میری بیٹی کو پیٹ کے کیڑوں کا مسئلہ بہت چھوٹی عمر سے تھا۔ ایلوپیتھک، ہومیوپیتھک اور دیسی علاج بھی کروائے۔ دواؤں سے پاخانے میں کیڑے نکلتے بھی تھے۔ لیکن صرف وقتی فائدہ ہوتا تھا اور چمونے چند دن بعد پھر واپس آ جاتے تھے۔ تھوڑی بڑی ہوئی تو اکثر پیٹ درد رہنے لگا۔پیشاب میں جلن (یو ٹی آئی) کی شکائت اکثر رہنے لگی۔سر کی جوئیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں۔ ناشتہ بالکل نہیں کرتی تھی۔ ساری رات بیڈ پہ گھومتی رہتی تھی۔ ٹک کے ایک جگہ نہیں سوتی تھی۔ نیند میں منہ سے رال بہتی تھی۔ لیکن جن مسائل نے مجھے بے حد پریشان کر رکھا تھا وہ اس کے وہم اور ڈر خوف تھے۔
جب چھوٹی تھی تو لگتا تھا ذرا بڑی ہو گی تو ڈر دور ہو جائے گا لیکن جیسے جیسے وہ بڑی ہو رہی تھے اس کے فوبیاز بھی عجیب اور شدید ہو رہے تھے۔ سب سے بڑی پریشانی اس کا واش روم کا خوف تھا۔ وہ دس سال کی ہو گئی تھی مگر اکیلی واش روم نہیں جاتی تھی۔ مجھے اس کے ساتھ رہنا پڑتا تھا۔ میں اسے کسی کے گھر نہیں جانے دیتی تھی کہ اگر اسے وہاں واش روم جانا پڑ گیا تو کتنی شرمندگی ہو گی جب یہ کہے گی کہ کوئی میرے ساتھ چلے۔ یہ کوئی نزلہ زکام نہیں تھا کہ اینٹی بائیوٹک دیتے اور گزارا کر لیتے۔ اس کے مسائل ہی عجیب تھے اور ان کا ٹھیک ہونا اس سےبھی عجیب بات ہے.
اس کے ڈر خوف کئی طرح کے تھے۔ بیڈ کے نیچے کوئی ہے۔ چھت پہ کوئی ہے۔ گرج چمک سے تو شدید ڈرتی تھی۔ جیسے ہی بادل گرجتا ساتھ ہی اس کی چیخیں بلند ہوتی جنھیں روکنا ناممکن ہوتا اور جتنی دیر موسم خراب رہتا یہ ڈری سہمی رہتی۔ انجیکشن لگواتے ہوئے بھی اس کی یہی حالت ہوتی اور اس کو قابو کرنا بہت مشکل ہو جاتا۔ہم سب گھر والے اس کے لیے پریشان تھے۔
ڈاکٹر حسین قیصرانی سے علاج کے دوران کافی اتار چڑھاؤ اور مسائل آئے۔ پیٹ کے کیڑوں کو فرق پڑ جاتا تھا مگر کچھ عرصے بعد دوبارہ وہی صورت حال ہو جاتی تھی۔ تقریباً ایک سال علاج جاری رہا۔ وہ آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگی۔ چمونے اور جوئیں ختم ہوئیں۔ پیٹ کا درد ٹھیک ہوا۔ وہ ناشتہ کرنے لگی۔ منہ کی رال بھی ختم ہو گئی۔ گرج چمک کا خوف کم ہو گیا۔ اب بارش کو انجوائے کرتی ہے۔ ہماری سب سے بڑی پریشانی تھی اس کا واش روم کا خوف اور وہ سب سے آخر میں ٹھیک ہوا۔ اللّہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ خود واش روم چلی جاتی ہے۔ اکیلی نہا لیتی ہے۔ اوورآل اس کی صحت بہتر ہوئی ہے۔ پڑھائی میں کارکردگی میں بھی امپروومنٹ آئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میں بہت پریشان تھی۔بھلا ایک ماں ڈاکٹر سے جا کر کیا کہے ۔۔۔۔ میری بیٹی اکیلی واش روم نہیں جاتی۔۔۔۔۔ کہنا آسان ہے مگر یہ مشکل تھا۔ اور یہ بھی پتہ ہے کہ کسی ڈاکٹر کے بس کی بات نہیں ہے۔ تو سب سے پہلے یہ میری خوشی کا اظہار ہے اور دوسرا ایک کوشش ہے کہ اگر کوئی اور بھی اس طرح سے پریشان ہے تو وہ جان جائے کہ علاج ممکن ہے۔
بلاشبہ بچوں کے مسائل کے لیے ڈاکٹر حسین قیصرانی بہترین چوائس ہیں۔
۔۔۔
حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ اینڈ ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور پاکستان ۔
0
0
votes
Article Rating