(فیڈبیک کا رواں اردو ترجمہ محترمہ مہرالنساء کی کاوش ہے)
میری عمر 33 سال ہے۔ پچھلے چھ سات سال سے میں فسچولا (Fistula) کا شکار تھا۔ طالب علم ہونے کے ناطے ہوسٹل میں رہتا تھا اور بہت سالوں سے باہر سے کھانا میرا روزانہ کا معمول تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہی لائف سٹائل میرے معدہ کی خرابی اور فسچلا کا سبب بنا۔ علاج کے لئے رجوع کیا تو ڈاکٹر کی تشخیص تھی کہ یہ فسچولا ہے جس کا واحد حل سرجری ہے۔ آپریشن کی کامیابی کا تناسب 60 سے 70 فیصد تھا۔ ناکامی کی صورت میں بار بار سرجری کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ اس دوران تکلیفوں میں بہت شدت آ گئی۔ فسچولا کی شاخیں بن گئیں جنہوں نے دوسرے اعضاء کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا۔ سونے کے دوران میری کمر اکڑ سی جاتی جس کی وجہ سے پر سکون نیند میرے نصیب میں نہیں رہی تھی۔ میرے دونوں پاؤں کی ایڑیاں ہر وقت درد کرتیں۔ میرے لیے تیز چلنا اور بھاگنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی سالوں سے اینٹی بائیوٹکس (Antibiotics) ادویات استعمال کر رہا تھا مگر اب وہ بھی فائدہ نہیں دے رہی تھیں۔
میری عمر 33 سال ہے۔ پچھلے چھ سات سال سے میں فسچولا (Fistula) کا شکار تھا۔ طالب علم ہونے کے ناطے ہوسٹل میں رہتا تھا اور بہت سالوں سے باہر سے کھانا میرا روزانہ کا معمول تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہی لائف سٹائل میرے معدہ کی خرابی اور فسچلا کا سبب بنا۔ علاج کے لئے رجوع کیا تو ڈاکٹر کی تشخیص تھی کہ یہ فسچولا ہے جس کا واحد حل سرجری ہے۔ آپریشن کی کامیابی کا تناسب 60 سے 70 فیصد تھا۔ ناکامی کی صورت میں بار بار سرجری کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ اس دوران تکلیفوں میں بہت شدت آ گئی۔ فسچولا کی شاخیں بن گئیں جنہوں نے دوسرے اعضاء کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا۔ سونے کے دوران میری کمر اکڑ سی جاتی جس کی وجہ سے پر سکون نیند میرے نصیب میں نہیں رہی تھی۔ میرے دونوں پاؤں کی ایڑیاں ہر وقت درد کرتیں۔ میرے لیے تیز چلنا اور بھاگنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی سالوں سے اینٹی بائیوٹکس (Antibiotics) ادویات استعمال کر رہا تھا مگر اب وہ بھی فائدہ نہیں دے رہی تھیں۔
میں نے ہومیو پیتھک علاج کروانے کا فیصلہ کیا۔ کئی ہومیوپیتھی ڈاکٹرز کو آزمایا لیکن ان کی دوائیوں نے بھی کوئی خاص اثر نہ کیا۔ شاید یہ وجہ بھی ہو کہ میں باہر سے کھانا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ مزید دو سال اسی طرح گزر گئے۔ پھر میں نے انٹرنیٹ پہ خود تحقیق کی اور کچھ دوائیں تلاش کیں جو مجھے فائدہ دیں۔ لائف سٹائل میں تبدیلیاں کیں۔ خود گھر پر کھانا بنانے کا انتظام کیا اور ایک سال کے ہومیوپیتھی کورس کے بعد میں ٹھیک ہو گیا لیکن یہ صحت یابی صرف اس لیے تھی کہ میں نے اپنا کھانا مکمل کنٹرول کیا ہوا تھا یعنی بیماروں کی طرح بے رنگ، بے ذائقہ اور پرہیزی کھانا خود بناتا تھا۔ ہر طرح کا گوشت اور تلی ہوئی چیزیں مستقلاً چھوڑ دی تھیں کیونکہ یہ میرے مسئلے کو چند دن میں دوبارہ پہلے والی حالت میں لے جاتیں تھی۔ اس طرح چھ سات سال گزر گئے لیکن میرا مسئلہ طویل ہو رہا تھا۔ میں دوائیوں اور محتاط غذا سے بیماری کے ساتھ گزارا کر رہا تھا۔
اس وقت دو مسائل بہت زیادہ تنگ کر رہے تھے ایک فسچولا اور دوسرا نیند کے دوران کمر کا اکڑاؤ۔2019 میں ایک رشتہ دار نے ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ حسین قیصرانی کے بارے میں بتایا کیونکہ میرا مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا تھا۔ شروع میں مجھے لگا کہ وہ بھی ایک عام ڈاکٹر ہوں گے۔ مجھے اب بالکل بھی اعتماد نہیں رہا تھا۔ تاہم ریفرینس بہت ہی اہم تھا اور اُن کا اصرار بھی بے حد سو میں ڈاکٹر صاحب سے ملا۔ ڈاکٹر صاحب نے میری ساری بات بہت تسلی سے سنی بلکہ ہر اہم نکتہ بھی نوٹ کرتے گئے۔ پہلے سیشن پر ہی دو گھنٹے لگ گئے ہوں گے۔ میں نے دوائی شروع کی اور معجزانہ طور پر ڈیڑھ ماہ کے قلیل عرصے میں، ان کے علاج سے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت یاب کر دیا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ڈاکٹر حسین قیصرانی بہت سادہ دوائی استعمال کرواتے تھے۔ ایک یا زیادہ سے زیادہ دو گولیاں روانہ دن میں دو بار۔
دوا کی قلیل مقدار سے مختصر عرصے میں وہ بیماری کا علاج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ نتیجہ خیز علاج کرتے ہیں۔ درحقیقت وہ اپنے مریض کو بطورِ شخصیت دیکھتے ہیں۔ ماضی کے معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے مریض کا جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی یعنی ہر سطح پر علاج کرتے ہیں اور نتیجتاً اینل فسٹولا (Anal Fistula) جیسے بڑے مسائل بھی مستقل حل ہو جاتے ہیں۔موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے میں بتاتا چلوں کہ پچھلے دو ماہ میں جب مجھے صحت یابی کا یقین ہو گیا تو میں نے تلی ہوئی چیزیں گوشت انڈے وغیرہ کھائے جو پچھلے کئی سالوں سے اپنی بیماری کے ساتھ گزارا کرنے کے لئے نہیں کھا رہا تھا لیکن ۔۔۔۔ ارے دیکھو! میں مزید بیمار نہیں ہوں۔ اللّٰہ کا شکر ہے کہ جس نے ڈاکٹر حسین قیصرانی کو ذریعہ بنایا اور کئی سال پرانی علالت سے چھٹکارا دلایا۔
اب ڈاکٹر حسین قیصرانی میرے ذاتی معالج ہیں۔ میں ان پر بھروسہ کرتا ہوں۔“شکریہ ڈاکٹر حسین قیصرانی ۔۔۔۔۔۔ آپ میرے لیے اس دور کے حکیم لقمان ہیں”۔
اس وقت دو مسائل بہت زیادہ تنگ کر رہے تھے ایک فسچولا اور دوسرا نیند کے دوران کمر کا اکڑاؤ۔2019 میں ایک رشتہ دار نے ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ حسین قیصرانی کے بارے میں بتایا کیونکہ میرا مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا تھا۔ شروع میں مجھے لگا کہ وہ بھی ایک عام ڈاکٹر ہوں گے۔ مجھے اب بالکل بھی اعتماد نہیں رہا تھا۔ تاہم ریفرینس بہت ہی اہم تھا اور اُن کا اصرار بھی بے حد سو میں ڈاکٹر صاحب سے ملا۔ ڈاکٹر صاحب نے میری ساری بات بہت تسلی سے سنی بلکہ ہر اہم نکتہ بھی نوٹ کرتے گئے۔ پہلے سیشن پر ہی دو گھنٹے لگ گئے ہوں گے۔ میں نے دوائی شروع کی اور معجزانہ طور پر ڈیڑھ ماہ کے قلیل عرصے میں، ان کے علاج سے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت یاب کر دیا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ڈاکٹر حسین قیصرانی بہت سادہ دوائی استعمال کرواتے تھے۔ ایک یا زیادہ سے زیادہ دو گولیاں روانہ دن میں دو بار۔
دوا کی قلیل مقدار سے مختصر عرصے میں وہ بیماری کا علاج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ نتیجہ خیز علاج کرتے ہیں۔ درحقیقت وہ اپنے مریض کو بطورِ شخصیت دیکھتے ہیں۔ ماضی کے معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے مریض کا جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی یعنی ہر سطح پر علاج کرتے ہیں اور نتیجتاً اینل فسٹولا (Anal Fistula) جیسے بڑے مسائل بھی مستقل حل ہو جاتے ہیں۔موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے میں بتاتا چلوں کہ پچھلے دو ماہ میں جب مجھے صحت یابی کا یقین ہو گیا تو میں نے تلی ہوئی چیزیں گوشت انڈے وغیرہ کھائے جو پچھلے کئی سالوں سے اپنی بیماری کے ساتھ گزارا کرنے کے لئے نہیں کھا رہا تھا لیکن ۔۔۔۔ ارے دیکھو! میں مزید بیمار نہیں ہوں۔ اللّٰہ کا شکر ہے کہ جس نے ڈاکٹر حسین قیصرانی کو ذریعہ بنایا اور کئی سال پرانی علالت سے چھٹکارا دلایا۔
اب ڈاکٹر حسین قیصرانی میرے ذاتی معالج ہیں۔ میں ان پر بھروسہ کرتا ہوں۔“شکریہ ڈاکٹر حسین قیصرانی ۔۔۔۔۔۔ آپ میرے لیے اس دور کے حکیم لقمان ہیں”۔
حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210۔
0
0
votes
Article Rating