غریبی اپنے ساتھ جو مصیبتیں لاتی ہے اس کا اندازہ ہر قلبِ حساس بآسانی کرسکتا ہے۔ لیکن ایک غلط معاشرہ میں دولت کی فراوانی جس قسم کی تباہیاں لاتی ہے، اس کا تصور عام طور پر نہیں کیا جا سکتا۔ ان تباہیوں کا ایک گوشہ وہ ہے جس کا اندازہ مجھے بہ حیثیت ایک ڈاکٹر کے ہوا۔ اور انہی کی ایک خفیف سی جھلک میں اس وقت آپ کو دکھانا چاہتی ہوں۔ جہاں تک بیماری اور اس کے علاج کا تعلق ہے؛ غریبی کی پیدا کردہ مصیبت ایک ہی نوعیت کی ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہ ایک غریب بیوہ اپنی اکلوتی بیٹی کو لے کر آتی ہے جو ایک خطرناک اور مہلک بیماری کا شکار ہے۔ میں اسے دوائی لکھ کر دیتی ہوں۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ حتیٰ الامکان دوائی سستی ہو۔ وہ نسخہ ہاتھ میں لے کر پوچھتی ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ یہ دوائی بازار سے کتنی قیمت میں ملے گی؟ میں کہتی ہوں؛ پانچ سو روپے میں مل جائے گی۔ “پانچ سو روپے” سُن کر اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ، اس کے ہونٹوں کی تھرتھراہٹ اور اس کی آنکھوں کی نمی، اس کے دل کی ساری کہانی اس کے ماتھے پر لکھ دیتی ہے۔ جب یہ دیکھ کر میری آنکھیں بھی نم آلود ہوجاتی ہیں، تو اُس کے ضبط کئے ہوئے آنسو، ٹپ ٹپ گِرنے لگ جاتے ہیں اور اس کے بعد، وہ دِل کی ساری بات زبان پر لے آتی ہے۔
لیکن دولت کی فراوانی__ یعنی ایک غلط معاشرہ میں دولت کی فراوانی جس قسم کے امراض پیدا کرتی ہے، اس کی نوعیتیں بھی بے شمار ہیں اور ان کی تہہ تک پہنچنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ مثلاً بالکل نئے ماڈل کی ایک بڑی سی کار کلینک کے دروازے پر آکر رکتی ہے اور بڑے قیمتی لباس میں ملبوس ایک خاتون اس میں سے نکل کر اندر آ جاتی ہے۔ اس پر عجیب قسم کی بے چینی اور اضطراب کی کیفیت ہوتی ہے۔ آتے ہی کہتی ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ! مجھے سخت تکلیف ہے۔ اس لئے پہلے مجھے دیکھ لیجئے۔ لیکن میرے مرض کی تفصیل بہت لمبی ہے؛ اس کے لئے آپ کو کافی وقت دینا ہوگا۔
اس کے بعد شکایات کی تفصیل کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ! صبح اٹھتی ہوں تو سارا جسم چُور چور ہوتا ہے۔ آنکھ کھل جاتی ہے لیکن بستر سے اٹھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ بصد مشکل اٹھتی ہوں تو چکر آ جاتا ہے، پھر بیٹھ جاتی ہوں۔ مجھے بلڈ پریشر ہے ناں! دو قدم چلتی ہوں تو دل دھڑکنے لگ جاتا ہے۔ ملازم ناشتے کے لئے آوازوں پر آوازیں دیتا ہے لیکن مجھے کوئی طلب نہیں ہوتی۔ کل ایک انڈہ کھا لیا تھا، سارا دِن انتڑیوں میں درد رہا۔ مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ میں زیادہ دن جی نہیں سکوں گی۔ لیکن میں سوچتی ہوں کہ پھر میری بچی کا کیا ہوگا۔ نہیں ڈاکٹر صاحبہ! میں اپنی بچی کو نہیں چھوڑ سکتی۔ کوئی اسے مجھ سے چھین کر نہیں لے جاسکتا۔ مجھے، ڈاکٹر صاحبہ، بھوک بالکل نہیں لگتی۔ ہر وقت بخار رہتا ہے۔ چھ برس ہوگئے علاج کرتے، کہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ فلاں ڈاکٹر سے علاج کیا اور فلاں سے کیا (اس کے بعدوہ شہر کے تمام بڑے بڑے ڈاکٹروں کے نام گنا دیں گی) کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ مجھے کہتے تھے تمہیں کوئی بیماری ہی نہیں۔ پاگل کہیں کے! کوئی کہتا تھا آپ کے اعصاب کمزور ہیں۔ دیکھئے ڈاکٹر صاحبہ! بھلا میرے اعصاب بھی کمزور ہو سکتے ہیں؟
بس ڈاکٹر صاحبہ! مجھے ایک ہی تکلیف ہے۔ مجھے نیند نہیں آتی۔ آدھی رات تک جاگتی رہتی ہوں، اور سوچتی رہتی ہوں۔ معلوم نہیں کیا سوچتی رہتی ہوں۔ تنگ آ جاتی ہوں تو نیند کی گولی کھا لیتی ہوں۔ بس یہ ایک دوائی ہے جو مجھے راس آئی ہے اور کسی دوائی سے کچھ فائدہ نہیں ہوا۔
میں معائنہ شروع کر دیتی ہوں، اور ہزار کہوں ذرا خاموش رہئے، لیکن وہ اپنی کہانی بدستور جاری رکھتی ہیں۔ معائنہ کے بعد میں دیکھتی ہوں کہ جتنی شکایتیں انہوں نے بتائی ہیں، ان میں سے اُنہیں کوئی تکلیف نہیں۔ ذرا سی اعصابی کمزوری ہے۔ اس کے لئے میں دوائی تجویز کرتی ہوں تو سوال ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ! یہ دوائی کتنے کی آئے گی؟
آپ کو یاد ہے کہ یہی سوال اس غریب بڑھیانے بھی کیا تھا! مَیں کہتی ہوں کہ یہی کوئی پانچ سو روپے کی آ جائے گی۔
صرف پانچ سو روپے کی؟ ڈاکٹر صاحبہ! اس دوائی سے بھلا مجھے کیا فائدہ ہو گا؟ میں نے پانچ پانچ ہزار روپے فی شیشی والی دوائیاں بھی کھائی ہیں۔ آپ مہربانی کرکے کوئی کام کی دوائی لکھ کر دیجئے۔ کام کی دوائی سے مراد ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ مہنگی دوائی۔
آپ انہیں کوئی دوائی لکھ کر دیجئے؛ وہ زیادہ سے زیادہ ایک دو دن کھائیں گی۔ پھر یا تو کسی اَور قیمتی دوائی کا مطالبہ کریں گی یا کسی اَور ڈاکٹر کی طرف چلی جائیں گی۔ ان کے گھر جایئے تو الماریاں، ہسپتال دکھائی دیں گی؛ سب دوائیوں سے بھری ہوئی۔ کسی شیشی میں سے دو گولیاں کھائی ہوئی کسی میں سے چار۔ ان کی یہ کیفیت عمر بھر رہتی ہے۔ اگر ڈاکٹر کو تھوڑی سا علم بھی سائیکالوجی کا ہے تو وہ دو چار نشستوں میں اندازہ لگا لے گی کہ مرض کا سرچشمہ کہاں ہے۔
میں نے جو کچھ کہا ہے وہ کسی خاص مریضہ کی کیفیت نہیں۔ وہ ہمارے اوپر کے طبقہ کا عمومی نقشہ ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان میں ایسی خواتین بھی ہوتی ہیں جنہیں سچ مچ کوئی شکایت ہوتی ہے لیکن بیشتر ایسی ہوتی ہیں جنہیں جسمانی شکایت کوئی نہیں ہوتی۔ ان کا مرض نفسیاتی ہوتا ہے اور پیدا کردہ ہوتا ہے ہمارے غلط معاشرے کا۔ ان کا جسم بیمار نہیں ہوتا؛ دل بیمار ہوتا ہے۔ اور دل بھی وہ نہیں جس کی دھڑکن اسٹیتھوسکوپ سے سنی جاتی ہے بلکہ وہ دل جو انسانی خیالات کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ اس دل کی بیماری میں ان کا اپنا قصور زیادہ نہیں ہوتا۔ جب ساری فضا نفسیاتی امراض پیدا کرنے والے جراثیم سے بھرپور ہو تو افراد کے لئے ان سے بچنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ان کے سامنے زندگی کا کوئی بلند نصب العین نہیں ہوتا۔ جن کھلونوں کو مقصودِ زندگی سمجھا جاتا ہے، ان سے چند دنوں کے بعد طبیعت بھر جاتی ہے۔ اس کے بعد ان کی زندگی میں خلا پیدا ہو جاتا ہے جسے پُر کرنے کے لئے یہ لوگ ہر طرف مارے مارے پھرتے ہیں، لیکن چونکہ اس کا علم نہیں ہوتا کہ وہ کون سی چیز کھو گئی ہے جسے پُر کرنے کے لیے یہ لوگ ہر طرف مارے مارے پھرتے ہیں؛ کون سی چیز کھو گئی ہے جسے ڈھونڈ رہے ہیں، اس لئے وہ شے انہیں ملتی ہی نہیں جس سے اُن کی زندگی کا خلا پُر ہوسکے۔ یہ ہے وہ ناکام جستجو جس سے یہ اس قسم کے نفسیاتی اوہام کا شکار ہو
جاتے ہیں۔ اس کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں کہ انہیں انسانی زندگی کا مقصد سمجھایا جائے اور ان کے سامنے وہ نصب العین حیات رکھ دیا جائے جس کے حصول کی کوشش میں انسانی قلب کو سچی راحت ملتی ہے۔
لیکن دولت کی فراوانی__ یعنی ایک غلط معاشرہ میں دولت کی فراوانی جس قسم کے امراض پیدا کرتی ہے، اس کی نوعیتیں بھی بے شمار ہیں اور ان کی تہہ تک پہنچنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ مثلاً بالکل نئے ماڈل کی ایک بڑی سی کار کلینک کے دروازے پر آکر رکتی ہے اور بڑے قیمتی لباس میں ملبوس ایک خاتون اس میں سے نکل کر اندر آ جاتی ہے۔ اس پر عجیب قسم کی بے چینی اور اضطراب کی کیفیت ہوتی ہے۔ آتے ہی کہتی ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ! مجھے سخت تکلیف ہے۔ اس لئے پہلے مجھے دیکھ لیجئے۔ لیکن میرے مرض کی تفصیل بہت لمبی ہے؛ اس کے لئے آپ کو کافی وقت دینا ہوگا۔
اس کے بعد شکایات کی تفصیل کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ! صبح اٹھتی ہوں تو سارا جسم چُور چور ہوتا ہے۔ آنکھ کھل جاتی ہے لیکن بستر سے اٹھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ بصد مشکل اٹھتی ہوں تو چکر آ جاتا ہے، پھر بیٹھ جاتی ہوں۔ مجھے بلڈ پریشر ہے ناں! دو قدم چلتی ہوں تو دل دھڑکنے لگ جاتا ہے۔ ملازم ناشتے کے لئے آوازوں پر آوازیں دیتا ہے لیکن مجھے کوئی طلب نہیں ہوتی۔ کل ایک انڈہ کھا لیا تھا، سارا دِن انتڑیوں میں درد رہا۔ مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ میں زیادہ دن جی نہیں سکوں گی۔ لیکن میں سوچتی ہوں کہ پھر میری بچی کا کیا ہوگا۔ نہیں ڈاکٹر صاحبہ! میں اپنی بچی کو نہیں چھوڑ سکتی۔ کوئی اسے مجھ سے چھین کر نہیں لے جاسکتا۔ مجھے، ڈاکٹر صاحبہ، بھوک بالکل نہیں لگتی۔ ہر وقت بخار رہتا ہے۔ چھ برس ہوگئے علاج کرتے، کہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ فلاں ڈاکٹر سے علاج کیا اور فلاں سے کیا (اس کے بعدوہ شہر کے تمام بڑے بڑے ڈاکٹروں کے نام گنا دیں گی) کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ مجھے کہتے تھے تمہیں کوئی بیماری ہی نہیں۔ پاگل کہیں کے! کوئی کہتا تھا آپ کے اعصاب کمزور ہیں۔ دیکھئے ڈاکٹر صاحبہ! بھلا میرے اعصاب بھی کمزور ہو سکتے ہیں؟
بس ڈاکٹر صاحبہ! مجھے ایک ہی تکلیف ہے۔ مجھے نیند نہیں آتی۔ آدھی رات تک جاگتی رہتی ہوں، اور سوچتی رہتی ہوں۔ معلوم نہیں کیا سوچتی رہتی ہوں۔ تنگ آ جاتی ہوں تو نیند کی گولی کھا لیتی ہوں۔ بس یہ ایک دوائی ہے جو مجھے راس آئی ہے اور کسی دوائی سے کچھ فائدہ نہیں ہوا۔
میں معائنہ شروع کر دیتی ہوں، اور ہزار کہوں ذرا خاموش رہئے، لیکن وہ اپنی کہانی بدستور جاری رکھتی ہیں۔ معائنہ کے بعد میں دیکھتی ہوں کہ جتنی شکایتیں انہوں نے بتائی ہیں، ان میں سے اُنہیں کوئی تکلیف نہیں۔ ذرا سی اعصابی کمزوری ہے۔ اس کے لئے میں دوائی تجویز کرتی ہوں تو سوال ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ! یہ دوائی کتنے کی آئے گی؟
آپ کو یاد ہے کہ یہی سوال اس غریب بڑھیانے بھی کیا تھا! مَیں کہتی ہوں کہ یہی کوئی پانچ سو روپے کی آ جائے گی۔
صرف پانچ سو روپے کی؟ ڈاکٹر صاحبہ! اس دوائی سے بھلا مجھے کیا فائدہ ہو گا؟ میں نے پانچ پانچ ہزار روپے فی شیشی والی دوائیاں بھی کھائی ہیں۔ آپ مہربانی کرکے کوئی کام کی دوائی لکھ کر دیجئے۔ کام کی دوائی سے مراد ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ مہنگی دوائی۔
آپ انہیں کوئی دوائی لکھ کر دیجئے؛ وہ زیادہ سے زیادہ ایک دو دن کھائیں گی۔ پھر یا تو کسی اَور قیمتی دوائی کا مطالبہ کریں گی یا کسی اَور ڈاکٹر کی طرف چلی جائیں گی۔ ان کے گھر جایئے تو الماریاں، ہسپتال دکھائی دیں گی؛ سب دوائیوں سے بھری ہوئی۔ کسی شیشی میں سے دو گولیاں کھائی ہوئی کسی میں سے چار۔ ان کی یہ کیفیت عمر بھر رہتی ہے۔ اگر ڈاکٹر کو تھوڑی سا علم بھی سائیکالوجی کا ہے تو وہ دو چار نشستوں میں اندازہ لگا لے گی کہ مرض کا سرچشمہ کہاں ہے۔
میں نے جو کچھ کہا ہے وہ کسی خاص مریضہ کی کیفیت نہیں۔ وہ ہمارے اوپر کے طبقہ کا عمومی نقشہ ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان میں ایسی خواتین بھی ہوتی ہیں جنہیں سچ مچ کوئی شکایت ہوتی ہے لیکن بیشتر ایسی ہوتی ہیں جنہیں جسمانی شکایت کوئی نہیں ہوتی۔ ان کا مرض نفسیاتی ہوتا ہے اور پیدا کردہ ہوتا ہے ہمارے غلط معاشرے کا۔ ان کا جسم بیمار نہیں ہوتا؛ دل بیمار ہوتا ہے۔ اور دل بھی وہ نہیں جس کی دھڑکن اسٹیتھوسکوپ سے سنی جاتی ہے بلکہ وہ دل جو انسانی خیالات کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ اس دل کی بیماری میں ان کا اپنا قصور زیادہ نہیں ہوتا۔ جب ساری فضا نفسیاتی امراض پیدا کرنے والے جراثیم سے بھرپور ہو تو افراد کے لئے ان سے بچنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ان کے سامنے زندگی کا کوئی بلند نصب العین نہیں ہوتا۔ جن کھلونوں کو مقصودِ زندگی سمجھا جاتا ہے، ان سے چند دنوں کے بعد طبیعت بھر جاتی ہے۔ اس کے بعد ان کی زندگی میں خلا پیدا ہو جاتا ہے جسے پُر کرنے کے لئے یہ لوگ ہر طرف مارے مارے پھرتے ہیں، لیکن چونکہ اس کا علم نہیں ہوتا کہ وہ کون سی چیز کھو گئی ہے جسے پُر کرنے کے لیے یہ لوگ ہر طرف مارے مارے پھرتے ہیں؛ کون سی چیز کھو گئی ہے جسے ڈھونڈ رہے ہیں، اس لئے وہ شے انہیں ملتی ہی نہیں جس سے اُن کی زندگی کا خلا پُر ہوسکے۔ یہ ہے وہ ناکام جستجو جس سے یہ اس قسم کے نفسیاتی اوہام کا شکار ہو
جاتے ہیں۔ اس کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں کہ انہیں انسانی زندگی کا مقصد سمجھایا جائے اور ان کے سامنے وہ نصب العین حیات رکھ دیا جائے جس کے حصول کی کوشش میں انسانی قلب کو سچی راحت ملتی ہے۔
0
0
votes
Article Rating