یہ دوا ماضی کی نسبت موجودہ زمانے میں زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ دوا موجودہ زمانے کے نفسیاتی مسائل کا زیادہ احاطہ کرتی ہے۔ اس کا مریض نفسیاتی طور پر کمزور قوت ارادی کا مالک ہوتا ہے۔ اس دوا کے مریض بچپن ہی سے دوسروں کے رعب تلے آ جاتے ہیں اور دوسروں کے اشاروں پر چلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ دوسروں پر انحصار کرنے کی اس عادت کی بناء پر یہ لوگ نہ تو کسی نئے کام میں ہاتھ ڈالنے کی جرات کرتے ہیں اورنہ ہی کسی ذمہ داری کو قبول کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔ اپنی اسی خامی کی بناء پر یہ لوگ زندگی میں پیش آنے والے حوادث کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ بلکہ یہ لوگ جو انہیں ایسے معاملات میں سہارا بنتے ہیں انکے ممنوں اوراحسان مند ہوتے ہین۔ ایسے لوگ شادی سے پہلے اپنے ماں پاب اور شادی کے بعد اپنے خاوند یا بیوی سے دب کر رہتے ہیں۔
کمزور قوت ارادی کا یہ شخص زندگی کے ہر موڑ پر یہ سوال پوچھتا ہے میں کیا کروں؟ایسے مریض جب ان پر دوا اثر کرتی ہے تو انکے اندر اچھی خاصی قوت ارادی اور مذاحمت نظر آتی ہے۔
یہ بات نہایت تعجب خیز ہے کہ یہ لوگ اپنے والدین ، بیویوں، ٹیچروں، سینئر استادوں سے بغیر کسی غصہ یا احتجاج کے بے جا اثر قبول کر لیتے ہیں۔اس معاملے میں یہ لوگ سٹافی سگیریا اور برائٹاکارب سے ملتے جلتے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ایسے مریضوں کو دیکھ کر بے اختیار کہہ اٹھتا ہے’’ کیا عجب شخص ہے ‘‘ ۔ جب انہیں ڈانٹ پڑتی ہے تو بجائے انکے چہرے پر غصہ دکھائی دینے کے انکے چہرے کے عضلات پھڑکنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ بہت جلدی حالات سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ دوسروں کی پناہ میں زندگی گزارنے والے کبھی کبھی اعصابی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔مثلاًکسی عزیز رشتہ دار کی موت دیکھ کر انہیں یہ خیال گزرتا ہے کہ کہیں وہ بھی ایسی صورت حال کا شکار نہ ہو جائیں۔یہ لوگ اچانک موت سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انکا دماغ انیمک ( خون کی کمی کا شکار ) ہوتا ہے۔ انکے ذہن میں بیماری کا تصور بیٹھ جائے تو بڑی مشکل سے نکلتا ہے۔ انہیں ہر بیماری پر کینسر کا شبہ ہو جاتاہے۔ یہاں یہ لوگ نائٹرک ایسڈ ، آرسنکم، فاسفورس اور کالی آرسنکم سے ملتے جلتے ہیں۔یہ لوگ اپنی معمولی تکلیف کو بھی بیان کرنے میں بڑی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔مثلاً کمر درد کو بھی یہ لوگ یوں بیان کریں گے ’’ ڈاکٹر صاحب آپ نہیں جانتے کہ مجھے شدید کمر درد ہے‘‘ مجھے اتنی کمر درد کیوں ہے؟ کیا اس کا علاج نہیں ہو سکتا؟ مجھے کیا کرنا ہوگا؟ آخر ڈاکٹر لوگوں کو میری تکلیف کی سمجھ کیوں نہیں آتی۔صحت کے بارے تشویش کے حوالے سے یہ فاسفورس اور آرسنکم سے ملتی جلتی ہے۔ انٹر ویو کے دوران انکے آنسو رکنے کا نا م ہی نہیں لیتے۔خاندان کے سب لو گ انکی بیماری کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں۔انکے اس رویہ کے سبب انکے پڑوسیوں کو بھی انکی بیماری کا علم رہتا ہے۔مثلاً ایک خاتون یہ کہہ سکتی ہے کہ گھر میں نہ خاوند میرا خیال رکھتا ہے نہ بچے میرا خیال رکھتے ہیں۔ بلکہ میری کسی کو پرواہ ہی نہیں ہے۔اس دوا کی یہ ایک خصوصی علامت ہے کہ مریض اپنی ہر بیماری کا تعلق کینسر سے جا جوڑتا ہے۔ایسے میریضو ں کو دیکھ کر یہ گمان گزرتا ہے کہ جیسے کہ یہ لوگ خود غرض ہوں اور انہیں اپنے علاوہ کسی کی پرواہ نہیں۔انکی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ لوگ اپنے ملنے جلنے والے لوگوں کی بیماریوں کی معلومات لیتے رہتے ہیں۔ دوران انٹر ویویہ لوگ اپنی بیماری کے علاوہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کی بیماریوں کا بھی حوالہ دیتے رہتے ہیں۔ مثلاً کوئی مریض یہ کہہ سکتا ہے۔ڈاکٹر صاحب میرا ایک دوست ہے کو کار کے حادثے میں زخمی ہو گیا ہے۔ ہمارے پڑوس میں ایک لڑکا ہے اسے معدہ کا کینسر ہے۔ میرے دوست کی ایک گرل فرینڈ ہے جسکی عمر 30 سال ہے۔ جو رحم کے کینسر کے سبب موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ڈاکٹر حیران ہوتا ہے ان لوگوں کے پاس دوسروں کی بیماریوں کا خزانہ کہاں سے آتاہے۔ تاہم دوسری دواؤں کے بر عکس اگاریکس کے مریض بیماریوں سے خوفزدہ ہونے کے باوجود دوسرے بیماروں کی مدد میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ یہ ایسے مریضوں جو نہایت خراب حالت میں ہوتے ہیں۔ یا جن کے جسم سے بدبو اٹھ رہی ہوتی ہے یا جنہیں دوسرے لوگ دیکھنا اور ان کے قریب جانا بھی پسند نہیں کرتے یہ لوگ بخوبی انکی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ یہ لوگ بخوبی ایسے مریضوں کو نہلاتے ، کپڑے تبدیل کرتے، ان کے بستروں کی چادریں تبدیل کرتے، ان کا پیشاب پاخانہ صاف کرتے اور انہیں کھانا کھلاتے ہیں۔ ایسے لوگ زندگی کا بیمہ کرانا بہت پسند کرتے ہیں۔ ان کا دماغ ہر وقت بیماریوں کے حوالے سے سوچتا رہتا ہے۔ ان کے دماغ میں موت ، چڑیلوں، قبرستان اور خوفناک جگہوں کے خیال آتے رہتے ہیں۔
دماغی امراض میں اسکا مریض باتونی ہو جاتا ہے۔ اور لگا تار ہی بولے چلا جاتا ہے۔مریض ڈاکٹر کے سوالوں پر دھیان کرنے کے اپنی ہی کہی جاتا ہے۔احمقانہ باتیں کرتا ہے کبھی گانا شروع کر دیتا ہے کبھی ہنسنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ لوگوں کو گلے لگاتا پھرتا ہے ان کے ہاتھ چامتا ہے اور بو وقوف نظر آتا ہے۔
ایسے لوگ جنہوں نے اس دوا کو خام حالت میں کھایا ہے وہ اپنا تجربہ یوں بیان کرتے ہیں۔
مریض یہ وہم کرتا ہے کہ وہ جہنم کے دروازے پر کھڑا ہے اور اگاریکس اسے اپنے کھٹنوں پر جہکنے کا حکم دیتی ہے۔ اور کہتی ہے کہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرو اور وہ ایسے کرتا ہے۔اسے یہ گمان گزرتا ہے کہ اسکی فوت شدہ بہن جنت میں ہے۔
چھوٹی چھوٹی جگہوں کو بڑی چھلانگ سے پھلانگتا ہے۔ چھوٹا سا سوراخ اسے خوفناک گڑھا دکھائی دیتا ہے۔ پانی سے بھری چمچ جھیل کی مانند دکھائی دیتی ہے۔اس دوا میں بعض اوقات ذہنی اور جسمانی علامات ادل بدل کر آتی ہیں۔ مثلاً کمر درد بڑھ جانے پر کینسر کا خوف کم ہو جانا۔ ذہنی اور جسمانی علامات کا ادل بدل کر آنا پلاٹینا اور سمی سی فیوگا میں بھی پایا جاتا ہے۔ جیسے سمی سی فیوگا میں کمر درد یا عرق انساء کا درد ڈپریشن کے ساتھ ادل بدل کر آتا ہے۔
اگاریکس کے بچے
اگاریکس بچے چلنے ، باتیں کرنے، اور سیکھنے میں سست ہوتے ہیں۔ حافظہ بھی بہت کمزور ہوتا ہے۔ ایسے بچوں میں قوت فیصلہ کی کمی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ والدین پر بہت انحصار کرتے ہیں۔استاد یا والدین اگرایسے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کریں تو ان پر رعشہ طاری ہو جاتا ہے یا یہ کانپنے لگتے ہیں۔ انکی ناک عام طور پر سرخ اور کبھی کبھار چہرے کے پٹھے پھڑکتے ہیں۔ ایسے بچے شروع شروع میں چہرے کی عجیب وغریب حرکات کرنے، برتن توڑنے، اور حماکتوں کی بناء پر والدین سے بہت ڈانٹ کھاتے ہیں۔جبکہ کچھ عرصہ بعد والدین کو احساس ہوتا ہے کہ اس میں بچے کا کوئی قصور نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک بیماری ہے۔ ایسے بچے کھیل کود میں غیر معمولی فعال ہوتے ہیں۔ الٹی سیدھی حرکتیں کرتے ہیں۔ اور والدین کیلئے درد سر بنے ہوتے ہیں۔ پڑھائی میں بھی خاص توجہ نہیں دے پاتے ایسے بچے عام طور پر بستر پر پیشاب کر دیتے ہیں۔
GENERALITIES
اعصابی نظام کی کمزوری خاص طور پر ہم بستری کے بعد بڑھ جاتی ہے۔ سردی لگنے پر جلد پر سرخ نشانات پڑ جاتے ہیں۔ خاص طور پر چہرے اور ہاتھوں پر اور خاص بات یہ ہے کہ ہاتھ پاؤں ڈھکے ہونے پر انہیں پسینہ بھی آ سکتا ہے ۔اسکی علامات صبح کے وقت بڑھتی ہیں ۔ صبح اٹھنے پر مریض سست تھکا ہوا اور اپنے آپ کو غیر مطمئن محسوس کرتا ہے۔ تاہم شام کے وقت یہ شخص اپنے آپ کو ہلکا پھلکا ترو تازہ اور خوش باش خیال کرتاہے۔ماتھے پر ٹھنڈک کی شکایت کرتا ہے۔ جبکہ ہاتھ لگانے پر ماتھا گرم محسوس ہوتا ہے۔آنکھوں کے ڈھیلے غیر ارادی طور پر پنڈولم کی طرح دائیں بائیں حرکت کرتے رہتے ہیں۔ اور خاص طور پر یہ علامت آندھی طوفان سے بیشتر آئے تو اس کی کلیدی علامت ہے ۔ خواتین میں حیض کے دوران کانوں میں جلن دار دردیں۔ سر درد کے دوران ناک کی جڑ میں درد کلیدی علامت ہے۔ اگر مریض کی کھانسی چھینک آنے پر رک جائے تو یہ اس دوا کی خاص علامت ہے۔ ہم بستری کے بعد مریض کی بھوک ماری جاتی ہے۔ خالی ڈکاریں اور ہچکی ادل بدل کر آتے ہیں۔ عصر کے بعد مریض کو دودھیا پیشاب آتا ہے۔
MALE & FEMALE
جنسی طور پر اگاریکس کا مریض بہت جلدی جذباتی ہو جاتا ہے۔ اور جنس سے شدید طور پر لطف اندوز ہوتا ہے۔بعض خواتین ہم بستری کے بعد کانپنا شروع کر دیتی ہیں اور بے ہوش ہو جاتی ہیں۔ تاہم ہم بستری کے بعد کسی قسم کی شکایات پیدا ہونے میں اس دوا کو ضرور یاد رکھیں۔
خواتین میں یہ علامات بعض اوقات اتنی شدت اختیار کر جاتی ہیں کہ یا تو انہیں ہم بستری سے نفرت ہو جاتی ہے یا ہم بستری کا نام سنتے ہی ان پر ڈپریشن طاری ہو جاتا ہے۔
جنسی میگزینز میں ننگی یا جنسی تصاویر دیکھنے پر مرد اور عورتیں دونوں شدید مشت زنی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ایسی خواتین کو جنسی اعضاء پر خارش کی شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔
ٹی بی مشہور و معروف دوا ہے۔ بعض اوقات کھانسی اور چھینکیں بیک وقت ایسے شروع ہو جاتی ہیں کہ مریض کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ کھانس رہا ہے یا چھینک رہا ہے۔شام کو اور پاخانے کے بعد دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔
مریض کو دونوں کندھوں کے درمیان پشت کے مقام پر سردی کا احساس ۔ مریض کو ہاتھ پاؤں کی حرکات میں ربط پیدا کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ کسی عزیز کی موت کے صدمہ سے پیدا ہونے والی علامات کیلئے اگنیشیا، نیٹرم میور اور اس دوا کو بھی یاد رکھیں۔
یہ دوا Twitching اور Jerking کے لئے معروف ہے ۔کینٹ کے دنوں میں اگاریکس کی شخصیات اس لئے نظر نہیں آتیں کہ اس وقت لوگ زیادہ صحت مند تھے۔ جونہی وہ اگاریکس کے مریض ہوئے انہیں Twitching یا Jerking شروع ہو گئی۔ اب جو لوگ Agaricus کے مریض ہوتے ہیں۔ وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اگاریکس کے مزاج میں قوت ارادی کی کمی ہوتی ہے۔ اس کے مریض دوسروں کا سہارا لینے والے ، کم حوصلے والے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی سکت نہیں رکھتے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں زندگی کے ہر موڑ پر قدم قدم پر آپ کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔آپ دیکھیں گے کہ اگاریکس کی مریض آپ ہی کو سہارا سمجھنے لگے کا۔ آپ سے ہر طرح کی مدد اور مشورے کا طالب ہو گا ۔جیسے آپ ہی اس کے سارے مسائل حل کر سکتے ہیں۔معمولی معاملات پر بھی آپ سے مشورہ اور Guid line چاہے گا۔ آپ محسوس کریں گے کہ اس شخصیت کو اتنے گھمبیر مسائل کا سامنا نہیں جتنا یہ پریشان دکھائی دیتا ہے۔
مثلاً آپ کے کلینک میں ایک مریض دوسرے شہر سے آیا ہے ۔اسے واپسی کا روٹ پتہ نہیں ۔آپ اسے گائیڈ کرتے ہیں۔ یہاں سے آپ فلاں جگہ جائیں وہاں سے ٹیکسی لیں۔ ٹیکسی آپ کو فلاں بس سٹاپ پر اتارے گی۔ ادھر سے آپ کو فلاں روٹ کی بس ملے گی۔ جو آپ کو آپکے شہر لے جائے گی۔ اس دوران وہ آپ سے کئی بار پوچھے گا کہ ڈاکٹر صاحب کوئی پرابلم تو نہیں ہو گی۔ اگر آپ کے پاس کوئی ملازم ہو جو مجھے فلاں مقام تک چھوڑ آتا تو بہتر ہوتا۔
مثلاً ان کے پڑوس میں کوئی شخص فوت ہو جاتاہے ۔خصوصاً کینسر سے مر جاتاہے اب انہیں سب سے زیادہ پریشانی لا حق ہو جاتی ہے۔ اف میرے اللہ وہ کینسر سے کیسے مر گیا۔اگر مجھے کینسر ہو گیا تو کیا کروں گا۔ میں نے بچپن سے ہر احتیاط کی ہے۔ دوسروں کی ہدایت اور ڈاکٹروں کے مشوروں سے زندگی گزار رہا ہوں۔ پھر بھی لگتا ہے کہ مجھے بھی کینسر ہو ہی جائے گا۔ لہذا یوں یہ احساس عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کو کینسر ہو جانے کا زبر دست خوف پایا جاتاہے۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ اکثر مریض بیماری لگ جانے کے خوف سے اتنا ڈرتے ہیں کہ لوگوں سے ہاتھ ملانا بند کر دیتے ہیں۔ بلکہ کسی ایسی جگہ جہاں کسی بیماری کے لگنے کا خطرہ ہو جانے سے بچتے ہیں۔مثلاً مریض کی عیادت کرنے کو جانے سے ڈریں گے۔ مبادا ہمیں بیماری نہ لگ جائے ۔مثلاً آرسنک، فاسفورس، نائٹرک ایسڈ، ارجنٹم جائٹریکم وغیرہ لیکن اگاریکس کا حساب الٹ ہے۔ انہیں اگر معلوم ہو جائے کہ محلے میں فلاں شخص شدید بیمار ہے تو یہ ضرور اسے دیکھنے جائیں گے۔بلکہ اسے بار بار Visit کریں گے۔ اس کے قریب ہونے کی کوشش کریں گے۔ اسکی پر ممکن مدد کی کوشش کریں گے۔ اسکے پس منظر میں شاید ان کے ذہن میں ایسے خیالات ہوتے ہیں کہ اایسے لوگوں کی مدد کرنے سے شاید قدرت مجھے ایسی خطرناک بیماری سے بچالے۔بہر حال کچھ عرصہ بعد ان کے اندر بھی کینسر کا شدید خوف لاحق ہو جاتا ہے۔بعد میں انہیں کمر میں ذرا سی درد ہو تو شدید پریشانی کے عالم میں ڈاکٹر پر ڈاکٹر Visit کرتے چلے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر کا جواب ہوتا ہے کہ معمولی Pain ہے۔ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں لیکن ان کی تسلی نہیں ہوتی حتیٰ کہ X-Ray ، بلڈ ٹیسٹ ، E.C.G ہر قسم کے Test کرائے جاتے ہیں۔ کچھ نہیں ملتا۔آخر یہ ہومیوپیتھ کے پاس آتے ہیں۔ ہومیوپیتھ بھی ساری سٹوری سننے کے بعد کہتا ہے آپ کو کچھ نہیں۔ ’’کیسے کچھ نہیں ‘‘ ۔مریض چلا کر کہتا ہے۔مجھے کینسر ہے اور آ پ کہتے ہیں۔ کچھ نہیں۔ ایسی حالت میں اگر آپ اسے Agaricus دیں گے تو اسے جسمانی تکلیف مثلاً عرق انساء یا کوئی اور درد ہو جائے گا جبکہ ذہنی طور پر کینسر کا خوف اتر جائے گا۔ Platina میں بھی ذہنی اور جسمانی تکالیف ادل بدل کر آتی ہیں۔
PHYSICAL
اسکا حلقہ اثر CNS ہے۔ SPASM اور TWITCHING پیدا کرتی ہے۔ رعشہ ، مرگی، چہرے کا لقوہ، آندھی طوفان سے پہلے Twitching اس کی خاص علامت ہے۔
ایسا بخار کاہی (Hay Fevr) جس میں کان سرخ ہوں یا کانوں پر خارش ہو۔ سر میں یہ احساس جیسے کوئی حصہ ٹھنڈا ہے۔لوگ یہ بات کرنے سے پہلے منہ کا ایک خاص انداز بناتے ہیں۔جیسے انہیں بات کرنے سے پہلے کچھ زور لگا نا پڑتا ہے۔
ہمبستری کے بعد علامات میں اضافہ ، سوکر اٹھنے کے بعد Sex Desire بڑھ جاتی ہے۔ عرق انساء کی خاص دوا ہے۔ بشرطیکہ بیٹھنے سے تکلیف میں اضافہ اور لیٹنے سے آرام ہو۔
ان کی گرفت میں بے ڈھنگا پن پایا جاتا ہے۔ اکثر یہ کسی چیز کو پکڑنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھائیں گے تو ان کا ہاتھ اس شے سے ٹکرا جائے گا۔ اور وہ گر پڑے گی۔ مثلاً پانی کا گلاس، چائے کی پیالی بجائے پکڑنے کے ان سے گر جائے گی۔ ایسا نہ صرف ہاتھوں سے ہوتا ہے بلکہ پاؤں سے انہیں ٹھوکریں لگتی رہتی ہیں۔ الماری میں کتابیں سیٹ کرتے کرتے بار بار گرا دیں گے۔ جسم میں ٹھنڈی سوئیاں چھبنے کا احساس ۔