انگزائٹی، ڈپریشن، معدے اور پیشاب کے مسائل – کامیاب کیس، دوا اور علاج -حسین قیصرانی

مسٹر ایچ کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ وہ ایک سافٹ ویئر انجینئر ہیں۔ ان کے عجیب و غریب مسائل نے ان کے معیار زندگی کو خاصہ متاثر کر رکھا تھا۔ گھر سے نکلتے ہی پیشاب اور پاخانے کی حاجت کا بار بار محسوس ہونا اور ان پر کنٹرول کھو دینے کے خوف نے زندگی کو محدود کر دیا تھا۔ دنیا گھومنے کا شوق تھا لیکن سفر کے دوران ہونے والی انزائٹی (Anxiety) کی وجہ سے یہ ممکن نہ تھا۔ لوگوں سے میل جول نہ ہونے کے برابر تھا۔ رش والی جگہ پر دم گھٹنے لگتا تھا۔ اسے لگتا تھا وہ وہاں پھنس جائے گا اور نکل نہیں پائے گا۔ معدے کے مسائل، آنکھوں میں سوجن، بے سکون نیند، ہر وقت ڈپریشن، ذہنی دباؤ، پٹھوں کی شدید کمزوری، خود اعتمادی کا فقدان، وہم، ڈر، خوف، پریشانی اور گھبراہٹ نے شخصیت کو مسخ کر رکھا تھا۔ تفصیلی گفتگو کے بعد جو مسائل سامنے آئے ان کا خلاصہ یہ ہے۔

۔🔷 جسمانی مسائل🔷۔

سفر کے دوران بلکہ سفر کا پروگرام بنتے ہی شدید ٹینشن ہوتی تھی۔ ذہن ہر وقت اس معاملے پر سوچنے پر مجبور ہی ہوتا۔ بار بار پیشاب کی حاجت ہوتی
(strong   urge   for    urination) اور ایسا لگتا جیسے لوز موشن () کی شکایت ہوجائے گی۔ (frequent   bowel   movement) پیٹ میں عجیب سے چکر چلنے لگتے تھے۔ (growling) اپنے قریب واش روم نہ پا کر ڈر لگنے لگتا۔ پیشاب نکل جانے کے خوف سے شدید اعصابی تناؤ پیدا ہوتا تھا۔ مریض کو لگتا تھا یہاں ابھی اس کا پیٹ خراب ہو جائے گا اور وہ کنٹرول نہیں کر پائے گا۔ یہ خوف مریض کو عجیب اضطراری کیفیت () میں مبتلا کر دیتا تھا۔ (fear  of   losing    control      while       traveling)2۔ ہر وہ جگہ جہاں لوگ زیادہ ہوں مریض کے لیے پریشانی کا باعث بنتی تھی۔
(avoid   interactions)۔ دم گھٹنے کا احساس ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی بس میں بیٹھنا انگزائٹی(anxiety) کی وجہ بنتا تھا۔ مریض 30 منٹ سے زیادہ بس کا سفر نہیں کرسکتا تھا۔ 3۔ معدے کے مسائل بہت پرانے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد گیس ہوجاتی اور پیٹ پھول جاتا تھا۔ (bloating) معدے میں تیزابیت (acidity )کا احساس ہوتا تھا۔ رات کو پیٹ غبارے کی طرح محسوس ہوتا تھا۔ کچھ کھانے معدے کو فورا ہی شدید ڈسٹرب کر دیتے تھے۔ جیسے آلو، چھوٹے گوشت کا سالن، دال مونگ مسور، انڈا، مرغی کا سالن، گرم یا نیم گرم دودھ، شلجم کا سالن، لوبیا وغیرہ خاص طور پر مٹن کھاتے ہی معدہ سوج جاتا ہے۔ (food    allergy)اور ایک گھنٹے کے اند اندر لوز موشن کی شکایت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد شدید کمزوری کا احساس ہوتا تھا۔4۔ پچھلے سولہ سال سے آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی رہتی تھیں۔ گرمیوں میں صورت حال مزید خراب ہو جاتی تھی۔ آنکھوں میں خارش بھی ہونے لگتی تھی۔ (reddish,  swollen  &  itching eyes)
۔ دانتوں کی صفائی کا خیال رکھنے اور روزانہ برش کرنے کے باوجود سانس تروتازہ نہیں ہوتی تھی۔ (Bad breathe)یہ مسئلہ تقریبا 25 سال پرانا تھا۔ دانت پیلے تھے (yellow teeth) اور سامنے والے دانتوں پر نشانات تھے حالانکہ سگریٹ نوشی جیسی کوئی عادت نہیں تھی۔6۔ بلڈ پریشر لو رہتا تھا۔ (low blood pressure) عام طور پر دل کی دھڑکن بھی سست رہتی تھی۔ 7۔ دوسروں کی نسبت سردی زیادہ محسوس ہوتی تھی۔ (sensitive to  cold)8۔ کبھی کبھی  کانوں میں سیٹیاں بجتی تھیں
۔9۔ پیٹ کے نچلے حصے میں کھچاؤ رہتا تھا اور دائیں طرف سے دبانے پر درد کا احساس ہوتا تھا۔ (Tight lower abdominal muscles) 10۔ صبح اٹھتے ہی منہ کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ (bad mouth taste)اور ایسا لگتا ہے جیسے حلق میں کچھ پھنسا ہوا ہو۔11۔ ایک ڈاکٹر کا خیال تھا کہ مریض کا کا مسئلہ SIBO ہے۔ (small intestine bacterial overgrowth) اور شاید یہی وجہ تھی کہ وزن تیزی سے کم ہو رہا تھا اور کمزوری بڑھ رہی تھی۔15۔ دائیں testicle کے بالکل اوپر ایک غدود تھی۔ دبئی کے ایک urologist کے مطابق یہ ایک epididymal cyst  تھی۔ 16۔ جب بھی لوز موشن کی شکایت ہوتی تھی پاخانے پر بہت چکنائی ہوتی اور کبھی کبھی تو بلغم بھی نظر آتی تھی۔ (mucus in stool)17۔ ازواجی معاملات میں شدید ناکامی مریض کے ذہنی دباؤ کو دس گنا بڑھا دیتی تھی۔ (sexual weakness, premature ejaculation) شدید کمزوری، خواہش اور تحریک کا بالکل نہ ہونا ڈپریشن کی ایک بڑی وجہ تھی۔ (erectile dysfunction, no desire)

🔷 نفسیاتی مسائل 🔷
1۔ مریض کو بہت زیادہ خوشی اور غمی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ بڑی سے بڑی کامیابی بھی مریض کو پرجوش نہیں کرتی تھی۔ نہ ہی بڑے نقصان سے دکھ محسوس ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ اپنے والد کی وفات پر بھی مریض کی آنکھوں میں نمی نہ تھی۔2۔ مریض کو اپنی تعریف سننا پسند نہ تھا۔ اگر کوئی مریض کے سامنے اس کی تعریف کرتا تو اسے ناگوار گزرتا تھا لیکن اگر کوئی مریض کو اس کی خامیاں بتاتا تو اسے برا نہ لگتا تھا۔3۔ غصہ بہت زیادہ آتا تھا۔ (anger)کبھی کبھی انتہائی معمولی باتوں پر غصہ آتا لیکن جتنی جلدی غصہ آتا اتنی ہی جلدی غائب ہو جاتا تھا۔ اور بعد میں مریض کو یہ پچھتاوا لاحق رہتا کہ میں نے ایسا کیوں کہہ دیا یا مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔4۔ بہت پرانی چھوٹی چھوٹی باتیں مریض کو یاد رہتی تھیں۔ خاص طور پر اگر کسی نے ان کے ساتھ کچھ برا کیا ہو تو وہ انہیں کبھی نہیں بھولتا تھا۔5۔ مریض اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر پاتا تھا۔ محبت یا نفرت دونوں طرح کے جذبات اس کے دل میں ہی رہتے تھے۔ اپنے گھر والوں سے بھی محبت کا اظہار کرنا ایک مشکل کام تھا جو وہ نہیں کر پاتا تھا۔ (extremely introvert)6۔ اچانک آنے والی کوئی اونچی آواز یا کسی بچے کے رونے سے ایک لمحے کے لیے دل ڈوب جاتا تھا۔ یہ مسئلہ بیس سال پرانا تھا جب ایک رات بچے کے رونے کی آواز سے مریض چیخ مار کر اٹھ بیٹھا ۔7۔ دماغ ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا تھا۔ (over thinking) کوئی لمحہ بھی ایسا نہ ہوتا جب ذہن پُر سکون ہو۔ کبھی کبھی آدھی رات کو آنکھ کھلتی تو کوئی گانا دماغ میں مسلسل چل رہا ہوتا جسے کنٹرول کرنا اس کے بس میں نہ تھا۔ دل کی دھڑکن بہت تیز ہو جاتی، پیٹ میں گیس محسوس ہوتی اور پیٹ سے ایسی آوازیں آتی تھیں کہ جیسےابھی پیٹ خراب ہو جائے گا۔ پھر سخت نیند کے باوجود سویا نہیں جاتا۔ وہ اپنے آپ کو خواب میں اکثر برہنہ دیکھتا تھا۔ 8۔ ایک ٹینشن جو ہر وقت سر پہ سوار رہتی تھی وہ یہ تھی کہ “لوگ میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں “اس سوچ نے مریض کو شدید ذہنی دباؤ (mental stress) میں مبتلا کر رکھا تھا۔9۔ گھر کی ذمہ داریاں اٹھانا بہت مشکل لگتا تھا۔ 10۔ لوگوں سے گھل مل نہیں پاتا تھا۔ (anti social) صحیح ہونے کے باوجود اپنے موقف کا دفاع نہیں کر سکتا تھا۔ اپنی بات کو بیان کرنا اور گفتگو میں حصہ لینا اس کے لیے ممکن نہ تھا۔ (Lack of courage) دوستوں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتا مگر زیادہ تر دوست اس کی نرم دلی کا فائدہ اٹھاتے تھے۔ 11۔ جھوٹ، بد تنظیمی اور وقت کی پابندی نہ کرنا مریض کو سخت نا پسند تھا۔

۔🔷 خوف اور وہم 🔷۔

 مریض کو لگتا تھا جیسے اس کے پاس ایک بلیڈ ہو جس سے وہ اپنی کلائی کاٹ دے گا۔2۔ کسی بند کمرے یا بس میں جہاں زیادہ لوگ ہوں مریض وہاں نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ اسے لگتا تھا جیسے اسے کچھ ہو جائے گا۔
۔ (fear to get stuck)

🔷 ہسٹری 🔷
1۔ بچپن سے ہی صحت کچھ خاص اچھی نہ تھی۔ 13 سال کی عمر میں ہارٹ سرجری ہوئی۔ 2۔ پھر 15 سال کی عمر میں  ٹائیفائڈ اور نمونیہ نے طویل عرصہ تک بیمار رکھا۔

۔🔷 تجزیہ اور علاج🔷۔
بچپن کے ناخوشگوار ماحول نے کلائنٹ کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ والدین کے کشیدہ تعلقات اور گھر میں ہونے والی ہر وقت کی لڑائی نے مسٹر ایچ کو ایک شرمیلا بچہ بنا دیا۔ جو کسی سے بھی اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا تھا۔ پیار، نفرت، غصہ، ناراضگی غرض ہر جذبہ اس نے اپنے اندر دبایا ہوا تھا۔ کسی کے لیے اس کے دل میں کیا ہے اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ چھوٹی عمر سے ہی صحت کے شدید مسائل کا سامنا تھا اور دواؤں کا استعمال بھی بہت زیادہ رہا تھا جس کی وجہ سے جسمانی اور اعصابی کمزوری شدید تھی۔ نروس سسٹم بہت حساس تھا۔ چھوٹی سی ذمہ داری بھی اعصاب پر سوار ہو جاتی تھی۔ اور اسے پورا کرنا ایک مہم سر کرنے جیسا ہوتا تھا۔ خود اعتمادی کی انتہائی کمی تھی۔ لوگوں کا سامنا نہیں کر سکتا تھا۔ اپنا مؤقف بیان نہیں کر سکتا تھا۔ بات کرنے کا حوصلہ ہی نہیں تھا۔ شدید اعصابی تناؤ نے ذہنی اور جسمانی کمزوری میں مبتلا کر رکھا تھا۔ آنے والے وقت کا سوچ کر ہی پیٹ میں چکر چلنے لگتے اور بار بار پیشاب آنے لگتا تھا۔ کہی۔ ہر کام کے لیے قبل از وقت اندازے لگاتا رہتا اور یہ سوچ سوچ کر گھلتا رہتا کہ پتہ نہیں میں کر پاؤں گا یا نہیں۔۔۔

🔷مسٹر ایچ کا  فیڈ بیک🔷
 علاج شروع ہونے کے بعد مجھے کسی کام سے ملتان جانا پڑا۔ جو بہت واضح اور مثبت تبدیلی میں نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ میں پہلے کی نسبت پر سکون رہا۔ مجھے بار بار پیشاب آنے کا احساس نہیں ہو رہا تھا اور نہ ہی پاخانے کی حاجت محسوس ہو رہی تھی۔ پہلے جب میں سفر کرتا تھا تو کچھ بھی کھانے پینے سے پرہیز کرتا تھا تاکہ مجھے واش روم نہ جانا پڑے۔ مجھے ڈر لگتا تھا کہ اگر مجھے شدید حاجت ہوئی اور قریب واش روم نہ ملا اور میں کنٹرول نہ کر سکا تو کیا ہوگا۔ یہ احساس مجھے اذیت میں مبتلا رکھتا تھا۔ لیکن پہلی بار ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ دوائی کے اثرات بھی ہو سکتے تھے اور اس سائیکوتھراپی (Psychotherapy) کے بھی جو ڈاکٹر صاحب مجھے دے رہے تھے۔ میں بتا نہیں سکتا لیکن پریشان نہ ہونا واقعی میں بہت خوبصورت احساس ہوتا ہے۔ میں سارا دن ملتان میں رہا۔ وہ ایک مصروف دن تھا۔ میں پریشان نہیں تھا۔ میرا ذہن الٹی سیدھی باتوں میں الجھا نہیں رہا تھا۔ کسی بھی قسم کا کوئی دباؤ یا اینزائٹی نہیں تھی۔ میرا معدہ ٹھیک کام کر رہا تھا۔ پیٹ سے آوازیں نہیں آ رہی تھیں۔

علاج کے دوران میں نے محسوس کیا کہ اب میرا باڈی ٹمپریچر پہلے سے بہتر ہے۔ پہلے میرا بی پی لو رہتا تھا اور گرمیوں میں بھی جسم ٹھنڈا رہتا تھا  لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ جو بھی مجھ سے ہاتھ ملاتا ہے اسے لگتا ہے مجھے بخار ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ ایک دن مجھے افطاری کے لیے اپنی فیملی کے ساتھ مونال جانا پڑا۔ میں کبھی پیچیدہ راستوں پر ڈرائیو نہیں کرتا تھا بلکہ کر ہی نہیں سکتا تھا لیکن اب صورت حال مختلف تھی۔ میں پریشان ہونے کی بجائے پر جوش تھا۔ سفر بہت اطمینان بخش رہا اور سارا دن بہت اچھا گزرا۔ یہ ایک بہت خوشگوار تبدیلی تھی۔ اپنی فیملی کے ساتھ پارک جانا ہوا۔ پیشاب کی حاجت تھی لیکن اتنی شدت سے نہیں کہ میں پریشان ہو جاؤں۔ میں نے فیملی کے ساتھ انجوائے کیا۔ میری آنکھیں بہت بہتر ہیں۔ اب پہلے جیسی کمزوری بھی محسوس نہیں ہوتی۔ ایک کام سے چترال جانا ہوا۔ وہاں چار دن کا کام تھا۔ میں نے وہاں وہ سب کھایا جو میں پہلے نہیں کھا سکتا تھا۔ اور میرا معدہ بالکل ٹھیک رہا۔ لیکن گھر آنے کے بعد طبیعت پھر خراب ہو گئی اوور آل علاج کے دوران اتار چڑھاؤ آتے رہے۔ کئی بار مسائل اتنے شدید ہو جاتے کہ مجھے لگتا کہ مجھے anti depressants لینی پڑے گی۔ لیکن آہستہ آہستہ سمجھ آنے لگی کہ یہ علاج کا ہی ایک حصہ ہے۔ میرے مسائل بتدریج حل ہو رہے تھے اور میری پریشانیاں کم ہو رہی تھیں۔ ایک دن میں اپنے آپ کو چیک کرنے کے لیے ایک انجانے راستے کی بس میں بیٹھ گیا۔ میں ایک گھنٹہ بیٹھا رہا۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ بس کہاں جا رہی ہے لیکن مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ لگاتار پیشاب اور پاخانے کی حاجت نہیں تھی۔ واش روم نہ ملنے کا خوف نہیں تھا۔ دم گھٹنے اور اندر بند ہو جانے کا ڈر نہیں تھا۔ کوئی منفی خیالات نہیں تھے۔ سب کچھ نارمل تھا۔ اس سے پہلے میں ایسا کچھ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ پہلے میں ذمہ داریوں سے گھبراتا تھا لیکن اب میں ان کے متعلق منصوبہ بندی کرتا ہوں کہ انھیں کیسے پورا کرنا ہے۔ الحمدللہ میں پہلے سے بہتر ہوں۔ میں مطمئن ہوں آج کل کام کی تلاش میں ہوں لیکن پریشان نہیں ہوں۔ سب کچھ کھا پی رہا ہوں۔ معدہ بالکل ٹھیک ہے۔ انگزائٹی اور ذہنی دباو () غائب ہو گئے ہیں۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ میں دوسرے لوگوں کی طرح ایک نارمل زندگی گزار رہا ہوں۔

0 0 votes
Article Rating
kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter