’کینسر کا لفظ ہی ایسا ہے کہ جسے سُن کر ہم گھبرا جاتے ہیں۔ جب مجھے ڈاکٹر شازیہ نے بتایا کہ مجھے سروائیکل کینسر (بچہ دانی کے منھ پر بننے والا کینسر) ہے تو میرے سامنے میری دونوں بیٹیوں کا چہرہ گھوم گیا۔‘
’جب اس بیماری کا پتا چلے تو پلیز اپنی قوت ارادی کو کمزور مت پڑنے دیں۔ رو دھو لیں، جو دل چاہے کریں مگر صرف ایک، دو روز۔ کبھی بھی ہمت نہ ہاریں، مثبت رہیں اور اچھا سوچیں تو بہتر ہی ہو گا۔‘
سروائیکل کینسر سے متاثرہ 50 سالہ صائمہ علی (فرضی نام) ریڈی ایشن کا سیشن کروانے کے بعد ہمیں اپنی بیماری اور اس کے اثرات سے متعلق آگاہ کر رہی تھیں۔
صائمہ علی میں تقریباً دو ماہ قبل سروائیکل کینسر کی تشخیص ہوئی تھی جو ابتدائی سٹیج پر ہے۔
ان دنوں وہ کیمو تھراپی اور ریڈی ایشن کے ذریعے کینسر کا علاج کروا رہی ہیں تاکہ ایک بار پھر صحت مند ہو کر زندگی میں اپنے خوابوں کی تکمیل کر سکیں۔
صائمہ بتاتی ہیں کہ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران تولیدی صحت کے حوالے سے انھوں نے اپنے اندر کچھ غیر معمولی تبدیلیاں محسوس کیں جنھیں نظر انداز کرنے کے بجائے انھوں نے فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کیا۔
’دو ماہ پہلے میں جب پری میچیور مینو پاز(عمر کے ساتھ ماہواری بند ہونے کا قدرتی عمل) کے مرحلے میں تھی اور اس کے باعث ماہواری میں بے قاعدگی آنے لگی تو اس دوران مجھے ایک ہفتے تک مسلسل سپاٹنگ (اندام نہانی سے کم مقدار میں خون کا اخراج) شروع ہوئی۔‘
’پہلے میں سمجھی کہ پیریڈز ہو رہے ہیں مگر مجھے کہیں درد نہیں تھا۔ پھر میں گائناکالوجسٹ کے پاس گئی تو میری علامات سُن کر انھوں نے کچھ ٹیسٹ کیے، پیپ سمیئر(سکریننگ کا ایک عمل) کیا اور پھر مجھے بتایا کہ یہ سروکس کا کینسر ہے جو بالکل ابتدائی مرحلے پر ہے۔‘
جنوری کا مہینہ سروائیکل کینسر کی آگاہی سے منسوب ہے تاکہ خواتین کو اس قابل علاج کینسر کی علامات سے متنبہ کیا جا سکے۔
سروائیکل کینسر کی تشخیص سے لے کر اس کے علاج اور اس سے متاثر ہونے کی اہم وجوہات جاننے کے لیے ہم نے ماہرین سے اس بارے میں تفصیل سے بات کی ہے۔
سروائیکل کینسر کیا ہے اور اس کی تشخیص کیسے ہوتی ہے؟
آگے بڑھنے سے پہلے جان لیتے ہیں کہ سروائیکل یا سرویکس کا کینسر دراصل ہے کیا؟
شفا انٹرنیشنل اسلام آباد کے شعبہ گائناکالوجی کی سربراہ ڈاکٹر شازیہ فخر کے مطابق ’سرویکس بچہ دانی کے منھ کو کہا جاتا ہے۔ جب سرویکس پر غیر معمولی سیلز یا خلیوں کی افزائش ہونے لگے تو یہ سروائیکل کینسر بن جاتا ہے۔ ہر کینسر کی سکریننگ نہیں ہو سکتی لیکن سروائیکل کینسر کی ابتدا میں ہی تشخیص کے لیے ’پیپ سمیئر‘ نامی آسان سکریننگ ٹیسٹ موجود ہے۔‘
کینسر کی علامات سامنے آنے کے بعد سکریننگ اور دیگر تمام ٹیسٹوں کے نتائج نے صائمہ کے اندر بننے والے کینسر کی تصدیق کر دی۔
’جس دن میرے تمام ٹیسٹس کی رپورٹس آنا تھیں اس دن میں خود کو بہت بہادر جانتے ہوئے اکیلے ہی ہسپتال گئی تھی مگر جب انھوں نے کینسر کی تشخیص کی تو ابتدا میں میں گھبرا کر بہت روئی۔ میری ہچکیاں بندھ گئیں، سارا سٹاف جمع ہو گیا۔ پہلے دن تو میں بہت پریشان رہی اور روتی رہی۔‘
’میری دو بیٹیاں ہیں، ان کا سوچ کر میں اس عزم سے دوبارہ کھڑی ہو گئی کہ اس سارے عمل کو زندگی کا ایک چینلج سمجھ کر اس کا سامنا کروں گی۔‘
تولیدی نظام میں وہ بے قاعدگیاں جو سروائیکل کینسر کی علامات ہو سکتی ہیں
ڈاکٹر شازیہ فخر کے مطابق سروائیکل کینسر کے بارے میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ وہ بڑی عمر کی خواتین کو متاثر کرتا ہے تاہم سرویکس کا کینسر نوجوان لڑکیوں کو بھی ہو جاتا ہے۔
ان کے مطابق اس لیے ضروری ہے کہ تولیدی نظام میں ایسی غیر معمولی تبدیلیاں نظر آنے پر ڈاکٹر سے فوری رجوع کریں۔
اگر بڑی عمر کی خواتین کو ایسی علامات کا سامنا ہو جن میں:
- بڑھتی عمر کے ساتھ آپ کو پیشاب کے بہت مسائل پیش آ رہے ہوں
- ماہواری کا فطری نظام ختم ہو چکا ہو اور اس کے بعد دوبارہ خون آنے لگے
- اندام نہانی سے پیلے رنگ کا بدبودار ڈسچارج (مواد) نکلنے لگے
ڈاکٹرز کے مطابق اگر آپ نوجوان ہیں تو ان علامات کی صورت میں فوری ڈاکٹر کے پاس جائیں جب:
- دو ماہواریوں کے بیچ میں کوئی سپاٹنگ یعنی (خون کا) دھبہ لگے
- سیکس کے بعد ایک دم سے بلیڈنگ یا سپاٹنگ ہو جائے
- ماہواری میں بے قاعدگی ہو/وقت بے وقت پیریڈز آئیں
مندرجہ بالا علامات کے علاوہ بعض اوقات پیٹ کے نچلے حصے میں اور کمر میں انتہائی شدید اور مستقل درد بھی خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتا ہے جبکہ پیشاب کا مستقل اخراج بھی سروائیکل کینسر کی ایڈوانس سٹیج کی ایک علامت ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر شازیہ کے مطابق ضروری نہیں کہ یہ تمام علامات کینسر کی ہی ہوں لیکن اس کے لیے مستند معالج سے چیک اپ کروانا ضروری ہے۔
’ یہ واحد کینسر ہے جس کی آسان سکین سے تشخیص اور علاج ممکن ہے‘
ڈاکٹر شازیہ فخر کے مطابق سروائیکل کینسر وہ واحد کیسنر ہے جس میں دیگر کینسر کے برعکس بالکل ابتدائی مرحلے میں سکریننگ کے عمل کے ذریعے تشخیص ممکن ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر اوپر دی گئی کسی بھی علامت کے ساتھ آپ ڈاکٹر کے ہاں گئے اور وہاں سرویکس نارمل سے ہٹ کر محسوس ہو یا کسی گروتھ کا شک ہو تو ’پیپ سمیئر‘ کیا جاتا ہے۔
ان کے مطابق ’پیپ سمیئر میں نہ کوئی کٹ لگتی ہے، نہ خطرناک یا تکلیف دہ طریقے سے ٹشو کا نمونہ لیا جاتا ہے بلکہ جس طرح گائناکالوجسٹ آپ کا اندر سے معائنہ کرتی ہیں اُسی طرح ایک پلاسٹک کے چھوٹے سے سپیچولہ (چمچ نما چھوٹا سا طبی اوزار) سے سرویکس کے گرد گھما کر وہاں کے خلیات کا نمونہ لے لیا جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر شازیہ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق شادی شدہ خواتین کو تین سال کے بعد پیپ سمیئر سکین کرواتے رہنا چاہیے اور اگر یہ سکریننگ باقاعدگی سے نارمل آ رہی ہے تو جان لیں کہ آپ سروائیکل کینسر سے محفوظ ہیں۔
’شادی کے وقت ویکسین لگوائیں تو سروائیکل کینسر کا امکان کم ہو جاتا ہے‘
ڈاکٹر شازیہ کے مطابق انسانی جسم میں پایا جانے والے ہیومن پیپی لوما وائرس کا انفیکشن بھی سرویکس کے کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔
ہیومن پیپی لوما وائرس انسانی جسم کی جلد کی تہوں میں پایا جاتا ہے۔
’اگر رحم یا اندام نہانی کے اندر اس وائرس کی موجودگی ہو تو آپ کو پیپ سمیئر بار بار کروانا چاہیے۔ ہیومن پیپی لوما وائرس سروائیکل کینسر کی عام مگر بڑی وجہ بن سکتا ہے مگر کچھ ایسی ویکسین ہیں جو اس کے بچاؤ کے لیے ہیں اور مارکیٹ میں عام دستیاب ہیں۔ اس میں کچھ ویکسین دو جبکہ کچھ چار اقسام کو کور کرتی ہیں۔‘
’اگر ہم شادی کے وقت ازدواجی تعلقات شروع کرنے سے پہلے اپنی بچیوں کو وہ ویکسین لگوا دیں تو اس سے ہیومن پیپی لوما وائرس کے انفیکشن کا امکان بھی کم ہوتا ہے اور آگے چل کر سروائیکل کینسر سے متاثر ہونے کا خدشہ بھی کم ہو جاتا ہے۔‘
’خواتین شرم کے باعث غیر معمولی خون کا اخراج نظر انداز دیتی ہیں‘
خیال رہے کہ پاکستان کے بڑے شہروں کی نسبت ایسے علاقوں میں اس کی آگاہی قدرے کم ہے جہاں کی سخت روایات خواتین کو اس بیماری پر بات تو کیا سوچنے سے بھی روک دیتی ہیں۔
ڈاکٹر نوشین سکندر ماہر گائنی انکالوجی (خواتین میں تولیدی صحت سے متعلق اعضا کے ٹیومر اور کینسر کی ماہر) ہیں اور بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے سول ہسپتال میں تعینات ہیں۔
بلوچستان میں سروائیکل کینسر کی آگاہی سے متعلق جب ہم نے ان سے سوال کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ یہاں صرف بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے ہی نہیں بلکہ سرحد سے متصل افغانستان اور ایران سے بھی ایسی خواتین آتی ہیں جو سرویکس کے کینسر سے متاثرہ ہوتی ہیں۔
’بدقسمتی سے ان میں سے زیادہ تر خواتین کینسر کی ایڈوانس سٹیج میں ہسپتال میں آتی ہیں جو یا تو سرجیکل ٹریٹمنٹ کے سکوپ سے باہر ہو چکی ہوتی ہیں اور اس باعث ان کے صحتیاب ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔‘
ڈاکٹر نوشین نے اس کی وجہ آگاہی کی کمی کے ساتھ روایت پسندی اور پسماندگی کو بھی قرار دیا۔
’روایت پسند معاشرے کی پلی بڑھی متاثرہ خواتین شرم اور جھجھک کے باعث اکثر ظاہر ہی نہیں کرنا چاہتیں کہ ان کو کچھ غیر معمولی خون کا اخراج یا رطوبتوں کا اخراج ہو رہا ہے۔
’عام طور پر خواتین پیریڈز سے متعلق ایسی تمام علامت کو نظر انداز کرنے کی عادی ہوتی ہیں کہ یا تو یہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا یا یہ کہ ایسا تو خواتین کے ساتھ ہوتا ہی رہتا ہے۔‘
ان کے مطابق تعلیم و آگاہی کا فقدان، ریڈیالوجیکل ٹیسٹ اور بائیوپسی کی استطاعت نہ ہونا بھی مرض کی ابتدا میں تشخیص میں رکاوٹ ہے۔
یہ بھی پڑھیے
’مریض کو مثبت سوچ کے افراد جینے کا حوصلہ دیتے ہیں‘
صائمہ علی اب کیمو تھراپی اور ریڈی ایشن کے مرحلے سے گزر رہی ہیں اور ساتھ ہی آنے والے اچھے دنوں کے لیے نہ صرف پُرامید ہیں بلکہ صحتیاب ہونے کے بعد بہت سے ادھورے کام مکمل کرنے کے لیے بھی پُرعزم ہیں۔
اپنے اندر جینے کی امنگ جگائے رکھنے کا کریڈٹ وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ اپنے اردگرد موجود مثبت سوچ کے حامل افراد کو دیتی ہیں۔
’میرا سپورٹ سسٹم بہت اچھا ہے۔ میرے بہن بھائی، ان کی فیملیز، میرے سسرال والے اور سب سے بڑھ کر میری بیٹیاں ہیں۔۔۔ جنھوں نے میرا جینے کا حوصلہ بڑھائے رکھا۔
’بیماری آزمائش نہیں بلکہ بیماری کے وقت آپ نہ صرف اللہ کے قریب ہو جاتے ہیں بلکہ اس سے اپنے لیے مانگتے بھی ہیں اور زندگی میں یہ آپ کا ’می ٹائم‘ بھی ہوتا ہے جس میں آپ اپنے لیے چیزیں سوچتے اور کرتے ہیں۔‘
۔۔۔۔۔۔ بشکریہ : بی بی سی اردو