خواتین کی صحت اور اینڈومیٹریوسز: ‘میرے درد کو سب لوگ تماشے کا نام دیتے تھے ۔۔ ترہب اصغر

رما کہتی ہیں کہ ماہواری میں خون کا بہاؤ شروع ہوتے ہی ان کے جسم کے نچلے حصوں اور ٹانگوں میں شدد درد ہوتا تھا اور انھیں ایسا لگتا تھا کہ کوئی خنجر سے جسم کے اندرونی اعضا کاٹ رہا ہے

‘ماہواری کے دنوں میں مجھے اتنی تکلیف ہوتی تھی کہ میں دعا کرتی تھی کہ میں مر جاؤں اور میں اپنے اسی درد اور تکلیف کو کم کرنے کے لیے اتنی بے تاب تھی کہ میں اپنے آپ کو زخمی بھی کرتی تھی۔’

یہ کیفیت بیان کرتے ہوئے رما کی آواز لڑکھڑا گئی۔

39 سالہ رما چیمہ کے مطابق جب وہ بالغ ہوئیں تو انھیں کسی نے نہیں بتایا تھا کہ جب لڑکی جوان ہوتی ہے تو اس کے جسم میں کس قسم کی تبدیلیاں آتی ہیں۔

اس وجہ سے انھیں ماہواری اور اس سے جڑے معاملات کے بارے میں کوئی خاص آگاہی نہیں تھی۔

صوبہ پنجاب کے شہر چیچہ وطنی سے تعلق رکھنے والی رما کئی سال قبل پڑھائی کے لیے لاہور آئیں اور اسی دوران انھیں ماہواری شروع ہوئی۔

لیکن ان کی ماہواری باقی خواتین سے خاصی مختلف تھی۔ رما کے مطابق ماہواری کے پہلے تین دن ان کے لیے اذیت ناک ہوتے تھے۔

رما کہتی ہیں کہ ان کے ہاسٹل کی وارڈن اور دیگر عملے کو بھی معلوم ہوتا کہ ایسی صورت حال میں انھیں کون سی دوائی دینی ہے اور کون سا انجکشن لگوانا ہے۔

اپنی تکلیف کا تذکرہ کرتے ہوئے رما نے بتایا کہ ماہواری میں خون کا بہاؤ شروع ہوتے ہی ان کے جسم کے نچلے حصوں اور ٹانگوں میں شدید درد ہوتا تھا اور انھیں ایسا لگتا تھا کہ کوئی خنجر سے جسم کے اندرونی اعضا کاٹ رہا ہے۔

‘میرے اردگرد کے تمام لوگ فوراً جان جاتے تھے کہ رما کے ماہواری کے دن شروع ہو گئے ہیں کیونکہ میں درد کی شدت سے چیخیں مار رہی ہوتی تھی اور اپنے آپ کو تکلیف پہنچاتی تھی۔ کئی مرتبہ میں بے ہوش بھی ہو جاتی تھی۔ لوگوں کو لگتا تھا کہ میں تماشہ کر رہی ہوں۔ میرے اردگرد کے لوگ کہتے تھے تم کوئی انوکھی ہو جو اس طرح کے تماشے لگاتی ہو۔’

لیکن ماہرین کے مطابق رما ایسی اکیلی خاتون نہیں ہیں جو ماہواری کے دنوں میں اس قسم کے پریشان کن درد کا شکار ہوتی ہیں۔

ڈاکٹرز کے مطابق اس درد کا سبب کچھ خواتین میں پائی جانے والی مخصوص بیماری کے باعث ہوتا ہے جسے ‘اینڈومیٹریوسز’ کہتے ہیں۔

اینڈومیٹریوسز کیا ہے؟

اینڈومیٹریوسز خواتین میں پائی جانے والی ایک ایسی بیماری ہے جس میں عورت کی بچہ دانی کے اندر کے ٹشو، جنھیں اینڈومیٹریم کہا جاتا ہے، وہ بچہ دانی سے باہر بن جاتے ہیں۔

اینڈومیٹریم ٹشوز کا یہ بگاڑ ماہواری کے دنوں میں متاثرہ خواتین میں زیادہ تکلیف کا سبب بنتا ہے اور اس بیماری میں مبتلا کئی خواتین میں بانجھ پن کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

اس حوالے سے بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شاہینہ آصف کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں اکثر لڑکیاں اس بیماری کا شکار ہوتی ہیں لیکن وہ لاعلم ہوتی ہیں کہ انھیں کیا مسئلہ ہے۔

‘عموماً جب لڑکیاں جوان ہوتی ہیں اور ان کی ماہواری شروع ہوتی ہے تو ماؤں یا اردگرد کی خواتین کی جانب سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ کوئی بات نہیں، ان دنوں میں درد ہوتا ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں اس بیماری کے بارے میں خواتین میں زیادہ آگاہی نہیں ہے اور وہ ہر لڑکی کے ماہواری کے دنوں کو ایک جیسا ہی سمجھتے ہیں۔’

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ بھی یاد رکھنا اور سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ماہواری میں ہونے والا ہر درد اینڈومیٹریوسز نہیں ہوتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ بیماری کی درست تشخیص کی جائے۔

گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شاہینہ آصف کے مطابق ہمارے یہاں اکثر لڑکیاں اس بیماری کا شکار ہوتی ہیں لیکن وہ لاعلم ہوتی ہیں کہ انھیں کیا مسئلہ ہے

اس بیماری کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید بتایا کہ جب ہمارے پاس کوئی مریض آتا ہے تو اس میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ اسے کس سٹیج کا اینڈومیٹریوسز ہے۔

اس کی وجہ بتاتے ہوئے ڈاکٹر شاہینہ کا کہنا تھا کہ کیونکہ کچھ خواتین میں اس بیماری کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹشوز بچہ دانی کی ٹیوبز اور دیگر حصوں تک پھیل جاتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سی خواتین میں حمل کا عمل بھی مکمل نہیں ہو پاتا۔

‘میں نو سال تک ماں نہیں بن پائی’

رما نے اپنی زندگی میں اس بیماری کی وجہ سے آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ شادی سے قبل ماہواری کے دنوں کی تکلیف کو محسوس کرکے لگتا تھا کہ زندگی بہت مشکل ہے۔

‘مجھے اپنی جنس سے نفرت ہونے لگی تھی اور میں ہر مہینے ماہواری کی تاریخ آنے سے پہلے سخت ڈپریشن کا شکار ہو جاتی تھی کہ اب وہی سب دوبارہ سے شروع ہو جائے گا۔ میری جوانی کا وقت ایسے ہی گزر گیا۔’

انھوں نے بتایا کہ جب ان کی شادی ہو گئی تو ان کی مشکلات مزید بڑھ گئیں۔

رما کا چھ مرتبہ حمل ضائع ہوا جس کے بعد وہ آئی وی ایف طریقہ کار کے ذریعے ماں بنیں

‘میرے والدين نے میری شادی کردی۔ اس کے بعد چیزیں بدترین ہو گئیں اور میری تکلیف بڑھ گئی۔ مجھے اپنے سسرال والوں کے سامنے بہت شرمندگی محسوس ہوتی تھی جب ہر ماہ میرا شوہر مجھے ہسپتال لے کر جاتا تھا تو سب کو پتا چل جاتا تھا کہ اب رما کی طبیت خراب ہو گئی ہے۔ شادی کو سال گزرا تو سب نے کہنا شروع کر دیا کہ ‘خوش خبری کب سناؤ گی۔’

رما کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے بہت سے الٹرا ساؤنڈ اور ٹیسٹ کروائے لیکن وہ سب نارمل آتے تھے اور ڈاکٹرز کہتے تھے آپ کو وہم ہے اور کوئی بات نہیں ہے۔

انھوں نے بتایا کہ مسلسل ضد کے بعد ڈاکٹروں نے ان کی لیپیکٹومی کی جس کے بعد معلوم ہوا کہ رما کو اینڈومیٹریوسز (Endometriosis) ہے۔

‘میری ڈاکٹرز نے مجھے بتایا کہ میرے اندر اس بیماری کی شدت بہت زیادہ ہے اور ٹشوز کا پھیلاؤ بھی بہت زیادہ ہے۔ جس کی وجہ سے میں ماں بھی نہیں بن پا رہی۔ اس دن مجھے لگا کہ میری دنیا ختم ہو گئی ہے، کیونکہ میں جس ماحول میں پلی بڑھی ہوں اس میں عورت کو صرف ایک مقصد سے ہی دیکھا جاتا ہے کہ اس کی شادی کر دیں اور پھر وہ بچے پیدا کرے۔’

انھوں نے بتایا کہ کئی سال علاج کے باوجود کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

‘میں نے بہت سے آپریشن کروائے اور ادویات استعمال کی۔ ان نو سالوں میں میرے چھ بچے ضائع ہوئے جس سے مجھے اور زیادہ ڈپریشن ہونے لگا۔ میرے اردگرد کے لوگ مجھے کہتے تھے کہ اپنے شوہر کی دوسری شادی کروا دو اور کچھ لوگوں کے رویے اتنے تلخ ہو گئے کہ وہ مجھے اپنے بچوں کے نزدیک نہیں آنے دیتے تھے کہ تم اپنا سایہ ہم پر مت ڈالو۔’

پھر بالآخر آئی وی ایف کے عمل کے ذریعے رما کے یہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی۔

آئی وی ایف یعنی ان وٹرو فرٹیلائیزیشن سے متعلق بات کرتے ہوئے گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شاہینہ آصف کا کہنا تھا کہ آئی وی ایف (IVF) ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں ہم عورت کا انڈہ اور مرد کا سپرم لیتے ہیں اور اس کا کراس کروا کر عورت کے اندر ڈال دیتے ہیں۔

ڈاکٹر شاہینہ کے مطابق کچھ خواتین میں اس بیماری کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے بہت سی خواتین میں حمل کا عمل بھی مکمل نہیں ہو پاتا۔

یہ عمل اس لیے کیا جاتا ہے کہ کیونکہ اینڈومیٹریوسز میں اضافی ٹشوز بچہ دانی پر چپک جاتے ہیں جس کی وجہ سے بچہ دانی کے اندر کا نظام صحیح سے کام نہیں کر پاتا اور انڈے اور سپرم کا ملاپ نہیں ہوتا ہے۔

ڈاکٹر شاہینہ کا مزيد کہنا تھا کہ ضروری نہیں ہے کہ ایک ہی دفعہ علاج کروانے سے کامیابی ملے۔ اس کے لیے کئی خواتین کو کئی مرحلے پورے کرنے پڑتے ہیں اور اس علاج پر تقریباً چار لاکھ روپے کی لاگت آتی ہے۔

رما کے مطابق یہ علاج بہت تکلیف دہ ہے اور اس علاج کے دوران آپ شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں کیونکہ آپ ہر دفعہ یہی دعا کرتے ہیں کہ انڈے صحت مند بنیں اور علاج جلد از جلد کامیاب ہو جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے کیس میں ڈاکٹرز کی جانب سے یہ کہا گیا کہ جب آپ کا حمل ہو جائے گا تو آپ کا اینڈومیٹریوسز بھی ٹھیک ہو جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔

‘میرے کامیاب حمل اور بیٹے کی پیدائش کے بعد میری بیماری میں بہت بہتری آئی لیکن ختم نہیں ہوئی۔’

ڈاکٹر شاہینہ کا اس سارے معاملے پر یہ کہنا ہے کہ ہر لڑکی میں اس بیماری کی نوعیت مختلف ہے اور اسے علاج کے ذریعے بہتر کیا جا سکتا ہے جس کے لیے بہت ضروری ہے کہ فوری طور پر اپنی ڈاکٹر کی ماہرانہ رائے لیں اور علاج کروائیں۔

رما کہتی ہیں کہ انھیں اپنی بیماری کے باعث شدید منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑا

‘اس بیماری نے مجھے ایک کامیاب خاتون بنا دیا’

رما کے مطابق انھوں نے اپنی زندگی کے جو سال تکلیف میں گزارے اس سے کم از کم ان کی زندگی میں ایک انتہائی مثبت تبدیلی آئی اور انھوں نے ‘بیٹی’ کے نام سے ایک پراجیکٹ شروع کیا ہے جس میں وہ خواتین کی مخصوص بیماریوں، ان کے حقوق اور ان کے علاج کے حوالے سے آگاہی دیتی ہیں۔

رما کی خواہش ہے کہ خواتین معاشی طور پر مضبوط بنیں تاکہ وہ کم از کم اپنے معاملات کو با خوبی دیکھ سکیں۔

مزید موضوعات

حیض کی خرابی
بچہ دانی میں زخم کا علاج
بچہ دانی کے مسائل
ماہواری کا زیادہ آنا
خواتین کی صحت
بچہ دانی میں رسولی کا علاج
بچہ دانی نکلوانے کا حکم
بچہ دانی میں پانی کی تھیلی

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور

0 0 votes
Article Rating
Picture of kaisrani

kaisrani

Leave a Reply

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments

Sign up for our Newsletter