لاہور ۔ مغلپورہ، سیمینار سے خطاب

 

محترم ڈاکٹر حضرات اور ڈیئر سٹوڈنٹس۔
آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ جو آپ ساتھی موسم کی سختی اورسردی کے باوجود تشریف لائے ۔ اور خصوصاً وہ ساتھی جو دوسرے شہروں سے طویل سفر کر کے پہنچے ۔ آپ کی یہ کاوش قابل ستائش ہے ۔ہم لاہور شہر میں جمع ہوئے ہیں۔ لاہور تاریخ میں اہل علم کا شہر رہا ہے اور اس میں علم دوست لوگ اور ماہرین ہومیوپیتھی بستے ہیں اور یہ بہت بڑی بات ہے ۔
آج کے اس لیکچر کے انعقاد اور انتظامات پرہم ڈاکٹر آصفہ مظہر کے ممنون ہیں ۔ جن کی کاوش اور انتھک محنت کے بغیر شاید یہ سب کچھ نہ ہو سکتا ۔طویل عرصہ سے ڈاکٹر آصفہ کی خواہش تھی کہ لاہور میں سلسلہ وار ماہانہ لیکچر کا اہتمام کیا جائے تاکہ ہمارے ساتھی پریکٹیشنرز اور سٹوڈنٹس کے لیے روزمرہ پریکٹس میں آسانی ہو ۔
مجھے خوشی ہے کہ خاصی تعداد میں آپ ساتھی جمع ہیں ۔ لیکن اگر میرے دل کی بات پوچھیں اور ہومیو پیتھی کے لیے میرے جذبات کا عالم پوچھیں تو میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ شائقین ہومیو پیتھی کے لیے یہ ہال کم پڑ جائے ۔
دراصل ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں ہومیوپیتھی کا اصل چہرہ دکھایا ہی نہ گیا ۔ ہمیں صحیح concept سے آگاہ نہیں کیا گیا ۔ اور آپ سب جانتے ہیں کہ اس کے ذمہ دارہمارے ارباب بست و کشاد ہیں ۔
میں اس پر مزید تبصرہ تو نہیں کروں گا ۔ لیکن آپ کو اینڈرے سین کا تبصرہ سنا دیتا ہوں ۔جو اس نے ہومیو پیتھک اداروں پر کیا ۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ اینڈرے سین بڑا hard liner ہومیو پیتھ اور کینیڈا faculty of homoeopathy کا ڈین ہے ۔ اس کا کہنا ہے ۔
Blind is leading to blind.
لیکن اس سب کے باوجود ہم حالات کا رونا رونے نہیں بلکہ اپنے حصہ کی شمع جلانے اکٹھے ہوئے ہیں۔ ہم نے دئیے سے دیا جلانا ہے۔ افلاطون نے کہا تھا علم ایک ایسے چراغ کی مانند ہے جس سے ہزاروں چراغ جلائے جا سکتے ہیں لیکن اس کی اپنی روشنی میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔اللہ کرے ہومیوپیتھی کا چراغ جلتا رہے اور آئے دن اس کی روشنی میں اضافہ ہوتا چلا جائے۔
ہمارے سلسلہ وار لیکچرز کا مقصد ۔ اپنی کوتاہیاں دور کرنا ، ہومیو پیتھی کے اصل چہرے کی شناخت ۔اور درست سمت میں رہنمائی ہے ۔ ہمارا مقصد اپنے گم گشتہ وقار کی تلاش ہے ۔اپنی روزمرہ پریکٹس کو result oriented بنانا ہے۔
ہم سوسائٹی میں ایسا ہومیو پیتھ بننا چاہتے ہیں جس کے پاس مریض اعتماد سے آئیں اور اپنا علاج کرائیں ۔
محترم ساتھیو! آخر ایسا کیوں ہے کہ ایسے مریض جنہیں ایلو پیتھی میں ناقابل علاج declare کر دیا جاتا ہے اور وہ پھر بھی ہومیو پیتھی کا رخ نہیں کرتے ؟ لوگ ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتے ؟ اور یہ بات میں بحیثیت مجموعی کہہ رہا ہوں ۔
میں جس نتیجہ پر پہنچا ہوں ۔
The fault is within.
اگر ہم اپنی غلطیوں ، کوتاہیوں پر غور نہیں کریں گے ۔ انہیں دور کرنے کے لیے جدوجہد نہیں کریں گے ، قربانی نہیں دیں گے تو نہ وہ سورج نکلے گا نہ اپنے دن بدلیں گے ۔
اور سب کچھ آپ کے سامنے ہے ۔
دوران انٹرویو جارج وتھالکس سے انڈین ہومیو پیتھ Manish bhatia نے سوال کیا ۔
آپ کے خیال میں ہومیو پیتھی عوام میں کب مقبول ہو گی ؟
جارج کا جواب سنیے ۔
جب دنیا مادیت پسندی سے باہر آئے گی ۔
یہاں جو بات میں add کرنا چاہتا ہوں ۔
کہ دنیا کو مادیت پسندی سے باہر آنا چاہیے۔ لیکن براہ مہربانی اس سے پہلے ہومیو پیتھ مادیت پسندی سے باہر آجائیں ۔ یہ بہت ضروری ہے ۔
One can not understand the dynamic power of homeopathy unless he adopts it.
میری نظر میں ایک ہومیو پیتھ جو محض اس وجہ سے کچھ سیکھنے کتراتا ہے اور کلینک بند نہیں کرتا کہ دیہاڑی کا حرج ہو گا ۔ مادیت پسندی کی مثال ہے ۔
ایسا ہومیو پیتھ بد قسمتی سے ایک Vicious چکر میں پھنس جاتا ہے ۔ کیوں؟
اس لیے کہ کچھ سیکھنے کی غرض سے کلینک نہیں بند کرتا ۔ لہذا کچھ سیکھ نہیں سکتا۔ اور چونکہ سیکھ نہیں سکتا اس لیے اس کی روزمرہ آمدنی میں اضافہ نہیں ہوتا ۔اور بقول شاعر
وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے ۔
ہمارے ہاں کتنے سیمینارز ہوتے ہیں ؟ یقیناً کافی ہوتے ہیں ورکشاپس ، سٹڈی سرکل ہر چھوٹے بڑے شہر میں ان کا انعقاد ہو رہا ہے ۔
آپ وہاں جا کر دیکھیں معدودے چند ہومیو پیتھس شرکت کرتے ہیں ۔
اس بات میں کافی وزن ہے کہ لوگ سکھاتے نہیں، دوسروں کے لیے وقت نہیں نکالتے۔ لیکن اس بات میں بھی بڑا وزن ہے کہ لوگ سیکھنے کے لیے قربانی دینے کو تیار نہیں۔ اور یاد رکھیے ! قربانی ہمیشہ سیکھنے والا دیتا ہے۔جو اس نکتہ کو پا گیا، کامیابی اُس کا مقدر ٹھہری
دکھ تو اس بات کا ہے کہ احساس زیاں ہی نہیں ۔
مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا ۔ ایک دیہاتی شہر میں گیا ۔۔۔۔۔۔۔
ہم میں سے بعض ساتھی جو ذرا سینیئر ہو جاتے ہیں ۔انہیں یہ خوش فہمی ہو جاتی ہے کہ وہ بہت کچھ جان چکے ہیں ۔
میری آپ سے درخواست ہے کہ زندگی بھر اس سوچ کو دماغ میں داخل نہ ہونے دینا ۔ جس دن یہ سوچ ا ندر گھس گئی وہ دن ہمارے زوال کا دن ہو گا۔
ہمیں ہر لمحہ اپنے Receptor کھلے رکھنے ہوں گے ۔ دل کے کواڑ کبھی بند نہیں کیے جاتے ۔
ماشااللہ آج کی اس محفل میں بہت سارے سینیئر ہومیوپیتھس بھی تشریف رکھتے ہیں اور میں خود بھی ان سے سیکھتا رہتا ہوں ۔
دراصل یہ سیکھنے سکھانے کا عمل Mutual ہے ۔ چراغ سے چراغ جلائے رکھنا ہے ۔ اپنی زاد راہ کمانا ہے ۔
ایک دیا مٹی کے اندر بھی رکھنا ہے تا کہ زمین میں بھی روشنی ہو ۔
محترم دوستو! اللہ نے توفیق دی تو ہم یہ سلسلہ جاری رکھیں گے ۔ اگر آپ کا تعاون رہا تو ۔۔۔۔۔۔ آپ سے درخواست ہے کہ آج کے لیکچر کے اختتام پر اگر آپ مطمئن ہوں تو ساتھیوں کو جا کر بتلائیں اور انہیں شرکت کی دعوت دیں ۔
اور اگر غیر مطمئن ہوں توہمیں بتائیں، کھل کر اظہار کریں ۔ لیکچر کے اختتام پر آپ اپنے comment سے ضرور آگاہ کریں ۔ comment paper آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا ۔ اور آپ نے جی کھول کر comments کرنے ہیں اور اس سلسلہ کو بہتر بنانے کے لیے Suggestion بھی دینی ہے ۔آپ کی تجاویز کی روشنی میں ہم اپنا لائحہ عمل بہتر بنا سکیں گے۔
اور Timings کے حوالے سے بھی اپنی رائے سے آگاہ کرنا ہے ۔
ہماری کوشش ہو گی کہ آئندہ ہم ملکی سطح پر معروف ڈاکٹرز کو بھی اس سٹیج پر بلائیں ۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں ۔ دیکھنے میں آیا ہے کچھ ساتھیوں کی ہومیوپیتھی کے مختلف شعبوں میں Expertise ہیں ۔ ہم ان کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں گے ۔ اس حوالے سے آج میرے ساتھ پنڈی سے ایسے ڈاکٹر صاحبان تشریف لائے ہیں ۔ جن میں ایک گردہ کے امراض، دوسرے Impotency اور Infertility میں خصوصی تجربہ اور مہارت رکھتے ہیں ۔ ہم آئندہ دنوں میں ان کے علم و تجربہ سے بھی فائدہ اٹھائیں گے ۔
میری نظر میں کئی ڈاکٹر صاحبان ہیں ۔ اگر آپ کا تعاون رہا تو انشاء اللہ بہت کچھ آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا ۔
اس سے پہلے کہ میں اپنے موضوع پر آؤں ۔ میں خاص طور پر معزز مہمانوں کا تشریف لانے پر شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ۔
ڈاکٹر ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔
میں چاہتا ہوں کہ آپ ایسے پریکٹیشنر بنیں جن کی روزانہ آمدن five digit اور ماہانہ six digit میں ہو ۔ اللہ آپ کے رزق میں برکت عطا کرے اور آپ کے ہاتھوں میں شفایابی عطا کرے ۔
اور میں یہ کوئی فرضی بات نہیں کر رہا ۔ یہ حقیقت ہے ۔ میری بے شمار ڈاکٹروں سے ملاقات رہی ہے اور میری نظر میں ایسے پریکٹیشنر موجود ہیں جو اس لیول پر پریکٹس کر رہے ہیں ۔
And why not you also one of them?
آئندہ آنے والے لیکچرز کے کچھ خاکے میں آپ کے سامنے لانا چاہوں گا ۔ ہم Mostly پولی کریسٹ دواؤں کو Focus کریں گے ۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہومیوپیتھی میں سارا کھیل 70/80 بڑی دواؤں کے گرد گھومتا ہے ۔اگر آپ اتنی دواؤں کو Indepth سمجھ لیں تو آپ بلا مبالغہ 80% کیسز کامیابی سے ڈیل کر سکتے ہیں ۔
باقی رہا چھوٹی دواؤں کا معاملہ تو ان کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ۔ یاد رکھیں بڑی دوا بڑا کردار۔ چھوٹی دوا چھوٹا کردار۔
Rare remedies are rarely indicated have rare patients and are rarely successful .البتہ بڑی دواؤں کو سمجھ لینے کے بعد چھوٹی دواؤں پر توجہ کی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ ان کا بھی ایک کردار ہے ۔
درمیان میں فلاسفی پر بھی بات ہوتی رہے گی ۔ میں اپنے کیسز بھی آپ کے ساتھ Shareکرتا رہوں گا۔
میازم پر بھی بات ہو گی ۔
اور اگر آپ لوگوں کی دلچسپی ہوئی تو Computer software prog. راڈار کی Application پر بھی لیکچر رکھیں گے ۔کیونکہ میں سمجھتا ہوں ہومیوپیتھک پریکٹس Software کا استعمال Need of the day ہے ۔ ہمیں ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔
اس کے علاوہ ہماری کوشش ہو گی کہ وطن عزیز کے تجربہ کار اور معروف ڈاکٹرز کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔
درمیان میں Therapeutics کے حوالے سے بھی بات ہو گی ۔
محترم ساتھیو! میں امید کرتا ہوں کہ آپ کے تعاون سے ہمارا یہ ہومیوپیتھک سفر انشاء اللہ کامیابی سے جاری رہے گا۔ یہ سفر جو خالص علمی سطح کا ہے اور جو غیر سیاسی، غیر جماعتی ہے۔ میں ایک بار پھر ڈاکٹر آصفہ مظہر اور مظہر صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے آج کی اس محفل کو ممکن بنایا۔
ان لیکچرز کا اصل مقصد ہماری روزمرہ پریکٹس کو کامیاب بنانا ہے۔ اور ہمیں سمجھنا ہے کہ ہومیوپیتھک اصول و قوانین پر قائم رہتے ہوئے کامیاب پریکٹیشنر کیسے بنا جا سکتا ہے۔
ہمارے ہاں المیہ ہے کہ کالج سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات کے ہاتھ میں ڈپلومہ تو ضرور ہوتا ہے۔ لیکن علم کے حوالے سے تہی دست ہوتے ہیں۔ اور مارکیٹ میں کوئی ان کا ہاتھ تھامنے والا نہیں ہوتا۔
ہمارے لیکچرز اس کمی کو دور کرنے کی ایک کاوش ہیں۔

And we go hands in hand with those who are already in this field of goodness

ڈاکٹر بنارس خان اعوان، جنرل سیکریٹری، سوسائٹی آف ہومیوپیتھس، پاکستان

0 0 votes
Article Rating
kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter