محترم ڈاکٹر سعید احمد صاحب، پرنسپل، میڈم لیلیٰ ثمرین، میرے دوست محترم ڈاکٹر سرور صاحب اور آج کے ہومیوپیتھی سیمینار کی انتظامیہ
معزز ڈاکٹر حضرات اور سٹوڈنٹس
میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ مجھے دوسری بار اس پلیٹ فارم پر آپ کے سامنے پیش ہونے کا موقع ملا ہے۔ ہومیوپیتھی Cause کو آگے بڑھانے اور ہومیوپیتھک پروفیشن کو اس کا گم گشتہ وقار واپس لانے پر IUB کا کردار قابلِ تحسین ہے اور اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ہومیوپیتھی میں پڑھے لکھے طبقے کی شدید ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس نوبل ادارے سے تعلیم یافتہ بچے جب مکمل خود اعتمادی سے عملی دنیا میں قدم رکھیں گے تو نہ صرف کامیابی سے ہمکنار ہوں گے بلکہ ہومیوپیتھی اور اس ادارے کا بھی نام روشن کریں گے۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں، یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ اگر آپ میرے لیکچرزاور آرٹیکلز پر غور کریں تو میرا فوکس یہی نوجوان نسل ہوتی ہے۔
میں آپ سے عرض کروں کہ گزشتہ بیس سالوں سے میرا، پاکستان کے مختلف شہروں قصبوں اور کالجوں میں لیکچرز ڈیلیور کرنے اور سیمینارز ورکشاپس اٹینڈ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران لاتعداد کلینکس وزٹ کرنے اور ہومیوپیتھس سے تبادلہ خیالات کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں نے کامیاب ہومیوپیتھس بھی دیکھے اور ناکام بھی۔ ایسے بھی جن کی
daily income five digits
اور Monthly income six digits میں ہے۔ اور ایسے بھی جن کا دکان کا کرایہ مشکل سے نکلتا ہے۔ میں نے فیس بک پر تفصیلی ان باتوں کا ذکر کیا ہے۔ آپ میں جو ساتھی میرے ساتھ add ہیں بخوبی جانتے ہیں۔ مقصد بات کرنے کا یہ ہے کہ میں آپ کو ان راستوں کی نشان دہی کروں جو میں سمجھا ہوں، جو کامیابی و کامرانی کی طرف جاتے ہیں۔ وہ راستے جن پر ہم سے پہلے آنے والے چلے، جنہوں نے اصول و ضوابط کی پابندی کی، جنہوں نے نیک نامی کمائی، جنہوں نے ہومیوپیتھی تاریخ میں اپنا نام زندہ رکھا اور آج ہم عزت و احترام سے ان کا ذکر کرتے ہیں۔
ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے بچوں کو جب وہ ڈگری ڈپلومہ لے کر عملی دنیا میں آتے ہیں تو انہیں سب سے بڑی مشکل یہ پیش آتی ہے کہ مارکیٹ میں کوئی انہیں گائیڈ کرنے والا نہیں ہوتا۔ Internship کا کوئی اچھا ماحول نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب آپ اپنے کلینک پر بیٹھیں تو مکمل خود اعتمادی سے پریکٹس کریں۔
میرے پاس ایک سال کے لیے بارہ comprehensive lectures کا پروگرام ہے، اگر IUB Management agree کرے تو وہ میں Monthly basis پر آپ سے Share کر سکتا ہوں۔
ان میں پولی کریسٹ ریمیڈیز ہیں، فلاسفی ہے ،
understanding of Miasms ہے
Understanding of Rubrics ہے
understanding & utilisation of computer software Radar ہے۔ اور سب سے بڑھ
Case taking technics اور Live case taking ہیں۔
ہم آپ کے سامنے لائیو کیس ٹیکنگ کریں گے تاکہ آپ تھیوری کو پریکٹیکل میں ڈھلتا دیکھ سکیں۔ میں نے سیکڑوں کی تعداد میں سیمینارز اٹینڈ کیے لیکن لائیو کیس ٹیکنگ سوائے جارج وتھالکس کے اَور کہیں دیکھنے کو نہیں ملی۔
میں چاہتا ہوں کہ جب آپ اپنے کلینک پر بیٹھیں تو مکمل خود اعتمادی سے پریکٹس کریں۔
کیونکہ دماغ کے ساتھ دل کا دروازہ بھی کھلا رکھنا ضروری ہے۔ یاد رکھیے، ہومیوپیتھی جاننے، یاد کرنے یا رٹا لگانے کا نام نہیں ہے۔ اسے تو سمجھنا ہے، اس کا ادراک کرنا ہے اسے Perceive کرنا ہے۔
البرٹ آئن سٹائن نے کہا ،
.147 Any fool can know. The point is to understand.148
اس سے پہلے کہ ہم اپنے Topic کی طرف آئیں، کیا آپ جانتے ہیں کہ ہومیوپیتھک پریکٹس میں سب سے مشکل کام کون سا ہے؟
آئیے دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔
ڈاکٹر بنارس خان اعوان، جنرل سیکریٹری، سوسائٹی آف ہومیوپیتھس، پاکستان