پشاور، ولمار زوابے کی تقریب سے خطاب
۔July. 29, 2016
محترم کیپٹن، ڈاکٹر انعام الحق، M.D. Dr Hameed General Homoeo private Ltd
محترم عامرحسین صاحب، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ MD Darul Adwiaat صاحب اور سامعین کرام!
دوستو:
آج ہم اعلیٰ مقصد کی خاطر جمع ہوئے ہیں۔
آج کے دور میں جہاں ہر شخص بہت مصروف رہنے لگا ہے اور ہومیوپیتھک پریکٹس کے حوالے سے یہ کہا جانے لگا ہے کہ ڈاکٹر حضرات کے پاس وقت کم ہوتا ہے لہذا سنگل ریمیڈی پریکٹس، کلاسیکل ہومیوپیتھی اور مریض کا طویل و عریض انٹرویو، یہ سب اگلے وقتوں کی باتیں ہیں ۔اب تو Digital دور ہے۔ Whatsaap ، سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔
اب تو مریض کی بات سنو بیماری کے نام پر بنی بنائی دوا دو۔دوا ختم ہو گی تو مریض پھر آ جائے گا۔
یعنی چٹ منگنی پٹ بیاہ۔
حاضرینِ کرام:
بظاہر تو یہ بات دل کو اچھی لگتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ دل کو اچھی لگنے والی ہر بات واقعی اچھی بھی ہو۔
تو آج ہم سنگل ریمیڈی پریکٹس کے حوالے سے بات کریں گے اور کمبینشن پریکٹس کی مخالفت میں کوئی بات نہیں کریں گے۔
ہم تو آپ کے سامنے دونوں کا تجزیہ پیش کر دیں گے۔فیصلہ آپ کا ہے۔
ہماری آج کی ملاقات کا کریڈٹ ڈاکٹر حمید جنرل ہومیو، پرائیویٹ کے ایم ڈی، کیپٹن ڈاکٹر انعام الحق کو جاتا ہے۔ ہم ان کے ممنون ہیں اور ہم ان سے درخواست کریں گے کہ ہمارے لیے ایسے مواقع بار بار پیدا کریں۔ہمارے ٹریننگ اور تعلیمی پروگرامز کو سپانسر کریں کیونکہ اس میں ہومیوپیتھس، دواساز اداروں اور عوام، تینوں کا فائدہ ہے۔ہومیوپیتھی جو ہمارے لیے اوڑھنا بچھونا ہے اگر ہم اس کے ساتھ انصاف نہ کر سکے تو یقیناً اپنی ذات کے ساتھ ناانصافی کریں گے۔ میں نے ابھی اعلیٰ مقصد کے الفاظ استعمال کیے۔میں سمجھتا ہوں اگر ہم ہومیوپیتھی کو اس کی اصل روح کے مطابق سمجھ سکیں تو ہم اعلیٰ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ورنہ یہ زندگی کا سفر رائیگاں تو ہے۔
اعلیٰ مقصد، جسے ہانیمن نے Organon, Aphorism, 9 میں لکھا۔
to live the higher purpose of your existance.
اور یاد رہے کہ ہانیمن نے ایسی کوئی بات مکسو پیتھی کے بارے میں نہیں کی۔
محترم ڈاکٹر حضرات:
میں اکثر کہا کرتا ہوں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ کامیاب پریکٹس میں جہاں ایک ہومیوپیتھ کو ہومیوپیتھی کے علم و فن پر عبورحاصل ہونا ضروری ہے، وہاں فارماسیوٹیکل کمپنی کی نیک نامی اور دوائوں کی Efficasy کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ورنہ نتائج حاصل نہ ہو سکیں گے۔
لہذا ایسے ادارے جن کی شہرت اور نیک نامی کے آگے سوالیہ نشان ہو، ان کی مصنوعات سے پرہیز لازم ہے۔ ورنہ آپ کی نیک نامی پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔کینٹ نے بھی یہی تعلیم دی ہے۔ سنیے، کینٹ نے کیا کہا؟
دوا کی efficasy کے حوالے سے کینٹ نے لکھا ہے ،کہ باوجود بار بار کی محنت کے اگرآپ کو کسی کیس میں Results نہیں مل رہے، آپ دوائیں بدل کر دیکھ چکے ہیں، آپ satisfied نہیں ہیں تو دوا ساز ادارے کی دوائوں کے معیارپر غور کریں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دوائیں Sub Standard استعمال ہو رہی ہوں؟ اور آپ کی محنت ضائع جا رہی ہو؟
حاضرینِ کرام:
دوا کے معیار کے حوالے سے اکثر اوقات یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ہم نے اپنی مشینیری جرمنی، جاپان یا امریکہ سے منگوائی ہے لہذا ہمارے پروڈکٹس کا سٹینڈرڈ بھی ان ملکوں جیسا ہے۔اگرچہ یہ اچھی بات ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ خالی مشینری منگوا لینے سے معیار بلند نہیں ہوتا۔ اس کے لیے اور بھی بہت سے پیرامیٹرز دیکھنے ہوتے ہیں۔ Environment کے علاوہ Human elemnent, ہے ، Ethical values ہیں۔چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہے، اور بھی کئی فیکٹر Involve ہوتے ہیں۔
بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ اچھی شہرت کی حامل کمپنیوں کی دوائیں Purchase کرنی چاہییں۔
آج کی اس نشست میں ،میں یہ واضح کرنے کی کوشش کروں گا کہ سنگل ریمیڈی پریکٹس کیوں ضروری ہے؟ اس کے کیا فائدے ہیں ؟
آج ہم بات کریں گے کہ ہومیوپیتھی کو اس کی اصل روح کے ساتھ کیسے سمجھا جا سکتا ہے اور ہماری پریکٹس result orientedکیسے ہو سکتی ہے؟
اور کیا ہم درست سمت میں جا رہے ہیں ؟
محترم ساتھیو، right direction کیا ہے ؟
ٍ اگر غور کیا جائے تو صراطِ مستقیم ہی Right direction ہے۔اگر آپ جلد منزلِ مقصود تک پہنچنا چاہتے ہیں تو صراطِ مستقیم سے بڑھ کر کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ اس کے علاوہ سارے راستے طویل، دشوار، خطرناک اور de-track کرنے والے ہیں۔
حضور پاک کا فرمان ہے، سیدھی راہ ایک ہوتی ہے اور ٹیڑھی بہت سی۔
اور ہومیو پیتھی کا صراطِ مستقیم میرے نزدیک سنگل ریمیڈی پریکٹس ہے۔یہی Right direction ہے۔ اسی میں مریض کے لیے شِفا اور معالج کے لیے اطمینانِ قلب ہے۔ باقی کہیں نہیں۔
ہانیمن نے آرگینن Aphorism 272 , 274 میں واضح طور پر سنگل ریمیڈی کی بات کی ہے۔اور اس میں دو رائے نہیں ہیں۔
جہاں تک ہومیوپیتھی پریکٹس کا تعلق ہے،اس کے کچھ اصول ہیں، قوانین ہیں، ضابطہ اخلاق ہے جن پر سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔اور وہ ہیں، سنگل ریمیڈی کا استعمال، بالمثل کا انتخاب اور minimum dose.
جہاں تک پوٹینسی کے نتخاب اور Repetition کا تعلق ہے،
It is a matter of choice.
It is a matter of opinion.
It is a matter of experience.
And it is debatable.
پوٹنسی کون سی اچھی رہتی ہے؟ یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوا کی Repeatition کے حوالے سے عرض کروں کہ اصولاً اس میں جتنی کنجوسی کر سکیں اتنا بہتر ہے۔تاہم اس کا انحصار ایک تو کیس ٹو کیس پر ہے۔ دوسرا دوائوں، مریضوں اور بیماریوں کا اپنا اپنا طریقہ واردات ہوتا ہے، اپنا اپنا مزاج ہوتا ہے۔کچھ بہت تیزی سے اور مختصر وقت کے لیے کام کرتی ہیں اور کچھ کا اثر ظاہر ہونے میںکئی دن اور ہفتے لگ جاتے ہیں ۔ ہمیں دوائوں کو
In- depth سمجھنا ہو گا۔
تاہم دوا کے دہرانے کے حوالے سے ایک بات پر سب متفق ہیں یعنی،
یعنی اگر دوا ٹھیک کام کر رہی ہو اور آپ repeat کر دیتے ہیں تو دوا اپنے آپ کو کاٹ کھائے گی۔اور مریض خسارے میں رہے گا۔ یعنی غیر ضروری repeatition سے بچیں۔
ہومیوپیتھک دوائوں کی غیر ضروری Repeatition, Vital forse کو Irritate کر دیتی ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ کچھ زیادہ ہی انتظار کر لیتے ہیں
میں آپ کو گوجرانوالہ کے ایک ڈاکٹر صاحب کا واقعہ سناتا ہوں۔ انہوں نے مجھ سے اپنی والدہ کے کیس میں Consultation مانگی۔معلوم ہوا کہ مریضہ کو Breast tumor کے کیس میں کونیم 200 دی گئی اور دو سال ہو چکے ہیں، کوئی پروگریس نہیں لیکن تاحال دوا کے ردِ عمل کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اتنا انتظار بھی ٹھیک نہیں۔
فارسی ضرب المثل ہے
تا تریاق از عراق آوردہ شود
مارگزیدہ را مردہ شود
میں آپ سے عرض کروں کہ، سنگل ریمیڈی پریکٹس کے اپنے ہی مزے ہیں۔میری آپ سے درخواست ہے کہ جو ساتھی اب تک اس طرف نہیں آئے، ذرا آ کر تو دیکھیں۔ایک بار ایک پوٹنسی خرید لیں تو ختم ہونے کو نہیں آتی۔آپ ہزاروں مریضوں کو دے سکتے ہیں۔ اور جب نشانے پر لگتی ہے تو بقول جارج وتھالکس Explusion ہوتا ہے۔ معجز ہ ہوتا ہے۔ اور جو ساتھی
یہاں تشریف رکھتے ہیں، میرے اس دعویٰ کی تائید کریں گے۔
سنگل ریمیڈی پریکٹس پر یہ محاورہ بہت فٹ بیٹھتا ہے،
ہینگ لگے نہ پھٹکڑی، رنگ بھی چوکھا آئے۔نہ سائیڈ ایفیکٹس کا خطرہ نا Suppression کا جھنجھٹ۔اور کیا چاہیے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر عبدالرحمن مرحوم، اللہ ان کی غفرت کرے، میری خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے میری کتاب لیکچرز آن ہومیوپیتھی کا پیش لفظ لکھا۔کہا کرتے تھے ۔ پڑی تے اکو دینی اے اوہ تے چج دی دیا کرو۔ (آپ نے پڑیا تو ایک ہی دینی ہوتی ہے لہذا وہ تو کام کی دیا کرو)۔
سنگل ڈوز کے حیران کن نتائج سے ہومیوپیتھک لٹریچر بھرا ہوا ہے۔
ڈاکٹر عبدالرحمٰن مرحوم نے مجھے ایک بار سنگل پڑیا کا واقعہ سنایا۔
آپ جانتے ہیں اسلام آباد میں ڈاکٹر اشفاق مرحوم بڑے نامی گرامی ہومیوپیتھ ہو گذرے ہیں۔ کہا جاتا ہے انہوں نے بے نظیر کا علاج بھی کیا تھا۔
یہ واقعہ ان کی نواسی کا ہے۔ اس بچی کے ہاتھ کی پشت پر ایگزیما تھا۔جو کسی دوا سے قابو میں نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔
میں نے اپنی دونوں کتابوں میں سنگل ریمیڈی کے حوالے سے بہت سارے کیس لکھے ہیں جن دوستوں نے میری کتابیں پڑھی ہیں وہ اس کی تائید کریں گے۔
سنگل ریمیڈی پریکٹس کو ایک اور زاویے سے دیکھیں۔
فرض کریں آپ کی ایک بالمثل پڑیا سے سات سالہ پرانا مریض ٹھیک ہونا شروع ہو گیا۔ آپ اسے ہرہفتے دو ہفتے بعد یا مہینے بعد پلاسبو دئیے جا رہے ہیں اور آپ کی پہلی پڑیا نے کام جاری رکھا ہوا ہے۔ مریض بہت خوش ہے کہ اسے آرام آ رہا ہے اس کی برسوں پرانی تکالیف دور ہو رہی ہیں۔اور وہ شفایابی کی طرف گامزن ہے۔آپ کو کیا کرنا پڑا ؟
آپ کو پہلی بار اس کی با لمثل دوا تلاش کرنے کی محنت کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرنا پڑا۔
سوچیئے، آپ کا ایک پڑیا پر کتنا خرچہ آیا؟ اور آپ نے مریض سے کتنے وصول کیے ؟
دوسری صورت میں، آپ بہت سارے کمبینیش دیتے ہیں، سیرپ دیتے ہیں، یہاں میں کمبی نیشین کی مخالفت کی بات نہیں کر رہا، وہ ایک الگ موضوع ہے۔ صرف Comparison کر رہا ہوں۔
ان میں شاید آپ کو ڈسکائونٹ ملتا ہو گا 25%. 40 %. ۔ آپ کا منافع بھی کم اور مریض کی جیب پر بوجھ بھی زیادہ۔
کبھی آپ نے سوچا؟۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ مکسو پیتھی سے،
جیسا کہ ہانیمن نے Aphorism-2 میں لکھا
Rapid, Gentle & permanent cure نہیں ہو سکتا۔
میرے وہ ساتھی جو یہاں تشریف رکھتے اور سنگل ریمیڈی پریکٹس کرتے ہیں اس بات کی تائید کریں گے کہ مثلاً ایک لیڈی جس کے کئی سالوں سے suppressed menses ہیں، (مثلاً) پلسٹیلا ہائی پوٹنسی کی ایک ہی خوراک سے ٹھیک ہو گئے اور باقی کام طویل عرصہ تک پلاسبو نے کیا۔اسے کہتے ہیں Pleasure of prescribing.
ماشاللہ سے جتنی کم انوسٹمنٹ کے ساتھ جتنی زیادہ انکم ہومیوپیتھک پریکٹس میں ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔بشرطیکہ آپ
سنگل ریمیڈی پریکٹس کرتے ہوں۔
پلسٹیلا کے حوالے سے فیس بک پر میں نے ایک پوسٹ شئیر کی ہے۔ جو ساتھی میرے ساتھ add ہیں انہیں معلوم ہو گا۔ یہ کوئی دو سال پہلے کی بات ہے ایک شام میرے کلینک میں ایک خاتون اپنی بیٹی کو لائی۔کئی ماہ سے اس کے Menses suppressed تھے۔ کیس ٹیکنگ کے بعد میں نے پلسٹیلا 10M کی ایک پڑیا دینے کے بعد باقی پلاسبو اگلی صبح سے شروع کرنے کو کہا۔
وہ لوگ اگلی صبح دوائوں کا تھیلا اٹھائے میرے کلینک آ گئے اور خاتون نے بتایا Menses رات کو ہی آ گئے تھے۔ ہم نے آپ کی دوا ذرا استعمال نہیں کی۔ دوا واپس لیں اور پیسے واپس کریں۔ اب میں کیا کرتا؟ میں نے بغیر بحث کیے پیسے واپس کر دئیے۔اور مریضہ مجھے اداس کر کے خود خوشی خوشی گھر لوٹ گئی۔
آپ کا ایک مریض ٹھیک ہوتا ہے تو دس اور کو لے آتا ہے۔ اور جو مریض سنگل ریمیڈی سے ٹھیک ہوتا ہے برسوں اس بات کو یاد رکھتا ہے۔ اور دوسروں سے اپنے علاج کا ذکرتا رہتا ہے۔ کیونکہ سنگل ریمیڈی کے علاج
Real, long lasting & permanent ہوتے ہیں۔آرگینن Aphorison -2 کے عین مطابق۔
ایسا ہی ایک مریض چالیس سال پہلے پنڈی ڈاکٹر شریف سے ٹھیک ہوا اور اس مریض نے مجھے آج سے دس سال پہلے اپنا احوال سنایا۔پتا نہیں وہ کتنے لوگوں کو سنا چکا ہو گا۔
وہ شیاٹیکا کا مریض تھا۔۔۔۔۔ اس نے بتایا میں درد کے مارے ہل جل نہیں سکتا تھا۔مجھے واہ سے میرے بیٹے بس پر بٹھا کے پنڈی لے گئے۔گوالمنڈی سے ٹانگے پر بٹھایا اور پھر ٹانگے سے اٹھا کر ڈاکٹر صاحب کی بنچ پر بٹھا دیا۔ میری باری آنے پر ڈاکٹر صاحب مجھ سے سوالات پوچھتے رہے۔۔ آخر میں انہوں نے پوچھا، جب کھانسی آتی ہے تو کیا ہوتا ہے؟
میں نے برجستہ کہا، موت۔
اس کے بعد انہوں نے کوئی سوال نہ کیا اور اپنے بیٹے سے دوا لانے کو کہا ، جس کی ایک ہی پڑیا مجھے وہاں بیٹھے بیٹھے کھلا دی گئی۔ تھوڑی دیر میں جب ہماری پندرہ دن کی دوا تیار ہو گئی تو مجھے اٹھنے کو کہا گیا۔ میں نے اپنے دونوں بیٹوں کو اٹھانے کے لیے اشارہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب جو یہ سب دیکھ رہے تھے ، مجھے خود اٹھنے کو کہا اور بولے، درد تو چلا گیا۔ آپ خود اٹھئیے۔ میں نے بے یقینی کے عالم میں اٹھنے کی کوشش کی اور یہ سوچتے ہوئے کہ درد تو مجھے ہے اور ڈاکٹر کو کیسے معلوم ہو گیا کہ درد چلا گیا ؟
تاہم میں نے دونوں بازئووں پر زور دیتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی، میںبغیر کسی سہارے کے کھڑاہو گیا۔ اب مجھے چلنے کو کہا گیا ۔ میں نے ڈرتر ڈرتے پہلا قدم اٹھایا، دوسرا اور پھر تیسرا،اور میں خود حیران رہ گیا کہ درد کا نام و نشان نہ تھا اور میں پیدل واپس آیا۔اس بات کو برسوں گذر گئے مجھے وہ تکلیف دوبار نہیں ہوئی۔
حاضرینِ کرام!۔دوا کون سی تھی؟ ظاہر ہے مریض تو نہیں بتا سکتا تھا۔میں نے اپنے طور پر سٹڈی کی کوشش کی۔مجھے تین دوائیں ملیں۔ اور وہ ہیں، بیلاڈونا، ٹیلوریم، اورکیپسیکم۔(واللہ و اعلم)
ایسا ہی ایک واقعہ پنڈی کے ڈاکٹر نور محمد کا ہے۔ اور اس واقعہ کے چشم دید گواہ ڈاکٹر محمود واثق ہیں۔ یہ واقعہ مجھے انہوں نے سنایا۔ ڈاکٹر نورمحمد کے پاس فالج کے ایک مریض کو اس کے گھر والے اٹھا کر لائے۔۔۔۔۔۔۔
ایسی کتنی ہی Success stories آپ کے علم میں ہوں گی۔یہ سب سنگل ریمیڈی کے کمالات ہیں۔مکسو پیتھی کے نہیں۔
میں سمجھتا ہوں ہومیوپیتھس کتنے بھی مہنگے ہو جائیں ، مریضوں کو پھر بھی سستے پڑیں گے۔میرا ایک دوست ایک بڑے انٹرنیشنل لیول کے ہسپتال کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ آپ اس ہسپتال میں داخل ہو کر اگر ایک چھینک بھی مار دیں تو ہزاروں کا بل تھما دیتے ہیں۔
جو ساتھی سنگل ریمیڈی پریکٹس کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہم مریض کا Constitutional treatment بھی کرتے ہیں جو بعض اوقات برسوں پر محیط ہوتا ہے۔(اسے آپ بیماری کے ساتھ سرد جنگ سے تشبیہ دے سکتے ہیں )۔ مریض یہ سمجھتا ہے کہ وہ میٹھی گولیاں کھا رہا ہے۔ لیکن در حقیقت اس کا معالج جانتا ہے کہ وہ اسے آنے والے وقت کے لیے مزید صحت مند بنا رہا ہے، اس کی قوتِ مزاحمت کو مزید قوی کر رہا ہے۔ اس کی موروثی بیماریوں سے اس کو اور اس کی آئندہ آنے والی نسلوں کو محفوظ بنانے کے اقدامات کر رہا ہے۔میں سمجھتا ہوں بنی نوع انسان کو موروثی بیماریوں سے نجات دلانے کا دعویٰ اور کسی سسٹم آف تھیراپیوٹکس نے نہیں کیا۔لیکن یہ سب تبھی ممکن ہے جب آپ سنگل ریمیڈی پریکٹس کو اپنا معمول بنا لیں۔اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ وہ مکس دوائیں دے کر Inherited disease ٹھیک کر سکتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہو گی۔ کیونکہ ہومیوپیتھک فلاسفی اس کو سپورٹ نہیں کرتی۔
جو لوگ ہومیوپیتھ کو اپنا فیملی ڈاکٹر بنا لیتے ہیں فائدے میں رہتے ہیں۔بلکہ دونوں پارٹیاں فائدے میں رہتی ہیں۔ معالج اس خاندان کی بیماریوں کی رگ رگ سے واقف ہو جاتا ہے۔ اور خاندان بھی جلد بیماریوں سے نجات پا لیتا ہے۔
اگر آپ کامیاب پریکٹیشنر بننا چاہتے ہیں تو میٹیریا میڈیکا پولی کریسٹ دوائوں کواچھی طرح جان لیں، فلاسفی کو سمجھ لیں، شخصیات کی جان کاری کر لیں۔ یہی آپ کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اور میں اپنے لیکچرز میں جہاں بھی جاتا ہوں اس نکتے کو فوکس کرتا اور اس کا پرچار کرتا ہوں۔فلاسفی کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
کامیاب ہومیو پریکٹس کے لیے ہمیں میازم کے طریقہ واردات کو بھی سمجھنا ہو گا۔
ہماری ایک ایک دوا پر کئی کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔میں آپ کو آرنیکا کی مثال دیتا ہوں۔حالانکہ آرنیکا کوئی بہت بڑی دوا نہیں ہے۔ لیکن آپ اس کی Efficasy دیکھیں۔ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے چوٹ لگنے پر نمبر ون دوا ہے۔ اور یہ درست بھی ہے۔
آپ Easy and safe delivery میں آرنیکا کا کردار دیکھیں۔ Labour pains شروع ہونے پر حاملہ کو 1M کی ایک خوراک کھلا دیں۔ انشااللہ نارمل ڈیلیوری ہو گی۔ ایک خوراک ڈیلیوری کے بعد دے دیں ہر قسم کی پیچیدگی سے بچ جائیں گے۔ آنندہ زارن ایک امریکن گائناکالوجسٹ تھی۔ ستمبر 2008 میں روڈ سائیڈ ایکسیڈنٹ میں اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے چھ سو سے زیادہ ڈیلوری کیس اٹینڈ کیے۔ سب میں آرنیکا استعمال کی اور ایک کیس بھی سیزیرین سیکشن کو ریفر نہیں کرنا پڑا۔ جی۔ ایک کیس بھی نہیں۔
مریضہ کوسیزیرین سیکشن سے بچا کر آپ نے اس کو مالی نقصان سے بچایا ،نشتر زنی سے بچایا اور اپنا ممنون بھی کیا ۔
سنگل ریمیڈی پریکٹس کے فائدے بے شمار ہیں۔
میں آپ کو آرنیکا کی ایک اور مثال دیتا ہوں۔میرے کلینک کے بالکل ساتھ میٹرنٹی ہسپتال ہے۔ اور اکثر ایسا ہوتا ہے New Born Babies کا پیشاب رک جاتا ہے۔ اور یوں ایک ایمرجنسی ڈیکلیر ہو جاتی ہے۔
ایسے موقعہ پر میں آرنیکا 30 کی ایک خوراک دیتا ہوں اور مسلہ حل ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے دوسری اہم دوا ایکونائٹ ہے۔ہومیوپیتھک لٹریچر میں ایسی Multi thousand exapmles ہیں۔ اور آپ ساتھی جو سنگل ریمیڈی پریکٹس کرتے ہیں، آپ خود اس پر گواہ ہیں۔
ڈلیوری کے بعدانفکشن ہو جانے پراکثر مائوں کو Puerperal fever ہو جاتا ہے۔ اور زچہ کے حوالے سے
It is 6th leading cause of death.
پائروجینم 1M کی ایک خوارک ہی ماں کو شفایابی دینے کے لیے کافی ہے۔
صحت مند اور تندرست بچے پیدا کرنے میں ہومیوپیتھی کا کردار مثالی ہے۔ اور میں نے دیکھا ایسے بچوں کا I Q بہت ہوتا ہے۔
جوناتھن شور نے اپریل1989 کے سیمینار میں Suppressionکے حوالے سے ایک بچے کے کیس کا ذکر کیا ہے۔لکھتے ہیں،
میرے کلینک میں ایک بچے کو اس کی ماں لے کر آئی۔بچے کو کان کی تکلیف تھی۔ میں نے دیکھا بڑا شریف بچہ ہے۔ جب تک میرے کلینک میں رہا ارد گرد کے ماحول سے بے خبر خاموشی سے اپنے کھلونوں سے کھیلتا رہا۔ ذرا شرارت نہیں کی، چپ چاپ ،کسی شے سے چھیڑخانی نہیں کی۔میں نے علامات کے مطابق مرکیورس دے دی۔اگلی نشت میں اس کی ماں نے بتایا کہ میں نے ایلوپیتھک ڈاکٹر سے بھی مشورہ کیا ہے اور وہ کہتا ہے کہ بچے کے کان سے مواد آ رہا ہے اسے انٹی بایئوٹکس دینا پڑیں گی۔میں نے اس بار نوٹ کیا کہ بچہ پہلے سے زیادہ فعال ہے۔ کلینک میں خوب بھاگ دوڑ رہا ہے۔اور شرارتیں کر رہا ہے۔میں نے اس کی ماں سے پوچھا ، یہ گھر میں کیسا ہے؟ اس کی ماں نے جواب دیا۔ بڑا ہی شریف بچہ تھا۔ لیکن جب سے تمہاری دوا استعمال کرائی ہے اس نے ہر شرارت سیکھ لی ہے۔گھر میں چھوٹی بہن کی خوب پٹائی کرتا ہے۔ میں نے اس کی ماںکو بتایاکہ یہ بچہ شریف اور مسکین نہیں تھا بلکہ بیماری کے زیر اثر اس کا اصلی مزاج دبا ہوا تھا۔اب اسے درست مزاجی(ہومیوپیتھک) دوا ملی ہے تو اس کے اندر کا انسان سامنے آیا ہے۔کان بہنے پر گھبرانے کی ضرورت نہیںاور انٹی بایئوٹکس کے استعمال سے اس کی بیماری دوبارہ دب جائے گی۔لیکن وہ خاتون شاید میری دلیل سے مطمئن نہیں ہوئی اور اس نے انٹی بایئوٹکس کا کورس کروا دیا۔ مجھے اس کا بہت افسوس ہوااور بچہ پھر پہلے کی طرح شریف مسکین بن گیا ۔
آپ خود سٹڈی کریں، ایسے بچے جو متواتر انٹی بائوٹکس کی زد میں رہتے ہیں۔ان کا Emotional level dry اور Intelectual level suppressed ہو جاتا ہے۔ایسے مریض creative کام اور ریسرچ ورک کے لیے Unfit ہو جاتے ہیں۔
آپ ہومیوپیتھی کی ہزاروں دوائوں میں 80 کے قریب بڑی دوائوں کو اچھی طرح سمجھ لیں آپ اسی فی صد مریضوں کو ٹھیک کر دیں گے۔
میں
نے فیس بک پر ان دوائوں کی لسٹ شائع کی ہے جو ساتھی میرے ساتھ فیس بک پر add ہیں انہوں نے نوٹ کی ہو گی۔ ابھی لا ہور میں جو میں نے ریگولر لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا ہے، اس میں ہم ایسا ہی کر رہے ہیں۔ ہم پولی کریسٹ دوائوں کو فوکس کر رہے ہیں۔میں راولپنڈی میں بھی ایسے ریگولر لیکچرز شروع کرنے کی سوچ رہا ہوں۔
میرا مشورہ ہے کہ آپ ریپرٹری کی بجائے سافٹ ویر استعمال کریں۔ اس سے ٹائم کی بہت بچت ہوتی ہے اور خوداعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو ساتھی کمپیوٹر سافٹ وئیر میں دلچسپی رکھتے ہوں بعد میں مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
کامیاب معالج بننے کے لیے میں نے جتنا بھی مطالعہ کیا ہے، ایک بات جو مجھے ہر جگہ پڑھنے کو ملی۔وہ یہ کہ اس فیلڈ میں کاہل اور سست انسان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
یقین کریں اگر شوق، لگن، مستقل مزاجی سے اس پیشے کو اپنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ کامیاب نہ ہوں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ ہمارے ساتھی سرکاری ہسپتالوں ، ڈسپنسریوں میں جاب حاصل کرنے کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ ابھی پنجاب حکومت نے بین لگایا تو صفِ ماتم بچھ گئی۔ یقیناً حکومت کا اقدام غلط ہے۔ لیکن میں دوسری بات کر رہا ہوں۔ کیا ہم اتنے ہی گئے گذرے ہیں کہ گریڈ 16یا 17کی نوکری کریں۔ میں ملازمت کی نفی نہیں کر رہا Comparison کر رہا ہوں۔ میرے علم میں بے شمار ہومیوپیتھس ہیں اور آپ کے علم میں بھی ہوں گے جو کبھی ایسی نوکری نہ کریں۔ ان کی پریکٹس گریڈ 18 کی آمدن سے کہیں بہتر ہے اور وہ مطمئن ہیں۔ یہاں اس ہال میں موجود میں کئی ساتھیوں سے واقف ہوں جنہوں نے نہایت پر کشش salery والی ملازمت چھوڑ دی اور ہومیوپیتھک پریکٹس جاری رکھے ہوئے ہیں اوراپنے فیصلے پر مطمئن ہیں۔بلکہ ایک ساتھی نے تو میرے کہنے پر ملازمت چھوڑی۔ آج ماشااللہ، سارے ملک سے گردوں کے مریض ان کے پاس آتے ہیں۔ اللہ سب کو کامیابیاں نصیب کرے۔
میرے لیے تو آپ سب محترم ہیں۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ہومیوپیتھی کا روشن چہرے دیکھ ہی نہیں پائے، اور نہ کسی نے دکھانے کی کوشش کی۔
ہمارے ہاں موسمِ الیکشن اور موسمِ تعلیم ایک ساتھ طلوع ہوتے اور ایک ساتھ غروب ہو جاتے ہیں۔اور پھر چار سال بعد طلوع ہوتے ہیں۔
اور جیسا کہ کینیڈین فاکلٹی آف ہومیوپیتھی کے ڈین اینڈرے سین نے کہا۔۔۔۔
And blind is leading the blind.
میرے خیال میں کمبینیشن بنانے والی کمپنیوں کو مورودِ الزام ٹھہرانے والا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیئے۔ اگر آپ کمبینشن استعمال نہیں کرنا چاہتے تو مت خریدیں۔ مارکیٹ میں جس مال کی ڈیمانڈ ہوتی ہے وہی بنتا اور بکتا ہے۔
میرے دوستو , اگر کمزوری، کجی یا خامی ہے تو ہماری ذات میں، ہومیوپیتھی میں نہیں ہے، اس کی فلاسفی میں نہیں ہے۔ یہ بڑا جاندار اور Potent system ہے۔ ضرورت اس سے استفادہ کرنے کی ہے۔ہمیں سازش کرنے والوں اور مخالفین سے کیا گِلہ کہ ان کا تو کام ہی یہی ہے۔ ہمیں خود سے کچھ بن کر دکھانا ہے تا کہ حکومت خود ہمیں پر کشش ملازمت کی پیشکش کرے۔ جِس دن ہم نے ادھر اُدھر دیکھنے کی بجائے خود سے کچھ کرنے کی ٹھان لی، یقین جانئیے، ہومیوپیتھی کی دنیا میں انقلاب آ جائے گا۔
اور یہ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ کیونکہ میں جن کامیاب لوگوں سے ملا ہوں، انہوں نے خود سے کچھ کرنے کی ٹھان لی تھی۔ اور کر کے دکھایا۔
آپ اپنے شہر کی مثالیں دیکھ لیں، ڈاکٹرنسیم، ڈاکٹر شریف، ڈاکٹر نور محمد، ڈاکٹر اشفاق حسین، ڈاکٹر ریاض احمد، ڈاکٹر علی، ڈاکٹر طارق، ڈاکٹر نسیم اعجاز، ڈاکٹر اعجاز علی اور ایک بہت ینگ ڈاکٹر بخت منیر اور ان کے علاوہ کتنے ہی کامیاب ڈاکٹر یہاں میرے سامنے ہال میں تشریف فرما ہیں۔ میرے عزیز دوستو !
اگر یہ کامیاب ہو سکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں؟
یہ بھی تو اسی مٹی، اسی ماحول کی پیداوار ہیں؟
علامہ اقبال نے کہا تھا نا
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے ؟
چلیں اگر ہم علامہ اقبال والے لیول پر نہیں پہنچ سکتے تو کم از کم اتنا تو کر سکتے ہیں جو ہمارے کامیاب ساتھی ہیں، وہاںتک ہی پہنچ پائیں۔ شہر میں چند لوگ ہمارے کلینک کا پتا تو پوچھتے پھریں۔ہمیں چاہیے کہ شہر میں اچھے پریکٹیشنرز کی خوشنودی حاصل کریں۔ان کی شاگردی حاصل کریں۔ یہ کہنا چھوڑ دیں، کوئی سکھاتا ہی نہیں۔ طلب صادق ہونا شرط ہے۔
اوریاد رکھیے! زندگی دوسروں کی خامیوں پر نہیں اپنی خوبیوں پر بسر کرنی پڑتی ہے۔
Next
انفرادیت، Individualisation اس پر یقین کیے بغیر آپ ہومیوپیتھی کو نہیں سمجھ سکتے۔
یاد رکھیں، ہومیوپیتھی میں انفرادیت کا قانون چلتا ہے۔ اسے ذہن میں رکھے بغیر کامیاب پریکٹس کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
ہومیوپیتھی میں Individualization ہے
اور ایلوپیتھی میں Generalization ہے۔
یہ بات ہر ہومیوپیتھ کے ذہن میں ہونی چاہیے۔
ہومیوپیتھی کو جاننے اور مریض کو سمجھنے سے پیشتر ہمیں اپنی ذات کی پہچان کرنی ہو گی۔ جیسا کہ ہانیمن نے کہا۔
The essence of all true wisdom is to know thyself.
اپنی ذات کی پہچان۔۔اے ہومیوپیتھ اپنے آپ کو پہچان۔۔ اللہ نے تجھے اعلیٰ و ارفع مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔دو نمبر دوائیں استعمال کرنے کے لئے نہیں بھیجا۔
یاد رکھئیے: غیر معیاری دوائوں کے استعمال سے مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اور اگر فوری موت نہ بھی ہو تو ایک حوالے سے اسے بیماری میں ڈالنا قسط وار موت کے مترادف ہے۔
بقول کینٹ ! کچھ ساتھی پریکٹس کے معاملے میں بہت لِبرل ہوتے ہیں۔یہ لوگ جہاں ہومیوپیتھی اور ایلوپیتھی کی سڑکیں کراس کرتی ہیں ، بیچ چوراہے میں اپنا بستہ لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک ایلوپیتھ ایسے ہومیوپیتھ سے بدرجہا بہتر ہے جو اپنے آپ کو ہومیوپیتھ کہتا ہے مگر ہومیوپیتھی سے مخلص نہیں۔ان لوگوں کے ایک ہاتھ میں بیلاڈونا کی پڑیا ہوتی ہے اور دوسرے میں پیناڈول کا پتا، تاکہ رام بھی راضی رہے اور اللہ بھی خوش۔اور نتیجہ میں نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔
فارسی میں ضرب المثل ہے
ہر کہ آمد عمارتِ نو ساخت۔۔۔ جو آیا اس نے نئی عمارت بنائی۔ ہومیوپیتھی میں بھی ایسا ہوتا رہتا ہے۔بہت ساری بدعتیں اس میں داخل ہو چکی ہیں۔اور ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن اصل ہومیو پیتھی وہی ہے جو ہانیمن آرگینن میں بیان کر گیا اور جو اس کے سچے پیروکاروں نے ہم تک پہنچائی۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا اس سسٹم میں بڑا Potentional ہے۔
آپ اس کی Dynamicity پر غور کریں۔
ہومیوپیتھی کو دوسرے سسٹم آف تھیراپیوٹکس پر ایک برتری یہ بھی حاصل ہے کہ اس نے بے زبانوں کو زبان عطا کر دی ۔
اب دیکھیے نا، کسے معلوم تھا کہ ریت کیا جذبات رکھتی ہے، اس کی سوچ کیسی ہے، ضد کیسی ہے، محبت کیسی اور عداوت کیسی ہے؟ یہ کمال صرف ہومیوپیتھی کو حاصل ہے جس نے پتھروں کو بھی گویائی عطا کر دی۔
Potentization کا عمل بے جان میں روح پھونک دیتا ہے۔اور یہ خوش نصیبی بھی ہومیوپیتھی کے حصے میں آئی۔
لوگ ہومیوپیتھی پر اعتراض تو کرتے ہیں لیکن اسے آزماتے نہیں
And Please note that…..
No one can understand the dynamic power of Homoeopathy unless he adopts it.
ساتھیو: ہمیں کسی کی منفی تنقید سے مایوس نہیں ہونا،پر امید رہتے ہوئے اور ہومیوپیتھی کے بنیادی اصولوںپر کاربندرہتے ہوئے Results oriented practice جاری رکھنی ہے۔
اور غالب نے یہی بات کہی
وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے
ہمیں چاہیے کہ اپنے کلینک کا سیٹ اپ معیاری اور خوبصورت بنائیں، مناسب فرنیچر ہو، صفائی کا نظام ہو اور ہمار اپنا حلیہ بھی ایسا ہو کہ مریض، ڈاکٹر اور صفائی والے میں تمیز کر سکے۔ کلینک اور کریانہ سٹور میں تمیز کر سکے۔
مجھے یہاں اپنے شہر واہ کینٹ کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔
ہمارے شہر میں ایک بہت اچھے عمر رسیدہ ہومیوپیتھ تھے۔(اب بھی ہیں) کافی سال پہلے کا واقعہ ہے اسلام آباد سے ایک سینیٹر صاحب اپنی فیملی سمیت ان کی شہرت سن کر بغرضِ علاج پتا پوچھتے پوچھتے بڑی مشکلوں سے ان کے کوارٹر تک پہنچے۔پجیرو گاڑی سے صاحب کا ڈرائیور اترا۔دیکھا کہ ایک شخص کوارٹر کے باہرقمیض اتارے ، کھرپا ہاتھ میں لیے گوڈی کر رہا ہے ۔ڈرائیور کے پوچھنے پر کہ ڈاکٹر صاحب کو ملنا ہے، گوڈی والا شخص وہی کھرپا ہاتھ میں لیے ،مٹی اور پسینے سے شرابور۔ پجیروکے قریب آیا اور بولا، حکم کریں میں ہی ڈاکٹر ہوں۔فرمائیے کیا کام ہے ؟
سینیٹر صاحب اور ان کی فیملی کو ایک دھچکہ سا لگا اوربغیر کوئی بات کیے ڈارئیور کو وہاں سے گاڑی بھگانے کو کہا۔
Luc d Schepper بلجیئم کا معروف ہومیوپیتھ ہے۔
اس نے بہت اچھی کتابیں لکھی ہیں۔کبھی موقع ملے تو ضرور پڑھیے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ جب آپ کلینک میں بیٹھتے ہیں تو آپ کے دو روپ ہوتے ہیں۔ ایک بطور فزیشن اور دوسرا بطور سیلز مین۔ ہمیں دونوں باتوں کا خیال رکھنا ہو گا۔کیونکہ جب آپ مریض کو چیک کر رہے ہوتے ہیں، مریض آپ کو چیک کر رہا ہوتا ہے۔وہ سوچ رہا ہوتا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ میں غلط جگہ پر آ گیا ہوں۔
جارج وتھالکس نے بھی اور بہت سے دوسروں نے معیاری کلینک بنانے پر زور دیا ہے۔
اورکیا آپ جانتے ہیں ہومیوپیتھی میں سب سے مشکل کام کیا ہے؟ کیس ٹیکنگ،جسے بظاہر سب سے آسان سمجھ لیا گیا ہے ہومیوپیتھی میں سب سے مشکل کام ہے۔کیونکہ یہی وہ راہداری ہے جس سے گذر کر آپ نے منزلِ مقصود تک پہینچنا ہے۔ اور کیس ٹیکنگ بھی وہاں ضروری ہے جہاں آپ نے کلاسیکل پریکٹس کرنی ہے، سنگل ریمیڈی پریکٹس کرنی ہے، جہاں آپ نے مرض کو نہیں مریض کو ایڈریس کرنا ہے۔ جہاں آپ نے بقول ہانیمن
To restore the sick to health as it is termed.
اور صرف اسی طریق پر عمل پیرا ہو کر مریض کی شفا یابی کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔
There is no other way, no more option.
ہمیں نہ صرف بات کرنے بلکہ مریض کی بات سننے کا سلیقہ آنا چاہییے۔ اور یہ سب کیس ٹیکنگ کا حصہ ہے۔کہا جاتا ہے وہ بات جو نہیں کہی جاتی، زیادہ اہم ہوتی ہے۔مریض اکثر وہ بات بیان نہیں کرتا لیکن ہمیں سننی اور سمجھنی ہوتی ہے۔ اور یہ سب کیس ٹیکنگ کا حصہ ہے۔میں نے چھ گھنٹے کا لیکچر صرف کیس ٹیکنگ پر تیار کیا ہے۔
یہاں اس محفل میں جو بھی سٹوڈنٹس یا کم تجبربہ کار ڈاکٹر حضرات تشریف رکھتے ہیں وہ یہ بات اچھی طرح جان لیں ہومیوپیتھی کو سمجھنے میں ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اگر انہوں نے اس پروفیشن میں رہنا ہے تو مسلسل محنت کرنا ہو گی۔ اور ابتدائی ناکامیوں پر انہیں بد دل نہیں ہونا۔ہمار ے ہاں کونسل نے چھ ماہ کی انٹیرن شپ رکھی ہے جو میرے خیال میں بالکل ناکافی ہے۔ اسے کم از کم تین سال ہونا چاہیے۔میرا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ ڈگری ڈپلوما حاصل کرنے کے بعد انڈیپینڈنٹ کلینک کھولنے کی بجائے اپنے شہر کے معروف اور تجربہ کار ڈاکٹرز کے زیر سایہ پریکٹس کریں اور بعد میں اپنا کلینک کھولیں۔
یوں سمجھ لیں کے کسی ہومیوپیتھک پیر کے ہاتھ پر بیعت ہونا لازم ہے۔ جب ہم ہومیوپیتھی کی بات کرتے ہیں تو میری نظر میں محض استاد، شاگرد کے الفاظ ناکافی ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو ہومیوپیتھی تو علم کی وہ شاخ ہے۔جو ایک ہومیوپیتھ ساری عمر سیکھتا رہتا ہے۔ اور برسوں کی عرق ریزی کے بعد وہ اسے بطور آرٹ سمجھنے کے قابل ہوتاہے۔ لیکن یہ ایک طویل اور Endless پراسس ہے۔اتنا طویل کہ زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ آرٹ ختم نہیں ہوتا۔جیسا کہ HIPPOCRATES نے کہا۔
Life is short, Art is long, the occation fleeting, experience deceitful
and judgement difficult.
یاد رکھیے ہم لوگ مقدس ترین پیشے سے وابستہ ہیں۔ہماری بڑی ذمہ داریاں ہیں
یہ میری Perception ہے کہ اگر ہمارے ساتھی درست سمت کو کمر کس لیں، شارٹ کٹ چھوڑ دیں، ہومیوپیتھی کو اوڑھنا بچھونا بنا لیں تو عوام انہیں سر آنکھوں پر بٹھا لے۔ کیا PHC اور کیا پنجاب گورنمنٹ کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ سیدھی راہ والے مسافر کم ہیں اور ٹیڑھی والے بہت۔
ہومیوپیتھ کے مشن کے بارے میں ڈاکٹر جارج وتھالکس کے ریمارکس سنئے!
We must not forget, however, that our task, our mission, as homoeopaths is to turn the craziness, disorder and confusion of our societies into some kind of sanity and order.
ہمیں یہ بات ہر گز نہیں بھولنا چاہے کہ بطور ہومیوپیتھ یہ ہمارا فرض اور مشن بنتا ہے کہ ہمارا معاشرہ جس فکری انحطاط، عدم توازن ، دہشت گردی اور اخلاقی بانجھ پن کا شکار ہے اسے رواداری ، عدل اور توازن سے بدل دیں۔
ہمارے ہاں ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سیاسی بنیادوں پر تو ہومیوپیتھک سو سائٹیاں اور Associations بنائی جاتی ہیں۔ یا پھر بزنس کے حوالے سے کچھ سیمینارز ہوجاتے ہیں۔ لیکن خالصتاً میرٹ ، کلاسیکل ہومیوپیتھی کے فروغ یا ایجوکیشن کیلئے کچھ نہیں ہوتا۔ اگر چند درد مند حضرات ایسا قدم اٹھاتے بھی ہیں تو انہیںFinancially سپانسر کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
آخر میں میری درخواست ہے ان ڈاکٹر حضرات کے نام جن کے دل ہومیوپیتھی کے لئے دھڑکتے ہیں۔ کہ وہ اپنے آپکو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں۔ اور اپنی مدد آپ کے تحت اس مقدس مشن کو آگے بڑھائیں۔” اللہ کسی محنت کرنے والے کی محنت کو ضائع نہیں کرتا مرد ہو چاہے عورت”
ضرورت ہے Conviction کی Devotion کی Determination کی۔
یقین جانئے! اگر آپ کے دلوں میں جذبہ ء صادق اور طبیعت میں مستقل مزاجی ہے تو آپ اس دکھی انسانیت کے لئے بہت کچھ کر جائیں گے۔اور یوں آپ نفس مطمئنہ کے ساتھ اپنے رب کی طرف لوٹ جائیںگے۔
آج انٹرنیشنل لیول پر پاکستانی ہومیوپیتھک ڈاکٹر ز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ بڑے دکھ اور اداسی والی بات ہے۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں ٹیلنٹ، گلیوں کے گروغبار میں رُل جاتا ہے،ناانصافی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔اسے کوئی سپورٹ کرنے والا، سپانسر کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ہومیوپیتھی میں دنیا کا کیا، ہم تو انڈیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے اگرچہ افسوس ناک ہے۔ ہمیں دوسروں کا گریبان پکڑنے سے پہلے اپنا محاسبہ کرنا ہو گا۔
میں ولمار شوابے کے تمامManaging Parteners اور بالخصوص کیپٹن ڈاکٹر انعام الحق کا مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے اظہار خیال کا موقع دیا۔
میں نے ولمار شوابے، پشاور سیمینار میں بھی عرض کی تھی اور اب بھی دہرا رہا ہوں کہ تمام دوا ساز ادارے بشمول امپورٹرز
اپنے بجٹ کی ایک معقول رقم Practicing Homoeopaths کی Professional skill Enhance کرنے کی مد میں رکھیں۔ Because it is need of the day ۔
میری معلومات کے مطابق ولمار شوابے اس حوالے سے کئی سارے پلان پر کام کر رہا ہے۔ اور یہ قابلِ تعریف بات ہے۔
بالخصوص وہ فاماسیوٹیکلز کمپنیاں جو معیاری ادویات بناتی ہیں ان کے لیے میرا پیغام ہے کہ معیاری پریکٹیشنرز ان کی ضرورت ہیں۔دو نمبر پریکٹیشنر تو اصول و قوانین اور نیک نامی کے جھمیلوں میں نہیں پڑتا۔ اسے ethical values کی کوئی پرواہ نہیں۔ اسے تو جہاں سے زیادہ کمیشن ملے گا وہاں سے مال اٹھائے گا ،چاہے وہ باتھ روم لیبارٹری ہی کیوں نہ ہو۔
میں نے شہر شہر، گلی گلی گھوم پھر کے دیکھا ہے ، کہ پریکٹس کے حوالے سے مجموعی طور پر ہمارے پریکٹیشنرز کی حالت بہت پتلی ہے۔اس پس منظر میں فارما سیوٹیکل انڈسٹریز اور کاروباری اداروں کی ذمہ داری میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ پریکٹس اچھی ہونے سے ہومیوپیتھی کی نیک نامی میں اضافہ ہو گا اور مریض زیادہ تعداد میں ادھر کا رخ کریں گے ،تو دوائوں کی Consumption میں اضافہ ہو گا۔اور Ultimately آپ کے بزنس میں بھی اضافہ ہو گا۔اور یہ Long term achievement اور win win situation ہو گی۔
میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔اللہ نے اگر آپ کو اس اجر عظیم کا موقع دیا ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیں۔
میں ایک بار پھر آج کے سیمینار کی انتظامیہ اور کیپٹن ڈاکٹر انعام الحق صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے سالانہ بجٹ کا ایک معقول حصہ ہومیوپیتھی کے فروغ اور ہماری تعلیم وتربیت پر خرچ کریں گے۔ کیا آپ میری بات کی تائید کرتے ہیں ؟
آپ کا بہت شکریہ
ڈاکٹر بنارس خان اعوان، واہ کینٹ