آٹزم سے متاثرہ بچوں کے والدین: ’سب سے مشکل اس حقیقت کو قبول کرنا تھا کہ شاید میرا بیٹا مجھے ماں نہیں بلا سکتا‘
- مصنف,کرن فاطمہ
- ,بی بی سی اردو
پارک کے سامنے ابھی اصباح خالد نے گاڑی کا گیئر پارکنگ میں ڈالا ہی تھا کہ ساتھ بیٹھے ان کے بیٹے عتیب نے آواز نکال کر یہ ظاہر کیا کہ انھیں یہاں نہیں جانا۔ اسی لمحے اصباح نے گاڑی واپس موڑ لی۔
حالانکہ بہار کی شام تھی اور صرف چند بچے ہی پارک میں جھولے لے رہے تھے۔ کچھ دیر پہلے ہی اصباح نے عتیب کو ڈے کیئر سے لیا تھا اور پوچھا تھا کہ وہ پارک جانا چاہتے ہیں یا ’چِس‘ (چپس) کھانا پسند کریں گے۔
اسلام آباد میں بمشکل تین یا چار مخصوص ایسی جگہیں ہیں جہاں عتیب جاتے ہیں۔ یہ پارک ان میں سے ایک تھا لیکن شاید عتیب کے لیے وہاں زیادہ بچے تھے اور شور بھی۔
عتیب کی عمر اب ساڑھے دس سال ہے۔ تقریباََ سات سال پہلے ان میں آٹزم کی تشخیص ہوئی۔ بول نہ سکنا اس کا ایک پہلو ہے لیکن اصباح خالد کے مطابق ان کے لیے سب سے چیلنجنگ باتوں میں سے ایک اس حقیقت کو قبول کرنا تھا کہ ’شاید میرا بیٹا مجھے کبھی ماں نہیں بلا سکتا۔ شاید میرا بیٹا مجھے پیار نہیں کرے گا۔ شاید یہ نہیں کہہ سکے گا ماما آئی لو یو۔‘
بچپن میں ڈھائی تین سال کی عمر تک عتیب بولتے نہیں تھے۔
خیال رہے کہ آٹزم کا شکار افراد کو دوسروں سے گفتگو کرنے اور تعلق بنانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آٹزم سپیکٹرم ایک ڈس آرڈر ہے جو ساری عمر رہنے والا ایک عارضہ ہے تاہم یہ مختلف افراد میں کم یا زیادہ ہوتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر سو میں اسے ایک فرد آٹسٹک ہے۔
اصباح بتاتی ہیں کہ ’وہی سوسائٹی کی باتیں کہ لڑکا ہے دیر سے بولے گا لیکن بات یہاں تک بڑھ گئی کہ وہ اپنا نام بھی نہیں سن رہا تھا اور کونے میں بیٹھ کر گھنٹوں کسی گول ٹوکری یا ڈھکنے کو گھماتا رہتا۔‘
انھوں نے بتایا کہ جب انھوں نے یہ الفاظ گوگل کیے کہ ’میرا بیٹا ہر چیز گھماتا ہے‘ تو پہلا لفظ آٹزم سکرین پر آیا۔ اصباح کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ لفظ پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔
کچھ ایسی ہی کہانی موسیقار خاور جواد کی بھی ہے۔ سنہ 2008 میں جب فلم ’خدا کے لیے‘ ریلیز ہوئی تو اس فلم کے گانے ’بندیا ہو‘ کے کمپوزر خاور جواد کا کیریئر عروج پر پہنچا۔ اسی سال ان کی شادی بھی ہوئی اور 2010 میں ان کے بیٹے حسن کی پیدائش ہوئی۔
خاور جواد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب حسن ڈھائی سال کے ہوئے تو ہمیں آٹزم کا پتا چلا۔ اس سے پہلے ہمیں بالکل نہیں پتا تھا کہ آٹزم کیا ہے۔‘
’ہماری زندگی میں ایک بہت بڑی تبدیلی آ گئی۔ ہم نے پڑھنا شروع کیا اور یوٹیوب پر جب آٹسٹک افراد کی ویڈیوز دیکھیں تو ہمیں دھچکہ لگا۔ آپ بہت پریشان ہو جاتے ہیں اور آپ کو سمجھ نہیں آتا کہ کیا کرنا ہے۔‘
خاور جواد نے بتایا کہ اس کے بعد رشتہ دار اور دوست آپ کو مشورے دینا شروع کر دیتے ہیں اور ساتھ میں یہ مشورے بھی دیتے ہیں کہ ’یہ موبائل استعمال کرتا تھا۔ اس کے پاس آئی پیڈ تھا۔ کئی نے کہا کہ سب چھوڑیں بچوں پر جن آتے ہیں دم درود کروا لیں۔‘
خاور جواد نے بتایا کہ ’آپ کو لگتا ہے کہ ہر چیز کو آزما کر دیکھنا چاہیے کہ شاید ٹھیک ہو جائے۔ پھر جب کئی ڈاکٹرز سے معائنوں کے بعد حسن کا آٹزم کنفرم ہوا تو ایسا تھا کہ بس کوئی آپ کے کان میں یہ کہہ دے کہ اسے آٹزم نہیں۔‘
’اب صرف میرا بیٹا مختلف نہیں، میں بھی مختلف ہوں‘
اصباح اور خاور سے گفتگو کے دوران ایک بات تو مشترک تھی اور یہ کہ جب آٹزم کی تشخیص ہو جاتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ کے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچ لی گئی ہو۔
دونوں ہی کے مطابق ایک جانب یہ سمجھ نہیں آتا کہ اب کیا کریں اور پھر آپ کچھ انکار کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
’یہ کہہ دینا کہ آپ کا بچہ آٹسٹک ہے۔ کسی بھی ماں یا باپ کے لیے سننا بہت مشکل ہے۔‘
اس کے بعد روزمرہ کی زندگی میں چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی تبدیلیاں آتی ہیں۔
اصباح خالد نے اس ملاقات کے لیے کئی دن کی منصوبہ بندی کے بعد کچھ گھنٹے مختص کیے۔ اس دوران ان کا بیٹا ڈے کیئر سینٹر میں تھا جبکہ خاور جواد کے ساتھ گفتگو کے دوران ان کے بیٹے کی دیکھ بھال ان کی اہلیہ لبنیٰ خاور کر رہی تھیں۔
اصباح کہتی ہیں کہ ’اب صرف میرا بیٹا مختلف نہیں بلکہ میں بھی مختلف ہوں۔ سب سے پہلا سوال جو میں چاہتی ہوں کہ لوگ مجھ سے نہ پوچھیں وہ یہ کہ کیا آپ کا بیٹا پاگل ہے؟‘
’یہ بچہ چیخ رہا ہے آپ اسے کیوں لے کر آئے ہیں‘
خاور کا تجربہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ان کے مطابق ’سب سے پہلے لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ کا بیٹا نارمل نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سوسائٹی سے جب ایسی باتیں سننی پڑتی ہیں تو والدین خود کو آہستہ آہستہ الگ کرنے لگتے ہیں۔
خاور کا کہنا تھا کہ ’کسی ریستوران یا مال میں اگر جائیں تو لوگ آپ پر سوال اٹھاتے ہیں کہ والدین نے صحیح تربیت نہیں کی۔ وہ پوچھتے ہیں کہ یہ بچہ چیخ رہا ہے آپ اسے کیوں لے کر آئے ہیں؟‘
اصباح کے مطابق دوسری یہ بھی چیز ہے کہ موازنہ آ جاتا ہے۔ ’آپ اپنے دوستوں یا خاندان کے دیگر بچوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ایک کلاس سے دوسری میں چلا گیا اور آپ کے بچے کو ٹھیک سے اپنے کپڑے بھی پہننے نہیں آتے۔‘
’بیٹے کے لیے انڈیا میں تین سالہ کنٹریکٹ ترک کر دیا‘
خاور جواد کے بیٹے میں جب آٹزم کی تشخیص ہوئی تو انھوں نے میوزک کمپوز کرنا چھوڑ دیا تاکہ وہ اپنے بیٹے کی دیکھ بھال کر سکیں۔
’میرا انڈیا میں ایک کنٹریکٹ سائن ہو رہا تھا تین سال کے لیے لیکن مجھے اسے چھوڑنا پڑا۔ ایک اور فلم کو بھی منع کرنا پڑا کیونکہ اس وقت حسن کو میری ضرورت تھی۔‘
اسی مدعے پر اصباح نے بتایا کہ انھوں نے بیماری کی چھٹیاں (سِک لیوز) ان دنوں کے لیے مخصوص کی ہوئی ہوتی ہیں جب ان کا بیٹا بیمار ہو۔
’میں خود بیمار ہوں تو چھٹی نہیں لیتی۔ میں اس دن چھٹی لیتی ہوں جب میرا بیٹا بیمار ہوتا ہے تاکہ میں اس کے ساتھ گھر پر رک کر اس کا خیال رکھ سکوں کیونکہ میرا بیٹا کسی اور کے ہاتھ سے دوائی بھی نہیں کھاتا۔‘
اصباح کہتی ہیں کہ ’کیئر ٹیکر برن آؤٹ کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ میں ایک بچے کا خیال رکھ کر تھک گئی ہوں جو چوبیس گھنٹے مجھ پر انحصار کرتا ہے۔‘
’والدین کو دن میں کم از کم دو گھنٹے کا ریلیف دینا ضروری ہے‘
سائیکوتھراپسٹ سنبل سکندر نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ والدین کو تشخیص سے پہلے یہ بات تو معلوم ہو جاتی ہے کہ ہمارا بچہ مختلف ہے لیکن معاشرہ اور ارد گرد کے لوگ کافی تکلیف دہ باتیں کرتے ہیں۔
’تشخیص کے دوران یہ بہت ضروری ہے کہ ڈاکٹرز بہت طریقے سے والدین کو آگاہ کریں کیونکہ اس وقت والدین کو ایسا بھی محسوس ہو رہا ہوتا ہے جیسے انھوں نے اپنا بچہ کھو دیا ہو۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’والدین عام طور پر تشخیص کے دوران دھچکے اور غم کی کیفیات سے گزرتے ہیں۔ اس وقت یہ بہت اہم ہے کہ ان کے رشتہ دار یا دوست ان کی ہمت باندھیں۔‘
سنبل کہتی ہیں کہ ’برن آؤٹ ایک بہت اہم پہلو ہے۔ والدین کو ایک دن میں بچے کی دیکھ بھال سے کم از کم ایک سے دو گھنٹوں کا ریلیف ملنا بہت ضروری ہے، جس میں وہ آرام کر سکیں یا دوستوں سے مل لیں یا تو باہر چہل قدمی کر لیں یا کوئی کتاب پڑھ لیں۔ یعنی کوئی بھی ایسی چیز جو ان کے ذہن کو تھوڑی دیر بریک دے سکے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عموماََ برن آؤٹ کی علامات غصے، چڑچڑاپن، سر درد یا بدن میں درد کی صورت میں واضح ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’والدین کے ذہن میں اس بات کی پریشانی ہوتی ہے کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو بچے کا کیا ہو گا؟ اس کا خیال کون رکھے گا؟ بڑا ہو کر یہ کیا کرے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس لیے بچے کو خود مختار بنانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ یہ جانا جائے کہ بچہ کس چیز میں اچھا ہے۔ پھر چاہے وہ آرٹ ہو، موسیقی ہو، کھانا بنانا ہو یا کارپینٹری ہو۔ اس کو اس میں ٹریننگ دلا کر اسے خود مختار اور اس میں خود اعتمادی لانا بہت اہم نکتہ ہے۔‘
Courtesy: BBC