مرگی کا مرض زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے۔ ایک عرصہ تک اِسے بیماری نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یونانیوں اور رومیوں کا عقیدہ تھا کہ ایسا جن، بھوت، آسیب یا پریت کا سایہ پڑنے سے ہوتا ہے۔ یہ عقیدہ ہمارے ہاں بھی عام ہے۔ دورے کے دوران پرانی جوتی یا پیاز سونگھانے کے پیچھے یہ سوچ ہوتی ہے کہ جن بھوت بدبو سے بھاگ جائیں۔ لگتا ہے کہ جن بھوت وغیرہ بدبو سے مانوس ہو چکے ہیں اِس لئے یہ ٹونے ٹوٹکے بیماری کا حل نہیں نکال سکے۔
مرگی کے بارے میں بہت تحقیق ہوئی ہے، نئی نئی باتیں سامنے آئی ہیں اور علاج کے نئے طریقے دریافت ہوئے ہیں لیکن اِس تکلیف کا اصل سبب ابھی تک صحیح طور پر معلوم نہیں ہو پایا۔
مرگی کی علامات عام طور پر مندرجہ ذیل ہوتی ہیں:
لیٹے، بیٹھے، سوئے، چلتے پھرتے اچانک اور بے ساختہ ایک بلند آواز ہُوک سی اُٹھتی ہے اور مریض بے ہوش کر طرح تڑ پنے لگتا ہے۔ مریض اگر اس وقت کھڑا ہو تو زور سے زمین پر گر سکتا ہے۔ زبان دانتوں میں آکر زخمی ہو سکتی ہے۔ جسمانی اعضا سخت ہو جاتے ہیں اور سر ایک طرف کو مڑ جاتا ہے۔ چہرہ پہلے زرد ہوتا ہے لیکن جب سانس رکتا ہے اور نظام تنفس کے عضلات میں تشنج رونما ہوتا ہے تو چہرہ پہلے نیلا اور پھر ارغوانی رنگ کا ہو جاتا ہے۔ جسم اور بازو، ٹانگیں جھٹکتے ہیں۔ منہ سے پانی یا جھا گ نکلتا ہے۔ عام طور ہر چند منٹوں کے بعد یہ دورہ ختم ہو جاتا ہے اور مریض ہوش میں آ جاتا ہے۔ اُسے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کیا ہوا تھا۔
زیادہ پریشان کر دینے والے مرگی کے دورے وہ ہوتے ہیں جن کو (Grand Epilepsy) کہتے ہیں۔
اگر کسی مریض کو پہلے دورے کے بعد ہوش میں آ جانے کے بعد دوسرا دورہ بھی شروع ہو جائے تو وہ عموماً شدید مگر متوازن جھٹکوں سے عبارت ہوتا ہے جو سارے عضلاتی نظام کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یہ مرحلہ اکثر اوقات تیس سیکنڈ سے لے کر ایک ڈیڑھ منٹ تک رہتا ہے۔ اس مرحلے میں سانس گہری ہو کر خراٹوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور منہ سے جھاگ دار تھوک نکلتا ہے جس میں اکثر خون کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ زیادہ سخت دوروں کی شکل میں پاخانے اور مثانے پر کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔ مریض پیشاب اور پاخانے کو روک نہیں پاتا۔ اس مرحلے کے مکمل ہونے پر مریض سست ہو جاتا ہے اور اُسے نیند آ جاتی ہے اور وہ تقریباً دو گھنٹے سویا رہتا ہے۔
بے ہوشی کے دورے کئی اَور امراض میں بھی پڑتے ہیں اور ہر بے ہوشی کو مرگی نہیں سمجھنا چاہئے۔ اگر بے ہوشی کے ساتھ اوپر درج علامات سے ملتی جُلتی صورتِ حال بھی ہو تو تشخیص میں غلطی نہیں ہوتی۔
مرگی کے مریضوں کا ہومیوپیتھک علاج اور ادویات
ہومیوپیتھی میں 50 سے زائد ادویات ایسی ہیں کہ جو مرگی کے مریضوں کے علاج میں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ ایک ماہر ڈاکٹر مکمل تفصیل لے کر کیس کو سمجھتا ہے تو مریض کی علامات، مزاج اور خاندانی ہسٹری پر فٹ بیٹھنے والی دوا، اُس کی خوراک اور طاقت کا انتخاب کرتا ہے۔ میرے تجربے میں نیچے دی گئی ادویات اکثر مثبت نتائج دیتی رہی ہیں۔ مکمل علاج کے لئے اپنے اعتماد کے ڈاکٹر سے کیس ڈسکس کرنا ضروری ہے۔
ایک بات نہایت ہی اہم ہے اور اِس پر ہمارے ہاں کے معالج اکثر توجہ نہیں دیتے اور وہ یہ کہ اگر پیٹ میں کیڑے یعنی چمونے ہوں تو ادویات (چاہے وہ ایلوپیتھک ہوں، طبی یا ہومیوپیتھک) اپنا صحیح نتیجہ نہیں نکال پاتیں۔ پیٹ کے کیڑوں کا مکمل علاج عام دستیاب ادویات سے نہیں ہو پاتا۔ اِس کے لئے مریض کی مزاجی دوا سمجھنا اور دینا ضروری ہوتا ہے۔ پیٹ کے کیڑوں اور چمونوں کے پیدا کردہ مسائل، اُن کی ہومیوپیتھک دوائیں اور علاج کے لئے یہاں کلک کریں۔
پیٹ کے کیڑوں کے پیچھے خاندان میں موجود کوئی نہ کوئی بڑی بیماری جیسے سوکڑا، ٹی بی، دمہ (سانس کی تکلیفیں)، الرجی اور کینسر بالعموم ضرور ہوتی ہے۔ اُن کی تفصیل سمجھے بغیر اور ان کے اثرات کا ازالہ کئے بغیر کسی بھی تکلیف کا علاج کماحقہٗ کامیاب نہیں ہوتا۔ مرگی کے مریضوں میں دیگر کئی وجوہات کے علاوہ جذباتی پن، شدید غصہ، بے سکون نیند، ڈر خوف اور فوبیاز، دماغی مشقت یا ماہواری کا دب جانا اہم ترین وجوہات ہیں۔ بہت دفعہ جب یہ وجوہات اور اسباب کنٹرول ہو جاتے ہیں تو مرگی بھی ختم ہو جاتی ہے۔
بوفو (Bufo Rana): مرض اگر زیادہ پرانا نہ ہو اور فیملی ہسٹری میں بڑی بیماریاں عام نہ ہوں تو ہومیوپیتھک دوا بوفو (بفو) سے علاج کا آغاز کرنا چاہئے۔ بفو کا مریض دورے سے پہلے چڑچڑا ہو جاتا ہے اور اُوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگتا ہے۔ اس کی سنسناہٹ اعضائے تناسل یا معدے سے شروع ہوتی ہے۔ دوا کی خوراک اور پوٹینسی (طاقت) مریض کی عمومی صحت اور تکلیف کی شدت کے مطابق منتخب کی جانی چاہئے۔
کلکیریا کارب (Calcarea Carbonica): اگر مرض کافی پرانا ہو اور مریض کی فیملی ہسٹری میں کافی مسائل ہوں تو کلکیریا کارب بہت کامیاب دوا ثابت ہو سکتی ہے۔ بچوں کی مرگی اور تشنج میں، اسے بہت مفید پایا گیا ہے۔ اِس دوا کی ضرورت تب پڑتی ہے کہ جب ہڈیاں نرم پڑ گئی ہوں یا بچے دانت مشکل سے نکال رہے ہوں۔ ہاتھ پاؤں عموماً ٹھنڈے یخ ہوں۔ سوتے میں سر اور گردن پر خوب پسینہ آتا ہو۔ کلکیریا کارب کی سنسناہٹ پیٹ کے نچلے حصے سے شروع ہوتی ہے یا یوں محسوس ہوتا ہے کہ ٹانگ پر چوہا دوڑ رہا ہے۔
اگر اِس دوا میں پوٹینسی اور خوراک مریض اور مرض کی نوعیت سے زیادہ دی گئی تو شدید اور لمبا ردِعمل کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ مریض کے دورے بڑھ سکتے ہیں۔ اِس لیے کیس کو تفصیل سے لینا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔
سلیشیا (Silicea): مرگی کے دورے چاند کے گھٹنے بڑھنے پر ہوں تو سلیشیا مفید دوا ہے۔ اگر دورے صرف نیند کے دوران ہوں تو بھی سلیشیا ہی کامیاب دوا ہے۔ عام طور پر نئے چاند پر دورے بڑھتے ہیں۔ مریض کو دورے سے پہلے سردی کا احساس بھی ہوتا ہے اور کمر میں کچھ عجیب محسوس ہوتا ہے۔ دوا کو بار بار نہیں دہرانا چاہئے۔
ابسینتھئیم (Absinthium): اس ہومیوپیتھک دوا کا چرچا مرگی کےعلاج میں ہومیوپیتھک لٹریچر میں بہت پڑھا ہے اور سینئر یورپی ڈاکٹرز سے سنا ہے تاہم اس کا اِستعمال خاطر خواہ فوائد نہیں دے سکا۔
ڈاکٹر ولیم بورک ہومیوپیتھک طریقہ علاج کے چند انتہائی محترم ناموں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اپنے مٹیریا میڈیکا میں لکھا ہے کہ ہومیوپیتھی دوا ابسینتھئیم مرگی کی مکمل تصویر پیش کرتی ہے۔ مرگی کا دورہ آنے سے پہلے اعصاب میں جھٹکے آتے ہیں۔ سر میں یکایک اور بہت شدت کا چکر آتا ہے، مریض بڑبڑاتا ہے، ہذیان آتا ہے، اس کے بعد بے ہوشی آ جاتی ہے۔ عصبی جوش اور بے خوابی، دماغِ مقدّم کی سوزش۔ ہسٹیریااور بچوں کے تشنج بھی اس دوا سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ یہ دوا کھمب کے زہریلے پن کے لئے تریاق کا درجہ رکھتی ہے۔ رعشہ، اعصاب اور پٹھوں میں جھٹکے آئیں، پٹھوں میں کھچاؤ آئے، جوش ہو اور بچوں کی بے خوابی ہو تو اِس دوا سے مکمل علاج ممکن ہے۔
کیوپرم (Cuprum Metallicum): مرگی کے مریضوں کی اکثر تکلیفیں اِس مرض کا مرکزی نقطہ ہیں۔ اس کے تشنج انگلیوں اور انگوٹھوں سے شروع ہو کر اوپر کو پھیلتے ہیں۔ مریض کا چہرہ اور ہونٹ نیلے ہو جاتے ہیں۔ آنکھوں کے ڈھیلے گھومتے رہتے ہیں۔ بعض دفعہ مریض کی چیخ بڑی ہی ڈراونی اور تیز ہوتی ہے۔ یہ بہت گہرا اثر کرنے والی دوا ہے اِس لیے اِس کا اِستعمال خوب سوچ سمجھ کر ہی کرنا یا کروانا چاہئے۔
کاسٹیکم (Causticum): جس مریض میں اُداسی اور مایوسی کا پہلو نمایاں ہو۔ چھینکنے یا کھانسنے سے پیشاب پر کنٹرول نہ رہے۔ آواز بیٹھ جانے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ بہت ہمدرد مزاج انسان ہو۔ کسی پر ظلم زیادتی ہوتی برداشت نہ کر سکے حتیٰ کہ جانوروں پر بھی۔ جن بچیوں کو حیض سے پہلے یا شروع میں مرگی کے دورے ہوتے ہوں؛ اُن کو اِس دوا سے بہت فائدہ ملتا ہے۔
کالی بروم (Kalium Bromatum): کالی بروم کا ذکر مرگی کے علاج میں شاید ہی کہیں ہوتا ہو۔ مجھے اِس کا اندازہ ہے کہ اِس دوا کو مرگی کے مکمل علاج کے لئے مفید سمجھنا مناسب بات نہ ہو گی۔ اِس کے باوجود اِس دوا کو مرگی کے مریضوں کے لئے بہت مفید پایا ہے۔ بالخصوص ایسے مریضوں کے لئے کہ جن کی تکالیف کافی بڑھ چکی ہوں اور وہ ایلوپیتھک ادویات بہت زیادہ عرصہ اِستعمال کرتے رہے ہوں۔ ایلوپیتھک ادویات میں ایسی تکالیف کے علاج کے لئے پوٹاش کا برومائیڈ عام استعمال ہوتا ہے۔ اِس لئے یہ ہومیوپیتھک دوا اُن ادویات کے سائیڈ ایفیکٹس کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اِس وجہ سے کالی بروم مرگی کے دورے کی شدت کم کرنے میں مفید ثابت ہوتی ہے؛ اگرچہ یہ دوا مرض کا مکمل علاج کرنے میں اہم کردار ادا نہیں کر پاتی۔ اِس کا مریض کھویا کھویا، بیزار اور چڑچڑا ہوتا ہے۔
حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور ۔ فون 03002000210