آٹھ سال قبل کی بات ہے کہ میرا آرٹیکل کہیں شائع ہوا۔ اس سے متاثر ہو کر محترمہ نے ای میل پر رابطہ فرمایا کہ وہ ہومیوپیتھک علاج کروانا چاہتی ہیں مگر کلینک پر آئے یعنی ملے بغیر۔ اس زمانے میں آن لائن علاج کا تصور ابھی نہیں تھا۔
بحریہ ٹاون لاہور کلینک پر آئے بغیر اُن کا علاج کرنے سے معذرت کر لی کہ مریض کو دیکھے ملے بغیر بھلا علاج کیسے ہو سکتا ہے؟ اُس زمانہ میں میری سوچ بہت محدود اور لوکل تھی۔
محترمہ کا واقعی کوئی مسئلہ تھا یا اُن پر گورنمنٹ آفیسری کا ڈیکورم، پروٹوکول سوار تھا کہ انہوں نے مجھ سے علاج کروانے مگر کلینک وزٹ نہ کرنے کا اپنا حتمی فیصلہ اور اصرار جاری رکھا۔
نہ چاہتے ہوئے بھی دوائی تجویز کرنا پڑی ….. اور انہیں ذرا برابر بھی کوئی فائدہ نہ ہو سکا۔
علاج جاری رکھنے کا مگر اصرار انہوں نے جاری رکھا اور فیس بھی ٹرانسفر کر دی۔
تھوڑی سی پلاننگ اور سٹریٹیجی تبدیل کرتے ہوئے آن لائن علاج کی بنیاد رکھی گئی اور وہ یوں کہ ماہانہ فیس ایڈوانس ٹرانسفر کر دیتیں اور حسب ضرورت و حالات دس بارہ دن بعد ہومیوپیتھی دوائی پوسٹ کر دی جاتی۔
محترمہ کی صحت میں کمال بہتری آتی چلی گئی اور آن لائن علاج کا باقاعدہ سلسلہ جاری ہو گیا۔
آج جب یہ علاج صرف اور صرف آن لائن ہے تو ہی پاکستان کے تقریباً ہر علاقے میں علاج جاری رکھنا ممکن ہو پایا ہے۔ دنیا کے اکثر مشہور اور بڑے ممالک میں مریض موجود ہیں۔ اللہ کا کرم ہوا تو بے شمار کامیابیاں نصیب ہوئیں اور ناکامیاں بھی کافی ساری ریکارڈ پر ہیں۔
آن لائن علاج کے باقاعدہ منظم سلسلہ کی ابتدا اور اعتماد میڈم صاحبہ کی نوازش سے ہی ممکن ہوا۔
میڈم صاحبہ سے ملاقات تو ابھی تک نہیں ہوئی تاہم احترام اور خلوص میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ جاری ہے۔
——
Curing with Science and a Touch of Art.
0
0
votes
Article Rating