’14 برس کی عمر میں میرا ریپ ہوا، میں ہر رات دعا کرتی تھی کہ میں اگلی صبح نہ اٹھوں‘
’14 برس کی عمر میں میرا ریپ ہوا۔ وہ تجربہ بہت تکلیف دہ تھا۔ میں ہر رات دعا کرتی کہ میں اگلی صبح نہ اٹھوں۔ وہ سب بہت خوفناک تھا۔ بہت زیادہ خوفناک۔‘
ماڈل اور ٹی وی شخصیت کرسٹین میگینیز نے بالغ افراد میں آٹزم کی تشخیص اور جنسی ہراسانی کے تجربے کے بارے میں بی بی سی سے بات کی ہے۔
کرسٹین میگینیز میں آٹزم کی تشخیص سنہ 2021 میں ہوئی، جب ان کی عمر 33 برس تھی۔
لیورپول میں انھیں اپنے سکول میں پڑھائی پر مکمل توجہ دینے کے لیے کافی محنت کرنا پڑتی تھی۔ انھوں نے 14 برس کی عمر میں سکول چھوڑ دیا تھا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’میں اس وقت بہت پریشان تھی، ایک ایسی نوعمر لڑکی جو نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں فٹ ہوتی ہے۔‘
پچپن میں جب انھیں سننے میں مشکلات کا سامنا ہوتا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ بہت زیادہ جنک فوڈ کھاتی ہیں۔ لڑکپن میں اس کی وجہ سے ان کی کھانے پینے کی عادات شدید خراب ہو گئیں اور ماہواری رُک گئی۔
آواز اور کسی بُو کے بارے میں انتہائی حساس ہونے کی وجہ سے کرسٹین کے لیے کسی مصروف یا شور والی جگہ پر رہنا مشکل ہوتا تھا اور اکثر انھیں گھڑی کی ٹک ٹک سے بھی مسئلہ ہوتا۔
لیکن کرسٹین کے لیے زندگی کا سب سے مشکل مرحلہ وہ تھا، جب وہ کم عمر تھیں۔ انھیں نو سے گیارہ برس کی عمر کے دوران جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 14 برس کی عمر میں ان کا ریپ ہوا۔
نیشنل آٹسٹک سوسائٹی میں کلینیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر سارہ لیسٹر بروک کہتی ہیں کہ آٹزم کا شکار بہت سی خواتین اور لڑکیاں جنسی تشدد کے تجربے کے بارے میں رپورٹ کرتی ہیں۔ یہ بہت سنجیدہ اور پریشان کرنے والا معاملہ ہے۔
سنہ 2022 میں ایک آن لائن سروے میں 225 افراد سے بات کی گئی، جس کے مطابق آٹزم کا شکار دس میں سے نو خواتین کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سروے کے مطابق دو تہائی متاثرین کے مطابق جب انھیں پہلی بار نشانہ بنایا گیا تو ان کی عمریں بہت کم تھیں۔
’آٹزم وہ وجہ نہیں، جس کی بنا پر کسی کا ریپ کیا جائے‘
کرسٹین کے طرح سارہ ڈوگلس میں بھی اُس وقت آٹزم کی تشخیص ہوئی، جب وہ بالغ تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لڑکپن میں ان کا بھی ریپ کیا گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اس وجہ سے کئی دہائیوں تک مجھے گھبراہٹ کے دورے پڑتے تھے، کھانے پینے کی عادات خراب ہو گئیں اور حتیٰ کہ میں نے خود کو بھی نقصان پہنچایا۔ میں بالکل تباہ ہو گئی تھی۔‘
سارہ آٹزم پر ایک کتاب کی شریک مصنف بھی ہیں، جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ آٹزم کی شکار خواتین اکثر اپنے اصل جذبات کو چھپا کر دوسروں کو خوش کرنے کا رویہ اپنا لیتی ہیں تاکہ انھیں مختلف یا الگ نہ سمجھا جائے۔
سارہ کہتی ہیں کہ جب وہ بڑی ہو رہی تھیں تو انھیں سیکس ایجوکیشن نہیں دی گئی تھی اور انھیں اس بارے میں نہیں بتایا گیا تھا کہ ہراساں کرنے والوں کا عمومی رویہ کیسا ہو سکتا ہے۔
’میری کہانی غیر معمولی نہیں، یہ بہت خوفناک ہے لیکن آٹزم کا شکار بہت سے افراد کے لیے یہ معمول کی چیز ہوتی ہے۔‘
سارہ وضاحت کرتی ہیں کہ ’کسی انسان میں آٹزم وہ وجہ نہیں ہوتی جس کی بنا پر اسے ریپ یا تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔‘
’یہ آٹزم کا شکار افراد کی غلطی نہیں ہوتی بلکہ یہ ہمیشہ مجرم کی اپنی چوائس ہوتی ہے۔‘
کرسٹین کہتی ہیں کہ آٹزم کی شکار خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جنسی تشدد ’خوفزد‘ ہے لیکن یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے۔
’آٹزم کی شکار خواتین کے والدین اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے افراد کو اس بارے میں آگاہی ہونا ایک مثبت چیز ہے۔ میں کسی کو ڈرانا یا پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ میں لوگوں کو بس یہ بتایا چاہتی ہوں کہ بدقسمتی سے ایسا ہونا بہت عام سی بات ہے۔‘
’آٹسٹکا‘ نامی خیراتی ادارے کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر جیمز کواسیک اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس بارے میں آگاہی کی بدولت آٹزم کی شکار لڑکیاں اور خواتین اپنے لیے آواز اٹھانے کے سلسلے میں خودمختار اور پراعتماد ہو سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
’میں ابھی بھی میں ہوں لیکن پہلے سے زیادہ مکمل ہوں‘
سکول چھوڑنے کے بعد کرسٹین کی والدہ نے ان کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ مقابلہ حسن میں حصہ لیں جس کے بعد سنہ 2007 میں کرسٹین نے ’مس لیورپول 2007‘ کا ٹائٹل جیتا۔
وہ 19 برس کی عمر میں اپنے مستقبل کے شوہر پیڈی میگینیز سے ملیں اور گذشتہ برس علیحدگی سے قبل تک ان کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک رہیں۔
کرسٹین کہتی ہیں کہ آٹزم کی تشخیص کے بعد انھیں یہ رشتہ چھوڑنے میں مدد ملی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں ایک ایسی جگہ پر رہ رہی تھی، جہاں میں شاید خوش نہیں تھی لیکن میں اس لیے وہاں رہ رہی تھیں کیونکہ وہ جگہ محفوظ تھی اور مجھے تبدیلی پسند نہیں۔‘
کرسٹین کہتی ہیں کہ آٹزم کی تشخیص کے بعد انھیں کئی مثبت چیزوں کا تجربہ کرنے کا موقع ملا۔ ’اس سے مجھے خود کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد ملی۔ میں خود کو برا بھلا نہ کہنے کی کوشش کر رہی ہوں۔‘
کرسٹین کہتی ہیں کہ آٹزم نے انھیں اپنے تینوں بچوں کو سمجھنے میں مدد کی، جنھیں آٹزم ہے۔‘
مثال کے طور پر وہ سمجھ سکتی ہیں کہ کیوں ان کے بچے لوگوں میں گھلتے ملتے نہیں اور اپنے بچوں کے سکول اور سٹاف کے ساتھ بہتر انداز میں کام کر سکتی ہیں تاکہ اپنے بچوں کی ضروریات کو سمجھ سکیں۔
اپنے بچوں کو ’خوش اور پیارے بچوں‘ کے طور پر بیان کرتے ہوئے کرسٹین کہتی ہیں کہ ان کے بچے اب سکول کو انجوائے کرتے ہیں اور بہتر انداز میں اپنی بات دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔
سارہ بھی کہتی ہیں کہ آٹزم کی تشخیص کے بعد ان کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔ ’میں ابھی بھی میں ہوں لیکن پہلے سے زیادہ مکمل ہوں۔‘
’تھوڑی اور زیادہ مدد‘
برطانیہ کے محکمہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق لڑکیوں اور خواتین سمیت تقریباً ایک لاکھ 25 ہزار سے زیادہ افراد آٹزم کی تشخیص کا انتظار کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر بروک کہتی ہیں کہ اتنا طویل انتظار ’تکلیف دہ‘ ہو سکتا ہے اور بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایسا ہے جیسے بغیر کسی مدد کے جدوجہد کرنا یا کسی ’بحران‘ تک پہنچ جانا۔
وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ جب آٹزم کا شکار کوئی لڑکی یا خاتون جنسی تشدد کو رپورٹ کرے تو حکومت کو انھیں بہتر سپورٹ اور کاؤنسلنگ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس معاملے میں ’تاخیر کو کم کرنے اور متاثرہ افراد کی مدد کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو اس بات کا اندازہ ہے کہ جنسی تشدد کرنے والے افراد، آٹزم کے شکار لوگوں پر تباہ کن اثرات مرتب کر سکتے ہیں
انھوں نے مزید کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سرمایہ کاری کر رہے ہیں کہ مریضوں کو زیادہ جلدی دیکھا جائے اور متاثرہ افراد کی مدد کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں۔
دوسری جانب کرسٹین کہتی ہیں کہ وہ بحیثیت ایک ماں، ایک ٹی وی شخصیت اور آٹزم کی وکالت کرنے پر اپنی زندگی سے خوش ہیں تاہم وہ سوچتی ہیں کہ اگر ان میں آٹزم کی تشخیص جلدی ہو جاتی تو ان کی زندگی مختلف ہو سکتی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میری خواہش ہے کہ کاش چھوٹی کرسٹین کو تھوڑی اور زیادہ مدد ملی ہوتی۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n73xvzpwjo