ہومیوپیتھی طریقۂ علاج، پبلک میں (بظاہر) اس حوالے سے بدنام بھی ہے کہ اس علاج میں وقت بہت لگتا ہے، اور ہومیوپیتھس، برسوں مریض کو دوڑاتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر حقیقت پر غور کیا جائے تو ایسا نہیں ہے۔ دراصل پبلک میں ایلوپیتھی کے حوالے سے غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایلوپیتھک علاج میں تین، پانچ یا دس دن کا کورس ہوتا ہے اور مریض ٹھیک ہو جاتا ہے۔ لیکن ایسا کہتے ہوئے غالباً وہ بھول جاتے ہیں کہ درد سے نجات پانا یا وقتی افاقہ اَور چیز ہے لیکن مکمل شفایابی اَور شے ہے۔ جب مَیں بلڈ پریشر کے مریض سے پوچھتا ہوں کہ آپ جو دوا بلڈپریشر کنٹرول کرنے کے لئے کھا رہے ہو، ڈاکٹر نے آپ کو کیا بولا ہے؟ آپ نے کتنا عرصہ کھانی ہے تو اس کا جواب ہوتا ہے، یہ تو عمر بھر کا معاملہ ہے۔
جب مَیں جوڑوں کے درد کے مریض سے پوچھتا ہوں کہ جو دوائیں ڈاکٹر نے آپ کو دی ہیں، کتنے عرصہ کے لئے ہیں تو اس کا جواب ہوتا ہے، یہ تو پتا نہیں لیکن ڈاکٹر نے بتایا جب دوا ختم ہو تو اَور لینے آ جایا کرو۔ درد زیادہ ہو تو انجیکشن لگوا لیا کرو۔
ڈیپریشن کا مریض سکون آور گولیاں کھا کھا کر پتا نہیں مطمئن رہتا ہے یا دنیا و مافیہا سے بے خبر؟ چوبیس گھنٹے نشے میں دُھت۔
اور جب میں شوگر کے مریض کا انٹرویو لیتا ہوں تو اس کے جواب میں سننے کو ملتا ہے کہ جب تک زندگی تب تک دوا۔
کچھ ایسی ہی سٹوریاں چنبل، السر، عصبی سر درد ، UTI اور ٹانسلز میں مبتلا مریضوں سے سننے کو ملتی ہیں۔ اس پر طُرہ یہ کہ دواؤں کے بد اثرات الگ ہیں، وہ ایک الگ کہانی ہے۔
اور جب میں انہیں کہتا ہوں کہ اگر آپ زندگی بھر کے لئے ایلوپیتھک دوائیں کھانے پر سمجھوتہ کر لیتے ہو تو ایک مقررہ مدت کے لئے (چاہے وہ طویل ہی ہو) ہومیوپیتھک علاج قبول کیوں نہیں کر لیتے؟ مستقل مزاجی اختیار کیوں نہیں کرتے؟
بار بار اور جلدی جلدی معالج تبدیل کیوں کرتے ہو؟ تو ان کے پاس تسلی بخش جواب نہیں ہوتا۔
محترم قارئینِ کرام!
کیا آپ نہیں سمجھتے کہ مزمن مرض آ تو جاتے ہیں لیکن ان کی رخصتی صبر طلب اور مدت طلب معاملہ ہے؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ ان سے فوری جان چھڑانے کے لئے اگر آپ بے صبری کا مظاہرہ کریں گے، کریمیں لگانے، درد کش انجیکشن لگانے، غیر ضروری آپریشن کروانے یا مرض کو دبانے کے سنگین نتائج بھی آ سکتے ہیں؟ ہانیمن نے لکھا ہے، مرض سے جلد چھٹکارہ پانے کی مثال یوں ہے جیسے کوئی شخص راتوں رات امیر بننے کے چکر میں چوری کرے اور جیل چلا جائے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ غیر فطری علاج کے سبب جب مرض دبتا ہے اور درست علاج کی غیر موجودگی میں نسلوں کو منتقل ہو جاتا ہے؟
اور کیا آپ نہیں دیکھتے کہ مختلف امراض مختلف خاندانوں میں نسل در نسل چلے آتے ہیں، کیا یہ قدرت کے کسی خاص نظام کے تحت نہیں ہو رہا؟
کیا آپ نہیں جانتے کہ ہومیوپیتھک طریقہ علاج نہ صرف آپ کی ذاتی بلکہ موروثی ہسٹری کا بھی بغور مطالعہ کرتا اور علاج میں اسے بہت اہمیت دیتا ہے۔
کیا آپ نہیں جانتے کہ یہ بے نظیر طریقہ علاج آپ کے مزاج، رویے اور طرزِ زندگی میں بنیادی اور مثبت تبدیلیاں لاتا اور آپ کے روزمرہ معاملات میں توازن برقرار رکھنے میں آپ کی مدد کرتا ہے؟
میری اس بات کی کچھ مریضوں کو سمجھ آ جاتی ہے اور جنہیں نہیں آتی، انہیں کچھ عرصہ بعد آ جاتی ہے اور ان میں سے کچھ ادھر اُدھر کی ٹکریں کھا کر لَوٹ آتے ہیں۔
میں نے دیکھا ہے مریض بہت جلدی ٹھیک ہونے کا خواہش مند ہوتا ہے، اگرچہ جلدی شفایاب ہونے کی خواہش رکھنے میں کوئی عیب نہیں اور ہر مریض کا قدرتی حق بھی ہے لیکن دیکھنا ہو گا کہ آیا وہ نہایت قلیل مدت میں شفا یاب ہو سکتا ہے؟
میرے پاس بانجھ پن کی مریضوں کی بیسیوں ایسی مثالیں ہیں کہ اللہ نے ان پر کرم کیا اور وہ دو یا تین مہینوں میں حمل یافتہ ہو گئیں۔ لیکن بعض کیس ایسے پھنسے کہ سال گذر گیا لیکن کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حتمی فیصلہ (اور شفایابی) اللہ کی ذات ہی کرتی ہے۔ اسی سے مدد طلب کرنی چاہیے۔
بچوں کے ٹانسلز کے علاج میں والدین کو کم از کم چھ ماہ متواتر علاج کی بات کرتا ہوں۔
میرے علم کے مطابق ہومیوپیتھی واحد طریقہ علاج ہے جس میں مریض کو کم سے کم مدت میں شفایابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے لیکن اس کم مدت کا تخمینہ مریض کی خواہش پر نہیں بلکہ اس کی بیماری کی نوعیت پر لگایا جا سکتا ہے۔
درجِ ذیل کچھ نکات ہیں شفایابی کا جن پر انحصار ہوتا ہے۔
مرض جتنا حاد اور غیر پیچیدہ، شفایابی کے امکانات اتنے روشن اور قلیل مدت (دنوں) میں علاج۔
مرض جتنا پیچیدہ اور طویل شفایابی اسی قدر طویل مدت کی متقاضی اور صبر طلب۔
مریض جتنا زیادہ جوان اور مثبت سوچ کا حامل، شفایابی کے امکانات اتنے روشن۔
مریض جتنا کمزور اور معمر، علاج اتنا مشکل اور وقت طلب۔
مرض جتنا خاندانی امراض میں مبتلا، علاج اتنا مشکل۔
سوچ جتنی منفی شفایابی اتنی دُور۔
ڈاکٹر جتنا قابل اور خدا ترس، مریض اتنا خوش قسمت۔