پاکستان میں ذہنی امراض کی ادویات کی بلیک مارکیٹ: ’250 روپے کی گولیوں کے لیے ساڑھے آٹھ ہزار ادا کرنا پڑے‘
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر جہلم سے تعلق رکھنے والے 32 سالہ فرحان (فرضی نام) نے اپنے پیشہ وارانہ کیریئر میں ترقی کے لیے ایک امتحان دیا اور بے صبری سے نتائج کا انتظار کرنے لگے۔
مگر اس امتحان کے نتائج میں تاخیر نے انھیں بے چین کر دیا اور انھیں ذہنی تناؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی روزمرّہ زندگی متاثر ہونے لگی۔ انھیں نیند کی کمی کی شکایت ہو گئی۔
اسی بے چینی میں فرحان نے یوٹیوب پر نیند کی گولیوں کے بارے میں ایک ویڈیو دیکھی۔ انھوں نے وقتی آرام اور نیند کی کمی کی شکایت سے نمٹنے کے لیے بغیر کسی معالج یا نفسیاتی ڈاکٹر کے مشورے کے ایک مقامی فارمیسی سے نیند کی گولیاں خرید لیں۔ مگر جلد ہی وہ اس دوا کے عادی ہوگئے۔
ایک وقت ایسا آیا کہ انھیں پتا ہی نہیں چلا کہ جس نتیجے کا ان کو بے صبری سے انتظار تھا، وہ کب کا آ چکا ہے۔ وہ اس سکون آور دوا کے اس قدر عادی ہو چکے تھے کہ انھیں کوئی ہوش نہیں رہا۔
جب انھیں علاج کے لیے اسلام آباد کے ایک بحالی مرکز لایا گیا تو اس وقت وہ ایک دن میں10 ملی گرام والی 40 گولیاں کھا رہے تھے۔ جبکہ انھوں نے تین ملی گرام والی ایک گولی سے شروعات کی تھی۔
مگر فرحان واحد فرد نہیں جو سکون آور ادویات کا استعمال کرتے ہوئے اس کے نشے میں مبتلا ہوئے۔
سنہ 2013 میں اقوامِ متحدہ کے منشیات اور جرائم کے ادارے (یو این او ڈی سی) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ٹاپ 10 ممالک میں شامل ہے جہاں سکون آور یا نشہ آور ادویات کے عادی افراد کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لاکھوں افراد اِن ادویات کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ نشے کے عادی بعض افراد دیگر ممنوعہ منشیات جیسے ہیروئن، چرس، آئس یا شراب تک رسائی نہ ہونے یا انھیں سیلف میڈیکیشن کے ذریعے چھوڑنے کے لیے وہ ادویات استعمال کرنے لگتے ہیں جو دراصل ذہنی مریضوں کے علاج کے لیے بنائی جاتی ہیں۔
اسلام آباد اور ملتان میں نشے کے امراض میں مبتلا افراد کے لیے قائم بحالی مرکز کے ڈائریکٹر اور ایڈیکشن سائیکیٹرسٹ ڈاکٹر طلعت حبیب کا کہنا ہے کہ ملک میں نیند کی گولیوں کا غلط استعمال بہت عام ہے۔
ڈاکٹر طلعت نے بی بی سی کو بتایا کہ بعض اوقات لوگ چرس، ہیروئن، آئس یا شراب جیسی منشیات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت اِن ادویات کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔
ان کا شمار ’بینزو ڈائیزاپینز‘ نامی ادویات میں کیا جاتا ہے جو ہمارے دماغ اور اعصابی نظام پر اثر کرتی ہیں۔ کنٹرولڈ ادویات میں نیند اور سکون کی ادویات کے علاوہ ’اے ڈی ایچ ڈی‘ کی ادویات بھی شامل ہیں جنھیں ’سٹیمیولنٹس‘ میں شمار کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر طلعت کہتے ہیں کہ یہ ادویات شہروں کی بڑی فارمیسیز پر ڈاکٹر کے مصدقہ نسخے کے بغیر فروخت نہیں کی جاتیں البتہ چھوٹی فارمیسیز پر یہ ادویات باآسانی دستیاب ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’نشے کے امراض سے متعلق لاعلمی اور مغالطوں کی وجہ سے لوگ منشیات کی لت سے نجات حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ کنٹرولڈ ادویات کا اپنی مدد آپ استعمال کر کے وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔ تاہم ان ادویات کے غلط استعمال کی وجہ سے ان کے دماغ پر مزید منفی اثرات پڑتے ہیں۔‘
پاکستان میں کنٹرولڈ ادویات کی فروخت کا طریقہ کار
پاکستان میں ذہنی امراض کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کی فروخت کے لیے حکومت نے طریقہ کار وضع کر رکھا ہے تاکہ ان کے غلط استعمال سے بچا جا سکے۔
ملک میں کنٹرولڈ ادویات پر کام کرنے والے ایک سابق حکومتی اہلکار کا کہنا ہے کہ کنٹرولڈ ادویات اور ان کے اجزا کی پاکستان میں درآمد اور تیاری کی نگرانی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے ذمے ہے جبکہ اس حوالے سے فارمیسیز کو خرید و فروخت کا لائسنس دینا صوبائی حکومت کے ذمے ہے۔
فارمیسیز صرف ان افراد کو کنٹرولڈ ادویات فروخت کر سکتی ہیں جن کے پاس پاکستان میڈیکل اور ڈینٹل کونسل کے رجسٹرڈ ڈاکٹرز کا مصدقہ نسخہ ہو۔
انھوں نے بتایا کہ عموماً بڑی فارمیسیز ان قوانین کی سختی سے پیروی کرتی ہیں جہاں کوالیفائڈ فارماسسٹ ہوتے ہیں جو کنٹرولڈ ادویات کی خرید و فروخت کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ’تقریباً ہر تین سے چھ ماہ بعد ڈریپ ان کے ریکارڈ چیک کرتی ہے تاکہ ملک میں کنٹرولڈ ادویات کی پیداوار کے مقابلے ان کی فروخت اور استعمال کا تعین کیا جا سکے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر ایسی ادویات کی فروخت کے لیے سخت قوانین نافذ کیے گئے ہیں جس میں کئی تصدیق شدہ دستاویزات اور ان کی منظوری مطلوب ہوتی ہے۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ان کا کہنا ہے کہ چھوٹی فارمیسز ان ادویات کی فروخت سے گریز کرتی ہیں کیونکہ ’کئی میڈیکل سٹورز کے مالک کنٹرولڈ ادویات کی فروخت کرنے کے لیے مطلوبہ دستاویزات اور شرائط مکمل کرنے کی جھنجھٹ سے بچنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک قابل فارماسسٹ کو ملازمت پر رکھ کر اپنے وسائل خرچ کرنا اپنے کاروبار کے لیے بہتر نہیں سمجھتے۔‘
’اکثر ان میڈیکل سٹورز اور فارمسیز پر کاسمیٹکس سمیت کئی قسم کی سمگلڈ اشیا بھی موجود ہوتی ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ کنٹرولڈ ادویات کی وجہ سے ان کی دکان کو چیک کیا جائے کیونکہ اس سے ان کی باقی چیزوں کی فروخت پر اثر پڑ سکتا ہے۔‘
ادویات کی بلیک مارکیٹ
پاکستان میں ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کے ساتھ ساتھ اِن ادویات کی لت میں مبتلا افراد دونوں ہی بلیک مارکیٹ کا رُخ کر رہے ہیں۔
بلیک مارکیٹ میں مہنگے داموں پر یہ ادویات فروخت کرنے والے ایک ڈیلر نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے یہ کاروبار کر رہے ہیں۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انھوں نے تسلیم کیا کہ یہ کام غیر قانونی ہے تاہم ان کا خیال ہے کہ ’مریضوں کو ان کی ادویات سے دور رکھنا بھی ظلم ہے۔ یہ بھی ناانصافی ہے کہ صرف ان چند افراد کو یہ ادویات میسر ہوں جن کا تعلق مراعات یافتہ طبقے سے ہے۔‘
انھوں نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ یہ ادویات ان ان تک کیسے پہنچتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ماضی میں ہم صرف جنسی صحت کے مسائل کے لیے ادویات فروخت کرتے تھے۔ پاکستان میں ان ادویات پر مکمل پابندی ہے تاہم اپنے جنسی مسائل سے نمٹنے کے لیے لوگ فارمیسیز پر دستیاب جعلی ادویات خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو یا تو بے اثر ہوتی ہیں یا بے حد خطرناک۔‘
’پھر ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں اے ڈی ایچ ڈی کی ادویات بھی بامشکل دستیاب ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں ریٹالن تیار کرنے والی کمپنی کو اتنی کم مقدار میں اس کے اجزا در آمد کرنے کی اجازت ہے۔ اتنی کم مقدار کی وجہ سے یہ دوا مارکیٹ سے جلدی ختم ہو جاتی ہے اور مریض اے ڈی ایچ ڈی کے مرض کی تکلیف کا شکار رہتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس پاکستان بھر سے آرڈر آتے ہیں اور ’ہم تقریباً روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو یہ دوا فراہم کرتے ہیں۔ لوگوں کو ایک دوسرے سے بات کر کے یا انٹرنیٹ پر ہمارے بارے میں پتا چلتا ہے۔‘
’تاہم سب سے مایوس کن بات یہ ہے کہ سائیکیٹرسٹ بھی اپنے مریضوں کو بغیر لائسنس والی آن لائن فارمیسیز سے رجوع کرنے کے مشورہ دیتے ہیں کیونکہ مقامی مارکیٹ میں یہ ادویات میسر نہیں۔‘
ڈیلر نے دعویٰ کیا کہ ’ہم کوئی ایسی دوا نہیں بیچتے جس کا استعمال ممنوع ہے۔ ہم اے ڈی ایچ ڈی اور سلیپ ایپنیا کے لیے تجویز کی گئی ادویات فروخت کرتے ہیں۔‘
بی بی سی نے ان سے پوچھا کہ اگر انھیں مریضوں کی اتنی پرواہ ہے تو وہ لائسنس کیوں نہیں بنواتے جس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’اگر ڈریپ اے ڈی ایچ ڈی ادویات کی درآمدات اور فارمیسیز پر مناسب قیمت پر انھیں بیچنے کی اجازت دے دیتی ہے تو ہم خوشی خوشی اپنا بزنس بند کر دیں گے۔‘
وہ مثال دیتے ہیں کہ پاکستان میں موڈافنل نامی کیمیکل سے بنے والی کنٹرولڈ دوا کو مارکیٹ سے زبردستی ختم کیا گیا جو پاکستان میں برسوں سے تیار کی جا رہی تھی۔ موڈافنل سے بنی کنٹرولڈ ادویات صرف اے ڈی ایچ ڈی کے لیے ہی نہیں بلکہ نارکولیپسی اور نیند کی زیادتی کی دیگر سنگین بیماریوں سے نمٹنے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ’جو حکام صحت عامہ کی پالیسیاں بناتے ہیں ان کے نزدیک ذہنی امراض کوئی معنی نہیں رکھتے۔‘
دوسری طرف کنٹرولڈ ادویات کی قلت اور بلیک مارکیٹ میں ان کی فروخت کے بارے میں بی بی سی نے ڈریپ کے سی ای او عاصم رؤف سے فون پر رابطہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ ڈریپ نے سختی سے قوانین نافذ کیے ہوئے ہیں تاہم ’میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں کہ بلیک مارکیٹ میں کنٹرولڈ ادویات فروخت کی جا رہی ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ اگر لوگوں کو اس طرح کی کوئی معلومات ہے تو وہ ڈریپ سے رابطہ کریں۔
’250 روپے کی گولیوں کے لیے ساڑھے آٹھ ہزار ادا کرنا پڑے‘
بی بی سی نے ایسے کچھ مریضوں سے بات کی جن کے سائیکیٹرسٹ نے ان میں اے ڈی ایچ ڈی کی تشخیص کی تاہم اپنی دوا خریدنے کے لیے انھیں بلیک مارکیٹ کا رُخ کرنا پڑا۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والی مریضہ انعم (فرضی نام) نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ڈاکٹر نے انھیں ریٹالن نامی دوا لکھ کر دی۔
اگرچہ ڈریپ کی جانب سے پاکستان میں ریٹالن تیار کرنے پر پابندی نہیں ہے۔ تاہم اسے بنانے میں میتھل فینیڈیٹ نامی کیمیکل استعمال ہوتا ہے۔ اگر ڈاکٹر کی نگرانی کے بغیر اس دوا کا استعمال کیا جائے تو خدشہ ہوتا ہے کہ مریض اس کا عادی ہو جائے گا۔
اس وجہ سے اے ڈی ایچ ڈی سے نمٹنے کے لیے ریٹالن جیسی دیگر ادویات کو کنٹرولڈ ادویات میں شمار کیا جاتا ہے۔
انعم کہتی ہیں کہ ’ایک سال پہلے تک مجھے اسلام آباد کی ایک فارمیسی سے یہ دوا مل جاتی تھی تاہم فارمیسی والوں نے کہا کہ انھیں بھی یہ دوا بلیک مارکیٹ سے ملتی ہے۔‘
’ریٹالن کی 10 ملی گرام کی 30 گولیوں کا ڈبہ مجھے 347 روپے میں ملنا چاہیے تھا لیکن فارمیسی والوں نے مجھ سے اس کے سات ہزار روپے لیے۔‘
انعم کے مطابق کچھ عرصے بعد اس فارمیسی نے یہ دوا بیچنی بند کر دی۔
’میں سخت پریشان تھی۔ میں نے سماجی رابطے کی دیگر ویب سائٹس اور پیجز کا سہارا لیا جہاں سے مجھے کسی نے پشاور کے ایک ڈیلر کا نمبر دیا۔ میں نے ڈیلر سے بات کی جنھوں نے مجھے یہ دوا بھیج دی۔‘
سندھ سے تعلق رکھنے والی اے ڈی ایچ ڈی کی ایک اور مریضہ نے دوا کے حصول میں اپنی مشکل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے سائیکیٹرسٹ نے انھیں پاکستان میں ہی تیار ہونے والی اور ایک وقت تک باآسانی دستیاب دوا کا نسخہ دیا تھا۔
مگر وہ بتاتی ہیں کہ ’میں یہ دوا 2021 سے لے رہی ہوں۔ تاہم سال سے زیادہ ہو گیا ہے کہ یہ دوا فارمیسیز میں دستیاب نہیں۔۔۔ (پھر) مجھے ڈاکٹر صاحب نے ہی ایک بلیک مارکیٹ کے ڈیلر کا بتایا۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جب تک ان میں اے ڈی ایچ ڈی کی تشخیص اور علاج شروع نہیں ہوا تھا تب تک انھیں اپنی ذاتی اور پروفیشنل زندگی میں کئی مشکلات کا سامنا رہا۔
پھر دوا اور تھراپی سے بہتری آنے پر انھوں نے ’یہ بہتر سمجھا‘ کہ وہ بلیک مارکیٹ سے اپنی دوا کا انتظام کریں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جو دوا مجھے 250 روپے میں مل جایا کرتی تھی اب اس کا ایک ڈبہ خریدنے کے لیے مجھے ساڑھے آٹھ ہزار روپے دینے پڑتے ہیں۔‘
کنٹرولڈ ادویات خریدتے وقت کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے؟
بی بی سی نے کراچی کے ایک بڑے اور نامور دوا خانے کے مینیجر سے پوچھا کہ جو مریض کنٹرولڈ ادویات خریدنے آتے ہیں انھیں کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
انھوں نے بتایا کہ مریضوں کو چاہیے کہ مستند ڈاکٹر کا دیا نسخہ لے کر آئیں جو کاغذی ہونا چاہیے نہ کہ آن لائن۔ اس پر ڈاکٹر کا نام، فون اور لائسنس نمبر درج ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ نسخہ ڈاکٹر یا ہسپتال کے آفیشل ’لیٹر ہیڈ‘ پر لکھا ہو جس میں دوا کی مقدار اور تاریخ لکھی ہونی چاہیے۔
ان کے مطابق محدود پیمانے پر فروخت کی اجازت والی ادویات کے لیے مریضوں یا گاہکوں کے شناختی کارڈ بھی لیے جاتے ہیں اور ریکارڈ مرتب ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مریض کو چاہیے کہ جس دن سے دوا تجویز کی گئی ہے اسی دن سے وہ اسے خریدیں کیونکہ ’اگر کسی کو 10 دن کی دوا لکھ کر دی گئی ہے اور مریض نسخے پر درج تاریخ کے تین دن بعد ادویات لینے آتا ہے تو ہم انھیں دس دن کی بجائے سات دنوں کی دوا دینے کے پابند ہیں۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر ایک ہی ڈاکٹر کا نسخہ لوگ قلیل عرصے میں بار بار لے کر آ رہے ہوں تو انھیں ایسے ڈاکٹرز پر بھی شک ہو جاتا ہے اور وہ ان ڈاکٹروں کے نسخوں پر پابندی لگا دیتے ہیں۔
تاہم ملک میں کنٹرولڈ ادویات پر کام کرنے والے ایک ادارے کے سابق اہلکار نے بتایا کہ مصدقہ نسخے پر ادویات حاصل کرنے کے لیے ایک اور طریقہ یہ ہے کہ مریض اپنے علاقے کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کمشنر کے دفتر سے اپنا نسخہ تصدیق کروا کر فارمیسی سے رابطہ کرے۔
Courtesy: BBC URDU