ کہ اب جب بھی ڈپریشن کبھی بھول کر میرے گھر کی طرف آ نکلا تو میں اپنے دونوں بازو سینے پر باندھے بہت اطمینان سے اس سے پوچھوں گی، ” او، ہیلو کدھر؟ بلاؤں ڈاکٹر صاحب کو؟”
میں اپنے رب کا بہت شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے اپنی اتنی نعمتوں اور پیارے رشتوں سے نوازا۔ ساتھ ہی ساتھ میں اپنی فیملی اور شوہر کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ وہ مشکل کی ہر گھڑی میں میرے ساتھ رہے۔ سب سے آخر میں لیکن سب سے زیادہ میں مشکور ہوں ڈاکٹر حسین قیصرانی صاحب کی جو نہ صرف ایک اچھے سائیکیٹرسٹ اور قابل ڈاکٹر ہیں بلکہ ایک بہت ہی ہمدرد انسان بھی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور ۔ فون 03002000210