میری عمر 25 سال ہے۔ میں ایک ہاؤس وائف ہوں۔ تعلق کراچی سے ہے لیکن شادی کے بعد مجھے لاہور آنا پڑا۔ میرے مسئلے کا آغاز بیس سال کی عمر میں ہوا۔ مجھے اپنے جسم میں مختلف تبدیلیوں کا احساس ہونے لگا۔ میرا وزن بڑھنے لگا۔ مینسز، حیض میں بے قاعدگی (irregular menstrual cycle) آنے لگی۔ میری جلد بہت حساس (sensitive skin) ہو گئی اور اکثر الرجی (Allergy) رہنے لگی۔ ان تبدیلیوں نے جہاں میرے جسم کو نقصان پہنچایا وہاں ذہن بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس ساری صورت حال نے مجھے دقیانوسی بنا دیا اور میں بہت زیادہ منفی سوچنے لگی۔ مجھ پر ہر وقت مایوسی (depression) طاری رہتی۔ میں پریشانی اور ذہنی دباؤ (mental stress) کا شکار رہتی۔ ان تمام تکلیف دہ مسائل کا نتیجہ ایک انتہائی اذیت ناک بیماری بواسیر (piles / hemorrhoids) کی شکل میں نکلا۔
پچھلے دو سال سے میں ان تمام مسائل سے دوچار تھی اور ہومیوپیتھک علاج کروا رہی تھی۔ لیکن بواسیر کی علامات کے تحت دی جانے والی ادویات مجھے آرام دینے میں ناکام رہیں۔ پچھلے سال حمل کے دوران میری حالت بہت خراب تھی اور ڈیلوری کے بعد تو صورت حال نہایت ابتر ہو گئی۔ خونی بواسیر نے میرا جینا دوبھر کر دیا۔
میں اپنی اصل حالت سے بے خبر تھی کیونکہ میں اس مسئلے کے لئے کبھی کسی ایلوپیتھک ڈاکٹر کے پاس نہیں گئی تھی۔ میں نے کبھی اپنا معائنہ نہیں کروایا تھا۔ فیملی ہسٹری میں دل اور شوگر کی بیماریوں کا رجحان تھا اس لیے مجھے اندازہ تھا شاید مجھے بھی کچھ ایسا مسئلہ ہو۔ قدرت مجھے اشارہ کر رہی تھی مگر میں سمجھنے سے قاصر تھی۔
اب میں پچھلے اڑھائی ماہ سے ڈاکٹر حسین قیصرانی سے علاج کروا رہی ہوں۔ جن مسائل کے لئے میں نے ان سے رابطہ کیا وہ درج ذیل ہیں:
پاخانہ کے دوران خون رستا ہے (bleeding) اور شدید درد ہوتی ہے۔ پاخانے کے بعد چیرتی ہوئی درد (sharp shooting pain after stool) اور جلن (burning) کا احساس ہوتا تھا۔
مقعد کے ارد گرد کا ایریا سرخ ہو کر سوج جاتا۔ (swelling & redness around anus) مقعد کے دہانے پر جلد زخمی (skin tags at the opening of anus) ہوجاتی تھی۔ ڈلیوری کے دوران لگائے گئے ٹانگوں میں انفیکشن ہو جاتی تھی۔ (infection in episitomy stitches) کبھی کبھی پیشاب کےدوران درد کا احساس ہوتا تھا کر آتا تھا۔ (painful urination) میں نے سرجری کروانے کا کبھی نہیں سوچا تھا بلکہ میں تو جسمانی معائنہ کروانے کے بھی خلاف تھی۔ مجھے ہمیشہ سے ہی ہومیوپیتھی پر اعتماد تھا۔ میں اور میرے گھر والے چھوٹے بڑے مسئلے کے لئے صرف ہومیوپیتھک دوائی لیتے تھے۔ مجھے اندازہ تھا ہومیوپیتھی کیسے کام کرتی ہے لیکن ڈاکٹر صاحب سے ملنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ کلاسیکل ہومیوپیتھی کیا کیا کر سکتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات میں صرف میرے جسمانی مسائل پر ہی بات نہیں ہوئی بلکہ انھوں نے میری مکمل فیملی ہسٹری لی۔ میرے مزاج، موڈ، طرز زندگی اور میری عادتوں کے بارے میں بھی بات ہوئی۔ واضح مسائل جن سے میں بہت پریشان تھی، درج ذیل ہیں۔
۔1۔ ڈیلیوری کے بعد سے میں شدید ڈپریشن (post partum depression) کا شکار رہی ہوں۔
۔2۔ مجھے اَن جانا ڈر لگا رہتا تھا۔ (unknown fear) مجھے لگتا تھا کہ کوئی انہونی ہو جائے گی اور میں اپنے پیاروں کو کھو دوں گی۔
۔3۔ مجھ پر یہ خوف (phobia) طاری رہتا تھا کہ کوئی ایکسیڈنٹ (Fear of Accidents or Dystychiphobia) ہو جائے گا جس میں میرے شوہر اور بیٹے کو کچھ ہو جائے گا۔
۔4۔ گاڑی کی تیز رفتار مجھے شدید پریشانی میں مبتلا کر دیتی تھی۔ میں سفر کو انجوائے نہیں کر سکتی تھی۔ (panic in high speed driving)
5۔ میرا دماغ ہر وقت سوچتا رہتا تھا۔ منفی خیالات مجھے گھیرے رکھتے تھے۔ میں ان منفی خیالات سے چھٹکارا نہیں پا سکتی تھی۔ (negative thoughts)
6۔ میرے ذہن میں منفی اور مثبت سوچوں کی جنگ چلتی رہتی تھی۔ میرا ذہن کسی ایک طرف ٹھہر نہیں پاتا تھا۔ (conflict)
7۔ مجھے ہر وقت صفائی کا جنون رہتا تھا۔ مجھے پسند تھا کہ سب کچھ انتہائی سلیقے اور ترتیب سے ہو۔ (cleanliness freak)
8۔ میں ہر چیز میں پرفیکٹ لگنا چاہتی تھی اور میں چاہتی تھی کہ میرے ارد گرد بھی سب لوگ پرفیکٹ ہوں۔ (perfectionist)
9۔ میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ میں خود کو غائب دماغ محسوس کرتی تھی۔
10۔ میں کسی بھی کام کو توجہ سے نہیں کر پاتی تھی۔ یکسوئی بالکل بھی نہیں تھی۔ دھیان ادھر ادھر بھٹکتا رہتا تھا۔ (lack of focus)
11۔ مجھے لگتا تھا کہ میں ایک ناکام انسان ہوں جو زندگی میں کوئی بھی کام کامیابی سے نہیں کر سکتی۔ (underestimate myself)
12۔ مجھ میں کسی بھی خراب صورت حال کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں تھا۔ میرے اعصاب فوراً تناؤ کا شکار ہو جاتے تھے اور مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں کیا کروں۔ (poor stress management)
13۔ میرے ذہن پر مختلف ڈر، خوف، فوبیاز اور وہم چھائے رہتے تھے ۔
14۔ مجھ میں قوت مدافعت کی بہت کمی تھی۔ جلدی بیمار ہو جاتی تھی اور بغیر دواؤں کے ٹھیک نہیں ہوتی تھی۔ (weak immunity)
15۔ میں ہر وقت تھکی تھکی رہتی تھی۔ کئی گھنٹے آرام کرنے کے باوجود میں تر و تازہ نہیں ہوتی تھی بلکہ خود کو نڈھال محسوس کرتی تھی ۔ (lethargy)
16۔ مجھے نیند نہیں آتی تھی۔ دماغ مسلسل جاگتا رہتا تھا۔ میں سکون سے سو نہیں پاتی تھی ۔ (insomnia)
17۔ ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل کا استعمال بہت زیادہ تھا۔ (over use of technology)
18۔ ہر طرح کے حالات میں جو بھی مسائل ہوتے، طبی یا نفسیاتی، میں اس کے متعلق خوب تحقیق کرتی تھی۔
19۔ میرا چڑچڑا پن غیر معمولی تھا۔ جیسے میں ڈائری نہی لکھ سکتی تھی کیونکہ میں صاف صفحے پر غلطیاں برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اگر کوئی بظاہر غیر منظم ہے تو میں اس سے گفتگو نہیں کر پاتی تھی۔ اگر گھر مکمل طور پر صاف نہ ہو تو میں سو نہیں سکتی تھی۔ میں کھانے کے دوران دو چیزیں ملا کر نہیں کھا سکتی کیونکہ یہ مجھے بہت گندا اور بے ترتیب لگتا تھا۔ کوئی بھی کام کرتے کرتے میرا دھیان بھٹک جاتا اور میں کوئی اور کام شروع کر دیتی تھی۔
20۔ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا تھا کہ کوئی مجھ سے بے ایمانی کرے۔ (intolerance to dishonesty)
اگرچہ پہلی میٹنگ میں ان تمام مسائل پر بات نہیں ہوئی۔ علاج سے میرا ڈپریشن ختم ہوا۔ اور مجھے بتدریج اندازہ ہونے لگا کہ پچھلے کچھ سالوں میں میری شخصیت کس کس حوالے سے متاثر ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مزید سیشن ہوئے اور ہر سیشن کے بعد میں نے خود کو بہتر پایا۔ آہستہ آہستہ میرے تمام واہمے اور منفی خیالات ختم ہو گئے۔ میری نیند بہتر ہوئی۔ قوت برداشت اور قوت مدافعت دونوں میں واضح بہتری آئی۔ جیسے جیسے میں ذہنی طور پر بہتر ہو رہی تھی ویسے ویسے بواسیر میں بھی کمی آ رہی تھی۔
الحمدللہ اب میں اپنی بیماری سے بغیر کسی سرجری کے مکمل طور پر نجات پا چکی ہوں اور تمام نفسیاتی مسائل بھی حل ہو چکے ہیں۔ اللہ کے کرم اور ڈاکٹر حسین قیصرانی کے ہومیوپیتھک علاج سے میں ایک بھرپور زندگی گزار رہی ہوں ۔—————–
—————–
0
0
votes
Article Rating