آئیے آج آپ کو مسٹر ۔۔۔۔۔ سے ملواتے ہیں۔ یہ پنجاب کے مشہور کاروباری، سماجی اور سیاسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ عمر چوبیس سال ہے مگر لگتے بیس سال کے بھی نہیں۔ بہت ہی نفیس طبیعت کے مالک ہیں۔ آواز، انداز اور چال ڈھال سے بھی نزاکت جھلکتی ہے۔ پرورش بڑے ناز و نعم سے ہوئی کیونکہ گھر کے اندر اہم کردار اور کنٹرول والدہ ہی کا رہا۔ باہر کے معاملات کے لئے نوکر چاکر اور خدمت گار ہمہ وقت میسر تھے۔ انہیں طنز و طعنہ کے نشتر سہنے پڑے کہ تم لڑکیوں کی طرح ہو۔
لڑکوں کی عجیب نظروں اور چھیڑ چھاڑ سے وہ بچپن ہی سے ڈسٹرب رہتے تھے؛ اِس لئے سکول کالج سے سیدھا گھر ہی پہنچتے۔ والدہ اور بہنوں کے ساتھ ہی اُن کا وقت گزرتا۔ باہر کے کھیلوں اور دوستداریوں سے کوئی شغف نہ تھا سو پڑھائی پر بھرپور توجہ دینے کا موقع مل جاتا۔ اُن کے رزلٹ ہمیشہ اچھے آتے۔ سکول اور کالج علاقے میں تھا سو بہت ہی کم کسی نے اُن کو عملاً تنگ کیا۔ ایک دو واقعہ ایسا ہوا بھی کہ کسی ٹیچر نے سمجھانے کے لئے کہہ دیا کہ تم کیا ہر وقت لڑکیوں کی طرح شرماتے رہتے ہو۔ انہوں نے روتے روتے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ اُس کے بعد ہر ایک کو توبہ ہی بھلی لگی۔ خاندان کے لوگ یا کزن وغیرہ، البتہ، اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہتے تھے جو ان کے لئے سوہان روح بنتا۔
کسی سے نظریں ملانا، اُن کے لیے ہمیشہ جان جوکھوں کا کام رہا ہے۔ بچپن ہی سے لڑکیوں یا خواتین کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا ہے لیکن کچھ عرصہ سے انتقاماً لڑکوں میں بھی دلچسپی لینے (Homosexual Thoughts) کو دل کرتا ہے۔ غصہ آئے تو رونے لگ جاتے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک بھی جاری ہے۔ اب تک یہ حال ہے کہ کسی نے کوئی بات مزاج کے خلاف کر دی تو گھنٹوں ڈسٹرب رہتے ہیں۔ پانی پیتے رہتے ہیں لیکن سچی پیاس کا معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا ہوتی ہے۔ مرغن کھانے سے پیٹ خراب ہو جاتا ہے؛ اِس لئے کھانے پینے میں احتیاط کرتے ہیں۔
پبلک ڈیلنگ (Public Dealing) اور زندگی کے عملی مسائل سے واسطہ میڈیکل کالج میں جا کر پڑا جہاں ہوسٹل کی زندگی تھی اور اُن کے خاندانی پس منظر کی کسی کو زیادہ پروا نہ تھی۔ شدت سے احساس ہوا کہ وہ عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں۔ جسمانی طور پر اگرچہ بالکل فٹ اور مکمل مرد ہیں۔ چہرے پر داڑھی مونچھیں بھی آ چکی ہیں مگر کچھ ہے جس سے دوسرے اُن کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اُن کے اندر اعتماد کی کمی مزید بڑھ گئی اور وہ اکیلے رہنے لگے۔ مگر ایسا کرنا کب تک ممکن تھا۔ وہ مکمل مردم بیزار ہو گئے؛ ہر وقت اپنے کمرے کے اندر ہی رہتے مگر روم میٹ یا اُن کے ملنے والے دوست، خلوص سے اور کئی بار طنز سے معاملہ ڈسکس کرتے۔
پھر وہ دن بھی آ ہی گیا کہ جب انہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ اپنی ایم بی بی ایس کی تعلیم جاری نہیں رکھیں گے۔ اب سارا دن گھر پر رہتے جس سے ڈپریشن مزید بڑھ گیا اور صحت بگڑتی چلی گئی۔ ظاہر ہے کہ ہر ممکن علاج کا بھی سوچا گیا مگر حالات کنٹرول میں نہ آ سکے۔ عجیب و غریب وہم، اپنی حالت دیکھ کر مذہب کے متعلق غلط سوچیں سوار ہونے لگیں، ڈر خوف اور فوبیاز (Fear and Phobia) نے جیسے جکڑ لیا۔ اپنے تئیں یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ مرد ہیں؛ اُن کا ذہن ہم جنس پرستی کی طرف مائل ہو گیا۔
پبلک میں بات کرنا اُن کے لئے بے حد مشکل تھا۔ جہاں آٹھ دس لوگ اکٹھے ہوتے وہاں سانس بند ہونے لگتا اور ہاتھ پاؤں کانپنے۔ الیکشن کے دنوں میں، اُن کے لئے چارہ نہیں تھا کہ وہ پبلک سے بچ سکیں۔ گھر کے اندر اور باہر ہر وقت کی گہما گہمی نے مجبور کیا کہ وہ اپنے مسئلے کا مستقل حل تلاش کریں۔ یہ تلاش انہیں مجھ تک لے آئی۔ اگرچہ اس سے پہلے وہ پانچ مئی کو بذریعہ میسیج رابطہ کر چکے تھے تاہم میرے یہ کہنے پر، کہ فون پر بات کریں، اُن کی ہمت جواب دے گئی تھی ۔
چند ماہ بعد کسی طرح جرآت کر ہی لی۔ کوئی گھنٹہ بھر بات چیت ہوئی۔ اپنی حالت سے بہت تنگ آئے ہوئے تھے سو اپنا ہر معاملہ کھول کھول کر بیان کر دیا۔ دوسرے دن دوائی اُن تک پہنچ چکی تھی۔
ایک ماہ میں کئی اُتار چڑھاؤ آئے۔ رابطہ علاج جاری رہا اور اُنہوں نے بھی اپنی ثابت قدمی کو برقرار رکھا۔ کبھی کم تو کبھی زیادہ؛ وہ سیاست کے معاملات میں بھی مصروف رہے۔ مہمانوں سے ملاقاتوں میں نسبتاً پُر اعتماد محسوس کیا۔ فیملی نے بھی حوصلہ افزائی اور تعاون میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
گھر میں بہت بڑی خوشی آئی اور اُن کے بھائی صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب (یعنی MPA) ہو گئے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ اُن کے ہاں علاقے کے معززین کا اکٹھ ہے اور اِس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا امیج تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ کم وبیش ایک ہزار مہمانوں کے انتظامات میں بھرپور حصہ ڈالا جس سے اُن کے اعتماد کا لیول بہت اچھا ہو گیا۔ ایک وہم بلکہ ڈر خوف دل و دماغ میں جاگزیں رہا کہ وہ اتنے سارے لوگوں کو کیسے فیس (Face) کریں گے؟ مجھے اصرار کیا کہ اس پروگرام کا حصہ بن کر اُن کی تقویت کا باعث بنوں لیکن پہلے سے طے شدہ مصروفیات کی وجہ سے شامل ہونا ممکن نہ تھا۔
اُن کی زندگی کا یہ سب سے اہم اور بڑا پروگرام تھا جس میں بھرپور اعتماد کا مظاہرہ کیا۔ فیڈبیک ملاحظہ فرمائیں کہ ایک ایک لفظ سے خوشی پھوٹ رہی ہے۔ دعا کیجئے کہ پروردگار ان کو جلد مکمل صحت یاب فرمائیں۔
فیڈبیک میں فرماتے ہیں کہ مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ میں نے 900 سے زائد مہمانوں کو ہینڈل کر لیا۔ اللہ تعالیٰ کا بے پناہ کرم ہے یہ تو۔ الحمد للہ! یہ واقعی بہت ہی زبردست تجربہ تھا۔
اُن کی مجموعی صحت اور غلط سوچوں میں واضح بہتری ہے۔ پہلی بار معلوم ہوا کہ پیاس کیا ہوتی ہے اور جب پیاس لگی ہو تو پانی کتنا مزیدار لگتا ہے۔ معدے کے مسائل تقریباً حل ہو چکے ہیں۔
کیس کا تجزیہ .. دوا اور علاج .. ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور ہومیوپیتھی سٹوڈنٹس کے لئے:
یہ پلساٹیلا (Pulsatilla) کیس ہے۔ مریض کو Pulsatilla 10M کی ایک خوراک دی گئی تھی جس نے واضح فائدہ دیا۔ درمیان میں کبھی سر، کبھی پیٹ اور کبھی ٹانگوں میں درد شروع ہو گیا جس کے لئے انہوں نے ایلوپیتھک دوائی لے لی۔ اس سے اُن کے مسائل دوبارہ واپس آ گئے۔ ساتھ ہی غصہ، چڑچڑاپن اور معدہ کی خرابی بڑھ گئی۔ نیند بہت زیادہ ڈسٹرب ہو گئی۔ دو خوراک نکس وامیکا (Nux Vomica 30) دی گئی اور پھر پلساٹیلا (Pulsatilla 10M) دی گئی۔
نظریں نہ ملانے یعنی آئی کنٹیکٹ (Eye Contact) نہ ہونا اعتماد کی شدید کمی کی اہم علامت ہے۔ آٹزم کے بچوں میں بھی بالعموم اہم ترین علامت ہوا کرتی ہے۔ ایسے مرد جن کو یہ واضح احساس ہو کہ وہ ہم جنس پرست (Homosexual) ہیں؛ ان کے کیس میں بھی پلساٹیلا ٹاپ دوا ہے۔
ایسے کیس کئی ماہ تک چلتے ہیں اور حسبِ ضرورت دوا تبدیل کی جاتی ہے۔ انہوں نے کسی زمانہ میں نزلہ زکام الرجی کی ویکسینیشن بھی کروائی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ لائیکوپوڈیم (Lycopodium)، تھوجا (Thuja)، سورائنم (Psorinum)، بسیلینم (Bacilinum)، ٹیوبرکولینم (Tubeculinum) ، کارسی نوسن (Carcinosinum) یا کسی اَور ہومیوپیتھک دوا کی ضرورت بھی پڑے۔
حسین قیصرانی – سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ، لاہور پاکستان ۔