شدید ڈپریشن انزائٹی، وزن میں کمی، بالوں کا گرنا، ڈر خوف فوبیاز ۔ علاج ہومیوپیتھک دوائیں ۔ حسین قیصرانی

ایک نوجوان ڈاکٹر صاحبہ نے واٹس ایپ پر رابطہ کیا۔ ان کی ایک کولیگ، جو میرے زیرعلاج رہی تھیں، ہمارے مابین رابطے کا ذریعہ بنیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کی تکالیف جسمانی ،ذہنی، نفسیاتی  اور جذباتی سطح پر ان کی روزمرہ زندگی کو مفلوج کر چکی تھیں۔ ذہنی کیفیت ایسی تھی کہ وہ اپنی ٹریننگ اور پریکٹس چھوڑ چھاڑ کر صرف اپنے کمرے تک محدود ہو کر رہ گئی تھیں۔

۔ٖڈپریشن   (Depression)، انزائٹی (Anxiety) ، ذہنی دباؤ (stress) ، غصہ ،چڑچڑاپن اور ڈر، خوف فوبیاز  جیسے مسائل میں بتدریج اضافہ ہو گیا تھا۔  کئی طرح کے جسمانی مسائل جنم لے رہے تھے۔ وزن بہت واضح  کم ہو رہا تھا، بھوک پیاس ختم تھی۔بال بھی ٹوٹ گر  کر  تقریباً  آدھے رہ گئے تھے۔   ہر طرح کے ٹاپ ڈاکٹرز سپیشلسٹ سے علاج کروانے کے باوجود بہتری نہ ہو پائی۔ پیچیدگیوں کی ایک لمبی فہرست تھی۔تفصیلی ڈسکشن کے بعد جو صورت حال سامنے آئی وہ کچھ یوں تھی۔

جذباتی مسائل Emotional issues 

۔ جذبات میں شدید اتار چڑھاؤ رہتا تھا۔ طبیعت ایک کیفیت میں ٹھہرتی نہیں تھی۔ کبھی غصہ غالب آجاتا تو کبھی پژمردگی چھا جاتی۔ کبھی پر جوش ہو جاتی تو کبھی غمگین۔.

۔ محترمہ پہلے بہت باتونی تھی مگر اب بالکل خاموش رہتی تھی۔ کسی سے بات کرنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ 

۔اکثر  ایسا لگتا تھا کہ کچھ بھی محسوس کرنے کی حس ختم ہو گئی تھی۔ کسی کی تکلیف دیکھ کر بھی بےحسی کی کیفیت رہتی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے دل کی جگہ پتھر ہے جس میں جذبات نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

۔ اپنے دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ بھی سرد مہری کا رویہ تھا۔ کسی سے ملنا جلنا نہیں تھا۔ سوشل لائف ختم تھی۔ کسی کی فون کال بھی نہیں سنتی تھی۔  میسج کا جواب نہیں دیتی تھی۔

۔ ذہن تھکا تھکا رہتا تھا۔ خالی الذہن محسوس ہوتا تھا۔ایسا لگتا تھا جیسے جسم تو یہاں ہے مگر ذہن کہیں اور ۔۔۔

دماغ یکسو (lack of concentration)  نہیں ہوتا تھا۔ کسی کام میں دلچسپی نہیں تھی۔ توجہ سے کوئی کام نہیں کر پاتی تھی۔

۔ چڑچڑاپن  (irritation) بہت زیادہ تھا۔ کوئی بھی ناگوار بات شدید غصہ دلاتی تھی۔ کسی کا حکم چلانا برداشت نہیں ہوتا تھا۔ غصہ اتنا شدید ہوتا تھا کہ جسم غصے سے کانپنا شروع کر دیتا تھا۔

۔ ہر ایک سے نفرت محسوس ہوتی تھی۔ سب برے لگتے تھے۔

 

نفسیاتی مسائل:Psychological issues  

۔ نیند  (sleeplessness) نہیں آتی تھی۔ کتنی بھی تھکاوٹ ہوتی، سویا نہیں جاتا تھا۔ نیند کی گولیاں بھی اثر نہیں کرتی تھیں۔ بستر پر کروٹیں بدلتی رہتی تھی۔ جب کبھی نیند آتی بھی تو گہری اور پرسکون نیند نہیں آتی تھی۔ سوتے وقت سر پر ایک تکیہ رکھتی تھی۔

۔ ٹھنڈی جگہ پر ننگے پاؤں بھاگنے کا من کرتا تھا۔ کہیں دور چلے جانے کی خواہش ہوتی تھی۔ 

۔ کبھی گول گول گھومنے لگتی تھی۔ دائروں میں گھومنا اچھا لگتا تھا۔ 

۔ بارش بے حد پسند تھی۔ آدھی رات کو بھی بارش ہوتی تو باہر جا کر دیکھنا لازمی تھا۔ بارش دیکھ کر سکون محسوس ہوتا تھا۔ 

۔زیادہ انگزائٹی کی صورت میں خود کو نوچتی تھی۔

۔ تمام الیکٹرانک چیزوں سے چڑ تھی۔ موبائل، ٹیب یا لیپ ٹاپ کچھ بھی برداشت نہیں ہوتا تھا۔ ان چیزوں کو توڑنے کو دل کرتا تھا۔

۔ ہلکی پھلکی آوازیں بھی برداشت نہیں ہوتی تھیں۔ موبائل کی رنگ ٹون یا پنکھے کی آواز یا پھر پنکھے سے آنے والی ہوا کی ہلکی سی سرسراہٹ۔۔سب طیش دلاتی تھیں، اینگزائٹی ہوتی تھی ۔

۔ چیزیں توڑنے کو بہت دل کرتا تھا خاص طور پر شیشے کی چیزیں جن کے توڑنے پر زوردار آواز پیدا ہو۔

۔ ہر وقت عجلت جلدی کی کیفیت رہتی تھی، جیسے کوئی ٹرین چھوٹنے والی ہو۔ کسی بھی وقت ریلیکس نہیں ہوتی تھی۔ ہر کام میں جلدی ہوتی تھی۔جب بولتی تھی تو بہت تیز بولتی تھی۔ 

۔ٹائم انگزائٹی  (time anxiety) بہت زیادہ تھی۔ کہیں جانا ہوتا تو ٹائم سے پہلے ہی اس بارے میں فکر مند رہتی کہ کہیں لیٹ نہ ہو جاؤں اور وقت سے پہلے چلی جاتی تھی۔

۔ اپنی ذات کے حوالے سے بھی شدید عدم دلچسپی تھی۔ اپنا خیال نہیں رکھتی تھی۔ بال کنگھی کرنا بھی مشکل لگتا تھا۔ شخصیت بے ترتیبی کا شکار تھی۔

جسمانی مسائل ۔   Physical issues 

۔ صبح سارا جسم اکڑا ہوتا تھا۔ ہر جوڑ دکھتا تھا۔ نارمل ہونے میں ایک گھنٹہ لگتا تھا۔

۔ بھوک کم تھی۔ وزن  (weight loss) بتدریج گھٹ رہا تھا۔

۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے بن گئے تھے۔ رنگت زرد تھی۔ سکن کے مسائل بھی بڑھ رہے تھے۔ ایکنی اور پمپلز نے ظاہری وضع قطع کو خاصا نقصان پہنچایا تھا۔ بال تیزی سے گر رہے تھے۔ شدید خشکی سکری کا مسئلہ تھا۔ میڈیکل رپورٹس میں تشخیص ہوا تھا۔

۔ تین سال سے گلے میں نزلہ گرتا تھا۔ 

۔ لیکوریا  کی شکایت  بھی رہتی تھی۔

۔ اکثر بخار رہتا تھا۔ جسم تھکا تھکا محسوس ہوتا ہے۔ کچھ کرنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ 

۔ مینسز سے ایک ہفتہ پہلے طبیعت زیادہ خراب ہو جاتی تھی۔ شدید تھکاوٹ محسوس ہوتی تھی۔ پیٹ کے نچلے حصے میں درد رہتا تھا اور پیٹ پھولا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ نچلی کمر  دکھنے لگتی تھی۔ سارا جسم اکڑا ہوا ہوتا تھا۔ 

واہمے اور خوف:

چڑیوں کی چہچہاہٹ یا موجودگی سے  الجھن ہوتی تھی۔ عجیب سا وہم تھا کہ چڑیاں آس پاس نہ ہوں۔

 شادی اور ذمہ داریوں کا فوبیا بھی شدید تھا۔  (Marriage phobia / Gamophobia)  مردوں سے نفرت محسوس ہوتی تھی۔

 کسی بڑی بیماری کا خوف تھا کہ اچانک سے کسی خطرناک بیماری کا پتہ چلے گا  جس کا علاج ممکن نہ ہو گا۔ 

 بھکاری برداشت نہیں ہوتے تھے۔ بھکاری دیکھ کر شدید گھبراہٹ ہونے لگتی تھی۔

کیس کا تجزیہ ۔۔ ہومیوپیتھک دوائیں اور علاج (ہومیوپیتھی سٹوڈنٹس اور ڈاکٹرز کے لئے):۔

 ڈاکٹر صاحبہ شروع ہی سے بے حد لائق سٹوڈنٹ تھیں۔ ہر امتحان میں فرسٹ آنا، ہر مقابلے میں ٹاپ کرنا معمول تھا۔ بہت زیادہ زندہ دل اور دوسروں کا خیال رکھنے والی لڑکی تھی۔ مستقبل کے لئے با مقصد اور پرجوش طبیعت تھی۔ہر کام کو بہترین انداز میں سر انجام دینے کی کوشش ہوتی تھی۔ کام کا شدید دباؤ، آگے بڑھنے کی دھن، سب سے اچھا بننے کی کوشش یہ سب چیزیں مل کر ذہنی استعداد پر اثرانداز ہو رہی تھیں۔ گھر میں ایک آٹسٹک بہن کی موجودگی، والدہ کی اچانک بیماری اور چند غلط خاندانی فیصلوں نے غیر محسوس انداز میں جذباتی سطح پر خاصی تباہی مچا دی تھی۔

وہ خاصے مضبوط اعصاب کی مالک تھیں اس لیے ہر طرح کے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔لیکن  دھیرے دھیرے  یہ ذہنی دباؤ اپنے اثرات ظاہر کرنے لگا اور شخصیت کے تار بکھرنے لگے۔ سب کا بہت خیال رکھنے والی لڑکی  پتھر دل ہوگئی۔ نٹ کھٹ باتوں کی جگہ  گہری خاموشی نے لے لی۔مستقبل کی ایک بڑی  ڈاکٹر اپنے کمرے میں قید ہو گئی۔

گھر میں اگر ایک فرد بھی آٹزم (Autsim Spectrum Disorder – ASD)  میں مبتلا ہو تو دوسرے تمام افراد کی زندگی کے معاملات مکمل تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہی معاملہ یہاں بھی ہوا۔

محترمہ نے ہر معاملہ کو اپنی ذمہ داری سمجھنا اور بنانا شروع کر دیا۔ بہت چھوٹی عمر میں ہی وہ اپنے والدین، بہن بھائیوں کی ماں باپ بن گئی۔ مسائل کو سہنا اور اپنے آپ کو ہر حال میں نارمل رکھنے کی متواتر کوشش سے وہ نہ رکی اور نہ ہی کبھی جھکی۔  یہی وجہ ہے کہ وہ پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔  بڑی سے بڑی مشکل میں ثابت قدم رہنے کی کوشش جب ناکام ہوئی تو وہ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات سے بھی متاثر ہونے لگی۔ 

ہومیوپیتھک دوا نیٹرم میور (Natrium Muriaticum) سے اُن کی طبیعت میں واضح   بہتری آئی۔ تین  ماہ کے اندر ہی اُس نے ہسپتال اور پریکٹس کے معاملات سنبھال لئے۔ علاج آٹھ  ماہ تک  جاری  رہا، اس دوران اُس نے زندگی کے معاملات کو نئے انداز میں ڈیل کرنا شروع کیا۔ وہ کئی بار پاکستان سے باہر بھی گئی۔ میڈیکل کے ہر امتحان میں پروردگار نے ان کو کامیابیاں عطا کیں۔  الحمد للہ!

نیٹرم میور (Natrum Muriaticum) کے بعد حسبِ ضرورت و علامات مندرجہ ذیل دوائیں دی گئیں:

نکس وامیکا  (Nux Vomica)۔

کارسی نوسن (Carcinosinum)۔

اگناشیا امارہ (Ignatia Amara)۔

فاسفورک ایسڈ (Phosphoricum Acidum)۔

فاسفورس (Phosphorus)۔

اناکارڈیم (Anacardium)۔

کاربو ویج   (Carbo vegetabilis)۔

اسارم (Asarum europaeume)۔

علاج کے بعد فیڈ بیک

اپریل 2017 سے اب تک میری زندگی میں جتنی بھی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں، ان کی وجہ آپ ہیں۔  اللّہ تعالیٰ کےکرم کے  بعد آپ ہی وہ  انسان ہیں جن کی وجہ سے میں آج اس مقام پہ ہوں۔  آپ کے علاج سے مجھے نئی زندگی ملی اور میں نے دوبارہ سے کھل کے جینا شروع کیا۔

اب  میری زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی کامیابی میں بھی آپ کا اہم کردار ہے خواہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا وقت گزارنے جیسی عام بات  ہی کیوں نہ ہو۔

میں محسوس کرتی ہوں کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں آپ کی وجہ سے ہوں۔

شائد میں کبھی بھی بیان نہ کر پاؤں کہ میری زندگی میں آپ کی  اہمیت کیا ہے۔

(حسین قیصرانی – سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ – لاہور فون 03002000210)

0 0 votes
Article Rating
Picture of kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter