ہومیوپیتھک دواؤں میں الکحل کا استعمال – حقائق کیا ہیں (حسین قیصرانی)۔

لاہور کے ایک معتبر عالم اور صاحبِ طرز مصنف نے سوال کیا کہ کیا ہومیوپیتھک اَدویات الکحل (شراب) سے بنتی ہیں۔ اُن کا میرے دل میں بہت احترام ہے سو میں نے اُن کی خدمت میں، اس ضمن میں، جو وضاحت کی وہ ذیل میں پیش کی جا رہی ہے لیکن اُس سے پہلے ایک گزارش۔

میں ہومیوپیتھی کا ایک ادنیٰ طالبعلم ہوں۔ دینی معاملات میں جذبہ اور جذبات تو بے پناہ ہیں لیکن علم محض واجبی سا ہی ہے۔ چونکہ میرے حلقۂ احباب، قارئین اور کلائنٹس میں بڑے علمی مرتبے کے اصحاب و خواتین کی کمی نہیں سو اُن سے التماس ہے کہ اگر اِس موضوع پر مختلف رائے رکھتے ہوں تو کمنٹ باکس میں اپنے رُشحات لکھ کر راہنمائی فرمائیں۔ شکریہ!۔

شکریہ محترم عالی مقام! آپ ایک سعید روح ہیں؛ چونکہ یہ باتیں یہاں بالعموم نیٹ پر موجود رہنی ہیں اور اکثریت اُردو سمجھنے بولنے والوں کے دل و دماغ میں ہی ایسے سوال پیدا ہوتے ہیں سو بے جا نہ ہو گا کہ میں آپ کے اَشکال کو آن لائن بھی دستیاب کر دوں۔

یہ ضروری نہیں ہے کہ ہومیوپیتھک ادویات الکحل سے بنتی ہیں یا ہر ہومیوپیتھک دوا میں ضرور بالضرور الکحل ہوتا ہے۔ دواؤں (چاہے وہ ایلوپیتھک ہوں، ہومیوپیتھک، حکمت یا کوئی اَور طریقۂ علاج) کے ذرائع یا ماخذ تقریباً ایک ہی ہیں۔ ان کو پراسیس کرنے، پیک کرنے یا محفوظ رکھنے کے لئے مختلف طُرق اِستعمال کئے جاتے ہیں۔ چونکہ ایلوپیتھک پراسیس یا پیکنگ میں جو کچھ اِستعمال ہوتا ہے اُس کی کنُہ و حقیقت سے ہم لوگ زیادہ واقف نہیں ہوتے یا وہ نظر بظاہر ہمارے نظریات سے نہیں ٹکراتیں سو اُس پر زیادہ غور اور بحث کی ضرورت نہیں سمجھتے (ویسے بھی ہمارے ہاں لاعلمی کو نعمت سمجھا جاتا ہے)۔

 

 

اَب آتے ہیں ہومیوپیتھک ادویات، اُن کی تیاری اور اِستعمال کی طرف!۔
یہ ادویات کسی بھی حوالہ سے الکحل سے نہیں بنتیں تاہم اِن کو دیر (یعنی سالہا سال) تک محفوظ رکھنے کا ایک سستا اور مناسب ترین ذریعہ مخصوص قسم کے / کی الکحل کا اِستعمال ہے جو بیشتر علماء کے نزدیک شراب کے شرعی حکم کی ذیل میں نہیں آتی۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مریض کو جب گولیوں پر دوائی ڈال کر دی جاتی ہے یا پانی میں چند قطرے ڈالے جاتے ہیں تو الکحل فضا میں تحلیل ہو کر ختم ہو جاتی ہے (لیبارٹری میں چیک کروائیں تو الکحل نہیں پائی جاتی)۔ واضح رہے کہ یہ صرف ایک ذریعہ ہے اور اس کے علاوہ بھی کئی طریقے اور ذرائع ہیں۔ یورپ اور برطانیہ کی حد تک مجھے ذاتی تجربہ ہے کہ وہاں ہومیوپیتھک دوائیں بالعموم میٹھی گولیوں میں ہی تیار اور استعمال کی جاتی ہیں۔ اگرچہ وہاں الکحل تو ہر چھوٹے بڑے سٹور میں میسر ہوتی ہے۔ گولیوں کی صورت میں دوا کے استعمال کی ایک محدود اور مخصوص مدت ہوتی ہے اور ہومیوپیتھک دوا ساز کمپنیاں اُس کا خوب مالی فائدہ، منافع کی شکل میں کماتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے لوگوں (اور ممالک) میں یہ ادویات الکحل کے بغیر ہی استعمال کرنے کا رجحان ہے۔

ضمناً عرض ہے کہ مجھے متحدہ عرب اَمارات اور سعودی عرب جانے کے طول و عرض میں سفر کرنے کا اتفاق رہتا ہے اور مَیں سفر میں ہمیشہ ہومیوپیتھک ادویات اپنے ساتھ رکھتا ہوں مگر کبھی کوئی دِقت نہیں ہوئی۔ حج کے موقع پر پاکستان حج کمیشن ہر سال ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور ادویات سعودی عرب بھجواتا رہا ہے۔ اگر الکحل یا شراب کا مسئلہ ہوتا تو سعودی حکومت اس کی کہاں اجازت دے سکتی ہے۔

اگر کوئی مہربان تقوٰی کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہے تو ہومیوپیتھک ادویات بغیر الکحل کے بھی دستیاب ہوتی ہیں۔ اس طرح یہ تھوڑی سی مہنگی ہو جائیں گی اور جلدی ایکسپائر بھی مگر تمام ادویات عام گولیوں کی شکل میں بھی بنوائی جا سکتی ہیں جس میں الکحل کا ایک قطرہ بھی نہیں ہوتا۔

یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ اِن دوائوں میں اِستعمال ہونے والی الکحل کے متعلق فتوٰی جات کیا ہیں یا کسی مسلمان کا تقویٰ کس حد تک احتیاط کا متقاضی ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میرا تعلق مشہور مذہبی خانوادہ سے ہیں۔ والدِ محترم (علامہ ارشد قیصرانی) فاضل درسِ نظامی ہونے کے ساتھ ساتھ، اپنے علاقے کے مشہور عالم، خطیب اور استاد ہیں۔ ایم اے عربی اور فاضل فارسی بھی ہیں۔ میں نے بنیادی مذہبی تعلیم تو انہی سے حاصل کی لیکن بعد میں دو سال باقاعدہ درس گاہ میں گزارے اس لئے اِن معاملات کی نزاکتوں کا درک اور احساس ہے۔ احتیاط کے انہی تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے میں اپنے کلائنٹس (مریضوں) کو ہومیوپیتھک ادویات بالعموم میٹھی یا سادہ گولیوں کی صورت میں ہی دیتا ہوں۔

خلاصہ یہ کہ:
پاکستان میں اِستعمال ہونے والی وہ ہومیوپیتھک ادویات جو پوٹینسی میں تیار کی جاتی ہیں، اُن کو محفوظ رکھنے اور دوائی کو مریض تک پہنچانے کے لئے الکحل کی ایک مخصوص قسم کو بطور سواری (اِس کے لئے Vehicle کی اصطلاح مستعمل ہے) اِستعمال کیا جاتا ہے۔ ہومیوپیتھک ادویات کی تیاری، پیکنگ اور اِستعمال کے اَور بھی کئی ذرائع ہیں جن میں الکحل کے اِستعمال کا قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ کوئی بھی ہومیوپیتھک دوائی بغیر الکحل کے خریدی، استعمال کی اور کروائی جا سکتی ہے۔

اُمید ہے کہ اب بات واضح ہو گئی ہوگی۔

صاحبانِ علم و دانش سے ایک بار پھر درخواست ہے کہ وہ نیچے دئے گئے کمنٹ کی جگہ پر لکھ کر ہماری راہنمائی فرمائیں۔

حسین قیصرانی – سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ – لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210۔

5 1 vote
Article Rating
Picture of kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
انیس جاکوانی
انیس جاکوانی
6 months ago

السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالی وبرکاتہ ۔
سر اس میں الکوحل کی کون سی قسم ہوتی ہے

برائے مہربانی وضاحت فرما دیں

Sign up for our Newsletter