یادداشت اور دماغی کمزوری – ہومیوپیتھی دوائیں اور ہومیوپیتھک علاج – حسین قیصرانی

پروفیسر ادریس آزاد کا کام اور نام علمی، ادبی اور دانشور حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انہوں نے شاعری، نثر، ڈرامہ، فلم، گیت نگاری، ناول، افسانہ، کالم نویسی غرضیکہ ہر صنفِ ادب میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ انگریزی، اُردو، فارسی، عربی، پشتو، سرائیکی، پنجابی پر اُن کی مہارت سے تو مَیں بخوبی آگاہ ہوں؛ بہت ممکن ہے کہ دیگر دیسی و بدیسی زبانوں پر بھی دسترس رکھتے ہوں۔
فلسفہ، فزکس اور مذہبی موضوعات پر اُن کے لیکچرز مختلف شہروں اور یونیورسٹیوں میں آئے دن جاری رہتے ہیں۔ ماشاء اللہ! کئی شاہکار کتابوں کے مصنف ہیں۔ ہمارا باہمی تعلق کم و بیش بیس سال کے عرصہ پر محیط ہے۔ اُن کے دوست ’’اسلم بھولے‘‘ کی کہانی، بڑی دلچسپ ہے اور ہماری آج کی اِس تحریر کا موضوع بھی۔
ہمارے آس پاس ایسے بھولے عام پائے جاتے ہیں۔ منیر نیازی نے کہا تھا ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں مَیں ہر کام کرنے میں‘‘ لیکن ہمارے بھولے بیچارے تو معاملہ سمجھ ہی نہیں پاتے۔ زندگی میں ملنے والا ہر اہم موقع اُن سے پھسل جاتا ہے اور اُن کو اِحساس تک بھی نہیں ہو پاتا۔ بچپن کی کسی بیماری، پریشانی، دباؤ اور نفسیاتی کشمکش ہی بالعموم اِس کی وجہ ہوتی ہے۔ ہومیوپیتھی اور ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں ایسے مسائل کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ آخر میں ہم کچھ علامات اور اُن کے علاج پر بات کریں گے لیکن پہلے ’’اسلم بھولے‘‘ کی کہانی؛ اِدریس آزاد کی زبانی سُنئے:بھولا میرا یار، نام اور شکل سے کلیۃً بھولا تھا۔ اُسے سب بهولا ہی کہتے تهے، واحد مَیں تها جو اسے بهولا نہیں سمجهتا تها؛ کیونکہ باتیں وہ سیانوں جیسی کرتا تها۔ لڑکیوں کے ہاسٹل میں درجہ چہارم کا ملازم تھا اور کام کاج کےمعاملے میں غیر معمولی حد تک پُھرتیلا۔ اکثر کہتا،
’’ادریس بھائی! مَیں شکل صورت سے اچھا نہیں ہوں نا تو لڑکیاں مجھے جلد ہی بھائی بنا لیتی ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مجھے اُن کے آس پاس رہنے اور بھائی بن کر اُن کے کام وام کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ ادریس بھائی! لڑکیوں سے بہت پیاری خوشبُو آتی ہے۔ جن لڑکوں کو وہ بھائی نہیں بناتیں وہ اُس خوشبُو سے واقف ہی نہیں ہوتے۔ وہ مجھے کام بتاتی ہیں تو اپنے پاس بلاتی ہیں۔ وہ میرے سامنے اپنے بوائے فرینڈز کی باتیں کرتی ہیں۔ مجھ سے مشورے لیتی ہیں۔ مجھ سے پوچھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ ’بھولے! ذرا دیکھ کر بتانا، میں کیسی لگ رہی ہوں؟‘۔۔۔۔۔۔۔۔
ادریس بھائی! وہ لڑکے جن کو یہ بھائی نہیں بناتیں، اُن پر مجھے ترس آتا ہے۔ وہ بیچارے بننے ٹھننے میں اتنا پیسہ بھی خرچ کرتے ہیں، سٹائل مارتے ہیں، ہیروگیری کرتے ہیں؛ لیکن پھر بھی لڑکیاں انہیں دور دور سے دیکھتی اور اگر کسی کی کوئی دوستی ہے بھی تو چھپ چھپ کر ملتی ہیں۔ انہی لڑکیوں کے بِیچوں بیچ، مَیں رہتاہوں۔ وہ میرے ساتھ اپنا ہر راز شیئر کرتی ہیں۔ مجھے اتنی باتوں کا پتہ ہے ادریس بھائی! کہ آپ کو بتاؤں تو آپ کا دماغ خراب ہو جائے۔ قسم سے‘‘
وہ ہر ملاقات پر یہ بات ایک بار ضرور کرتا تھا اور پوری تفصیل کے ساتھ۔ آخر ایک دن نہ جانے کس خیال کے تحت میں نے اُس سے کہا، ’’بھولے! وہ جو تمہیں بھائی بنا لیتی ہیں تو تم بھی انہیں بہن بناتے ہو یا نہیں؟‘‘
کہنے لگا،’’میں کیوں بناؤں بہن! اور ایسی لڑکیوں کو؟ جن کے اتنے غلط غلط کام ہیں۔ وہ مجھے سچ مچ بھائی سمجھتیں تو اُن کی آنکھوں میں میرے لیے حیا بھی ہوتی‘‘۔
میں نے حیرت سے بھولے کی طرف دیکھا، وہ ابھی بول رہا تھا، ’’ہاں لیکن ایک لڑکی ہے؛ وہ مجھے بہن لگتی ہے۔ بالکل سگی بہن‘‘
میں نے پھر حیرت سے کہا، ’’اچھا؟ ۔۔۔۔۔۔ واہ۔ بھولے! تم نے کبھی بتایا نہیں۔ اور وہ کیوں بہن لگتی ہے بھلا؟‘‘
’’ادریس بھائی! میں جب کمرے میں داخل ہوتا ہوں نا؛ تو وہ سر پر دوپٹہ اوڑھ لیتی ہے۔ وہ میری آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈالتی؛ بلکہ نظریں جھکا لیتی ہے۔ باقی لڑکیوں کو میری صحت کی فکر نہیں ہوتی، وہ ہر وقت میری صحت کی فکر کرتی ہے۔ میرے کھانے پینے کا پوچھتی ہے۔ مجھے گرمی میں بازار کے کام نہیں بتاتی۔ اُس کی آنکھوں میں ممتا ہے میرے لیے، جیسی بہنوں کی آنکھوں میں ہوتی ہے‘‘۔
میں ہکّا بکّا بھولے کے منہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے پُوچھا، ’’ایک بات تو بتاؤ بھولے! ۔۔۔ ساری لڑکیاں تمہیں بھولے بھیّا کہہ کر پکارتی ہیں۔ وہ جسے تم بہن سمجھتے ہو؛ وہ کیا کہہ کر پکارتی ہے؟‘‘
اُس کی آنکھوں میں عجب سی چمک نمودار ہوئی۔ اور اس نے قدرے حیران لہجے میں کہا،
’’نہیں ادریس بھائی! سب بھیا کہتی ہیں۔ لیکن وہ ’’اسلم‘‘ کہہ کر پکارتی ہے۔ حالانکہ مجھے میرے نام سے میرے گھر والے بھی نہیں پکارتے۔ ہے نا حیرانی کی بات؟‘‘آج اتنے سالوں بعد سوچتا ہوں۔ بھولا سچ مچ بھولا تھا۔
———

ہومیوپیتھک علاج میں یہ بات بڑی ہی اہم ہے کہ مریض کا کیس ہر پہلو سے زیرِ غور لایا جائے۔ موجودہ تکالیف، ماضی کے مسائل، بچپن کی زندگی، سابقہ علاج کی تفاصیل، ڈر خوف فوبیاز، پسند نا پسند، نیند، خواب، خاندانی ماحول اور بیماریوں سے آگاہی کر کے جب ایک ماہر ہومیوپیتھک ڈاکٹر، مریض کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھ کر دوا اور اُس کی پوٹینسی منتخب کرتا ہے، اُس دوائی کو عمل کرنے کا موقع دیتا ہے اور پھر خوب سوچ سمجھ کر حسبِ ضرورت اگلی دوا دیتا ہے تو اکثر بڑے مفید اور دیرپا نتائج نکلتے ہیں۔
ہمارے “بھولوں” کا علاج اگر بَر وقت ہو جائے تو بہت ممکن ہے کہ اُن کی زندگی کافی آسان ہو جائے۔ علاج کا بہترین وقت اُن کا بچپن ہوتا ہے۔ چونکہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں دوسروں کے مسائل کو سمجھ کر تعاون کرنے کے بجائے طنز و مذاق کا وطیرہ زیادہ عام ہے؛ اِس لیے اگر اِن بچوں میں پائی جانے والی کمی کی اطلاع عام ہو جائے تو اُن کی سنجیدہ اور صحیح بات کو بھی غیر سنجیدگی سے لینے کا رویہ اُن کو کنفیوزڈ رکھتا ہے۔ اِن غیر مہذب اور تکلیف دِہ رویوں کی وجہ سے اعتماد کی کمی مزید مسائل کو جنم دیتی ہے۔ اگر یہ صورتِ حال پیدا ہو چکی ہو تو علاج سے کچھ مسائل (مثلاً غصہ، نیند، بھوک، کمزور یادداشت، ڈر خوف فوبیاز، بے وجہ شرم، ملنے ملانے، بے پناہ موٹاپا، بے پناہ کمزوری) حل ہو سکتے ہیں لیکن واضح یا مکمل صحت مندی کی طرف لانا خاصا مشکل ثابت ہوتا ہے۔

ہومیوپیتھی طریقہ علاج میں، ایسی تکالیف کے لئے، عام طور پر اِستعمال ہونے والی چند ادویات ملاحظہ فرمائیں۔

فاسفورس: دماغی قوت کو بحال کرنے کے لئے عمدہ دوا ہے۔ بالخصوص اگر مریض کو کوئی سٹروک ہوا ہو یا سر میں خون جمع ہوگیا ہو۔ اِس کے علاوہ ایسے مریضوں پر اِس کا اثر بہتر پایا گیا ہے کہ جو نازک اندام، نازک مزاج اور نہایت حساس ہوں۔ دماغ تھکا تھکا سا اور یادداشت کمزور ہو۔ فاسفورس کے مریض عام طور پر بادل کی گرج چمک سے ڈرتے ہیں۔ تیز آواز (سائرن یا ایمبولینس) وغیرہ سے اِن کے دل پر اثر پڑتا ہے۔ بائیں کروٹ سونے میں سکون نہیں آتا۔ اِن کو میٹھا بہت پسند ہو سکتا ہے۔ یہ نمک یا نمکین چیزیں زیادہ لینے کا رجحان رکھتے ہیں۔

زنکم میٹ: حافظہ خاصا کمزور ہو اور مریض یا بچہ وہی دہرائے کہ جو اُس سے کہا جائے۔ شور ناقابلِ برداشت ہو۔ اعضاء میں کپکپاہٹ ہو۔ اِس کی اہم ترین نشانی یہ ہے کہ پاؤں بے چین ہوں اور ہر وقت ہلتے رہیں۔ بلا وجہ وہم کہ گرفتار نہ کر لیا جائے اِس لئے گھر سے باہر نہیں نکلتا۔ حیض کے دوران بچیاں اور خواتین بالکل ٹھیک ہو جاتی ہیں اور عام دنوں میں تکلیفیں۔

بفو: پیدائشی طور پر کمزور دماغ بچے جن کو مرگی کے دورے بھی پڑنے کی شکایت ہو۔

فاسفورک ایسڈ: جنسی تجاوزات کی وجہ سے بھی بعض اوقات دماغی اور جسمانی کمزوری کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ناکام محبت یا بے پناہ غم یا بہت بڑا دھوکہ کھانے کی وجہ سے سوچیں منتشر ہو جائیں تو اِنسان کا دماغ متوازن نہیں رہتا اور اُس کا رویہ اور حرکتیں نہایت ہی غیر سنجیدہ ہو جاتی ہیں۔ عام طور پر بھولنے کا عارضہ شروع ہو جاتا ہے۔ پیشاب کی تکالیف شروع ہو جاتی ہیں۔ (Disappointment) اور اعصابی کمزوری اِس دوا کے مریض کا نکتہ ماسکہ ہے۔

تین دن قبل ایک فیملی میرے پاس آئی جن کی جوان بیٹی جو کہ ابھی F.Sc سٹوڈنٹ ہے؛ محبت کے جنون میں مبتلا اور شادی کے لئے بضد تھی جبکہ دوسری طرف معاملات سنجیدہ نہ تھے اور وہ کہتا تھا کہ بھاگ کر شادی کرتے ہیں۔ لڑکی نے اپنے خاندان کو یہ بات بتا دی کہ اگر میری شادی آج کل میں نہ کی گئی تو میں اُس کے ساتھ بھاگ جاؤں گی۔ تفصیلی انٹرویو کے بعد فاسفورک ایسڈ دی گئی۔ اگلی رات لڑکی اپنی فیملی کے ساتھ دوسری پارٹی کے گھر گئی تاکہ معاملات کو سمجھا اور سمجھایا جا سکے۔ دورانِ گفتگو کسی بات پر لڑکی کو غصہ آیا اور اُس نے سب کے سامنے لڑکے کو خوب سنوائیں اور باقاعدہ مارا پیٹا۔ گھر والوں کو بتا دیا کہ مجھے اِس میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ گذشتہ رات یہ صورتِ حال بتانے میرے ہاں تشریف لائے۔ لڑکی اپنے کئے پر حیران مگر مطمئن تھی۔ ساتھ ہی اُس کو فکر بھی تھی کہ شاید عشق کا جنون پھر واپس آ جائے گا۔

اِس طرح کے معاملات کے دیرپا اثر کو برقرار رکھنے کے لئے مزید ادویات جاری رکھنی ہوتی ہیں جو مریض کی، اُس وقت کی، کیفیت کو مدِ نظر رکھ کر منتخب کی جاتی ہیں۔

میڈورینم: حافظہ کمزور ہو جاتا ہے۔ بچوں کو اپنے سکول کے کام پر توجہ برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اِملا اکثر غلط ہو جاتی ہے۔ لکھتے وقت فقرے میں اہم لفظ لکھنا مِس کر جاتے ہیں مثلاً اگر کہنا ہو گا کہ میں آج رات گھر نہیں آوں گا تو “نہیں” لکھنا رہ جائے گا۔ ہر کام میں بے حد جلد بازی کا ماحول بنایا ہوتا ہے۔ سکون سے یعنی نچلے نہیں بیٹھا جاتا۔ مسئلہ اگر زیادہ ہو جائے تو نام، شکلیں اور اعداد و شمار یاد نہیں رہتے۔ گفتگو کے دوران اکثر موضوع بھول جاتا ہے۔ مریض پوچھتا ہے کہ میں کیا بات کر رہا تھا۔ پیشاب یا گردوں کی تکالیف زیادہ ہو جاتی ہیں یا خاندان میں گردوں کی کسی تکلیف کی ہسٹری موجود ہوتی ہے۔ جن بھوت وغیرہ کا خیال زیادہ رہتا ہے۔ بستر پر پیشاب کی عادت بھی میڈورینم کے مریضوں میں پائی جاتی ہے۔ مریض عجیب و غریب انداز سے سوتا ہے مثلاً سارا جسم سکیڑ کر سونا یا سجدہ کی طرح سونا یا اُلٹا ہو کر سونا وغیرہ۔ اکیلے میں یہ احساس رہتا ہے کہ جیسے کوئی میرے پیچھے یا آس پاس موجود ہے۔

لندن کے مضافات میں رہائش پذیر ایک خاتون نے علاج کے لئے رابطہ کیا کہ یوں تو اُس کو بہت سارے وہموں اور فوبیاز نے گھیرا ہوا ہے مگر ایک مسئلہ نے اُن کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ اُسے اکیلے میں یہ ڈر رہتا ہے کہ کوئی (ما فوق الفطرت مخلوق، جن بھوت، چڑیل وغیرہ) اُس کے پاس ہے اور وہ ہفتہ اتوار کی رات گھر میں نہیں رہ سکتی کیونکہ اُن کے ساتھی خاتون اپنی بہن کے گھر لندن چلی جاتی ہے۔ وہ پورا ہفتہ دوسروں کی منت سماجت کرتی رہتی ہے تاکہ اُن کے پاس کوئی رہ سکے۔ اِس مقصد کے لئے ہر ہفتہ کم و بیش   20،000 روپے خرچ کرتی تھی۔ تفصیلی کیس لینے پر وہ میڈورائنم کا کیس لگی۔ میڈورینم سے علاج شروع کیا گیا اور دوسرے ماہ اُن کا یہ مسئلہ مکمل طور پر حل ہو گیا۔ دوسرے مسائل کے لئے کبھی کبھار رابطہ رہتا ہے مگر اُن کی یہ پریشانی اب باقی نہیں رہی۔

لیک کینینم: غائب دماغ اور بھُلکڑ۔ چیزیں رکھ کر بھول جائے۔ چیزیں خرید کر اور پیسے دے کر خالی ہاتھ گھر آ جائے۔ گفتگو اور تحریر میں الفاظ چھوڑ جائے۔

کالی فاس: اعصاب اور دماغ کے لئے یہ بہترین دوا ہے۔ اِس کی ضرورت اُن مریضوں کو پڑتی ہے کہ جو نہایت نروس، تھکے تھکے اور افسردہ رہتے ہوں۔ لوگوں سے کتراتے ہوں۔ دماغ جیسے بجھا بجھا سا ہو۔ کوئی چیز یاد نہ رہے۔ گھر سے کسی کام کے لئے جائے اور راستے میں بھول جائے کہ کہاں اور کیوں جا رہا ہوں۔ نیند کی کمی اور رات بھر جاگنا۔ اِن مسائل کی اہم وجہ دماغ کو خون پوری مقدار میں نہ پہنچنا ہے۔

کارسی نوسن: دماغی مسائل کی بہترین دوائیوں میں سے ایک دوا کارسی نوسن ہے۔ اِس کا اِستعمال ماہر ڈاکٹر کے مشورے سے ہی کرنا چاہئے ورنہ ایسے مسائل کھول کر رکھ دیتی ہے کہ سنبھالنا مشکل ہو جایا کرتا ہے۔ اِس کو دہرانے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے اور پوٹینسی (طاقت) بھی خوب سوچ سمجھ کر دینی چاہئے۔ برطانیہ میں اکثر ڈاکٹر صاحبان کو آٹزم (Autism,  ACH,  AD,  ADHD) کے مریضوں کے لئے تجویز کرتے دیکھا ہے۔ کارسی نوسن اُن مریضوں کے لئے بہت مفید ہے کہ جن کا مزاج سرطانی (کینسر) ہے یعنی فیملی میں کینسر جیسے موذی امراض کی ہسٹری موجود ہو۔

کالی برومیٹم: جنسی بے اعتدالی کے باعث سوچ ڈسٹرب ہو جائے۔ دماغ صحیح کام نہ کرے۔ حرکات و سکنات کے توازن میں فرق آ جائے یعنی چال چلن کی خرابی کی وجہ سے چلنے میں لڑکھڑاہٹ محسوس ہو۔

اناکارڈیم: ہر کام اور فیصلہ میں دو دِلا ہو کہ یہ کروں یا وہ کروں۔ مریض میں خود اعتمادی کی انتہائی کمی ہوتی ہے۔ دوسری طرف وہ دوسروں پر بھی اعتماد نہیں کرتا۔ تکالیف کو کھانے کے دوران عارضی بہتری آ جاتی ہے  (مجھے اِس کی وجہ یا فزیالوجی کی سمجھ نہیں آ سکی)۔

بارائیٹا کارب: دماغ کی کمزوری کی اہم ترین دوا ہے خاص طور پر بچوں اور بوڑھوں میں۔ بچے جو دماغی طور اور جسمانی لحاظ سے کمزور ہوں، پیدائش قبل از وقت ہوئی ہو۔ اُن کی پرورش ناقص ہو اور قد نہ بڑھ رہا ہو۔ ٹانسلز کی تکلیف اکثر رہتی ہو۔ معمولی سی سردی سے پکڑے جائیں۔

بے جا نہ ہو گا کہ اگر یہ واضح کر دیا جائے کہ ہمارے ہاں ٹانسلز کا آپریشن کروانے میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا لیکن گذشتہ چند سالوں سے یورپ اور امریکہ کے ڈاکٹرز اِس ضمن میں بہت احتیاط کرنے لگے ہیں۔ ٹانسلز کے آپریشن کے بعد صحت کے مسائل بڑھنے کا امکان ہو جاتا ہے۔

کلکیریا کارب: موٹاپے کا رجحان، سر اور پیٹ بڑا، سر پر پسینہ نیند کے دوران یہاں تک کہ تکیہ بھیگ جائے، مٹی اور چاک وغیرہ کھائے۔ انڈہ بہت پسند ہو یا بالکل ہی ناپسند۔ معدہ اُبھرا ہوا۔ ہڈیاں کمزور اور پرورش ناقص۔

یہ چند دوائیاں محض تعارف کے لئے ہیں۔ اِس کے علاوہ بھی سینکڑوں ہومیوپیتھک ادویات ایسی ہیں جن سے ذہنی کمزوری کا علاج کیا جاتا ہے۔ اِس مضمون کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ہومیوپیتھی میں ایسے مسائل کے حل کا اِمکان موجود ہے۔

ظفر ضعفِ دماغ اب اِس سے بڑھ کر اَور کیا ہو گا
کہ جاتا ہوں وہاں اور واپس آنا بھول جاتا ہوں

حسین قیصرانی – سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ، لاہور پاکستان ۔ فون 03002000210

5 1 vote
Article Rating
kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
Aurangzeb khan
Aurangzeb khan
1 year ago

بهت هۍ عمده

Sign up for our Newsletter