ہومیوپیتھک کالج کی ایک تقریب سے خطاب

 

کالج کی ایک تقریب سے خطاب
آج کی تقریب جو بیک وقت کالج کی نئی اور کشادہ بلڈنگ کا افتتاح ، سالِ اول کے لئے WELCOME PARTY اور فأنل ایر کے لئے FAREWELL پارٹی پر مشتمل ہے لہذا بجا طور پر اسے 3/1 پارٹی کہا جا سکتا ہے۔
آج کا دن آپ لوگوں کے لئے بڑی خوشی کا دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جس کے لئے آپ نے چار سال انتظار کیا، محنت کی، یہ وہ دن ہے جسے دیکھنے کے لئے آپ نے کیٔ بار خواب دیکھے آج وہ دن ایک حقیقیت کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔ آج سے آپ کا شمار ڈاکٹروں میں ہو گا۔ آج کے دن کے لئے آپ نے وقت اور پیسے کی قربانی دی۔ آج آپ کو آپ کی محنت اور صبر کاصلہ مل رہا ہے اور یوں آج کے دن آپ کی زندگی کے سفر کا ایک حصہ مکمل ہوا۔ یقیناً ہم بھی اِن کی خوشی میں برابر کے شریک ہیں اور ہم اِنہیں مبارک باد پیش کرتے ہیں اور ان کی کامیابی کے لئے دعا گو ہیں۔
دراصل اِسطرح کے دن زندگی میں بہت کم آتے ہیں اور یہ ایسے دن ہوتے ہیں جو کسی بھی شخص کی زندگی کے TURNING POINTS ہوتے ہیں۔ مثلاً جس دن آپ نے سکول یا کالج میں داخلہ لیا۔ جس دن آپ نے امتحان پاس کر لیا۔ جس دن آپ کو ڈگری ملی۔ جس دن آپ کی منگی ہوئی ۔ جس دن آپ کی شادی ہوئی یا ہو گی۔ جس دن آپ نے ملازمت شروع کی۔
اس طرح آج کا دن بھی آپ کے لئے بڑا اہم ہے اور بڑے پیغامات لئے ہوئے ہے۔ آپ نے ہومیوپیتھی کے حوالے سے ایک نئی زندگی میں قدم رکھنا ہے۔ آپ کو نت نئے تجربات سے گزرنا ہے۔ ہومیوپیتھی کیا ہے ایک حیرت کدہ ہے۔ اس موقع پر مجھے سرائیکی زبان کی ایک کافی یاد آ رہی ہے، جس میں کہا گیا ہے
ُُْؑؑ ؎عشق دے دریا بہت ڈونگے تارو بہت ۔۔۔۔۔۔۔چڑھدا پارپار کوئی۔
اگر دیکھا جائے تو یہ شعر ہومیو پیتھی پر بھی بہت ِفٹ بیٹھتا ہے۔ ارضِ وطن میں سوا لاکھ کے قریب ہومیوپیتھ ہیں، لیکن پریکٹس میں کتنے ہیں؟۔ شاہد تیس لاکھ یا چالس لاکھ اور ان میں کامیاب کتنے ہیں؟ آپ خود اندازہ کر لیں۔
آپ کو خوش ہونا چائیے کہ آپ دنیا کے بہترین سسٹم آف تھراپیوٹکس سے وابستہ ہیں۔ ایسا طریقہ علاج جس میں بڑا POTENTIAL ہے۔ جوں جوں آپ اسے سمجھتے چلے جائیں گے اسی قدر اس کی DYNAMIC POWER کا آپ کو اندازہ ہوتا چلا جائے گا۔ جوناتھن شور نے کہا تھا ـ’’جب ا ﷲ کسی سے خوش ہوتا ہے تو اُسے ہومیوپیتھ بنا دیتا ہے‘‘۔
آج اس محفل میں تھرڈائیر بھی موجود ہے اور انشاء اللہ اگلے سال انہی دنوں میں ان لوگوں نے اس مقام پر ہونا ہے جس پر آج 4th year ہے اور آپ لوگ دیکھیں گے کہ زندگی کا یہ سفر اسی طرح جاری و ساری رہتا ہے۔ بہت ہم سفر ملتے ہیں اور دوبارہ نہ ملنے کے لئے بچھڑ جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بیٹری کا ۔۔ر اور ترنجن کی کڑیاں کبھی کبھی ہی ملتی ہیں۔
آپ میں سے وہ لوگ جو ہومیوپیتھک پریکٹس کرنا اور کلینک کھولنا چاہتے ہیں اس موقع پر میں ان سے اپنے کچھ تجربات اور مشاہدات SHARE کرنا چاہتا ہوں ۔ کیونکہ تجربہ ایسی چیز ہے جس سے دوسرے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جو دوسروں کے تجربے سے فائدہ اُٹھاتے ہیں یوں ان کے وقت کا نقصان نہیں ہوتا۔
یہ ایسی باتیں ہیں کہ اگر آپ نے سنجیدگی سے اس پیشہ کو اپنانا ہے تو انہیں ہمیشہ کے لئے اپنے پلے سے باندھ لیں۔ اور یہ ایسی باتیں ہیں جو بالعموم نہ پوچھی جاتی ہیں اور نہ ہی کوئی گائیڈ کرتا ہے اور نتیجہً نئے ڈاکٹر حضرات بہت جلد اس پیشے سے مایوس ہو جاتے ہیں ۔ بار بار کلینک بدلتے ہیں یا کوئی اور پیشہ اپنا لیتے ہیں۔
اﷲتعالیٰ نے قرآن میں ارشاد ہے جس کا مفہوم یوں ہے۔
’’جس نے ایک جان کو بچایا گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا‘‘
میری دلی خوایش اور دعا ہے کہ کامیابی آپ کے قدم چومے اور مریض آپ کے ہاتھوں شفایاب ہوں۔ لیکن یاد رکھیے بیماری کے خلاف یہ RACE صرف خواہشات اور تمناؤں کی بنیاد پر نہیں جیتی جا سکتی۔کیونکہ
ؔ ؔ ؎ یہ آرزو بھی بڑی بات ہے مگر ہم دم
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں
وصالِ یار یعنی اپنا TARGET ACHIEVE کرنے کے لئے اپنا HIGH AND ONLY MISSION مکمل کرنے کے لئے کچھ شرائط ہیں جن پر آپ کو پورا اُترنا ہو گا ۔
اس سلسلے میں یہ بات آپ کو ذہین نشین کرنی چائیے کہ آپ جس نوبل PROFESSION سے وابستہ ہیں یہ کوئی PART TIME جاب نہیں ہے بلکہ یہ ہمہ وقتی پیشہ ہے جسے ہمیشہ کے لئے اپنانا ہے اور اس میں کوئی ریٹائرمنٹ نہیں ہے۔ آپ لوگوں کو اسے اوڑھنا بچھونا بنانا ہو گا اس سے دوستی کرنی ہو گی ، محبت کرنی ہو گی، عشق کرنا ہو گا کیونکہ ہومیوپیتھی اپنے عاشقوں پر ہی اپنے راز افشاں کرتی ہے۔
سب سے اہم بات جو آپ کو ذہین نشین کر لینی چائیے وہ ہے”DEVOTION” ،ایثار، قربانی ، اپنے آپ کو وقف کر دینا، وقت کی قربانی، جذبات اور خواہشات کی قربانی دن رات کا مطالعہ اور دکھی انسانیت کے لئے خدمت کا جذبہ۔ پیسے کا کم سے کم لالچ اور دوسروں کی خدمت زیادہ سے زیادہ۔ اِس کے بغیر آپ کی گاڑی ٹھیک طرح نہیں چلے گی۔
جہاں تک ایثار و قربانی کا تعلق ہے کائنات کا سارا نظام ایثار پر قائم ہے یہاں کی ہر شے دوسرے کے لئے ایثار کر ہی ہے۔لہذا آپ کی بہتری اسی میں ہے کہ آپ ایثار کریں۔ ہربرئس اے رابئرٹ نے کہا تھا اور خصوصاً آپ جیسے YOUNG DOCTORS کے لئے کہا ہے۔
’’اگر آپ صرف دولت اور شہرت کے حصول اور معاشرے میں ڈاکٹر کہلانے کے لئے ہومیوپیتھی کے شعبے میں داخل ہوئے ہیں تو یقین جانئیے! ہومیوپیتھی کے پاس آپ کو دینے کے لئے کچھ نہیں ‘‘۔
اگر آپ کی یہی سوچ ہے تو آپ ہمیشہ بے سکون رہیں گے۔ بار بار کلینک بدلتے پھریں گے، کوئی پیٹھ پیچھے آپ کی تعریف نہیں کرے گا۔ کسی مریض کا ہاتھ آپ کو دعا دینے کے لئے نہیں اُٹھے گا اور شاہد آپ زادِ راہ کے لئے بہت کم سامان اکٹھا کر سکیں۔
ہومیوپیتھی کے حوالے سے دو سو سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہومیوپیتھی کے لئے ایثار اور محبت کے لا زوال واقعات ملتے ہیں۔ انہی قربانیوں کے طفیل آج ہومیوپیتھی زندہ ہے۔ آج معاشرے میں اگر ہماری پہچان ہے تو انہی قربانیوں کے سبب ہے۔
ہانیمن کا ایثارکسی سے کم نہیں تھا۔ یہ شخص جو اپنے وقت کا بہترین ایلوپیتھ تھا پھر ہومیوپیتھ بنا ، جو نو زبانوں کا ماہر تھا، فلسفی تھا کیمیادان تھا۔ جس نے کہا ’’اگر میں چاہتا تو اپنے گھر کی چار دیواری چاندی سے بھر دیتا، لیکن میں نے ایسے نہیں کیا۔ بلکہ قدرت نے مجھے ایک ایسا راز عطا کیا جو میں نے اِس کے بندوں تک پہنچایا۔ اب آپ اس راز کے امین ہیں‘‘۔
ہیرنگ کو دیکھیں ہومیوپیتھی کے خلاف کتاب لکھنے بیٹھا تو خود ہومیوپیتھ بن گیا۔ جنگلوں کی خاک چھنتا رہا ، کس کے لئے ،ہومیوپیتھی کے لئے ۔ کینٹ نے جب بھی اُس کا ذکر کیا ہے نہایت عزت و احترام سے کیا ہے۔ کینٹ نے لکھا ہے کہ اگر ہیرنگ نے ہمیں سوائے لیکس کے اور کچھ بھی نہ دیا ہوتا تو اس کا یہی احسان کچھ کم نہ تھا۔
دس جلدوں پر مشتمل GUIDING SYMPTOMS لکھی اور کتاب مکمل ہونے سے پہلے اس کا آخری وقت قریب آ گیا۔ مرنے سے پہلے اپنے شاگردوں کو بلایا اور وصیت کی ’’دیکھنا میرے بعد اس کام کو احسن طریقے سے مکمل کرنا‘‘۔ ایسے ہوتے ہیں عاشقانِ ہومیوپیتھی۔
کینٹ کو دیکھیںایسی ریپرٹری بنا کر دے گیا کہ آج تک کوئی ریپرٹری کینٹ ریپرٹری کے حوالے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ ریپرٹری مرتب کرتے کرتے بینائی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
ایثار و قربانی کی مثالیں بے شمار ہیں ۔
ڈاکٹر دیوان جے چندر کی مثال لیں۔ یہ شخص رحیم یار خان میں پیدا ہوا ، لاہور میں اس نے پریکٹس شروع کی اور PARTITION کے بعد یہ لوگ مشرقی پنجاب منتقل ہو گئے ۔ کہتے ہیں اِس شخص کا معمول تھا کہ رات دو بجے سٹڈی کے لئے اُٹھ جاتا اور پھر نہیں سوتا تھا۔ جب یہ بسترِ مرگ پر تھا تو لوگ عیادت کے لئے آتے تو یہ ہومیوپیتھی پر لیکچر شروع کر دیتا اور یوں یہ شخص اِس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ آجکل اِس کا بیٹا دیوان ہریش چند ر، نامی گرامی ہومیوپیتھ ہے۔
مثالیں تو بہت ہیں۔
برطانیہ کا ڈاکٹر جے ایچ کلارک جس نے تین جلدوں پر مشتمل DICTIONARY OF MARIA MEDICA لکھی روزانہ اپنے کام سے فارغ ہو کر رات دس بجے سے دو بجے تک بیٹھ کر اس کتاب کو مکمل کیا۔ جے ایچ کلارک نے ایک بار کہا تھاـ’’اگر کوئی مجھ سے پوچھے تمھارا مذہب کیا ہے؟ میں کہوں گا ہومیوپیتھی، تمھاری سیاست؟میں کہوں گا ہومیوپیتھی ، تمھارا وطن؟ میں کہوں گا ہومیوپیتھی۔ ہومیوپیتھی میرے لیے پہلی دوسری اور تیسری ترجیح ہے باقی سب کچھ ثانوی ہے۔ (حوالہِ کتاب: (HOM.DRUG PARSONOLITIES
ڈاکٹر BILL GRAY اس وقت امریکہ کی ریاست کیلفورنیا میں پریکٹس کرتا ہے اور اپنے وقت کا معروف کلاسکیل ہومیوپیتھ ہے۔ اِسے پتا چلا کہ یونان میں جارج وتھالکس کی بہت شہرت ہے اس سے ملنا چاہیے۔ بل گرے لکھتا ہے ’’جب میں یونان کے جزیرے ALONISOS میں جارج وتھالکس کو ملا اور خواہش ظاہر کی کہ میں ہومیوپیتھی سیکھنا چاہتا ہوں ۔ جارج نے جواب دیا کہ یہاں ہم یونانی زبان بولتے ہیں تمھیں یہ زبان نہیں آتی لہذا معذرت۔‘‘بل گرے نے پوچھا اگر میں یونانی زبان سیکھ لوں تو پھر؟’’پھر دیکھا جائے گا‘‘ جارج نے جواب دیا۔
بل گرے واپس امریکہ لوٹا۔ چار سال تک یونانی زبان تک سیکھتا رہا اور پھر جارج کے پاس پہنچ گیا اور ساری داستان بیان کی اور پھر اس شخص نے جارج وتھالکس سے ہومیوپیتھی سیکھی۔ آج سارے یورپ اور امریکہ میں اس کے سیمنارز ہوتے ہیں۔ا ﷲ کسی محنت کرنے والے کی محنت ضائع نہیں کرتا؛ مرد ہو چاہے عورت۔
مثالیں تو بہت ہیںلیکن اس کے لئے طلبِ صادق کا ہونا بہت ضروری ہے۔ بل گرے نے کہا ہے کہ’’ اہمیت اس بات کی نہیں کہ آپ میٹریا میڈیکا کا کتنا علم رکھتے ہیں۔ بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ اسے APPLY کیسے کرتے ہیں‘‘۔
میرا آ پ کو مشورہ ہے کہ آپ روز مرہ مطالعہ کو اپنا معمول بنا لیں۔ میٹریا میڈیکا ، ریپرٹری اور مریضوں کو پڑھنا اور سمجھنا سیکھیں۔ ہومیوپیتھی میں تین چیزوں کا علم بہت ضروری ہے؛ مرض، مریض اور دوا کا علم۔جو کچھ آپ نے کالج میں پڑھا ہے یہ نشانِ راہ ہے منزل نہیں ہے۔ کامیاب پریکٹس کے لئے اس کی اہمیت آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ابھی تو آپ نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہے۔
فوری طور پر اپنا آزاد، الگ اور INDEPENDENT کلینک کھولنے کی بجائے کسی تجربہ کار ڈاکٹر کے زیرِ سایہ سال دو سال پریکٹس کریں یوں آپ کے لئے آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ کیونکہ صرف کتابوں کی مدد سے علم حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہومیوپیتھی کو بطور PROFESSION اپنانے پر آپ کو کسی قسم کا COMPLEX کوئی احساسِ کمتری نہیں ہونا چائیے۔ آپ ایسا کبھی نہ سوچیں کہ شاہد آپ کسی دوسرے شعبہ والوں سے کم تر ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر ہم لوگوں کو کبھی اُن کے ہاں جانا پڑتا ہے تو وہ بھی ہمارے ہاں آتے ہیں۔ دراصل سارے سسٹم آف تھیرا پیوٹکس نے مل کر یہ بارِ صحت اُٹھانا ہے۔ ہر ایک کی اپنی اپنی افادیت اور اپنی اپنی LIMITATIONS ہیں۔ آپ کو خوش ہونا چائیے کہ آپ جس سسٹم سے وابستہ ہیںاس میں بڑا POTENTIAL ہے، عزت ہے، وقار ہے اور پیسہ بھی ہے۔ میں ایسے ہومیوپیتھس کو ذاتی طور جانتا ہوں جن کی ایک دن کی آمدنی گریڈ 17 کے افسر کی ایک ماہ کی آمدنی سے زیادہ ہے۔
یوں تو میٹریا میڈیکا میں تین ہزار سے زاہد دوائیں ہیںلیکن یقین کیجیئے اگر آپ پچاس مزاجی دوائوں کو صحیح معنوں میں سمجھ لیں تو 80%-90% امراض کا علاج کر سکتے ہیں۔لیکن ثابت قدمی سے، مستقل مزاجی سے، محنت سے، دیانتداری سے، خوداعتمادی سے۔ تیزی سے نہیں، شار ٹ کٹ سے نہیں مکسوپیتھی سے نہیں، ایلوپیتھک انداز سے نہیں۔ کہتے ہیں کہ کسی دوسرے کا کام اچھے طریقے سے کرنے سے بہتر ہے کہ اپنا کام ماٹھے طریقے سے کر لیا جائے۔
میری نظر میں وہ ہومیوپیتھ جو کمزور ہے ماٹھا ہے لیکن نیک نیتی سے ہومیوپیتھی کی پرکیٹس کر رہاہے اس ہومیوپیتھ سے ہزار درجے بہتر ہے جو خود کو ہومیوپیتھ کہلاتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہومیوپیتھ طریقہ علاج دنیا میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے اور اس کی مخالفت بھی بڑھ گئی ہے۔ ایک بار فرانس کی میڈیکل ایسوسی ایشن نے اپنے وقت کے وزیرِ صحت کو ہومیوپیتھی پر پابندی لگانے کی سفارش کی؛ وزیرِ موصوف نے جواب دیا،
’’ہومیوپیتھی اگر دیو مالائی قسم کی شے ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تو یہ خود بخود اپنی موت آپ مر جائے گی، اس پر پابندی کی ضرورت نہیں اور اگر اس کے برعکس اس میں اگر POTENTIAL اور حقیقت ہے تو ہزار پابندیوں کے باوجود اسے پھیلنے سے نہیں روکا جا سکتا ۔‘‘
کہتے ہیں TRUTH SHALL PREVAIL
ہم دیکھتے ہیں کہ ہومیوپیتھی پھیل رہی ہے۔ ارتقائی منازل طے کر رہی ہے۔ اپنا آپ منوا رہی ہے اور قرآن کہتا ہے
’’وہ شے جو نفع دیتی ہے قائم رہتی ہے۔‘‘
میرا آپ کو یہ مشورہ ہے کہ اپنی پریکٹس کے شروع سالوں میں مشکل امراض، مثلاً ہیپاٹائٹس اور CHRONIC RENAL FAILURE جیسے کیسوں میں ہاتھ نہ ڈالیں۔ آپ کینفیوز ہو جائیں گے اور ممکن ہے کہ آپ پر نالائق ڈاکٹر کا لیبل لگ جائے ۔ ویسے بھی دیانتداری کا تقاضہ ہے کہ ڈاکٹر چاہے نیا ہو یا پرانا اگر کیس سمجھ سے بالاتر ہو تو نہیں لینا چاہے کیونکہ یہ زندگی کا معاملہ ہے۔
دواؤں اور پوٹیسی کے انتخاب میں بھی بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ درمیانی پوٹینسی مثلاً 30 یا کبھی کبھار 200 تک مناسب ہے۔ اس طرح بعض دوائیں اپنی ذات میں بڑی خطراک ہوتی ہیں مثلاً سلیشیا، فاسفورس، لیکس وغیرہ۔ ان سے بچ کر رہنا چاہے۔ کچھ دوائیں انتہائی LOW اور کچھ انتہائی اونچی پوٹنسی میں آپ کے لئے مسلئہ کھڑا کر سکتی ہئں۔ کسی بھی دوا کو بے ضرر نہ سمجھیں کوئی دوا بے ضرر نہیں ہے۔
اسی طرح مدر ٹینکچرز کا ہومیوپیتھک پریکٹس میں خاص کردار نہیں ہے ۔ مدرٹینکچرز سے آپ کسی مریض کو وقتی افاقہ دے سکتے ہیں یا لاعلاج مریضوں کے دن بہتر گزارے جا سکتے ہیں۔ ان سے کسی مرض کو جڑ سے اکھاڑا نہیں جا سکتا۔ مکمل شفا یابی نا ممکن ہے اور یہی کچھ COMBINATIONS کے بارے میں کہا جا سکتا ہے۔میرے پاس درجنوں ایسے خطوط آتے ہیںجن میں یہ پوچھا جاتا ہے کہ ہیپاٹاٹئس کا کیا علاج ہے یا RA+ve کو RA-ve کیسے کرنا ہے۔
اب میں انہیں کیا بتاؤں کہ کیس ٹیکنگ تو آپ نے سیکھی نہیں۔ فلاسفی کو آپ نے سمجھا نہیں، میٹریا میڈیکا کا مطالعہ آپ نے کیا نہیں تو گاڑی کیسے چلے گی۔ فلاسفی سمجھے بغیر ہومیوپیتھک پریکٹس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص اندھیری رات میں بغیر ہیڈلائٹس کے گاڑی چلانے کی کوشش کرئے۔
ایسا کہہ کر میں آپ کی حوصلہ شکنی نہیں کر رہا بلکہ ایک احساس دلا رہا ہوں کہ ہومیوپیتھی کو ابھی سے پھولوں کی سیج نہ سمجھ لیا جائے۔ کامیابی کے زینے پر اوپر چڑھنے کے لئے آپ کو مسلسل محنت کرنا ہو گی۔بدقسمتی سے بعض ڈاکٹر یہ چاہتے ہیں کہ انہیں دو منٹ میں ہومیوپیتھی آ جائے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ تو زندگی بھر کا معاملہ ہے بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ ہومیوپیتھی کو سمجھنے کے لئے بڑی سوجھ بوجھ ، فہم و ادراک اور غور و فکر کی ضرورت ہے۔ یہ کمپیوٹر تو نہیں کہ اِدھر ایک بٹن دبایا اُدھر سب کچھ سکرین پر ظاہر ہو گیا۔
ہومیوپیتھی ایک آرٹ ہے۔ زندگی ختم ہو جاتی ہے لیکن آرٹ ختم نہیں ہوتا۔ ایک اور بات اور یہ بات جارج وتھالکس نے کہی ہے۔ جارج وتھالکس کو موجودہ زمانے کا کینٹ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ جارج نے کہا ہے’’ اگر آپ کام کو لیبر سمجھ کر کر رہے ہیں تو تھک جائیں گے۔ اور یوں آپ زیادہ کیس نہیں دیکھ پائیں گے۔ لہذا آپ اپنے کام کو لیبر کی بجائے عشق سمجھ کر کریں۔ آپ اس کے ساتھ FRIENDSHIP قائم کرلیں۔‘‘ وہ لوگ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں جن کی HOBBY ان کا ذریعہ معاش ہوتا ہے۔
کبھی بھی PREJUDICE نہ ہوں۔ کسی بھی سسٹم آف تھراپیوٹکس کو بُرا نہ کہیں۔ دوسروں کی برائیاں بیان کرنے سے بہتر ہے کہ اپنی خامیاں دور کی جائیں۔ بجائے اس کے کہ ہم اس بات پر پریشان ہوں کہ فلاں ڈاکٹر نمبر دو پریکٹس کرتا ہے اور فلاں ڈاکٹر نمبر دو یا نمبر دس دوائیں استعمال کرتا ہے۔ ہمیں پریشانی اس بات پر ہونی چاہے کہ ہمیں ہومیوپیتھی کا تسلی بخش علم حاصل نہیں ہے۔ ہمارا مطالعہ محدود ہے۔ میٹریا میڈیکا پر ہمیں عبور حاصل نہیں ہے۔ فلاسفی میں ہم کمزور ہیں۔ کیس ٹیکنگ اور انتخابِ دوا میں ہم اکثر غلطی کر جاتے ہیں۔
اپنے علم کو تراشنے کے ساتھ آگے بڑھاتے جائیں۔ ایک ہی جگہ مطمین ہو کر نہ بیٹھ جائیں۔ سنیر ہومیوپیتھس کی توجہ حاصل کریں مختلف ملکی اور غیر ملکی میگزینز کا مطالعہ کریں۔ سیمنیارز اور ورکشاپز میں شرکت کریں۔
اپنی انگلیش کو مزید IMPROVE کریں یہ بہت ضروری ہے ، کیونکہ کار آمد لٹریچر انگلیش میں ہے اردو زبان میں کسی ایک آدھ کو چھوڑ کر ۔۔۔۔ نے تیر تکے مارے ہیں۔ اپنے علم میں اضافہ کے لئے لازم ہے کہ ذاتی اسٹیڈی کے علاوہ گروپ اسٹیڈی بھی کریں ۔ ہومیوپیتھک برادری سے رابطے میں رہیں۔ کالج میں اپنے سنیرز سے رابطہ رکھیں۔افلاطون نے کہا ہے کہ ’’ علم کی مثال اس چراغ کی طرح ہے جس سے ہزاروں چراغ جال اٹھتے ہیںلیکن اس کی روشنی میں کچھ فرق نہیں پڑتا ،کوئی کمی نہیں آتی‘‘۔ گزشتہ تین سال سے میرے کلینک میں ہر منگل کو ہومیوپیتھک نشست ہوتی ہے۔ جس میں ہم لوگ مل بیٹھ کر سیکھنے اور سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں اگر کسی کے کام آسکوں تو مجھے خوشی ہو گی۔ آجکل انٹرنیٹ کا دور ہے۔ انٹرنیٹ کیا ہے معلومات کا اتوار بازار ہے۔ آپ میں سے جو ساتھی پریکٹس کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ان کے پاس P.C ضرور ہونا چاہیے۔ کمپیوٹر ساؤفٹ ویر دوا کا انتخاب اور مطالعہ میں آپ کی بہت مدد کرتا ہیں۔ یوں سمجھیں کہ آپ نے کلینک میں پچاس ملازم رکھے ہوئے ہیں۔
یہ کہنا کہ کمپیوٹر کے بغیر بھی کچھ لوگ اچھی پریکٹس کر لیتے ہیں منطقی طور پر تو شاید آپ کا جواب درست ہو لیکن عملی طور پر اس بات میں کوئی وزن نہیں۔ کمپیوٹر تو ایک سہولت ہے، اصل کام تو اگرچہ ہومیوپیتھ ہی کو کرنا ہے لیکن ضرورت سے فائدہ نہ اُٹھانا دانش مندی نہیں ہے۔ انسانی ذہن اس قابل نہیں کہ وہ ایک دوا کی ہزاروں علامات ہر وقت یاد رکھ سکے اور بوقتِ ضرورت سامنے لے آئے جبکہ دوائیں بھی ہزاروں کی تعداد میں ہوں۔
کلینک میں بیٹھنے کے لئے آپ نے جو تیاری کرنی ہے اس کے دو پہلو ہیں؛ خارجی اور داخلی۔
خارجی پہلو تو یہ ہے آپ دکان کرائے پر لیں۔ اسے سیٹ کریں اسے خوب ڈیکوریٹ کریں ، دوائیں سجائیں، بورڈ لگائیں ، اچھا سا فرنیچر لگائیں اورخوب سوٹڈ بوٹڈ ہو کر بیٹھ جائیں اور ایک ریسپنشٹ بٹھا دیں۔ آپ کا کلینک صاف ستھرا ہونا چائیے۔ وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ آجکل کے زمانے کے حساب سے ٹیبل پر ایک کمپیوٹر بھی سجا لیں۔بات کہنی تا اچھی نہیں لگتی لیکن یہ حقیقت ہے کہ نائی کی دکان ہمارے اکثر کلینکس سے بہتر حالت میں ہوتی ہے، زیادہ صاف ستھری، زیادہ سجی سجائیWELL DECORATED ۔ مریض جب آتا ہے تو آپ کے کلینک کی OUT LOOK دیکھتا ہے۔
اس سارے میک اپ کے نتیجے میں مریضوں پر آپ کا رعب بیٹھ سکتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ آپ کو بڑا لائق اور قابل ڈاکٹر سمجھیں۔
لیکن اس کا ایک داخلی پہلو بھی ہے۔ جانتے ہیں وہ کیا ہے؟ داخلی پہلو کا تعلق آپکی اپنی ذات سے ہے، آپ کی اسٹیڈی سے ہے، آپ کے جذبے، آپکی نیت پر اور آپ کے ضمیر سے ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ صحت اور بیماری کے حوالے سے روزمرہ چیلنج قبول کرنے کیا آپ میں کتنی صلاحیت ہے اور آپ اسے خوب جانتے ہیں ہر کوئی اپنے اندر کے حالات خوب جانتا ہے۔ آپ نے یہ دیکھنا ہے کیا آپ ہر اس مریض کو جو چاروں طرف سے مایوس ہو کر آیااور آپ کی ذات سے امید وابستہ کرتا ہے اس کی بیماری کی صحیح تشخیص کر کے آپ اسے درست دوا دے سکتے ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ بقول کینٹ ’’آپ کی دواؤں سے مریض اور قبر کے درمیان فاصلہ کم ہو رہا ہو اور آپ کو اس کی خبر بھی نہ ہو‘‘۔
کیس ٹیکنگ کے دوران دماغ اور کان کی کھڑکیاں کھول کر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیس ٹیکنگ کے شروع کے ایک دو منٹ مریض کو خوب اچھی طرح جی بھر کر دیکھنے کی عادت کو اپنا لیں۔ اور OBJECTIVE SYMPTOMS نوٹ کرنے کی کوشش کریں۔ مریض جو کچھ کہے اس پر فوراً یقین مت کریں ، اس سے گھما پھرا کر سوال کریں جیسے ایک وکیل کرتا ہے۔ جیسے ایک سراغ رساں کرتا ہے۔ مجھے یہاں ایک جاسوسی کہانی کا کردار یاد آرہا ہے، وہ کسی مشن پر جاتا ہے اور بیان کرتا ہے۔۔۔ میں سانپ کی طرح رینگتا، کتے کی طرح سونگھتا اور عقاب کی طرح دیکھتا ہوا آگے بڑھا۔۔۔
مریض اکثر آپ سے کھانے پینے کے بارے میں پرہیز کے بارے میں سوال پوچھتا ہے ۔ اول تو آپ کو ایسی باتوں کا ضرور علم ہونا چاہیے تاکہ آپ اس کی درست رہنمائی کر سکیں۔ تاہم اسے جو بھی مشورہ دیں پورے اعتماد سے دیں۔ ڈھلمل یقین باتیں مریض کو آپ سے مایوس اور بدضن کر سکتی ہیں۔ مثلاً اگر مریض کو کہہ دیا گیا ہے کہ اس نے آلو نہیں کھانے تو نہیں کھانے۔ اب اگر مریض تکرار کرتا ہے کہ اسے آلو بہت پسند ہیں اور تھوڑے بہت کھانے کی اجازت دے دی جائے اور آپ کہتے ہیں کہ اچھا تھوڑے بہت کھا لو تو یہ طریقہ کار درست نہیں ہے۔
میں ایک بار ایک کلینک میں داخل ہوا تو وہاں پر پہلے سے موجود ایک مریض ڈاکٹر صاحب سے پوچھ رہا تھا کہ اگلی بار وہ والدہ صاحبہ کو ساتھ لائیں یا آپ ویسے ہی دوا دے دئیں گے؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب میں فرمایا ’’ہاں اگر لے آئیں تو بہتر ہے‘‘ مریض نے کہا کہ ان کو لانا کافی مشکل ہے ڈاکٹر صاحب نے کہا ،’’چلیں خود ہی دوا لے جانا۔‘‘
اب آپ خود غور کریںاس معاملے میں کوئی اتھارٹی نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی بات پر STAND نہیں لے رہے۔ اس طرح کا رویہ قابلِ تعریف نہیں ہے۔ ایسا رویہ آپ کی شخصیت یا آپ کی ذات پر اعتماد میں اضافہ نہیں کرتا۔
دراصل کلینک میں نہ صرف ڈاکٹر مریض کو چیک کرتا ہے بلکہ مریض بھی ڈاکٹر کو چیک کر رہا ہوتا ہے۔ ایک ڈاکٹر صاحب تھے اُنھوں نے کلینک کھولا شروع دنوں میں کافی مریض آئے پھر مریضوں کی تعداد کم ہونا شروع ہو گئی۔ڈاکٹر صاحب پریشان ہو گئے۔ سائیکارٹسٹ کو بلایا گیا۔ سائیکارٹسٹ نے چند روز کلینک میں بیٹھ کر حالات کا جائزہ لیا اور ڈاکٹر کو تجویز دی کہ آپ جو کسی شعر کا ایک مصرعہ گنگناتے رہتے ہیں یہ نہ کیا کریں۔ ڈاکٹر صاحب ہر وقت یہ مصرعہ پڑھتے رہتے تھے۔
؎ دو گز کفن کا کپڑا تیرا لباس ہو گا
ڈاکٹر کو کبھی PASSIMESTIC نہیں ہونا چائیے۔ ڈاکٹر کو کبھی مایوس نہیں ہونا چائیے، چاہے موت سامنے کھڑی واضح اشارے دے رہی ہو تب بھی مایوس نہیں ہونا چائیے، کبھی SURRENDER نہیں کرنا چائیے۔
دورانِ پریکٹس آپ کو ایک اور تجربہ بھی ہو گا۔ بعض مریض کئی کلینکس اور ڈاکٹروں سے ہو کر آپ کے پاس آتے ہیں اور آتے ہی اُن ڈاکٹروں کی غیبت اور برائیاں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔آپ نہ صرف یہ کہ ایسی باتوں میں دلچپسی نہ لئیں بلکہ ان کی حوصلہ شکنی کریں اور کبھی کسی ڈاکٹر پر تنقید نہ کریں۔ بلکہ آپ یوں کہہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔ وہ ڈاکٹر صاحب تو بہت اچھے ہیں ان کی بڑی تعریف سنی ہے۔ پتہ نہیں یہ سب کیسے ہو گیا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایسے موضوعات کو طول نہ دیں۔
ممکن ہے کہ جب آپ کسی ڈاکٹر پر تنقید کر رہے ہوں تو اسی لمحے کسی کلینک پر آپ کی ذات تنقید کی زد میں ہو۔ قدرت آپ کی ہر بات آپ کو لوٹا دیتی ہے۔
میری دعا یہ کہ اﷲ آپ کو آپکے مقصد میں کامیاب کرئے۔ آج کے دن آپ کو اپنے دل سے یہ عہد کرنا ہو گا کہ اپنے آپ کو سچا ہومیوپیتھ بنائیں گے۔ ایسا ہومیوپیتھ جس کا دکھی اور بیمار انسانیت کو جس کا انتظار ہے۔آپ نے ایک ایسا ہومیوپیتھ بننا ہے جو اداس اور دکھی خاندان کے ایک فرد کو اُس کی گم شدہ صحت لوٹا کر سارے خاندان میں خوشیاں بکھیر سکے۔ جو زندگی اور موت کی ازلی اور ابدی جنگ میں زندگی کے شانہ بشانہ لڑ سکے اور ہمت نہیں ہارے۔
اور ہو سکتا ہے کہ وہ ہومیوپیتھ آپ ہی ہوں۔
اس کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
ڈاکٹر بنارس خان اعوان، واہ کینٹ

0 0 votes
Article Rating
kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter