حسد اور ہومیوپیتھی – جارج وتھالکس
:تلخیص و ترجمہ
ڈاکٹر بنارس خان اعوان، واہ کینٹ
ڈاکٹر ملک مسعود یحیےٰ
ذہنی جذباتی علامات:
* عدم تحفظ۔ خصوصاً صحت کی بابت شدید اضطراب
* موت کا خوف۔ اکیلا رہنے سے خوف
* اضطراب، بے آرامی، ضعف تین بڑی علامات ہیں
* نازک مزاج۔ ہر شے ترتیب سے اور صاف رکھتا ہے
* خود غرض۔ دوسروں پر اور اپنی ذات پر تنقید
ذہنی علامات:
* غذائی سمیت کے بعد اسہال۔ پاخانہ کرنے کے بعد شدید ضعف
* اسہال اور قے
* دمہ۔ لیٹنے پر سانس کی تنگی۔ مریض لیٹ نہ سکے۔ دم کشی کا خوف
* کھجلی۔ اتنا کھجائے کہ خون نکل آئے
عمومیات:
* درد جلن دار۔ متاثرہ حصہ آگ کی مانند جلتا ہے
* جیسے کہ گرم کوئلوں سے داغا جا رہا ہو
* بہت سردی محسوس کرتا ہے۔ بہت سے کمبل اوپر اوڑھنا چاہتا ہے
* ما سوائے سر کے۔ سر کو کھلا رکھنا چاہتا ہے تاکہ سر کو تازہ ہوا لگتی رہے
* غذا کی خوشبو یا غذا کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا
* سرد پانی کی شدید پیاس۔ بار بار تھوڑا تھوڑا پانی پیتا ہے
جہت:
کمی
* گرمی سے ماسوائے سردرد کے۔ ٹھنڈے پانی سے سر کو دھونے سے سر درد میں افاقہ
* گرم مشروبات۔ گرم ٹکور۔ دھوپ اور گرم کپڑے
اضافہ
* آدھی رات کے بعد 1بجے تا 2بجے
ہم موت کے خوف کی بابت پڑھ چکے ہیں۔ اکیلا رہنے سے خوف وغیرہ۔ آرسنک (Arsenicum Album) میں بعید از قیاس خوف موجود ہیں۔ آرسنک کی پیتھالوجی کی تہہ کے اساسی پس منظر میں گہرا عدم تحفظ موجود ہے۔ اس عدم تحفظ سے ہی آرسنیک کے بہت سے کلیدی اظہار پیدا ہوتے ہیں۔
یہ عدم تحفظ سماجی سطح یا پیشہ ورانہ سطح پر خود اعتمادی کی کمی نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر بنیادی زود پذیری اور بے یار و مددگاری کا احساس ہے۔ اس کا تعلق مرض اور موت سے ہے۔
حتیٰ کہ ابتدائی مرحلے میں ہی آرسنک کے مریض پر عدم تحفظ غالب ہوتا ہے۔ لیکن اس کو الفاظ کا روپ دینا مشکل ہے اور یہ کسی کے سامنے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ آپ ملاحظہ کریں کہ یہ افراد حقیقتاً اندر سے منظم ہوتے ہیں اور بیرونی طور پر بھی نظم پسند کرتے ہیں۔ یہ افراد بیرونی طور پر بے نقص ترتیب پسند کرتے ہیں۔
اضطراب جو اندر سے پیدا ہوتا ہے ناقابل یقین حد تک بڑھ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ میرا مرض ناقابل شفا ہے۔ یہی ایک فارقہ علامت ہے۔ میرے مرض کا کوئی حل نہیں ہے۔ کسی مریض کو اسہال آنے لگتے ہیں۔ مزمن اسہال۔ جب بھی مریضہ کو پاخانہ کرنے کی خواہش ہوتی ہے تو مریضہ انتظار کرتی ہے کہ کیا دست آنے والا ہے۔ وہ کہتی ہے دوبارہ اسہال اوہ! اوہ! دوبارہ وہی اسہال۔
آپ کو آرسنیک کے مکمل بہروپ کو دیکھنا ہوگا تاکہ آپ وہ سمجھ سکیں جو میں اَب کہنے لگا ہوں۔ آرسینک زندگی میں اچھی اشیاء پر یقین رکھتا ہے۔ ہر طرح سے مکمل گھر چاہتا ہے۔ ان کے گھر خوبصورت ہوتے ہیں۔ ان کا لباس خوبصورت ہوتا ہے۔
ہمیں ایسے افراد نظر آتے ہیں جو مکمل طور پر نک چڑھے اور نزاکت پسند ہوتے ہیں کہ ان کے ذہن پر صفائی اور ترتیب اس حد تک چھا جاتی ہے کہ یہ خلافِ دستور مسلسل صفائی اور سدھائی پر بہت طاقت صرف کرتے ہیں۔
آرسنک عورت (بیوی) اپنے گھر میں آنے والے مہمانوں کے پیچھے رہتی ہے۔ گھر کے فرش کو دوبارہ پالش کرتی ہے (اگرچہ فرش پہلے ہی بے انتہا صاف ستھرا ہوتا ہے) تاکہ مہمانوں کے جوتوں کا معمولی سا نشان بھی فرش پر دکھائی نہ دے۔
آرسنک ملاقاتی دیوار پر ٹنگی ترچھی تصویر کو سیدھا کرے گا اور یہی انسان ہوٹل میں جا کر میز پوش کو بھی درست کرے گا کیونکہ میز پوش متشاکل نہیں ہے۔ آرسنک کا مریض اپنے جوتوں کے تسموں کو ہم آہنگ کرنے میں کافی وقت صرف کرے گا۔ نہیں تو ان کی غیر ہم آہنگی سے تکلیف اٹھائے گا۔ یہ تجاوز آرسنک کی نزاکت پسندی کی تصویر کشی کرتا ہے۔
آرسنک کے مریض میں قانون کی پابندی کا جذبہ اور صفائی پسندی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ دماغی طور پر زیادہ ابتر مریضوں میں گندگی اور جراثیم کے تعلق سے سنجیدہ رویہ مسلط ہو سکتا ہے۔
یہ افراد نہ صرف اپنے ہاتھ بار بار دھوئیں گے بلکہ اپنے کپڑے بھی بار بار دھوئیں گے۔ ان کے کپڑے کسی دوسرے شخص سے چھو جائیں تو ان مریضوں کو گندگی لگنے کا احساس ہوتا ہے۔ چھوت لگنے کے خوف سے ممکن ہے آرسنک کے مریض دوسرے افراد سے جسمانی رابطہ مکمل طور پر منقطع کر دیں۔
اسی طرح ان افراد میں ممکن ہے ناپاکی کا اذیت ناک متشابہ احساس ہو جس کے نتیجے میں انہیں کوئی جسمانی مرض لاحق ہونے کا خدشہ ہو۔ خصوصاً چھپاکی، سرخ بادہ۔ اگر ڈاکٹر ان کو بتا دے کہ ان کو پھپھوندی کی سوزش ہے تو مریض کو فوراً اپنے جسم کے اندر گندگی کا احساس ہو گا اور انہیں بار بار نہانے کا دورہ پڑسکتا ہے۔ بار بار نہانے سے دھونے سے بھی یہ احساس ختم نہ ہوگا۔ یہ افراد آسانی سے گندگی دیکھنے یا گندگی چُھو جانے سے متنفر ہو جاتے ہیں۔
آرسنک کے مریض کی ظاہری حالت سے اس کی نزاکت پسندی سے عشق منعکس ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر مریض کے پاس کئی سال سے ایک ہی سوٹ ہو تو پھر بھی وہ سوٹ اتنا صاف دکھائی دیتا ہے کہ جیسے مریض نے ابھی خریدا ہو۔
آرسنیک کا مریض بہت پابندی سے اپنے کپڑوں کی حفاظت کرتا ہے۔ مثلاً آرسنک گھر آتا ہے تو اپنے کپڑے اتار کر قرینے سے تہہ کرے گا اور سنبھال کر رکھے گا تاکہ اگلی صبح یہ کپڑے اسے بے داغ حالت میں مل جائیں۔ آرسنک اپنے کپڑوں کی حفاظت پر غیر معمولی وقت صرف کرتا ہے اور لطف اٹھاتا ہے۔
آرسنک کے گھر کپڑوں کی الماری بہت خوبصورت لگتی ہے کیونکہ اس میں ہر شے ناقابل یقین حد تک ترتیب سے رکھی ہوتی ہے۔
آرسنک کیلئے مادی اشیاء بہت اہمیت رکھتی ہیں اس حد تک کہ اگر یہ شعبہ بے ترتیب ہو جائے تو وہ خود بھی مضطرب ہو جاتے ہیں۔ ان کا جسم کسی نہ کسی طور بے ترتیب ہو جاتا ہے۔ انہیں اسہال آنے لگتے ہیں، معدہ میں درد ہونے لگتا ہے، اختلاج قلب ہوجاتا ہے حتیٰ کہ عام سی تکالیف پیدا ہوجاتی ہیں۔ ان میں اس حد تک خوف ترقی کر جاتا ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اب اختتام ہے۔ میں بہت بیمار ہوں کہ میں ناقابل شفا ہوں اور تب ایک بہت طاقتور فارقہ علامت سامنے آتی ہے۔ آرسنک کے مریض کسی کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ وہ جہاں بھی جائیں ان کے ساتھ کوئی ہمراہی ہو۔ محض ہمراہی نہیں بلکہ ایسا شخص جس پر وہ اعتماد کرتے ہوں تاکہ اگر انہیں کچھ ہوجائے، اگر انہیں دل کا دورہ پڑ جائے تو ان کا ساتھی انہیں ایمرجنسی میں ہسپتال لے جائے اور ان کی دیکھ بھال کرے۔ یقیناً آرسینک ان ادویات کی فہرست میں موجود ہے جن میں مریض سنگت کی خواہش رکھتا ہے۔
حقیقت میں آرسنک البم (Arsenicum Album) محض سنگت کی خواہش نہیں بلکہ یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ اس کی حقیقی ضرورت ہے کہ اس کے قریب کوئی حاضر رہے۔ آرسنک لوگوں کے درمیان رہنا پسند کرتا ہے کیونکہ اسے اپنی صحت کے تعلق سے عدم تحفظ کا احساس ہوتا ہے اور اسے ناقابل بیان خوف ہوتا ہے کہ وہ اکیلا ہو جائے گا جب اس کی صحت کو ممکنہ خطرہ لاحق ہو گا۔
یہ علامت فاسفورس (Phosphorus) سے مخالف ہے۔ سنگت کی خواہش میں لوگوں سے رابطہ ضروری نہیں جبکہ فاسفورس میں رابطہ ضروری ہے۔
آرسنک کو لوگوں کی ضرورت اس لئے ہوتی ہے تاکہ اگر اُسے کچھ ہو جائے تو اس کا حوصلہ بحال کریں۔ اس وجہ سے آرسنک کا مریض مالک ہونے کی خواہش رکھتا ہے۔ اشیاء کا مالک، دولت کا مالک، اپنے قریبی لوگوں کا مالک، بیوی یا شوہر کا مالک۔
آرسنک (Arsenicum Album) کا مریض تعلقات میں فوری لینے دینے کا قائل نہیں۔ آرسنک بہت زیادہ خود غرض ہے اور صرف لینا جانتا ہے۔
آرسنک کسی رشتہ دار کی مدد ضرور کرے گا لیکن اس سے امید رکھے گا کہ جب ضرورت پڑے تو وہ اس کی مدد کرے اس نسبت سے آرسنک خود غرض دوا ہے۔ آرسنک کا میلان لینے کی جانب ہے۔
مجھے ایک آدمی یاد ہے جس کی دکان تھی۔ اس کا کاروباری دوست ہمیشہ اپنی بیوی کو ساتھ رکھتا تھا۔ اس کی بیوی صرف اس کی ہمراہی تھی اور کوئی کام نہ کرتی تھی۔ ہر وقت اس کے ساتھ وہ جہاں بھی جاتا اس کی بیوی اس کے ساتھ ہوتی۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟ مسلسل خوفزدہ زندگی کہ اس کے ساتھ کچھ ہو گیا تو اس کی مدد کون کرے گا۔
پس ہمارے پاس سنگت کی خواہش ہے۔ سنگت میں مرض کم ہو جاتا ہے لیکن حقیقتاً یہ اس انسان کی کلیت ہے جس کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ انسان جو بہت ہی منظم تھا۔ اس کے جسم کے ساتھ اچانک کچھ واقع ہوگیا اور اس نے جان لیا کہ وہ خود اسے درست نہیں کر سکتا۔ یہ بات ہے۔ آرسنک کا اضطراب جسم کے اندر شدید کرب کا باعث ہوتا ہے اور اس کرب سے آرسنک کی جانی پہچانی بے آرامی جنم لیتی ہے۔ یہ اضطراب آدھی رات کے بعد اور صبح جاگنے پر شدت اختیار کر جاتا ہے۔
آرسنک کا مریض ممکن ہے رات 12بجے سے 2بجے کے دوران خوفزدہ ہو کر جاگے۔ مریض بیان کرتا ہے کہ وہ نیند کے دوران بھی مضطرب ہوتا ہے۔ یہ بے آرامی محض جسمانی عمل نہیں ہے۔ یہ بنیادی طور پر دماغی بے آرامی ہے۔ یہ گہری پریشانی کی شدت کو کم کرنے کی کوشش ہے۔
یہ بے آرامی آرسنک کے مریض کو چہل قدمی کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ایک کرسی سے دوسری کرسی پر، ایک بستر سے دوسرے بستر پر لیکن اس حرکت اور جگہ بدلنے سے علامات میں کمی واقع نہیں ہوتی؛ نہ ہی مریض کا اضطراب کم ہوتا ہے۔
جتنی زیادہ مرض میں شدت اتنا زیادہ کرب، جتنی زیادہ بے آرامی اتنی زیادہ تھکاوٹ۔ اس طرح یہ اضطراب آسانی سے کرب میں بدل جاتا ہے۔ اس وجہ سے مریض ایک سے دوسرے فرد تک جاتا ہے۔ مسلسل مدد اور حوصلے کی بحالی کی التجا کرتا ہے۔
آرسینک کی پیتھالوجیکل ترقی کے عمل کی ابتدا میں یہ بے آرامی وقفوں وقفوں سے ظاہر ہوسکتی ہے۔ کبھی کم ہوجاتی ہے کبھی بڑھ جاتی ہے۔ کئی ہفتے ایسا ہوتا رہتا ہے۔
آرسنک کی بے آرامی نیوتا دیتی ہے کہ اس کا موازنہ دوسری بے آرام ادویات سے کیا جائے۔ آرسنک کی بے آرامی، کرب اور مایوسی اکٹھی ہوتی ہے اور یہ مایوسی مریض کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے پر مجبور کرتی ہے۔ مریض کو امید ہوتی ہے کہ ایسا کرنے سے کچھ افاقہ ہو گا۔ اس بے آرامی سے مریض تھک جاتا ہے اور یہ تھکاوٹ ضعف میں بدل جاتی ہے۔
ممکن ہے بے آرامی کی ایک مخصوص نوبت ہو۔ مریض کچھ وقت کیلئے حرکت کرتا ہے اور پھر آرام لیتا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ حرکت کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ یہ بے آرامی یقیناً آدھی رات کے بعد بڑھ جاتی ہے۔
آرسنیک البم (Arsenicum Album) میں بے آرام حرکات سے کوئی افاقہ نہیں ہوتا۔ اس کو تکالیف نے مشتعل کیا ہوتا ہے۔ حقیقتاً یہ بے آرامی بڑھ کر ضعف کا باعث بن جاتی ہے۔
آرسنک کی مریضہ عورت ہوسکتی ہے جو سنِ یاس میں ہو یا مائیں ہوسکتی ہیں جن کے بچوں کی شادی ہو چکی ہو یا جلد ہونے والی ہو۔
آئیں ایک مثال لیتے ہیں۔ ایک عورت جس کی عمر 54, 53 ,52 سال ہے اس کی دونوں بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے۔ اس وقت یہ عورت سوچتی ہے کہ وہ اب اپنی فیملی کیلئے کارآمد نہیں ہے کیونکہ بچے خود مختار ہوچکے ہیں۔ یہاں سے اضطراب کی ابتدا ہوتی ہے۔ یہ اضطراب مریضہ پر چھا جاتا ہے۔ اضطراب کے یہ حملے ایکونائٹ (Aconite) یا ارجنٹم نائٹریکم (Argentum Nitricum) جیسی شدت نہیں رکھتے۔
مرکزی علامت یہ ہے کہ یہ اضطراب زیادہ تر یکساں ہوتا ہے زیادہ تر اندرونی اضطراب۔ اس لئے آرسنک کے مریض کسی کی مدد کے طلبگار ہوتے ہیں جو ہمیشہ ان کے قریب رہے۔ یہ آرسنک کے فارقہ نکات ہیں جو اسے دوسری ادویات سے الگ کرتے ہیں۔