اب میں آپ کو ان ادویات کی بابت معلومات فراہم کروں گا جن میں اضطراب، پریشانی اور دہشت زدگی موجود ہے۔
ایکونائٹ:
ذہنی جذباتی علامات:
* اچانک شدید تکالیف جو دھمکی آمیز صدمہ کی وجہ سے پیدا ہوں اور ان کے ہمراہ موت کا اذیت ناک خوف پایا جائے۔
* دہشت زدگی کی حالتیں۔
* کھلی جگہ کا خوف۔
* اندھیرے کا خوف۔
* لفٹ کا خوف۔ بند جگہ کا خوف۔ بلند جگہ چڑھنے کا خوف۔
* سرنگوں کا خوف۔
* دل کی تکلیف کا خوف کہ دل دھڑکنا بند کردے گا۔
* ہوائی جہاز میں سفر کا خوف۔
* زلزلوں کا خوف۔
* ہجوم کا خوف۔
* تنگ جگہ کا خوف۔
* تمام حاد اور مزمن شکایات کے ہمراہ موت کا خوف پایا جاتا ہے اور اس کے ہمراہ یہ احساس ہوتا ہے کہ موت قریب ہے یا موت سر پہ کھڑی ہے۔
جسمانی علامات:
* دہشت زدگی کے ہمراہ
* اچانک اختلاج قلب
* چہرہ سرخ
* جسم کی ایک جانب سن
* پسینے
* لرزہ
* چکر
* دم کشی اور موت کا خوف
* بخار کے دوران جلد گرم اور خشک ہوتی ہے۔ ایسا شخص بے حد اعصابی پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے، بے چین ہوتا ہے، ادھر اُدھر کروٹیں بدلتا ہے، شدید پیاس لگتی ہے، مریض سرد پانی پینا چاہتا ہے۔
عمومیات:
سرد خشک ہوا لگ جانے سے شدید علامات پیدا ہوتی ہیں۔
جارج وتھالکس۔ ایکو نائٹ کے متعلق معلومات آپ کو میٹیریا میڈیکا کی بہت سی کتابوں میں مل سکتی ہیں۔ ہومیوپیتھی کا تصور یہ ہے کہ ایسے مریضوں کی روح کو سمجھا جائے۔ آپ کو ایکونائٹ کے مریضوں میں علامات شدت سے اظہار کرتی نظر آتی ہیں۔ ایکونائٹ مرض کی حاد حالتوں میں استعمال کی جاتی ہے مثلاً آپ کو سرد ہوا لگ جانے سے زکام ہوگیا، آپ کا ناک بہہ رہا تھا، کھانسی تھی اور چہرہ سرخ تھا۔ اب آپ ایکونائٹ سے علاج شروع کریں گے آپ نے مرض کی ابتدا میں اسے استعمال کیا۔
لیکن حقیقتاً ایکونائٹ مزمن حالات میں بھی فائدہ مند دوا ہے خصوصاً دہشت زدگی کی حالت میں؛ کیونکہ یہ مہیب خوف ہوتا ہے۔ اس دہشت ناک خوف زدگی کی وجہ کیا ہوتی ہے؟ عموماً یہ خوفناک قسم کا خوف ہے کہ جب کسی کو اچانک موت کے تصور کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایسا خطرناک خوف تب واقع ہوتا ہے۔ فرض کریں آپ رات کو سڑک پر ٹہل رہے ہیں اور کوئی شخص اچانک آپ کے سامنے آ کر آپ کے چہرے پر پستول رکھ دے اور کہے جو کچھ تمہارے پاس ہے نکال دو ورنہ میں تمہیں گولی مار دوں گا۔ یہ صدمہ انسانی جسم میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرسکتا ہے کہ خوف کی نوبتی حالتیں نشوونما پا سکتی ہیں اور یہ کئی سال تک قائم رہ سکتی ہیں۔ ایکونائٹ کے مریض میں یہ حالت خوف زدگی کے بعد پیدا ہوتی ہے کہ موت سر پر کھڑی ہے۔ ایکونائٹ کی علامات میں موت کے قریب ہونے کا تصور پایا جاتا ہے۔ موت کے قریب ہونے کا تصور کہ چند گھنٹوں بعد یا کچھ دنوں بعد یا ہفتوں بعد یہ سب مریض پر منحصر ہے۔
فرض کریں آپ کے پاس ایسا مریض آتا ہے اور آپ سوال کرتے ہیں کہ آپ خوف زدہ ہیں، آپ کس چیز سے خوف زدہ ہیں۔ مریض جواب دیتا ہے جی مجھے موت سے خوف آتا ہے۔ آپ دوبارہ سوال کرتے ہیں کیا واقعی آپ کو موت سے خوف آتا ہے کہ آپ مر جائیں گے۔
عام طور پر مریض وجہ بتا دیتا ہے یا ہوسکتا ہے کہ مریض وجہ نہ بھی بتائے۔ موت کا خوف بغیر کسی وجہ کے ایسے ہی ہے جیسے دل کی تکلیف، کینسر یا بلند فشار خون کی وجہ سے موت کا خوف۔ لیکن ایسا خوف بڑی شدت کے ساتھ آتا ہے اور اکثر اوقات انسان کو واقعی ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
مجھے ایک مریض یاد ہے جس کی وجہ سے انہوں نے مجھے ایتھنز بلایا تھا۔ وہاں پر کئی ڈاکٹروں کے مشاورتی کمرے تھے ان میں سے ایک ڈاکٹر میرے کمرے میں آیا اور مجھ سے کہنے لگا آپ ذرا جلدی سے آئیں۔
وہاں ایک نوجوان عورت جس کی عمر 28یا 30 سال تھی ، خوف و دہشت میں گھری فرش پر لیٹی ہوئی سانس لینے کے لئے ہانپ رہی تھی؛ بیک وقت ہانپ بھی رہی تھی اور چِلا بھی رہی تھی۔
اس کی ماں نے بتایا جب بھی یہ ایسی آزمائش سے گزرتی ہے تو پھر پوری بلڈنگ اس کی چیخ و پکار سن سکتی ہے۔ (جتنی زوردار آواز سے میں نے مظاہرہ کیا ہے یہ بھی اتنا زور دار نہیں) بے بس کر دینے والا خوف اور چیخ و پکار اور اختلاجِ قلب بھی اور اس کا چہرہ سرخ تھا۔ لیکن سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مریضہ میں جس شدت کے ساتھ اچانک خوف پیدا ہوا وہ بہت ہی اذیت ناک تھا۔ اچانک موت کا شدید خوف۔ موت کے خوف کی علامت بہت سی ادویات میں موجود ہیں۔ ایک ہومیوپیتھ ہونے کے ناطے ہمارا مقصد ایک اور دوسری دوا کے درمیان اختلافی نقاط کو تلاش کرنا ہے اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہم ناکام ہو جاتے ہیں۔
موت کا خوف ریپرٹری میں سے مجھے یہ عنوان دکھائیں۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کتنی ادویات میں موت کا خوف موجود ہے لیکن آپ ادویات کو الگ کیسے کریں گے۔ 165 ادویات میں موت کا خوف موجود ہے۔ ہم کس دوا کو منتخب کریں گے؟ ہم ان ادویات کے اختلافی نقاط ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔ ایکونائٹ ہی کو لیں یہ چوتھے درجے میں ہے؛ بالکل آرسنک کی مانند۔ ہمارے پاس کلکیریا، سمی سی فیوگا، جیلسی میم، کالی آرسنک، لیک کینائنم، مینسی نیلا، نائٹرک ایسڈ، نکس وامیکا، فاسفورس اور پلاٹینم کا تیسرا درجہ ہے۔ ان ادویات میں سب سے بڑھ کر خوف موجود ہے۔
اب ایکونائٹ میں ایک اور عنصر موجود ہے جس پر ہمیں غور کرنا ہوگا ۔ اس میں بند جگہوں کا خوف موجود ہے۔ ایکونائٹ کا مریض بند جگہوں میں فوراً خوف زدہ ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایکونائٹ کا مریض سرنگوں میں سے بہت مشکل سے گزرے گا۔
کیا آپ اس سرنگ کو جانتے ہیں جس میں حادثہ ہوا تھا یہ سرنگ سوئٹزرلینڈ میں ہے۔ ایکونائٹ کا مریض جب کسی سرنگ سے گزرتا ہے تو اسے اختلاج ہونے لگتا ہے؛ خصوصاً جب وہ خود گاڑی بھی چلا رہا ہو۔ ممکن ہے سرنگ میں داخل ہونے سے قبل ہی اس پر دہشت کا حملہ ہو جائے۔ مجھے شک ہے کہ ایکونائٹ کا حقیقی مریض ان سرنگوں سے گزر سکے گا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک سرنگ سترہ کلومیٹر لمبی ہے اور یہ تو ایکونائٹ کے مریض کے لئے بہت لمبی ہے۔
تنگ جگہ کا خوف ہجوم میں بھی نمودار ہوسکتا ہے۔ ٹرین، بس، جہاز میں بھی نمودار ہوسکتا ہے۔ اگر موسم گہرا ہو بادل چھائے ہوئے ہوں تو اس خوف میں شدت آجاتی ہے اور ممکن ہے کہ مریض پر خوف کا حملہ ہو جائے۔ ہجوم کا خوف ایکونائٹ کی امتیازی علامت ہے۔
دیگر ایکونائٹ کا مریض کسی ایسے مظاہرے میں حصہ نہیں لے گا جس میں اسے بہت سے افراد کے ساتھ تنگ جگہ میں کھڑا ہونا پڑے۔
تھیٹر میں ایکونائٹ کا مریض شاید عقبی سیٹوں کا انتخاب کرے گا تاکہ ایمرجنسی کی صورت میں اسے باہر نکلنا آسان ہو۔ یہاں پر ان کا گھٹن کا خوف بھی ہو سکتا ہے۔ خصوصاً گرم اور بند جگہ پر یا جب وہ ٹریفک میں پھنس جائیں جہاں ان پر خوف کا حملہ ہو جائے اور وہ اپنی کار یا زیر زمین چلنے والی گاڑی سے باہر آ جائیں۔
دوسری کون سی دوا ہے جس کا مریض سرنگ سے نہیں گزر سکتا۔
حاضرین: سٹرامونیم
سٹرامونیم بہت اچھے۔ !
سٹرامونیم میں بھی کیونکہ سٹرامونیم میں ایک اضافی علامت بھی ہے مثلاً جب اندھیرا چھا جاتا ہے تو اذیت ناک خوف کا حملہ ہونا ممکن ہے۔ اندھیرا اور بند جگہ ہو تو سٹرامونیم کا مریض پاگل ہوجائے گا۔
فرض کریں ایکونائٹ کا مریض لفٹ میں پھنس جاتا ہے تو وہ پاگل ہو جائے گا۔ آپ دیکھیں اگر ہم لفٹ میں پھنس جائیں تو عام طور پر ہم مدد کا انتظار کرتے ہیں۔ جب تک کہ مدد آ پہنچے۔ کچھ وقت تو لگے گا آدھا گھنٹہ، ایک گھنٹہ۔ ہم بٹن دباتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ کوئی آئے اور ہماری مدد کرے۔
لیکن ایکونائٹ کا مریض ہمت ہار جائے گا اور چِلائے گا کہ میں اندر پھنس گیا ہوں اور میں مرنے لگا ہوں۔ یہ ہے خطرناک خوف جو کہ اس طرح کے مریضوں میں نمودار ہوتا ہے۔
ایک اَور حالت جس میں ایکونائٹ مظہر ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر ایک عورت آپ کے پاس آتی ہے، اپنی تکلیف بتاتی ہے، سردرد وغیرہ اور خوف۔ آپ سوال کرتے ہیں ’’موت کا خوف‘‘
جی ہاں۔ ڈاکٹر صاحب مرنے کا خوف اس حد تک کہ میں اپنی وصیت لکھ چکی ہوں۔ تصور کریں ایک جوان عورت جو اپنی وصیت لکھ چکی ہے یہ سوچ کر کہ اگر میں مر جاؤں تو میری جائیداد کے ساتھ کیا ہوگا۔ اسے کامل یقین ہے کہ وہ مرنے جا رہی ہے یہ بہت بڑی علامت ہے۔ موت کے وقت کا اختلاف ہوسکتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے لیکن خاص بات تو بہت جلد آنے والی موت ہے۔ ممکن ہے ایک دن بعد ایک ہفتہ بعد ایک دو تین دن بعد یہ علامت صرف حاد امراض میں ملے گی۔ جب کسی مریض کو شدید بخار ہو، اختلاج قلب ہو رہا ہو، چہرہ سرخ ہو اور آپ جا کر دیکھتے ہیں کہ مریض بڑبڑا رہا ہے اوہ، آہ، کوئی فائدہ نہیں، کوئی فائدہ نہیں!
پھر آپ کو لگتا ہے کہ مریض کچھ سوچ رہا ہے اور آپ مریض سے پوچھتے ہیں کیا ہوا؟ کیا ہے؟ آپ کے پوچھنے پر مریض جواب دیتا ہے۔ اب اس کا کوئی فائدہ نہیں، میں مرنے جا رہا ہوں ،اب میں بچنے والا نہیں۔ یہ ہے ایک خاص تصور کہ اب اس کا کوئی فائدہ نہیں، آپ نے بہت دیر کر دی، میں مرنے جا رہا ہوں، مجھے کوئی نہیں بچا سکتا۔
حاد امراض میں اگرچہ حالت بہت نازک ہوتی ہے۔ جہاں آپ ایک دو تین دوسری ادویات دے چکے ہیں ان کا کوئی اثر نہیں ہوا اور مرض ترقی پذیر ہے، بخار تیز ہے اور پھر جب آپ یہ علامت دیکھتے ہیں کہ کوئی فائدہ نہیں میں مرنے والا ہوں، میں جانتا ہوں میں مر جاؤں گا۔ یہ ہے ایکونائٹ کی حالت!
ایکونائٹ میں ایک دلچسپ صورت حال آپ کو ملے گی جب آپ کو کوئی مریض یہ بتائے گا کہ میں شہر کے اندر بہت اچھی گاڑی چلاتا ہوں لیکن جیسے ہی میں قومی شاہراہ پر گاڑی لے کر آتا ہوں تو وہاں کھلی جگہ آتی ہے۔ آپ نے فرق محسوس کیا کہ کھلی جگہ آتی ہے۔ میں گاڑی چلا رہا ہوتا ہوں اور اچانک ارد گرد کھلا علاقہ آ جاتا ہے تو میں خوف زدہ ہوجاتا ہوں، میں دہشت زدہ ہوجاتا ہوں۔ یہ خوف ایکونائٹ میں وقتاً فوقتاً آتے ہیں یہ مستقل حالت نہیں ہے۔ بصورتِ دیگر یہ مریض نارمل زندگی گزارتے ہیں۔
لیکن پھر ایک لمحہ ایسا آتا ہے جہاں وہ ایسی جگہ داخل ہوتے ہیں جو تنگ ہوتی ہے یا پھر وہ کسی ایسی صورت حال میں پھنس جائیں جہاں انہیں اپنی زندگی کو خطرہ محسوس ہو تو ان پر اچانک دہشت کا حملہ ہو جائے گا جو مریض کو فوراً اپنی لپیٹ میں لے لے گا یہ خوف تیز طوفان کی طرح آتا ہے اور مریض کو مکمل طور پر مغلوب کر لیتا ہے اس پر چھا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ زیادہ تر خوف و دہشت کے حملے ایک مخصوص وقت پر واقع ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سورج غروب ہونے کے وقت۔ اس وقت دہشت کا حملہ ہو جاتا ہے۔
سورج غروب ہونے کے وقت خوف کا حملہ ہوسکتا ہے۔ آپ شاید ایسے لوگوں کو جانتے ہوں جہاں پر رشتہ دار اور دوست یہ کہہ رہے ہوتے ہیں جانے بھی دو، چھوڑو بھی یہ تم کیا ہر وقت ڈرتے رہتے ہو، سب کچھ ٹھیک تو ہے۔
ایکونائٹ کے مریض جانتے ہیں مگر وہ اس کی بابت کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ خوف کے وہ حملے نہیں ہیں جنہیں ہم نفسیاتی حالتیں کہتے ہیں۔ ان کی جڑیں دماغ میں ہونے والی کیمیائی تبدیلیوں میں ہوتی ہیں جو انہیں بار بار دہراتی ہیں۔
ہم ٹھیک سے یہ نہیں جانتے کہ دماغ کے خلیوں میں سے کون سے خامرے کم یا زیادہ نکل رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان حالتوں پر دلائل یا عقلِ سلیم سے قابو نہیں پایا جا سکتا۔
میں یہ بھی کہہ رہا ہوں کہ جب ہم مریض کو نفسیاتی بنیاد پر بیان کرتے ہیں تو ہمیں بہت محتاط رہنا ہوگا۔ مریض کی شخصی خوبیاں بیان کرنا ضروری نہیں ہیں۔ امتیازی اوصاف بیان کرنا ضروری نہیں۔ ہمیں تو پیتھالوجی بیان کرنا ضروری ہے۔ شخصیت کی خوبیوں کو پیتھالوجی کے ساتھ الجھا دینا بہت آسان ہے۔ ہم سے ہر کوئی مختلف انفرادیت رکھتا ہے۔
دو افراد ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ہر کسی کی (مرد ہو یا عورت) اپنی امتیازی خصوصیات ہوتی ہیں۔ اب آپ نے دوا تجویز کرلی ہے اور مریض آپ کو اپنے کردار کی بابت بتاتا ہے۔ آپ نے پوچھا تھا کہ مجھے اپنے کردار کی بابت بتائیں۔ وہ مخصوص علامات بیان کرتا ہے۔ آپ ان علامات پر توجہ دیتے ہیں۔ اس مریض کی خصلت کی بابت سوچتے ہیں۔ شخصی خوبیاں ہی اصل میں وہ علامات ہیں جن کا علاج کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ غلط ہے۔ آپ کو اس شخصیت کے اوپر منڈھی پیتھالوجی کا علاج کرنا ہے۔
بعض لوگ کھلے ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ آسانی سے اپنے خیالات کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔ سوشل ہوتے ہیں۔ اپنے جذبات کا آسانی سے اظہار کر سکتے ہیں لیکن بعض افراد میں یہ خوبی نہیں ہوتی۔ وہ اپنے جذبات کا آسانی سے اظہار نہیں کر سکتے وہ جذبات کو اندر ہی محفوظ رکھتے ہیں۔ وہ بہت سنجیدہ ہوتے ہیں۔ یا بعض افراد کے ذہن تیز اور ارادے مضبوط ہوتے ہیں۔ وہ تیزی سے کام کرتے ہیں۔ بعض افراد کو کام کیلئے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ اگر آپ یہ توقع کریں کہ آپ دوا سے ایسے افراد کے امتیازی وصف کو بدلنے جارہے ہیں تو یہ آپ کی بہت بڑی غلطی ہے۔ آپ کو بہت محتاط رہنا ہوگا۔ میں نے جو کچھ ہوتا دیکھا ہے۔
میں نے 1974 میں امریکہ میں طلباء کو مریضوں کی علامات کے تعلق سے تعلیم دینا شروع کی تو میں نے دیکھا کہ لوگوں نے میری بات کا غلط مطلب نکالا اور ہر استاد جس کے پاس کچھ مریض تھے انہوں نے مریض کے شخصی خصائل کو پیش کیا اور کہا کہ یہ دوا سے تعلق رکھتے ہیں۔
آپ ایک مریض کو دیکھتے ہیں جسے ایکونائٹ کی ضرورت ہے وہ ایک عام کسان بھی ہوسکتا ہے، ایک ڈاکٹر، ایک کمپیوٹر کا ماہر ہوسکتا ہے، ایک سائنسدان یا ایک سرکاری ملازم ہوسکتا ہے یا جو بھی آپ کہہ لیں۔ یہ لوگ مختلف روپ میں آپ کے سامنے آئیں گے۔ ان سب کی شخصیات مختلف ہوں گی۔
آپ اس میں نہ الجھیں! یہی وجہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ ہم ہومیوپیتھی کی بنیادی تعلیم حاصل کرنے جا رہے ہیں اور ایکونائٹ کی بنیاد میں شدت اور خوف ہے۔ موت کی پیش گوئی ہے کہ میں مرنے جا رہا ہوں۔ اگر آپ ان معلومات سے دور جاتے ہیں تو آپ اپنے مریض کی خصلت کو ایکونائٹ کے ساتھ خلط ملط کر دیں گے اور یہ ہی بہت خطرناک بات ہے کیونکہ اگر آپ معلم ہیں تو جو معلومات آپ دوسروں کو دے رہے ہیں وہ قابلِ اعتماد نہیں ہیں اور جب بھی آپ دوا تجویز کرتے ہیں تو آپ کو اپنے دماغ میں یہ بات یاد رکھنی ہے کہ علامات جو رخصت ہو جاتی ہیں ان کا تعلق دوا سے ہوتا ہے۔
یہ بات عیاں ہے کہ ایکونائٹ کے بیان میں علامات کی بہتات ہے۔ نبض کا تیز ہونا سے دل کی دھڑکن، سن پن، جھن جھناہٹ، خوف، دہشت اور آخری بات ٹھنڈک حد سے زیادہ ضعف، ارتحال کے ہمراہ نیلا پن اور جسم کا یخ ہوجانا، توانائیوں کا اچانک ختم ہو جانا۔
ہومیوپیتھی کے طلباء کیلئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایک مریض جسے ایکونائٹ کی ضرورت ہے؛ اسے اکیلی ایکونائٹ ہی متاثر کن انداز میں شفا سے ہم کنار کردے گی۔ کوئی دوسری دوا اس کی جگہ نہیں لے سکتی چاہے مرض حاد ہو یا مزمن۔ جب علامات متفق ہوں تو دوا تجویز کرتے وقت مت ہچکچائیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ پیتھالوجی کس شدت سے اظہار کرے۔ میں دوبارہ دہراتا ہوں یہ معلومات ان پرانے اساتذہ نے دی ہیں کہ ایکونائٹ صرف حاد امراض کی دوا ہے؛ یہ مکمل طور پر گمراہ کن ہے۔