خراب مدافعتی نظام بھی ڈپریشن کی وجہ ہو سکتا ہے

سائنسدانوں کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں 35 کروڑ افراد ڈپریشن کے مرض کا شکار ہیں اور اب طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس مرض کو سمجھنے اور اس کے علاج کے سلسلے میں ایک اہم دریافت کی ہے۔ ڈپریشن کے مریضوں کا علاج عموماً مسکّن ادویات اور نفسیاتی علاج سے کیا جاتا ہے اور اس سے مریضوں کی اکثریت کو فائدہ بھی ہوتا ہے۔ تاہم کچھ مریض ایسے بھی ہیں جن پر کوئی بھی موجودہ علاج اثر نہیں کرتا اور سائنسدان اب یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا ان کا مدافعتی نظام ہی تو ڈپریشن کی وجہ نہیں بن رہا۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کا گہرا تعلق انسانی جسم کے مدافعتی نظام سے ہے اور جن افراد کا دفاعی نظام ہی ان کے دماغ کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے وہ بھی ممکنہ طور پر ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ڈپریشن اور انفلیمیشن کا گہرا تعلق ہے۔ اگر آپ کو فلو ہے تو آپ کا مدافعتی نظام ردعمل ظاہر کرتا ہے اور اکثر لوگ اس کا اثر اپنے موڈ میں بھی محسوس کرتے ہیں۔
پروفیسر بلمور اس تحقیق کے روحِ رواں اور برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے سائکیاٹری ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر ایڈ بلمور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ توجہ کا مرکز وہ خراب مدافعتی نظام ہے جو جسم میں سوجن پیدا کرتا ہے اور موڈ بدل دیتا ہے۔ ان کے مطابق ’یہ ایسی چیز ہے جس سے ہم سب کا واسطہ پڑتا ہے مثلاً آپ یہ سوچیں کہ آخری بار جب آپ کو نزلہ اور زکام ہوا تو آپ کا موڈ کیسا تھا۔‘ پروفیسر بلمور کا کہنا ہے کہ ’ڈپریشن اور انفلیمیشن کا گہرا تعلق ہے۔ اگر آپ کو فلو ہے تو آپ کا مدافعتی نظام ردعمل ظاہر کرتا ہے اور اکثر لوگ اس کا اثر اپنے موڈ میں بھی محسوس کرتے ہیں۔‘ ہمارے خیال میں مدافعتی نظام وہ کلیدی میکانزم ہے جس کی مدد سے ابتدائی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کا دیرپا اثر ہوتا ہے۔
پروفیسر کارمین پریانتے آرتھرائٹس کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں نے بھی اس سلسلے میں ایک عجیب تعلق دریافت کیا ہے۔ اس بیماری کی ایک قسم ریوماٹوائیڈ آرتھرائٹس میں انسانی جسم کا مدافعتی نظام اس کے جوڑوں کو نشانہ بناتا ہے اور جب اس کے مریضوں کو ایسی ادویات دی گئیں جس نے ان کے مدافعتی نظام پر اثر کیا تو ان کا موڈ بھی بہتر ہوگیا۔ اس مرض کے ایک معالج پروفیسر ایئن مکائنز کا کہنا ہے کہ ’جب ہم یہ طریقۂ علاج استعمال کرتے ہیں تو ہم مریضوں کا موڈ تیزی سے بحال ہوتے دیکھتے ہیں جبکہ اس کا اثر ان کے اعضا اور جوڑوں پر اتنا نہیں دکھائی دیتا۔‘ ان کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ مریض جوڑوں کے درد میں کمی کی وجہ سے بہتر موڈ میں نہیں ہوتے بلکہ اس کی اصل وجہ کچھ اور ہوتی ہے۔
پروفیسر مکائنز کے مطابق ’جب ہم نے ایسے مریضوں کے دماغ کی سکیننگ کی تو معلوم ہوا کہ اس طریقۂ علاج سے ان کے دماغ کے نیورو کیمیکل سرکٹ میں بڑی تبدیلیاں آتی ہیں۔‘ کنگز کالج لندن سے تعلق رکھنے والی بایولوجیکل سائکیاٹری کے پروفیسر کارمین پریانتے کا کہنا ہے کہ انسان کے مدافعتی نظام میں تبدیلیوں کی وجہ اس کی زندگی میں پیش آنے والے پریشان کن واقعات بھی بنتے ہیں جو مستقبل میں ڈپریشن کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے خیال میں مدافعتی نظام وہ کلیدی میکانزم ہے جس کی مدد سے ابتدائی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کا دیرپا اثر ہوتا ہے۔‘ ان کے مطابق ’ہمارے پاس کچھ ڈیٹا ہے جس کے مطابق وہ افراد جن کی ابتدائی زندگی میں ٹراما رہا ہو، اگر وہ کبھی بھی ڈپریشن کا شکار نہیں رہے تو بھی ان میں اس کا خطرہ رہتا ہے۔‘
پروفیسر کارمین پریانتے کے مطابق ’اس تحقیق سے پہلی بار یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ڈپریشن صرف ایک ذہنی یا دماغی بیماری نہیں بلکہ یہ تو پورے جسم کی بیماری ہے۔‘
0 0 votes
Article Rating
kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter