کیس پریزینٹیشن، تحریر اور کمپوزنگ: مہر النسا
سیالکوٹ کے پچاس سالہ انجینئر نے کامیاب کیسز اور ریویوز پڑھنے کے بعد واٹس ایپ پر رابطہ کیا۔ وہ پائلز یعنی بواسیر کی وجہ سے بہت پریشان تھے اور گوگل پر متواتر سرچ کر رہے تھے کہ اُن کی بیماری پائلز ہے یا فشر یا ہیمورائیڈز یا فسچلا۔ اس مسئلے کا علاج بغیر آپریشن سرجری کیسے ہو سکتا ہے۔ کسی بہت اچھے ڈاکٹر کی تلاش میں تھے۔ یہ مسئلہ دن رات اُن کے دل دماغ پر مستقل سوار تھا۔
ڈپریشن اور اینزائٹی کے پرانے مریض تھے اور اس سلسلے میں مسلسل دوائیں کھانے کے عادی تھے۔ کئی طرح کے واہموں،وسوسوں اور فوبیاز کا شکار تھے۔ تفصیلی کیس ڈسکشن سے درج ذیل مسائل سامنے آئے۔
بواسیر کا مسئلہ، اُن کے لئے بہت بڑی پریشانی تھی۔ وہ تشخیص کروانا چاہتے تھے کہ اصل میں یہ کون سی بیماری ہے اور کیا اس کا علاج بغیر سرجری آپریشن ممکن ہے اور یہ ہمیشہ کے لئے ٹھیک ہو جائے گا نا۔ کیا فشر زیادہ خطرناک ہے یا فسچلا، بادی بواسیر یا خونی بواسیر ۔مقعد میں دانہ تھا جس میں درد ہوتا تھا۔ اجابت کرتے وقت اور بعد میں بھی تکلیف ہوتی تھی۔ خون اور پیپ بھی نکلتی تھی۔
شدید غصہ آتا تھا۔ بلاوجہ کسی نہ کسی سے الجھ پڑتے۔اتنا غصہ آتا تھا کہ آپے سے باہر ہو جاتے، چیختے چلاتے اور مرنے مارنے پر اتر آتے تھے۔ غصے کو کنٹرول کرنا ممکن نہ ہوتا۔ تھوڑی دیر بعد احساس ہوتا تھا کہ غصے کی حالت میں جو کیا غلط کیا۔ ایک وہم یہ بھی ہوتا کہ شاید غصہ کی یہ کیفیت اس لئے ہوتی کہ کوئی اَور طاقت اُس دوران اُن پر اپنا کنٹرول کر لیتی تھی۔ پھر شدید پچھتاوا ہونے لگتا تھا۔ پھر اگلے ہی لمحے معافی مانگ لیتے تھے۔
- معدہ بہت سالوں سے ڈسٹرب تھا۔ کھانے کے بعد جلن اور تیزابیت ہونے لگتی۔ کھانا آسانی سے ہضم نہیں ہوتا تھا۔ گرم کھانا کھانے سے معدہ بہت خراب ہو جاتا تھا۔ کھٹی ڈکاریں آتی تھیں۔ کھانے کا ذائقہ تیزابیت اوپر خوراک میں نالی میں آتا تھا۔
- نیند نہیں آتی تھی۔ رات جاگ کر گزر جاتی تھی۔ رات کو کئی گھنٹے بے مقصد موبائل استعمال کرتے رہتے تھے۔ جب آنکھ لگتی تو ڈراؤنے خواب دکھائی دیتے تھے۔اکثر ایسےخواب آتے کہ کو ئی ان پر جادو ٹونہ کر رہا ہے یا پھر عجیب و غریب خواب دکھائی دیتے جن کا کوئی سر پیر نہ ہوتا لیکن خوف سے آنکھ کھل جاتی تھی۔
- ذہن کنفیوژ رہتا تھا۔کیا کروں کیا نہ کروں۔ اگر کسی کو ڈانٹ دیتے تو دماغ الجھا رہتا تھا کہ پتہ نہیں صحیح کیا یا غلط۔ اب اس کا گناہ ملے گا اور کوئی نقصان ہو گا۔ اگر کوئی کچھ کہہ دیتا تو وہ بات دماغ میں اٹک جاتی۔ اس نے ایسا کیوں کہا، کس کے کہنے پر کہا، ضرور اس کے پیچھے کوئی اور وجہ ہو گی۔ ہر وقت ذہن ایسی فضول باتوں میں الجھا رہتا تھا۔۔ خاص طور پر رات کو سونے سے پہلے اور صبح اُٹھنے پر کشمکش، تذبذب اور منفی سوچوں کی یلغار ہو جاتی۔ وہ جتنا زور لگاتے، ورد وظیفے پڑھتے یا اپنے آپ کو مثبت رکھنے کے لئے کوششیں کرتے اتنا ہی ٹینشن، پریشانی اور مسائل مزید حملہ آور ہوتے ۔
- شدید ڈپریشن کا شکار تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹینشن اور انگزائٹی ہونے لگتی تھی۔ عجیب سی بے چینی رہتی تھی۔ طبیعت میں بےسکونی تھی۔ ذہنی دباؤ بہت زیادہ تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی کام کی جلدی ہے۔ حواس پر ایک عجلت کی کیفیت رہتی تھی جس کی وجہ سے کچھ بھی مینیج کرنا مشکل تھا۔ ڈپریشن کے لیے ایلو پیتھک دوائیں باقاعدگی سے لیتے تھے۔ ڈاکٹرز کا خیال تھا کہ یہ دوائیں مستقل اور ساری زندگی لینی ہیں۔
- عجیب و غریب قسم کے واہمے اور وسوسے ستاتے تھے۔ ہر وقت لگتا تھا کہ کوئی ان پر جادو کر رہا ہے۔ کچھ بھی غلط ہوتا تو لگتا کہ کسی نے تعویذ کر دیے ہیں۔ اگر گاڑی بھی خراب ہو جاتی تو لگتا کوئی جادو چل گیا ہے۔ اگر کمرے سے کوئی چیز نہ ملتی تو یہ بھی کسی جادو کا اثر محسوس ہوتا تھا۔ اُن پر جِن بھوت اور جادو کے اثرات ہیں، یہ اُن کے بقول محض وہم یا شک نہیں بلکہ کنفرم بات ہے۔ متعلق اُن کے پاس۔
- انہیں اکثر ایسا لگتا تھا جیسے ان کے ارد گرد کوئی ہے۔ کبھی محسوس ہوتا کہ کوئی تیزی سے قریب سے گزرا ہے۔ تنہائی میں کسی غیر انسانی وجود کی موجودگی کا احساس ہوتا تھا اور خوف محسوس ہوتا تھا۔
- اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں سے نفرت محسوس ہوتی تھی۔ سب زہر لگتے تھے۔ یہ نفرت اتنی بڑھ چکی تھی کہ سب سے ناطہ توڑ چکے تھے۔
- کسی سے نہیں ملتے تھے۔
- ہاتھوں پاوں یا جسم کے کسی حصہ پر نہ ختم ہونے والی خارش شروع ہو جاتی جو بالعموم رات یا فرصت کے وقت ہی ہوتی۔ وہ جتنا کھجاتے، خارش اُتنا زیادہ بڑھتی جاتی تھی۔ حیرانی کی بات یہ کہ دفتری اوقات یا ذہنی مصروفیت کے وقت کوئی دقت نہ ہوتی تھی۔
ü فیملی ہسٹری:-
- فیملی میں شوگر اور دل کے امراض کا رجحان تھا۔
ü تجزیہ:-
- چند سال پہلے ہونے والے روڈ ایکسیڈنٹ میں محترم شدید زخمی ہوئے۔ مختلف قسم کے آپریشن کیے گئے تاکہ وہ دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل ہو سکیں۔کم و بیش ایک سال تک بیڈ ریسٹ کرنا پڑا۔ اس دوران بے پناہ اور ہر ظرح کی دوائیں استعمال کی گئیں۔ نوکری چھوٹ گئی۔ پریشانی اور مالی مسائل دن بدن بڑھتے چلے گئے۔
- کئی امتحان دیے میرٹ پر آنے کے باوجود سفارش کی عدم موجودگی ہر جگہ سے انکار کا باعث بنتی رہی۔ یہ احساس ِ حق تلفی بہت سے نفسیاتی مسائل کا پیش خیمہ بنی۔ مسلسل رد کیے جانے کا تصور ذہن میں ایک انتشار پیدا کرتا رہا۔ طویل بیماری، سخت ترین اینٹی بائیوٹکس کا بے حد استعمال، لاچاری اور بے بسی نے مل کر ڈپریشن اور انگزائٹئ کی عمارت کو ستون فراہم کیے۔
- وہ انجینئر تھے اور اُن کی جاب بے پناہ اچھی تھی مگر حادثہ کے بعد جو حالات ہوئے اُس سے اُن کا ہر ایک کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر سے بھی اعتماد اُٹھ گیا۔ وہ اپنے آپ کو منوانا چاہتے تھے مگر اُن کے خیال میں سفارش اور رشوت نہ ہونے کی وجہ سے کہیں کامیابی نہ مل پا رہی تھی۔ انہیں یہ فکر ستاتی تھی کہ آخر ہو کیا گیا ہے ۔۔ کسی نے جادو تعویذ کر دیے ہیں یا کوئی اثرات ہیں؟ اُن سے گناہ اور غلطی ہوئی ہے کہ جس کی یہ پکڑ اور عذاب ہے۔ کسی کی آہ لگی ہے۔
- ان کے اندر مستقل کشمکش چلتی رہتی تھی۔ دل کچھ کہتا اور دماغ کچھ۔ کنفیوزن اور ڈبل مائنڈڈ ایسے کہ ہر کام اور بات میں شک، گو مگو اور وہم۔
- حالات، واقعات اور ہر گزرتے دن کے تجربات ذہنی اور نفسیاتی مسائل کی نشوونما کے لیے بے حد سازگار تھے۔ مسلسل مصیبتوں کے ٹوٹنے والے پہاڑ کی وجہ کوئی جادو ٹونہ ہے حاسد رشتے دار ان پر تعویز کرتے ہیں۔ روحانی علاج کے لئے بھی عامل حضرات سے روابط بڑھے تو یہ سوچیں مزید بڑھ گئیں۔ انہیں رشتے داروں سے نفرت ہو گئی۔ انہوں نے اپنا شہر چھوڑ دیا۔ عزیزوں سے قطع تعلق کر لیا۔ پیروں فقیروں سے جادو ٹونے کا توڑ بھی جاری رہا۔ ذہنی حالت بگڑتی رہی۔ غصہ اور انگزائٹی کنٹرول سے باہر ہونے لگے۔بے چین طبیعت کو سکون کہیں سے نہ مل پایا۔
- ہر بات پہ شک کرنا، بال کی کھال اتارنا، بات بات پہ الجھنا اور اونچی آواز میں گرجنا روز کا معمول بن گیا تھا۔ شدید غصے کا اظہار، شرمندگی کا احساس اور پھر احساس گناہ اور معافی تلافی۔ ذہنی حالت میں کہیں ٹھہراؤ نہیں تھی۔ یہ ذہنی دباؤ نیند کا گلا بھی گھونٹ چکا تھا۔ عزیز رشتے داروں سے بیزاری کا احساس بیوی بچوں تک پہنچ گیا۔صورت حال حد سے بڑھی تو ٹاپ سائیکالوجسٹ اور سائیکاٹرسٹ سے کاؤنسلنگ، زیرِ علاج رہے اور لمبے عرصہ اینٹی ڈپریسنٹ بھی جاری تھیں۔
- مسائل جب اس نہج پر پہنچ گئے تو معدہ کی خرابی اور تیزابیت نے بھی اپنے اثرات پائلز، فشرز کی شکل میں نکالنے شروع کر دئے۔ خونی بواسیر اور پس نکلتے رہنے کی وجہ سے پاکی ناپاکی کے وہم وسوسے بھی بڑھ گئے۔ ما شا اللہ سے وہ بہت مذہبی اپروچ اختیار کر چکے تھے۔ ہر وقت یہ فکر کھائے رہتی کہ کپڑے پاک ہیں یا نہیں۔انسان کتنے ڈریس تبدیل کرے۔ وضو کا بھی شک رہنے لگا کہ برقرار ہے کہ نہیں۔
- ان کیفیات میں مبتلا تھے کہ جب پہلا رابطہ ہوا۔ کیس کی یہ تفصیلات و جزئیات اگلے ماہ کے دوران کھل کر سامنے آتی گئیں۔
- یہ کیس تین ہومیوپیتھک دواوں کے گرد گھومتا تھا۔
- نکس وامیکا ۔۔ لیکیسس ۔ اناکارڈیم
- اوپر کی لیئر اناکارڈیم کی تھی تاہم بہت ہی زیادہ دواوں کا مسلسل استعمال اس بات کا تقاضا کرتا تھا کہ آغاز نکس وامیکا سے کیا جائے تاکہ کیس مزید کلئر ہو جائے۔ نکس وامیکا لینے سے اُن کی طبیعت میں ٹھہراو آنا شروع ہو گیا۔ انہوں نے بواسیر کے درد اور اخراج میں واضح کمی محسوس ہوئی۔ نیند اور معدہ بھی کچھ بہتر ہو گیا۔ ان کا علاج پر اعتماد واضح ہونے لگا اور انہوں نے اپنے معاملات کو مزید تفصیل سے بتانا سمجھانا شروع کر دیا۔ اس دوران اُن کو کورونا کا شدید حملہ ہوا جس کا انہوں نے ایلوپیتھک ڈاکٹرز سے علاج کروایا۔ بہتری جتنی ہو چکی تھی وہ پھر بھی جاری رہی۔ نکس وامیکا ۲۰۰ حسبِ ضرورت جاری رہی۔
- اناکارڈیم نے کشمکش اور اندرونی جنگ کو ختم کیا تو انہیں اندرونی اطمینان کا گہرا احساس ہوا۔ انہوں نے رفتہ رفتہ تمام ایلوپیتھک دوائیں مکمل چھوڑ دیں۔
- لیکیسس نے بواسیر کے ساتھ ساتھ شک، جن، بھوت، تعویذ وغیرہ کے وہم اور وسوسوں سے نکالنے میں مدد دی۔ تین ماہ کے اندر وہ واضح بہتر ہو چکے تھے۔ اس کے بعد جب جب جو مسائل آئے، علامات کے مطابق ہومیوپیتھک دوائیں دی جاتی رہیں۔ تاہم لیکیسیس اور اناکارڈیم نے ہی دراصل، اللہ کے فضل و کرم سے واضح صحت مندی کی طرف لانے میں مدد دی۔
- فیڈبیک ملاحظہ ہو ۔
As always very informative and a great learning resource!