ہومیوپیتھک ڈاکٹر جب کیس لیتا ہے تو وہ اندر کے آدمی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ مریض اور مرض کے پیچھے چُھپے اندر کے آدمی کو سمجھے بغیر محض بیماری کے نام پر یا ظاہری صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھ کر دوائی دینے سے وقتی گزارا تو شاید ہو جائے لیکن شفا جیسی نعمت کا حصول بہت مشکل ہے۔
اکثر اوقات دیکھنے کے باوجود مریض اپنے مسائل دیکھ نہیں رہا ہوتا، اُس کو کوئی معاملہ بار بار سمجھا رہے ہوتے ہیں لیکن وہ صرف سنتا ہے پر سمجھتا نہیں۔ دراصل لفظ اُس کے اندر ہی نہیں جاتے۔ صورتِ حال جب ایسی ہو جائے تو یہ بہت گھمبیر معاملہ ہوتا ہے۔ آج کل ہر تیسرا مریض اِسی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ چند مثالوں سے بات واضح ہو سکے گی۔
کل رات ایک محترمہ نے بذریعہ میسیج رابطہ کیا کہ اُن کے چہرے پر کافی تِل بن رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہیں۔ ایسی دوائی بتائیں کہ یہ بالکل ختم ہو جائیں۔ اُن سے کہا گیا کہ یہ اتنا سادہ مسئلہ نہیں ہے۔ وہ فون کر لیں تاکہ بات سمجھائی جا سکے۔ مسئلے کو سمجھے بغیر جسم کے ابھار یا تِل دبا دینا سیدھا سادہ کسی بڑی اور موذی بیماری مثلاً کینسر کو دعوت دینا ہے۔ مگر اُن کا اصرار جاری رہا کہ اُن کو دوائی بتائی جائے —- یعنی اُن کو کینسر کا مرض لاحق کروانے کی ذمہ داری اپنے سر لی جائے۔
مرد بالخصوص نوجوان لڑکے اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے جب نامردی یا جنسی مسائل کا شکار ہو چکتے ہیں تو بھی باقاعدہ علاج کروانے کے بجائے نسخے طلب فرماتے ہیں کہ جس سے وہ دوبارہ طاقتور ہو جائیں۔ اُن کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو خرابی سالوں کی غلطیوں کا نتیجہ ہے وہ ایک دو دوائیوں سے یا فوراً کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ اُس کے لئے کئی ماہ کا علاج ضروری ہے اور ہر دس پندرہ دن بعد نئی کیفیت کے مطابق دوائی تبدیل کرنی پڑ سکتی ہے۔ یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی فوری حل نکالنے کی کو شش کرو گے تو ایک دو سال میں اپنے گردے اور صحت تباہ کر بیٹھو گے۔ مگر وہ اللہ رسول کے واسطے دینا شروع کر دیں گے کہ اُن کو دوائی بتائی جائے کیونکہ اگلے ماہ اُن کی شادی ہے یا اب اُن کی اولاد نہیں ہو رہی ۔۔۔ یعنی معاملہ کو سمجھنے کی بجائے ڈاکٹر سے یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے گردے فیل کئے جائیں تاکہ دو چار سال میں وہ ایک جوان جہان بچی کو بیوہ کر جائیں۔
جوان بچی رابطہ کرے گی کہ اُس کے چہرے پر سخت بال ہیں اور دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ وہ لیزر بھی کروا چکی ہے اور بہت ساری کریمیں بھی باقاعدگی سے استعمال کر رہی ہے۔ وہ پچھلے چھ سال سے موٹی ہوتی جا رہی ہے حالانکہ کھاتی پیتی بھی زیادہ نہیں۔ اُسے علاج “بتایا” جائے تاکہ اُس کا چہرہ صاف ہو جائے اور وہ پہلے کی طرح سمارٹ سلم ہو جائے۔ اُن سے جب پوچھنے کی کوشش کی جائے کہ اپنے متعلق کچھ اَور بتائیں تو جواب ہوتا ہے کہ اَور سب ٹھیک ہے؛ کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کے پورے خاندان میں بھی کسی بیماری کا نام و نشان تک بھی نہیں ہے۔ وہ کبھی نہیں سُنیں سمجھیں گی کہ اصل مسئلہ کہیں اندر ہو گا۔ اُس کو سمجھے اور حل کئے بغیر صرف موٹاپے اور بالوں کا علاج کریں گے تو تولیدی، ہارمون یا مینسز کے نظام میں خرابی پیدا ہونے کا امکان ہے جو بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ جواب سننے یا پڑھنے پر کوئی توجہ نہیں دے گی۔ بس اپنا اصرار جاری رکھے گی کہ اُسے دوائی بتائی جائے۔
کوئی ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی مریض چالاک بنتے ہوئے ڈاکٹر کو پاگل بنانے کی کوشش کرے گا۔ فون پر یا میسیج پر بتائے گا کہ نیند بالکل نہیں آتی؛ کئی سالوں سے راتوں کو دیر تک جاگتا رہتا ہوں۔ اب تو نیند کی تین تین گولیاں کھانے کے بعد نیند نہیں آتی۔ دن کو ہر وقت غنودگی چھائی رہتی ہے۔ میری جاب بھی ختم ہو گئی ہے۔ مجھے علاج بتائیں تاکہ کچھ ٹھیک ہو جاؤں تاکہ اگلے ہفتے آپ کے پاس آ کر فیس دے جاؤں۔ وہ ہوں ہاں کرتے رہیں گے مگر بات اُن کے اندر نہیں جائے گی کہ علاج کے لئے ساری کیفیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ اُن کا فون اچانک بند ہو جائے گا۔ ڈاکٹر خود فون کرے گا تاکہ بے چارے کو بات سمجھا دے تو بار بار کاٹ دیں گے یا آف ہی کر دیں گے۔
ایسے شہزادے تو خیر مارے مارے پھرتے ہیں کہ ڈاکٹر کو بار بار میسیج کریں گے کہ وہ بہت مشکل میں ہیں کہ اپنا مسئلہ ڈسکس کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اُن کو بتائیں گے کہ ابھی مصروف ہوں کیونکہ کیس لے رہا ہوں۔ وہ بار بار میسیج کریں گے یا مس کال دیں گے۔ آپ اُن کا مسئلہ سننا شروع کریں گے تو پانچ منٹ کے اندر وہ فرمائیں گے کہ اُن کا بیلینس ختم ہونے والا ہے اور پھر اِسی دوران اُن کا بیلینس ختم ہو جائے گا۔ یہ اُن کا پہلا اور آخری فون ہوتا ہے۔
کوئی صاحب رابطہ فرمائیں گے کہ اُنہیں نوکری کے لئے باہر جانا ہے۔ باقی سب کچھ تیار ہے مگر ٹیسٹ میں ہیپاٹائیٹس (Hepatitis) مثبت آ گیا ہے۔ کوئی ایسی دوائی دی جائے کہ جو میڈیکل ٹیسٹ رپورٹ کو نیگیٹو کر دے۔ اُس کو جتنا سمجھائیں کہ رپورٹ کو بھول کر اپنا علاج کروائیں۔ مگر وہ کوئی مشورہ نہیں سنیں سمجھیں گے۔ رپورٹ ٹھیک بھی آ گئی تو آپ کی بیماری ختم نہیں ہو جائے گی۔ بغیر علاج رہنے سے دو چار سال بعد علاج کے قابل بھی نہیں رہو گے اور پتہ نہیں کتنوں کو اپنی بیماری لگانے کی وجہ بنو گے۔ مگر وہ کچھ نہیں سنیں گے اور پوچھتے رہیں گے کہ کون سے ڈراپس لوں۔
الغرض ہر روز ایسے کئی پڑھے لکھے خواتین و حضرات سے واسطہ پڑتا ہے کہ اُن کی سوئی کسی مسئلہ پر پھنسی ہوتی ہے۔ وہ کوئی اچھی بات یا مشورہ اپنے دل و دماغ تک پہنچنے ہی نہیں دیتے؛ اُس پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے۔ جو لوگ ہومیوپیتھک ڈاکٹر کو گوگل (google.com) سمجھتے ہیں یا میڈیکل سٹور والا تو اُن کو ہومیوپیتھی علاج سے، آخرکار، نقصان تو بہت ہو سکتا ہے؛ فائدہ بالکل بھی نہیں۔ ایسے لوگوں کو ہومیوپیتھی طریقہ علاج یا ہومیوپیتھک دوا کی نہیں؛ تکے، ٹوٹکے اور نسخوں کی تلاش ہوتی ہے کہ جنہیں استعمال کر کے وہ اپنی صحت برباد کر سکیں۔ ہومیوپیتھک ڈاکٹر کی، بہرحال، ہر ممکن کوشش ہونی چاہئے کہ عقل کے اِن اندھوں کو کچھ سمجھ آ جائے؛ اُن کے دماغ کا تالا کھل جائے اور اپنے اصل مسائل کا علاج کروائیں تاکہ ممکنہ بڑی بیماریوں سے بچ سکیں۔
جو ہومیوپیتھک ڈاکٹر دو چار باتیں سنتے ہی پرانی بیماری کا علاج شروع کر دیتا ہے؛ وہ ہومیوپیتھی کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ یاد رکھئے! ہومیوپیتھی میں علاج مریض کا کیا جاتا ہے مرض کا نہیں۔ اگر مریض کے معاملاتِ زندگی سامنے نہ ہوں یا کم از کم فون پر ڈسکس نہ کر لئے جائیں تو دوا دینا محض تُکہ ہو گا جو کبھی کبھار چل بھی جائے تو اُس کے اثرات محض عارضی ہوں گے۔
وقتی اور فوری تکلیفوں (Acute Diseases) کے علاج میں البتہ دو چار تکلیفوں کا سُن پوچھ کر دوائی دینے یا بتانے میں کوئی حرج نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تکلیف بھی عارضی ہوتی ہے اور اُس کی دوائی بھی دو چار دن ہی لینی ہوتی ہے۔
پرانی تکلیفوں (chronic diseases) کو سمجھنے اور علاج کرنے کے لئے ہومیوپیتھک ڈاکٹر کو کتنی گہرائی تک جانا ہوتا ہے اُس کی تفصیل دیکھنی ہو تو نیچے دئے گئے لنکس پر کلک کریں۔ جب بھی ہومیوپیتھ ڈاکٹر سے اپنا مسئلہ ڈسکس کرنا ہو تو وقت نکال کر بات کریں۔ میسیج پر دوائیاں یا علاج پوچھ کر ڈاکٹر کا وقت اور اپنی صحت برباد کرنے کی ضد نہ کیا کریں۔ اِس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہومیوپیتھی میں غائبانہ علاج کی کوئی گنجائش ہے ہی نہیں۔
Questionnaire or Case Taking Questions for Online Homeopathic Treatment
حسین قیصرانی – سائکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ – لاہور پاکستان – فون 03002000210۔