پوسٹ میرج ڈپریشن: ’پسند کی شادی کے باوجود نا تو بننے سنورنے کا دل کرتا اور نا ہی شوہر کے ساتھ گھومنے پھرنے کا‘
- مصنف,نازش فیض،
- عہدہ,صحافی
’مجھے کمرے کی دیواریں ایسی لگتی تھیں جیسے یہ سکڑ رہی ہوں۔ مجھے خودکشی کرنے کے خیالات آتے تھے اور میں خودکشی کے طریقے تلاش کرتی تھی۔‘
یہ کہنا ہے کہ سعدیہ کاشف کا جنھیں اپنی شادی کے فوراً بعد ڈپریشن کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
پاکستان جیسے معاشرے میں عمومی طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ شادی، چاہے لوو میرج ہو یا ارینج، کے بعد لڑکی کو ناصرف اپنے شوہر کے گھر والوں کو بلکہ اُن کے طور طریقے کو بھی اپنانا ہوتا ہے۔ مکمل طور پر ایک مختلف ماحول سے آنے والی لڑکی کو نئے گھر کو اپنانے اور نئے لوگوں کو سمجھنے میں کسی قدر مشکل ہوتی ہے، اس بارے میں شاید ہی کوئی بات کرتا ہے۔
بی بی سی نے ایسی ہی چند خواتین سے بات کی جن کو اسی نوعیت کے حالات کی وجہ سے ناصرف شادی کے فوراً بعد ڈپریشن کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ماہر نفسیات کی مدد بھی لینی پڑی۔
سعدیہ انھی خواتین میں سے ایک ہیں۔
سعدیہ نے پسند کی شادی کی تھی۔ نکاح سے قبل وہ اپنے شوہر کو اچھی طرح سے جانتی تھیں۔ اس سب کے باوجود وہ بتاتی ہیں کہ ’شادی کے ایک ہفتے بعد ہی مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ میرا کسی سے بات کرنے کا دل نہیں کرتا تھا۔ میرے سسرال والے بھی مجھ سے محبت کرتے تھے مگر اس کے باوجود میں خوش نہیں تھی۔‘
اُن کے مطابق عموماً پسند کی شادی میں لڑکی سے امید کی جاتی ہے کہ وہ پہلے سے ہی لڑکے اور اُس کے گھر والوں کو جانتی ہو گئی لہذا اُسے نئے گھر میں ایڈجسٹ کرنے میں زیادہ مشکل نہیں ہو گی مگر شاید یہ حقیقت نہیں ہے۔
سعدیہ بتاتی ہیں کہ لوو میرج کے باوجود اُن کا بننے سنورنے کا دل نہیں کرتا تھا اور نہ ہی شوہر کے ساتھ گھومنے پھرنے کا۔
’میں بات بات پر روتی تھی۔ کبھی اکیلے میں، کبھی شوہر کے سامنے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ خوش رہوں کیونکہ میرے شوہر وہ شخص تھے جن سے شادی کے لیے میں نے بہت انتظار کیا تھا مگر اب جب وہ میرے ساتھ تھے تو مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔‘
سعدیہ اُن کئی خواتین کی طرح ہیں جو اس کشمکش کی اصل وجہ یعنی ڈپریشن کو سمجھ نہیں سکیں۔
کئی دن اسی صورتِحال کا شکار رہنے کے بعد سعدیہ نے اپنے شوہر سے اس بارے میں بات کرنے کا سوچا۔
’جو کچھ بھی میرے ساتھ ہو رہا تھا اس کشمکش کے بارے میں میں نے اپنے شوہر کو بتایا تو اُنھوں نے مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا کہا۔‘
سعدیہ نے تین ماہ تک تھیراپی سیشن کے ساتھ ساتھ اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں کا استعمال کیا اور بلآخر وہ اس مشکل سے باہر نکل آئیں۔
شادی کے فوراً بعد شوہر کو بیوی کا ساتھ کیسے دینا چاہیے اس بارے میں آگے چل کر بات کریں گئے، اس سے پہلے شادی کے بعد ہونے والے ڈپریشن کی مختلف وجوہات کے بارے میں بات کر لیتے ہیں۔
کئئ خواتین شادی کے بعد فوراً بچوں کی خواہش رکھتی ہیں اور بنیادی طور پر اس کے پس پردہ یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں بچہ دیر سے ہونے کے باعث انھیں سسرال میں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ہما اویس انھی خواتین میں سے ہیں۔ ہما کی شادی کو چھ سال ہو چکے ہیں۔ شادی کے پہلے پانچ سال ہما کے ہاں اولاد نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ہو گئیں۔
ہما کہتی ہیں کہ ’شادی کے بعد پیدا ہونے والے ڈپریشن کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا، لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ تو کوئی بڑی چیز نہیں ہے۔ شادی کے فوراً بعد جب میری ڈی این سی ہوئی۔ اس کے بعد سے وہ خاندان میں کسی لڑکی کے حاملہ ہونے کی خبر کو مجھ سے چھپاتے تھے، جیسا کہ میں بُری نظر لگا دوں گی۔‘
ہما نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شادی کے فوراً بعد بچہ نہ ہونے کی وجہ سے اُن کو جس ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا اُنھوں نے شادی سے پہلے کبھی اس کا گمان بھی نہیں کیا تھا۔ ہما کے مطابق یہ ہمارے معاشرے کا المیہ کہ اگر شادی کے فوراً بعد آپ کو بچہ نہیں ہوتا تو آپ ایک نامکمل خاتون تصور کی جاتی ہیں۔
’عورت کی تعلیم، اُس کا اخلاق، اُس کا سلیقہ کچھ بھی معانی نہیں رکھتا ہے، بس ایک بچہ ہی اُس کے وجود کو مکمل کرتا ہے، بچے کے بغیر اُس کی اپنی کوئی پیچان نہیں ہے۔‘
ہما کے مطابق ان تمام باتوں نے اُن کو ایسے ڈپریشن میں مبتلا کر دیا جس سے نکلنے میں اُنھیں کئی سال لگے۔
ہما کی کہانی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شادی کہ بعد ایک لڑکی کو کئئ وجوہات کی وجہ سے ڈپریشن کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کسی کو سسرال والوں کے اچھا ہونے کے باوجود ایک مختلف خاندان میں گھلنے ملنے میں مشکل ہوتی ہے تو کوئی شادی کے فوراً بعد بچہ نہ ہونے کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔
سوال سے پیدا ہوتا ہے کہ اس تمام صورتِحال میں شوہر بیوی کی جذباتی طور پر کیسے ساتھ دے؟
بی بی سی نے سعید شعیب سے بات کی جن کی بیوی کو شادی کے فوری بات سسرال میں ایڈجسٹ ہونے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور وہ اپنے شوہر سے کُھل کر اس بارے میں بات کرنے میں کترا رہی تھیں کیونکہ اُنھیں اس بات کا خوف تھا کہ کئی اُن کے شوہر انھیں چھوڑ ہی نہ دیں۔
’جب مجھے اندازہ ہوا کہ میری بیوی ڈپریشن کا شکار ہو رہی ہیں تو میں نے اس مشکل میں ان کی مدد کرنے کا سوچا کیونکہ یہ شوہر کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے سے کیسے نمٹنا چاہتا ہے۔‘
شعیب کے مطابق بہت سے مرد یہ غلطی کرتے ہیں کہ اس مشکل میں بیوی کا ساتھ دینے کے بجائے وہ اُن پر مزید دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ گھر میں ہر صورت میں ایڈجسٹ ہوں۔ جس سے صورتِحال ابتر ہو جاتی ہے۔
شعیب بتاتے ہیں کہ اس صورتحال میں اُنھوں نے اپنی اہلیہ کو زیادہ وقت دینا شروع کر دیا اور وہ اُن پر کسی بھی طرح کی زور زبردستی نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے وہ کچھ ہی عرصے میں ڈپریشن سے نکل گئیں۔
ان کے مطابق شوہر کے ساتھ ساتھ شوہر کے والدین کا بھی اس سب میں اہم کردار ہوتا ہے، کہ وہ گھر میں آنے والے نئے فرد کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھتے ہیں۔
ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر عفت روحیل نے 25 سال فیلڈ میں کام کرنے کے دوران بہت سے ایسے کیسز دیکھے ہیں۔ بی بی سی نے ڈاکٹر عفت سے جاننے کی کوشش کی کہ کیا واقعی ہی پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی طرح پوسٹ میرج ڈپریشن بھی کوئی کیفیت ہے۔
ڈاکٹر عفت کہتی ہیں کہ ’پوسٹ میرج ڈپریشن ایک ایسا جملہ ہے جس کے متعلق آپ کو کم لوگ بات کرتے ہوئے ملیں گئے۔ لوگ اس کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں اور اس میں مبتلا ہونے والے افراد میں سب سے زیادہ شرح خواتین کی ہے۔‘
ڈاکڑ عفت کے مطابق اُن کے پاس ایسے کئی مریض آتے ہیں جو شادی کے بعد نئے ماحول کو اپنا نہیں پا رہے ہوتے اور اسی وجہ سے وہ ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔
پوسٹ میرج ڈپریشن کے شکار افراد کو کیسے پہچانا جائے؟
ڈاکٹر عفت کے مطابق کلینیکل ڈپریشن کے مختتلف مراحل ہوتے ہیں، جس میں
- تھوڑی تھوڑی دیر بعد رونے کا دل کرنا
- اپنے آپ کو کوئی اہمیت نہ دینا
- نیند نہ آنا
- بھوک نہ لگانا یا زیادہ کھانا شروع کر دینا
ڈاکڑ عفت نے بی بی سی کو بتایا کہ نئی شادی شدہ لڑکیوں کی اس صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت اچھی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اُن کے مطابق شادی چاہے لوو میرج ہو یا ارینج دونوں صورتوں میں لڑکی کو تیاری کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ ایک بالکل مختلف گھر میں جا رہی ہوتی ہے۔
’شادی گلیمر نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اور اگر لڑکی نے شادی سے قبل اس حقیقت کو نہ سمجھا تو نتائج یہی ہوتے ہیں جو ہمارے سامنے مختف ڈپریشن کے کیسز کی صورت میں موجود ہیں۔‘
ڈاکڑ عفت کے مطابق لڑکیوں کو اس حقیقت کا ادراک بھی کرنا چاہیے کہ ایسا نہیں ہو گا اُن کوشوہر صرف اُنھی کا ہو اور شادی کے بعد وہ نا کسی سے بات کرے یا پھر سب کچھ چھوڑ دیے، تو نظریہ غلط ہے۔
دوسری جانب سسرال اور شوہر سے متعلق بات کرتے ہوئے ڈاکڑ عفت نے کہا کہ ’جیسے ایک نئے پودے کو ہر روز پانی دیا جاتا ہے، اُس کا خیال کیا جاتا ہے کہ وہ زمین میں اچھے سے اُگے، اسی طرح شادی کر کے آنے والی لڑکی کو بھی پیار، احساس، قدر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اُ س کو نظر انداز کر دیا گیا تو کئی پودے آباد ہونے سے پہلے ہی مر جائیں گے۔‘